✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
🌹🌹 *کچھ ضروری عقائد ومسائل* 🌹🌹

*محمد حبیب اللہ بیگ ازہری*
*جامعہ اشرفیہ مبارک پور*
*30 محرم الحرام 1442 ھ*

لوگ ہمیں عالم اور مفتی کہتے ہیں، لیکن یہ سوچ کر حیا آتی ہے کہ ہمیں اپنے ہی دین کے بہت سے بنیادی اور ضروری عقائد ومسائل کما حقہ نہیں معلوم، فروع اور دیگر متعلقات کو جانے دیجیے۔
کچھ معتقدات ومسائل وہ ہیں جن کو علمائے کرام نے مزلة الأقدام اور مداحض ومزالق سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ ایسے مباحث ہیں جن میں قدم ڈگمگانے اور ٹھوکر کھانے کا زیادہ امکان ہے، لہذا ان مسائل کو سمجھنے کے لیے خصوصی توجہ در کار ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آج انٹرنیٹ کے زمانے میں لغزش کا امکان اور زیادہ قوی ہو جاتا ہے، کیوں کہ ہم دینی اور مذہبی امور میں نیٹ سے مدد لینے لگے ہیں، اور مختلف سائٹس پر دستیاب ہر تحریر پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرنے اور اپنا علاحدہ موقف قائم کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، جب کہ ہمارے اسلاف کرام نے ہمیں ہمیشہ یہی تعلیم دی ہے کہ:
*إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تأخذون دينكم.*
بلا شبہ یہ علم، دین ہے، اس علم دین کو سیکھنے سے پہلے مکمل طور پر غور کرلو کہ تم اپنا دین کس سے سیکھ رہے ہو۔
مزید یہ بھی فرمایا ہے کہ:
*الإسناد من الدين، لولا الإسناد لقال من شاء ما شاء.*
یعنی سند دین کا ایک حصہ ہے، اگر سند نہ ہو تو جس کو جو سمجھ میں آئے کہتا پھرے۔
ان دونوں ارشادات کا واضح مطلب یہی ہے کہ ہر کس و ناکس کی تحریر قابل اعتماد نہیں ہوتی، مستند اور قابل اعتماد تحریر بس وہی ہے جو معتبر افراد کی زبانی سند صحیح کے ساتھ منقول ہو۔
اسی لیے نیٹ پر دستیاب مواد سے استفادہ تو کیا جاسکتا ہے، لیکن اسے کسی نظریے کی اصل، کسی تحقیق کی اساس یا کسی موقف کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔
انٹرنیٹ پر دستیاب مواد سے استفادہ کرنے سے پہلے لازم اور ضروری ہے ہم اپنے مؤقر اساتذہ کرام یا مستند علمائے عظام سے ہر فن کی بنیادی اور ضروری باتیں معلوم کرلیں، یا معتبر کتابوں میں پڑھ کر اطمینان حاصل کرلیں، پھر نیٹ سے استفادہ کریں تو امید ہے کہ کہیں کوئی لغزش یا غلط فہمی نہیں ہوگی۔
نیٹ کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے درج ذیل عقائد ومسائل میں ہمیں بھر پور معلومات ہونا چاہیے۔
1- مسئلہ ذات وصفات باری، اور آیات متشابہات کے بارے میں ائمہ عقائد کے اقوال اور توجیہات۔
2- عقیدہ ختم نبوت دلائل کی روشنی میں۔
3- علم غیب کا صحیح مفہوم مع دلائل۔
4- احترام صحابہ اور حب اہل بیت کے معاملے میں اعتدال اور مشاجرات صحابہ میں کے کف لسان۔
5- بدعت کی حقیقت اور اس کی صحیح اور کامل توضیح۔
6- منازل ولایت، مقامات تصوف اور صوفیاے کرام کے احوال و مکاشفات
7- تقلید شخصی کا لزوم۔
8- قرآن وحدیث کی سائنسی تفسیر وتشریح کا دائرہ۔
9- جدید مسائل میں فقہائے احناف کا موقف۔
10- بدلتے حالات کے پیش نظر احکام شرع میں کہاں تک تخفیف کی گنجائش ہوسکتی ہے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اسلاف، اکابر اور مشائخ کی تاریخ اور ان کی خدمات کا بھی علم ہونا چاہیے، عام طور پر یہی دیکھا جاتا ہے کہ جو مذہب حق اہل سنت کو صحیح طور پر نہیں جانتے وہ بآسانی دوسروں کے نظریات قبول کرلیتے ہیں، جو مذہب حنفی کا مطالعہ نہیں کرتے وہ غیر مقلدیت کا شکار ہو جاتے ہیں، یوں ہی جو اپنے علمائے کرام اور مشائخ عظام کی خاموش اور مخلصانہ خدمات کو نہیں جانتے وہ انٹر نیٹ اور شوشل میڈیا پر نظر آنے والے حضرات ہی کو سب کچھ سمجھ کر علمائے کرام سے بد ظن ہوجاتے ہیں۔ بہر کیف انٹر نیٹ کی علمی دنیا میں لغزش کے امکانات بہت زیادہ ہیں، اسی لیے اپنی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور ہر گام پر احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

*مركز الفردوس لتعلم اللغة العربية*
*بالجامعة الأشرفية، مبارك فور، الهند*
بابا جانی کروٹ لے کر
ہلکی سی آواز میں بولے
بیٹا کل کیا منگل ہوگا؟؟
گردن موڑے بِن میں بولا
بابا کل تو بُدھ کا دن ہے
بابا جانی سُن نہ پائے
پھر سے پوچھا، کل کیا دن ہے
تھوڑی گردن موڑ کے میں نے
لہجے میں کچھ زہر مِلا کے
منہ کو کان کی سیدھ میں لا کے
دھاڑ کے بولا بُدھ ہے بابا
آنکھوں میں دو موتی چمکے
سُوکھے سے دو ہونٹ بھی لرزے
لہجے میں کچھ شہد ملا کے
بابا بولے بیٹھو بیٹا
چھوڑو دِن کو، دِن ہیں پورے
تم میں میرا حصّہ سُن لو
بچپن کا اِک قصّہ سُن لو
یہی جگہ تھی میں تھا تُم تھے
تُم نے پوچھا، رنگ برنگی
پھولوں پر یہ اُڑنے والی
اس کا نام بتاؤ بابا
گال پہ بوسہ دے کر میں نے
پیار سے بولا تتلی بیٹا
تُم نے پوچھا، کیا ہے بابا؟؟
پھر میں بولا تتلی بیٹا
تتلی تتلی کہتے سُنتے
ایک مہینہ پُورا گزرا،
ایک مہینہ پوچھ کے بیٹا
تتلی کہنا سیکھا تُو نے
ہر اِک نام جو سیکھا تو نے
کِتنی بار وہ پوچھا تو نے
تیرے بھی تو دانت نہیں تھے
میرے بھی اب دانت نہیں ہیں
تیرے پاس تو بابا تھے نا
باتیں کرتے کرتے تُو تو
تھک کے گود میں سو جاتا تھا
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا
بُوڑھے سے اِس بچے کے بھی
بابا ہوتے سُن بھی لیتے
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا۔
Audio
Audio from
Muhammad Sarmad Latif
*اچھی بات*
تحریر:*محمد اسمٰعیل بدایونی*
بہت دن ہو گئے
بہت دن ہو گئے
بہت دن ہو گئے ۔۔۔فتوری چڑیل اپنی بھونڈی آواز میں گنگنا رہی تھی ۔
کس بات کو بہت دن ہو گئے ۔اول جلول نے فتوری چڑیل کو گانا گاتے دیکھا تو پوچھا۔
ارے نیکستان پر حملہ کیے بغیر بہت دن ہو گئے ہیں کوئی نیا حملہ کرنا ہے ۔ فتوری چڑیل نے کہا ۔
او ہو تو اس کا مقصد ہے ایک نیا فتور آ گیا ہے دماغ میں ۔اول جلول نے بھونڈے انداز میں ہنستے ہوئے کہا ۔
فتوری ہو ں فتوری ہوں
فتوری کے دماغ میں
نیا فتور آگیا فتوری کے دماغ میں ۔۔۔۔فتوری نے ایک مرتبہ پھر گانا شروع کر دیا ۔
پھر سوچا کیا ہے۔۔۔کھوسٹ شیطان نے کھانستے ہوئے پوچھا۔
نیکستان کے سیاست دان میرا ٹارگیٹ ہیں اس دفعہ ۔۔۔فتوری نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
کیوں کیا تم نے ان سے کوئی بل پاس کروانا ہے ۔۔۔ہامان نے بھی گزرتے گزرتے پوچھا ۔
اونہہ ! ابلیس کا احمق وزیر ! سارا موڈ خراب کر دیا کمبخت نے ۔۔۔فتوری نے ہامان کے جانے کے بعد منہ بناتے ہوئے کہا ۔
ارے چھوڑو اس کو یہ بتاؤ کیا سوچا ہے ؟اول جلول نے چہکتے ہوئے پوچھا ۔
میں نے سوچا ہے نیکستان کے لوگوں کو بد تمیز ، بد تہذیب بنا دوں ۔۔۔فتوری نے اپنا آئیڈیا اول جلول سے شئیر کرتے ہوئے کہا ۔
تو تم اس کے لیے کیا کوئی کوچنگ سینٹر یا اسکول کھولو گی ؟ اول جلول نے کان کا میل صاف کرتے ہوئے کہا ۔
ارے احمق ! اس کے لیے اسکول نہیں کھولا جاتا یہ کام تو ویسے ہی ہو جاتا ہے ۔۔۔فتوری چڑیل نے کہا ۔
ویسے آج کل تو اسکول بھی ہمارے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں ۔۔۔کھوسٹ شیطان نے کہا ۔
میرا خیال ہے آج شام ہی ابلیس لعین سے ملاقات کر لینی چاہیے ۔۔۔اول جلول نے کہا ۔
ٹھیک ہے چلو پھر شام تو ہو ہی چکی ہے ۔فتوری چڑیل نے ڈھلتے ہوئے سورج کو دیکھ کر کہا۔
ابلیس لعین اپنی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ۔
کیا بات ہے فتوری چڑیل کوئی نیا پلان لائی ہو ؟ ابلیس لعین نے پوچھا ۔
ہاں شیطانوں کے شیطان ! بہت ہی زبردست پلان ہے ۔۔۔فتوری چڑیل نے چہکتے ہوئے کہا ۔
اس بے چاری کے سارے پلان بہت ہی زبردست ہوتے ہیں مگر چوپٹ ہو جاتے ہیں ۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔۔ہامان نے فتوری چڑیل کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔
ارے تم تو چپ ہی رہو نہ کام کے نہ کاج کے ڈھیر بھر اناج کے ۔۔۔فتوری چڑیل نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔
فتوری پلان کیاہے؟ ایک لائن میں بتاؤ ۔۔۔ شیطان لعین نے ان دونوں کی لڑائی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ۔
پلان یہ ہے باس ! فتوری نے ایک پیپر نکالتے ہوئے کہا ۔
اس فتوری کو تو یاد کچھ نہیں رہتا یہ نیکستان پر حملہ کرے گی ۔۔۔ہامان ایک مرتبہ پھر بڑبڑایا۔
ہاں باس ! پلان یہ ہے کہ نیکستان کے سیاست دانوں کو بد تمیز بنا دیا جائے ان کی گفتگو اتنی گھٹیا ہو کہ ایک شریف آدمی کو تو پسینہ آجائے سن کر ۔فتوری چڑیل نے بتایا
وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس سے ہو گا کیا؟ ہامان نے فتوری چڑیل سے براہ راست مخاطب ہو کر پوچھا۔
اس سے ہو گا یہ کہ جب یہ سیاست دان بد تمیز ہو جائے گاتو اس کی وجہ سے اس کے فالوؤرز اس سے بھی زیادہ بد تمیز ہو جائیں گے ۔۔۔جب یہ بد تمیز ہو جائیں گے تو یقینا ً جس سے بد تمیزی کریں گے تو وہ ان سے لڑے گا اور جب دونوں طرف کے سیاستد ان بد تمیز ہو جائیں گے تو باس کیا فساد ہو گانیکستان میں ۔۔۔کیا لوگ ایک دوسرے کو ذلیل کریں گے نیکستان میں ۔۔۔ایک دوسرے کو گالیاں دیں گے نیکستان میں۔۔۔ایک پارٹی کا جھنڈا لگے گا تو دوسرے اس جھنڈے کو اتاریں گے اس طرح مسلمان ابو جہل کے دور میں چلیں جائیں گے جہاں پانی پہلے پلانے پر جھگڑا ہوتا تو کبھی گھوڑا آگے دوڑانے پر لوگ لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے تھے ۔۔۔ نیکستان میں جو ہو گا سوچ سوچ کر بھی بڑا مزا آتاہے ۔۔۔فتوری چڑیل نے چٹخارے لیتے ہوئے کہا۔
ئم ئم ئم ۔۔۔۔شیطان نے تائید کے انداز میں گردن ہلاتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے تم یہ کام کرواور ہاں شیطان پورہ کا پورا لشکر اس گندے اور گھناؤنے کام میں تمہارا ساتھ دے گا میڈیا پر انسانی شکل میں جو ہمارے ٹاؤٹ بیٹھے ہوئے ہیں انہیں بھی الرٹ کر دو تاکہ ذرا رنگ چوکھا آجائے ۔۔۔شیطان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔
فتوری چڑیل شیطان پورہ کے شیطانی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے ٹیکنو جماعت کے جلسے میں پہنچ چکی تھی ۔
ٹیکنو جماعت کا لیڈر کچھ کچھ پریشان بیٹھا ہوا تھا۔
اول جلول ذرا معلوم کرو یہ ٹیکنو جماعت کا لیڈر پریشان کیوں بیٹھا ہے ؟ جب تک میں جیکنو جماعت کے جلسے کا وزٹ کرکے آتی ہوں۔۔۔فتوری چڑیل تو جیکنو جماعت کے جلسے کو دیکھنے چلی گئی ۔
ارے یہاں بھی یہ جیکنو جماعت کا لیڈر اداس بیٹھا ہے معاملہ کیا ہے کھوسٹ معلوم تو کرو۔
کچھ ہی دیر میں اول جلول ، اور کھوسٹ شیطان ہانپتے کانپتے فتوری چڑیل کے پاس پہنچ گئے دونوں نےلیڈروں کے اداس ہونے کی ایک ہی وجہ بتائی جلسے میں موجود لوگوں میں جوش و جذبہ نہیں ہے ۔۔۔
تو لوگوں میں جوش وجذباتیت پیدا کردو ۔فتوری نے اپنے بد نما ہونٹوں پر لپ اسٹک لگاتے ہوئے کہا ۔
کیسے کر دیں ؟ کیا کوئی مذاق ہے ؟ا
ول جلول نے فتوری چڑیل سے کہا ۔
ارے بہت آسان ہے ۔۔۔یاد رکھو نیکی مشکل ہوتی ہے بدی تو بہت آسان ہوتی ہے۔۔۔تعمیر مشکل ہوتی ہےتخریب آسان ہوتی ہے۔۔۔
میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔۔اول جلول نے سر کھجاتے ہوئے کہا ۔
ارے اول جلول اس ننھی سی کھوپڑی پر سوچنے کا بوجھ مت ڈالو ۔۔۔ورنہ چٹخ کی آواز کے ساتھ ٹوٹ جائے گی ۔ فتوری چڑیل نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔
ارے آگ لگا دو آگ ۔۔۔یہی تو موقع ہے ۔۔۔فتوری چڑیل ایک مرتبہ پھر پاگلوں کی طرح ہنسنے لگی کھوسٹ اور اول جلول حیرت سے فتوری چڑیل کو دیکھ رہےتھے انہیں لگا فتوری چڑیل کہیں پاگل واگل تو نہیں ہو گئی۔
ارے کیسے آگ لگا دیں ؟ نہ ماچس ہے نہ تیل ہے ۔اول جلول نے چڑ چڑاتے ہوئے کہا۔
ماچس بھی ہے تیل بھی ہے
موقع بھی ہے دستور بھی ہے
آگ لگادو آگ
لگادو آگ لگا دو ۔۔۔۔فتوری چڑیل پھر اپنی بھونڈی آواز میں گانے لگی ۔
ارے کیسے لگائیں آگ ۔۔۔کھوسٹ شیطان نے پوچھا ۔
ان لیڈروں کے کان میں جا کر کہو کہ اپنے مخالف لیڈر کو گالیاں دیں بری باتیں بولیں ان کے بارے میں بس پھر ہم سب ایک ساتھ مل کر تماشہ دیکھیں گے ۔
اول جلول نے ٹیکنو جماعت کے لیڈر کے کان میں جا کر کہا ذرا جیکنو جماعت کے لیڈر کو برا بھلا کہو پھر دیکھو جلسے میں موجود تماشائیوں میں کیسا جوش و خروش پیدا ہوتا ہے ۔
ٹیکنو جماعت کے لیڈر نے مخالف جماعت کے لیڈر کو برا بھلا کہنا شروع کیا " اگر میں نے اس بلے سے جینکو جماعت کے لیڈر کی پھینٹی نہیں لگائی تو میرا نام بدل دینا " زوردار تالیاں بجنے لگیں ۔۔۔نعرے لگنے لگے ۔۔۔ جلسے میں ایک نیا جوش وخروش پیدا ہو گیا ٹیکنو جماعت کے لیڈر کے چہرے پر مسکراہت آ چکی تھی ۔
دوسری جانب کھوسٹ شیطان نے جیکنو جماعت کے لیڈر سے بھی یہ ہی کہا ۔وہ بھی شکار ہو گیا اور کہنےلگا" اگر میں نے ٹیکنو جماعت کے لیڈر کو شہر کی گلیوں میں نہیں گھسیٹا تو میرا نام بھی بدل دینا " دوسری طرف بھی لوگ جوش و جذبات میں نعرے لگانے لگے ۔
رات دیرتک میوزک کی تھاپ پر فسق و فجور کا میلہ لگا رہا ۔
دوسرے دن نیکستان کا ماحول تبدیل ہو چکا تھا ایک پڑوسی اپنے دوسرے پڑوسی سے نالاں تھا کچھ بے وقوف لوگ تو ان احمق سیاست دانوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ہاتھ تک نہیں ملا رہے تھے ۔
عبد اللہ گھر سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا اس کے دوست عبید اور جنید بھی آپس میں خفا خفا تھے ۔۔۔
ارے ہوا کیا ہے ؟ آپ دونوں ناراض کیوں ہیں ؟ عبد اللہ نے دونوں سے پو چھا ۔
عبد اللہ بھائی ! ایک بات آپ بتائیے آپ جیکنو جماعت کے ساتھ ہیں یا چوروں کی جماعت ٹیکنو کے ساتھ ۔۔۔۔جنید رضا نے عبد اللہ سے پوچھا
چوروں کی جماعت ٹیکنو نہیں جیکنو ہے۔۔۔عبید رضا نے کہا ۔
عبد اللہ حیران و پریشان اپنے دونوں دوستوں کو دیکھ رہا تھا ۔
دوسری جانب فتوری چڑیل قہقہے لگا رہی تھی اول جلول بھی بھنگڑے ڈال رہا تھا لو جی عبد اللہ کے دوست بھی گئے ۔۔۔
ہم سے لڑے گا ۔۔۔ہمیں شکست دے گا ،فتوری چڑیل نے اپنی گزشتہ شکست کا بدلہ چکا دیا ۔۔۔ فتوری چڑیل نے گردن کو اکڑا کر تکبرانہ انداز میں کہا ۔
کیا ہو گیا تم دونوں کو تمہیں اندازہ ہے کہ کیا کہ رہے ہو ؟ عبد اللہ نے پریشان ہو تے ہوئے پوچھا ۔
عبد اللہ بھائی !آپ بس یہ بتائیے آپ کس کے ساتھ ہیں ؟عبید رضا نے پوچھا ۔
آپ لوگوں کو اندازہ ہے کہ آپ شیطان پورہ کے شیطانوں کا شکار ہو چکے ہیں ؟عبد اللہ نے سوال نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ۔
وہ کیسے عبد اللہ بھائی !جنید رضا نے پوچھا ۔
دیکھو دوستو! اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرما رہاہے ۔
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(بنی اسرائیل ۵۳)
اور اے حبیب! آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی بات کہیں جو سب سے اچھی ہو۔ بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے ۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
کل کے جلسے میں یہی ہوا ہے ۔۔۔لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے شیطانوں نے اپنا گندہ اور گھناؤنا کھیل کھیلا ان سیاست دانوں کو تو چاہیے تھا یہ نیکستان کے لوگوں کو ایک کرتے انہوں نے انہی کےدرمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کر دیں ۔عبد اللہ نےدکھ کااظہار کرتے ہوئے کہا ۔
اللہ تعالیٰ تو فرما رہا ہے یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-
ایسی بات کہیں جو سب سے اچھی ہو
اور یہ سیاست دان ایسی باتیں کررہے ہیں جو بہت خراب ہیں ۔۔۔جس سے یہ نفرت پیدا کررہے ہیں ۔۔۔قطع تعلق پیدا ہورہاہے ۔۔۔اور کم ازکم آپ دونوں تو سمجھدار ہیں آپ کو تو ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔
جی عبد اللہ بھائی آپ درست کہہ رہے ہیں ۔جنید رضا اور عبید رضا نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
اب ہمیں نیکستان کے ہر بچے اور ہر بڑے کو بتانا ہے کہ رات جو ٹیکنو اور جیکنو جماعت کے جلسوں میں ان لیڈروں نے ایک دوسرے کے خلاف جونا زیبا زبان استعمال کی ہے یہ شیطان کا شکار ہوئے ہیں ۔۔۔انہیں فتوری چڑیل نے بھڑکا دیا ہے ۔
جی عبداللہ بھائی ! آپ درست کہہ رہے ہیں ۔
پیارے بچو ! اگر آپ کے نیکستان میں کوئی بھی بری اور گندی زبان استعمال کرتا ہے جس سے لوگوں کے درمیان فساد برپا ہوتا ہے تو اسے بھی اور دیگر لوگوں کو بھی بتائیے قرآن بیان کرتا ہے ۔
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(بنی اسرائیل ۵۳)
اور اے حبیب! آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی بات کہیں جو سب سے اچھی ہو۔ بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے ۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
دو بڑے مرحلے!

*مشکل ترین* وہ جب ٹوٹے پھوٹے اعمال یعنی اپنے گناہوں کا بوجھ لے کر بارگاہ الٰہی اور بارگاہِ رسالت میں پیش ہونا ہوگا.
جبکہ
*حسین ترین* وہ جب ایمان کی سلامتی کے ساتھ اللہ کریم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہوگا ان شاءاللہ تعالٰی

اللہ کریم مشکل ترین مرحلے کو حسین ترین بنائے اور حسین ترین کو بے حساب مغفرت کا ذریعہ بنائے آمین یا رب العالمین❤️

✍️ محمد سرمد لطیف
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ۔
ترجمہ : مسلمان مسلمان بھائی ہیں ۔
(سورہ الحجرات آیت نمبر 10)

*اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ* : صرف مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔
ارشاد فرمایا : مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اورا سلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں اوریہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں سے مضبوط تر ہے ، لہٰذاجب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا واقع ہو تو ان میں صلح کرا دو اور اللہ تعالیٰ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے ۔
(تفسیر خازن، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۰، ۴/۱۶۸)
(تفسیر مدارک ، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۱۵۳)
✍️ 📑 ٹیلی گرام پر چلنے والے چند مفید چینلز کے لنکس پیش خدمت ہیں
آپ اپنے پسندیدہ گروپ و چینل کا انتخاب کرکے ہرے رنگ سے لکھی ہوئی عبارت پر کلک کریں اور جوائن ہوجائیں خود بھی استفادہ کریں اور شئیر کرکے صدقہ جاریہ کا ثواب بھی پائیں


سلسلہ فہرست: ①
🔵━═━═━🔵
" اسلام "
یہ چینل علمائے اہلسنت کے سبق آموز اصلاحی بیانات کا مرکز ہے
🔵━═━═━🔵

" حکایات و واقعات "
یہ چینل دلچسپ ویڈیو، آڈیو اور تحریری حکایات و واقعات پر مشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️

" القرآن الکریم "
یہ چینل خوبصورت آوازوں میں تلاوت قرآن پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵

" فرامینِ مصطفٰی ﷺ "
یہ چینل تحریری احادیثِ مبارکہ کے بیان پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵

" محمد رضا ثاقب مصطفائی "
یہ چینل علامہ محمد رضا ثاقب مصطفائی صاحب کے آڈیو ویڈیو بیانات پر مشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
" ہماری اردو پیاری اردو "
یہ چینل مختلف دلچسپ علمی و تحقیقی تحریروں پر مشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️

" انٹرنیشنل فقہی مرکز "
یہ چینل آڈیو ،ویڈیو بےشمار فقہی سوالات کےجوابات کا خزانہ ہے
⚪️━═━═━⚪️

" مرکز اہلسنت لائبریری "
یہ چینل علمائے اہلِ سنت کی کتب کا عظیم مرکز ہے
🔵━═━═━🔵

" سوشل میڈیا دعوت اسلامی "
یہ چینل دعوت اسلامی کےجاری کردہ اسلامک سوشل میڈیا پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵

" حق پر کون؟ "
یہ چینل حقائق سے پردہ اٹھانے اورحق کی جانب رہنمائی پرمشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️

" حمد و نعت گروپ "
یہ گروپ خوبصورت اور بہترین انداز میں حمد و نعت پرمشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️

" ہفتہ وار بیانات و رسائل "
یہ چینل دعوت اسلامی کے جاری کردہ ہفتہ وار رسائل بیانات و خطبات پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵

" فتاوی اہلِ سنت "
یہ چینل دارالافتاء اہلسنت سے جاری کردہ تحریری فتاوی پرمشتمل ہے
🔵━═━═━🔵

" اہلسنت مطالعہ مرکز "
یہ گروپ علمائے اہلسنت کی مستند و تحقیقی کتب کا ذخیرہ ہے
⚪️━═━═━⚪️

" بہترین ٹیلی گرام گروپ/چینل لنکس "
یہ چینل نیو ٹیلی گرام گروپ اور چینل لنکس کی تشہیر کیلئے ہے
⚪️━═━═━⚪️

👈 آپ بھی ٹیلی گرام پر اپنے چینلز/گروپس کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں تو بذریعہ بوٹ ہم سے رابطہ کیجئے ⬇️
@RabtaAdmin_Bot
https://tttttt.me/BestGroupsChannels
🔵━═━═━🔵
*امام احمد رضا خان اور علم حدیث*


سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ جس طرح علم تفسیر میں مہارت تامہ رکھتے تھے
اسی طرح علم حدیث میں درجہ امامت پر فائز تھے اور آپ کو علم حدیث پر ید طولی حاصل تھا
جب آپ اس فن پر قلم اٹھاتے تو امام جلال الدین سیوطی، علامہ ابن حجر عسقلانی کی جھلک نظر آتی
آپ کے اس فن پر منہ بولتا ثبوت
منیر العین ،حاجزالبحرین ،الفضل الموہبی رسائل ہیں

آپ کے بارے میں سید محمد احمد مصباحی زید مجدہ فرماتے ہیں

امام احمد رضا بلند پایہ محدث تھے اور علم حدیث پر بڑا تبحر حاصل تھا آپ کا مطالعہ وسیع تھا
آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے علم حدیث کی کتابوں میں سے کون کون سی کتب پڑھی یا پڑھائی ہیں
آپ نے فرمایا

*صحاح ستہ، مسند امام اعظم، مؤطا امام محمد، موطا امام مالک ، کتاب الآثار امام طحاوی، مسند امام شافعی، مسند امام محمد، سنن دارمی، ملتقی لابن الجارود، ذو علل متناہیہ ،مشکوة، جامع صغیر، جامع کبیر، بلوغ المرام، عمل واللیلة لابن السني، خصائص الکبری، کتاب الترغیب، کتاب الفرج بعد الشدة ، کتاب الاسماء والصفات وغیرہ*
پچاس سے زائد کتب میرے درس و تدریس و مطالعہ میں رہیں
امام احمد رضا خان کے وسعت مطالعہ کی یہ شان ہے کہ آپ کے شرح عقائد نسفی کے مطالعہ کے وقت 70 شروحات سامنے رہیں

*مولانا حنیف رضا خان*
اپنی کتاب جامع الاحادیث میں فرماتے ہیں

علم حدیث اپنی انواع کے اعتبار سے بہت وسیع علم ہے علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے تدریب الراوی میں تقریبا 100 علوم شمار کرائے ہیں جن میں علم حدیث سے واسطہ ضروری ہے

*علماء کرام فرماتے ہیں* کہ آپ نے حدیث، معرفت حدیث اور مبادیات حدیث پر جیسی شاندار اور نفیس ترین بحثیں کی ہیں
اگر امام بخاری و مسلم دیکھتے تو انکی بھی ٹھنڈی ہوتیں

عمدة المحدثین، حافظ بخاری
حضرت شاہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ سے محدث اعظم ہند سید محمد محدث کھچھوچھوی علیہ الرحمہ نے سوال کیا :
امام احمد رضا خان کا علم حدیث میں کیا مقام ہے ؟؟
آپ نے فرمایا امام احمد رضا اس وقت *"امیر المومنین فی الحدیث "* ہیں
پھر عاجزی فرماتے ہوئے فرمایا
صاحبزادے اسکا مطلب پتا ہے آپ کو کہ اگر میں ساری زندگی انکی شاگردی اختیار کروں تو بھی انکے مقام کو نہیں پہنچ سکتا

سید محمد محدث کھچھوچھوی نے کہا کہ سچ فرمایا

*ولی راولی می شناسدوعالم راعالم می داند*
ولی ولی کو اور عالم عالم کو پہچانتا ہے

خود محدث کھچھوچھوی فرماتے ہیں
علم الحدیث میں سب سے نازک شعبہ علم
*"اسماء الرجال"* کا ہے
اعلی حضرت کے سامنے کوئی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا
ہر راوی کے جرح و تعدیل کے جو الفاظ فرما دیتے
بعد میں تدریب الراوی، تقریب، تذھیب وغیرہ کتب دیکھی جاتیں تو وہی الفاظ ملتے
اسے کہتے ہیں علم راسخ، علم میں شغف کامل اور علمی مطالعہ کی وسعت

حفظ حدیث اور علم حدیث میں مہارت تامہ کا مشاہدہ کرنا ہو تو آپ کی تصنیفات
کا مطالعہ کر کے اسکا اندازہ ہر ذی علم کرسکتا ہے ورق ورق پر احادیث و آثار کی تابشیں نجوم و کواکب کی طرح درخشندہ و تابندہ ہیں

مولانا حنیف رضا خان خود فرماتے ہیں کہ
میں نے امام احمد رضا خان کی 300 سے زائد کتب کا مطالعہ جن سے 10000 ہزار احادیث کو جمع کرکے انکو ترتیب دیا
پھر مکررات کو نکال کر 3663 بنتی ہیں اور یہ صرف آپ کی تصنیفات کے ایک تہائی سے نکالا ہے اگر تمام سے نکالا جائے تو کتنا ضخیم حصہ ہاتھ آئے گا


ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں

(فیضان اعلی حضرت ص٤٨٥)

*محمد ساجد مدنی*
ﺑِﺴْﻢِ ﺍﻟﻠﮧِ ﺍﻟﺮَّﺣْﻤٰﻦِ ﺍﻟﺮَّﺣِﻴْﻢِ
ﺳﻤﻨﺪﺭﮐِﻨﺎﺭﮮﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﺖ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﭘﮧ ﭼﮍﯾﺎ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﻧﺴﻼ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺗﯿﺰ ﮨﻮﺍ
ﭼﻠﯽ ﺗﻮ ﭼﮍﯾﺎ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﮔﯿﺎ ﭼﮍﯾﺎ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﺍُﺳﮑﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺮ ﮔﯿﻠﮯ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍ ﮔﺌﯽ ....
ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﮩﺮ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﭽﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﮭﻨﮏ ﺩﮮ ﻣﮕﺮ ﺳﻤﻨﺪﺭ
ﻧﮧ ﻣﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﭼﮍﯾﺎﺑﻮﻟﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﺟﺎﻭُﮞ ﮔﯽ ﺗﺠﮭﮯ
ﺭﯾﮕﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﺩﻭﻧﮕﯽ ... ﺳﻤﻨﺪﺭﺍﭘﻨﮯ ﻏﺮﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺟﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﭼﮍﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﻮﮞ
ﺗﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﻏﺮﻕ ﮐﺮﺩﻭﮞ ﺗﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﯿﺎ ﺑﮕﺎﮌ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟
ﭼﮍﯾﺎ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺳُﻨﺎ ﺗﻮ ﺑﻮﻟﯽ ﭼﻞ ﭘﮭﺮﺧﺸﮏ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎ ﺍﺳﯽ ﮐﮯﺳﺎﺗﮫ
ﺍُﺱ ﻧﮯﺍﯾﮏ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺑﮭﺮﺍ ﺍُﻭﺭﺍﮌ ﮐﮯﺩﺭﺧﺖ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﭘﮭﺮﺁﺋﯽ ﮔﮭﻮﻧﭧ
ﺑﮭﺮﺍﭘﮭﺮﺩﺭﺧﺖ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﻋﻤﻞ ﺍُﺱ ﻧﮯ 8-7 ﺑﺎﺭ ﺩُﮬﺮﺍﯾﺎ ﺗﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮔﮭﺒﺮﺍ
ﮐﮯ ﺑﻮﻻ : ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﮯﮐﯿﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺠﮭﮯﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯﻟﮕﯽ ﮨﮯ ؟ ﻣﮕﺮﭼﮍﯾﺎﺍﭘﻨﯽ
ﺩﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻋﻤﻞ ﺩُﮬﺮﺍﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺻﺮﻑ 25-22 ﺑﺎﺭﮨﯽ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ
ﺳﻤﻨﺪﺭﻧﮯﺍﯾﮏ ﺯﻭﺭ ﮐﯽ ﻟﮩﺮﻣﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭﭼﮍﯾﺎ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ ...
ﺩﺭﺧﺖ ﺟﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﻤﻨﺪﺭﺳﮯﺑﻮﻻ ﺍﮮ ﻃﺎﻗﺖ
ﮐﮯﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﭘﻞ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﻕ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯﺍﺱ ﮐﻤﺰﻭﺭ
ﺳﯽ ﭼﮍﯾﺎ ﺳﮯﮈﺭﮔﯿﺎ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ؟
ﺳﻤﻨﺪﺭﺑﻮﻻ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﺠﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﺠﮭﮯﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﺍُﮐﮭﺎﮌ ﺳﮑﺘﺎﮨﻮﮞ ﺍﮎ
ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﺩُﻧﯿﺎ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﭼﮍﯾﺎﺳﮯ ﮈﺭﻭﻧﮕﺎ؟
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺗﻮﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ ﺳﮯﮈﺭﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﺎﮞ ﮐﮯﺟﺬﺑﮯ ﺳﮯ ﮈﺭﺍ ﮨﻮﮞ ﺍﮎ ﻣﺎﮞ
ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﻮﻋﺮﺵ ﮨﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﯿﺎ ﻣﺠﺎﻝ .. ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻭﮦ
ﻣﺠﮭﮯﭘﯽ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﯾﮕﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﮨﯽ ﺩﮮ ﮔﯽ , ﻣﺎﮞ
" ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻭﺗﻌﺎﻟﯽ " ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﻧﻌﻤﺖ ﮨﮯ .. ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ ﮐﺮﯾﮟ
.. ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻭﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﻓﺮﻣﺎ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﺯﻧﺪﮔﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺻﺤﺖ ﮐﺎﻣﻠﮧ ﻋﺎﺟﻠﮧ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎ
ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭ ﺑﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﻨﺎ ,
ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻭﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺣﻘﻮﻕ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺍﺋﺾ
ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺩﮮ , ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻭﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ
ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎ , ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻓﻮﺕ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ
ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﻓﺮﻣﺎ . ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺳﺨﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮑﮍ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ,
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﺸﺮ ﮐﯽ ﺫﻟﺖ ﻭ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ , ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﯽ ﺁﮒ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ,ﺍﻥ
ﮐﯽ ﻏﻠﻄﯿﺎﮞ ﮐﻮﺗﺎﮨﯿﺎﮞ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺟﻨﺖ ﺍﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﻠﻨﺪ ﻣﻘﺎﻡ
ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎ , ﯾﺎ ﺫﻭﺍﻟﺠﻼﻝ ﻭﺍﻻﮐﺮﺍﻡ ﯾﺎﺍﻟﻠﻪ ! ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻥ ﮐﮯ
ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻗﺒﻮﻝ ﻓﺮﻣﺎ, ﺑِﺮَﺣْﻤَﺘِﻚَ ﻳَﺂ ﺃَﺭْﺣَﻢَ ﺍﻟﺮَّﺣِﻤِﻴﻦَ ﺁﻣِﻴّﻦْ ﻳَﺎ ﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴْﻦ
#Copied

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام۔ حضرت اسحاق کے بھی دو بیٹے تھے ایک حضرت یعقوب علیہ السلام اور ایک حضرت عیسو۔ عیسو پیغمبر نہیں تھے جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام پیغمبر تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام "یہودہ" تھا۔ "یہودی" کا لفظ اسی سے ہے۔ دراصل حضرت عیسی علیہ السلام تک جتنے بھی پیغمبر آئے وہ سارے کے سارے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے تھے اور حضرت یعقوب کا لقب تھا "اسرائیل"۔ اسرائیل کا مطلب ہے اللہ کا بندہ۔ یہی بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد "یہودی" کہلائے۔ ان کا مذہب اسلام ہی تھا بنی اسرائیل جب بھی دین کے معاملے میں انحراف کا شکار ہوئے اللہ نے اپنے پیغمبر بھیجے۔ چنانچہ حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت موسی، حضرت ہارون، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت دانیال، حضرت عزیر، حضرت یحیی، حضرت زکریا علیہم السلام سب بنی اسرائیل ہی کے نبی تھے اور یہودی ان سب انبیاء کو مانتے ہیں۔ البتہ وہ بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام اور تمام پیغمبروں کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے۔ اور ابھی تک آخری پیغمبر کے انتظار میں ہیں۔ وہ آخری نجات دہندہ کی پیش گوئی آسمانی کتاب میں پاتے ہیں وہ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اس طرح یہودی تورات (Old Testament) کے تمام آسمانی صحائف کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ مانتے ہیں لیکن انجیل اور قرآن کو نہیں مانتے۔
درود پاک کی44 برکتیں :
درودِ پاک پڑھنا عظیم ترین سعادتوں اور بے شمار برکتوں کے حامل اور افضل ترین اعمال میں سے ایک عمل ہے، بزرگانِ دین نے درود شریف کی برکتوں کو بکثرت بیان کیا ہے اور مختلف کتابوں میں ان برکتوں کو جمع کر کے بیان کیا گیا ہے، یہاں ان میں سے 44 برکتیں پڑھ کر اپنے دلوں کو منور کریں اور درودِ پاک کی عادت بنا کر ان برکتوں کو حاصل کریں :
(1)جو خوش نصیب رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرود بھیجتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ،فرشتے اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود دُرود بھیجتے ہیں۔
(2)درود شریف خطاؤں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
(3)درود شریف سے اعمال پاکیزہ ہو جاتے ہیں۔
(4)درود شریف سے درجات بلند ہوتے ہیں۔
(5)گناہوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔
(6)درود بھیجنے والے کے لئے درود خود اِستغفار کرتا ہے۔
(7)اس کے نامۂ اعمال میں اجر کا ایک قیراط لکھا جاتا ہے جواُحد پہاڑ کی مثل ہوتا ہے۔
(8)درود پڑھنے والے کو اجر کا پورا پورا پیمانہ ملے گا۔
(9)درود شریف اس شخص کے لئے دنیا و آخرت کے تمام اُمور کیلئے کافی ہو جائے گا جو اپنے وظائف کا تمام وقت درود پاک پڑھنے میں بسر کرتا ہو۔ (10)مَصائب سے نجات مل جاتی ہے۔
(11)اس کے درود پاک کی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گواہی دیں گے۔ (12)اس کے لئے شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔
(13)درود شریف سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔
(14) اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امن ملتا ہے۔
(15)عرش کے سایہ کے نیچے جگہ ملے گی۔
(16)میزان میں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا۔
(17)حوضِ کوثر پر حاضری کا موقع مُیَسّر آئے گا۔
(18)قیامت کی پیاس سے محفوظ ہو جائے گا۔
(19)جہنم کی آگ سے چھٹکارا پائے گا۔
(20) پل صراط پر چلنا آسان ہو گا۔
(21)مرنے سے پہلے جنت کی منزل دیکھ لے گا۔
(22)جنت میں کثیر بیویاں ملیں گی۔
(23) درود شریف پڑھنے والے کو بیس غزوات سے بھی زیادہ ثواب ملے گا۔
(24) درود شریف تنگدست کے حق میں صدقہ کے قائم مقام ہوگا۔
(25)یہ سراپا پاکیزگی و طہارت ہے۔
(26) درود کے وِرد سے مال میں برکت ہوتی ہے۔
(27)اس کی وجہ سے سو بلکہ اس سے بھی زیادہ حاجات پوری ہوتی ہیں ۔
(28)یہ ایک عبادت ہے۔
(29) درود شریف اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اعمال میں سے ہے۔
(30)درود شریف مجالس کی زینت ہے۔
(31)درود شریف سے غربت و فقر دور ہوتا ہے۔
(32)زندگی کی تنگی دور ہو جاتی ہے۔
(33)اس کے ذریعے خیر کے مقام تلاش کئے جاتے ہیں۔
(34)درود پاک پڑھنے والا قیامت کے دن تمام لوگوں سے زیادہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب ہو گا۔
(35)درود شریف سے درود پڑھنے والا خود،اس کے بیٹے پوتے نفع پائیں گے۔ (36)وہ بھی نفع حاصل کرے گا جس کو درود پاک کا ثواب پہنچایا گیا۔
(37)اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولِ مُکَرَّم کا قرب نصیب ہو گا۔
(38)یہ درود ایک نور ہے،اس کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل کی جاتی ہے۔ (39)نفاق اور زنگ سے دل پاک ہوجاتا ہے۔
(40)درود شریف پڑھنے والے سے لوگ محبت کرتے ہیں ۔
(41)خواب میں حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوتی ہے۔(42)درود شریف پڑھنے والا لوگوں کی غیبت سے محفوظ رہتا ہے۔
(43) درود شریف تمام اَعمال سے زیادہ برکت والا اور افضل عمل ہے۔
(44)درود شریف دین و دنیا میں زیادہ نفع بخش ہے اوراس کے علاوہ اس وظیفہ میں اس سمجھدار آدمی کے لئے بہت وسیع ثواب ہے جو اعمال کے ذَخائر کو اکٹھاکرنے پر حریص ہے اور عظیم فضائل، بہترین مناقب، اور کثیر فوائد پر مشتمل عمل کے لئے جوکوشاں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بکثرت درود پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
(صراط الجنان،جلد 6،ص 82،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
*بچوں کے لیے صحاح ستہ سنہری سیریز لکھنے سے اشاعت تک*

ایک سوال جو مجھ سے بار بار پوچھا گیا سنہری صحاح ستہ کا ارادہ کیسے بنا ؟چند سال قبل اپنے دوست پروفیسر طہ احمد مینائی صاحب کے ساتھ کچھ گفتگو ہو رہی تھی کہ تذکرہ بچوں کے اسلامی لٹریچر پر چھڑ گیا اور انہوں نے توجہ دلائی کہ ایک حدیث ایک کہانی کی طرز پر کچھ لکھیے اور کہانی کہانی میں بچوں کو حدیث پر عمل پیرا ہونا بھی سکھا دیجیے ۔
انہوں نے چند ایک مثالیں بھی پیش کیں اور مجھے ان کا آئیڈیا پسند بھی آیا کوشش کی اور بخاری شریف سے کچھ احادیث کا انتخاب کرکے ایک کتاب " سنہری تعلیم " کے نام سے لکھ بھی دی ۔
ان دنوں والد بزرگوار(علامہ پروفیسر ریا ض احمد بدایونی رحمہ اللہ علیہ) حیات تھے انہوں نے اس کتاب کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اسی وقت اراداہ کیا کہ مکمل صحاح ستہ لکھوں گا ۔۔۔۔وقت گزرتا چلا گیا والد صاحب کی علالت کےدوران بھی کچھ نا کچھ کام کرتا رہا اور یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فضل و کرم سے کام مکمل ہو گیا۔ دعا ہے اللہ کریم اس کام کو ہمارے لیے اور ہمارے معاونین کے لیے زادِ راہ بنا دے ۔آمین ۔
کتاب کی کمپوزنگ کے بعد پروف ریڈنگ کے مراحل سے گزرے تو پروفیسر ڈاکٹر حامدعلی ، پروفیسر صابر صاحب ، پروفیسر سیدہ یاسمین وسیم صاحبہ ، محمد صدیق صاحب ، علامہ اسمٰعیل ابراہیم صاحب اور انڈیا سے ہمارے دوست زبیر قادری صاحب نے اس مسئلے کو ہمارے لیے آسان کر دیا ۔۔۔
پروف ریڈنگ کے بعد اسے چھپوائیں کیسے ؟
کچھ احباب سے بات کی لیکن ان کی مصروفیات نے ہماری جانب انہیں متوجہ ہی نہیں ہونے دیا اور ہم اپنی بے بسی کی چھتری تلے آبیٹھے ،کریں تو کیا کریں چھ کتابیں ایک ساتھ چھپوانا اور ہمارے مستقبل کے خواب (ان خوابوں کا تذکرہ کسی اور پوسٹ میں )
سب ہی ہمیشہ کی طرح وسائل کی عدم دستیابی کے باعث کرچی کرچی ہو گئے ۔۔۔
ہمیں ماضی کے تجربات کے سبب بخوبی اندازہ اور آپ کا بھی مشاہدہ ہو گا کہ اشاعت کتب کے معاملے میں ہمارا رویہ بحیثیت قوم کیسا ہے اور گذشتہ 15 سال کے تجربات ہمارے چاروں طرف کھڑے ہو کر بتا رہے تھے بلکہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے تم ایک ناکام آدمی ہو جو عرصہ دراز سے ایک ہی کام تسلسل سے کیے جا رہاہےکامیابی تو دور کی بات ناکامی میں تم ضرور اول آئے ہو اور ساتھ ساتھ اس ناکامی پر انعام کے طور پر کچھ قرض کی ٹرافی تمہیں ضرورمل جاتی ہے ۔
اس موقع پر خیر خواہوں کا تذکرہ جانے دیجیے ۔
خیر 15 سال کے تلخ و ترش تجربات و مشاہدات ایک طرف اور نیا جوش و جذبہ اور شوق و ولولہ ایک جانب ہم بھی جنون کی حد پر لیکن کیا کریں ہمارا جذبہ جنوں نئی فضاؤں میں اڑان بھرنے کو بے تاب تھا کہ کورونا نے ستم ڈھا دیا ۔۔۔
ہم نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور آہ ہی بھر کررہ گئے ۔
کورونا اپنے ستم ڈھا ہی رہا تھا اور ہمارے شوق کی چنگاری شعلہ بننے کے لیے بےتاب تھی کہ بھائی عبد الغفار دوانہ صاحب کا فون آ گیا کہ کچھ کام کرنا ہے ملاقات کرنی ہے فون پر ہی کچھ گفتگو ہوئی توہم نے صحاح ستہ کے حوالے سے گفتگو کی انہیں یہ آئیڈیا پسند آیا اور انہوں نے اسی وقت ہم سے کہا آپ اس کام کو شروع کیجیے ابتدائی 200 سیٹ میرے بک کر لیجیے ۔۔۔
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گاعبد الغفار بھائی ان کتب کی اشاعت کے حوالے سے اولین محرک ثابت ہوئے ۔۔۔ہم نے اپنے ہم زلف شہزاد حمید سے تذکرہ کیا انہوں نے بھی اپنے والد کے ایصال ثواب کی نیت سے 100 سیٹ بک کرا دئیے اور رقم ارسال کر دی لیکن رقم زیادہ چاہیے تھی انہی سے اورمولانا محمد اعظم قادری صاحب( انجمن شمشیر مصطفیٰ کے بانی و صدر )سے کچھ رقم اور ادھار لی کچھ رقم وعدوں کے مطابق آنی تھی ہم نے یہ سوچ کر کتاب میں مزید تاخیر نہ ہو ہم نے بسم اللہ کی اور کتاب کو چھاپنے کے لیے پریس میں دے دی ۔۔۔
محمد رضوان بھائی (الرضا گرافکس )یہ ہمارے بہت پرانے دوست ہیں سنہری صحاح ستہ کے ٹائٹل تو ہم نے آٹھ ماہ قبل ہی بنوا لیے تھے کچھ مشوروں کے بعد اس کو معمولی سا تبدیل کیا اور اشاعت کے لیے دےدیا ۔
پریس میں کتاب دیتے ہی رقم آنے میں کچھ تاخیر ہو گئی اور ہمارے تجربات نے ایک مرتبہ پھر ہمیں آڑے ہاتھوں لیا اور ہمیں کہا بھئی تمہیں سمجھایا تھا مگر تم ہو کہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے اس دفعہ تو ایسے پھنسے ہو کہ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے تمہارے ۔۔۔
لیکن حدیث رسول ﷺ کی اشاعت کی برکتیں میں نے دیکھیں مجھے بہت زیادہ پریشانی نہیں تھی میں بڑی حد تک سکون میں تھا ۔۔۔
ہم نے ان کتابوں کے ٹائٹل کو فیس بک اور واٹس اپ پر ڈال دیا دیکھتے ہی دیکھتے دوستوں ،شاگردوں اور محبین نے اس کو لائیک کرنا اور شئیر کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ان دوستوں کے کمنٹس بڑے حوصلہ افزاء تھے ۔۔۔
سب سے پہلے میرے محسن علامہ سید زمان علی جعفری صاحب نے تو واٹس اپ پر پوسٹ دیکھ کر فوراً یہ میسج کیا کہ دس سیٹ میرے بک کر لیجیے اپنا اکاؤنٹ نمبر بھیج دیجیے رقم ٹرانسفر کر دی جائےگی ۔
سعودی عرب سے افتخار الحسن رضوی صاحب نے اسے شاندار الفاظ ک
ے ساتھ شئیر کیا تو ڈاکٹر مفتی اسلم رضا میمن تحسینی صاحب نے تو ایسی ہمت افزائی کی کہ طبیعت با غ با غ ہو گئی طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ان کے تمام الفاظ یہاں لکھتا انہوں نے بھی یہ کہا کہ میں جیسے ہی اکتوبر کے مہینے میں پاکستان آؤں گا تو کئی سیٹ خرید کر اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا ۔ ۔۔۔ مفتی عبد اللہ نوری صاحب کے حوصلہ افزاء پیغام نے میرے حوصلے بلند کر دئیے ۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر ناصر صاحب ( صدر شعبہ اصول الدین جامعہ کراچی )نے تو اپنے شاگردوں اور دوستوں کو پیغام دیا کہ لازمی ان کتب کولیں ۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب ( ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ اسلامک لرننگ )نے تو پوسٹ دیکھ کر فوراً ہی مجھے کال کی ان کی خوشی ان کے لہجے میں نمایاں تھی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کتب کے حوالے سے جلد ہی فیس بک پر لائیو ایک پروگرام ہونا چاہیے ۔۔۔مفتی علی اصغر صاحب اور دیگر علماء و مشائخ اور اہل علم کےستائشی رپلائی نے میرے حوصلے مزید بلند کیے ماضی کے تلخ و ترش تجربات کے بالکل بر عکس رویہ میرے سامنے تھا شگاگو سےایک محترمہ نے 100 سیٹ اپنی بیٹی غوثیہ کنول انوار کےایصال ثواب کی نیت سے لیے تو جرمنی سے حسن صاحب نے اور کینیڈا سے عمیر علی نے،یونان سے محمد عامر نے تو قطر سے محمد علی صاحب نے اس ضمن میں ہمارے ساتھ تعاون کیا اور لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے کئی سیٹ بک کرائے ۔
ان تمام کی محبتیں توایک طرف کچھ شاگردوں نے یہ کام کیا کہ سیٹ بک کرنا شروع کردئیے کراچی سے سیدہ زینب نے تو ایک ہی دن میں دس سیٹ بک کرائے تو گلشن معمار سے مزمل کمال سلطانی نے تقریبا 15 سیٹ کے لیے کہا اور ہماری ایک بہن استاد بنتِ تسلیم نے اپنی اسٹوڈینٹس میں اس پوسٹ کو بطورِ مہم چلایا اور40 کے قریب سیٹ کا ہمیں آرڈر بھی دے دیا ۔۔۔ لیاری سے مولانا عاطف صاحب نے 25 سیٹ بک کرائے علامہ علی نواز صاحب نے 12 سیٹ بک کرائے ایسے نہ جانے کتنے نام جن کی محبتوں کا میں ہمیشہ مقروض رہوں گا۔۔۔ابھی کتاب چھپ کرنہیں آئی ان کتابوں کے ٹائٹل کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ میرے ایک کولیگ پروفیسر جاوید صاحب نے صرف پوسٹ دیکھ کر مجھ سے کہا تھا کہ میرے بھی پانچ سیٹ بک کر لیجیے غرض اس طرح کئی علم دوست اور کتاب دوست ہمارے شانہ بشانہ آکر کھڑے ہو گئے کئی علماء و اساتذہ نے کہا ہم منبر سے ا سکا اعلان کریں گے اپنے شاگردو ں اور احباب کو ان کتب کے مطالعے اور میلاد النبی ﷺ کے موقع پر تحفے میں دینے کی ترغیب دیں گے ۔
غرض یہ کہ ایک بہت بڑی تعداد نے اسے پسند کیا اور یہ میری زندگی میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کتاب چھپ کر ہاتھوں میں آنے سے پہلے ہی پہلا ایڈیشن تقریبا ً فروخت بھی ہو گیا ۔
لوگوں کی پسند کو دیکھ کر ہم نے دوسرا ایڈیشن چھپنے کے لیے پریس بھیج دیا ہے ۔۔۔
یہ سب کرم ہے اللہ تعالیٰ اس کے حبیبِ لبیب ﷺ کا اللہ کریم قبول فرمائے آخرت کا زادِ راہ بنائے ہمارے تمام معاونین جنہو ں نے دامے درمے سخنے قدمے ہماری معاونت کی ہماری ان کتب کی پوسٹ کو شئیر کیا اس پر کمنٹ کرکے ہماری حوصلہ افزائی کی ۔۔۔اپنے سوشل میڈیا گروپس میں ہماری پوسٹ چلائی ۔۔۔
اپنے دوستو سے درخواست اس کام کو مزید بچوں تک لے جائیے ۔۔۔
کوشش کیجیے کہ نبی کریم ﷺ سے محبت کرنے والے ہر خاندان اور گھر تک یہ کتب لازمی پہنچیں ۔۔۔ہمارے بچوں میں نبی کریم ﷺ کی اطاعت واتباع کا جذبہ بیدار ہو ۔۔۔ہمارے بچوں میں عشقِ رسول ﷺ پروان چڑھے ۔۔۔ ہمارے گلی کوچوں سے فداک امی و ابی یا رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند ہو ں ۔۔۔ہمارے بچوں کے اخلاق و کردار کی روشنی ساری دنیا کو منور کرے اور دنیا پکار اٹھے کہ یہ بچے نبی کریم ﷺ کی امت کے بچے ہیں ۔۔۔میں نے نبی کریم ﷺ کی حدیث کی برکتیں دیکھیں ہیں میرے خدشات خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ان شاء اللہ حدیث رسول ﷺ کی برکتیں آپ اپنے گھر اور اپنےبچوں میں بھی دیکھیں گے ۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
محمد اسمٰعیل بدایونی
2 اکتوبر 2020
*فاضل_بريلوى_تحقيق*

(ایک بار لازمی پڑھیں)

محقق اہل سنت مفتی حق النبی سکندری صاحب زید مجدہ

ايک فاضل كا تبصره پڑھ کر نہایت افسوس ہوا، کہ حضرت فاضل بريلوى عليہ الرحمة كى تمام كتب سوالوں كے جوابات میں تاليف ہوئيں، لهذا وه كوئى گراں قدر علمى اضافہ نہیں اور نہ ہی وقيع اضافہ کہلائیں گی، کوئى مستقل تصنيف پیش کریں.

ایسے جدل ميں پڑنا، نہ میرا تخصص نہ ہی مزاج پر حقيقت بيان كرنا ضرورى ہے، کیونکہ بعض اوقات غلط بات اتنے خوبصورت الفاظ اور القاب سے گردش کرتی کہ وقت گذرنے کے ساتھ حقيقت محسوس ہونے لگتی ہے.

اس مختصر جواب كو اپنی کسی بھی رائے سے دور رکھنے کی کوشش ہوگی ، فقط اسلامى عربى لٹریچر کی روشنی میں چند گزارشات پیش ہیں جنہیں بغور پڑھنے سے دو باتیں سمجھ آجائينگی:

ايک: سائل كا مبلغ علم اور علوم كا مطالعہ.

دوم: فاضل بريلوى قدس سره العزيز،كي تصانيف متقدمين ومتاخرين كے ہاں مذكور مقاصد تاليف، دواعي تاليف كے مطابق ہیں یا نہیں!

ہمیں یقين ہے کہ سائل اگر مقاصد تاليف كی فقط معلومات (گہرائى و گیرائى تو دور کی بات ہے) بھی رکھتے تو یہ سوال ہی انہیں نہ کرنا پڑتا.

اسلامى عربى لٹریچر اس عنوان سے بھرا پڑا ہے کہ: درست سوال، اعتراض، حسن مسالة، نصف علم ہے،جس سے سائل يا معترض كے مبلغ علم كا اندازه ہوجایا کرتا ہے.

سيدنا ابن عباس فرماتے ہیں: ما سألني أحد عن مسألة إلا عرفت، فقيه أو غير فقيه.

جس نے بھی مجھ سے كوئي مسئلہ پوچھا، میں اسکے (سوال سے ہی) اسکا عالم یا جاہل ہونا جان گیا.

علامہ خطيب بغدادى امام مالک سے (بسندہ) نقل فرماتے ہیں کہ: زيد بن أسلم كے پاس، ابن عجلان كچھ پوچھنے آئے، اور سوال میں ہی گڑ بڑ کردی! زيد بن اسلم نےب فرمايا كہ: جاؤ جاكر صحيح سوال كرنا سيکھو پھر پوچھنے آجانا.

مطلب كہ سوال سے ہی سائل كى علمی حقيقت کھل کر سامنے آجاتی ہے.

اب اصل جواب كى طرف آئيے.

أولا: ابن خلدون،ابن حزم، أبوبكر المعافرى الإشبيلى، الكلاعى اور احمد المقرى التلمسانى ابو حيان وغيره... نے اس پر مستقل کلام فرمايا ہے کہ آخر: تصنيف وتأليف كے مقاصد كيا ہیں؟
اگرچہ ان علماء كے علاوه سينکڑوں دیگر مصنفين نے بھی اس پر گفتگو فرمائى ہے پر یہاں مقصود اولين اس پر بولنے والے ہیں.

ان سب محققين، مؤرخين و ادباء كا تقريبا اس پر اتفاق ہے کہ جب بھی کوئى تصنيف كرے یا تاليف(تصنيف و تاليف ميں دقيق فرق ہے جو غالبا سائل پر اب تک مخفى ہو) اس میں سات (7) مقاصد ميں سے کسی ایک کا پایا جانا ضرورى ہے، اگر ان ميں سے كوئى ايک بھی پایا گیا تو ان محقق علماء كے ہاں وہ تصنيف يا تاليف (وقيع اضافہ) بھی گردانی جائيگی اور علمى كام بھی.

وہ مقاصد تاليف ان علماء كى زبانى یہاں ذكر كيئے جا رہے ہیں اور قارئين سے التماس ہے کہ کیا ان مین سے کوئى ايک بھی فاضل بريلوي كى كتب ميں بدرجہ اتم موجود نہیں؟

وه يہ ہیں:

1- إما شيئ لم يسبق إلى استخراجہ فيستخرجه.

2- وإما شيئ ناقص فيتممه.

3- وإما شيئ مخطأ فيصححه.

4-ولما شيئ مستغلق فيشرحه.

5- وإما شيئ طويل فيختصره.

6-وإما شيئ مفترق فيجمعه.

7-وإما شيئ منثور فيجمعه.

ان مقاصد كو ايک عربی شاعر نے یوں نظم بھی فرمايا ہے:

ألا فاعلمن أن التآليف سبعة
لكل لبيب في النصيحة خالص

فشرح لأغلاق وتصحيح مخطئ
وإبداع حبر مقدم غير ناقص

وترتيب منثور وجمع مفرق
وتقصير تطويل وتتميم ناقص

متاخر مشہور عالم حاجي خليفہ كشف الظنون ميں فرماتے ہیں کہ: جو بھی کسی فن پر کتاب لکھے، اسکی کتاب میں یہ پانچ فوائد ہونا ضرورى ہیں:

1- استنباط شيئ كان معضلا.

2- جمعه إن كان مفرقا.

3- شرحه إن كان غامضا.

4- حسن نظم وتاليف.

5- إسقاط حشو وتطويل.

اب ان تمام مقاصد اور فوائد تاليف كو ديکھ کر،فاضل بريلوى قدس سره كي تصانيف ديکھی جائيں تو بلاشبہ علمی تحقيقى معيار كيساتھ ساتھ مقاصد تاليف پر بھی بدرجہ اتم پوری اترتی ہیں!

ابن خلدون وديگر عرب ناقدین كى كسوٹی پر جن کی کتب (مفيد اضافہ) کا ٹائيٹل پالیں بھلا ان پر کسی عجمی پروفيسر كا اعتراض كيونكر درست ہوسکتا ہے!

ثانيا: یہ بات تو طفل مكتب بھی سمجھتا ہے کہ کسی فن پر ایک شخص مستقل لکھے بھی اور اپنے تيئيں اسے (علمى اضافہ) بھی سمجھے مگر حقيقت ميں وه (كاپی پیسٹ) یا (محض سرکھپائى) كا مجموعہ نکلے تو کیا ایسی تصنيف (علمى اضافہ) کہلائے گی؟

ثالثا: مقصود اصلى علم وافاده اور تحقيق ہے،چاہے وہ مستفتى كے جواب ميں ہو چاہے مستقلا تصنيف سے ہو.

اور بلاشبہ یہ يہ چیزيں حضرت فاضل بريلوى قدس سره العزيز كى تاليفات ميں موجود ہیں.

والحق أحق أن يقال.

نوٹ: اختلاف كا حق سب كو نہیں صرف انكو ہے جو: نمبر ايک: موضوع بحث كى اساسيات سے بخوبى واقف ہوں.

نمبر دو: اعتراض برمحل فرمائيں.

ان شروط كا لحاظ نہ رکھا جائے تو وہی ہوگا جو فيس بوک پر نظر آتا ہے، يعنى لايعنى ابحاث، نہ ختم ہونے والے مجادلات،تحقيق كے نام پر توہین.

كتبه:أبوالبرڪات حق النبي سڪندرى أزهري.
شاہپور چاکر، سندھ.
Modern Skills
جن کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔
(قلم کلامی: قاسم علی شاہ)

آپ کسی بچے کے ہاتھ میں پنسل پکڑاکر کہیں کہ اس اسکیچ میں رنگ بھردو ، وہ یقینا کردے گا لیکن ۔۔۔یہی پنسل اگر آپ پکاسو کو دیں اور اسے رنگ بھرنے کا کہیں تو وہ ایک شاہکارفن پارہ تخلیق دے دے گا جس کو دیکھنے کے لیے پوری ایک دنیا آئے گی اور اس پرلاکھوں ،کروڑوں مالیت کی بولیاں لگیں گی۔ وجہ یہ ہے کہ پکاسو کے پاس اپنی قابلیت تھی اور وہ جذبہ تھا جس کی بدولت جب وہ اپنے تصورات کو کینوس پر اتارتا تو وہ دنیا کی سب سے خوبصورت تصویر بن جاتی۔ ہمارا بچہ ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟ کیونکہ ہم اس کی تخلیقی صلاحیت کو استعمال میں نہیں لاتے، ایک بنابنایا ٹریک دے دیتے ہیں اور اسی پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ڈگری تو حاصل کرلیتا ہے لیکن تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہوتا ہے۔

والدین /اساتذہ کے غلط پیمانے:
معذرت کے ساتھ ، ہمارے اساتذہ بڑے ہی لائق و فائق ہیں مگروہ اپنے طلبہ میں بہترین صلاحیتیں نہیں پیدا کرسکتے ،کیونکہ وہ بچوں کی قابلیت کو جس پیمانے سے ماپتے ہیں ، وہ پیمانہ ہی غلط ہے ۔جیسے کولہو کے بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے، وہ سار ادِن مشقت کرتا ہے اور اپنے دائرے سے باہر نہیں نکلتا۔میں بڑے عرصے سے اس بات کی نشاندہی کررہا ہوں کہ تعلیمی سفر کے کسی موڑ پر ہم نے اس اہم نکتے کو نظر انداز کردیا ہے۔اگر اس غلطی کو سدھار لیا جائے تو بڑے شاندارنتائج مل سکتے ہیں۔امتحانات ، تعلیمی نظام میں ایک اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ تعلیمی نظام کی طرح ہمارا امتحانی نظام بھی وقت کے ساتھ بہتر ہونے کے بجائے کمزور ہوتا جارہا ہے۔امتحانات میں بچے کے رٹے کو پرکھا جاتا ہے،جو کہ فقط ایک اسکل ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ،جبکہ اس کی تخلیقی صلاحیت ، اخلاق و کرداراورباہمی مہارتوں( Interpersonal Skills)کو دیکھا ہی نہیں جاتا.

ہم بھی تعلیمی نظام کے ذریعے اپنے 12کروڑ جوانوں کو صرف دائرے کا سفر پوراکروارہے ہیں۔دائرے میں گھومنے کا ہی نتیجہ ہے کہ نہ کوئی تخلیقی صلاحیت ابھرتی ہے اور نہ ہی کوئی ایجاد سامنے آتی ہے جبکہ سونے پر سہاگا یہ ہے کہ ہم لوگ تحقیق و ایجادات کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے ۔تحقیقی کاموں کے لیے کروڑوں ،اربوں روپے کا فنڈ مختص ہے لیکن نتیجہ کوئی نہیں ہے۔وجہ یہ ہے کہ جس بچے کوسولہ سال تک ہم نے رٹا لگوانے اور نمبر لینے کی پریکٹس کروائی ہوئی ہے وہ اچھا محقق اور موجد کیسے بن سکتا ہے؟

اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کے پرکھنے کا پیمانہ بھی غلط ہے۔وہ بچوں کو تابعداری کے پیمانے سے ماپتے ہیں۔ایسا ممکن ہے کہ کوئی بچہ خوب تابعدار ہو لیکن شاید اپنی تابعداری سے وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو بھی ختم کررہا ہو،حالانکہ تابعدا ری سے زیادہ اہم یہ ہے کہ بچہ آپ سے بات چیت کرسکے،اپنے خیالات کا اظہار کرسکے ،وہ اپنا آپ سمجھا سکے اور آپ اس کو سمجھ سکیں۔والدین کے ماپنے کا پیمانہ جس دِن درست ہوگیا تو پھر ہمارے بچے بھی قابل اور باصلاحیت نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی مرتب کردہ قابلیتیں:
2018میں ورلڈ اکنامک فورم نے کچھ صلاحیتیں بتائیں اور وضاحت کی کہ جس انسان میں بھی یہ صلاحیتیں ہوں گی وہ ضرور ترقی کرے گا۔اس میں سرفہرست صلاحیت ’’Creativity‘‘کی تھی ۔’’Creativity‘‘ کا مطلب ہے کہ کہ کسی بھی مسئلے کو آپ کتنے تخلیقی انداز میں حل کرتے ہیں۔یاد رکھیں! زندگی کے مسائل کتاب کے مسائل سے بہت مختلف ہیں ۔کتاب میں آپ فیثا غورث کو حل کرتے ہیں لیکن زندگی میں آپ نے اس سے زیادہ سخت حالات کو جھیلنا ہوتا ہے ۔آپ نے دو انسانوں کو منانا ہوتا ہے۔چیلنج کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔کوئی تکلیف آگئی ہے تو اس کو سہنا ہوتاہے۔

دوسری صلاحیت:
People Management
جو انسان نقطے جوڑنے کا فن سیکھ لے وہ اپنے مسائل کو بڑے احسن اندازمیں حل کرسکتا ہے۔عقل مندلوگ یہی کرتے ہیں۔ان کو معلوم ہوتا ہے کہ کس نقطے کو کس سے جوڑا جائے تو وہ ایک خوبصورت شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
فیس بک کے مالک ’’مارک زکربرگ‘‘ نے کمپیوٹر ایجاد نہیں کیا تھا ، بلکہ اس نے کمپیوٹر اوروسائل کو لیا اور اپنے آئیڈیا کے ذریعے اس کو ایک بہترین شکل دے دی،چنانچہ فیس بک وجود میں آئی اور آج کل یہ سوشل میڈیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔دستیاب وسائل اور لوگوں کو جوڑنے کاکام ہم اپنے بچوں کو نہیں سکھاتے، حالانکہ یہ ترقی کا تیز ترین ذریعہ ہے. انسان کے پا س ایک موبائل اور ایک لیپ ٹاپ ہو تو وہ بخوبی اپنا آن لائن بزنس کرسکتا ہے ۔ای کامرس آج کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے پبلشنگ ادارے کی رپورٹ کے مطابق: کورونا بحران کے دِنوں میں کتابوں کی آن لائن خرید اری میں چا رگنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔آنے والا وقت سار اکاسار ا ای کامرس کا ہے۔

تعلیم کے بارے میں والدین کا نظریہ اور تاثر ، خودتعلیمی اداروں نے بنایا ہے ۔انہوں نے دلکش جملے لکھواکر جگہ جگہ آویزاں کردیے
یں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ،سمت کی کمی ہے۔بچوں کو بہترین انسان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں بچپن سے سنیں ، ان کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں سمت دیں۔انسان مقناطیس کی طرح ہے ۔جیسے وہ خودہے ویسی دنیا اکھٹی کرلیتا ہے۔آپ کے بچے میں موجود ٹیلنٹ جب پالش ہوگاتو وہ اپنے اردگرد اپنی طرح کی ایک دنیا اکھٹی کرلے گا اوراس کے لیے آگے بڑھنا و ترقی کرناکوئی مشکل نہیں ہوگا۔