جو سیدھا والدین کے دماغ پر اثر انداز ہوئے۔ زیادہ فوکس نمبروں اور پوزیشن لینے پر کیا گیا اور بعض ادارے تو اس حد تک بڑھ گئے کہ اعلیٰ پوزیشن لینے والے طلبہ کو گاڑی کا تحفہ بھی دے دیا۔اب اس تمام تر صورت حال میں ہر شخص لکیر کا فقیر بن گیا ۔لوگ اسی کو کامیابی سمجھنے لگے کہ بچے کا ایڈمیشن ہوگیا ، وہ اچھے نمبرز لے رہا ہے ،بس یہ کافی ہے ۔آنے والی زندگی کے مسائل کو کیسے حل کرنا ہے ، ایک اچھا انٹرپینور کیسے بننا ہے اور معاشرے کے لیے کوئی خدمت کیسے سرانجام دینی ہے؟ یہ سوچ بالکل ختم ہوگئی ۔والدین کا نظریہ بھی یہ بن گیاکہ نمبر لینا ہی اصل کامیابی ہے اور اگرہمارے بچے نے اچھے گریڈ کے ساتھ ڈگری نہ لی تو وہ معاشرے میں زندگی کیسے گزارے گا؟
دراصل ہمارا یہ نظام تعلیم گوروں کا مرتب کردہ ہے ۔یہ سب جاب مائنڈ سیٹ کے لیے بنایا گیاتھا ۔انہیں اس وقت ایسے افراد چاہیے تھے جو ذہنی طورپر غلام ہوں۔وہی چیز چلتی رہی اور آج تک چل رہی ہے ۔اس نظام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ محقق ، موجد اور کاروبار ی ذہن والے انسانوں کو پیدانہیں کررہا، جبکہ ہم نے اگراپنے معاشرے کوترقی دینی ہے تو ایسے افراد تیار کرنے ہوں گے جو دوسروں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ اسی طرح جو فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ ہیں وہ بھی قابلیت و صلاحیت سے مزین ہوں ۔صرف لفظی دعوؤں سے کام نہیں چلے گا بلکہ عملی مہارت دکھانا ہوگی۔
ذیل میں باقی ان تمام قابلیتوں کی فہرست بھی دی جارہی ہے جن کی آج کل کے جدید دور میں ضرورت ہے اور کوئی بھی انسان ان کی بدولت ترقی کرسکتا ہے۔
▪پریزنٹیشن اینڈ کمیونیکیشن
اپنے خیالات کوتحریر و تقریر کی صورت میں دوسرے انسانوں کے سامنے خوب صورت انداز میں پیش کرنا
لوگوں سے عمدہ بات چیت
انٹرویو /میٹنگ میں شرکت کا طریقہ انٹرویو دینے کا طریقہ
بات چیت کا طریقہ
آپ جو ہیں ، وہ دوسروں کو کس طرح بتانا ہے۔
▪ٹیبل مینرز
کھانا کھانے کا طریقہ
ٹیبل یا دسترخوان پر بیٹھنا
سینئر یا جونئیر کے ساتھ کھانا کھانا
کانٹا چھری کا استعمال
▪ڈریس مینرز
دیدہ زیب لباس کون سا ہوتا ہے؟
کن کپڑوں کے ساتھ کون سا جوتا پہننا ہے؟
کس موقع پر کون سا لباس زیب تن کرنا ہے؟
▪لیڈرشپ اسکلز
اپنے ماتحت افراد سے شاندار کارکردگی کیسے دلوانی ہے؟
انسانوں کو کیسے ڈیل کرنا ہے؟
ٹیم کو کیسے لے کر چلنا ہے؟
▪لکھنے کی صلاحیت
ڈائری لکھنا
بلاگ لکھنا
اپنے بارے میں لکھنا
اخبار ، میگزین یا سوشل میڈیا کے لیے لکھنا
کونٹینٹ مرتب کرنا
▪مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت
حوصلہ اور ہمت نہ ہارنا
حالات کے خوف کو خود پر مسلط نہ کرنا
بڑے سے بڑے مسئلے کو بہترین انداز میں حل کرنا
▪لوگوں کو مینج کرنا
ہر قسم کی طبیعت اور مزاج والے انسانوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟
ہر ایک کو اس کی حیثیت کے مطابق مقام کیسے دینا ہے؟
▪خودا عتمادی
بلا وجہ کے ڈر و خوف کے دام میں نہیں آنا
اپنی خوداعتمادی سے خود کویہ ثابت کرنا کہ آپ اس مقام کے لیے سب سے زیادہ اہل ہیں۔
▪تخلیقی صلاحیت
نئے خیالا ت سوچنا
لوگوں سے کچھ ہٹ کر کرنا
مسائل میں بھی نئے مواقع تلاش کرنا
بہترین حل ڈھونڈنا
▪تنقیدی سوچ
یہ کام ایسا کیوں ہے؟
اس میں کون کون سی خرابیاں اور خوبیاں ہیں؟
میں اس کام کو مزید بہتر انداز میں کیسے کیا جاسکتا ہے؟
▪ایموشنل انٹیلی جنس
اپنے جذبات پر قابو پانا
غصے ،خوف ، حسد پر کنٹرول
قوتِ برداشت ۔نفس کو لگام دینا
▪فیصلہ سازی کی صلاحیت
سوچ سمجھ کر اور تجزیہ کرنے کے بعد فوری فیصلہ کرنا
تذبذب کی کیفیت کو ختم کرنا
اپنے فیصلے کی ذمہ داری بھی خود قبول کرنا
غلط فیصلے کو تسلیم کرلینا
▪مکالمہ بازی کی صلاحیت
دوسرے انسان کے مزاج کو سمجھ کر اس کے مطابق گفتگو
آواز سے زیادہ دلیل اونچی رکھنا
شائستہ انداز میں اختلاف رائے رکھنا
یہ تمام وہ صلاحیتیں ہیں جو تعلیمی اداروں کو پڑھانے کی ضرورت ہے۔یہ نہ صرف پروفیشنل زندگی میں بلکہ پرسنل زندگی میں بھی شاندار ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
بچوں کی تربیت و پرورش میں اہم بات یہ ہے کہ پہلے ان کی صلاحیت کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق انہیں تیار کیا جائے۔ ہم لاکھ کوشش بھی کریں تو مچھلی کو درخت پر نہیں چڑھاسکتے ،کیونکہ وہ اس کام کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئی۔ درخت پر چڑھنے کے لیے بندر ہے۔اسی طرح ہم بندر کو تیرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ہمارے معاشرے میں بنے بنائے معیارپہلے سے پڑے ہوئے ہیں اور ہم اسی میں بچے کو فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔والدین اپنا دِل بڑا کریں اور بچوں کو ان کی اہلیت کے مطابق میدانِ عمل دیں۔
میں اگر پروفیسر ہوتا تو صرف کلاس روم تک محدود رہتا لیکن میں نے سوشل میڈیا کا راستہ اپنایا اور اب مجھے سننے اور دیکھنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔ میں اگر سوشل میڈیا نہ اختیار کرتا تو میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنی آواز کروڑوں، اربوں لوگوں تک پہنچاؤں ۔ہم بھی اگر نئے آئیڈیاز اور ایجادات کی حوصلہ افزائی کریں گے تو ایک نئی نسل تیار ہوجائے گی۔پاکستان م
دراصل ہمارا یہ نظام تعلیم گوروں کا مرتب کردہ ہے ۔یہ سب جاب مائنڈ سیٹ کے لیے بنایا گیاتھا ۔انہیں اس وقت ایسے افراد چاہیے تھے جو ذہنی طورپر غلام ہوں۔وہی چیز چلتی رہی اور آج تک چل رہی ہے ۔اس نظام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ محقق ، موجد اور کاروبار ی ذہن والے انسانوں کو پیدانہیں کررہا، جبکہ ہم نے اگراپنے معاشرے کوترقی دینی ہے تو ایسے افراد تیار کرنے ہوں گے جو دوسروں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ اسی طرح جو فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ ہیں وہ بھی قابلیت و صلاحیت سے مزین ہوں ۔صرف لفظی دعوؤں سے کام نہیں چلے گا بلکہ عملی مہارت دکھانا ہوگی۔
ذیل میں باقی ان تمام قابلیتوں کی فہرست بھی دی جارہی ہے جن کی آج کل کے جدید دور میں ضرورت ہے اور کوئی بھی انسان ان کی بدولت ترقی کرسکتا ہے۔
▪پریزنٹیشن اینڈ کمیونیکیشن
اپنے خیالات کوتحریر و تقریر کی صورت میں دوسرے انسانوں کے سامنے خوب صورت انداز میں پیش کرنا
لوگوں سے عمدہ بات چیت
انٹرویو /میٹنگ میں شرکت کا طریقہ انٹرویو دینے کا طریقہ
بات چیت کا طریقہ
آپ جو ہیں ، وہ دوسروں کو کس طرح بتانا ہے۔
▪ٹیبل مینرز
کھانا کھانے کا طریقہ
ٹیبل یا دسترخوان پر بیٹھنا
سینئر یا جونئیر کے ساتھ کھانا کھانا
کانٹا چھری کا استعمال
▪ڈریس مینرز
دیدہ زیب لباس کون سا ہوتا ہے؟
کن کپڑوں کے ساتھ کون سا جوتا پہننا ہے؟
کس موقع پر کون سا لباس زیب تن کرنا ہے؟
▪لیڈرشپ اسکلز
اپنے ماتحت افراد سے شاندار کارکردگی کیسے دلوانی ہے؟
انسانوں کو کیسے ڈیل کرنا ہے؟
ٹیم کو کیسے لے کر چلنا ہے؟
▪لکھنے کی صلاحیت
ڈائری لکھنا
بلاگ لکھنا
اپنے بارے میں لکھنا
اخبار ، میگزین یا سوشل میڈیا کے لیے لکھنا
کونٹینٹ مرتب کرنا
▪مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت
حوصلہ اور ہمت نہ ہارنا
حالات کے خوف کو خود پر مسلط نہ کرنا
بڑے سے بڑے مسئلے کو بہترین انداز میں حل کرنا
▪لوگوں کو مینج کرنا
ہر قسم کی طبیعت اور مزاج والے انسانوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟
ہر ایک کو اس کی حیثیت کے مطابق مقام کیسے دینا ہے؟
▪خودا عتمادی
بلا وجہ کے ڈر و خوف کے دام میں نہیں آنا
اپنی خوداعتمادی سے خود کویہ ثابت کرنا کہ آپ اس مقام کے لیے سب سے زیادہ اہل ہیں۔
▪تخلیقی صلاحیت
نئے خیالا ت سوچنا
لوگوں سے کچھ ہٹ کر کرنا
مسائل میں بھی نئے مواقع تلاش کرنا
بہترین حل ڈھونڈنا
▪تنقیدی سوچ
یہ کام ایسا کیوں ہے؟
اس میں کون کون سی خرابیاں اور خوبیاں ہیں؟
میں اس کام کو مزید بہتر انداز میں کیسے کیا جاسکتا ہے؟
▪ایموشنل انٹیلی جنس
اپنے جذبات پر قابو پانا
غصے ،خوف ، حسد پر کنٹرول
قوتِ برداشت ۔نفس کو لگام دینا
▪فیصلہ سازی کی صلاحیت
سوچ سمجھ کر اور تجزیہ کرنے کے بعد فوری فیصلہ کرنا
تذبذب کی کیفیت کو ختم کرنا
اپنے فیصلے کی ذمہ داری بھی خود قبول کرنا
غلط فیصلے کو تسلیم کرلینا
▪مکالمہ بازی کی صلاحیت
دوسرے انسان کے مزاج کو سمجھ کر اس کے مطابق گفتگو
آواز سے زیادہ دلیل اونچی رکھنا
شائستہ انداز میں اختلاف رائے رکھنا
یہ تمام وہ صلاحیتیں ہیں جو تعلیمی اداروں کو پڑھانے کی ضرورت ہے۔یہ نہ صرف پروفیشنل زندگی میں بلکہ پرسنل زندگی میں بھی شاندار ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
بچوں کی تربیت و پرورش میں اہم بات یہ ہے کہ پہلے ان کی صلاحیت کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق انہیں تیار کیا جائے۔ ہم لاکھ کوشش بھی کریں تو مچھلی کو درخت پر نہیں چڑھاسکتے ،کیونکہ وہ اس کام کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئی۔ درخت پر چڑھنے کے لیے بندر ہے۔اسی طرح ہم بندر کو تیرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ہمارے معاشرے میں بنے بنائے معیارپہلے سے پڑے ہوئے ہیں اور ہم اسی میں بچے کو فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔والدین اپنا دِل بڑا کریں اور بچوں کو ان کی اہلیت کے مطابق میدانِ عمل دیں۔
میں اگر پروفیسر ہوتا تو صرف کلاس روم تک محدود رہتا لیکن میں نے سوشل میڈیا کا راستہ اپنایا اور اب مجھے سننے اور دیکھنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔ میں اگر سوشل میڈیا نہ اختیار کرتا تو میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنی آواز کروڑوں، اربوں لوگوں تک پہنچاؤں ۔ہم بھی اگر نئے آئیڈیاز اور ایجادات کی حوصلہ افزائی کریں گے تو ایک نئی نسل تیار ہوجائے گی۔پاکستان م
۱-مزار پر ایک چادر بوسیدہ ہونے سے پہلے ہی ہزاروں نئی چادریں چڑھ جاتی ہیں، مگر صاحب مزار کا فرمان کتاب کی صورت میں سڑ رہا ہو تو اسکی کوئی پرواہ نہیں
۲-افسوس ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کے دینی ،،اوزار،، کو ذریعہ نجات نہیں مانا بلکہ انکے،، مزار،، کو ذریعہ نجات بنا لیا!
۳-جس قوم کے نزدیک کتاب سے زیادہ چادر کی اہمیت ہو وہ کتاب کی حفاظت کیا کریگی !
منقول
۲-افسوس ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کے دینی ،،اوزار،، کو ذریعہ نجات نہیں مانا بلکہ انکے،، مزار،، کو ذریعہ نجات بنا لیا!
۳-جس قوم کے نزدیک کتاب سے زیادہ چادر کی اہمیت ہو وہ کتاب کی حفاظت کیا کریگی !
منقول
*🌴عالمی یوم اساتذہ کے موقع پر پیارے شاگردوں کو 7 پیاری نصیحتیں🌴*
*🌻استاد کا مقام ومرتبہ🌻*
تحریر: *محمد آصف اقبال مدنی *
*🌹عالم دین اور استاد نائب رسول ہے* اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴﴾ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیۡہِمْ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾(پ26،الحجرات:4۔5) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
*علامہ نظام الدین علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں :استاد کی تعظیم یہ ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔* (فتاوی عالمگیری،5/378) کیونکہ عالمِ دین ہر مسلمان کے حق میں عام طور پراور *استادِ علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خاص طور پر نائبِ حضور پُر نور سیّد عالمﷺ ہے۔* (الحقوق لطرح العقوق،ص78)
*🌹استاد آقا اور شاگر غلام ہے،* حضور نبی رحمتﷺ فرماتے ہیں: جس نے کسی آدمی کوقرآن مجید کی ایک آیت سیکھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم کبیر،8/112،حدیث:7528)
امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا چاہے تو مجھے بیچ دے اور چاہے تو آزاد کردے۔(المقاصد الحسنہ،ص483)
حضرت امام شعبہ بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جس سے میں نے چار یا پانچ حدیثیں لکھیں میں اس کا تاحیات غلام ہوں۔بلکہ فرمایا: جس سے میں نے ایک حدیث لکھی میں اس کا عمر بھر غلام رہا ہوں۔(المقاصد الحسنہ، ص483)
*🌹استاد کے سامنے ہمیشہ عاجزی کی جائے اور خود کو کبھی بھی استاد سے افضل نہ سمجھاجائے۔* حضور نبی اکرم ﷺفرماتے ہیں:علم سیکھو اور علم کے لئے ادب واحترام سیکھو،جس استاد نے تمہیں علم سکھایاہےاس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط،4/342،حدیث:6184)
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: *عقلمند اور سعادت مند اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں جبکہ بے عقل اور شریر اور ناسمجھ جب طاقت وتوانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں، جب خود بوڑھے ہوں گے تو اپنے کئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گے* صحیح بخاری ، جلد3، ص163 پر ہے:کَمَا تُدِیْنُ تُدَان یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
(الحقوق لطرح العقوق،ص90)
*🌹استاد کا حق ماں باپ سے بھی زیادہ ہے،* علماء کرام فرماتے ہیں کہ استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاد روح کی زندگی کا سبب ہے ۔کتاب ”عین العلم“ میں ہے:والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہئے کیونکہ ان کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے اور *استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ وہ روح کی زندگی کا ذریعہ ہے* جبکہ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: *جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔* (تیسیرشرح جامع الصغیر2/454)
*🌹استاد کے تمام حقوق ادا کیے جائیں،* استاد کے حقوق کا انکار کرناتمام مسلمانوں بلکہ سارے عقل والوں کے اتفاق کے خلاف ہے ،یاد رہے کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے،فتاوی عالمگیری میں چند حقوق یہ بیان ہوئے ہیں : *شاگر استاد سے پہلے بات نہ کرے ، اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے، اپنے مال میں کسی چیزسے اس کے ساتھ بخل نہ کرے( یعنی جوکچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے اور جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک حرف ہی پڑھایا ہو اس کے لئے عاجزی وانکساری کرے اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے، اپنے استاد پر کسی کو ترجیح نہ دے لہذا اگرکسی کو ترجیح دے گا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسّی کھول دی اوراستاذ کی تعظیم یہ ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔*(فتاوی عالمگیری،5/373تا 379)
*🌹استاد کی بات ہمیشہ مانی جائے،* کبھی استاد کی بات کو رَد نہ کرے،وہ اگر کسی جائز بات کا حکم دے تواپنی طاقت وحیثیت کے مطابق اُس پر عمل کرنے کو اپنی سعادت سمجھے ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : *جس نے استاد کی نافرمانی کی اُس نے اسلام کی گرہوں سے ایک گرہ کھول دی،* علماء فرماتے ہیں :جس سے اس کے استاد کو کسی ط
*🌻استاد کا مقام ومرتبہ🌻*
تحریر: *محمد آصف اقبال مدنی *
*🌹عالم دین اور استاد نائب رسول ہے* اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴﴾ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیۡہِمْ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾(پ26،الحجرات:4۔5) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
*علامہ نظام الدین علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں :استاد کی تعظیم یہ ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔* (فتاوی عالمگیری،5/378) کیونکہ عالمِ دین ہر مسلمان کے حق میں عام طور پراور *استادِ علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خاص طور پر نائبِ حضور پُر نور سیّد عالمﷺ ہے۔* (الحقوق لطرح العقوق،ص78)
*🌹استاد آقا اور شاگر غلام ہے،* حضور نبی رحمتﷺ فرماتے ہیں: جس نے کسی آدمی کوقرآن مجید کی ایک آیت سیکھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم کبیر،8/112،حدیث:7528)
امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا چاہے تو مجھے بیچ دے اور چاہے تو آزاد کردے۔(المقاصد الحسنہ،ص483)
حضرت امام شعبہ بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جس سے میں نے چار یا پانچ حدیثیں لکھیں میں اس کا تاحیات غلام ہوں۔بلکہ فرمایا: جس سے میں نے ایک حدیث لکھی میں اس کا عمر بھر غلام رہا ہوں۔(المقاصد الحسنہ، ص483)
*🌹استاد کے سامنے ہمیشہ عاجزی کی جائے اور خود کو کبھی بھی استاد سے افضل نہ سمجھاجائے۔* حضور نبی اکرم ﷺفرماتے ہیں:علم سیکھو اور علم کے لئے ادب واحترام سیکھو،جس استاد نے تمہیں علم سکھایاہےاس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط،4/342،حدیث:6184)
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: *عقلمند اور سعادت مند اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں جبکہ بے عقل اور شریر اور ناسمجھ جب طاقت وتوانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں، جب خود بوڑھے ہوں گے تو اپنے کئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گے* صحیح بخاری ، جلد3، ص163 پر ہے:کَمَا تُدِیْنُ تُدَان یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
(الحقوق لطرح العقوق،ص90)
*🌹استاد کا حق ماں باپ سے بھی زیادہ ہے،* علماء کرام فرماتے ہیں کہ استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاد روح کی زندگی کا سبب ہے ۔کتاب ”عین العلم“ میں ہے:والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہئے کیونکہ ان کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے اور *استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ وہ روح کی زندگی کا ذریعہ ہے* جبکہ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: *جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔* (تیسیرشرح جامع الصغیر2/454)
*🌹استاد کے تمام حقوق ادا کیے جائیں،* استاد کے حقوق کا انکار کرناتمام مسلمانوں بلکہ سارے عقل والوں کے اتفاق کے خلاف ہے ،یاد رہے کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے،فتاوی عالمگیری میں چند حقوق یہ بیان ہوئے ہیں : *شاگر استاد سے پہلے بات نہ کرے ، اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے، اپنے مال میں کسی چیزسے اس کے ساتھ بخل نہ کرے( یعنی جوکچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے اور جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک حرف ہی پڑھایا ہو اس کے لئے عاجزی وانکساری کرے اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے، اپنے استاد پر کسی کو ترجیح نہ دے لہذا اگرکسی کو ترجیح دے گا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسّی کھول دی اوراستاذ کی تعظیم یہ ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔*(فتاوی عالمگیری،5/373تا 379)
*🌹استاد کی بات ہمیشہ مانی جائے،* کبھی استاد کی بات کو رَد نہ کرے،وہ اگر کسی جائز بات کا حکم دے تواپنی طاقت وحیثیت کے مطابق اُس پر عمل کرنے کو اپنی سعادت سمجھے ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : *جس نے استاد کی نافرمانی کی اُس نے اسلام کی گرہوں سے ایک گرہ کھول دی،* علماء فرماتے ہیں :جس سے اس کے استاد کو کسی ط
رح کی ایذا پہنچے وہ علم کی برکت سے محروم رہے گااور *اگر استاد کا حکم کسی شرعی واجب کے متعلق ہو تو اب اس کا لازم ہونا اور زیادہ ہوگیا،استاد کے ایسے حکم میں اُس کی نافرمانی تو واضح طور پر جہنم کا راستہ ہے (نعوذباللہ من ذالک)۔* ہاں! اگر استاد کسی خلافِ شرع بات کا حکم دے تو شاگردوہ بات ہرگز نہ مانے کیونکہ حدیث پاک میں ہے :اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔(مسند احمد،7/363،حدیث:20678) مگر اس نہ ماننے پر بھی گستاخی وبے ادبی سے پیش نہ آئے بلکہ بکمال عاجزی سے معذرت کرے اوراُس پر عمل کرنے سے بچے۔
(الحقوق لطرح العقوق، ص79ماخوذا)
*🌹شاگر ہمیشہ استادکا شکر گزار رہے،* کیونکہ استاد کی ناشکری خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کرنیوالی ۔حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے:وہ آدمی اللہ تعالیٰ کا شکر بجا نہیں لا تا جو لو گوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا (ابو داؤد، 4/335،حدیث:4811)۔پھر یہ کہ شاگر کبھی استاد کا مقابلہ نہ کرے کہ یہ تو ناشکری سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے اور مقابلے کی صورت میں بجائے شکر کے اس کی مخالفت بھی ہے اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے *”جس نے احسان کے بدلے برائی کی اس نے تو ناشکری سے بھی بڑا گناہ کیا۔"*
(الحقوق لطرح العقوق، ص79ماخوذا)
*🌹شاگر ہمیشہ استادکا شکر گزار رہے،* کیونکہ استاد کی ناشکری خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کرنیوالی ۔حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے:وہ آدمی اللہ تعالیٰ کا شکر بجا نہیں لا تا جو لو گوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا (ابو داؤد، 4/335،حدیث:4811)۔پھر یہ کہ شاگر کبھی استاد کا مقابلہ نہ کرے کہ یہ تو ناشکری سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے اور مقابلے کی صورت میں بجائے شکر کے اس کی مخالفت بھی ہے اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے *”جس نے احسان کے بدلے برائی کی اس نے تو ناشکری سے بھی بڑا گناہ کیا۔"*
ایک واحد پرندہ جو شاہین کے راستے کی رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے اور وہ کوا ہے۔
وہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس کی گردن پر چونچ مارتا ہے۔ تاہم ، شاہین جواب نہیں دیتا ، اور نہ ہی کوے سے لڑتا ہے۔ شاہین کبھی کوے پر اپنا وقت اور توانائی ضائع نہیں کرتا!
بلکہ آسانی سے اپنے پروں کو کھولتا ہے اور آسمان میں اونچا اڑنے لگتا ہے۔ اونچی اڑان سے کوے کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کوا گر جاتا ہے۔۔۔!
لہذٰا زندگی میں کووں جیسے لوگوں کے ساتھ اپنا وقت ضائع کرنا بند کرو۔
شاہین بنو، خود کو بلند کرو کوے اپنے آپ مٹتے جائیں گے
وہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس کی گردن پر چونچ مارتا ہے۔ تاہم ، شاہین جواب نہیں دیتا ، اور نہ ہی کوے سے لڑتا ہے۔ شاہین کبھی کوے پر اپنا وقت اور توانائی ضائع نہیں کرتا!
بلکہ آسانی سے اپنے پروں کو کھولتا ہے اور آسمان میں اونچا اڑنے لگتا ہے۔ اونچی اڑان سے کوے کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کوا گر جاتا ہے۔۔۔!
لہذٰا زندگی میں کووں جیسے لوگوں کے ساتھ اپنا وقت ضائع کرنا بند کرو۔
شاہین بنو، خود کو بلند کرو کوے اپنے آپ مٹتے جائیں گے
سلسلہ حکایتیں اورنصیحتیں
حکایت نمبر:1
تاریخ:6 اکتوبر 2020
موضوع:نفسیاتی مریضہ بن گئی
تحریر:عبدہ المذنب سید کامران عطاری مدنی عفا عنہ الباری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلی الک واصحابک یا حبیب اللہ
ایک ڈاکٹر کا بیان ہے کہ ایک خاتون اور اس کا خاوند اپنی جوان بچی کے علاج معالجے کے لئے میرے پاس آئے۔انہوں نے بتایا کہ ہماری بچی نے ایم ایس سی کیا ہوا ہے اور پورے خاندان میں ہنس مکھ،ملنسار،عقلمند مشہور تھی، ایم ایس سی کرنے کے بعد آئے روز رشتے آنا شروع ہوگئے لیکن سانولی رنگت کی وجہ سے جو لوگ بھی آتے کئی اسی وقت انکار کردیتے تو کئی فون پر معذرت کردیتے۔ رشتہ دیکھنے والے بچی کو اس انداز سے دیکھتے جیسے انہوں نے کوئی بھیڑ بکری خریدنی ہو۔ ان کے دیکھنے کے انداز،تیکھے سوالات اور پھر انکار نے ہماری پھول جیسی بچی کے دل کو ایسی ٹھیس پہنچائی کہ ہماری بچی شروع شروع میں کھوئی کھوئی رہتی پھر اس نے مکمل چپ سادھ لی ہر وقت اپنے آپ کو کمرے میں قید کیا ہوا ہے کھانا بھی زبردستی کھلانا پڑتا ہے۔ ایسی حالت کی وجہ سے ہماری بچی دن بدن کمزور ہوکر ہڈیوں کا ڈھانچا بن گئی ہے۔عاملوں کے پاس جائیں تو وہ کالے جادو کا کہہ دیتے ہیں ڈاکٹرز کے پاس جائیں تو وہ نفسیاتی مریضہ قرار دیتے ہیں،کسی بھی طریقہ علاج سے فائدہ نہیں ہو رہا۔بچی کے حالات بتاتے ہوئے دُکھیارے والدین نے رونا شروع کر دیا۔
نصیحت:ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن یہاں رہتا تنہا نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے،ہماری ذات سے کبھی کسی کو راحت پہنچتی ہے تو کبھی تکلیف اور کبھی کچھ بھی نہیں یعنی تکلیف نہ راحت،اگر دیگر مسلمانوں کو ہم سے راحت پہنچے گی تو نیتِ خیر ہونے کی صورت میں ہمیں اس کا ثواب ملے گا، بلا وجہِ شرعی تکلیف پہنچائیں گے تو عذاب کی حقداری ہے اور تیسری صورت میں نہ ثواب نہ عذاب۔کوشش ہونی چاہئے کہ ہم باعثِ زحمت نہیں سببِ راحت بنیں۔اس حوالے سے ہمارے رویّے مختلف ہوتے ہیں،بعض کی اس طرف خوب توجہ ہوتی ہے کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے،اگر ان سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچ بھی جائے تو انہیں احساسِ نَدامت ہوتا ہے اور وہ توبہ کرکے اس سے فورا معافی مانگ لیتے ہیں،جبکہ کچھ اس حوالے سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ انہوں نے کسی کو تکلیف پہنچا دی ہے اور کئی اس بات کی خواہش تو رکھتے ہیں کہ کسی کو ان سے تکلیف نہ پہنچے لیکن معلومات کی کمی اور غیر محتاط انداز کی وجہ سے اکثر انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ اپنی حرکات وسکنات سے دوسرے کو تکلیف میں مبتلا کرچکے ہیں۔
ہمارا پیارا مذہب اسلام ہر مسلمان کی جان،مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے چنانچہ حضورِ پاک،صاحبِ لَولاک صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حرمت نشان ہے:کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضُہٗ یعنی ہر مسلمان کا خون،مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
(مسلم،کتاب البر والصلۃ،باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔الخ،ص 1386،حدیث:3564)
مُفَسِّرِ شَہِیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:کوئی مسلمان کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی اجازت نہ لے،کسی کی آبروریزی نہ کرے،کسی مسلمان کو ناحق اور ظُلمًا قتل نہ کرے،کہ یہ سب سخت جُرْم ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،جلد 6،ص 553)
مفتی صاحب ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:مسلمان کو نہ تو دل میں حقیر جانو ! نہ اُسے حقارت کے الفاظ سے پکارو ! یا بُرے لَقَب سے یاد کرو ! نہ اس کا مذاق بناؤ ! آج ہم میں یہ عیب بہت ہے،پیشوں،نسبوں،یا غربت و اِفلاس کی وجہ سے مسلمان بھائی کو حقیر جانتے ہیں کہ وہ پنجابی ہے،وہ بنگالی،وہ سندھی،وہ سرحدی،اسلام نے یہ سارے فرق مٹا دیئے۔شہد کی مکھی مختلف پھولوں کے رس چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ہوجاتا ہے۔مختلف لکڑیوں کو آگ جلا دے تو اس کا نام راکھ ہوجاتا ہے۔یوں ہی جب حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کا دامن پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہوگئے،حبشی ہو یا رُومی !(مراٰۃ المناجیح،جلد 6،ص 553)
دامنِ مصطفیٰ سے جو لپٹا یگانہ ہوگیا
جس کے حضور ہوگئے اس کا زمانہ ہوگیا
جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی بلا اِجازتِ شرعی مسلمان کو تکلیف دینا کتنی بڑی جُرأت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اعلیٰ حضرت،مجدِّدِ دین وملت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی رضویہ شریف جلد 24 صَفْحَہ 342 میں طَبَرانِی شریف کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب،حبیبِ لبیب،طبیبوں کے طبیب صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ اٰذَی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہ۔(یعنی) جس نے (بِلاوجہِ شَرعی) کسی مسلمان کو اِیذا دی اُس نے مجھے اِیذا دی اور جس نے م
حکایت نمبر:1
تاریخ:6 اکتوبر 2020
موضوع:نفسیاتی مریضہ بن گئی
تحریر:عبدہ المذنب سید کامران عطاری مدنی عفا عنہ الباری
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلی الک واصحابک یا حبیب اللہ
ایک ڈاکٹر کا بیان ہے کہ ایک خاتون اور اس کا خاوند اپنی جوان بچی کے علاج معالجے کے لئے میرے پاس آئے۔انہوں نے بتایا کہ ہماری بچی نے ایم ایس سی کیا ہوا ہے اور پورے خاندان میں ہنس مکھ،ملنسار،عقلمند مشہور تھی، ایم ایس سی کرنے کے بعد آئے روز رشتے آنا شروع ہوگئے لیکن سانولی رنگت کی وجہ سے جو لوگ بھی آتے کئی اسی وقت انکار کردیتے تو کئی فون پر معذرت کردیتے۔ رشتہ دیکھنے والے بچی کو اس انداز سے دیکھتے جیسے انہوں نے کوئی بھیڑ بکری خریدنی ہو۔ ان کے دیکھنے کے انداز،تیکھے سوالات اور پھر انکار نے ہماری پھول جیسی بچی کے دل کو ایسی ٹھیس پہنچائی کہ ہماری بچی شروع شروع میں کھوئی کھوئی رہتی پھر اس نے مکمل چپ سادھ لی ہر وقت اپنے آپ کو کمرے میں قید کیا ہوا ہے کھانا بھی زبردستی کھلانا پڑتا ہے۔ ایسی حالت کی وجہ سے ہماری بچی دن بدن کمزور ہوکر ہڈیوں کا ڈھانچا بن گئی ہے۔عاملوں کے پاس جائیں تو وہ کالے جادو کا کہہ دیتے ہیں ڈاکٹرز کے پاس جائیں تو وہ نفسیاتی مریضہ قرار دیتے ہیں،کسی بھی طریقہ علاج سے فائدہ نہیں ہو رہا۔بچی کے حالات بتاتے ہوئے دُکھیارے والدین نے رونا شروع کر دیا۔
نصیحت:ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن یہاں رہتا تنہا نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے،ہماری ذات سے کبھی کسی کو راحت پہنچتی ہے تو کبھی تکلیف اور کبھی کچھ بھی نہیں یعنی تکلیف نہ راحت،اگر دیگر مسلمانوں کو ہم سے راحت پہنچے گی تو نیتِ خیر ہونے کی صورت میں ہمیں اس کا ثواب ملے گا، بلا وجہِ شرعی تکلیف پہنچائیں گے تو عذاب کی حقداری ہے اور تیسری صورت میں نہ ثواب نہ عذاب۔کوشش ہونی چاہئے کہ ہم باعثِ زحمت نہیں سببِ راحت بنیں۔اس حوالے سے ہمارے رویّے مختلف ہوتے ہیں،بعض کی اس طرف خوب توجہ ہوتی ہے کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے،اگر ان سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچ بھی جائے تو انہیں احساسِ نَدامت ہوتا ہے اور وہ توبہ کرکے اس سے فورا معافی مانگ لیتے ہیں،جبکہ کچھ اس حوالے سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ انہوں نے کسی کو تکلیف پہنچا دی ہے اور کئی اس بات کی خواہش تو رکھتے ہیں کہ کسی کو ان سے تکلیف نہ پہنچے لیکن معلومات کی کمی اور غیر محتاط انداز کی وجہ سے اکثر انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ اپنی حرکات وسکنات سے دوسرے کو تکلیف میں مبتلا کرچکے ہیں۔
ہمارا پیارا مذہب اسلام ہر مسلمان کی جان،مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے چنانچہ حضورِ پاک،صاحبِ لَولاک صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حرمت نشان ہے:کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضُہٗ یعنی ہر مسلمان کا خون،مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
(مسلم،کتاب البر والصلۃ،باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔الخ،ص 1386،حدیث:3564)
مُفَسِّرِ شَہِیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:کوئی مسلمان کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی اجازت نہ لے،کسی کی آبروریزی نہ کرے،کسی مسلمان کو ناحق اور ظُلمًا قتل نہ کرے،کہ یہ سب سخت جُرْم ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،جلد 6،ص 553)
مفتی صاحب ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:مسلمان کو نہ تو دل میں حقیر جانو ! نہ اُسے حقارت کے الفاظ سے پکارو ! یا بُرے لَقَب سے یاد کرو ! نہ اس کا مذاق بناؤ ! آج ہم میں یہ عیب بہت ہے،پیشوں،نسبوں،یا غربت و اِفلاس کی وجہ سے مسلمان بھائی کو حقیر جانتے ہیں کہ وہ پنجابی ہے،وہ بنگالی،وہ سندھی،وہ سرحدی،اسلام نے یہ سارے فرق مٹا دیئے۔شہد کی مکھی مختلف پھولوں کے رس چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ہوجاتا ہے۔مختلف لکڑیوں کو آگ جلا دے تو اس کا نام راکھ ہوجاتا ہے۔یوں ہی جب حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کا دامن پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہوگئے،حبشی ہو یا رُومی !(مراٰۃ المناجیح،جلد 6،ص 553)
دامنِ مصطفیٰ سے جو لپٹا یگانہ ہوگیا
جس کے حضور ہوگئے اس کا زمانہ ہوگیا
جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی بلا اِجازتِ شرعی مسلمان کو تکلیف دینا کتنی بڑی جُرأت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اعلیٰ حضرت،مجدِّدِ دین وملت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی رضویہ شریف جلد 24 صَفْحَہ 342 میں طَبَرانِی شریف کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب،حبیبِ لبیب،طبیبوں کے طبیب صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ اٰذَی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہ۔(یعنی) جس نے (بِلاوجہِ شَرعی) کسی مسلمان کو اِیذا دی اُس نے مجھے اِیذا دی اور جس نے م
جھے ایذا دی اُس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو اِیذا دی۔(المعجم الاوسط،جلد 3،ص 387،حدیث 3607)
اللّٰہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذا دینے والوں کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پارہ22 سورۃُ الْاَحزاب آیت 57 میں ارشاد فرماتاہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿57﴾
ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللّٰہ اور اس کے رسول کوان پر اللّٰہ کی لعنت ہے دنیا وآخرت میں اور اللّٰہ نے ان کیلئے ذلّت کا عذاب تیارکررکھا ہے۔
ذراسوچئے کہ کون سا مسلمان اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اللّٰہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اِیذا دے اور جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے!ہم قہرِقہّار اور غضبِ جبّار عزوجل سے اُسی کی پناہ مانگتے ہیں۔
خدایا! کسی کا نہ دل میں دکھاؤں
اماں تیرے اَبَدی عذابوں سے پاؤں
کس قدر بدترین جُرْم ہے!
حضرتِ سیدنا فُضَیل رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ کتّے اور سؤر کو بھی ناحق اِیذا (یعنی تکلیف)دینا حلال نہیں تو مومنین و مومنات کو اِیذا دینا کس قدر بدترین جُرْم ہے۔(خزائن العرفان،پ22،الاحزاب،زیرِ آیت :58)
(کتاب تکلیف نہ دیجئے از المدینۃ العلمیۃ سے اقتباس)
سمجھدار اور عقلمند کے لیے اتنی ہی نصیحت کافی ہے۔
اس سلسلے کے حوالے سے اگر آپ ہمیں کوئی مفید مشورہ دینا چاہیں یا ہمارے ساتھ مل کے دینِ اسلام کی خدمت کرنا چاہیں یا اپنے دوستوں،رشتہ داروں کو اس سلسلے میں شامل کرنا چاہیں تو اس نمبر پر وٹس اپ میسج کریں۔ شکریہ
طالبِ دعا: سید کامران عطاری مدنی عفی عنہ
اللّٰہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذا دینے والوں کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پارہ22 سورۃُ الْاَحزاب آیت 57 میں ارشاد فرماتاہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿57﴾
ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللّٰہ اور اس کے رسول کوان پر اللّٰہ کی لعنت ہے دنیا وآخرت میں اور اللّٰہ نے ان کیلئے ذلّت کا عذاب تیارکررکھا ہے۔
ذراسوچئے کہ کون سا مسلمان اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اللّٰہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اِیذا دے اور جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے!ہم قہرِقہّار اور غضبِ جبّار عزوجل سے اُسی کی پناہ مانگتے ہیں۔
خدایا! کسی کا نہ دل میں دکھاؤں
اماں تیرے اَبَدی عذابوں سے پاؤں
کس قدر بدترین جُرْم ہے!
حضرتِ سیدنا فُضَیل رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ کتّے اور سؤر کو بھی ناحق اِیذا (یعنی تکلیف)دینا حلال نہیں تو مومنین و مومنات کو اِیذا دینا کس قدر بدترین جُرْم ہے۔(خزائن العرفان،پ22،الاحزاب،زیرِ آیت :58)
(کتاب تکلیف نہ دیجئے از المدینۃ العلمیۃ سے اقتباس)
سمجھدار اور عقلمند کے لیے اتنی ہی نصیحت کافی ہے۔
اس سلسلے کے حوالے سے اگر آپ ہمیں کوئی مفید مشورہ دینا چاہیں یا ہمارے ساتھ مل کے دینِ اسلام کی خدمت کرنا چاہیں یا اپنے دوستوں،رشتہ داروں کو اس سلسلے میں شامل کرنا چاہیں تو اس نمبر پر وٹس اپ میسج کریں۔ شکریہ
طالبِ دعا: سید کامران عطاری مدنی عفی عنہ
سہ ماہی افکارِ رضا
شمارہ: ۱ - ۴۹
(جولائی ۱۹۹۵ء تا ستمبر ۲۰۰۷ء)
مرتب: سید صابرحسین شاہ بخاری القادری
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہٖ الکریم
کیامبارک نام ہے یہ نامِ افکارِ رضا سُنّیت کا ہے چھلکتا جام افکارِ رضا
دنیاے رضویت کے شاہین، برادرم جناب محمد زبیر قادری نے جو ایک دردمند اور فعال کارکن ہیں، انہوں نے اپنے مخلصین کے ساتھ ۱۹۹۲ء میں ممبئی میں ’’تحریکِ فکرِ رضا‘‘ کی بنیاد رکھی۔
اس تحریک کے اغراض و مقاصد درج ذیل تھے:
٭ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے افکار و نظریات کو زیادہ سے زیادہ متعارف کرانا۔
٭علماے اہلِ سُنّت و جماعت کی رہنمائی میں مفکرین اور محققین کی ایک ٹیم کا فکرِ رضا کی ترویج و اشاعت میں دن رات کوشاں رہنا۔
٭ امام احمدرضا کی تصانیف کو سہل انداز میں جدید اسلوب کے ساتھ شائع کرنا۔
٭ امام احمدرضا کی تصانیف کو ملک کی مختلف اور بین الاقوامی زبانوں میں شائع کرنا۔
٭ اربابِ فکر و دانش کو امام احمد رضا کی تحقیقات کی طرف متوجہ کرنا۔
٭ ہر اُٹھتے ہوے سوال کا امام احمدرضا کی تحقیقات کی روشنی میں جواب دینا۔
کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے لٹریچر انتہائی ضروری ہے۔ محمد زبیر قادری نے بھی تحریکِ فکرِ رضا کو کامیاب بنانے کے لیے لٹریچر کی طرف خصوصی توجہ دی۔ کتابیں شائع کیں اور اسٹیکرز شائع کرکے تقسیم کیے۔ امام احمد رضا کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے انھوں نے اہلِ سُنّت کو ایک نعرہ دیا ’’آپ سُنّی ہیں اور امام احمد رضا کو نہیں جانتے؟ تعجب ہے!!!‘‘ یہ نعرہ انھوں نے اسٹیکر کی شکل میں شائع کرکے عام کیا اور آج برسوں بعد بھی اُن کا یہ نعرہ دنیا بھر میں لوگوں کو اعلیٰ حضرت کی طرف راغب کررہا ہے۔ یہ نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ ہند و پاک کے بہت سارے ناشرین اسے شائع کر رہے ہیں۔ ایک دوست اللہ بخش مکاندار رضوی (ہبلی) نے تو کہا کہ زبیر قادری کا یہ نعرہ بارگاہِ رضویت میں مقبول ہوگیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک ایسے رسالے کی ضرورت تھی جو تحریکِ فکرِ رضا کا ترجمان بن کر سامنے آئے۔ محمد زبیر قادری کو افکارِ رضاکے اجرا کا خیال کیسے آیا؟ علامہ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی (مدیرِ اعلیٰ، جہانِ رضا،لاہور) کی زبانی سماعت فرمائیے:
’’ایک زمانہ تھا۔ ممبئی میں ہمارے ایک دوست معین الدین احمد، مالک اجمیری کتب خانہ مطبوعات منگوایا کرتے تھے۔ ہم ان کتابوں میں ’’جہانِ رضاــ‘‘ کے چند شمارے رکھ دیا کرتے تھے۔ محمد زبیر قادری چلتے پھرتے ’’جہانِ رضا‘‘ اُٹھاتے اور اوّل سے آخر تک پڑھتے اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے افکار کو دل کی گہرائیوں میں سمیٹتے۔ یہ مطالعہ، یہ محبت، یہ عشق انہیں کشاں کشاں بریلی کی گلیوں میں لے گیا۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے مزار پرلے گیا۔ اعلیٰ حضرت کی کتابوں کے ذخیروں میں لے گیا۔ افکارِ رضا کی وادیوں میں لے گیا۔ پھر گلستانِ رضا کے باغوں میں لے گیا۔ اور انہوں نے اعلان کیا کہ تحریک فکر رضا ممبئی ’’افکارِ رضا‘‘ جاری کرے گی اور لوگوں کو آواز دے کر کہا کہ :
’’رضاؔ کی زباں تمہارے لیے رضاؔ کی فغاں تمہارے لیے
ممبئی سے ’’افکارِ رضا‘‘ در اصل ’’جہانِ رضا،لاہور‘‘ کے باغوں کا ایک پھول بن کر نکلنے لگا۔‘‘ (۱)
محمد زبیر قادری خود بھی اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
’’ ہمیں ’’جہانِ رضا‘‘ کا انداز پسند آیا کہ جس میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کی حیات و خدمات کے پہلوؤں کو علمی و تحقیقی مثبت طریقے پر پیش کیا جاتا تھا، جس کے پڑھنے سے کالج و یونی ورسٹی کے افراد ضرور متاثر ہو سکتے تھے اور ہم نے مرکزی مجلسِ رضا کے سابقہ کام کی روشنی میں اندازہ لگایا کہ اب تک مجلسِ رضا نے پڑھے لکھے حلقوں میں اچھے اثرات مرتب کیے۔ میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ اس طرح کا کوئی رسالہ ہمیں بھی شائع کرنا چاہیے۔ گو کہ ہم بالکل ہی ناتجربہ کار تھے، اس سلسلے میں رہنمائی کے لیے کئی علماے کرام کو خطوط لکھے مگر ایک دو حضرات کے علاوہ کسی نے جواب تک نہیں دیا۔ تب مَیں نے علامہ اقبال احمد فاروقی صاحب کو لاہور خط بھیجا اور اپنی تنظیم کا تعارف کراکر تعاون و رہنمائی طلب کی۔ حضرت کا بہت حوصلہ افزا خط آیا، مجھے آج تک اس مختصر سے خط کا متن یاد ہے کہ: ’’آپ بے فکر ہوکر کام شروع کریں، ہم نے تو جب کام شروع کیا تھا تو صرف ایک رجسٹر اور قلم لے کر بیٹھے تھے، اگر آپ کو مالی تعاون کی بھی ضرورت پیش آئے تو ہم حاضر ہیں۔‘‘ (۲)
المختصر علامہ فاروقی کا یہی محبت نامہ محمد زبیر قادری کے لیے محرّک بنا اور انہوں نے نہایت بے سروسامانی کی حالت میں سہ ماہی مجلہ افکارِ رضا کے اجرا کا اعلان کردیا۔ ستمبر ۱۹۹۵ء میں افکارِ رضا کا مختصر شمارہ مطلعِ صحافت پر طلوع ہوا۔ فاضل مدیر کو احساس تھا کہ اس راہ میں کتنی مشکلات حائل ہوں گی لیکن اس کے باوجود آپ پُراعتماد تھے۔ چنانچہ اس کا اظہار آپ نے پہلے شمارے کے اداریے میں ان الفاظ میں کیا تھا:
’’تحریکِ فکرِ رضا، امام احمد رضا محدّث بریلوی کے افکار و نظریات کو عام کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے، بلا
شمارہ: ۱ - ۴۹
(جولائی ۱۹۹۵ء تا ستمبر ۲۰۰۷ء)
مرتب: سید صابرحسین شاہ بخاری القادری
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ‘ ونصلی علیٰ رسولہٖ الکریم
کیامبارک نام ہے یہ نامِ افکارِ رضا سُنّیت کا ہے چھلکتا جام افکارِ رضا
دنیاے رضویت کے شاہین، برادرم جناب محمد زبیر قادری نے جو ایک دردمند اور فعال کارکن ہیں، انہوں نے اپنے مخلصین کے ساتھ ۱۹۹۲ء میں ممبئی میں ’’تحریکِ فکرِ رضا‘‘ کی بنیاد رکھی۔
اس تحریک کے اغراض و مقاصد درج ذیل تھے:
٭ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے افکار و نظریات کو زیادہ سے زیادہ متعارف کرانا۔
٭علماے اہلِ سُنّت و جماعت کی رہنمائی میں مفکرین اور محققین کی ایک ٹیم کا فکرِ رضا کی ترویج و اشاعت میں دن رات کوشاں رہنا۔
٭ امام احمدرضا کی تصانیف کو سہل انداز میں جدید اسلوب کے ساتھ شائع کرنا۔
٭ امام احمدرضا کی تصانیف کو ملک کی مختلف اور بین الاقوامی زبانوں میں شائع کرنا۔
٭ اربابِ فکر و دانش کو امام احمد رضا کی تحقیقات کی طرف متوجہ کرنا۔
٭ ہر اُٹھتے ہوے سوال کا امام احمدرضا کی تحقیقات کی روشنی میں جواب دینا۔
کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے لٹریچر انتہائی ضروری ہے۔ محمد زبیر قادری نے بھی تحریکِ فکرِ رضا کو کامیاب بنانے کے لیے لٹریچر کی طرف خصوصی توجہ دی۔ کتابیں شائع کیں اور اسٹیکرز شائع کرکے تقسیم کیے۔ امام احمد رضا کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے انھوں نے اہلِ سُنّت کو ایک نعرہ دیا ’’آپ سُنّی ہیں اور امام احمد رضا کو نہیں جانتے؟ تعجب ہے!!!‘‘ یہ نعرہ انھوں نے اسٹیکر کی شکل میں شائع کرکے عام کیا اور آج برسوں بعد بھی اُن کا یہ نعرہ دنیا بھر میں لوگوں کو اعلیٰ حضرت کی طرف راغب کررہا ہے۔ یہ نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ ہند و پاک کے بہت سارے ناشرین اسے شائع کر رہے ہیں۔ ایک دوست اللہ بخش مکاندار رضوی (ہبلی) نے تو کہا کہ زبیر قادری کا یہ نعرہ بارگاہِ رضویت میں مقبول ہوگیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک ایسے رسالے کی ضرورت تھی جو تحریکِ فکرِ رضا کا ترجمان بن کر سامنے آئے۔ محمد زبیر قادری کو افکارِ رضاکے اجرا کا خیال کیسے آیا؟ علامہ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی (مدیرِ اعلیٰ، جہانِ رضا،لاہور) کی زبانی سماعت فرمائیے:
’’ایک زمانہ تھا۔ ممبئی میں ہمارے ایک دوست معین الدین احمد، مالک اجمیری کتب خانہ مطبوعات منگوایا کرتے تھے۔ ہم ان کتابوں میں ’’جہانِ رضاــ‘‘ کے چند شمارے رکھ دیا کرتے تھے۔ محمد زبیر قادری چلتے پھرتے ’’جہانِ رضا‘‘ اُٹھاتے اور اوّل سے آخر تک پڑھتے اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے افکار کو دل کی گہرائیوں میں سمیٹتے۔ یہ مطالعہ، یہ محبت، یہ عشق انہیں کشاں کشاں بریلی کی گلیوں میں لے گیا۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے مزار پرلے گیا۔ اعلیٰ حضرت کی کتابوں کے ذخیروں میں لے گیا۔ افکارِ رضا کی وادیوں میں لے گیا۔ پھر گلستانِ رضا کے باغوں میں لے گیا۔ اور انہوں نے اعلان کیا کہ تحریک فکر رضا ممبئی ’’افکارِ رضا‘‘ جاری کرے گی اور لوگوں کو آواز دے کر کہا کہ :
’’رضاؔ کی زباں تمہارے لیے رضاؔ کی فغاں تمہارے لیے
ممبئی سے ’’افکارِ رضا‘‘ در اصل ’’جہانِ رضا،لاہور‘‘ کے باغوں کا ایک پھول بن کر نکلنے لگا۔‘‘ (۱)
محمد زبیر قادری خود بھی اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
’’ ہمیں ’’جہانِ رضا‘‘ کا انداز پسند آیا کہ جس میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کی حیات و خدمات کے پہلوؤں کو علمی و تحقیقی مثبت طریقے پر پیش کیا جاتا تھا، جس کے پڑھنے سے کالج و یونی ورسٹی کے افراد ضرور متاثر ہو سکتے تھے اور ہم نے مرکزی مجلسِ رضا کے سابقہ کام کی روشنی میں اندازہ لگایا کہ اب تک مجلسِ رضا نے پڑھے لکھے حلقوں میں اچھے اثرات مرتب کیے۔ میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ اس طرح کا کوئی رسالہ ہمیں بھی شائع کرنا چاہیے۔ گو کہ ہم بالکل ہی ناتجربہ کار تھے، اس سلسلے میں رہنمائی کے لیے کئی علماے کرام کو خطوط لکھے مگر ایک دو حضرات کے علاوہ کسی نے جواب تک نہیں دیا۔ تب مَیں نے علامہ اقبال احمد فاروقی صاحب کو لاہور خط بھیجا اور اپنی تنظیم کا تعارف کراکر تعاون و رہنمائی طلب کی۔ حضرت کا بہت حوصلہ افزا خط آیا، مجھے آج تک اس مختصر سے خط کا متن یاد ہے کہ: ’’آپ بے فکر ہوکر کام شروع کریں، ہم نے تو جب کام شروع کیا تھا تو صرف ایک رجسٹر اور قلم لے کر بیٹھے تھے، اگر آپ کو مالی تعاون کی بھی ضرورت پیش آئے تو ہم حاضر ہیں۔‘‘ (۲)
المختصر علامہ فاروقی کا یہی محبت نامہ محمد زبیر قادری کے لیے محرّک بنا اور انہوں نے نہایت بے سروسامانی کی حالت میں سہ ماہی مجلہ افکارِ رضا کے اجرا کا اعلان کردیا۔ ستمبر ۱۹۹۵ء میں افکارِ رضا کا مختصر شمارہ مطلعِ صحافت پر طلوع ہوا۔ فاضل مدیر کو احساس تھا کہ اس راہ میں کتنی مشکلات حائل ہوں گی لیکن اس کے باوجود آپ پُراعتماد تھے۔ چنانچہ اس کا اظہار آپ نے پہلے شمارے کے اداریے میں ان الفاظ میں کیا تھا:
’’تحریکِ فکرِ رضا، امام احمد رضا محدّث بریلوی کے افکار و نظریات کو عام کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے، بلا
ا پہلا مصرعہ، جبکہ باقی ترتیب حسبِ سابق ہے۔
۵- تبصرہ ہاے کتب: سب سے پہلے کتاب کا نام، پھر مصنف کا نام اور قوسین میں مبصر کا نام۔ بقیہ ترتیب حسبِ سابق ہی ہے۔
۶- رضا نامے: سب سے پہلے خط لکھنے والے کا نام، قوسین میں مقام، جبکہ دیگر ترتیب حسبِ سابق۔
راقم نے افکارِ رضا میںتمام مشمولات کاجامع اور مفصل اشاریہ ترتیب دیا ہے۔ یقینا رضویات میں کسی رسالے کا یہ مکمل اشاریہ ہے۔ امید ہے اہلِ قلم ضرور اس سے مستفید ہوں گے اور اس فقیرِ بے نوا کو اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ پاک ﷺ کے صدقے میں ہم سب کو دین و دنیا میں کامرانی عطا فرمائے۔ اٰمین ثم امین بجاہ سید المرسلین ﷺ و اصحابہٖ اجمعین۔
احقر صابر حسین بخاری
۲۷؍ محرم ۱۴۲۹ھ / ۶؍ فروری ۲۰۰۸ء
حوالہ جات
۱- جہانِ رضا : لاہور،دسمبر۲۰۰۷ء،ش۱۵۰،ص۶۲-۶۳
۲- افکارِ رضا : ممبئی،جنوری/جون ۲۰۰۲ء،ش۲۷،۲۸،ص۹۰
۳- افکارِ رضا : ممبئی،ستمبر۱۹۹۵ء،ش۱،ص۲
۴- افکارِ رضا : ممبئی،جولائی/ستمبر۱۹۹۷ء،ش۹،ص۴۲
۵- افکارِ رضا : ممبئی،جنوری/جون۲۰۰۲ء،ش۲۷،۲۸،ص۹۴
۶- جہانِ رضا : لاہور،دسمبر۲۰۰۷ء،ش۱۵۰،ص۶۲
۵- تبصرہ ہاے کتب: سب سے پہلے کتاب کا نام، پھر مصنف کا نام اور قوسین میں مبصر کا نام۔ بقیہ ترتیب حسبِ سابق ہی ہے۔
۶- رضا نامے: سب سے پہلے خط لکھنے والے کا نام، قوسین میں مقام، جبکہ دیگر ترتیب حسبِ سابق۔
راقم نے افکارِ رضا میںتمام مشمولات کاجامع اور مفصل اشاریہ ترتیب دیا ہے۔ یقینا رضویات میں کسی رسالے کا یہ مکمل اشاریہ ہے۔ امید ہے اہلِ قلم ضرور اس سے مستفید ہوں گے اور اس فقیرِ بے نوا کو اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ پاک ﷺ کے صدقے میں ہم سب کو دین و دنیا میں کامرانی عطا فرمائے۔ اٰمین ثم امین بجاہ سید المرسلین ﷺ و اصحابہٖ اجمعین۔
احقر صابر حسین بخاری
۲۷؍ محرم ۱۴۲۹ھ / ۶؍ فروری ۲۰۰۸ء
حوالہ جات
۱- جہانِ رضا : لاہور،دسمبر۲۰۰۷ء،ش۱۵۰،ص۶۲-۶۳
۲- افکارِ رضا : ممبئی،جنوری/جون ۲۰۰۲ء،ش۲۷،۲۸،ص۹۰
۳- افکارِ رضا : ممبئی،ستمبر۱۹۹۵ء،ش۱،ص۲
۴- افکارِ رضا : ممبئی،جولائی/ستمبر۱۹۹۷ء،ش۹،ص۴۲
۵- افکارِ رضا : ممبئی،جنوری/جون۲۰۰۲ء،ش۲۷،۲۸،ص۹۴
۶- جہانِ رضا : لاہور،دسمبر۲۰۰۷ء،ش۱۵۰،ص۶۲
شبہہ اس راہ میں بہت دشواریاں ہیں اور ہماری ناتجربہ کاری بھی کوششوں میں حائل ہے، لیکن ہمارا مقصد خالص ہے اور ہمیں اللہ رب العزت اور اس کے پیارے محبوب ﷺ پر مکمل اعتماد ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔‘‘ (۳)
افکارِ رضا تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔ اگرچہ اس کی تیز رفتاری میں کئی رکاوٹیں آئیں، لیکن فاضل مدیر نے نہایت ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، جب افکارِ رضا میں تاخیر ہوجاتی تو فاضل مدیر کے جذبات و ا حساسات کچھ اس طرح سامنے آتے تھے:-
’’افکارِ رضا کا زیرِ نظر شمارہ بہت تاخیرسے آپ کے ہاتھوں میں پہنچ رہا ہے۔ قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ موجودہ دور میں رسالہ جاری کرنا کس قدر دشوار طلب کام ہے۔ چہ جائیکہ اسے شائع کرکے مفت تقسیم کرنا، قارئین دعا فرمائیں کہ فروغِ فکر رضا کے اس مشن کو مستقل جاری رکھ سکیں۔‘‘ (۴)
مزید ملاحظہ فرمائیے:
’’افکارِ رضا کا موجودہ شمارہ کافی تاخیر سے شائع ہورہا ہے، آج تک اس قدر تاخیر کبھی نہیں ہوئی۔ ہمیں کچھ مسائل درپیش تھے جو آہستہ آہستہ دور ہورہے ہیں۔ ترقی کی جانب گامزن ہونے کے لیے ہم نے کچھ اقدامات کیے تھے، اس لیے ہماری ساری توجہ اس طرف ہی مبذول ہوگئی تھی۔ ان شاء اللہ قارئین اگر ہمارے لیے دعاگو رہے تو ہم ضرور واپس آپ کی خدمت میں افکارِ رضا کو مزید بہتر طور پر پیش کرسکیں گے۔‘‘ (۵)
دیکھا! جذبات میں کس قدر کرب پنہاں ہے۔ زبیر قادری نے نہایت مشکل حالات میں بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور افکارِ رضا کو بند نہ ہونے دیا اور امیدِ واثق ہے کہ آیندہ بھی آپ کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئے گی۔ ان شاء اللہ
دنیاے رضویات میں ’’معارفِ رضا‘‘ (کراچی)، جہانِ رضا(لاہور) اور افکارِ رضا(ممبئی) کو شہرتِ عام اور بقاے دوام حاصل ہے۔ جہاں جہاں معارفِ رضا اور جہانِ رضا پہنچا، وہاں وہاں افکارِ رضا نے بھی دستک دی۔ جب بھی کوئی محقق فکرِ رضا کا ارتقائی سفر ترتیب دے گا تو ان رسائل کو نظر انداز نہیں کرسکے گا۔
علامہ فاروقی جو دنیاے رضویات کے مایہ ناز ادیب ہیں، افکارِ رضا کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’مَیں افکارِ رضا کا قاری ہوں۔ اس کا صفحہ صفحہ میرے سامنے کھلتا ہے تو دل و جان وجد کرنے لگتے ہیں۔ اس کے ادارئیے افکارِ رضا کی روشن تحریریں ہیں، بلند پایہ مضامین اور علمی مقالات مجھے دعوتِ مطالعہ دیتے ہیں، مجھے افکارِ رضا کے رضا نامے اور ادارئیے گلہاے رنگا رنگ دکھائی دیتے ہیں، رضا ناموں میں تنقید وتحسین کے نقش و نگار افکارِ رضا کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ یہ واحد جریدہ ہے جو سارے ہندستان میں فکر رضا کی ترجمانی کرتا ہے اور دنیاے رضویت کے اہلِ علم و فضل اسے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘ (۶)
افکارِ رضا کے اب تک ۴۹ شمارے شائع ہوچکے ہیں، ان شماروں میں اداریات، مقالات، متفرقات، منظومات، تبصرئہ کتب اور رضا نامے شامل ہیں۔ مجموعی طور پر ان شماروں کے ۳۸۷۲ صفحات بنتے ہیں۔ فاضل مدیر اس کا پچاسواں شمارہ ایک خاص نمبر کے طور پر سامنے لا رہے ہیں جو رضویات پر ایک عظیم احسان اور ضخیم نمبر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
راقم بعض مجبوریوں کے پیشِ نظر اس عظیم نمبر کے لیے کچھ نہ لکھ سکا، جس کا قلق تھا۔ لیکن جب خلیل احمد رانا صاحب نے جہانیاں سے، شکیل احمد قادری عطاری نے خانیوال سے اور سید منور علی شاہ بخاری رضوی نے امریکہ سے راقم کو افکارِ رضا کے خاص نمبر میں شمولیت کے لیے اصرار کیا اور آخر الذکر منور شاہ نے کہا کہ کم از کم افکارِ رضا کا اشاریہ ہی ترتیب دے دیں تاکہ خاص نمبر کی افادیت میں اضافہ کیا جائے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ معارفِ رضا کے سالناموں کا اشاریہ بھی راقم نے ترتیب دیا تھا اوراب افکارِ رضا کے اشارئیے کے لیے بھی منور شاہ بخاری نے اس فقیرِ بے نوا کا انتخاب فرمایا۔ یہ ایک اچھا خیال اُن کو آیا اور راقم نے اپنی دیگر مصروفیات ترک کرکے اپنی توجہ افکارِ رضا کے اشارئیے پر مرکوز کردی۔
یہ اشاریہ نہایت عجلت میں صرف ایک ہفتے میں مرتب ہوا۔ مَیں مشکور ہوں جناب حسن نواز شاہ (اسلام آباد) کا کہ انہوں نے میری گزارش پر کمپوز کرکے مدیرِ مجلہ کو ای-میل کردیا۔
پیشِ نظر اشاریہ چھ حصص پر مشتمل ہے: -
۱- اداریات: عنوانات کی ترتیب سے اداریات کا اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے اور جن اداریوں پر عنوانات نہیں تھے انہیں سرسری نظر سے پڑھ کر اپنی طرف سے عنوانات قائم کر دیے ہیں۔ ترتیب الفابائی ہے۔ تقریباً تمام ہی اداریے مدیر محترم محمد زبیر قادری نے لکھے ہیں، البتہ کچھ اداریے دوسروں کے بھی شائع کیے گئے ہیں۔ لہٰذا صرف اُن اداریوں کے آگے اُن کے نام لکھ دیے گئے ہیں۔
۲- مقالات: مقالہ نگار کا نام، اس کے نیچے عنوانِ مقالہ، شمارہ نمبر اور قوسین میں ماہ و سال، آخر میں وہ صفحات جن پر مقالہ موجود ہے۔ اندراجات کی ترتیب مقالہ نگاروں کے اعتبار سے الفا بائی ہے۔
۳- متفرقات: اس میں شذرات، اعلانات وغیرہ شامل ہیں۔
۴- منظومات: سب سے پہلے شاعر کا تخلص، قوسین میں پورا نام اور صنفِ سخن ک
افکارِ رضا تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔ اگرچہ اس کی تیز رفتاری میں کئی رکاوٹیں آئیں، لیکن فاضل مدیر نے نہایت ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، جب افکارِ رضا میں تاخیر ہوجاتی تو فاضل مدیر کے جذبات و ا حساسات کچھ اس طرح سامنے آتے تھے:-
’’افکارِ رضا کا زیرِ نظر شمارہ بہت تاخیرسے آپ کے ہاتھوں میں پہنچ رہا ہے۔ قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ موجودہ دور میں رسالہ جاری کرنا کس قدر دشوار طلب کام ہے۔ چہ جائیکہ اسے شائع کرکے مفت تقسیم کرنا، قارئین دعا فرمائیں کہ فروغِ فکر رضا کے اس مشن کو مستقل جاری رکھ سکیں۔‘‘ (۴)
مزید ملاحظہ فرمائیے:
’’افکارِ رضا کا موجودہ شمارہ کافی تاخیر سے شائع ہورہا ہے، آج تک اس قدر تاخیر کبھی نہیں ہوئی۔ ہمیں کچھ مسائل درپیش تھے جو آہستہ آہستہ دور ہورہے ہیں۔ ترقی کی جانب گامزن ہونے کے لیے ہم نے کچھ اقدامات کیے تھے، اس لیے ہماری ساری توجہ اس طرف ہی مبذول ہوگئی تھی۔ ان شاء اللہ قارئین اگر ہمارے لیے دعاگو رہے تو ہم ضرور واپس آپ کی خدمت میں افکارِ رضا کو مزید بہتر طور پر پیش کرسکیں گے۔‘‘ (۵)
دیکھا! جذبات میں کس قدر کرب پنہاں ہے۔ زبیر قادری نے نہایت مشکل حالات میں بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور افکارِ رضا کو بند نہ ہونے دیا اور امیدِ واثق ہے کہ آیندہ بھی آپ کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئے گی۔ ان شاء اللہ
دنیاے رضویات میں ’’معارفِ رضا‘‘ (کراچی)، جہانِ رضا(لاہور) اور افکارِ رضا(ممبئی) کو شہرتِ عام اور بقاے دوام حاصل ہے۔ جہاں جہاں معارفِ رضا اور جہانِ رضا پہنچا، وہاں وہاں افکارِ رضا نے بھی دستک دی۔ جب بھی کوئی محقق فکرِ رضا کا ارتقائی سفر ترتیب دے گا تو ان رسائل کو نظر انداز نہیں کرسکے گا۔
علامہ فاروقی جو دنیاے رضویات کے مایہ ناز ادیب ہیں، افکارِ رضا کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’مَیں افکارِ رضا کا قاری ہوں۔ اس کا صفحہ صفحہ میرے سامنے کھلتا ہے تو دل و جان وجد کرنے لگتے ہیں۔ اس کے ادارئیے افکارِ رضا کی روشن تحریریں ہیں، بلند پایہ مضامین اور علمی مقالات مجھے دعوتِ مطالعہ دیتے ہیں، مجھے افکارِ رضا کے رضا نامے اور ادارئیے گلہاے رنگا رنگ دکھائی دیتے ہیں، رضا ناموں میں تنقید وتحسین کے نقش و نگار افکارِ رضا کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ یہ واحد جریدہ ہے جو سارے ہندستان میں فکر رضا کی ترجمانی کرتا ہے اور دنیاے رضویت کے اہلِ علم و فضل اسے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘ (۶)
افکارِ رضا کے اب تک ۴۹ شمارے شائع ہوچکے ہیں، ان شماروں میں اداریات، مقالات، متفرقات، منظومات، تبصرئہ کتب اور رضا نامے شامل ہیں۔ مجموعی طور پر ان شماروں کے ۳۸۷۲ صفحات بنتے ہیں۔ فاضل مدیر اس کا پچاسواں شمارہ ایک خاص نمبر کے طور پر سامنے لا رہے ہیں جو رضویات پر ایک عظیم احسان اور ضخیم نمبر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
راقم بعض مجبوریوں کے پیشِ نظر اس عظیم نمبر کے لیے کچھ نہ لکھ سکا، جس کا قلق تھا۔ لیکن جب خلیل احمد رانا صاحب نے جہانیاں سے، شکیل احمد قادری عطاری نے خانیوال سے اور سید منور علی شاہ بخاری رضوی نے امریکہ سے راقم کو افکارِ رضا کے خاص نمبر میں شمولیت کے لیے اصرار کیا اور آخر الذکر منور شاہ نے کہا کہ کم از کم افکارِ رضا کا اشاریہ ہی ترتیب دے دیں تاکہ خاص نمبر کی افادیت میں اضافہ کیا جائے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ معارفِ رضا کے سالناموں کا اشاریہ بھی راقم نے ترتیب دیا تھا اوراب افکارِ رضا کے اشارئیے کے لیے بھی منور شاہ بخاری نے اس فقیرِ بے نوا کا انتخاب فرمایا۔ یہ ایک اچھا خیال اُن کو آیا اور راقم نے اپنی دیگر مصروفیات ترک کرکے اپنی توجہ افکارِ رضا کے اشارئیے پر مرکوز کردی۔
یہ اشاریہ نہایت عجلت میں صرف ایک ہفتے میں مرتب ہوا۔ مَیں مشکور ہوں جناب حسن نواز شاہ (اسلام آباد) کا کہ انہوں نے میری گزارش پر کمپوز کرکے مدیرِ مجلہ کو ای-میل کردیا۔
پیشِ نظر اشاریہ چھ حصص پر مشتمل ہے: -
۱- اداریات: عنوانات کی ترتیب سے اداریات کا اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے اور جن اداریوں پر عنوانات نہیں تھے انہیں سرسری نظر سے پڑھ کر اپنی طرف سے عنوانات قائم کر دیے ہیں۔ ترتیب الفابائی ہے۔ تقریباً تمام ہی اداریے مدیر محترم محمد زبیر قادری نے لکھے ہیں، البتہ کچھ اداریے دوسروں کے بھی شائع کیے گئے ہیں۔ لہٰذا صرف اُن اداریوں کے آگے اُن کے نام لکھ دیے گئے ہیں۔
۲- مقالات: مقالہ نگار کا نام، اس کے نیچے عنوانِ مقالہ، شمارہ نمبر اور قوسین میں ماہ و سال، آخر میں وہ صفحات جن پر مقالہ موجود ہے۔ اندراجات کی ترتیب مقالہ نگاروں کے اعتبار سے الفا بائی ہے۔
۳- متفرقات: اس میں شذرات، اعلانات وغیرہ شامل ہیں۔
۴- منظومات: سب سے پہلے شاعر کا تخلص، قوسین میں پورا نام اور صنفِ سخن ک
یہ تھے ایک ہزار سال پہلے کے حالات اور اب۔۔۔؟ الامان والحفیظ!!
حضرت داتا گنج بخش سید ابو الحسن علی بن عثمان ہجویری (علیہ الرحمہ) آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل اپنے زمانے کے حالات اپنی کتاب مستطاب ”کشف المحجوب شریف“ میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
الله تعالی نے ہمیں ایسے زمانہ میں پیدا فرمایا ہے کہ لوگوں نے
• اپنی خواہشات کا نام شریعت،
• حُبِّ جاہ کا نام عزت،
• تکبر کا نام علم،
• اور ریاکاری کا نام تقوی رکھ لیا ہے۔
• اور دل میں کینہ کو چھپانے کا نام حلم،
• مجادلہ کا نام مناظرہ،
• محاربہ و بیوقوفی کا نام عظمت،
• نفاق کا نام وفاق،
• آرزو تمنا کا نام زہد،
• ہذیانِ طبع کا نام معرفت،
• نفسانیت کا نام محبت،
• الحاد کا نام فقر،
• انکارِ وجود کا نام صفوت،
• بے دینی و زندقہ کا نام فنا،
• اور نبی کریم ﷺ کی شریعت کو ترک کرنے کا نام طریقت رکھ لیا ہے۔
• اور اہل دنیا کی آفتوں کو معاملہ کہنے لگے ہیں۔
(کشف المحجوب، صفحہ ٤۷)
حضرت داتا گنج بخش سید ابو الحسن علی بن عثمان ہجویری (علیہ الرحمہ) آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل اپنے زمانے کے حالات اپنی کتاب مستطاب ”کشف المحجوب شریف“ میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
الله تعالی نے ہمیں ایسے زمانہ میں پیدا فرمایا ہے کہ لوگوں نے
• اپنی خواہشات کا نام شریعت،
• حُبِّ جاہ کا نام عزت،
• تکبر کا نام علم،
• اور ریاکاری کا نام تقوی رکھ لیا ہے۔
• اور دل میں کینہ کو چھپانے کا نام حلم،
• مجادلہ کا نام مناظرہ،
• محاربہ و بیوقوفی کا نام عظمت،
• نفاق کا نام وفاق،
• آرزو تمنا کا نام زہد،
• ہذیانِ طبع کا نام معرفت،
• نفسانیت کا نام محبت،
• الحاد کا نام فقر،
• انکارِ وجود کا نام صفوت،
• بے دینی و زندقہ کا نام فنا،
• اور نبی کریم ﷺ کی شریعت کو ترک کرنے کا نام طریقت رکھ لیا ہے۔
• اور اہل دنیا کی آفتوں کو معاملہ کہنے لگے ہیں۔
(کشف المحجوب، صفحہ ٤۷)
ملفوظات مفتی محمد قاسم عطاری زید مجدہ صاحب
(وقت کی قدر )
1: علم الصیغہ درس نظامی میں علم الصرف کے موضوع پر بہت خاص کتاب ہے
اسکے مصنف علامہ محمد عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ کو جب انگریزوں نے سزا کے طور پر ایک جزیرے میں تنہا قید کردیا تو آپ نے اس قید کے دوران اس کتاب کو تصنیف فرمایا
اور آپ کی ایک اور کتاب *تواریخ حبیب الالہ* بھی پاک و ہند میں بہت مشہور ہے
2: منطق و فلسفہ میں ایک بہت بڑا نام مجاہد تحریک آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کو بھی جب انگریزوں نے تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں کالے پانی کی سزا سنائی اور ایک جزیرے میں قید کردیا تو آپ نے اس وقت جذبہ جہاد پر مشتمل کتاب *الثورة الهندية* تصنیف فرمائی
3: فقہ حنفی میں جہاں بڑی بڑی کتب جیسے بحرالرائق، ھدایہ، فتاوی شامی اورفتح القدیرکے نام ہیں ان ناموں میں ایک نام مبسوط سرخسی بھی ہے
جو 30 جلدوں پر مشتمل ہے اور فقہ حنفی کا ایک عظیم الشان ذخیرہ ، علم کا دریا ، تحقیق و تنقیح اور تصحیح و ترجیح پر مشتمل ہے
جسے امام تصحیح و ترجیح علامہ سرخسی علیہ الرحمہ نے تصنیف فرمائی
اس کا سبب یہ بنا اس وقت کے حاکم نے آپ سے ناراض ہوکر کنواں میں ڈال دیا تو آپ کے شاگرد ہر روز قلم و کاغذ لیکر کنواں کی منڈیر پر حلقہ لگاتے اور آپ کنواں کے اندر سے بغیر کتب کے تقریر فرماتے اور آپ کے شاگرد لکھ لیا کرتے تھے جب آپ کی اس تقریر کو جمع کیا گیا تو 30 جلدوں پر مشتمل کتاب بنی
ان تینوں ہستیوں کے ذکر خیر کا مقصد یہ ہے اگر انسان میں کچھ کرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو کہ اپنی زندگی کو بامقصد بنائے تو یہ جوش و جذبہ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے؛ کنوئے میں بیٹھ کر اورجزیرے میں تنہا قید میں بھی کچھ کرنے پر ابھارتا ہے اور مثال آپ کے سامنے ہے
🌺 اپنی سوچ؛اپنی صلاحیت اور اپنے طرز عمل سے مستقبل وجود میں آتا ہے
مستقبل کے بارے میں کسی بندے نے کیا خوب کہا
اپنے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرنا بہت آسان ہے کہ وہ اپنا مستقبل بتاسکتا ہے وہ اس طرح کہ آپ اپنا مستقبل خود بناتے ہیں جو بنارہے ہیں اسے بتا بھی سکتے ہیں
🌺 انسان دو طرح کے ہوتے ہیں
Active
یعنی متحرک یہ وہ ہوتے ہیں جو باہمت و با حوصلہ لوگ ہوتے ہیں اپنے مواقع بناتے ہیں پھر انہیں استعمال بھی کرتے ہیں
Passive
جنھیں غیر متحرک کہا جاتا ہے یہ وہ ہوتے ہیں جو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں
اور یہ لوگ زمین پر مردوں جیسی زندگی گزارتےہیں کہ انہیں دن ،رات کسی چیز کا شعور نہیں ہوتا جیسے مردے کو قبر میں دن ہے یا رات ، جمعہ ہے کہ ہفتہ کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا تو اسی طرح فارغ لوگ ہیں
🌺 زندگی میں کامیاب وہی شخص ہوتا ہے جو اپنے وقت کو ڈھنگ سے گزارے
اور زندہ وہ ہوتا ہے جس کا ہر آنے والا دن اس کی زندگی میں اضافہ کرے خواہ علم میں ہو یا عمل میں، سوچ میں ہویا کام میں
اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
*اغتنم خمسا من خمس و ذکر منھا فراغک من شغلک*
پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو اور ان میں ایک ذکر فرمایا
مصروفیت سے پہلے فرصت کو غنیمت جانو
وقت سونا ہے اور یہ ہم پہ Depend کرتا ہے کہ ہم اسے سونے سے جواہرات کی طرف منتقل کرتے ہیں یا اسے مٹی میں ملا دیتے ہیں
سونے سے جواہرات میں تبدیل کرنا سے مراد علم دین حاصل کرنے میں گزارنا ہے یا بیکار گزار کر مٹی میں ملا دیتے ہیں
🌺کسی کامیاب شخص کو دیکھ کر یہ کہنا اسکی قسمت میں لکھا تھا اس وجہ سے کامیاب ہوا یہ ناکام لوگوں کا جملہ ہے قسمت و تقدیر یقینا ہوتی ہے لیکن تقدیر کے ساتھ تدبیر بھی شامل ہے کہ بندہ مجبور محض نہیں ہے
*كل صغير و كبير مستطر* یہ تقدیرہے
لیکن *ليس للإنسان إلا ما سعى* یہ تدبیر بھی ہے
اور دونوں کا ذکر قرآن مجید میں مذکور ہے
ناکام لوگ اپنی ناکامی کو تقدیر کے پیچھے چھپاتے ہیں اور دوسروں کی کامیابی کو تقدیر پر ڈالتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
*یہ اگر مگر کرنا بندہ پر شیطان کا دروازہ کھول دیتا ہے*
🌺ہم جہاں ہوتے ہیں اپنی سوچ کی وجہ سے ہوتے ہیں جیسی سوچ ویسی زندگی اور جیسی زندگی ویسے نتائج عمل میں آتے ہیں
🌺 انسان میں دو سطحیں ہوتی ہیں
ایک شعور
دوسرا لاشعور
لاشعور وہ ہوتا ہے جسے ہم محسوس نہیں کرتے مگر ہمارے اندر موجود ہوتا ہے
جو ہماری سوچ کے سامنے رہتا ہے وہ ہمارا شعور ہے
لا شعور میں وہ جاتا ہے جو شعور میں آتا ہے کہ یہ مجھ میں لاشعوری ہے
اگر شعور میں ہم جو چیز ڈالیں گے جیسے ہمت،جذبہ،علم،نیکی اورتقوی تو لاشعوری میں بھی وہی چیز داخل ہوگی
جیسے امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
بخیل شخص چاہتا ہے کہ وہ سخی بن جائےتو وہ صدقہ دینا شروع کردے تو اب اگر دینا اسے بوجھ لگتا ہے سو روپے کی بجائے ایک روپیہ روزانہ دے تو اس طرح عادت بنتی جائے گی اور جب محسوس کرے کہ اب دینے سے تنگدلی نہیں
(وقت کی قدر )
1: علم الصیغہ درس نظامی میں علم الصرف کے موضوع پر بہت خاص کتاب ہے
اسکے مصنف علامہ محمد عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ کو جب انگریزوں نے سزا کے طور پر ایک جزیرے میں تنہا قید کردیا تو آپ نے اس قید کے دوران اس کتاب کو تصنیف فرمایا
اور آپ کی ایک اور کتاب *تواریخ حبیب الالہ* بھی پاک و ہند میں بہت مشہور ہے
2: منطق و فلسفہ میں ایک بہت بڑا نام مجاہد تحریک آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کو بھی جب انگریزوں نے تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں کالے پانی کی سزا سنائی اور ایک جزیرے میں قید کردیا تو آپ نے اس وقت جذبہ جہاد پر مشتمل کتاب *الثورة الهندية* تصنیف فرمائی
3: فقہ حنفی میں جہاں بڑی بڑی کتب جیسے بحرالرائق، ھدایہ، فتاوی شامی اورفتح القدیرکے نام ہیں ان ناموں میں ایک نام مبسوط سرخسی بھی ہے
جو 30 جلدوں پر مشتمل ہے اور فقہ حنفی کا ایک عظیم الشان ذخیرہ ، علم کا دریا ، تحقیق و تنقیح اور تصحیح و ترجیح پر مشتمل ہے
جسے امام تصحیح و ترجیح علامہ سرخسی علیہ الرحمہ نے تصنیف فرمائی
اس کا سبب یہ بنا اس وقت کے حاکم نے آپ سے ناراض ہوکر کنواں میں ڈال دیا تو آپ کے شاگرد ہر روز قلم و کاغذ لیکر کنواں کی منڈیر پر حلقہ لگاتے اور آپ کنواں کے اندر سے بغیر کتب کے تقریر فرماتے اور آپ کے شاگرد لکھ لیا کرتے تھے جب آپ کی اس تقریر کو جمع کیا گیا تو 30 جلدوں پر مشتمل کتاب بنی
ان تینوں ہستیوں کے ذکر خیر کا مقصد یہ ہے اگر انسان میں کچھ کرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو کہ اپنی زندگی کو بامقصد بنائے تو یہ جوش و جذبہ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے؛ کنوئے میں بیٹھ کر اورجزیرے میں تنہا قید میں بھی کچھ کرنے پر ابھارتا ہے اور مثال آپ کے سامنے ہے
🌺 اپنی سوچ؛اپنی صلاحیت اور اپنے طرز عمل سے مستقبل وجود میں آتا ہے
مستقبل کے بارے میں کسی بندے نے کیا خوب کہا
اپنے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرنا بہت آسان ہے کہ وہ اپنا مستقبل بتاسکتا ہے وہ اس طرح کہ آپ اپنا مستقبل خود بناتے ہیں جو بنارہے ہیں اسے بتا بھی سکتے ہیں
🌺 انسان دو طرح کے ہوتے ہیں
Active
یعنی متحرک یہ وہ ہوتے ہیں جو باہمت و با حوصلہ لوگ ہوتے ہیں اپنے مواقع بناتے ہیں پھر انہیں استعمال بھی کرتے ہیں
Passive
جنھیں غیر متحرک کہا جاتا ہے یہ وہ ہوتے ہیں جو ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں
اور یہ لوگ زمین پر مردوں جیسی زندگی گزارتےہیں کہ انہیں دن ،رات کسی چیز کا شعور نہیں ہوتا جیسے مردے کو قبر میں دن ہے یا رات ، جمعہ ہے کہ ہفتہ کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا تو اسی طرح فارغ لوگ ہیں
🌺 زندگی میں کامیاب وہی شخص ہوتا ہے جو اپنے وقت کو ڈھنگ سے گزارے
اور زندہ وہ ہوتا ہے جس کا ہر آنے والا دن اس کی زندگی میں اضافہ کرے خواہ علم میں ہو یا عمل میں، سوچ میں ہویا کام میں
اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
*اغتنم خمسا من خمس و ذکر منھا فراغک من شغلک*
پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو اور ان میں ایک ذکر فرمایا
مصروفیت سے پہلے فرصت کو غنیمت جانو
وقت سونا ہے اور یہ ہم پہ Depend کرتا ہے کہ ہم اسے سونے سے جواہرات کی طرف منتقل کرتے ہیں یا اسے مٹی میں ملا دیتے ہیں
سونے سے جواہرات میں تبدیل کرنا سے مراد علم دین حاصل کرنے میں گزارنا ہے یا بیکار گزار کر مٹی میں ملا دیتے ہیں
🌺کسی کامیاب شخص کو دیکھ کر یہ کہنا اسکی قسمت میں لکھا تھا اس وجہ سے کامیاب ہوا یہ ناکام لوگوں کا جملہ ہے قسمت و تقدیر یقینا ہوتی ہے لیکن تقدیر کے ساتھ تدبیر بھی شامل ہے کہ بندہ مجبور محض نہیں ہے
*كل صغير و كبير مستطر* یہ تقدیرہے
لیکن *ليس للإنسان إلا ما سعى* یہ تدبیر بھی ہے
اور دونوں کا ذکر قرآن مجید میں مذکور ہے
ناکام لوگ اپنی ناکامی کو تقدیر کے پیچھے چھپاتے ہیں اور دوسروں کی کامیابی کو تقدیر پر ڈالتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
*یہ اگر مگر کرنا بندہ پر شیطان کا دروازہ کھول دیتا ہے*
🌺ہم جہاں ہوتے ہیں اپنی سوچ کی وجہ سے ہوتے ہیں جیسی سوچ ویسی زندگی اور جیسی زندگی ویسے نتائج عمل میں آتے ہیں
🌺 انسان میں دو سطحیں ہوتی ہیں
ایک شعور
دوسرا لاشعور
لاشعور وہ ہوتا ہے جسے ہم محسوس نہیں کرتے مگر ہمارے اندر موجود ہوتا ہے
جو ہماری سوچ کے سامنے رہتا ہے وہ ہمارا شعور ہے
لا شعور میں وہ جاتا ہے جو شعور میں آتا ہے کہ یہ مجھ میں لاشعوری ہے
اگر شعور میں ہم جو چیز ڈالیں گے جیسے ہمت،جذبہ،علم،نیکی اورتقوی تو لاشعوری میں بھی وہی چیز داخل ہوگی
جیسے امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
بخیل شخص چاہتا ہے کہ وہ سخی بن جائےتو وہ صدقہ دینا شروع کردے تو اب اگر دینا اسے بوجھ لگتا ہے سو روپے کی بجائے ایک روپیہ روزانہ دے تو اس طرح عادت بنتی جائے گی اور جب محسوس کرے کہ اب دینے سے تنگدلی نہیں
ہوتی تو اب ایک کے بجائے دو،تین دینا شروع کردے تو اس طرح یہ کنجوسی سے سخاوت اسکی عادت بن جائے گی کیونکہ نفس اثر کو قبول کرتا ہے
🌺دنیا میں اتنا علم ہے کہ اگر ہمیں کروڑ سال بھی مل جائے تب بھی اسے حاصل نہیں کرسکتے اور علم ایک بحر ناکنار ہے تو اس علم کے کسی ایک شعبہ میں خاص صلاحیت پیدا کریں چاہے وہ تقریر ہو یا تحریر یا کوئی فن ہو کہ اس میں اپنا سکہ جما دیں ایک ایسا زمانہ آئے لوگ آپ کے پاس سیکھنے آئیں اور آپ سے وقت مانگیں
🌺اپنا مستقبل خود بنائیں اور یہ سوچ رکھیں کہ اس دنیا میں میں نے کیا کچھ اضافہ کیا ؟؟
کیا کوئی ایسا کام کیا جو دنیا سے چلا جاؤں تو لوگ کلمہ خیر کہ دیں کہ اس نے یہ علمی و تحقیقی کام کیا ہے؟؟
🌺اگر آپ سوچنا شروع کر دیں تو تھوڑی سی محنت سے بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں
آپ اپنی زندگی کے دس اہداف لکھیں پھر ان دس میں سے ایک کو انتخاب کریں جو آپ کی زندگی پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوسکتا ہے اور سب سے زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے پھر اسکو کرنے کے طریقے سوچیں اور ان طریقوں پر عمل درآمد شروع کر دیں اور اس میں آپ کتنا آگے بڑھے آپ خود دیکھیں گے جب ان چیزوں پر عمل کریں گے تو ایک وقت آئے گا کہ اس فن یا شعبہ میں آپ ہی یکتائے روزگار ہونگےاور اس فن کے امام مانے جائیں گے اور بس آپ ہی ہونگے
✍ #محمد_ساجد_مدنی
📲03013823742
🌺دنیا میں اتنا علم ہے کہ اگر ہمیں کروڑ سال بھی مل جائے تب بھی اسے حاصل نہیں کرسکتے اور علم ایک بحر ناکنار ہے تو اس علم کے کسی ایک شعبہ میں خاص صلاحیت پیدا کریں چاہے وہ تقریر ہو یا تحریر یا کوئی فن ہو کہ اس میں اپنا سکہ جما دیں ایک ایسا زمانہ آئے لوگ آپ کے پاس سیکھنے آئیں اور آپ سے وقت مانگیں
🌺اپنا مستقبل خود بنائیں اور یہ سوچ رکھیں کہ اس دنیا میں میں نے کیا کچھ اضافہ کیا ؟؟
کیا کوئی ایسا کام کیا جو دنیا سے چلا جاؤں تو لوگ کلمہ خیر کہ دیں کہ اس نے یہ علمی و تحقیقی کام کیا ہے؟؟
🌺اگر آپ سوچنا شروع کر دیں تو تھوڑی سی محنت سے بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں
آپ اپنی زندگی کے دس اہداف لکھیں پھر ان دس میں سے ایک کو انتخاب کریں جو آپ کی زندگی پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوسکتا ہے اور سب سے زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے پھر اسکو کرنے کے طریقے سوچیں اور ان طریقوں پر عمل درآمد شروع کر دیں اور اس میں آپ کتنا آگے بڑھے آپ خود دیکھیں گے جب ان چیزوں پر عمل کریں گے تو ایک وقت آئے گا کہ اس فن یا شعبہ میں آپ ہی یکتائے روزگار ہونگےاور اس فن کے امام مانے جائیں گے اور بس آپ ہی ہونگے
✍ #محمد_ساجد_مدنی
📲03013823742
موضوع:نفسیاتی مریضہ بن گئی
تحریر:عبدہ المذنب سید کامران عطاری مدنی عفا عنہ الباری
ایک ڈاکٹر کا بیان ہے کہ ایک خاتون اور اس کا خاوند اپنی جوان بچی کے علاج معالجے کے لئے میرے پاس آئے۔انہوں نے بتایا کہ ہماری بچی نے ایم ایس سی کیا ہوا ہے اور پورے خاندان میں ہنس مکھ،ملنسار،عقلمند مشہور تھی، ایم ایس سی کرنے کے بعد آئے روز رشتے آنا شروع ہوگئے لیکن سانولی رنگت کی وجہ سے جو لوگ بھی آتے کئی اسی وقت انکار کردیتے تو کئی فون پر معذرت کردیتے۔ رشتہ دیکھنے والے بچی کو اس انداز سے دیکھتے جیسے انہوں نے کوئی بھیڑ بکری خریدنی ہو۔ ان کے دیکھنے کے انداز،تیکھے سوالات اور پھر انکار نے ہماری پھول جیسی بچی کے دل کو ایسی ٹھیس پہنچائی کہ ہماری بچی شروع شروع میں کھوئی کھوئی رہتی پھر اس نے مکمل چپ سادھ لی ہر وقت اپنے آپ کو کمرے میں قید کیا ہوا ہے کھانا بھی زبردستی کھلانا پڑتا ہے۔ ایسی حالت کی وجہ سے ہماری بچی دن بدن کمزور ہوکر ہڈیوں کا ڈھانچا بن گئی ہے۔عاملوں کے پاس جائیں تو وہ کالے جادو کا کہہ دیتے ہیں ڈاکٹرز کے پاس جائیں تو وہ نفسیاتی مریضہ قرار دیتے ہیں،کسی بھی طریقہ علاج سے فائدہ نہیں ہو رہا۔بچی کے حالات بتاتے ہوئے دُکھیارے والدین نے رونا شروع کر دیا۔
نصیحت: ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن یہاں رہتا تنہا نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے،ہماری ذات سے کبھی کسی کو راحت پہنچتی ہے تو کبھی تکلیف اور کبھی کچھ بھی نہیں یعنی تکلیف نہ راحت،اگر دیگر مسلمانوں کو ہم سے راحت پہنچے گی تو نیتِ خیر ہونے کی صورت میں ہمیں اس کا ثواب ملے گا، بلا وجہِ شرعی تکلیف پہنچائیں گے تو عذاب کی حقداری ہے اور تیسری صورت میں نہ ثواب نہ عذاب۔کوشش ہونی چاہئے کہ ہم باعثِ زحمت نہیں سببِ راحت بنیں۔اس حوالے سے ہمارے رویّے مختلف ہوتے ہیں،بعض کی اس طرف خوب توجہ ہوتی ہے کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے،اگر ان سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچ بھی جائے تو انہیں احساسِ نَدامت ہوتا ہے اور وہ توبہ کرکے اس سے فورا معافی مانگ لیتے ہیں،جبکہ کچھ اس حوالے سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ انہوں نے کسی کو تکلیف پہنچا دی ہے اور کئی اس بات کی خواہش تو رکھتے ہیں کہ کسی کو ان سے تکلیف نہ پہنچے لیکن معلومات کی کمی اور غیر محتاط انداز کی وجہ سے اکثر انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ اپنی حرکات وسکنات سے دوسرے کو تکلیف میں مبتلا کرچکے ہیں۔
ہمارا پیارا مذہب اسلام ہر مسلمان کی جان،مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے چنانچہ حضورِ پاک،صاحبِ لَولاک صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حرمت نشان ہے:کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضُہٗ یعنی ہر مسلمان کا خون،مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
(مسلم،کتاب البر والصلۃ،باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔الخ،ص 1386،حدیث:3564)
مُفَسِّرِ شَہِیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:کوئی مسلمان کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی اجازت نہ لے،کسی کی آبروریزی نہ کرے،کسی مسلمان کو ناحق اور ظُلمًا قتل نہ کرے،کہ یہ سب سخت جُرْم ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح،جلد 6،ص 553)
مفتی صاحب ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:مسلمان کو نہ تو دل میں حقیر جانو ! نہ اُسے حقارت کے الفاظ سے پکارو ! یا بُرے لَقَب سے یاد کرو ! نہ اس کا مذاق بناؤ ! آج ہم میں یہ عیب بہت ہے،پیشوں،نسبوں،یا غربت و اِفلاس کی وجہ سے مسلمان بھائی کو حقیر جانتے ہیں کہ وہ پنجابی ہے،وہ بنگالی،وہ سندھی،وہ سرحدی،اسلام نے یہ سارے فرق مٹا دیئے۔شہد کی مکھی مختلف پھولوں کے رس چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ہوجاتا ہے۔مختلف لکڑیوں کو آگ جلا دے تو اس کا نام راکھ ہوجاتا ہے۔
یوں ہی جب حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کا دامن پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہوگئے،حبشی ہو یا رُومی !
(مراٰۃ المناجیح،جلد 6،ص 553)
دامنِ مصطفیٰ سے جو لپٹا یگانہ ہوگیا
جس کے حضور ہوگئے اس کا زمانہ ہوگیا
جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی بلا اِجازتِ شرعی مسلمان کو تکلیف دینا کتنی بڑی جُرأت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اعلیٰ حضرت،مجدِّدِ دین وملت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی رضویہ شریف جلد 24 صَفْحَہ 342 میں طَبَرانِی شریف کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب،حبیبِ لبیب،طبیبوں کے طبیب صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ اٰذَی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہ۔(یعنی) جس نے (بِلاوجہِ شَرعی) کسی مسلمان کو اِیذا دی اُس نے مجھے اِیذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اُس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو اِیذا دی۔
(المعجم الاوسط،جلد 3،ص 387،حدیث 3607)
اللّٰہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ
تحریر:عبدہ المذنب سید کامران عطاری مدنی عفا عنہ الباری
ایک ڈاکٹر کا بیان ہے کہ ایک خاتون اور اس کا خاوند اپنی جوان بچی کے علاج معالجے کے لئے میرے پاس آئے۔انہوں نے بتایا کہ ہماری بچی نے ایم ایس سی کیا ہوا ہے اور پورے خاندان میں ہنس مکھ،ملنسار،عقلمند مشہور تھی، ایم ایس سی کرنے کے بعد آئے روز رشتے آنا شروع ہوگئے لیکن سانولی رنگت کی وجہ سے جو لوگ بھی آتے کئی اسی وقت انکار کردیتے تو کئی فون پر معذرت کردیتے۔ رشتہ دیکھنے والے بچی کو اس انداز سے دیکھتے جیسے انہوں نے کوئی بھیڑ بکری خریدنی ہو۔ ان کے دیکھنے کے انداز،تیکھے سوالات اور پھر انکار نے ہماری پھول جیسی بچی کے دل کو ایسی ٹھیس پہنچائی کہ ہماری بچی شروع شروع میں کھوئی کھوئی رہتی پھر اس نے مکمل چپ سادھ لی ہر وقت اپنے آپ کو کمرے میں قید کیا ہوا ہے کھانا بھی زبردستی کھلانا پڑتا ہے۔ ایسی حالت کی وجہ سے ہماری بچی دن بدن کمزور ہوکر ہڈیوں کا ڈھانچا بن گئی ہے۔عاملوں کے پاس جائیں تو وہ کالے جادو کا کہہ دیتے ہیں ڈاکٹرز کے پاس جائیں تو وہ نفسیاتی مریضہ قرار دیتے ہیں،کسی بھی طریقہ علاج سے فائدہ نہیں ہو رہا۔بچی کے حالات بتاتے ہوئے دُکھیارے والدین نے رونا شروع کر دیا۔
نصیحت: ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن یہاں رہتا تنہا نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے،ہماری ذات سے کبھی کسی کو راحت پہنچتی ہے تو کبھی تکلیف اور کبھی کچھ بھی نہیں یعنی تکلیف نہ راحت،اگر دیگر مسلمانوں کو ہم سے راحت پہنچے گی تو نیتِ خیر ہونے کی صورت میں ہمیں اس کا ثواب ملے گا، بلا وجہِ شرعی تکلیف پہنچائیں گے تو عذاب کی حقداری ہے اور تیسری صورت میں نہ ثواب نہ عذاب۔کوشش ہونی چاہئے کہ ہم باعثِ زحمت نہیں سببِ راحت بنیں۔اس حوالے سے ہمارے رویّے مختلف ہوتے ہیں،بعض کی اس طرف خوب توجہ ہوتی ہے کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے،اگر ان سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچ بھی جائے تو انہیں احساسِ نَدامت ہوتا ہے اور وہ توبہ کرکے اس سے فورا معافی مانگ لیتے ہیں،جبکہ کچھ اس حوالے سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ انہوں نے کسی کو تکلیف پہنچا دی ہے اور کئی اس بات کی خواہش تو رکھتے ہیں کہ کسی کو ان سے تکلیف نہ پہنچے لیکن معلومات کی کمی اور غیر محتاط انداز کی وجہ سے اکثر انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ اپنی حرکات وسکنات سے دوسرے کو تکلیف میں مبتلا کرچکے ہیں۔
ہمارا پیارا مذہب اسلام ہر مسلمان کی جان،مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے چنانچہ حضورِ پاک،صاحبِ لَولاک صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حرمت نشان ہے:کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضُہٗ یعنی ہر مسلمان کا خون،مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
(مسلم،کتاب البر والصلۃ،باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔الخ،ص 1386،حدیث:3564)
مُفَسِّرِ شَہِیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:کوئی مسلمان کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی اجازت نہ لے،کسی کی آبروریزی نہ کرے،کسی مسلمان کو ناحق اور ظُلمًا قتل نہ کرے،کہ یہ سب سخت جُرْم ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح،جلد 6،ص 553)
مفتی صاحب ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:مسلمان کو نہ تو دل میں حقیر جانو ! نہ اُسے حقارت کے الفاظ سے پکارو ! یا بُرے لَقَب سے یاد کرو ! نہ اس کا مذاق بناؤ ! آج ہم میں یہ عیب بہت ہے،پیشوں،نسبوں،یا غربت و اِفلاس کی وجہ سے مسلمان بھائی کو حقیر جانتے ہیں کہ وہ پنجابی ہے،وہ بنگالی،وہ سندھی،وہ سرحدی،اسلام نے یہ سارے فرق مٹا دیئے۔شہد کی مکھی مختلف پھولوں کے رس چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ہوجاتا ہے۔مختلف لکڑیوں کو آگ جلا دے تو اس کا نام راکھ ہوجاتا ہے۔
یوں ہی جب حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کا دامن پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہوگئے،حبشی ہو یا رُومی !
(مراٰۃ المناجیح،جلد 6،ص 553)
دامنِ مصطفیٰ سے جو لپٹا یگانہ ہوگیا
جس کے حضور ہوگئے اس کا زمانہ ہوگیا
جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی بلا اِجازتِ شرعی مسلمان کو تکلیف دینا کتنی بڑی جُرأت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اعلیٰ حضرت،مجدِّدِ دین وملت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی رضویہ شریف جلد 24 صَفْحَہ 342 میں طَبَرانِی شریف کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب،حبیبِ لبیب،طبیبوں کے طبیب صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:مَنْ اٰذَی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہ۔(یعنی) جس نے (بِلاوجہِ شَرعی) کسی مسلمان کو اِیذا دی اُس نے مجھے اِیذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اُس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو اِیذا دی۔
(المعجم الاوسط،جلد 3،ص 387،حدیث 3607)
اللّٰہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذا دینے والوں کے بارے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پارہ22 سورۃُ الْاَحزاب آیت 57 میں ارشاد فرماتاہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿57﴾
ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللّٰہ اور اس کے رسول کوان پر اللّٰہ کی لعنت ہے دنیا وآخرت میں اور اللّٰہ نے ان کیلئے ذلّت کا عذاب تیارکررکھا ہے۔
ذراسوچئے کہ کون سا مسلمان اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اللّٰہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اِیذا دے اور جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے!ہم قہرِقہّار اور غضبِ جبّار عزوجل سے اُسی کی پناہ مانگتے ہیں۔
خدایا! کسی کا نہ دل میں دکھاؤں
اماں تیرے اَبَدی عذابوں سے پاؤں
کس قدر بدترین جُرْم ہے!
حضرتِ سیدنا فُضَیل رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ کتّے اور سؤر کو بھی ناحق اِیذا (یعنی تکلیف)دینا حلال نہیں تو مومنین و مومنات کو اِیذا دینا کس قدر بدترین جُرْم ہے۔
(خزائن العرفان،پ22،الاحزاب،زیرِ آیت :58)
(کتاب تکلیف نہ دیجئے از المدینۃ العلمیۃ سے اقتباس)
سمجھدار اور عقلمند کے لیے اتنی ہی نصیحت کافی ہے۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿57﴾
ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللّٰہ اور اس کے رسول کوان پر اللّٰہ کی لعنت ہے دنیا وآخرت میں اور اللّٰہ نے ان کیلئے ذلّت کا عذاب تیارکررکھا ہے۔
ذراسوچئے کہ کون سا مسلمان اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اللّٰہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اِیذا دے اور جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے!ہم قہرِقہّار اور غضبِ جبّار عزوجل سے اُسی کی پناہ مانگتے ہیں۔
خدایا! کسی کا نہ دل میں دکھاؤں
اماں تیرے اَبَدی عذابوں سے پاؤں
کس قدر بدترین جُرْم ہے!
حضرتِ سیدنا فُضَیل رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ کتّے اور سؤر کو بھی ناحق اِیذا (یعنی تکلیف)دینا حلال نہیں تو مومنین و مومنات کو اِیذا دینا کس قدر بدترین جُرْم ہے۔
(خزائن العرفان،پ22،الاحزاب،زیرِ آیت :58)
(کتاب تکلیف نہ دیجئے از المدینۃ العلمیۃ سے اقتباس)
سمجھدار اور عقلمند کے لیے اتنی ہی نصیحت کافی ہے۔
بجلی کے کھمبے پر چڑھے شخص کی ننھی گڑیا سی بیٹی کو جب معلوم ہوا کہ اس کے پیارے بابا بجلی کے لائن مین ہیں تو اس نے اپنے بابا کو پر بنا کر دیے تا کہ اگر وہ اونچائی سے گرنے لگے تو ہوا میں اُڑ جائے اور یہ شخص بھی اتنا اچھا باپ ہے کہ زمانے کی پرواہ کیے بغیر اپنی بیٹی کے بنائے پر پہنتا ہے💕
@HamariUrduPiyariUrdu
@HamariUrduPiyariUrdu
مُشکل وقت میں دلاسہ دینے والاکوئی اجنبی ہی کیوں نہ ہودل میں اُترجاتاہے جبکہ مشکل وقت میں کنارہ کرلینےوالاکوئی اپناہی کیوں نہ ہودل سے اُتر جاتاہے۔
*وقت پر آغاز کرنے والے سفر کی منزل بھی وقت پر ملتی ہے۔*
(قاسم علی شاہ)
90ء کی دہائی میں جب میں پڑھتا تھا تواس وقت ایسے طلبہ جو کمزور معاشی حالات کی وجہ سے فیس ادا نہیں کرسکتے تھے تو ان کے پاس اپنی تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک ہی راستہ بچتا تھا کہ وہ ٹیوشن پڑھانا شروع کردیں۔ میں خودبھی زمانہ طالب علمی میں ٹیوشن پڑھاتا تھا ،میری کمیونیکیشن اسکلز اچھی تھیں لہٰذاطلبہ کی تعداد بڑھتی گئی۔اللہ نے کرم کیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ چند طلبہ سے شروع ہونے والی درس گاہ ایک معیاری ادارے میں بدل گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان ابلاغ کی بہترین صلاحیت سے مزین نہیں ہوتا ، اس وجہ سے ہر طالب علم پڑھا بھی نہیں سکتا ۔آج کے زمانے میں اگر کوئی طالب علم اپنی فیس نہیں بھر سکتا اور وہ ٹیوشن بھی نہیں پڑھا سکتا تو پھر اسے مجبوراً کسی فلاحی ادارے کے پاس مدد مانگنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔میں کافی عرصے سے اس بات پر سوچتا رہا کہ ایسے طلبہ کے لیے کون سا کام مناسب ہوگا جس کے ذریعے وہ اپنے اخراجات کے لیے کچھ رقم کماسکیں اوروہ دوسروں کے محتاج بھی نہ رہیں!!
▪کامیابی کا اہم راز:خود انحصاری
میں نے اپنی عملی زندگی میں کامیابی کا ایک راز یہ بھی ڈھونڈا ہے کہ جو انسان جتنا ’’خود انحصار ‘‘ہوتا ہے، اتنا ہی وہ بڑے فیصلے کرسکتا ہے اور ترقی کرسکتاہے۔ اپنی کہانی میں بھی بار باریہ بات بتاتا ہوں کہ اگر میں اپنے لڑکپن سے خود کفیل نہ ہوتا تو شاید آج اس مقام پر نہ ہوتا۔میں یہ بات بھی ہمیشہ کہتا ہوں کہ وہ سفر جو انسان نے وقت پر شروع کیا ہوتا ہے اس کی منزل بھی جلدی مل جاتی ہے۔ جب انسان سفر ہی دیر سے شروع کرلے تو پھر اس کی منازل بھی دیر سے ملتی ہیں۔ بروقت شروع کیا جانے والا میرا سفر آج پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ میں نے جتنے بھی کام شرو ع کیے وہ سب اتنے مفید اورموثر تھے کہ اللہ کے فضل و کرم سے اب وہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔جس کی ایک مثال ASK(آؤ صلح کریں) پراجیکٹ ہے۔ میں ہائی کورٹ میں پڑھاتا تھا۔ وہاں میری ملاقات سابقہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ انوار الحق صاحب سے ہوئی اور ہم نے منصوبہ بنایا کہ کیوں نہ ہم صلح کروانی شروع کریں۔ ڈیڑھ سال پہلے ہم نےASK پراجیکٹ کا آغاز کردیا اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس صلح کروانے والوں کی اتنی ٹریفک ہے کہ ہم اس کو سنبھال نہیں سکتے۔میں نے جسٹس صاحب سے پوچھا کہ اس کام کے لیے آپ نے میرا انتخاب کیوں کیا؟انہوں نے کہا:’’میں نے دیکھا کہ آپ کسی بھی کام کا جب ارادہ کرلیتے ہیں توپھرا س سے پیچھے نہیں ہٹتے اور آپ کے پختہ عزم کو دیکھ کرپوری دنیا آپ کی پیروی کرنے لگ جا تی ہے ۔‘‘
جب میں موٹیویشنل اسپیکنگ کی طرف آیا تو 2015ء میں میری ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہوگئیں اور اللہ کے فضل و کرم سے 2016ء تک ایک ہی سال میں میں نے دنیا کے آٹھ ممالک دیکھ لیے تھے ۔اس دوران میں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ میرا یہ سارا کام اور محنت اگرایک فردتک محدود رہے تو یہ آنے والے وقتوں میں زوال کا شکارہوجائے گا، سو ہم نے اس سارے کام کو ایک ادارے کی شکل دی جہاں ہم نے موٹیویشنل ،پبلک اسپیکنگ ، سیلف ہیلپ اور پرسنل ڈیویلپمنٹ کو پروموٹ کرنا شروع کردیا۔
اس پلیٹ فارم سے ہم نے کتاب دوستی اور مطالعہ کی تحریکیں چلائیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اس کام کی طرف آگئی۔میرے خیال میں ایک بنے بنائے راستے پر چلنا آسان ہوتا ہے لیکن نیا راستہ بنانا، پھر اس پر چلنا اور منزل کو پالینا یہ بہت مشکل ہوتا ہے ۔اللہ نے مجھے ایک ٹرینڈ سیٹر بنایا اورمعاشرے میں ایک پر اثر شخصیت کے طور پر میں اپنا کردار ادا کرنے لگا۔
▪فری لانسنگ :ایک بہترین ذریعہ معاش
آج کے زمانے کا پڑھا لکھا بچہ لیبر کا کام نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ مشقت بھری مزدوری کرسکتا ہے۔ میں نے ایسے کاموں کو ڈھونڈنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ فری لانسنگ ایک ایسا کام ہے جس میں اگر آج کے طلبہ قسمت آزمائی کرلیں تو گھر بیٹھے اچھی خاصی کمائی کرسکتے ہیں،کیونکہ فری لانسنگ ایک وسیع میدان ہے جس میں ویڈیو ایڈیٹنگ ، گرافکس ڈیزائننگ ، SEOاور کونٹینٹ رائٹنگ کے ذریعے انسان اپنی محنت کے مطابق کمائی کرسکتا ہے۔اس میدان کو میں نے اس لیے بھی پسند کیا کہ یہ جہاں لوگوں کے لیے مفید ہے وہیں میرے ملک کی معیشت مضبوط کرنے کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔
2018ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60ہزار سے زائد نوجوان اس فیلڈ سے وابستہ ہیں، جبکہ 2019ء میں دی گلوبل گِگ اکنامی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں فری لانسنگ کی آمدنی میں سال 2018 ء کی بنسبت 42 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس انڈسٹری میں نمایاں ترقی کی بدولت دنیا کے 10 بڑے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔
▪ای کامرس کی اہمیت
کورونا بحران کے دِنوں میں ای کامرس کی اہمیت کا اندازہ پوری دنیاکو ہوا اور مجھے خصوصی طور پر اس وقت ہوا جب مجھے میری پبلی کیشن ٹیم نے رپورٹ دی کہ وبا کے د
(قاسم علی شاہ)
90ء کی دہائی میں جب میں پڑھتا تھا تواس وقت ایسے طلبہ جو کمزور معاشی حالات کی وجہ سے فیس ادا نہیں کرسکتے تھے تو ان کے پاس اپنی تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک ہی راستہ بچتا تھا کہ وہ ٹیوشن پڑھانا شروع کردیں۔ میں خودبھی زمانہ طالب علمی میں ٹیوشن پڑھاتا تھا ،میری کمیونیکیشن اسکلز اچھی تھیں لہٰذاطلبہ کی تعداد بڑھتی گئی۔اللہ نے کرم کیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ چند طلبہ سے شروع ہونے والی درس گاہ ایک معیاری ادارے میں بدل گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان ابلاغ کی بہترین صلاحیت سے مزین نہیں ہوتا ، اس وجہ سے ہر طالب علم پڑھا بھی نہیں سکتا ۔آج کے زمانے میں اگر کوئی طالب علم اپنی فیس نہیں بھر سکتا اور وہ ٹیوشن بھی نہیں پڑھا سکتا تو پھر اسے مجبوراً کسی فلاحی ادارے کے پاس مدد مانگنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔میں کافی عرصے سے اس بات پر سوچتا رہا کہ ایسے طلبہ کے لیے کون سا کام مناسب ہوگا جس کے ذریعے وہ اپنے اخراجات کے لیے کچھ رقم کماسکیں اوروہ دوسروں کے محتاج بھی نہ رہیں!!
▪کامیابی کا اہم راز:خود انحصاری
میں نے اپنی عملی زندگی میں کامیابی کا ایک راز یہ بھی ڈھونڈا ہے کہ جو انسان جتنا ’’خود انحصار ‘‘ہوتا ہے، اتنا ہی وہ بڑے فیصلے کرسکتا ہے اور ترقی کرسکتاہے۔ اپنی کہانی میں بھی بار باریہ بات بتاتا ہوں کہ اگر میں اپنے لڑکپن سے خود کفیل نہ ہوتا تو شاید آج اس مقام پر نہ ہوتا۔میں یہ بات بھی ہمیشہ کہتا ہوں کہ وہ سفر جو انسان نے وقت پر شروع کیا ہوتا ہے اس کی منزل بھی جلدی مل جاتی ہے۔ جب انسان سفر ہی دیر سے شروع کرلے تو پھر اس کی منازل بھی دیر سے ملتی ہیں۔ بروقت شروع کیا جانے والا میرا سفر آج پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ میں نے جتنے بھی کام شرو ع کیے وہ سب اتنے مفید اورموثر تھے کہ اللہ کے فضل و کرم سے اب وہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔جس کی ایک مثال ASK(آؤ صلح کریں) پراجیکٹ ہے۔ میں ہائی کورٹ میں پڑھاتا تھا۔ وہاں میری ملاقات سابقہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ انوار الحق صاحب سے ہوئی اور ہم نے منصوبہ بنایا کہ کیوں نہ ہم صلح کروانی شروع کریں۔ ڈیڑھ سال پہلے ہم نےASK پراجیکٹ کا آغاز کردیا اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس صلح کروانے والوں کی اتنی ٹریفک ہے کہ ہم اس کو سنبھال نہیں سکتے۔میں نے جسٹس صاحب سے پوچھا کہ اس کام کے لیے آپ نے میرا انتخاب کیوں کیا؟انہوں نے کہا:’’میں نے دیکھا کہ آپ کسی بھی کام کا جب ارادہ کرلیتے ہیں توپھرا س سے پیچھے نہیں ہٹتے اور آپ کے پختہ عزم کو دیکھ کرپوری دنیا آپ کی پیروی کرنے لگ جا تی ہے ۔‘‘
جب میں موٹیویشنل اسپیکنگ کی طرف آیا تو 2015ء میں میری ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہوگئیں اور اللہ کے فضل و کرم سے 2016ء تک ایک ہی سال میں میں نے دنیا کے آٹھ ممالک دیکھ لیے تھے ۔اس دوران میں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ میرا یہ سارا کام اور محنت اگرایک فردتک محدود رہے تو یہ آنے والے وقتوں میں زوال کا شکارہوجائے گا، سو ہم نے اس سارے کام کو ایک ادارے کی شکل دی جہاں ہم نے موٹیویشنل ،پبلک اسپیکنگ ، سیلف ہیلپ اور پرسنل ڈیویلپمنٹ کو پروموٹ کرنا شروع کردیا۔
اس پلیٹ فارم سے ہم نے کتاب دوستی اور مطالعہ کی تحریکیں چلائیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اس کام کی طرف آگئی۔میرے خیال میں ایک بنے بنائے راستے پر چلنا آسان ہوتا ہے لیکن نیا راستہ بنانا، پھر اس پر چلنا اور منزل کو پالینا یہ بہت مشکل ہوتا ہے ۔اللہ نے مجھے ایک ٹرینڈ سیٹر بنایا اورمعاشرے میں ایک پر اثر شخصیت کے طور پر میں اپنا کردار ادا کرنے لگا۔
▪فری لانسنگ :ایک بہترین ذریعہ معاش
آج کے زمانے کا پڑھا لکھا بچہ لیبر کا کام نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ مشقت بھری مزدوری کرسکتا ہے۔ میں نے ایسے کاموں کو ڈھونڈنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ فری لانسنگ ایک ایسا کام ہے جس میں اگر آج کے طلبہ قسمت آزمائی کرلیں تو گھر بیٹھے اچھی خاصی کمائی کرسکتے ہیں،کیونکہ فری لانسنگ ایک وسیع میدان ہے جس میں ویڈیو ایڈیٹنگ ، گرافکس ڈیزائننگ ، SEOاور کونٹینٹ رائٹنگ کے ذریعے انسان اپنی محنت کے مطابق کمائی کرسکتا ہے۔اس میدان کو میں نے اس لیے بھی پسند کیا کہ یہ جہاں لوگوں کے لیے مفید ہے وہیں میرے ملک کی معیشت مضبوط کرنے کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔
2018ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60ہزار سے زائد نوجوان اس فیلڈ سے وابستہ ہیں، جبکہ 2019ء میں دی گلوبل گِگ اکنامی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں فری لانسنگ کی آمدنی میں سال 2018 ء کی بنسبت 42 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس انڈسٹری میں نمایاں ترقی کی بدولت دنیا کے 10 بڑے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔
▪ای کامرس کی اہمیت
کورونا بحران کے دِنوں میں ای کامرس کی اہمیت کا اندازہ پوری دنیاکو ہوا اور مجھے خصوصی طور پر اس وقت ہوا جب مجھے میری پبلی کیشن ٹیم نے رپورٹ دی کہ وبا کے د
ِنوں میں کتابوں کی مانگ میں چار گنا اضافہ ہوا۔ جب ساری دنیا بند اور کاروبار ٹھپ ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجود بھی ہماری پبلی کیشن کا پروجیکٹ سب سے زیادہ فعال تھا اور کتابیں چھپ رہی تھیں۔جب میں نے اس پر غو ر کیا کہ یہ حیران کن اضافہ کیسے آیا تو معلوم ہو اکہ اس کی وجہ ڈیجیٹل ورلڈ ہے ،جہاں ہر قسم کتاب ہر انسان کی دسترس میں ہے۔اُس وقت اردو بازار اور بڑ ے بڑے بک سٹالز بند تھے لیکن ہمارے ادارے کے فیس بک پیج پرمسلسل آرڈرز آرہے تھے.
▪بقا کس کو ہے؟
نوکیا کمپنی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔وہ اس لیے زوال کاشکار ہوئی کیونکہ اس نے خود کو اپ گریڈ نہیں کیا۔ ڈائنا سور صفحۂ ہستی سے مٹ گئے کیونکہ وہ سمارٹ نہیں تھے اور انہوں نے حالات و واقعات کے مطابق خود کو تبدیل نہیں کیا جبکہ اس کے مقابلے میں لال بیگ آج بھی زندہ ہے ،کیونکہ وہ حالات کے ساتھ سمجھوتا کرنے والا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ میں مشکل حالا ت کا مقابلہ نہیں کرسکتا اس وجہ سے وہ اپنی جان کی حفاظت کرتا تھا اور اسی ہوشیاری کا نتیجہ ہے کہ آج کروڑوں سال بعد بھی لال بیگ دنیا میں موجود ہے جبکہ خود کو زمانے کے مطابق تیار نہ کرنے کی وجہ سے ڈائنا سور جیسا مضبوط ترین جانوربھی صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے۔
میری شدید خواہش ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان باصلاحیت اور خود کفیل ہوجائیں،وہ اپنے لیے ایک سمت مقرر کرلیں او ر ایک واضح نظریہ اور سوچ اپنالیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو پاکستان آنے والے دِنوں میں ایک شاندار ملک کے طورپر سامنے آئے گا۔ دنیا میں موجو د ہر ملک کسی نہ کسی خصوصیت کے باعث مشہور ہے. میرا خواب یہ ہے کہ ہمارا پاکستان ای کامرس کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی ایک پہچان بنالے اور ڈیجیٹل ورلڈ میں نمبر وَن ہو۔ یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔اگر ہم ای کامرس کو ترجیح دے دیں اور اپنی قابلیت کو کام میں لائیں تو اس ملک میں انقلاب آسکتا ہے۔جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آج کایونیورسٹی اور کالج میں پڑھنے والا نوجوان خود کفیل ہوجائے گا۔ انسان کے پاس جب اس کی اپنی محنت کی کمائی آجاتی ہے تو پھر اس کو مینج کرنے کا سلیقہ بھی وہ سیکھ لیتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ذہانت ہے ، جو کہ آپ کو رابرٹ کیوساکی کی کتاب
"Why "A" Students Work for "C" Students"
میں ملے گی.
اس کتاب کا پورا فلسفہ یہ ہے کہ ہمارا ایجوکیشن سسٹم جو مائنڈ سیٹ پیدا کررہا ہے وہ’’ جاب مائنڈ سیٹ‘‘ ہے اور جاب مائنڈ سیٹ والا انسان کبھی بھی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جاب مائنڈ سیٹ کو چھوڑ کر ’’سروس مائنڈ سیٹ‘‘ کو فروغ دیا جائے اور ایسی نسل تیا ر کی جائے جوفری لانسرز ہوں، کیونکہ فری لانسنگ کی فیلڈ میں انسان کے پاس سیکھنے اور سکھانے کے لیے بہت کچھ ہوتاہے۔
یہ زمانہ ہی ڈیجیٹلائزیشن کا ہے اور بقا کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اس دور میں جو ڈیجیٹل ورلڈ سے دُورہوا وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ میں اپنے آس پاس ایسے کئی سارے پی ایچ ڈیز کو دیکھتا ہوں جنہیں ای کامرس کے بارے میں علم نہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنی آواز کلاس روم سے باہر نہیں پہنچاسکتے۔
▪کامیابی کی رفتار:آج کے دور میں
آج اکیسویں صدی میں کامیابی کا معیار اوراس کی رفتار بدل گئی ہے۔ ہمارے دادا ، پردادا کے زمانے میں ایک رسالہ ’’چٹان‘‘ کے نام سے چھپتا تھا۔’چٹان‘‘ میں جو چیز چھپ جاتی تو وہ لکھنے والے کو سیلیبیریٹی بنادیتی۔ آج بھی ہم اپنے بچپن اور جوانی کے زمانے کے ڈراموں اور ان کے کرداروں کو ہیرو کی حیثیت سے یاد رکھتے ہیں ، کیونکہ وہ زمانہ ٹی وی کا تھا اور ٹی وی نے انہیں سیلیبریٹی بنادیا تھا ،جبکہ آج کا زمانہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے اور یہ وہ میڈیم ہے جوکسی بھی انسان کو سیلیبریٹی بناسکتا ہے۔ آج کے دور میں ’چٹان‘‘ میں چھپوانا آپ کو سیلیبریٹی نہیں بنائے گا۔ میرے سامنے اگر ٹی وی کا کوئی پروگرام ہو اور دوسری طرف کوئی یوٹیوب چینل ہو جس پر میری ویڈیوز لاکھوں ، کروڑوں کی تعداد میں دیکھی جانے والی ہوں تو میں یوٹیوب چینل کو ہی ترجیح دوں گا، اسی کو جدت کہا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کی جنگ آپ بم، کلاشنکوف یا گرنیڈ سے نہیں جیت سکتے۔ آج کی جنگ آپ کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے جیتنی ہوگی۔ ایک زمانے میں توپ ایجاد ہوئی تو جس ملک کے فوج کے پاس توپ ہوتی وہ جنگ جیت جاتا ۔پھر کمپیوٹر کا دور آیا اورجس کے پاس کمپیوٹرہوتا وہ ترقی کرنے لگ جاتاجبکہ اب سارادور ہی ’’ای کامرس‘‘ کا ہے اور آج جس ملک کی معیشت مضبوط ہے وہ ففتھ جنریشن وار بھی بہ آسانی لڑ سکتا ہے۔
ہمارے 12کروڑ پاکستانی جوانوں کو آج اگر درست سمت دے دی جائے تو یہ ایٹم بم سے زیادہ طاقتور بات ہے ۔ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ جس ’’آج‘‘ میں ہم ہیں اس کا ایک’’ کل‘‘ بھی ہے اور جس کا ’’کل ‘‘اچھا ہے تو اس کو’’ آج‘‘ بھی اچھا لگے گا لیکن اگر ’’کل‘‘ آپ کو پشیمانی ، خطرے اور عدم تحفظ کا لگ رہا ہے تو پھرآج کے سارے مزے خراب ہوجائیں گے.
لہٰذا اپنا کل بہتر بنائیے ۔آج آپ کے پاس ای ک
▪بقا کس کو ہے؟
نوکیا کمپنی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔وہ اس لیے زوال کاشکار ہوئی کیونکہ اس نے خود کو اپ گریڈ نہیں کیا۔ ڈائنا سور صفحۂ ہستی سے مٹ گئے کیونکہ وہ سمارٹ نہیں تھے اور انہوں نے حالات و واقعات کے مطابق خود کو تبدیل نہیں کیا جبکہ اس کے مقابلے میں لال بیگ آج بھی زندہ ہے ،کیونکہ وہ حالات کے ساتھ سمجھوتا کرنے والا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ میں مشکل حالا ت کا مقابلہ نہیں کرسکتا اس وجہ سے وہ اپنی جان کی حفاظت کرتا تھا اور اسی ہوشیاری کا نتیجہ ہے کہ آج کروڑوں سال بعد بھی لال بیگ دنیا میں موجود ہے جبکہ خود کو زمانے کے مطابق تیار نہ کرنے کی وجہ سے ڈائنا سور جیسا مضبوط ترین جانوربھی صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے۔
میری شدید خواہش ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان باصلاحیت اور خود کفیل ہوجائیں،وہ اپنے لیے ایک سمت مقرر کرلیں او ر ایک واضح نظریہ اور سوچ اپنالیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو پاکستان آنے والے دِنوں میں ایک شاندار ملک کے طورپر سامنے آئے گا۔ دنیا میں موجو د ہر ملک کسی نہ کسی خصوصیت کے باعث مشہور ہے. میرا خواب یہ ہے کہ ہمارا پاکستان ای کامرس کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی ایک پہچان بنالے اور ڈیجیٹل ورلڈ میں نمبر وَن ہو۔ یہ کوئی ناممکن کام نہیں۔اگر ہم ای کامرس کو ترجیح دے دیں اور اپنی قابلیت کو کام میں لائیں تو اس ملک میں انقلاب آسکتا ہے۔جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آج کایونیورسٹی اور کالج میں پڑھنے والا نوجوان خود کفیل ہوجائے گا۔ انسان کے پاس جب اس کی اپنی محنت کی کمائی آجاتی ہے تو پھر اس کو مینج کرنے کا سلیقہ بھی وہ سیکھ لیتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ذہانت ہے ، جو کہ آپ کو رابرٹ کیوساکی کی کتاب
"Why "A" Students Work for "C" Students"
میں ملے گی.
اس کتاب کا پورا فلسفہ یہ ہے کہ ہمارا ایجوکیشن سسٹم جو مائنڈ سیٹ پیدا کررہا ہے وہ’’ جاب مائنڈ سیٹ‘‘ ہے اور جاب مائنڈ سیٹ والا انسان کبھی بھی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جاب مائنڈ سیٹ کو چھوڑ کر ’’سروس مائنڈ سیٹ‘‘ کو فروغ دیا جائے اور ایسی نسل تیا ر کی جائے جوفری لانسرز ہوں، کیونکہ فری لانسنگ کی فیلڈ میں انسان کے پاس سیکھنے اور سکھانے کے لیے بہت کچھ ہوتاہے۔
یہ زمانہ ہی ڈیجیٹلائزیشن کا ہے اور بقا کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اس دور میں جو ڈیجیٹل ورلڈ سے دُورہوا وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ میں اپنے آس پاس ایسے کئی سارے پی ایچ ڈیز کو دیکھتا ہوں جنہیں ای کامرس کے بارے میں علم نہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنی آواز کلاس روم سے باہر نہیں پہنچاسکتے۔
▪کامیابی کی رفتار:آج کے دور میں
آج اکیسویں صدی میں کامیابی کا معیار اوراس کی رفتار بدل گئی ہے۔ ہمارے دادا ، پردادا کے زمانے میں ایک رسالہ ’’چٹان‘‘ کے نام سے چھپتا تھا۔’چٹان‘‘ میں جو چیز چھپ جاتی تو وہ لکھنے والے کو سیلیبیریٹی بنادیتی۔ آج بھی ہم اپنے بچپن اور جوانی کے زمانے کے ڈراموں اور ان کے کرداروں کو ہیرو کی حیثیت سے یاد رکھتے ہیں ، کیونکہ وہ زمانہ ٹی وی کا تھا اور ٹی وی نے انہیں سیلیبریٹی بنادیا تھا ،جبکہ آج کا زمانہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے اور یہ وہ میڈیم ہے جوکسی بھی انسان کو سیلیبریٹی بناسکتا ہے۔ آج کے دور میں ’چٹان‘‘ میں چھپوانا آپ کو سیلیبریٹی نہیں بنائے گا۔ میرے سامنے اگر ٹی وی کا کوئی پروگرام ہو اور دوسری طرف کوئی یوٹیوب چینل ہو جس پر میری ویڈیوز لاکھوں ، کروڑوں کی تعداد میں دیکھی جانے والی ہوں تو میں یوٹیوب چینل کو ہی ترجیح دوں گا، اسی کو جدت کہا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کی جنگ آپ بم، کلاشنکوف یا گرنیڈ سے نہیں جیت سکتے۔ آج کی جنگ آپ کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے جیتنی ہوگی۔ ایک زمانے میں توپ ایجاد ہوئی تو جس ملک کے فوج کے پاس توپ ہوتی وہ جنگ جیت جاتا ۔پھر کمپیوٹر کا دور آیا اورجس کے پاس کمپیوٹرہوتا وہ ترقی کرنے لگ جاتاجبکہ اب سارادور ہی ’’ای کامرس‘‘ کا ہے اور آج جس ملک کی معیشت مضبوط ہے وہ ففتھ جنریشن وار بھی بہ آسانی لڑ سکتا ہے۔
ہمارے 12کروڑ پاکستانی جوانوں کو آج اگر درست سمت دے دی جائے تو یہ ایٹم بم سے زیادہ طاقتور بات ہے ۔ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ جس ’’آج‘‘ میں ہم ہیں اس کا ایک’’ کل‘‘ بھی ہے اور جس کا ’’کل ‘‘اچھا ہے تو اس کو’’ آج‘‘ بھی اچھا لگے گا لیکن اگر ’’کل‘‘ آپ کو پشیمانی ، خطرے اور عدم تحفظ کا لگ رہا ہے تو پھرآج کے سارے مزے خراب ہوجائیں گے.
لہٰذا اپنا کل بہتر بنائیے ۔آج آپ کے پاس ای ک
امرس کا میدان موجود ہے. اپنی صلاحیتیں پالش کرکے بروقت اپنا سفر شروع کیجیے اور خود کفیل بن کراپنی اور خاندان کی زندگی کو بہتر بنائیے تاکہ آپ ملک و قوم کی تعمیر میں اپنا کردار بخوبی نبھاسکیں.