✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
شیعیت کے داغ

گجرات کے ایک نامی گرامی خطیب ختمِ قل کے موقع پر ایصال ثواب کا بیان کر رہے تھے ، کہ دورانِ تقریر شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک شخص آگیا ۔
اُنھوں نےاُسے دیکھتے ہی اپنی تقریر کارُخ حضرت علی کی طرف پھیر دیا اور خوب گلا پھاڑ پھاڑ کر ذکرِ علی کرنے لگے ۔
اُس شیعہ نے کھڑے ہوکر اُن پر تقریباً پانچ دس ہزار پھینکا ۔

اِس پر خطیبِ محترم کہنے لگے:

” مجھے معلوم ہے شاہ صاحب کے پاس تھے ہی اتنے پیسے ، اگر اس سے زیادہ ہوتے تو مولا علی کے نام پر وہ بھی وار دیتے ۔ “

استغفراللہ ، ثم استغفراللہ!

یہ کیا ہے؟؟

یہ شیعیت کے وہ بد نما داغ ہیں ، جو کئی سُنی دلوں اور دامنوں پر نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکرِ خیر تو عبادت تھا اور عبادت صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے تھی ، کسی اور کے لیے نہیں!
اگر عبادت دکھاوے کے لیے کی جائے تو وہ عبادت رہتی ہی نہیں ، شرک اصغر بن جاتا ہے ۔

لیکن خطیب صاحب نے یہ بات نہ سمجھی اور ” پاک ذکر “ کو ناپاک نیت کی بھینٹ چڑھادیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ پاک انھیں ہدایت عطافرمائے!

ذکرِ اہل بیت ہو یا ذِکر صحابہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں نام و نمود ، تَصنُع بناوٹ اور ریا و سمع کی خاطر نہیں ، اللہ و رسول کی رضا کے لیے کرنا چاہیے ۔

یہ نہ ہو کہ رافضیوں کی دیکھا دیکھی:
جشن مولود کعبہ ، عید غدیر ، عشرہ محرم تو پورے تُزک و احتشام سے منایا جائے ، لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام مظلوم سیدنا عثمان غنی یا شہزادہ رسول سیدنا امام حسن مجتبیٰ کایوم آئے تو نہ جلسے جلوس ہوں ، نہ ریلیاں نکلیں ، نہ لنگر پکیں اور نہ ہی سبیلیں لگیں ۔

لقمان شاہد
20/8/2019 ء
حاکم اعلیٰ کی سخاوت!

اصمعی کہتے ہیں میں ایک اعرابی کے پاس سے گزرا جو جماعت کرا رہا تھا میں بھی نماز میں شامل ہو گیا ۔اس نے تلاوت شروع کی ۔
والشمس وضحاها والقمر إذا تلاها كلمة بلغت منتهاها لن يدخل النار ولن يراها رجل نهى النفس عن هواها،
میں نے اسے کہا یہ قرآن مجید میں تو نہیں ہے۔بولا پھر مجھے کوئی سورہ سیکھا دو۔میں نےاسے سورہ فاتحہ اور اخلاص سیکھا دی۔چند دن بعد پھرمیراوہاں سے گزر ہوا تو وہ صرف سورہ فاتحہ نماز میں پڑھ رہا تھا ۔میں نے پوچھا دوسری سورت کیوں نہیں پڑھی ۔
بولا:میں نے اپنے چچا کے بیٹے کو(سیکھاکر) تحفۃً دے دی ہے اور کرم فرما تحفہ دے کر واپس نہیں لیتا۔

کتاب الحمقی و المغفلین دارالکتب العلمیہ بیروت صفحہ 91

حالیہ دی جانے والی ایکسٹنشن کی حالت بھی کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے۔ ہمارے حاکم صاحب اعرابی سے کہیں بڑھ کر کرم فرما ہیں ۔ایکسپائری ڈیٹ ختم ہونے کے باوجود تقرری برقرار رکھی گئی کہ دی ہوئی چیز واپس تو نہیں لی جاسکتی نا۔

فرحان رفیق قادری عفی عنہ
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹


فتنوں سے متعلق احادیث

وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْؕ-وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ(۵۶) لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْهِ وَ هُمْ یَجْمَحُوْنَ(۵۷)

ترجمہ

اور (منافق) اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں لیکن وہ لوگ ڈرتے ہیں ۔ اگر انہیں کوئی پناہ گاہ یا غار یا کہیں سما جانے کی جگہ مل جاتی تو جلدی کرتے ہوئے ادھر پھر جائیں گے۔

تفسیر


*{وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اور اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں۔}* منافقین اس پر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہارے دین و ملت پر ہیں اور مسلمان ہیں لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرما دیا کہ وہ تم میں سے نہیں ہیں بلکہ تمہیں دھوکا دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ صرف اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ان کا نفاق ظاہر ہوجائے تو مسلمان ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو مشرکین کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے وہ براہِ تَقِیَّہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ۲ / ۲۵۰، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۴۴۰، ملتقطاً)

*آیت ’’وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:*

اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے:

(1)… تقیہ کرنا منافقوں کا کام ہے، مومن کا کام نہیں۔

(2)… جب عمل قول کے مطابق نہ ہو تو قول کا کوئی اعتبار نہیں۔ منافق قسمیں کھا کر اپنے ایمان کا ثبوت دیتے تھے مگر رب تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔

(3)… مسلمان دو طرح کے ہیں۔ حقیقی مسلمان اور ظاہری مسلمان یعنی دنیوی احکام کے اعتبار سے مسلمان۔ منافقین قومی مسلمان تھے دینی نہ تھے اس لئے انہیں مسجدمیں نماز پڑھنے کی اجازت تھی، انہیں کفار کی طرح قتل نہ کیا گیا لیکن وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک مومن نہ تھے۔ وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ کے یہ ہی معنی ہیں۔

*{ لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً:اگر انہیں کوئی پناہ گاہ مل جاتی۔}* یعنی منافقین کا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں سے انتہا درجے کے بغض کی وجہ سے حال یہ ہے کہ اگر وہ تمہارے پاس سے کسی پناہ گاہ، غار یا کہیں سما جانے کی جگہ کی طرف بھاگ جانے پر قادر ہوتے تو بہت جلد ادھر پھر جاتے کیونکہ بزدل کا کام ہی بھاگ جانا ہوتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۲۵۰)

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِۚ-فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ(۵۸)

ترجمہ

اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو صدقات تقسیم کرنے میں تم پراعتراض کرتا ہے تو اگر اِنہیں اُن (صدقات) میں سے کچھ دیدیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں اور اگر اِنہیں اُن میں سے کچھ نہ دیا جائے تو اس وقت ناراض ہوجاتے ہیں ۔

تفسیر


*{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ:اور ان (منافقوں ) میں سے کوئی وہ ہے جو صدقات تقسیم کرنے میں تم پر اعتراض کرتا ہے۔}* شانِ نزول:یہ آیت ذُوالخُوَیْصِرَہ ْ تمیمی کے بارے میں نازل ہوئی اس شخص کا نام حُرْقُوْص بن زُہَیْر ہے اور یہی خوارج کی اصل وبنیاد ہے ۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۲۵۰)

بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ذُوالخُوَیْصِرَہ ْ نے کہا یا رسولَ اللہ ! عدل کیجئے ۔حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تجھے خرابی ہو ،میں عدل نہ کروں گا تو عدل کون کرے گا ؟ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عر ض کی: مجھے اجازت دیجئے کہ اس (منافق) کی گردن مار دوں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس کے اور بھی ہمراہی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے سامنے اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزوں کو حقیر دیکھو گے ، وہ قرآن پڑھیں گے اور ان کے گلوں سے نہ اترے گا، وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۰، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب ذکر الخوارج وصفاتہم، ص۵۳۳، الحدیث: ۱۴۸(۱۰۶۴))

اس سے معلوم ہوا کہ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کسی فعل شریف پر اعتراض کرنا کفر ہے۔

*فتنوں سے متعلق دو اَحادیث:*

(1)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ دعا فرمائی ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے شام میں برکت دے ۔اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہمارے یمن میں برکت دے ۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے نجد میں۔ارشاد فرمایا :اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے شام
میں برکت دے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے یمن میں برکت دے ۔ لوگوں نے پھر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اور ہمارے نجد میں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ تیسری بار میں ارشاد فرمایا ’’کہ وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطانی گروہ نکلے گا ۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبیصلی اللہ علیہ وسلم: الفتنۃ من قبل المشرق، ۴ / ۴۴۰، الحدیث: ۷۰۹۴)

(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آخری زمانے میں ایک قوم نکلے گی جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث بیان کریں گے ،قرآنِ مجید کو پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے اسطرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے اور جب تم انہیں پاؤ تو ان کو قتل کرنا کیونکہ جو( ان سے جنگ کرے گا اور) انہیں قتل کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے اجر ملے گا۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، ص۵۳۵، الحدیث: ۱۵۴(۱۰۶۶))

*{فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا:تو اگر اِنہیں اُن (صدقات) میں سے کچھ دیدیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں۔}* معلوم ہوا کہ دُنْیَوی نفع پر حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے راضی ہو جانا اور نفع نہ ہونے کی صورت میں ناراض ہو جانا منافق کی خاص علامت ہے، ایسا آدمی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں لایا بلکہ اپنے نفس پر ایمان لایا ہے۔ اخلاص نہ ہونے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب تک فائدہ ملتا رہے تب تک راضی، خوش ہیں اور جب فائدہ ملنا بند ہوجائے تو برائیاں بیان کرنا شروع کردی جائیں۔ آج بھی کسی آدمی کے دوسرے کے ساتھ مخلص ہونے کا یہی پیمانہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہم سے فائدہ حاصل کرتے وقت تو خوش اور راضی ہو اور تعریفیں کرے اور فائدہ ختم ہوجانے پر سلام لینا گوارا نہ کرے تو یہ مخلص نہ ہونے کی علامت ہے اور افسوس کہ فی زمانہ اسی طرح کی صورتِ حال ہے۔

*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷

فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم

" تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہےاور سچ بولنے کو لازم کر لو اس لیے کہ سچ بھلائی اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے ۔"

( سنن ابو داوود- حدیث 1551 )
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=513038496168256&id=357986138340160

*🚫 عبقری میگزین سے بچیں 🚫*

ہمارے پاس اکثر روایات کی تحقیق کے لئے سوالات آتے ہیں ۔تجربہ سے معلوم ہوا کہ ان *منگھڑت روایات* میں سے ایک بہت بڑی تعداد *عبقری میگزین* کے ذریعے سے وجود میں آتی ہے ۔

میں نے دو تین سال پہلے بھی اس پر کچھ تحریریں مرتب کیں تھیں اب ضرورت محسوس ہوئی کہ اپنے احباب و رفقاء کو مزید متوجہ کر دیا جائے تاکہ وہ خود بھی *دجالیت* کے اس مظہر اور جھوٹ کے منبع سے بچ سکیں اور اپنے اہل خانہ کو بھی بچائیں کہ *خواتین میں یہ رسالہ زیادہ مقبول ہو رہا ہے کہ خواتین کو جادو ٹونے کے قصوں، دیسی ٹوٹکوں اوروظائف و عملیات میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے ۔*

اب ان کا رسالہ چونکہ ہر ماہ شائع ہوتا ہے لہذا ہر ماہ ان کو نئی نئی چیزیں چاہیئں تو ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ عوام کے خطوط میں جو بھی چیز ان کو ملتی ہے وہ من و عن چھاپ دیتے ہیں ۔
*اب یہ جو کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر بندہ طبیب اور ہر آدمی مفتی ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ رسالہ ہے ۔*
علاج معالجہ ہماری لائن نہیں لہذا ہم اس سے بحث نہیں کرتے لیکن کسی بھی مستند ڈاکٹر یا حکیم سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ایسے عوامی نسخوں سے علاج کس قدر نقصان دہ ہوسکتا ہے ۔
*اب رہی بات روایات کی* تو
اطلاعات کے مطابق انہوں نے ایک ٹیم بٹھائی ہوئی ہے جو یہ وظائف گھڑنے اور مختلف *کتب شیعہ* وغیرہ کی وہاں سے تلاش کا کام کرتی ہے ۔
نیز ان کے پاس عوام کے خطوط میں جو کچھ بھی لکھا آتا ہے اسے بھی من وعن چھاپ دیتے ہیں ۔
اور اس بنیاد پر کہ ان کے رسالہ میں انوکھی انوکھی چیزیں ہوتی ہیں اور انسان کی فطرت ہے کہ کل جدید لذیذ تو ان کا رسالہ خوب بکتا ہے ایک دفعہ بتایا کہ لاکھوں میں اشاعت چلی جاتی ہے اور پوری دنیا میں جاتا ہے ۔
*تو بھائی جب لاکھوں میں چھپتا ہے تو پرافٹ کتنا ہوتا ہوگا؟*
تو یہ ایک بہت بڑا کاروبار ہے جس کی بنیاد اس طرح کی روایات پر ہے ۔ *ورنہ صحیح احادیث جو معروف ہیں ان کے لکھنے سے کیسے یہ کاروبار چلے گا؟*
اب آپ سب پوری صورتحال پر غور کرو اور پھر سمجھو کہ *ان لوگوں کو روایت کے درست ہونے نا ہونے سے مطلب نہیں ہے ۔*
ایک دفعہ مسجد نبوی میں ہمارے دوست مفتی عبدالباقی صاحب نے ان سے اس موضوع پر بات کی تو کہنے لگے *میں کوئی عالم دین نہیں* اس لئے مجھے پتا نہیں چلتا پھر جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ اپنی اس ٹیم میں جو رسالہ تیار کرتی ہے *کسی عالم کو شامل کرلیں تو وہ اس پر راضی نہیں ہوتے*
اور دیگر علماء سے معلوم ہواکہ یہ بات تو بہت سے لوگ ان کو کہہ چکے ہیں ۔
لیکن وہ لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میرے پاس اتنے علماء دوائی لینے آتے ہیں اور اتنے علماء مجلس میں بیٹھتے ہیں وغیرہ ۔
*تو غور کرنے سے سمجھ آیا کہ رسالہ کی تیاری میں علماء کو شامل کرنے والی تجویز وہ کبھی قبول نہ کریں گے کہ کوئی عالم ہوگا تو وہ ہر انوکھی اور نئی چیز کو نکال دے گا تو رسالہ کیسے چلے گا؟*
جس کا مدار ہی ان انوکھی انوکھی باتوں پر ہے ۔
نیز جو جادو و جنات کے قصے ان کے رسالہ میں ہیں ان کی تصدیق کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے بقول بعض رفقاء کے علامہ لاہوتی پراسراری صاحب کا جو قصہ چلتا ہے اس سے عبقری صاحب اپنی ذات مراد لیتے ہیں اور اب شیخ الوظائف لقب اختیار کیا ہے ۔
ان گنہگار آنکھوں نے ان صاحب کو ایک معمولی حکیم سے پی ایچ ڈی امریکہ تک اور پھر شیخ الوظائف کی مسند تک منتقل ہوتے دیکھا ہے ۔
پھر ان فرضی قصوں کہانیوں سے کسی عملی فائدے کا ہونا بھی مشکل ہے کہ *جس بات کی بنیاد جھوٹ پر ہو اس سے کسی دینی فائدے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ۔*
اس کے بجائے صحابہ کی زندگی اور اکابر کے حالات کے مطالعہ کی طرف متوجہ کرنا چاہئے تاکہ زندگی میں تبدیلی آئے۔

*عبداللہ اسلم لاہور*

*نوٹ :*

*یاد رہے کہ*

*📌 عبقری والے مکتبہ فکر نجدی وہابی دیوبندی فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں*
اور
*وہابی دیوبندی یا رسول اللہ کہنے والے سنی مسلمانوں کو مشرک کہتے ہیں اور مسلمانوں کو مشرک کہنے والے خوارج ہیں*
*اس لئے سنی مسلمانوں کو ان کے مکر و فریب سے بچنا چاہئے*

*طریقہ واردات*

*یہ بدمذہب بدعقیدہ گستاخان_رسول نجدی قبضہ گروپ سعودی وہابی غیر مقلد سلفی دیوبندی منافق فرقے اہلسنت کا لباس اوڑھ کر یعنی چند معمولاتِ اہلسنت کا سہارا لے کر چند عقائد اہلسنت کا سہارا لے کر سنی مسلمانوں کو اپنے قریب کرکے انہیں اپنے خارجی نجدی وہابی دیوبندی بدمذہب بدعقیدہ مسلک میں کنورٹ کرنے کی واردات کر رہے ہیں*

*یہ بھی یاد رکھیں کہ*
*وہابی دیوبندی خوارج کے روپ میں منافق فرقوں کا اہلسنت جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے *

*اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری_نسلوں کو ان خارجی نجدی قبضہ گروپ سعودی وہابی غیر مقلد سلفی دیوبندی گستاخان_رسول منافق فرقوں سے محفوظ رکھے آمین 🤲*
💔 دل آزاری💔

پہلےعلما حق بیانی کو ترجیح دیتے تھے ، اَب حق بیانی پر لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے ۔

یہ جو نئی پود آرہی ہے ( الا ماشاءاللہ ) ، اس نے تو مذہب و مسلک ہی یہ بنالیا ہے کہ:

کسی کی دل آزاری نہیں کرنی ۔

یاد رکھیے! جو عالم ” صِرف “ یہ سوچ کر لکھتا اور بولتا ہے کہ:
” میں نے کسی کی دل آزاری نہیں کرنی ۔ “

وہ حق بیانی سے محروم ہو جاتا ہے ، اور منافقت و مداہنت اس کے رَگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے ۔

دین دار عالِم وہی ہے جو دینِ حق کو ، بیان کرنے کے لیے حق گوئی سے کام لے ، پھر چاہے لوگوں کی دل آزاری ہو یا دل جوئی ۔

فقیہِ اعظم مولانا محمدشریف کوٹلوی رحمہ اللہ ایک جگہ تقریر کرنے گئے تو اُنھیں کہا گیا:

حضرت! کسی کے خلاف تقریر نہیں کرنی ، تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو ۔

آپ نے فرمایا: کس موضوع پر کرنی ہے ؟

کہا گیا: نماز ، روزے اور اصلاحِ معاشرہ پر ۔

آپ نے فرمایا:
نماز پر تقریر کرتے ہوئے جب بے نمازی کی سزائیں بیان کروں گا ، اور کہوں گاجو نماز نہیں پڑھتا وہ مجرم اور مستحق عذاب ہے ، تو تقریر اختلافی ہوجائے گی ؛ جس سے بے نمازیوں کی دل آزاری ہوگی ۔
اسی طرح اصلاح معاشرہ کرتے ہوئے جب جھوٹوں ، رشوت خوروں ، خائنوں ، بد دیانتوں کی مذمت کروں گا تو اُن کی دل آزاری ہوجائے گی ؛ اب بتائیں میں کیا کروں!!

لقمان شاہد
22/8/2019 ء
قسط#02: سلسلہ "محرم الحرام اور شہدا کربلا"
🔹امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت، کربلا کے واقعات، خطبات اور مناظر نیز دشمنوں کا درد ناک انجام، پرسوز واقعات اور اسلام کی سربلندی کیلئے بے مثال و لازوال قربانیوں کی داستانیں اور بہت کچھ ان تمام کتب میں ملاحظہ فرمائیں.
👇👇👇
🔹محرم الحرام اور عقائد و نظریات
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1211
🔹خطبات محرم
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/6803
🔹کربلا کا مسافر اردو اور ہندی زبان میں
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1224
🔹سانحہ کربلا
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1224
🔹کنزالخطیب ماہ محرم الحرام
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1224
🔹عاشورہ
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1186
🔹سبیل ہدایت ماتم کی شرعی حیثیت
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1188
🔹انوارخطابت برائے محرم الحرام مکمل
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1190
🔹محرم الحرام سے متعلق 50 سوالات
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1202
🔹مدنی پھول برائے محرم الحرام
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1205
🔹ہم محرم کیسے منائیں.؟
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1208
🔹کوفی لایوفی
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1217
🔹مابعد کربلا ہندی زبان میں
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1226
🔹حسینی دولھا
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1230
🔹شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1232
🔹کربلا کا خونیں منظر
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1234
🔹امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1236
🔹تاریخِ کربلا
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1239
🔹سیرت امام حسین رضی اللہ عنہ
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1241
🔹امام پاک رضی اللہ عنہ اور یزید پلید
👉https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1246
🔹امام حسین رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1250
🔹ہفتہ وار سنتوں بھرے بیانات کرامات حسین اور یزید کا انجام
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1251
🔹حسنین کریمین سے حضور کی محبت
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1254
🔹یزید کا برا کردار
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1257
🔹یزید کا درد ناک انجام
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1261
🔹فضائل حسنین کریمین رضی اللہ عنھما
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1279
🔹حسینی کریمین کی شان و عظمت
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1281
🔹آئنیہ قیامت اردو اور ہندی زبان میں
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1271
🔹رسومات محرم اور تعزیہ
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1273
🔹سوانح کربلا اردو اور ہندی زبان میں
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1284
🔹شام کربلا اردو
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1266
🔹کربلا کے بعد
👉 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/1277
🔰مزید علمی تحقیقی اور اصلاحی بے شمار موضوعات پر مشتمل سینکڑوں مفت کتب و رسائل کیلئے جوائن کیجیے علمائے اہلسنت کی کتب کا مرکز اور اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کیجیے.
👇👇👇
https://telegram.me/IslamicPDFLibrary
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

نفع و نقصان پہنچانے کی نسبت نیک بندوں کی طرف کرنا جائز ہے:

وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ-وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ۠(۵۹)

ترجمہ

اور (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ اور اس کا رسول ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں ۔

تفسیر


*{وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ:اوراگر وہ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا۔}* ارشاد فرمایا کہ کیا اچھا ہوتا اگر تقسیم پر اعتراض کرنے والے منافق اس پر راضی ہوجاتے جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں عطا فرمایا اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور وہ کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا فضل اور جتنا اس نے عطا کیا وہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے فضل سے صدقہ اور اس کے علاوہ لوگوں کے اَموال سے غنی اور بے نیاز کر دے۔(روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۵۲، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۲۵۰)

*آیت’’مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:*

اس سے معلوم ہوا کہ یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں ایمان دیا، دوزخ سے بچایا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ رسول عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیتے ہیں اور آئندہ بھی دیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ جو دیتا ہے وہ حضو ر پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے ذریعے سے دیتا ہے۔

*نفع و نقصان پہنچانے کی نسبت نیک بندوں کی طرف کرنا جائز ہے:*

یاد رہے کہ کسی کو نفع پہنچانے یا کسی سے نقصان دور کر دینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی طرف کرنا جائز ہے، اس طرح کی نسبتیں قرآنِ پاک میں بکثرت مقامات پر مذکور ہیں

(1)…اللہ تعالیٰ نے نعمت عطا کرنے کی نسبت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف فرمائی،ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ‘‘(احزاب:۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ نے اسے نعمت بخشی اور اے نبی تو نے اسے نعمت بخشی۔

(2)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف غنی کرنے کی نسبت فرمائی، ارشاد فرمایا:

’’وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ‘‘ (توبہ:۷۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انہیں یہی برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔

(3،4)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرشتوں کو ہمارا محافظ اور نگہبان فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے

’’لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ‘‘(الرعد :۱۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:آدمی کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے بدل بدل کر باری باری آنے والے فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔

اور ارشاد فرمایا:

’’وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً‘‘(انعام:۶۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔

(5)…اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ملا کر کفایت کرنے والا فرمایا

’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (انفال:۶۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے نبی! اللہ تمہیں کافی ہے اور جو مسلمان تمہارے پیروکار ہیں۔

مشورہ:اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘(مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والاکہنے والوں کیلئے انعامات) کا مطالعہ کیجئے۔



*طالبِ دعا ابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷

فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم

جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر درود شریف پڑھے گا تو بروزِ قیامت اس کی شفاعت میرے ذمہ کرم پر ہوگی.

( کنزالعمال حدیث 2236 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

مَصارِفِ زکوٰۃ کی تفصیل اور ان سے متعلق شرعی مسائل:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۶۰)

ترجمہ

زکوٰۃ صرف فقیروں اور بالکل محتاجوں اور زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر کئے ہوئے لوگوں اور ان کیلئے ہے جن کے دلوں میں اسلام کی الفت ڈالی جائے اور غلام آزاد کرانے میں اور قرضداروں کیلئے اور اللہ کے راستے میں (جانے والوں کیلئے) اور مسافر کے لئے ہے۔ یہ اللہ کامقرر کیا ہوا حکم ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر


*{اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ:زکوٰۃ صرف ان لوگوں کے لئے ہے۔}* جب منافقین نے صدقات کی تقسیم میں سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس آیت میں بیان فرما دیا کہ صدقات کے مستحق صرف یہی آٹھ قسم کے لوگ ہیں ان ہی پر صدقات صَرف کئے جائیں گے ،ان کے سوا اور کوئی مستحق نہیں نیز رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اموالِ صدقہ سے کوئی واسطہ ہی نہیں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ کی اولاد پر صدقات حرام ہیں تو طعن کرنے والوں کو اعتراض کا کیا موقع ہے۔ اس آیت میں صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔

*مَصارِفِ زکوٰۃ کی تفصیل اور ان سے متعلق شرعی مسائل:*

اس آیت میں زکوٰۃ کے مصارف بیان گئے ہیں ،ان سے متعلق چند شرعی مسائل درج ذیل ہیں

(1)… زکوٰۃ کے مستحق آٹھ قسم کے لوگ قرار دیئے گئے ہیں ان میں سے مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اِجماع کی وجہ سے ساقط ہوگئے کیونکہ جب اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا تو اب اس کی حاجت نہ رہی اور یہ اجماع حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں منعقد ہوا تھا۔ یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقط کرنے میں ایسا نہیں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے قرآنِ کریم کو ہی بدل دیا کیونکہ قرآنِ مجید ایسی کتاب ہے ہی نہیں کہ مخلوق میں سے کوئی اسے تبدیل کرسکے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ا س کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے، بلکہ صحابۂ کرام کا مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقِط کرنے میں اِجماع یقینا کسی دلیل کی بنا پر تھا ، جیسا کہ علامہ کمال الدین محمد بن عبد الواحدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یقینا ان کے پاس کوئی ایسی دلیل ہو گی جس سے انہیں علم ہو گا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی وفات سے پہلے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔ یا، اس حکم کے آپ کی (ظاہری) حیاتِ مبارکہ تک ہونے کی قید تھی۔ یا، یہ حکم کسی علت کی وجہ سے تھا اور اب وہ علت باقی نہ رہی تھی۔(فتح القدیر، کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ ومن لا یجوز، ۲ / ۲۰۱)

(2)…فقیر وہ ہے جس کے پاس شرعی نصاب سے کم ہو اور جب تک اس کے پاس ایک وقت کے لئے کچھ ہو اس کو سوال حلال نہیں۔ ہاں بن مانگے اگر کوئی اسے زکوٰۃ دے تو وہ لے سکتا ہے اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور ایسا شخص سوال بھی کرسکتا ہے۔

(3)… عاملین وہ لوگ ہیں جن کو حاکمِ اسلام نے صدقے وصول کرنے پر مقرر کیا ہو۔

(4)… اگر عامل غنی ہو تو بھی اس کو لینا جائز ہے۔

(5)… عامل سید یا ہاشمی ہو تو وہ زکوٰۃ میں سے نہ لے۔

(6)…گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ جن غلاموں کو ان کے مالکوں نےمُکَاتَبْ کردیا ہو اور ایک مقدار مال کی مقرر کردی ہو کہ اس قدر وہ ادا کردیں تو آزاد ہیں ، وہ بھی مستحق ہیں ، ان کو آزاد کرانے کے لئے مالِ زکوٰۃ دیا جائے۔

(7)…قرضدار جو بغیر کسی گناہ کے مبتلائے قرض ہوئے ہوں اور اتنا مال نہ رکھتے ہوں جس سے قرض ادا کریں انہیں ادائے قرض میں مالِ زکوٰۃ سے مدد دی جائے۔

(8)…اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرنے سے بے سامان مجاہدین اور نادار حاجیوں پر صَرف کرنا مراد ہے۔

(9)…اِبنِ سبیل سے وہ مسافر مراد ہے جس کے پاس اُس وقت مال نہ ہو۔

(10)… زکوٰۃ دینے والے کو یہ بھی جائز ہے کہ وہ ان تمام اَقسام کے لوگوں کو زکوٰۃ دے اور یہ بھی جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی قسم کو دے۔

(11)… زکوٰۃ انہیں لوگوں کے ساتھ خاص کی گئی لہٰذاان کے علاوہ اور دوسرے مَصرف میں خرچ نہ کی جائے گی، نہ مسجد کی تعمیر میں ،نہ مردے کے کفن میں ،نہ اس کے قرض کی ا دا ئیگی میں۔

(12)… زکوٰۃ بنی ہاشم اور غنی اور ان کے غلاموں کو نہ دی جائے اور نہ آدمی اپنی بیوی اور اولاد اور غلاموں کو دے۔(تفسیرات احمدیہ، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۶۶-۴۶۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۴۱، ملتقطاً)۔

*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷

حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:

غلام تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے، تو جو تم کھاتے ہو اس میں سے انہیں کھلاؤ، جو لباس تم پہنتے ہو، ویسا ہی انہیں پہناؤ، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسا ہو تو تم بھی ساتھ میں ان کی مدد کرو۔ 

(مسلم، الحدیث: ۳۸(۱۶۶۱))
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=927506590919173&id=463816663954837
*موازنہ مت کیجیے*
اپنی زندگی جینا شروع کیجیے۔
*Once Count The Blessings Of Allah*
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب
*" کامیاب زندگی کے راز "* سے انتخاب ۔
*کسی جنگل میں ایک سیانہ کوا رہتا تھا۔کوا بہت خوشحال زندگی گزار رہا تھا* ۔ بغیر کسی فکر کے وہ پورا دن گھومتا پھرتا اور طرح طرح کے کھانے پینے کا لطف اٹھاتا۔اندھیر ہوتے ہی کسی خوشبودار درخت پر رات بسر کرتا۔زندگی کے حسین دن گزارتے گزارتے ایک دن جب اس کی ایک ہنس سے ملاقات ہوٸی تو اس ملاقات کے بعد وہ پریشان رہنے لگا۔دراصل اس کی پریشانی کی وجہ یہ فکر تھی جو اسے اندر ہی اندر کھاۓ جا رہی تھی کہ *ہنس اتنا سفید ہے اور میں اتنا کالا‘*
*یہ ہنس دنیا کا سب سے خوش پرندہ ہوگا* ‘ کوے نے اپنے خیالات ہنس کو بتائے‘ہنس نے کہا اصل میں مجھے لگتا تھا میں سب سے زیادہ خوش ہوں جب تک میں نے طوطا نہیں دیکھا تھا‘ طوطے کے پاس دو مختلف رنگ ہیں‘اب میں سوچتا ہوں طوطا سب سے زیادہ خوش ہوگا‘۔ کوا طوطے کے پاس پہنچا‘ طوطے نے کوے کو بتایا‘ میں بہت خوش زندگی گزار رہا تھا‘ پھر میں نے مور دیکھا‘ میرے پاس تو صرف دو رنگ ہیں جبکہ مور کے پاس کئی رنگ ہیں۔ کوا مور سے ملنے چڑیا گھر جا پہنچا‘ وہاں کوے نے دیکھا کہ سینکڑوں لوگ مور کو دیکھنے آئے ہوئے ہیں‘لوگوں کے روانہ ہونے کے بعد کوا مور کے قریب گیا‘ کوے نے کہا پیارے مور ! تم بہت خوبصورت ہو‘تمہیں دیکھنے روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں‘ مجھے لگتا ہے تم دنیا کے سب سے خوش رہنے والے پرندے ہو۔ مور نے جواب دیا‘ میں بھی سوچتا تھا میں سب سے *خوبصورت اور خوش پرندہ ہو لیکن میں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے میں چڑیا گھر میں قید ہوں‘ میں نے چڑیا گھر پر کافی غورکیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ صرف کوا وہ واحد پرندہ ہے جو چڑیا گھر کے کسی پنجرے میں قید نہیں‘ پچھلے کچھ دنوں سے مجھے لگتا ہے اگر میں کوا ہوتا تو آزاد ہوتا۔* *اگر بغور جاٸزہ لیں تو ہم میں سے کچھ انسان بھی ایسے ہی زندگی گزار دیتے ہیں* ۔زندگی کا موازنہ کرتے کرتے ناشکری کرنے لگ جاتے ہیں۔ جو اللہ نے دیا ہوتا ہے اس سے بھی لطف حاصل نہیں کر پاتے۔ اپنے پاس دس روپے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے سو پر نظر رکھنے کیوجہ سے بے چین زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن انسان پھر بھی ناشکرا ہے
*اپنے سے زیادہ والے سے موازنہ احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے* ۔ موازنہ کرنا ہی ہو تو اپنے سے کمتر سے کیجیے اور پھر اللہ کا شکر کیجیے جس نے اس قدر نعمتوں سے نوازا ہے ۔ *موازنہ دراصل متوازن زندگی کو بگاڑ بھی سکتا ہے* ۔ مثلا اگر ہم کسی برتر انسان کی زندگی سے موازنہ کریں تو احساس کم تری میں مبتلا ہو جاٸیں گے اور یہ احساس ہمیں ناشکرا بنا دے گا ہر وقت اللہ سے گلہ اور مایوسی کی زندگی ہمیں اس کی عطا کردہ نعمتوں کے لطف سے محروم کر دے گی ۔اب دوسری صورت ہے کہ اپنے سے کم تر سے موازنہ کیا جاۓ تو اس صورت ہمیں احساس برتری لاحق ہو جاۓ گا اور ہم خود کو دوسروں سے ممتاز افضل جانتے ہوۓ غرور اور تکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں میری ذاتی راۓ میں کوشش کیجیے کہ اپنی زندگی کاموازہ دوسروں سے بالکل نہ کریں *ہاں البتہ جب آپ کی خود اعتمادی اور صبر و شکر کامعیار اتنا بلند ہو کہ آپ ناشکرے اور بے صبرے ہونے سے بچ جاٸیں اس صورت موازنہ کریں تو اپنے سے برتر کودیکھ کر رشک کریں دعا دیں اور کم تر کو دیکھ کر شکر ادا کریں دعا کریں گے تو موازنہ خیر اور بھلاٸی ثابت ہو گا ۔* کمزور عقاٸد لوگوں کے لیے یہ موازنہ زہریلی دوا کی طرح ہے کہ وہ دوسروں سے موازنہ کر کر کے اپنی جو چند خوشیاں ہیں ان کو بھی برباد کر لیتے ہیں‘جتنا وقت ہم گلہ کرنے میں ضاٸع کرتے ہیں اتنا عملی کام کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں تو یقین مانیے ہمارایہ عمل ہمیں ہر روز خوشیوں میں اضافہ کرواتا ہوا دیکھاٸی دے گا۔ڈاکٹر اعظم کی *اس مثال کو ذرا توجہ سے پڑھیں تا کہ موازنہ کےوقت آپ کو یاد آۓ اور آپ پٹری سے نہ اتریں* ۔ایک نیک انسان مسجد گیا اور اس نے خوب اچھے سے نماز ادا کی پھر اللہ کا خوب ذکر حمد و ثنا کر کے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے اسے یاد آیا میرے پاس جوتا نہیں ہے ۔اس نے فورا دعا کی *اے اللہ میرے پاس جوتا نہیں ہے تو مجھے جوتا عطا کر دیکھ میں نے تیری اتنی عبادت کی اور تو نے مجھے جوتا تک نہیں دیا* ۔اس گلے شکوے پر امین کر کے جب وہ مسجد سے باہر نکلا تو اس نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے پاوں ہی نہیں ہیں اسے سخت شرمندگی ہوٸی واپس مسجد پلٹا اور اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر معافی مانگی اور شکر ادا کیا کہ *اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو نے مجھے پاوں تو دیے ہیں۔* ہمارا حال اس شخص کی پہلی کیفیت والا ہے ہم صرف شکوے ہی شکوے کرتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے ہمیں کس قدر نعمتوں سے نوازا ہے ۔ زندگی کا حسن اسی میں کہ جو آپ کے پاس ہے اس سے لطف اٹھاٸیے ۔اس سے
محبت کیجیے ۔قدر کیجیے اور ہر لمحہ اس کا شکرادا کیجیے *۔الحَمْدُ ِلله کو اپنی زبان پر جاری کیجیے* ۔ اللہ وعدہ خلاف نہیں ۔ اس نے کہا ہے تم میرا شکر ادا کرو میں تم پر اپنی نعمتوں کو بڑھا دوں گا ۔ *تو مایوسی کی اس اصل وجہ یعنی موازنہ کو خیر آباد کیجیے اور ماشاءاللہ ، الحَمْدُ ِلله ، سبحان الله، جزاك اللهُ‎، اور ان شاء اللہ کے ساتھ ساتھ أَسْتَغْفِرُ اللّٰه کو اپناتے ہوٸ زندگی کے حقیقی حسن کو انجواۓ کیجیے*
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب
شکریہ ...
#آزاد_میر صاحب (Àzad Mir) نے اماموں اور عام نمازیوں کے لیے اچھی نصیحتیں کیں🌹

1۔پیشاب کرنے کے بعد پانی بہا دیا کریں تاکہ بدبو جاتی رہے
2۔،وضو خانے میں بلغم کو یونہی نہ چھوڑیں،
3 وضو کے بعد پاوں پوچھ لیں تاکہ پوری مسجد نقش پا سے محفوط رہ سکے۔
4۔بیت الخلاء کا دروازہ استعمال کے بعد بند کر دیں،
5۔مسجد میں چپل جوتے قرینے سے رکھیں
6۔۔مسجد کے اندر لاؤڈسپیکر کی آواز انسانی سماعت کے حساب سے رکھیں لوگون کو بہرا نہ سمجھیں۔
6۔ تقریر وقت پہ شروع اور وقت پہ ختم کریں لوگون کو نماز بعد آفس بھی جانا ہوتا ہے۔
7۔اگلی صف میں پوری جگہ بھریں
8۔نماز کے دوران مستقل ڈکار نہ لیں کھانا کم کھائیں۔9۔دعائین بندوں کو سنانے کی بجائےاللہ پاک کو سنائیں
10۔عین دروازے کے سامنے نفلیں پڑھنے کے بجائے گھر پہ پڑھیں۔

تلک عشرہ کاملہ
لڑکا اچھا ہے لیکن

بیٹی شادی کے لائق ہو گئی ہے....، لڑکے کی تلاش ہے.....، نہیں نہیں اچھے لڑکے کی تلاش ہے......، اور اچھا لڑکا ہے کون؟ وہی جو مہینے میں بیس تیس ہزار کما لیتا ہو، اچھا پکّا گھر ہو، چھوٹا پریوار ہو تاکہ لڑکی عیش کرے۔
ایسے لڑکوں کا دام (Rate) آسمان چھو رہا ہے۔ چلو پھر بھی قرض وغیرہ لے کر لڑکا خرید ہی لیں گے لیکن لڑکی کی خوشیاں پھر بھی نہیں خرید پاتے کیوں کہ پیسوں کی بنیاد پر جن رشتوں کی دیوار کھڑی کی جاتی ہے وہ جلد ہی زمین پر آ جاتی ہے۔

اچھا لڑکا اصل میں وہ ہے جس کے پاس بھلے ہی گھر نہ ہو، پیسے نہ ہوں لیکن دین کا علم ہو، تقوے کی دولت ہو اور نیکیوں کی طاقت ہو۔ صرف ایسا لڑکا ہی لڑکی کے حقوق (Rights) کا خیال رکھ سکتا ہے۔ ایسے لڑکوں کو ہر کوئی اچھا نہیں سمجھتا لیکن جو سمجھتے ہیں انھیں چاہیے کہ فوراً ایسے لڑکوں سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دیں۔

ارے لیکن یہ کیا! ایک شخص کو اپنی بیٹی کے لیے ایسا لڑکا مل بھی گیا اور لڑکا بھی بنا کسی مطالبے (Demands) کے نکاح کو تیار ہے لیکن لیکن لیکن......، لڑکا شادی شدہ ہے!!!
اب تو چاہے اچھا لڑکا ملے یا نہ ملے لیکن بیٹی کے لیے کنوارا لڑکا تلاش کیا جائے گا کیوں کہ اگر میں نے اپنی بیٹی کی شادی اس اچھے لڑکے سے کر دی تو لوگ کیا کہیں گے، معاشرہ کیا کہے گا؟ نہیں نہیں اب اچھا لڑکا نہیں چاہیے بلکہ کنوارا چاہیے اگرچہ دام (Rate) زیادہ ہو۔

آپ کے سامنے اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ ایک طرف اچھا شادی شدہ لڑکا ہو اور دوسری طرف قیمتی کنوارا لڑکا تو آپ کس کو چنیں گے؟ میں تو معاشرے کی فکر کیے بغیر ایک نئی شروعات کروں گا اور اپنی بیٹی کی خوشیاں دیکھوں گا۔

عبد مصطفی
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹

📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ

*💐سورۂ فاتحہ کا تعارف💐*

*🌴 مقامِ نزول:*

اکثر علماء کے نزدیک’’سورۂ فاتحہ ‘‘مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے۔ اور ایک قول یہ ہے: ’’سورۂ فاتحہ‘‘ دو مرتبہ نازل ہوئی، ایک مرتبہ ’’مکہ مکرمہ‘‘ میں اور دوسری مرتبہ’’ مدینہ منورہ‘‘ میں نازل ہوئی ہے۔(خازن،تفسیرسورۃ الفاتحۃ، ۱/۱۲)

*💚رکوع اور آیات کی تعداد:*

اس سورت میں 1رکوع، 7 آیتیں ہیں۔

*سورۂ فاتحہ کے اسماء اور ان کی وجہ تسمیہ:*

اس سورت کے متعدد نام ہیں اور ناموں کا زیادہ ہونا اس کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے۔ اس کے مشہور 15 نام یہ ہیں:

(1)…’’سورۂ فاتحہ‘‘ سے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی جاتی ہے اور اسی سورت سے قرآن پاک لکھنے کی ابتداء کی جاتی ہے اس لئے اسے ’’فَاتِحَۃُ الْکِتَابْ‘‘ یعنی کتاب کی ابتداء کرنے والی کہتے ہیں۔

(2)… اس سورت کی ابتداء ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ سے ہوئی۔ اسی مناسبت سے اسے ’’سُوْرَۃُ الْحَمدْ‘‘ یعنی وہ سورت جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی گئی ہے، کہتے ہیں۔

(3،4)…’’سورہ ٔفاتحہ‘‘ قرآن پاک کی اصل ہے۔ اس بناء پر اسے ’’اُمُّ الْقُرْآنْ‘‘ اور ’’اُمُّ الْکِتَابْ‘‘ کہتے ہیں۔

(5)…یہ سورت نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے یا یہ سورت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے اس وجہ سے اسے ’’اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ‘‘ یعنی بار بار پڑھی جانے والی یا ایک سے زائد مرتبہ نازل ہونے والی سات آیتیں، کہا جاتا ہے۔

(6تا8)…دین کے بنیادی امور کا جامع ہونے کی وجہ سے سورۂ فاتحہ کو’’سُوْرَۃُ الْکَنزْ، سُوْرَۃُ الْوَافِیَہْ‘‘ اور ’’سُوْرَۃُ الْکَافِیَہْ‘‘ کہتے ہیں۔

(9،10)… ’’شفاء ‘‘ کا باعث ہونے کی وجہ سے اسے’’سُوْرَۃُ الشِّفَاءْ‘‘ اور ’’سُوْرَۃُ الشَّافِیَہْ‘‘کہتے ہیں۔

(11تا15)…’’دعا‘‘ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے’’سُوْرَۃُ الدُّعَاءْ، سُوْرَۃُ تَعْلِیْمِ الْمَسْئَلَہْ، سُوْرَۃُالسُّوَالْ، سُوْرَۃُ الْمُنَاجَاۃْ‘‘ اور’’سُوْرَۃُ التَّفْوِیْضْ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ (خازن، تفسیرسورۃ الفاتحۃ،۱/۱۲، مدارک،سورۃ فاتحۃ الکتاب،ص۱۰، روح المعانی،سورۃ فاتحۃ الکتاب،۱/۵۱، ملتقطاً)

*💐سورۂ فاتحہ کے فضائل:*

احادیث میں اس سورت کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے4فضائل درج ذیل ہیں:

(1) … حضرت ابوسعید بن مُعلّٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں، میں نماز پڑھ رہا تھا تو مجھے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بلایا لیکن میں نے جواب نہ دیا۔(جب نماز سے فارغ ہو کر بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوا تو)میں نے عرض کی: ’’یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نماز پڑھ رہا تھا۔ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ‘‘ اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں بلائیں۔(انفال: ۲۴) پھر ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کریم کی سب سے عظیم سورت نہ سکھاؤں؟ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، جب ہم نے نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے عرض کی: یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے فرمایا تھا کہ میں ضرور تمہیں قرآن مجید کی سب سے عظمت والی سورت سکھاؤں گا۔ ارشاد فرمایا: ’’وہ سورت ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ہے۔ یہی ’’سبع مثانی‘‘ اور ’’قرآن عظیم ‘‘ہے، جو مجھے عطا فرمائی گئی۔ (بخاری، کتاب فضائل القراٰن، باب فاتحۃ الکتاب، ۳/۴۰۴، الحدیث:۵۰۰۶)

(2) … حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں: ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور اس نے سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں سلام پیش کر کے عرض کی: یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو اُن دو نوروں کی بشارت ہو جو آپ کے علاوہ اور کسی نبی کو عطا نہیں کئے گئے اور وہ دو نور یہ ہیں: (۱)’’سورۂ فاتحہ‘‘ (۲)’’سورۂ بقرہ‘‘ کی آخری آیتیں۔ (مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل الفاتحۃ۔۔۔الخ، ص۴۰۴، الحدیث: ۲۵۴(۸۰۶))

(3) … حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل میں ’’اُمُّ الْقُرْآنْ‘‘ کی مثل کوئی سورت نازل نہیں فرمائی۔‘‘ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ (الحجر)، ۵/۸۷، الحدیث: ۳۱۳۶)

(4) …حضرت عبد الملک بن عُمَیر رَضِیَ اللہ
ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سورۂ فاتحہ ہر مرض کے لیے شفا ء ہے۔‘‘ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲/۴۵۰، الحدیث: ۲۳۷۰)

🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀

*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔

*🍀تفسیر:🍀*

{بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱/۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱/۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)

لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں۔ اس کی بہت برکت ہے۔

{الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: جو نہایت مہربان رحم والا۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے۔ مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا۔ دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آیا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔ اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا: تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔ اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱/۱۵۳)

*🌺 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:🌺*

علماء کرام نے ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1)… جو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔

(2)… ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تاکہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے۔ اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے۔ اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا۔ نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ نہ تھی۔

(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔

(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے۔ لیکن اگر شاگرد استاد سے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔

(5)…سورت کی ابتداء میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔

(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰه‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔

*🌸💥عاجِزَانہ اِلتجاء💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے———————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
T.me/DailyTilawatQuran
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹

📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر1

🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱)

*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*(1)سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا۔

*🍀تفسیر:🍀*

{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: سب خوبیاں اللہ کو۔} یعنی ہر طرح کی حمد اور تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کمال کی تمام صفات کا جامع ہے۔

*🌴حمد اور شکر کی تعریف:*

حمد کا معنی ہے کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر اُس کی تعریف کرنا۔ اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان، دل یا اعضاء سے اُس کی تعظیم کرنا۔ اورہم چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد عام طور پر اُس کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں اس لئے ہماری یہ حمد’’ شکر‘‘ بھی ہوتی ہے۔

*🌹اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے فضائل:*

احادیث میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے 3فضائل درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور کچھ پئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب استحباب حمد اللہ۔۔۔الخ، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۸۹(۲۷۳۴))

(2)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل ذکر ’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ ہے اور سب سے افضل دُعا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۴۸، الحدیث: ۳۸۰۰)

(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)

*💚حمد سے متعلق شرعی حکم:*

خطبے میں حمد ’’واجب‘‘، کھانے کے بعد ’’مستحب‘‘، چھینک آنے کے بعد ’’سنت‘‘، حرام کام کے بعد ’’حرام‘‘ اور بعض صورتوں میں ’’کفر‘‘ہے۔

{لِلّٰهِ: اللہ کے لئے۔} ’’اللہ‘‘ اس ذات ِ اعلیٰ کاعظمت والا نام ہے جو تمام کمال والی صفتوں کی جامع ہے اوربعض مفسرین نے اس لفظ کے معنٰی بھی بیان کیے ہیں جیسے اس کا ایک معنی ہے: *’’عبادت کا مستحق‘‘* دوسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی معرفت میں عقلیں حیران ہیں ‘‘ تیسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی بارگاہ میں سکون حاصل ہوتاہے:‘‘ اور چوتھا معنی ہے: ’’وہ ذات کہ مصیبت کے وقت جس کی پناہ تلاش کی جائے۔‘‘(بیضاوی، الفاتحۃ، ۱/۳۲)

{رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: جو سارے جہان والوں کا مالک ہے۔} لفظ’’رب‘‘ کے کئی معنی ہیں: جیسے سید، مالک، معبود، ثابت، مصلح اور بتدریج مرتبہ کمال تک پہنچانے والا۔ اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر موجود چیز کو عالَم کہتے ہیں اور اس میں تمام مخلوقات داخل ہیں۔(صاوی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۶، خازن، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۷، ملتقطاً)


🌸💥عاجِزَانہ اِلتجاء💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
——————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
T.me/DailyTilawatQuran
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹

📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر2

🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(۲)

*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (2)بہت مہربان رحمت والا۔

*🍀تفسیر:🍀*

{اَلرَّحْمٰنْ:بہت مہربان۔} رحمٰن اور رحیم اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں۔ رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے: بہت رحمت فرمانے والا۔

یاد رہے کہ حقیقی طور پر نعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی۔ ہر چھوٹی، بڑی، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہے۔ کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اُٹھانا اور فائدہ اٹھانے کے لئے اَعضاء کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔

🔷 *اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہونا چاہئے:*

ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کے بعد اپنے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم بیان فرمائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہے، تو اس سے (سننے اور پڑھنے والے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اس کا) خوف پیدا ہوا،تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم ذکر کر دئیے گئے جن کے ضمن میں (اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی) ترغیب ہے۔ یوں ترہیب اور ترغیب دونوں کا بیان ہو گیا تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی طرف اچھی طرح راغب ہو اور اس کی نافرمانی کرنے سے رکنے کی خوب کوشش کرے۔ (قرطبی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱/۱۲۹، الجزء الاوّل)

قرآن مجید میں اور مقامات پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب دونوں کو واضح طور پر ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(٤٩) وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰)‘‘(حجر: ٤۹،۵۰)

ترجمہ: میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔

اور ارشاد فرمایا: ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ-ذِی الطَّوْلِ- لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(۳)‘‘(مومن: ۳)

ترجمہ: گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا، بڑے انعام(عطا فرمانے) والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف پھرنا ہے۔

نیزحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ۔۔۔الخ،ص۱۴۷۳،الحدیث:۲۳(۲۷۵۵))
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بےباک نہ ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہو۔

*🌴کسی کورحمٰن اور رحیم کہنے کے بارے میں شرعی حکم:*

اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا جائز نہیں، جبکہ رحیم کہا جا سکتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی رحیم فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)‘‘(توبہ: ۱۲۸)

ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔

🌸💥عاجِزَانہ اِلتجاء💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
T.me/DailyTilawatQuran