✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹

📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر3

🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔

مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ(۳)

*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (3)روزِ جزاء کا مالک۔

*🍀تفسیر🍀*

مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ: روزِ جزاء کا مالک۔} جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ کہ اس دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی۔ جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ دنیا و آخرت دونوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔ نیز دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا کیونکہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی۔ اس لئے یہاں خاص طور پر قیامت کے دن کی ملکیت کا ذکر کیا گیا۔

🌸💥عاجِزَانہ اِلتجاء💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
T.me/DailyTilawatQuran
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

اللہ تعالیٰ کے ساتھ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی کرنے کی نیت شرک نہیں:



وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌؕ-قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْؕ-وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۱)

ترجمہ

اور ان میں کچھ وہ ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان ہیں ۔ تم فرماؤ: تمہاری بہتری کے لئے کان ہیں ، وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں اور تم میں جو مسلمان ہیں ان کیلئے رحمت ہیں اور جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر


*{وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ:اور ان میں کچھ وہ ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں۔}* شانِ نزول: منافقین اپنی مجلسوں میں سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ناشائستہ باتیں کرتے تھے، ان میں سے بعضوں نے کہا کہ اگر حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر ہوگئی تو ہمارے حق میں اچھا نہ ہوگا ۔جلاس بن سوید منافق نے کہا ہم جو چاہیں کہیں ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے مُکَرْ جائیں گے اور قسم کھالیں گے وہ تو کان ہیں ان سے جو کہہ دیا جائے سن کر مان لیتے ہیں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور ارشاد فرمایا کہ منافقوں کی جماعت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتے ہیں اور ان کی شان میں نازیبا کلمات کہتے ہیں۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اگرچہ سننے والے ہیں لیکن ان کاسننا تمہارے لئے بہتر ہے۔ معنی یہ ہے کہ اگر وہ سننے والے بھی ہیں تو نیکی اور بھلائی کی بات سننے اور ماننے والے ہیں۔شر اور فساد کی بات سننے والے نہیں۔ اور ان کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں منافقوں کی بات پر یقین نہیں کرتے اور وہ تم میں سے جو مسلمان ہیں ان کیلئے رحمت ہیں اور جواللہ تعالیٰ کے حبیب رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۲۵۵)

*آیت’’وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:*

اس آیت سے معلوم ہوا کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دینا کفر ہے کیونکہ دردناک عذاب کی وعید عموماً کفار کو ہی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کئے جانے والے اِعتراضات کاجواب دینا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔

یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْۚ-وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ(۶۲) اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ(۶۳)

ترجمہ

۔ (اے مسلمانو!) تمہارے سامنے اللہ کی قسم کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کرلیں حالانکہ اللہ اور اس کارسول اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ لوگ اسے راضی کریں ،اگر وہ ایمان والے ہیں ۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہی بڑی رسوائی ہے۔

تفسیر


*{ لِیُرْضُوْكُمْ:تاکہ تمہیں راضی کرلیں۔}* شانِ نزول: منافقین اپنی مجلسوں میں سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراضات کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کے پاس آکر اس سے مکر جاتے تھے اور قسمیں کھا کھا کراپنی بَرِیَّت ثابت کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مسلمانوں کو راضی کرنے کے لئے قسمیں کھانے سے زیادہ اہم اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوراضی کرنا تھا اگر ایمان رکھتے تھے تو ایسی حرکتیں کیوں کیں جو خدا اور رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضی کا سبب ہوں۔ آیت کے اس لفظ ’’اَنْ یُّرْضُوْهُ‘‘ میں واحد کی ضمیر اس لئے ذکر کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا میں کوئی فرق نہیں ، دونوں کی رضا کا ایک ہی حکم ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۴۴۲)

*اللہ تعا
لیٰ کے ساتھ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی کرنے کی نیت شرک نہیں:*

اس آیت سے معلوم ہوا کہ عبادت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی کرنے کی نیت کرنی شرک نہیں بلکہ ایمان کا کمال ہے۔نیز قرآنِ پاک میں بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اکٹھا ذکر کیاہے،سر دست ان میں سے 9آیات درج ذیل ہیں :

(1)… ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘ (النساء:۱۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جواللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے۔

(2)… ’’وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘ (النساء:۱۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جواللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔

(3)… ’’اَلَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ‘‘ (المائدہ:۳۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں۔

(4)… ’’ اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ (المائدہ:۵۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تمہارے دوست صرف اللہاور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں۔

(5)… ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ‘‘(احزاب:۵۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پردنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرما دی ہے۔

(6)… ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ (حجرات:۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔

(7)… ’’ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ‘‘ (حشر:۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔

(8)… ’’وَ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘ (حشر:۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، وہی سچے ہیں۔

(9)… ’’وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ‘‘(منافقون:۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:عزت تو اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے۔

ذکرِ خدا جو اُن سے جدا چاہو نجدیو!

واللہ ذکرِ حق نہیں کنجی سقر کی ہے

*طالبِ دعا ابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

سورہِ توبہ کی آیت نمبر66 سے معلوم ہونے والا ایک اہم مسئلہ:


لٙا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْؕ-اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآىٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۠(۶۶)

ترجمہ

بہانے نہ بنا ؤ تم ایمان ظاہر کرنے کے بعد کافر ہوچکے ۔ اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کر دیں تو دوسروں کو عذاب دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہیں ۔

تفسیر


*{لَا تَعْتَذِرُوْا :بہانے نہ بنا ؤ۔}* اللہ تعالیٰ نے منافقین کی جانب سے پیش کردہ عذر و حیلہ قبول نہ کیا اور ان کے لئے یہ فرمایا کہ بہانے نہ بنا ؤ تم ایمان ظاہر کرنے کے بعد کافر ہوچکے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ۲ / ۲۵۷، ملخصاً)

*آیت’’ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:*

اس آیت سے معلوم ہو اکہ ایمان ایسی چیز نہیں کہ جو دنیا میں کبھی کسی سے ختم ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے ایمان کا ذکر فرمایا پھر ان کا ایمان ختم ہو جانے کا ذکر فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں مسلمان ہونے کے بعد کوئی کافر ہو سکتاہے ۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کسی کو کافر قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے لہٰذا کوئی دوسرا کسی کو کافر نہیں کہہ سکتا ، یہ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ شرعی اصولوں کے مطابق جس کا کفر ثابت ہو جائے اسے کافر قرار دینے کاحکم خود شریعت کا حکم ہے اور حقیقی علماء اسی حکمِ شریعت پر عمل کرتے ہوئے ہی کسی کو کافر کہتے ہیں۔ اگر یہ پابندی عائد کر دی جائے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ، اس کے حبیب رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ، اس کی مقدس کتاب قرآنِ مجید کے بارے میں ، اس کے پسندیدہ دین اسلام کے بارے کیسے ہی توہین آمیز کلمات کہے یا کتنے ہی برے افعال کے ذریعے ان کی توہین کرے یا دیگر ضروریاتِ دین کا انکار کرے تو اسے کافر نہ کہا جائے کیونکہ اسے کافر قرار دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلے سے راضی نہ ہونے والے جس منافق کاسر اڑا دیا تھا اور ا س کے بعد حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرما دیا کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کسی مومن کو قتل نہیں کرسکتے اور ان کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ کریم میں آیت نازل فرما دی تو کیا یہاں اللہ تعالیٰ کا حق چھیننا پایا جا رہا ہے؟ اسی طرح صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف جو جہاد ہوا اور مسلمان ہونے کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے جو جہاد کیا وہ کیا تھا؟ کیا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو معلوم نہیں تھا کہ انہیں کافر قرار دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہ انہیں کافر قرار دے کر ان کے خلاف جہاد نہیں کر سکتے۔ افسوس! فی زمانہ مسلمان ہونے کادعویٰ کرنے کے باوجود دین سے بیزار طبقے کی ایسی مت ماری جا چکی ہے کہ وہ ایسا نظریہ پیش کر رہے ہیں جسے اگر درست مان لیاجائے تو پھر قرآنِ مجید اوراحادیثِ مبارکہ میں مرتد ہونے والوں کے بارے جو احکام بیان کئے گئے اور ان کی جوتفصیلات فقہاءِ کرام زمانے سے اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آ رہے ہیں یہ سب کالْعدم ہو کر رہ جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔ ہاں یہاں اس بات کا خیال رکھنا بہت ہی ضروری ہے کہ کسی فردِ معین کو کافر قرار دینا بہت ہی سنگین معاملہ ہے ، جب تک کسی شخص سے صادر ہونے والے قول و فعل کی بنا پر اسے کافر قرار دینے کے تمام تر تقاضے پورے نہ ہوجائیں تب تک کافر قرار دینے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں یہاں تک کہ علماء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کے کلام میں ایک سو پہلو ہوں اور ان میں سے ننانوے پہلو کفر کے ہوں اور صرف ایک پہلو اسلام کا ہو تب بھی اس ایک پہلو کی رعایت کرتے ہوئے اس شخص کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا جب تک وہ اپنی مراد خود متعین نہ کردے۔

*سورہِ توبہ کی آیت نمبر66 سے معلوم ہونے والا ایک اہم مسئلہ:*

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں اِکراہ ِشرعی کے بغیر ایسے کلمات کہے جو عرف میں توہین اور گستاخی کے لئے متعین ہوں تو وہ نیت اور عدمِ نیت کے فرق کے بغیر قضاء ً اور دیانۃً دونوں طرح کافر ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس (مذکورہ بالا) آیت کے تین فائدے حاصل ہوئے:

اول: یہ کہ جو رسول کی شان میں گستاخی کرے وہ کافر ہوجاتاہے اگر چہ کیسا ہی کلمہ پڑھتا اور ایمان کا دعویٰ رکھتا ہو، کلمہ گوئی اسے ہرگز
کفرسے نہ بچائے گی۔

دوم: یہ جو بعض جاہل کہنے لگتے ہیں کہ کفر کا تودل سے تعلق ہے نہ کہ زبان سے، جب وہ کلمہ پڑھتا ہے اور اس کے دل میں کفر ہونا معلوم نہیں توہم کسی بات کے سبب اسے کیونکر کافر کہیں ، محض خبط اور نری جھوٹی بات ہے، جس طرح کفر دل سے متعلق ہے یونہی ایمان (کا) بھی (دل سے تعلق ہے تو) زبان سے کلمہ پڑھنے پر (اسے) مسلمان کیسے کہا؟ (تو جس طرح زبان سے کلمہ پڑھنے پر اسے مسلمان کہا) یونہی زبان سے گستاخی کرنے پر کافر کہا جائے گا، اور جب (اس کا گستاخی کرنا) بغیر اکراہِ شرعی کے ہے تو اللہ کے نزدیک بھی کافر ہوجائے گا اگر چہ دل میں اس گستاخی کا معتقد نہ ہو کہ بے اعتقاد (گستاخانہ کلمہ) کہنا ہزل وسُخْرِیَہْ ہے، اور اسی پر ربُّ العزت فرما چکا کہ تم کافر ہوگئے اپنے ایمان کے بعد۔

سوم :کھلے ہوئے لفظوں میں عذر تاویل مسموع نہیں ، آیت فرما چکی کہ حیلہ نہ گھڑو تم کافر ہوگئے۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۱۷۲)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’جو بلا اکراہ کلمۂ کفر بکے بلا فرقِ نیت مطلقاً قطعا ًیقینا اجماعاً کافر ہے ۔پھر اس پر فقہائے کرام کے جزئیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فتاویٰ امام قاضی خاں وفتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئن بالایمان یکون کافرا و لایکون عند اﷲ تعالٰی مؤمنا‘‘ ایک شخص نے زبان سے حالت ِخوشی میں کفر کا اظہار کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن نہیں ہے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲ / ۲۸۳۔ فتاوی عالمگیری،کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲ / ۲۸۳)

حاوی میں ہے ’’من کفر باللسان و قلبہ مطمئن بالایمان فھوکافر و لیس بمؤمن عند ﷲ تعالٰی‘‘ جس نے زبان سے کفرکیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔

جواہر الاخلاطی اور مجمع الانہر میں ہے ’’من کفر بلسانہ طائعا و قلبہ مطمئن بالایمان کان کافرا عندنا و عند ﷲ تعالٰی ‘‘ جس نے زبان سے حالتِ خوشی میں کفر کااظہا ر کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ ہمارے نزدیک کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔(مجمع الانہر، کتاب السیر والجہاد، باب المرتد، ۲ / ۵۰۲، جواہر الاخلاطی، کتاب السیر، ص۶۸، مثلہ)

شرح فقہ اکبر میں ہے ’’ اللسان ترجمان الجنان فیکون دلیل التصدیق وجودا و عدما فاذا بدلہ بغیرہ فی وقت یکون متمکنا من اظہارہ کان کافرا و اما اذا زال تمکنہ من الاظہار بالاکراہ لم یصر کافرا ‘‘ زبان دل کی ترجمان ہے تو یہ دل کی تصدیق یا عدمِ تصدیق پر دلیل ہوگی تو جب وہ اظہارِ ایمان پر قدرت کے باوجود عدمِ تصدیق کااظہار کرتاہے تو وہ کافر ہوگیا البتہ جب کسی جبر کی وجہ سے اظہار پر قدرت نہ ہو تو اب کافر نہ ہوگا۔ (منح الروض الازہر شرح فقہ الاکبر، الایمان ہو التصدیق والاقرار، ص۸۶)

طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ میں ہے ’’(حکمہ) ای التکلم بکلمۃ الکفر( ان کان طوعا) ای لم یکرھہ احد( من غیر سبق لسان) الیہ( احباط العمل وانفساخ النکاح) ‘اگر کلمۂ کفر کا تکلم خوشی سے ہے یعنی کسی چیز کا اکراہ و جبر نہیں جبکہ سبقت ِلسانی نہ ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ عمل ضائع اور نکاح ختم ہوجائے گا(الحدیقۃ الندیہ، القسم الثانی، المبحث الاول، النوع الاول من الستین کلمۃ الکفر العیاذ باللہ، ۲ / ۱۹۷-۱۹۸)۔( فتاوی رضویہ ، کتاب السیر، ۱۴ / ۶۰۰-۶۰۱)

صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَ سَلَّمَ کی شان میں گستاخی کفر ہے جس طرح بھی ہو اس میں عذر قبول نہیں۔(خزائن ا لعرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۳۷۰)

یاد رہے کہ اس آیت میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گستاخی اگرچہ مذاق میں ہو اور گستاخی کی نیت نہ ہو تب بھی کفر ہے اور یہی حکم دوسرے تمام کفریات کا ہے کہ ہنسی مذاق میں کفر کرنے سے بھی آدمی کافر ہوجاتا ہے ، مذاق کا عذر مردود ہے۔ اس سے فلموں ، ڈراموں ، خصوصاً کامیڈی ڈراموں میں بولے جانے والے کفریات کا حکم سمجھا جاسکتا ہے۔

*{اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىٕفَةٍ مِّنْكُمْ:اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کر (بھی) دیں۔}* یعنی اگر ہم تم میں سے کسی کو اس کے توبہ کرنے اور اخلاص کے ساتھ ایمان لانے کی وجہ سے معاف کر بھی دیں تو توبہ نہ کرنے والے گروہ کو ضرور عذاب دیں گے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۴۴۳)

حضرت محمد بن اسحٰق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ یہاں جس شخص کی معافی کی بات ہورہی ہے اس سے وہی شخص مراد ہے جو ہنستا تھا مگر اس نے اپنی زبان سے کوئی گستاخی کا کلمہ نہ کہا تھا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے توبہ کی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لایا۔ اس نے دعا کی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اپنی راہ میں مقتول کرکے ای
سی موت دے کہ کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ میں نے غسل دیا، میں نے کفن دیا، میں نے دفن کیا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے اور ان کا پتہ ہی نہ چلا۔ ان کا نام حضرت یحییٰ بن حمیر اشجعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھا اور چونکہ انہوں نے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدگوئی سے زبان روکی تھی اس لئے انہیں توبہ و ایمان کی توفیق ملی ۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ۲ / ۲۵۸)

*طالبِ دعاابوعمر*
💐تعزیہ بنانا کیسا؟💐

منقول؛ محمدساجداشرفی🌷

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

💐 تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا؟💐

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے(ملفوظات شریف، ص 286)

💐تعزیہ پر منت ماننا کیسا؟💐

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

💐 تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا؟💐

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

💐محرم الحرام میں ناجائز رسومات💐

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں

(فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

💐محرم الحرام میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں💐

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام میں(خصوصاً یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں، سبز رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے۔ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے نہ پہنے جائیں کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے، لہذا مسلمانوںکو اس سے بچنا چاہئے (احکام شریعت)

💐عاشورہ کا میلہ💐

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنیٰ ہے۔

(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

💐دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا💐

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ(نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ(لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتویٰ رضویہ جدید، 756/23، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

💐کڑے، چھلے اور ایک سے زائد انگوٹھیاں پہننا💐

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ کی ساڑھے چار ماشہ سے کم وزن کی مرد کو پہننا جائز ہے اور دو انگوٹھیاں یا کئی نگ کی ایک انگوٹھی یا ساڑھے چار ماشہ خواہ زائد چاندی کی(پہننا ناجائز ہے) اور سونے، کانسی، پیتل، لوہے اور تانبے(کی انگوٹھی، چھلے، کڑے) مطلقاً ناجائز ہیں۔ (احکامِ شریعت حصہ دوم، ص 80)

💐یزید کو ’’رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ کہنا ناصبی ہونے کی علامت ہے💐

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یزید بے شک پلید تھا۔ اسے پلید کہنا اور لکھنا جائز ہے اور اسے ’’رحمۃ اﷲ علیہ‘‘نہ کہے گا مگر ناصبی کہ اہلبیت رسالت کا دشمن ہے۔(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 14، ص 603، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
مسلمانوں کو چاہئے کہ محرام الحرام میں خرافات سے بچیں۔ 9 اور 10 محرم الحرام کا روزہ رکھیں۔ شہدائے کربلا کی یاد میں سبیلیں لگائیں۔ شربت پلائیں اور نذر و نیاز کا اہتمام کریں۔ چنانچہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب’’تحفۂ اثناء عشری‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مولیٰ علی رضی اﷲ عنہ اور اولادِ علی میں ولایت روحانی طور پر موجود ہے۔ اس لئے میں ہر سال 10 محرم کو حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ اور شہدائے کربلا کی نیاز دلاتا ہوں اور کھڑے ہوکر ان پر سلام پیش کرتا ہوں۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
T.me/HamariUrduPiyariUrdu
محرم الحرام میں جاہلانہ رسومات حصہ 1 ۔ ۔

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس کا اسلامی سال محرم الحرام میں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ، حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ اور ان کے رفقاء کی بے مثال قربانی سے شروع ہوکر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی لازوال قربانی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ محرم الحرام شروع ہوتے ہی تعزیہ داری، اسٹیل، پیتل اور چاندی سے تیار کردہ مصنوعی ہاتھ، پاؤں، آنکھیں اور بازو تعزیئے پر چڑھانا، نیلے پیلے دھاگے بازو پر باندھنا، بچوں کو امام کا فقیر بنانا، دشمنانِ صحابہ کا دس یا گیارہ دن کالے، ہرے اور سرخ کپڑے پہننا، ماتم کی کیسٹیں بجانا اور شیعوں کی مجالس اور جلوس میں شامل ہونا اور شب عاشورہ کو خوب ڈھول بجاکر اس شب کے تقدس کو پامال کرنا یہ کام عروج پر ہوتے ہیں۔ یہ تمام کام شریعت کی رو سے ناجائز اور گناہ ہیں مگر ہماری عوام ان کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتی ہے۔ یاد رکھئے ہم اہلسنت ہیں اور ہمارے رہبر اور پیشوا امام اہلسنت احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ہیں جنہوں نے اپنے ماننے والوں کو ان ناجائز کاموں سے روکنے کا حکم دیا ہے اور اپنی کتابوں میں ان کاموں سے بچنے کی سختی سے تاکید فرمائی ہے، چنانچہ امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔

🌹 تعزیہ بنانا کیسا؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

🌹 تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے (ملفوظات شریف، ص 286)

🌹 تعزیہ پر منت ماننا کیسا؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

🌹 تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے۔

(فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

محرم الحرام میں ناجائز رسومات

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں

(فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

🌹 محرم الحرام میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام میں (خصوصاً یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں، سبز رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے۔ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے نہ پہنے جائیں کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے، لہذا مسلمانوںکو اس سے بچنا چاہئے (احکام شریعت)

🌹 عاشورہ کا میلہ

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنیٰ ہے۔

(فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

🌹 دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتویٰ رضویہ جدید، 756/23، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
🌹صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!🌹صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد 🌹
مــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
T.me/HamariUrduPiyariUrdu
🚫محرم الحرام میں جاہلانہ رسومات •••🚫

🖊... محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے. اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس کا اسلامی سال محرم الحرام میں حضرت عمر فاروق رضی ﷲ تعالٰی عنہ، حضرت امام حسین رضی ﷲ تعالٰی عنہ اور ان کے رفقاء کی بے مثال قربانی سے شروع ہو کر حضرت اسماعیل علیہ الصلوة السلام کی لازوال قربانی پر اختتام پذیر ہوتا ہے.
🖍... مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ محرم الحرام شروع ہوتے ہی تعزیہ داری، اسٹیل، پیتل اور چاندی سے تیار کردہ مصنوعی ہاتھ، پاؤں، آنکھیں اور بازو تعزیئے پر چڑھانا، نیلے پیلے دھاگے بازو پر باندھنا، بچوں کو امام کا فقیر بنانا، دشمنانِ صحابہ کا دس یا گیارہ دن کالے، ہرے اور سرخ کپڑے پہننا، ماتم کی کیسٹیں بجانا اور شیعوں کی مجالس اور جلوس میں شامل ہونا اور شب عاشورہ کو خوب ڈھول بجا کر اس شب کے تقدس کو پامال کرنا یہ کام عروج پر ہوتے ہیں. یہ تمام کام شریعت کی رو سے ناجائز اور گناہ ہیں مگر ہماری عوام ان کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتی ہے.
🚫... یاد رکھئے...!!! ہم اہلسنت ہیں اور ہمارے رہبر اور پیشوا امام اہلسنت احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ہیں جنہوں نے اپنے ماننے والوں کو ان ناجائز کاموں سے روکنے کا حکم دیا ہے اور اپنی کتابوں میں ان کاموں سے بچنے کی سختی سے تاکید فرمائی ہے، چنانچہ امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں:
👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻
✍🏻••• تعزیہ بنانا کیسا؟ •••💐
📄... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے.“
(فتاوٰی رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

✍🏻••• تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا؟ •••💐
📄... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لٰہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے.“
(ملفوظات شریف، ص 286)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

✍🏻••• تعزیہ پر منت ماننا کیسا؟ •••💐
📄... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے.“
(فتاوٰی رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

✍🏻••• تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا؟ •••💐
📄... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے.“
(فتاوٰی رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

🚫••• محرم الحرام میں ناجائز رسومات •••🚫
🖍... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی ﷲ تعالٰی عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں.“
(فتاوٰیٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

✍🏻••• محرم الحرام میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں •••🚫
🖍... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”محرم الحرام میں (خصوصاً یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں:
سبز رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے.
لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے، اور
کالے کپڑے نہ پہنے جائیں کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے.
لٰہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہئے.“
(احکام شریعت)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

✍🏻••• عاشورہ کا میلہ •••
🖍... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے. یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتا ہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنٰی ہے.“
(فتاوٰی رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

✍🏻••• دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا •••
🖍... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے. ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی. کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت. محرم الحرام میں سبز اور سیاہ
کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے. خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے.“
(فتاوٰى رضویہ جدید، 756/23، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

✍🏻••• کڑے، چھلے اور ایک سے زائد انگوٹھیاں پہننا •••🔗
🖍... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”چاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ کی ساڑھے چار ماشہ سے کم وزن کی مرد کو پہننا جائز ہے اور دو انگوٹھیاں یا کئی نگ کی ایک انگوٹھی یا ساڑھے چار ماشہ خواہ زائد چاندی کی (پہننا ناجائز ہے) اور سونے، کانسی، پیتل، لوہے اور تانبے (کی انگوٹھی، چھلے، کڑے) مطلقاً ناجائز ہیں.“
(احکامِ شریعت حصہ دوم، ص 80)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

🚫••• یزید کو ’’رحمۃ ﷲ علیہ‘‘ کہنا ناصبی ہونے کی علامت ہے •••🚫
... اعلٰی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
”یزید بے شک پلید تھا. اسے پلید کہنا اور لکھنا جائز ہے اور اسے ’’رحمۃ ﷲ علیہ‘‘ نہ کہے گا مگر ناصبی کہ اہلبیت رسالت کا دشمن ہے.“
(فتاوٰی رضویہ جدید، جلد 14، ص 603، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

🔹••• مسلمانوں کو چاہئے کہ محرام الحرام میں خرافات سے بچیں. 9 اور 10 محرم الحرام کا روزہ رکھیں.
🔹••• شہدائے کربلا کی یاد میں سبیلیں لگائیں.
🔹••• شربت پلائیں اور نذر و نیاز کا اہتمام کریں.
🌹••• چنانچہ شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی معرکة الآراء کتاب ’’تحفۂ اثناء عشری‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:
”مولٰى علی رضی ﷲ تعالٰی عنہ اور اولادِ علی میں ولایت روحانی طور پر موجود ہے. اس لئے میں ہر سال 10 محرم کو حضرت امام حسین رضی ﷲ تعالٰی عنہ اور شہدائے کربلا کی نیاز دلاتا ہوں اور کھڑے ہوکر ان پر سلام پیش کرتا ہوں.“
(سبیلوں اور دکانوں پر نوحہ اور مرثیہ کی کیسٹیں ہرگز نہ بجائیں)
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

🌴••• عاشورہ کے دن اچھے کام •••🌴
... عاشورہ کے دن اچھی طرح غسل کریں، اچھے کپڑے پہنیں، خوشبو لگائیں، تیل لگائیں، سرمہ لگائیں، ناخن ترشوائیں، روزہ رکھیں، بیمار کی عیادت کریں، صدقہ و خیرات کریں اور مرحومین کو ایصالِ ثواب کریں.
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●

🕌••• شبِ عاشورہ کی نفل نماز •••🌹
🖊... عاشورہ کی رات میں چار رکعت نماز نفل اس ترکیب سے پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد آیۃ الکرسی ایک بار اور سورہ اخلاص تین مرتبہ پڑھے اور نماز سے فارغ ہوکر ایک سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے، ایسا کرنے والا گناہوں سے پاک ہوگا اور جنت میں بے انتہا نعمتیں ملیں گی.
(جنتی زیور، ص 157)

●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●
🌹🌹صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!🌹🌹
🌹صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد🌹
●_┈•••✦● مـــــدینـــــه ●✦•••┈_●
T.me/HamariUrduPiyariUrdu
حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کی ولادت کعبہ میں ہوئ دلائل اھلست و جماعت کی عظیم مقتدر شخصیات کی کُتُب سے پیش کر دیئے ھیں اور اپیل اپنے اھلسنّت و جماعت حنفی بھائیوں سے کہ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ یہ سب رافضی شیعہ نہیں ھیں نمبر 2 جس طرح ھماری صفوں میں تضیلی شیعہ و خوارجی گھسے ھوئے ھیں اسی طرح ھماری صفوں میں ناصبی بھی گھسے ھوئے ھیں جن کے دلوں میں بغض مولا علی اور آل مولا علی و آل رسول ( ﷺ ) رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین بھرا ھوا ھے برائے کرم کمنٹس فرماتے ان باتوں کو مد نظر رکھیں کہ کہیں ھم رد رفضہ کے جوش میں خوارج و نواصب کی حمائیت تو نہیں کر رھے اور دوسری طرف کہیں رد خوارج و نواصب کے جوش میں رافضی شیعوں کی حمائیت تو نہیں کر رھے اھلسنّت و جماعت حق ھے اور آل و اصحاب رسول ( ﷺ ) رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سب کے فضائل و مناقب مانتے اور دلوں جان سے ان سب کی عزّت و احترام کرتے ھیں مؤدبانہ اپیل ھے برائے کرم اس مسئلے پر اکابرین اھلسنت کے دلائل فقیر نے پیش کر دیئے ھیں ان پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں اور حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے کعبۃ اللہ میں پیدا ھونے کو ماننے والے سب پر شیعہ ھونے کا فتویٰ نہ لگائیں اللہ تعالیٰ ھم سب پر رحمتیں نازل فرمائے آمین جزاکم اللہ خیرا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ مسلمہ امر ہے کہ خانہ کعبہ کی افضلیت بیت المقدس سے زیادہ ہے خانہ کعبہ کے فضائل کی احادیث سے کتب اسلام جھلک رہی ہیں اس کی ذرا سی بے حرمتی سے ابرہہ اپنی افواج سمیت برباد ہوگیا. تمام قرائن و شواھد سے خانہ کعبہ کا افضل ہونا عیاں ہے . ان تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو جو بچہ اس مقدس مقام پر پیدا ہوا اس کا مرتبہ و مقام کیا ہو گا. محقیقین اسلام نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ھوئے ۔

پہلا ثبوت : ۔
امام المحدثین ، ابو حاکم نیشاپوری ، حدیث کی شہرہ آفاق تصنیف مستدرک میں لکھتے ہیں ۔
آخری بات میں معصب نے وہم کیا ہے حالانکہ متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے علی بن ابی طالب کو عین کعبہ کے اندر جنم دیا ہے
المستدرک حاکم،ج 4، طبع پاکستان
اھم بات
امام حاکم مصعب کے اس قول کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس بات میں معصب سے غلطی ہوئی ہے کہ وہ حکیم بن حزام کے علاوہ کسی کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں مانتے حالانکہ متواتر روایات سے خانہ کعبہ میں مولا علی کی ولادت ثابت ہوتی ہے . امام حاکم نے چونکہ مصعب کے قول کا رد کرنا تھا اس لئے مولا علی کی ولادت کا یہاں ذکر کیا اور فضائل والے باب میں ذکر نہیں کیا. قول مصعب کا رد کرنے کے لئے اصل موقع یہی تھا کہ مولا علی کی ولادت کا ذکر کر دیا جائے . اور یہ بھی یاد رہے کہ امام حاکم اھل حدیث و اھل سنت دنوں مکاتب فکر میں معتبر عالم شمار کئے جاتے ہیں
علامہ ذہبی کا اقرار
حافظ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کا قول نقل کیا ہے کہ ولادت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں ہوئی ہے . چنانچہ ذہبی کے نزدیک بھی ولادت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں ہونا تواتر سے ثابت ہے
تلخیص المستدرک،ذہبی۔ج 4، طبع پاکستان

دوسرا ثبوت ۔

امام المحدثین ملا علی قاری اپنی تصنیف " شرح الشفا" میں لکھتے ہیں
مستدرک حاکم میں ہے کہ مولا علی خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے
شرح شفا ۔ملا علی ۔ج ،طبع بیروت
ملا علی قاری جیسے محقق و محدث نے امام حاکم کے قول پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کو قول متواتر کو قبول کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کعبہ میں قبول کیا ہے ۔

تیسرا ثبوت ۔

محدث ابن اصباغ مالکی اپنی کتاب الفصوصل المھمہ میں لکھتے ہیں کہ
مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ماہ رجب 13 تاریخ کو مکہ شریف میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ، آپ کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا . یہ آپ کی فضیلت ہے
الفصول المھمہ،ابن صباغ مالکی طبع بیروت

چوتھا ثبوت ۔

علامہ حسن بن مومن شبلنجی اپنی مشہور تصنیف نورالابصار میں لکھتے ہیں
حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور تلوار بے نیام ہیں . آپ عام الفیل کے تیسویں سال جمتہ المبارک کے دن 13 رجب کو خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔
نورالابصار۔بلنجی،طبع بیروت ۔

پانچواں ثبوت ۔

برصغیر پاک وہند کے عظیم محدث و فقیہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ازالتہ الخفا میں لکھتے ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کے وقت آپ کے جو مناقب ظاھر ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ کعبہ معظمہ کے اندر آپ کی ولادت ہوئی . امام حاکم نے فرمایا متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ بے شک امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے خانہ کعبہ کے اند جنم دیا
ازالتہ الخفا۔ج 4۔،طبع بیروت
شاہ ولی اللہ اپنی ایک اور کتاب قر العینین میں بھی ولادت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں آپ پہل
ے ہاشمی ہیں جن کی والدہ ماجدہ بھی ہاشمیہ ہیں . آپ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو آپ سے پہلے کسی حصے میں نہیں آئی
قر العنین بتفضیل الشخین ،طبع دہلی ۔

چھٹا ثبوت ۔

اھل حدیث کے ممدوح عالم ، جناب نواب صدیق حس خان بھوپالی نے خلفائے راشدین کے مناقب میں ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے اس میں لکھتے ہیں
ذکر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ابن عم رسول و سیف اللہ المسلول ، مظہر العجائب و الغرائب اسد اللہ الغالب ، ولادت ان کی مکہ مکرمہ میں اندر بیت اللہ کے ہوئی ، ان سے پہلے کوئی بیت اللہ کے اندر مولود نہیں ہوا
تکریم المومنین بتویم مناقب الخلفا الراشدین ۔ نواب صدیق حسن ،طبع لاہور

نیز علامہ بھوپالی نے اپنی دوسری تصنیف " تقصار جنود الاحرار ، ص 9 ، طبع بھوپال میں مولا علی کی ولادت کعبہ میں کا ذکر کیا ہے

ساتواں ثبوت ۔

امام عبد الرحمان جامی اپنی کتاب شواھد النبوت میں لکھتے ہیں
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت مکہ معظمہ میں ہوئی اور بقول بعض آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی
شواھد النبو ة۔جامی،طبع پاکستان ۔

آٹھواں ثبوت ۔

مورخ جلیل علامہ مسعودی اپنی تصنیف مروج الذہب میں لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کعبے کے اندر پیدا ہوئے ۔
مروج الذہب۔مسعودی۔ج ،طبع بیروت ۔

نواں ثبوت ۔

علامہ عبدالرحمان صفوری الشافعی لکھتے ہیں کہ
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شکم مادر سے کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور یہ فضیلت خاص طور پر آپ کے لئے اللہ تعالی نے مخصوص فر ما رکھی تھی ۔ نزہتہ المجالس۔ ج 2۔ طبع پاکستان

دسواں ثبوت ۔

عظیم محدث شاہ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ
محدثین اور سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ہے
شیخ عبد الحق بن سیف الدین دہلوی اپنی کتاب مدارج النبوة میں تحریر فرماتے ہیں: جناب فاطمہ بنت اسد نے امیر المومنین کا نام حیدر رکھا ،اس لئے کہ معنی کے اعتبار سے باپ اسداور بیٹے کا نام ایک ہی رہے۔ لیکن جناب ابو طالب نے اس نام کو پسند نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آپ کا نام علی رکھا۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو صدیق کہہ کر پکارا اور آپ کی کنیت ابو ریحانتین رکھی۔ امین، شریف، ہادی، مہتدی، یعسوب الدین وغیرہ القاب سے آپ کو نوازا۔اس کے بعد عبد الحق بن سیف الدین دہلوی تحریر فرماتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی
مدارج النبوت۔عبدالحق محدث دہلوی۔ج 2 ، طبع پاکستان ۔

گیارھواں ثبوت ۔

علامہ گنجی شافعی نے اپنی کتاب کفایتہ الطالب میں بھی مولا علی کی پیدائش کو خانہ کعبہ میں تسلیم کیا ہے
کفایتہ الطالب ۔ گنجی ۔

بارھواں ثبوت ۔

علامہ سبط ابن الجوزی اپنی کتاب تذکر الخواص میں لکھتے ہیں
روایت میں ہے کہ فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے شکم میں تھے . انھیں درد زہ شروع ہوا تو ان کے لئے دیوار کعبہ شق ہوئی پس وہ اندر داخل ہوئیں اور وہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے
تذکر الخواص۔سبط ابن جوزی،طبع نجف عراق

تیرھواں ثبوت ۔

علامہ سکتواری بسنوی
اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان حیدر یعنی شیر نام رکھا گیا ہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ جس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابو طالب سفر پر گئے ہوئے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مادر گرامی نے ان کا نام تفل کرنے کے بعداسد رکھا ۔ کیوں کہ اسد ان کے والد محترم کا نام تھا۔(محاضر الاوائل )

چودھواں ثبوت ۔

علامہ ابن صباغ مالکی
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شب جمعہ رجب ،عام الفیل، سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کو ان کے لئے مخصوص کیا ہے ۔ (الفصول المہم )

پندرھواں ثبوت ۔

ابن مغازلی شافعی زبیدہ بنت عجلان سے نقل کرتے ہیں :
جس وقت فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا ، تو جناب ابو طالب بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثنا میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں! جناب ابو طالب نے جناب فاطمہ بنت اسد کا قضیہ بیان کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور آپ ﷺ نے جناب ابو طالب کا ہاتھ پکڑ کر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے ،فاطمہ بنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : اجلسی علی اسم اللہ اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے ۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت و پاکیزہ بچہ پیدا ہوا ۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ جناب ابوطالب نے اس بچہ
کا نام علی رکھا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ بنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔

سولہواں ثبوت ۔

علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی(فرنگی محلی)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ وسیل النجا ،محمد مبین حنفی ((چاپ گلشن فیض لکھنو )

سترہواں ثبوت ۔

صفی الدین حضرمی شافعی لکھتے ہیں
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی (وسیل المآل ،حضرمی شافعی )

اٹھارواں ثبوت ۔

آلوسی بغدادی
یہ واقعہ اپنی جگہ بجا اور بہتر ہے کہ خدا وند عالم نے ارادہ کیا ہے کہ ہمارے امام اور پیشوا کو ایسی جگہ پیدا کرے جو سارے عالم کے مومنین کا قبلہ ہے ۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ پر وردگار کہ ہر اس چیز کو اسی کی جگہ پر رکھتا ہے ۔وہ بہترین حاکم ہے ۔( غالی المواعظ )

اخطب خوارزمی:موفق بن احمد جو اخطب خوارزمی سے مشہور ہیں اپنی کتاب مناقب میں تحریر فرماتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شب جمعہ رجب ،عام الفیل، سال قبل از ہجرت اور بعثت سے یا سال پہلے مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (کفای الطالب )

شیخ مومن بن حسن شبلنجی:
شیخ مومن بن حسن شبلنجی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچازاد بھائی اور خدا وند عالم کی برہنہ تلوار ہیں جو مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر رجب الحرام جمعہ کے دن عام الفیل ہجرت کے سال قبل خانہ خدا میں پیدا ہوئے ۔ (۔ نور الابصار )

عباس محمود عقاد :
عقاد کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ کے اندر پید ا ہوئے ۔ خدا وند عالم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے کو پاک و پاکیزہ اور بلند قرار دیا تھا کہ وہ بتوں کا سجدہ نہ کریں لہذا وہ چاہتا تھا کہ ایک نئے انداز اور نئی جگہ ان کی ولادت ہو پس خانہ کعبہ کو انتخاب کیا جو عبادت گاہ تھی۔قریب تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان پیدا ہوتے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے ،لہذا ہم ان کی ولادت پر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوئے کیوں کہ وہ بتوں کی پرستش سے ناواقف تھے اور نہ کبھی بتوں کی پوجا کی۔ وہ اس مبارک جگہ پیدا ہوئے جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔ (عبقری الامام علی)

علامہ صفوری:
علامہ صفور ی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مادر گرامی کے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر جس کو خدا نے شرف بخشا ہے پیدا ہوئے ۔ یہ وہ فضیلت ہے جس کو خدا وند عالم نے ان کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ ( نزھة المجالس)

علامہ برہان الدین حلبی شافعی:
علامہ برہان الدین حلبی شافعی نے حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت کے سلسلہ میں کافی طولانی بحث کی ہے مختصر یہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ کے اندر پیداہوئے ۔ اس وقت حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمرمبارک تیس سال تھی۔ ( السیر الحلبی )

عبد الحمید خان دہلوی :
عبد الحمید خان دہلوی لکھتے ہیں: اکثر مو رخین کا اتفاق و اعتقاد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر جمعہ کے دن رجب تیس عام الفیل کو پیدا ہوئے اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا ۔ (سیرت خلفا)

باکثیر حضرمی:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رجب ،عام الفیل، سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ( وسیل المال )

مولوی اشرف
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رجب ،عام الفیل، سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے (ریاض الجنان )

علامہ سعید گجراتی:
اپنی کتاب الاعلام با علام مسجد الحرام میں اس روایت کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی ابو قبیس نامی پہاڑ کے دامن میں پیدا ہوئے جس کو دشمنان اہلبیت نے لکھا ہے۔
خدا یا! تو بہتر جانتا ہے کہ یہ بہتان دشمنان اہلبیت کی طرف سے ہے ۔ دشمنان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کو گھڑا ہے ۔ جب کہ متواتر روایتیں دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ خدایا ! تو مجھے رسول اکرم ﷺ کی سنت پر باقی رکھ اور ان کے اہلبیت کی دشمنی سے دور رکھ ( الاعلام الا علام مسجد الحرام خطی بہ نقل علی و کعبہ)

عبد المسیح انطاکی مصری:
عبد المسیح انطاکی مصری شاعر نے مولائے متقیان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت سے متعلق تقریبا پانچ سو شعر کہیں ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ میں ان تمام اشعار کو یہاں ذکر نہیں کر سکتا شاہد کے طور پر مطلع آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:
فی رحب الکعب الزھرا قد انبثقت
انوار طفل وضائت فی منافیھا (۔ قصیدہ علویہ )

ہم یہاں ان ثبوتوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں ، ورنہ ہمارے پاس علمائے اھل سنت کے کثیر اقوال کا دفتر موجود ہے جس میں انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت خانہ کعبہ میں نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کو فض
یلت مانا ہے کہ جس میں صرف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اکیلے ہیں اور کسی کو یہ شرف حاصل نہ ہوا.

اب ہم شبہات کا رد پیش کرتے ہیں
شبہ نمبر 1
خانہ کعبہ میں صرف ولادت حکیم بن حزام کی ہوئی ہے اور کوئی اس میں شریک نہیں
جواب
سابقہ تحریر میں ناقابل انکار دلیل سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کعبہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کوئی فرد بشر پیدا نہیں ہوا . اب رہا کہ حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا تو یہ ایک جھوٹا افسانہ ہے جو بغض حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بنا پر ناصبیوں نے تراشا ہے تاکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس فضیلت کو کمزور کیا جا سکے حالانکہ جلیل القدر علما نے ناقابل رد دلائل سے اس من گھڑت قصہ کی رد فرمائی ہے
امام حاکم نے اپنی مستدرک میں اور ذہبی کا تلخیص میں حکیم کے حالات میں اس کا کعبہ کے اندر پیدا ہونا کو رد کیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کعبہ میں کو متواتر کا درجہ دیا . معلوم ہوا کہ امام حاکم کے نزدیک حکیم کا کعبہ پیدا ہونا جھوٹ ہے
مشہور محدث سبط ابن جوزی نے تذکر الاخواص میں حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونے کو اس طرح رد کیا ہے
حکیم بن حزام کی ماں نے اسے کعبہ میں جنا ، اس بارے میں حافظ ابو نعیم اصبہانی نے ایک طویل روایت میں نقل کی ہے مگر اس کی سند میں روح بن صلاح ہے جس کی حافظ ابن عدی نے تضعیف کی ہے تذکر الخواص۔سبط ابن جوزی۔ص 30۔طبع نجف عراق
اس قصہ کو سب سے پہلے بیان کرنے والا زبیر بن بکار ہے اور زبیر کا خاندان ، اولاد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عداوت میں مشہور تھا اور اس کے علاوہ خود زبیر بن بکار اپنی اھل بیت دشمنی اور بد عقیدتی سے سفاک متوکل عباسی اور اس کی اولاد کو درس دینے پر معین تھا اور اولاد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دشمنی کی وجہ سے اس کو متوکل نے مکہ کا حاکم مقرر کر دیا تھا
چنانچہ حکیم کا کعبہ میں پیدا ہونا غلط ہے اور من گھڑت قصے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ۔

شبہ نمبر 2
اگر کعبہ میں پیدا ہونا شرف ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو یہ شرف ملتا

جواب : ۔ یہ بد باطن کی غلط فہمی ہے . اس سے رسول اللہ ﷺ کی فضیلت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ، جس طرح شہید کو غسل نہیں دیا جاتا . نبیوں کو دیا جاتا ہے . اس کا جواب علما کرام یہی دیتے ہیں کہ جزوی فضیلت کلی فضیلت کے مانع نہیں ہے.کعبہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیدا ہونا ، یہ خصائص مرتضوی میں سے ہے ۔

شبہ نمبر 3
ابن حجر نے کہا ہے کہ صرف حکیم کا کعبہ میں پیدا ہونا صحیح ثابت ہے باقی ضعیف ہے ۔

جواب : ۔ پہلی بات یہ ہے کہ حکیم کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا ، من گھڑت قصہ ہے جس کو ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں اور امام حاکم ، سبط ابن جوزی جیسے افراد نے اس کا رد کیا ہے جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا متواتر سے ثابت ہے اور یہ دعوی امام حاکم ،ذہبی ، ملا علی قاری ، شاہ ولی اللہ جیسے لوگوں کا ہے،اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ اگر روایت متواتر ہوجائے تو اس کا ضعیف ہونا مضر نہیں کیونکہ روایت متواتر تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور اصول حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ متواتر کا انکار کرنے والا جاہل آدمی ہے،اگر بالفرض ولادت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ در کعبہ کی روایت ضعیف بھی ہے تو اھل علم جانتے ہیں کہ کسی روایت کا ضعیف ہونا الگ بات ہے اور اس کا موضوع یعنی بناوٹی ہونا الگ بات ہے نیز فضائل کے باب میں ضعیف روایت بھی معتبر ہوتی ہے جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کعبہ شریف میں متواتر سے ثابت ہے

ولادت علی کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونے کا کیا راز تھا
اگر عقل و بصیرت سے کام لیا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مولود کعبہ بنا کر اس طرف باریک اشارہ فرمایا ہے کہ اے کعبہ! آج تیرے اندر اس کی جلوہ گری ہے جو تجھے بتوں سے پاک کرنے میں پوری امت پر مقدم ہوگا ، چنانچہ ایسا ہی ہوا نبی پاک ﷺ کے حکم پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعبہ کو بتوں سے پاک کیا ۔

نوٹ : ۔ مؤدبانہ التماس ہمارے اھلسنّت و جماعت حنفی بریلوی بھائیوں برائے کرم اختلاف ضرور کریں مگر ان جلیل القدر علماء کرام کے بارے میں یہ فتویٰ نہ لگائیں کہ یہ سب شیعہ تھے ذرا غور فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے آمین
شانِ_فاروق_اعظم_قصیدہ_از_اعلیحضرت.pdf
448 KB
📙 امیر المومنین سیدنا عمر پاک کی شان میں اعلیٰ حضرت کا لکھا گیا ایسا قصیدہ جس کی شرح و بسط سے شرح کی جائے تو کئی جلدیں تیار ہوجائیں ۔
آپ کو ہر شعر کی سمجھ آئے نہ آئے ، یہ قصیدہ ایک دفعہ ضرور پڑھ لیجیے!! (بہ شکریہ علامہ لقمان شاہد صاحب)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری رحمة اللہ علیہ
🔍 #شان #صحابہ #عمرفاروق #قصیدہ #احمدرضاخان #اردو
👈 کتبِ اہلسنت کا مرکز (⬇️)
👉 @IslamicPDFLibrary
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

برائی کا حکم دینا اور بھلائی سے منع کرنا منافق کا کام ہے

اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْؕ-نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْؕ-اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۶۷) وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-هِیَ حَسْبُهُمْۚ-وَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌۙ(۶۸)

ترجمہ

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی ہیں ، برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اس نے انہیں چھوڑ دیا ۔بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں ۔ اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وہ (جہنم) انہیں کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔

تفسیر


*{اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ:منافق مرد اور منافق عورتیں۔}* اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں سب نِفاق اور اَعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ کفر و مَعْصِیَت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں اور ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں اورراہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں ،انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا اور انہوں نے اس کی اطاعت و رضا طلبی نہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں چھوڑ دیا اور ثواب و فضل سے محروم کردیا، بیشک وہی نافرمان ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۲۵۸)

*برائی کا حکم دینا اور بھلائی سے منع کرنا منافق کا کام ہے:*

اس آیت سے معلوم ہوا کہ برائی کا حکم دینا اور بھلائی سے منع کرنا منافق کا کام ہے۔ افسوس کہ ہمارے زمانے میں یہ چیز گھر گھر دیکھنے میں آرہی ہے کہ گھر والوں کو گناہ کرنے کی ترغیب دی جاتی اور ان کے سامنے گناہوں کو معمولی قرار دے کر انہیں مزید گناہوں پر ابھارا جاتا ہے جیسے نماز اور روزے کی پابندی کرنے سے روکا جاتا اور ان کے بارے میں اس طرح کلام کیاجا تا ہے جیسے ان کی خاص اہمیت نہ ہو۔ ٹی وی پر کوئی من پسند ڈرامہ یا فلم آ رہی ہو تو دوسروں کے سامنے ان کی خوبیاں بیان کر کے انہیں بھی وہ ڈرامہ یا فلم دیکھنے کے لئے بلا یا جاتا ہے۔ فلموں ، ڈراموں اور ٹی وی کے بے حیائی عام کرنے اور مسلمانوں کے دینی اور مذہبی عقائد و معمولات کو مَجروح کرنے والے پروگراموں کو دیکھنے کے لئے نت نئے انداز سے ایک دوسرے کومائل کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور عُریانی پر مَبنی لباسوں کو فیشن اور سوسائٹی کا تقاضا بتا کر انہیں پہننے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ والدین اپنی اولاد کو ماڈرن اور آزاد خیال دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور مذہبی حلیے میں دیکھ کر تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ کوئی داڑھی رکھ لے اور مذہبی شکل و صورت بنالے تو والدین اس سے ناراض ہوتے ہیں اور اسے گناہوں کی طرف جانے پر مجبور کرتے ہیں جبکہ اگر کوئی رشوت اور سود کا مال لا کر گھر میں خوشحالی لاتا ہے تواس سے خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل حدیثِ پاک میں بڑی عبرت ہے، حضرت ابوامامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب تمہاری عورتیں سرکشی کریں گی، تمہارے نوجوان فاسق ہوجائیں گے اور تم جہاد چھوڑ دو گے تو اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے زیادہ سخت کیا ہوگا ارشاد فرمایا’’ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کا حکم نہیں دو گے اور برائی سے نہیں روکو گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عر ض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے زیادہ سخت کیاہو گا؟ ارشاد فرمایا’’اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی سمجھو گے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی:یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قس
م ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ انہوں نے عرض کی: اس سے زیادہ سخت کیا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے روکو گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا اس طرح ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’مجھے اپنی قسم ہے، میں ان پر ایسا فتنہ مقرر کروں گا کہ اس میں سمجھدار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الباب الاول فی وجوب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۰)

*اللہ تعالیٰ ہمیں منافقت کی اس علامت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔*

*{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ:اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں سے وعدہ کیا ہے۔}* اس سے پہلی آیات میں منافقوں کے برے اعمال بیان کئے گئے اور اس آیت میں ان کی سزا بیان کی گئی ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے اور عذاب وسزا کے طور پر جہنم انہیں کافی ہے ،اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے دور کر دیا اور ان کے لئے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔



*طالبِ دعاابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن* 🌹

مال و دولت اور افرادی قوت کی زیادتی کامیابی کی علامت نہیں

كَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّ اَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًاؕ-فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَ خُضْتُمْ كَالَّذِیْ خَاضُوْاؕ-اُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۶۹)

ترجمۂ

۔ (اے منافقو!) جس طرح تم سے پہلے لوگ تم سے قوت میں زیادہ مضبوط اور مال اور اولاد کی کثرت میں تم سے بڑھ کر تھے پھر انہوں نے اپنے (دنیا کے) حصے سے لطف اٹھایا تو تم بھی ویسے ہی اپنے حصے سے لطف اٹھالو جیسے تم سے پہلے والوں نے اپنے حصوں سے فائدہ حاصل کیا اور تم اسی طرح بیہودگی میں پڑگئے جیسے وہ بیہودگی میں پڑے تھے۔ ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہی لوگ گھاٹے میں ہیں ۔

تفسیر


*{كَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ:جس طرح تم سے پہلے لوگ۔}* یعنی اے منافقو! تم گزشتہ زمانے کے ان لوگوں کی طرح ہو جو قوت میں تم سے زیادہ مضبوط اور مال و اولاد کی کثرت میں تم سے بڑھ کر تھے پھر انہوں نے اپنی دنیوی لذتوں اور شہوتوں کے حصے سے لطف اٹھایا ۔ اے منافقو! تم بھی ویسے ہی اپنے حصے سے لطف اٹھالو اور جو موج مستی کرنی ہے کرلو۔ یہ سارا کلام انہیں ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی کے طور پر ہے۔ مزید فرمایا کہ جیسے پہلے لوگ بیہودگی میں پڑے ہوئے تھے تم بھی اسی طرح بیہودگی میں پڑگئے اور تم نے باطل کی اتباع کی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اورا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب اور مؤمنین کے ساتھ اِستہزاء کرنے میں ان کی رَوِش اختیار کر لی، جس کے نتیجے میں ان لوگوں کے تمام اَعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اوروہ اس کی وجہ سے خسارے میں پڑگئے، اور اب انہیں کفار کی طرح اے منافقین تم بھی گھاٹے میں ہو اور تمہارے عمل باطل ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۲۵۸-۲۵۹، ملخصاً)

*مال و دولت اور افرادی قوت کی زیادتی کامیابی کی علامت نہیں :*
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیوی مال ودولت کی کثرت اور افرادی قوت کی زیادتی کوئی کامیابی کی علامت نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کامیابی ایمان اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ مَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا٘-فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَ هُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ‘‘ (سبا:۳۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد اس قابل نہیں کہ تمہیں ہمارے قریب کردیں مگر وہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا (وہ ہمارے قریب ہے) ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں کئی گنا جزا ہے اور وہ(جنت کے) بالاخانوں میں امن وچین سے ہوں گے

اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﳔ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۷۰)

ترجمہ

کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (یعنی) قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیم اور مدین اور الٹ جانے والی بستیوں کے مکینوں کی خبر نہ آئی؟ ان کے پاس اُن کے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے۔

تفسیر


*{اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ:کیاان کے پاس ان سے پہلے لوگوں کی خبر نہ آئی۔}* یعنی منافقوں کو گزری ہوئی امتوں کا حال معلوم نہ ہوا کہ ہم نے انہیں اپنے حکم کی مخالفت اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کرنے پر کس طرح ہلاک کیا۔ قومِ نوح جو طوفان سے ہلاک کی گئی اور قومِ عاد جو ہوا سے ہلاک کئے گئے اور قومِ ثمود جو زلزلہ سے ہلاک کئے گئے اور قومِ ابراہیم جو سَلب ِ نعمت سے ہلاک کی گئی اور نمرود مچھر سے ہلاک کیا گیا اور مدین والے یعنی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم جوبادل والے دن کے عذاب سے ہلاک کی گئی اور وہ بستیاں کہ الٹ دی گئیں اور زیرو زبر کر ڈالی گئیں وہ قومِ لوط کی بستیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان چھ کا ذکر فرمایا اس لئے کہ بلادِ شام و عراق و یمن جو سرزمینِ عرب کے بالکل قریب ہیں ان میں ان ہلاک شدہ قوموں کے نشان باقی ہیں اور عرب لوگ ان مقامات پر اکثر گزرتے رہتے ہیں۔

مزید ارشاد فرمایا کہ ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تھے اور ان لوگوں نے تصدیق کرنے کی بجائے اپنے رسولوں کی تکذیب کی جیسا کہ اے منافقو! تم کررہے ہو، لہ
ٰذا تم اس بات سے ڈرو کہ کہیں انہیں کی طرح مبتلائے عذاب نہ کردئیے جائو۔ سابقہ لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے برباد ہوئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھاکیونکہ وہ حکیم ہے ،بغیر جرم کے سزا نہیں فرماتا بلکہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے کہ کفر کر کے او ر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ مان کر عذاب کے مستحق بنے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۵۹، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۴۴۴، ملتقطاً)



*طالبِ دعا ابوعمر*
ذیادہ تر کم مائیگی اور احساس کمتری کی وجہ سے انسان دوسرے انسانوں کی غیبت میں مبتلا ہوتے ہیں...!!!

@HamariUrduPiyariUrdu