🌹💜درس قرآن💜🌹
📖 پارہ۔30🌠 81-سورۂ تکویر ...💜آیت نمبر-27تا29
🌠💜🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💜🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(۲۷) لِمَنْ شَآءَ مِنْكُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ(۲۸) وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۹)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (27) وہ تو نصیحت ہی ہے سارے جہان کے لیے۔ (28)اس کے لیے جو تم میں سیدھا ہونا چاہے۔ (29)اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ چاہے اللہ سارے جہان کا رب۔
*#تفسیر:*
{اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ: وہ تو سارے جہانوں کے لیے نصیحت ہی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن عظیم تمام جنّوں اور انسانوں کے لئے نصیحت ہے۔ اور اس سے وہی نصیحت حاصل کر سکتا ہے جسے حق کی پیروی کرنا، اس پر قائم رہنا اور اس سے نفع حاصل کرنا منظور ہو۔( روح البیان، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۱۰/۳۵۴، خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۴/۳۵۷، ملتقطاً)
{وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ: اور تم کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے۔} یعنی تم اللّٰہ تعالیٰ کے چاہے بغیر کچھ چاہ بھی نہیں سکتے۔ تمہارا ارادہ اور چاہنا اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے کے تابع ہے۔
آیت ’’وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 4مسئلے معلوم ہوئے۔
(1)… انسان اپنے اختیاری کام میں مختار ہے۔
(2)… انسان کا اختیار مستقل نہیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے تابع ہے۔
(3)… دنیا کا ہر کام اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اور ارادے سے ہے مگر اس کی پسندیدگی سے نہیں۔
(4)… اللّٰہ تعالیٰ بندے کے ہر کام کا ارادہ فرماتا ہے مگر اسے برے کام کی رغبت یا مشورہ نہیں دیتا بلکہ اس سے منع فرماتا ہے۔ برے کاموں کی رغبت ابلیس لعین دیتا ہے۔
🍀🍀🍀🍀🍀
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کو عوام اور خواص سبھی مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند بنائے اور اسے مسلمانوں کی اعتقادی، علمی اور عملی اصلاح کا بہترین ذریعہ بنائے اور اس کے صدقے میری، میرے والدین، میرے عزیز رشتہ داروں ،اساتذہ ِکرام،دوست اَحباب ،دیگر متعلقین اور معاونین کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین۔
📖 پارہ۔30🌠 81-سورۂ تکویر ...💜آیت نمبر-27تا29
🌠💜🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💜🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(۲۷) لِمَنْ شَآءَ مِنْكُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ(۲۸) وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۹)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (27) وہ تو نصیحت ہی ہے سارے جہان کے لیے۔ (28)اس کے لیے جو تم میں سیدھا ہونا چاہے۔ (29)اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ چاہے اللہ سارے جہان کا رب۔
*#تفسیر:*
{اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ: وہ تو سارے جہانوں کے لیے نصیحت ہی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن عظیم تمام جنّوں اور انسانوں کے لئے نصیحت ہے۔ اور اس سے وہی نصیحت حاصل کر سکتا ہے جسے حق کی پیروی کرنا، اس پر قائم رہنا اور اس سے نفع حاصل کرنا منظور ہو۔( روح البیان، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۱۰/۳۵۴، خازن، التکویر، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۴/۳۵۷، ملتقطاً)
{وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ: اور تم کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے۔} یعنی تم اللّٰہ تعالیٰ کے چاہے بغیر کچھ چاہ بھی نہیں سکتے۔ تمہارا ارادہ اور چاہنا اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے کے تابع ہے۔
آیت ’’وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے 4مسئلے معلوم ہوئے۔
(1)… انسان اپنے اختیاری کام میں مختار ہے۔
(2)… انسان کا اختیار مستقل نہیں بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت کے تابع ہے۔
(3)… دنیا کا ہر کام اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت اور ارادے سے ہے مگر اس کی پسندیدگی سے نہیں۔
(4)… اللّٰہ تعالیٰ بندے کے ہر کام کا ارادہ فرماتا ہے مگر اسے برے کام کی رغبت یا مشورہ نہیں دیتا بلکہ اس سے منع فرماتا ہے۔ برے کاموں کی رغبت ابلیس لعین دیتا ہے۔
🍀🍀🍀🍀🍀
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کو عوام اور خواص سبھی مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند بنائے اور اسے مسلمانوں کی اعتقادی، علمی اور عملی اصلاح کا بہترین ذریعہ بنائے اور اس کے صدقے میری، میرے والدین، میرے عزیز رشتہ داروں ،اساتذہ ِکرام،دوست اَحباب ،دیگر متعلقین اور معاونین کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین۔
🌹💖 *درس قرآن* 💖🌹
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-1تا10
*سورۂ عبس کا تعارف*
مقامِ نزول:
سورۂ عبس مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ عبس، ۴/۳۵۲)
*رکوع اور آیات کی تعداد:*
اس سورت میں 1رکوع، 42 آیتیں ہیں۔
’’ عبس ‘‘نام رکھنے کی وجہ:
عبس کا معنی ہے تیوری چڑھانا اور اس سورت کی پہلی آیت میں یہ لفظ موجود ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ عبس‘‘ کہتے ہیں۔
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤى(۱) اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰی(۲) وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّهٗ یَزَّكّٰۤى(۳) اَوْ یَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى(٤) اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی(۵) فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰى(٦) وَ مَا عَلَیْكَ اَلَّا یَزَّكّٰى(۷) وَ اَمَّا مَنْ جَآءَكَ یَسْعٰى(۸) وَ هُوَ یَخْشٰی(۹) فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى(۱۰)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (1) تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا۔ (2)اس پر کہ اس کے پاس وہ نابینا حاضر ہوا۔ (3)اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ ستھرا ہو۔ (4)یا نصیحت لے تو اسے نصیحت فائدہ دے۔ (5)وہ جو بے پرواہ بنتا ہے۔ (6)تم اس کے تو پیچھے پڑتے ہو۔ (7)اور تمہارا کچھ زیاں نہیں اس میں کہ وہ ستھرا نہ ہو۔ (8)اور وہ جو تمہارے حضور ملکتا (ناز سے دوڑتا ہوا) آیا۔ (9)اور وہ ڈر رہا ہے۔ (10)تو اسے چھوڑ کر اور طرف مشغول ہوتے ہو۔
*#تفسیر:*
{عَبَسَ وَ تَوَلّٰى: تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا۔} اس سورت کی ابتدائی دس آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عظمت اور اپنی بارگاہ میں ان کی محبوبیّت کے ایک پہلو کو بیان فرمایا ہے۔ کہ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے اجتہاد سے ایک کام کو زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اسے دوسرے کام پر فَوقِیَّت دی اور دوسرے کام کی طرف توجہ نہ فرمائی تواس پر اللّٰہ تعالیٰ نے لطیف انداز میں اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تربیت فرمائی۔ ان آیات کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ایک مرتبہ قریش کے سرداروں عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب، اُبی بن خلف اور اُمیہ بن خلف کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے، اسی دوران حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے جو کہ نابینا تھے اوراُنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو بار بار ندا کرکے عرض کی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جو آپ کو سکھایا ہے وہ مجھے تعلیم فرمائیے۔ حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ نہ سمجھا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دوسروں سے گفتگو فرمارہے ہیں اور میرے ندا کرنے سے قطعِ کلامی ہوگی۔ یہ بات حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو گراں گزری اور ناگواری کے آثار چہرۂ اَقدس پر نمایاں ہوئے یہاں تک کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اپنی دولت سرائے اقدس کی طرف واپس تشریف لے آئے ۔اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور اس آیت اور اس کے بعد والی 9آیات میں فرمایا گیا کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اس بات پر اپنے ماتھے پر شکن چڑھائی اور منہ پھیرا کہ ان کے پاس ایک نابینا شخص حاضر ہوا اور اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ کو کیا معلوم کہ شاید وہ آپ کا ارشاد سن کر پاکیزہ ہوجائے یاآپ کے کلام سے نصیحت حاصل کرے تو وہ نصیحت اسے فائدہ دے۔ جبکہ دوسرا وہ شخص جو اپنے مال کے تکبر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ سے اورایمان لانے سے بے پروا ہوا، تو آپ اس کے پیچھے پڑتے ہیں۔ اور اس کے ایمان لانے کی امید میں اس پر کوشش کرتے ہیں (تاکہ دین ِاسلام کی قوت میں اضافہ ہو اور ان کے پیچھے چلنے والے اور لوگ بھی ایمان لے آئیں) حالانکہ آپ پر اس بات کا کوئی اِلزام نہیں کہ وہ کافر ایمان لا کر اور ہدایت پا کر پاکیزہ نہ ہو۔ کیونکہ آپ کے ذمہ دعوت دینا اور اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادینا ہے اور وہ ابنِ اُمِّ مکتوم، جو بھلائی کی طلب میں تمہارے حضور ناز سے دوڑتا ہوا آیا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتاہے تو آپ اسے چھوڑ کر دوسری طرف مشغول ہوتے ہیں۔ ایسا کرنا آپ کی شان کے لائق ہرگز نہیں۔( خازن،عبس،تحت الآیۃ:۱-۱۰،۴/۳۵۳، مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۱-۱۰، ص۱۳۲۱، جلالین، عبس، تحت الآیۃ: ۱-۱۰، ص۴۹۰، ملتقطاً)
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سامنے دو طرح کے لوگ تھے ، ایک مالدارکفار جن کے اسلام لانے سے خود اُن کفار کو اور اسلام و مسلمانوں کو ف
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-1تا10
*سورۂ عبس کا تعارف*
مقامِ نزول:
سورۂ عبس مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ عبس، ۴/۳۵۲)
*رکوع اور آیات کی تعداد:*
اس سورت میں 1رکوع، 42 آیتیں ہیں۔
’’ عبس ‘‘نام رکھنے کی وجہ:
عبس کا معنی ہے تیوری چڑھانا اور اس سورت کی پہلی آیت میں یہ لفظ موجود ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ عبس‘‘ کہتے ہیں۔
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤى(۱) اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰی(۲) وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّهٗ یَزَّكّٰۤى(۳) اَوْ یَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى(٤) اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی(۵) فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰى(٦) وَ مَا عَلَیْكَ اَلَّا یَزَّكّٰى(۷) وَ اَمَّا مَنْ جَآءَكَ یَسْعٰى(۸) وَ هُوَ یَخْشٰی(۹) فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى(۱۰)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (1) تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا۔ (2)اس پر کہ اس کے پاس وہ نابینا حاضر ہوا۔ (3)اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ ستھرا ہو۔ (4)یا نصیحت لے تو اسے نصیحت فائدہ دے۔ (5)وہ جو بے پرواہ بنتا ہے۔ (6)تم اس کے تو پیچھے پڑتے ہو۔ (7)اور تمہارا کچھ زیاں نہیں اس میں کہ وہ ستھرا نہ ہو۔ (8)اور وہ جو تمہارے حضور ملکتا (ناز سے دوڑتا ہوا) آیا۔ (9)اور وہ ڈر رہا ہے۔ (10)تو اسے چھوڑ کر اور طرف مشغول ہوتے ہو۔
*#تفسیر:*
{عَبَسَ وَ تَوَلّٰى: تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا۔} اس سورت کی ابتدائی دس آیات میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عظمت اور اپنی بارگاہ میں ان کی محبوبیّت کے ایک پہلو کو بیان فرمایا ہے۔ کہ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اپنے اجتہاد سے ایک کام کو زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اسے دوسرے کام پر فَوقِیَّت دی اور دوسرے کام کی طرف توجہ نہ فرمائی تواس پر اللّٰہ تعالیٰ نے لطیف انداز میں اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی تربیت فرمائی۔ ان آیات کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ایک مرتبہ قریش کے سرداروں عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب، اُبی بن خلف اور اُمیہ بن خلف کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے، اسی دوران حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے جو کہ نابینا تھے اوراُنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو بار بار ندا کرکے عرض کی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جو آپ کو سکھایا ہے وہ مجھے تعلیم فرمائیے۔ حضرت عبداللّٰہ بن اُمِّ مکتوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ نہ سمجھا کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دوسروں سے گفتگو فرمارہے ہیں اور میرے ندا کرنے سے قطعِ کلامی ہوگی۔ یہ بات حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو گراں گزری اور ناگواری کے آثار چہرۂ اَقدس پر نمایاں ہوئے یہاں تک کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اپنی دولت سرائے اقدس کی طرف واپس تشریف لے آئے ۔اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور اس آیت اور اس کے بعد والی 9آیات میں فرمایا گیا کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اس بات پر اپنے ماتھے پر شکن چڑھائی اور منہ پھیرا کہ ان کے پاس ایک نابینا شخص حاضر ہوا اور اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ کو کیا معلوم کہ شاید وہ آپ کا ارشاد سن کر پاکیزہ ہوجائے یاآپ کے کلام سے نصیحت حاصل کرے تو وہ نصیحت اسے فائدہ دے۔ جبکہ دوسرا وہ شخص جو اپنے مال کے تکبر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ سے اورایمان لانے سے بے پروا ہوا، تو آپ اس کے پیچھے پڑتے ہیں۔ اور اس کے ایمان لانے کی امید میں اس پر کوشش کرتے ہیں (تاکہ دین ِاسلام کی قوت میں اضافہ ہو اور ان کے پیچھے چلنے والے اور لوگ بھی ایمان لے آئیں) حالانکہ آپ پر اس بات کا کوئی اِلزام نہیں کہ وہ کافر ایمان لا کر اور ہدایت پا کر پاکیزہ نہ ہو۔ کیونکہ آپ کے ذمہ دعوت دینا اور اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادینا ہے اور وہ ابنِ اُمِّ مکتوم، جو بھلائی کی طلب میں تمہارے حضور ناز سے دوڑتا ہوا آیا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتاہے تو آپ اسے چھوڑ کر دوسری طرف مشغول ہوتے ہیں۔ ایسا کرنا آپ کی شان کے لائق ہرگز نہیں۔( خازن،عبس،تحت الآیۃ:۱-۱۰،۴/۳۵۳، مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۱-۱۰، ص۱۳۲۱، جلالین، عبس، تحت الآیۃ: ۱-۱۰، ص۴۹۰، ملتقطاً)
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سامنے دو طرح کے لوگ تھے ، ایک مالدارکفار جن کے اسلام لانے سے خود اُن کفار کو اور اسلام و مسلمانوں کو ف
🌹💖 *درس قرآن* 💖🌹
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-11تا16
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
كَلَّاۤ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ(۱۱)فَمَنْ شَآءَ ذَكَرَہٗ(۱۲) فِیْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ(۱۳) مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۭ(١٤) بِاَیْدِیْ سَفَرَةٍ(۱۵) كِرَامٍۭ بَرَرَةٍ(١٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (11) یوں نہیں یہ تو سمجھانا ہے۔ (12)تو جو چاہے اسے یاد کرے۔ (13)ان صحیفوں میں کہ عزت والے ہیں۔ (14)بلندی والے پاکی والے۔ (15)ایسوں کے ہاتھ لکھے ہوئے۔ (16)جو کرم والے نکوئی والے۔
*#تفسیر:*
{اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ باتیں نصیحت ہیں۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 5آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ بے شک قرآن کی آیات مخلوق کے لئے نصیحت ہیں۔ تو بندوں میں سے جو چاہے ان آیات کو یاد کرکے ان سے نصیحت حاصل کرے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے۔ اور جو چاہے ان سے اِعراض کرے۔ اور یہ آیات ان صحیفوں میں لکھی ہوئی ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عزت والے، بلند قدر والے اور پاکی والے ہیں۔ کہ انہیں پاکوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا اور یہ صحیفے ان لکھنے والوں کے ہاتھوں سے لکھے ہوئے ہیں جو کرم والے، نیکی والے اور اللّٰہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں۔ اور وہ فرشتے ہیں جو ان کو لوحِ محفوظ سے نقل کرتے ہیں ۔( مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ص۱۳۲۲، جلالین مع صاوی، عبس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۶/۲۳۱۵، خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۴/۳۵۳، ملتقطاً)
*قرآنِ کریم کی عظمت:*
اس سے معلوم ہوا کہ جن کاغذوں پر قرآن لکھا جائے، جن قلموں سے لکھا جائے اور جو لوگ لکھیں سب حرمت والے ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ پاک کو سب سے اونچا رکھا جائے، ادھر پاؤں یا پیٹھ نہ کی جائے اورناپاک آدمی اسے نہ چھوئے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ پاک کو حفظ کرنا چاہئے، اس کی فضیلت کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی مثال جو قرآنِ کریم کو پڑھتا ہے یہاں تک کہ اسے ذہن نشین کر لیتا ہے۔ تو وہ بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہو گا۔ اور اس شخص کی مثال جو قرآن کریم کو پڑھے اور اسے ذہن نشین کرتے ہوئے بڑی دشواری کا سامنا ہو تو اس کے لئے دُگنا ثواب ہے۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ عبس، ۳/۳۷۳، الحدیث: ۴۹۳۷)
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-11تا16
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
كَلَّاۤ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ(۱۱)فَمَنْ شَآءَ ذَكَرَہٗ(۱۲) فِیْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ(۱۳) مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۭ(١٤) بِاَیْدِیْ سَفَرَةٍ(۱۵) كِرَامٍۭ بَرَرَةٍ(١٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (11) یوں نہیں یہ تو سمجھانا ہے۔ (12)تو جو چاہے اسے یاد کرے۔ (13)ان صحیفوں میں کہ عزت والے ہیں۔ (14)بلندی والے پاکی والے۔ (15)ایسوں کے ہاتھ لکھے ہوئے۔ (16)جو کرم والے نکوئی والے۔
*#تفسیر:*
{اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ: بیشک یہ باتیں نصیحت ہیں۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 5آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ بے شک قرآن کی آیات مخلوق کے لئے نصیحت ہیں۔ تو بندوں میں سے جو چاہے ان آیات کو یاد کرکے ان سے نصیحت حاصل کرے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے۔ اور جو چاہے ان سے اِعراض کرے۔ اور یہ آیات ان صحیفوں میں لکھی ہوئی ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عزت والے، بلند قدر والے اور پاکی والے ہیں۔ کہ انہیں پاکوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا اور یہ صحیفے ان لکھنے والوں کے ہاتھوں سے لکھے ہوئے ہیں جو کرم والے، نیکی والے اور اللّٰہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں۔ اور وہ فرشتے ہیں جو ان کو لوحِ محفوظ سے نقل کرتے ہیں ۔( مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ص۱۳۲۲، جلالین مع صاوی، عبس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۶/۲۳۱۵، خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۶، ۴/۳۵۳، ملتقطاً)
*قرآنِ کریم کی عظمت:*
اس سے معلوم ہوا کہ جن کاغذوں پر قرآن لکھا جائے، جن قلموں سے لکھا جائے اور جو لوگ لکھیں سب حرمت والے ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ پاک کو سب سے اونچا رکھا جائے، ادھر پاؤں یا پیٹھ نہ کی جائے اورناپاک آدمی اسے نہ چھوئے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ پاک کو حفظ کرنا چاہئے، اس کی فضیلت کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی مثال جو قرآنِ کریم کو پڑھتا ہے یہاں تک کہ اسے ذہن نشین کر لیتا ہے۔ تو وہ بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہو گا۔ اور اس شخص کی مثال جو قرآن کریم کو پڑھے اور اسے ذہن نشین کرتے ہوئے بڑی دشواری کا سامنا ہو تو اس کے لئے دُگنا ثواب ہے۔( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ عبس، ۳/۳۷۳، الحدیث: ۴۹۳۷)
🌹💖 *درس قرآن* 💖🌹
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-17تا22
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَہٗ(۱۷) مِنْ اَیِّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ(۱۸) مِنْ نُّطْفَةٍ-خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ(۱۹) ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَهٗ(۲۰) ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ(۲۱) ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنْشَرَهٗ(۲۲)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (17) آدمی مارا جائیو کیا ناشکر ہے۔ (18)اسے کاہے سے بنایا۔ (19) پانی کی بوند سے اسے پیدا فرمایا۔ پھر اسے طرح طرح کے اندازوں پر رکھا۔ (20) پھر اسے راستہ آسان کیا۔ (21) پھر اسے موت دی پھر قبر میں رکھوایا۔ (22) پھر جب چاہا اسے باہر نکالا۔
*#تفسیر:*
{قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗ: آدمی مارا جائے، کتنا ناشکرا ہے وہ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 5آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ کافرآدمی مارا جائے، وہ کتنا ناشکرا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی کثیر نعمتوں اور بے انتہا احسانات کے باوجود اس کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ کیا اس نے غور نہیں کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے کس حقیر چیز سے پیدا کیا ہے۔ وہ حقیر چیز منی کے پانی کی بوند ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے اسے پیدا فرمایا ہے۔ تو جس کی اصل اِس جیسی چیز ہے اُس کی یہ اوقات کہاں ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات ماننے سے تکبر کرے اور اس کے ساتھ کفر کرے۔ اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق، اس کی زندگی کے مَراحل اور اس پر اپنے انعامات بیان فرمائے۔ کہ اس نے انسان کو ماں کے پیٹ میں کچھ عرصہ نطفے کی شکل میں، کچھ عرصہ جمے ہوئے خون کی صورت میں اور کچھ عرصہ گوشت کے ٹکڑے کی شان میں رکھا۔ پھر اس کے ہاتھ، پاؤں آنکھیں اور دیگر اَعضاء بنائے یہاں تک کہ اسے انسانی صورت کا جامہ پہنا دیا۔ پھر اس کیلئے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کا راستہ آسان کردیا۔ پھر اسے دُنْیَوی زندگی کی مدت پوری ہونے کے بعد موت دی تاکہ وہ اَبدی زندگی اور دائمی نعمتوں تک پہنچ سکے۔ پھر اسے قبر میں رکھوایا تاکہ وہ موت کے بعد درندوں کی خوراک بن کے بے عزت نہ ہو۔ پھر اس کی موت کے بعد اللّٰہ تعالیٰ جب چاہے گا اسے حساب و جزا کے لئے قبر سے باہر نکالے گا۔ پھر اِس کے بعد اُس کے مومن ہونے کی صورت میں اپنے فضل سے اسے نعمتوں، لذتوں اور آسائشوں سے بھرپور دائمی زندگی عطا کرے گا۔ جب عقلمند انسان ان چیزوں میں غور کرے گا تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کی قباحت کو جان لے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی طرف مائل ہو گا۔( خازن،عبس،تحت الآیۃ:۱۷-۲۲،۴/۳۵۴، روح البیان،عبس، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۲، ۱۰/۳۳۴-۳۳۶، تفسیر قرطبی، عبس، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۲، ۱۰/۱۵۳-۱۵۴، الجزء التاسع عشر، روح المعانی، عبس، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۲، ۱۵/۳۴۴- ۳۴۷، ملتقطاً)
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-17تا22
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَہٗ(۱۷) مِنْ اَیِّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ(۱۸) مِنْ نُّطْفَةٍ-خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ(۱۹) ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَهٗ(۲۰) ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ(۲۱) ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنْشَرَهٗ(۲۲)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (17) آدمی مارا جائیو کیا ناشکر ہے۔ (18)اسے کاہے سے بنایا۔ (19) پانی کی بوند سے اسے پیدا فرمایا۔ پھر اسے طرح طرح کے اندازوں پر رکھا۔ (20) پھر اسے راستہ آسان کیا۔ (21) پھر اسے موت دی پھر قبر میں رکھوایا۔ (22) پھر جب چاہا اسے باہر نکالا۔
*#تفسیر:*
{قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗ: آدمی مارا جائے، کتنا ناشکرا ہے وہ۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 5آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ کافرآدمی مارا جائے، وہ کتنا ناشکرا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی کثیر نعمتوں اور بے انتہا احسانات کے باوجود اس کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ کیا اس نے غور نہیں کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے کس حقیر چیز سے پیدا کیا ہے۔ وہ حقیر چیز منی کے پانی کی بوند ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ نے اسے پیدا فرمایا ہے۔ تو جس کی اصل اِس جیسی چیز ہے اُس کی یہ اوقات کہاں ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات ماننے سے تکبر کرے اور اس کے ساتھ کفر کرے۔ اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق، اس کی زندگی کے مَراحل اور اس پر اپنے انعامات بیان فرمائے۔ کہ اس نے انسان کو ماں کے پیٹ میں کچھ عرصہ نطفے کی شکل میں، کچھ عرصہ جمے ہوئے خون کی صورت میں اور کچھ عرصہ گوشت کے ٹکڑے کی شان میں رکھا۔ پھر اس کے ہاتھ، پاؤں آنکھیں اور دیگر اَعضاء بنائے یہاں تک کہ اسے انسانی صورت کا جامہ پہنا دیا۔ پھر اس کیلئے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کا راستہ آسان کردیا۔ پھر اسے دُنْیَوی زندگی کی مدت پوری ہونے کے بعد موت دی تاکہ وہ اَبدی زندگی اور دائمی نعمتوں تک پہنچ سکے۔ پھر اسے قبر میں رکھوایا تاکہ وہ موت کے بعد درندوں کی خوراک بن کے بے عزت نہ ہو۔ پھر اس کی موت کے بعد اللّٰہ تعالیٰ جب چاہے گا اسے حساب و جزا کے لئے قبر سے باہر نکالے گا۔ پھر اِس کے بعد اُس کے مومن ہونے کی صورت میں اپنے فضل سے اسے نعمتوں، لذتوں اور آسائشوں سے بھرپور دائمی زندگی عطا کرے گا۔ جب عقلمند انسان ان چیزوں میں غور کرے گا تو وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کی ناشکری اور اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کی قباحت کو جان لے گا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی طرف مائل ہو گا۔( خازن،عبس،تحت الآیۃ:۱۷-۲۲،۴/۳۵۴، روح البیان،عبس، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۲، ۱۰/۳۳۴-۳۳۶، تفسیر قرطبی، عبس، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۲، ۱۰/۱۵۳-۱۵۴، الجزء التاسع عشر، روح المعانی، عبس، تحت الآیۃ: ۱۷-۲۲، ۱۵/۳۴۴- ۳۴۷، ملتقطاً)
🌹💖 *درس قرآن* 💖🌹
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-24تا32
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖۤ(٢٤) اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّا(۲۵) ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا(٢٦) فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّا(۲۷) وَّ عِنَبًا وَّ قَضْبًا(۲۸) وَّ زَیْتُوْنًا وَّ نَخْلًا(۲۹) وَّ حَدَآںِٕقَ غُلْبًا(۳۰) وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّاۙ(۳۱)مَّتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ(۳۲)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (24)تو آدمی کو چاہیے اپنے کھانوں کو دیکھے۔ (25)کہ ہم نے اچھی طرح پانی ڈالا۔ (26)پھر زمین کو خوب چیرا۔ (27)تو اس میں اُگایا اناج۔ (28)اور انگور اور چارہ۔ (29)اور زیتون اور کھجور۔ (30)اور گھنے باغیچے۔ (31)اور میوے اور دُوب (گھاس)۔ (32)تمہارے فائدے کو اور تمہارے چوپایوں کے۔
*#تفسیر:*
{فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖ: تو آدمی کو چاہیے اپنے کھانوں کو دیکھے۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت کے وہ دلائل بیان کئے گئے جو انسان کی اپنی ذات میں موجود ہیں۔ اور اب اس عالَم میں موجود ان چیزوں کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت کے دلائل بیان کئے جا رہے ہیں جو انسان کی ضروریات ِزندگی میں داخل ہیں۔ اور انسان اپنی زندگی گزارنے کے لئے ان چیزوں کا محتاج ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 8 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے کھانے کی ان چیزوں کو غور سے دیکھ لے جنہیں وہ کھاتا ہے اور وہ چیزیں اس کی زندگی اور حیات کا سبب ہیں۔ کہ ان میں بھی اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کی قدرت ظاہر ہے۔ انسان غور کرے کہ کس طرح وہ کھانے کی چیزیں اس کے بدن کا حصہ بنتی ہیں۔ اور کس عجیب نظام سے وہ کام میں آتی ہیں۔ اور کس طرح رب عَزَّوَجَلَّ وہ چیزیں عطا فرماتا ہے۔ کھانے کی یہ چیزیں ملنے کا قدرتی نظام یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بادل سے زمین پر اچھی طرح بارش کا پانی ڈالا۔ کیونکہ پانی کھانے والی چیزوں کی پیداوار کا ذریعہ ہے۔ پھر اس نے زمین کو خوب چیرا جس سے دانے کا کمزور پودا نمودار ہوتا ہے۔ اگر رب تعالیٰ زمین کو چیر نہ دیتا تو کمزور کونپل باہر کیسے نکلتی۔ اور تمہارے فائدے کے لئے اس زمین سے اللّٰہ تعالیٰ نے گندم اور جَو وغیرہ اناج اُگایا۔ جن سے غذا حاصل کی جاتی ہے اور زمین سے انگور، چارہ، زیتون، کھجور، گھنے باغیچے اور پھل پیدا کئے۔ اور تمہارے چوپایوں کے فائدے کے لئے گھاس پیدا کی۔ تو غور کرو کہ جس رب تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کرتے ہوئے انہیں ایسی عظیم نعمتیں عطا کی ہیں اس کی عبادت سے منہ پھیرنا اور اس پر ایمان لانے سے تکبر کرنا کسی عقلمند انسان کے شایانِ شان کس طرح ہو سکتا ہے۔( تفسیرکبیر، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ۱۱/۵۹-۶۱، خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ۴/۳۵۴، مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ص۱۳۲۲، روح البیان، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ۱۰/۳۳۸-۳۳۹، ملتقطاً)
مزید مفید علمی و تحقیقی تحریروں کیلئے جوائن کیجیے
@HamariUrduPiyariUrdu
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-24تا32
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖۤ(٢٤) اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّا(۲۵) ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا(٢٦) فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّا(۲۷) وَّ عِنَبًا وَّ قَضْبًا(۲۸) وَّ زَیْتُوْنًا وَّ نَخْلًا(۲۹) وَّ حَدَآںِٕقَ غُلْبًا(۳۰) وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّاۙ(۳۱)مَّتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ(۳۲)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (24)تو آدمی کو چاہیے اپنے کھانوں کو دیکھے۔ (25)کہ ہم نے اچھی طرح پانی ڈالا۔ (26)پھر زمین کو خوب چیرا۔ (27)تو اس میں اُگایا اناج۔ (28)اور انگور اور چارہ۔ (29)اور زیتون اور کھجور۔ (30)اور گھنے باغیچے۔ (31)اور میوے اور دُوب (گھاس)۔ (32)تمہارے فائدے کو اور تمہارے چوپایوں کے۔
*#تفسیر:*
{فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖ: تو آدمی کو چاہیے اپنے کھانوں کو دیکھے۔} اس سے پہلی آیات میں اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت کے وہ دلائل بیان کئے گئے جو انسان کی اپنی ذات میں موجود ہیں۔ اور اب اس عالَم میں موجود ان چیزوں کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت کے دلائل بیان کئے جا رہے ہیں جو انسان کی ضروریات ِزندگی میں داخل ہیں۔ اور انسان اپنی زندگی گزارنے کے لئے ان چیزوں کا محتاج ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 8 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے کھانے کی ان چیزوں کو غور سے دیکھ لے جنہیں وہ کھاتا ہے اور وہ چیزیں اس کی زندگی اور حیات کا سبب ہیں۔ کہ ان میں بھی اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کی قدرت ظاہر ہے۔ انسان غور کرے کہ کس طرح وہ کھانے کی چیزیں اس کے بدن کا حصہ بنتی ہیں۔ اور کس عجیب نظام سے وہ کام میں آتی ہیں۔ اور کس طرح رب عَزَّوَجَلَّ وہ چیزیں عطا فرماتا ہے۔ کھانے کی یہ چیزیں ملنے کا قدرتی نظام یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بادل سے زمین پر اچھی طرح بارش کا پانی ڈالا۔ کیونکہ پانی کھانے والی چیزوں کی پیداوار کا ذریعہ ہے۔ پھر اس نے زمین کو خوب چیرا جس سے دانے کا کمزور پودا نمودار ہوتا ہے۔ اگر رب تعالیٰ زمین کو چیر نہ دیتا تو کمزور کونپل باہر کیسے نکلتی۔ اور تمہارے فائدے کے لئے اس زمین سے اللّٰہ تعالیٰ نے گندم اور جَو وغیرہ اناج اُگایا۔ جن سے غذا حاصل کی جاتی ہے اور زمین سے انگور، چارہ، زیتون، کھجور، گھنے باغیچے اور پھل پیدا کئے۔ اور تمہارے چوپایوں کے فائدے کے لئے گھاس پیدا کی۔ تو غور کرو کہ جس رب تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کرتے ہوئے انہیں ایسی عظیم نعمتیں عطا کی ہیں اس کی عبادت سے منہ پھیرنا اور اس پر ایمان لانے سے تکبر کرنا کسی عقلمند انسان کے شایانِ شان کس طرح ہو سکتا ہے۔( تفسیرکبیر، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ۱۱/۵۹-۶۱، خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ۴/۳۵۴، مدارک، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ص۱۳۲۲، روح البیان، عبس، تحت الآیۃ: ۲۴-۳۲، ۱۰/۳۳۸-۳۳۹، ملتقطاً)
مزید مفید علمی و تحقیقی تحریروں کیلئے جوائن کیجیے
@HamariUrduPiyariUrdu
🌹💖 *درس قرآن* 💖🌹
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-33تا37
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ(۳۳) یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ(٣٤) وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِ(۳۵) وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِ(٣٦) لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَںِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ(٣٧)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (33) پھر جب آئے گی وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑ۔ (34)اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی۔ (35) اور ماں اور باپ۔ (36) اور جورو (بیوی) اور بیٹوں سے۔ (37) ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک فکر ہے کہ وہی اسے بس ہے۔
*#تفسیر:*
{فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ: پھر جب وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑآئے گی۔} اب یہاں سے قیامت کی ہَولْناکیاں بیان کی جا رہی ہیں۔ کیونکہ انسان جب ان ہَولْناکیوں کے بارے میں سنے گا تو اس کے دل میں خوف پیدا ہو گا اور اسی خوف کی وجہ سے وہ دلائل میں غورو فکر کرنے، کفر سے منہ موڑ کر ایمان قبول کرنے، لوگوں پر تکبر کرنا چھوڑ دینے اور ہر ایک کے ساتھ عاجزی واِنکساری کے ساتھ پیش آنے کی طرف مائل ہو گا۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 4 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صور پھونکنے کی کان پھاڑ دینے والی آواز آئے گی تو اس دن آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے بھاگے گا اور ان میں سے کسی کی طرف توجہ نہیں کرے گا تاکہ ان میں کوئی اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کر لے۔ اور ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسی فکر ہوگی جو اسے دوسروں سے لاپرواہ کردے گی۔( تفسیرکبیر، عبس،تحت الآیۃ: ۳۳-۳۷، ۱۱/۶۱-۶۲، خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۷، ۴/۳۵۴-۳۵۵، ملتقطاً)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن تم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بے ختنہ شدہ اٹھائے جاؤ گے۔ ایک صحابیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، کیا لوگ ایک دوسرے کے ستر کو بھی دیکھیں گے؟ ارشاد فرمایا: ’’اے فلاں عورت!
’’لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَںِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ‘‘
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایک ایسی فکر پڑی ہو گی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی۔
( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ عبس، ۵/۲۱۹، الحدیث: ۳۳۴۳)
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-33تا37
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ(۳۳) یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ(٣٤) وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِ(۳۵) وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِ(٣٦) لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَںِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ(٣٧)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (33) پھر جب آئے گی وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑ۔ (34)اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی۔ (35) اور ماں اور باپ۔ (36) اور جورو (بیوی) اور بیٹوں سے۔ (37) ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک فکر ہے کہ وہی اسے بس ہے۔
*#تفسیر:*
{فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ: پھر جب وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑآئے گی۔} اب یہاں سے قیامت کی ہَولْناکیاں بیان کی جا رہی ہیں۔ کیونکہ انسان جب ان ہَولْناکیوں کے بارے میں سنے گا تو اس کے دل میں خوف پیدا ہو گا اور اسی خوف کی وجہ سے وہ دلائل میں غورو فکر کرنے، کفر سے منہ موڑ کر ایمان قبول کرنے، لوگوں پر تکبر کرنا چھوڑ دینے اور ہر ایک کے ساتھ عاجزی واِنکساری کے ساتھ پیش آنے کی طرف مائل ہو گا۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 4 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صور پھونکنے کی کان پھاڑ دینے والی آواز آئے گی تو اس دن آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے بھاگے گا اور ان میں سے کسی کی طرف توجہ نہیں کرے گا تاکہ ان میں کوئی اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کر لے۔ اور ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسی فکر ہوگی جو اسے دوسروں سے لاپرواہ کردے گی۔( تفسیرکبیر، عبس،تحت الآیۃ: ۳۳-۳۷، ۱۱/۶۱-۶۲، خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۷، ۴/۳۵۴-۳۵۵، ملتقطاً)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن تم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بے ختنہ شدہ اٹھائے جاؤ گے۔ ایک صحابیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، کیا لوگ ایک دوسرے کے ستر کو بھی دیکھیں گے؟ ارشاد فرمایا: ’’اے فلاں عورت!
’’لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَںِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ‘‘
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایک ایسی فکر پڑی ہو گی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی۔
( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ عبس، ۵/۲۱۹، الحدیث: ۳۳۴۳)
🌹💖 *درس قرآن* 💖🌹
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-38تا42
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وُجُوْهٌ یَّوْمَںِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ(۳۸) ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ(۳۹) وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَںِٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ(٤٠) تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ(٤١) اُولٰٓںِٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُُ۠(٤٢)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (38) کتنے منہ اس دن روشن ہوں گے۔ (39) ہنستے خوشیاں مناتے۔ (40)اور کتنے مونہوں پر اس دن گرد پڑی ہو گی۔ (41)ان پر سیاہی چڑھ رہی ہے۔ (42) یہ وہی ہیں کافر بدکار۔
*#تفسیر:*
{وُجُوْهٌ یَّوْمَںِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ: بہت سے چہرے اس دن روشن ہوں گے۔} قیامت کا حال اور اس کی ہَولْناکیاں بیان فرمانے کے بعد اب اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات میں مُکَلَّف لوگوں کی دو قسمیں بیان کی جا رہی ہیں۔ (1)سعادت مند۔ (2)بد بخت۔ جو لوگ سعادت مند ہیں ان کا حال یہ ہو گا کہ قیامت کے دن ان کے چہرے ایمان کے نور سے یا رات کی عبادتوں سے یا وضو کے آثار سے روشن ہوں گے۔ اور حساب سے فارغ ہونے کے بعد وہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت، اس کے کرم اور اس کی رضا پر ہنستے ہوئے خوشیاں منارہے ہوں گے۔ اور جو لوگ بد بخت ہیں قیامت کے دن ان کا حال یہ ہو گا کہ (ان کی بد عملیوں کی وجہ سے) ان کے چہروں پر گرد پڑی ہوگی اور (ان کے کفر کی وجہ سے) ان پر سیاہی چڑھ رہی ہوگی، یہ وہی کافر بدکارہیں جن کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔( خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۳۸-۴۲، ۴/۳۵۵)
🍀🍀🍀🍀🍀
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کو عوام اور خواص سبھی مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند بنائے اور اسے مسلمانوں کی اعتقادی، علمی اور عملی اصلاح کا بہترین ذریعہ بنائے اور اس کے صدقے میری، میرے والدین، میرے عزیز رشتہ داروں، اساتذہ ِکرام، دوست اَحباب، دیگر متعلقین اور معاونین کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین۔
📖 پارہ۔30🌠 80-سورۂ عبس ...💖آیت نمبر-38تا42
🌠💖🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💖🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وُجُوْهٌ یَّوْمَںِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ(۳۸) ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ(۳۹) وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَںِٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ(٤٠) تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ(٤١) اُولٰٓںِٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُُ۠(٤٢)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (38) کتنے منہ اس دن روشن ہوں گے۔ (39) ہنستے خوشیاں مناتے۔ (40)اور کتنے مونہوں پر اس دن گرد پڑی ہو گی۔ (41)ان پر سیاہی چڑھ رہی ہے۔ (42) یہ وہی ہیں کافر بدکار۔
*#تفسیر:*
{وُجُوْهٌ یَّوْمَںِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ: بہت سے چہرے اس دن روشن ہوں گے۔} قیامت کا حال اور اس کی ہَولْناکیاں بیان فرمانے کے بعد اب اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات میں مُکَلَّف لوگوں کی دو قسمیں بیان کی جا رہی ہیں۔ (1)سعادت مند۔ (2)بد بخت۔ جو لوگ سعادت مند ہیں ان کا حال یہ ہو گا کہ قیامت کے دن ان کے چہرے ایمان کے نور سے یا رات کی عبادتوں سے یا وضو کے آثار سے روشن ہوں گے۔ اور حساب سے فارغ ہونے کے بعد وہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت، اس کے کرم اور اس کی رضا پر ہنستے ہوئے خوشیاں منارہے ہوں گے۔ اور جو لوگ بد بخت ہیں قیامت کے دن ان کا حال یہ ہو گا کہ (ان کی بد عملیوں کی وجہ سے) ان کے چہروں پر گرد پڑی ہوگی اور (ان کے کفر کی وجہ سے) ان پر سیاہی چڑھ رہی ہوگی، یہ وہی کافر بدکارہیں جن کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔( خازن، عبس، تحت الآیۃ: ۳۸-۴۲، ۴/۳۵۵)
🍀🍀🍀🍀🍀
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کو عوام اور خواص سبھی مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند بنائے اور اسے مسلمانوں کی اعتقادی، علمی اور عملی اصلاح کا بہترین ذریعہ بنائے اور اس کے صدقے میری، میرے والدین، میرے عزیز رشتہ داروں، اساتذہ ِکرام، دوست اَحباب، دیگر متعلقین اور معاونین کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین۔
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر-1&2
*سورۂ نازعات کا تعارف*
مقامِ نزول:
سورۂ نازعات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ النّازعات، ۴/۳۴۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 2 رکوع، 46آیتیں ہیں۔
’’نازعات ‘‘نام رکھنے کی وجہ:
اُن فرشتوں کونازعات کہتے ہیں جو انسانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور چونکہ اس سورت کی پہلی آیت میں ان فرشتوں کی قسم ارشاد فرمائی گئی اس مناسبت سے اسے’’سورۂ نازعات‘‘ کہتے ہیں۔
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا(۱) وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا(۲)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (1) قسم ان کی کہ سختی سے جان کھینچیں۔ (2) اور نرمی سے بند کھولیں۔
*#تفسیر:*
{وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا: سختی سے جان کھینچنے والوں کی قسم۔} یعنی ان فرشتوں کی قسم!جو کافروں کے جسموں سے ان کی روح سختی سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۱، ۴/۴۱۰)
{وَ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا: اور نرمی سے بند کھولنے والوں کی۔} یعنی ان فرشتوں کی قسم!جو مومنوں کے جسموں سے ان کی روحیں نرمی سے قبض کرتے ہیں۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲، ۴/۴۱۰)
*مومن کی روح نرمی سے نکالی جاتی ہے:*
حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام جب کسی مومن کی روح قبض فرماتے ہیں تو اس کے ساتھ نرمی فرماتے ہیں، چنانچہ حضرت خزرج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرہانے حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا تو ان سے فرمایا ’’میرے صحابی پر نرمی کرنا کیونکہ یہ مومن ہے۔ حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ خوش ہو جائیں اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھیں بے شک میں ہر مومن کے ساتھ (روح نکالنے کے معاملے میں) نرمی کرنے والا ہوں۔( معجم الکبیر، باب الخائ، خزرج الانصاری، ۴/۲۲۰، الحدیث: ۴۱۸۸)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر-1&2
*سورۂ نازعات کا تعارف*
مقامِ نزول:
سورۂ نازعات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ النّازعات، ۴/۳۴۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 2 رکوع، 46آیتیں ہیں۔
’’نازعات ‘‘نام رکھنے کی وجہ:
اُن فرشتوں کونازعات کہتے ہیں جو انسانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور چونکہ اس سورت کی پہلی آیت میں ان فرشتوں کی قسم ارشاد فرمائی گئی اس مناسبت سے اسے’’سورۂ نازعات‘‘ کہتے ہیں۔
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا(۱) وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا(۲)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (1) قسم ان کی کہ سختی سے جان کھینچیں۔ (2) اور نرمی سے بند کھولیں۔
*#تفسیر:*
{وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا: سختی سے جان کھینچنے والوں کی قسم۔} یعنی ان فرشتوں کی قسم!جو کافروں کے جسموں سے ان کی روح سختی سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۱، ۴/۴۱۰)
{وَ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا: اور نرمی سے بند کھولنے والوں کی۔} یعنی ان فرشتوں کی قسم!جو مومنوں کے جسموں سے ان کی روحیں نرمی سے قبض کرتے ہیں۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲، ۴/۴۱۰)
*مومن کی روح نرمی سے نکالی جاتی ہے:*
حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام جب کسی مومن کی روح قبض فرماتے ہیں تو اس کے ساتھ نرمی فرماتے ہیں، چنانچہ حضرت خزرج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرہانے حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا تو ان سے فرمایا ’’میرے صحابی پر نرمی کرنا کیونکہ یہ مومن ہے۔ حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ خوش ہو جائیں اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھیں بے شک میں ہر مومن کے ساتھ (روح نکالنے کے معاملے میں) نرمی کرنے والا ہوں۔( معجم الکبیر، باب الخائ، خزرج الانصاری، ۴/۲۲۰، الحدیث: ۴۱۸۸)
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر3تا5
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا(۳) فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا(٤) فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا(۵)
*#ترجمہ کنز الایمان:*(3)اور آسانی سے پیریں (چلیں)۔ (4) پھر آگے بڑھ کر جلد پہنچیں۔ (5) پھر کام کی تدبیر کریں۔
*#تفسیر:*
{وَ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا: اور آسانی سے تیرنے والوں کی۔} یعنی اور ان فرشتوں کی قسم! جو (زمین اور آسمان کے درمیان) مومنین کی روحیں لے کر آسانی سے تیرنے والے ہیں۔ ( تفسیر قرطبی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰/۱۳۶-۱۳۷، الجزء التاسع عشر)
{فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا: پھر آگے بڑھنے والوں کی۔} ارشاد فرمایا کہ پھر ان فرشتوں کی قسم جن کا وصف یہ ہے کہ وہ اپنی اس خدمت پر جلد پہنچتے ہیں جس پر وہ مقرر ہیں۔ (روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴، ۱۰/۳۱۵)
{فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا: پھر کائنات کا نظام چلانے والوں کی۔} یعنی، پھر ان فرشتوں کی قسم! جو دنیا کے کاموں کا انتظام کرنے پر مقرر ہیں۔ اور ان کاموں کو سر انجام دیتے ہیں، ان تمام قسموں کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اے کفار ِمکہ! تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ (بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۵، ۴/۴۱۱)
*ہر کام وسیلے کے ذریعے ہونا اللّٰہ تعالیٰ کا قانون ہے:*
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت تو یہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا کام کسی وسیلے کے بغیر خود اسی کے حکم سے ہو جائے۔ لیکن قانون یہ ہے کہ کام وسیلے کے ذریعے ہو کیونکہ دنیا کا ہر کام کائنات کا نظام چلانے پر مقرر فرشتوں کے سپرد ہے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض نام اللّٰہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان مُشتَرک ہیں، جیسے علی، سمیع، بصیر، انہیں میں سے مُدَبِّر بھی ہے کہ رب عَزَّوَجَلَّ بھی تدبیر فرمانے والا ہے اور فرشتے بھی مُدَبِّرات ِ اَمر یعنی کاموں کی تدبیر کرنے والے ہیں ۔
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر3تا5
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا(۳) فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا(٤) فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا(۵)
*#ترجمہ کنز الایمان:*(3)اور آسانی سے پیریں (چلیں)۔ (4) پھر آگے بڑھ کر جلد پہنچیں۔ (5) پھر کام کی تدبیر کریں۔
*#تفسیر:*
{وَ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا: اور آسانی سے تیرنے والوں کی۔} یعنی اور ان فرشتوں کی قسم! جو (زمین اور آسمان کے درمیان) مومنین کی روحیں لے کر آسانی سے تیرنے والے ہیں۔ ( تفسیر قرطبی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰/۱۳۶-۱۳۷، الجزء التاسع عشر)
{فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا: پھر آگے بڑھنے والوں کی۔} ارشاد فرمایا کہ پھر ان فرشتوں کی قسم جن کا وصف یہ ہے کہ وہ اپنی اس خدمت پر جلد پہنچتے ہیں جس پر وہ مقرر ہیں۔ (روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴، ۱۰/۳۱۵)
{فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا: پھر کائنات کا نظام چلانے والوں کی۔} یعنی، پھر ان فرشتوں کی قسم! جو دنیا کے کاموں کا انتظام کرنے پر مقرر ہیں۔ اور ان کاموں کو سر انجام دیتے ہیں، ان تمام قسموں کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اے کفار ِمکہ! تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ (بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۵، ۴/۴۱۱)
*ہر کام وسیلے کے ذریعے ہونا اللّٰہ تعالیٰ کا قانون ہے:*
یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت تو یہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا کام کسی وسیلے کے بغیر خود اسی کے حکم سے ہو جائے۔ لیکن قانون یہ ہے کہ کام وسیلے کے ذریعے ہو کیونکہ دنیا کا ہر کام کائنات کا نظام چلانے پر مقرر فرشتوں کے سپرد ہے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض نام اللّٰہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان مُشتَرک ہیں، جیسے علی، سمیع، بصیر، انہیں میں سے مُدَبِّر بھی ہے کہ رب عَزَّوَجَلَّ بھی تدبیر فرمانے والا ہے اور فرشتے بھی مُدَبِّرات ِ اَمر یعنی کاموں کی تدبیر کرنے والے ہیں ۔
Telegram
✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر3تا5
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا(۳) فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا(٤) فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا(۵)
*#ترجمہ…
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر3تا5
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا(۳) فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا(٤) فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا(۵)
*#ترجمہ…
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر6&7
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ(٦) تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ(۷)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (6)کہ کافروں پر ضرور عذاب ہو گا جس دن تھرتھرائے گی تھرتھرانے والی۔ (7)اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی۔
*#تفسیر:*
{یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ: جس دن تھرتھرانے والی تھر تھرائے گی۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تم اس دن ضرور زندہ کئے جاؤ گے جس دن (ایک سینگ میں) پہلی پھونک ماری جائے گی۔ تو اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے زمین اور پہاڑ شدید حرکت کرنے لگیں گے اور انتہائی سخت زلزلہ آ جائے گا اور تمام مخلوق مرجائے گی۔ پھر اس پہلی پھونک کے بعد دوسری پھونک ماری جائے گی جس سے ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کردی جائے گی۔ ان دونوں پھونکوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا۔( روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۱۰/۳۱۶-۳۱۷، بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴/۴۱۱، ملتقطاً)
*قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو:*
حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب رات کے دو تہائی حصے گزر جاتے تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اٹھتے اور ارشادفرماتے’’ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرو، اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرو۔ (قیامت کا) پہلا نَفخہ آن پہنچا اور دوسرا نفخہ اس کے تابع ہو گا، موت آپہنچی ہے، موت اپنی ان تکالیف کے ساتھ آ پہنچی ہے جو اس میں ہیں۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۲۳-باب، ۴/۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۵) مراد یہ ہے کہ قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو اور موت تمہارے سر پہ کھڑی ہے اس لئے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر6&7
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ(٦) تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ(۷)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (6)کہ کافروں پر ضرور عذاب ہو گا جس دن تھرتھرائے گی تھرتھرانے والی۔ (7)اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی۔
*#تفسیر:*
{یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ: جس دن تھرتھرانے والی تھر تھرائے گی۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تم اس دن ضرور زندہ کئے جاؤ گے جس دن (ایک سینگ میں) پہلی پھونک ماری جائے گی۔ تو اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے زمین اور پہاڑ شدید حرکت کرنے لگیں گے اور انتہائی سخت زلزلہ آ جائے گا اور تمام مخلوق مرجائے گی۔ پھر اس پہلی پھونک کے بعد دوسری پھونک ماری جائے گی جس سے ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کردی جائے گی۔ ان دونوں پھونکوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا۔( روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۱۰/۳۱۶-۳۱۷، بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴/۴۱۱، ملتقطاً)
*قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو:*
حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب رات کے دو تہائی حصے گزر جاتے تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اٹھتے اور ارشادفرماتے’’ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرو، اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرو۔ (قیامت کا) پہلا نَفخہ آن پہنچا اور دوسرا نفخہ اس کے تابع ہو گا، موت آپہنچی ہے، موت اپنی ان تکالیف کے ساتھ آ پہنچی ہے جو اس میں ہیں۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۲۳-باب، ۴/۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۵) مراد یہ ہے کہ قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو اور موت تمہارے سر پہ کھڑی ہے اس لئے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر8&9
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
قُلُوْبٌ یَّوْمَںِٕذٍ وَّاجِفَةٌ(۸) اَبْصَارُهَا
خَاشِعَةٌ(۹)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (8) کتنے دل اس دن دھڑکتے ہوں گے۔ (9)آنکھ اوپر نہ اٹھا سکیں گے۔
*#تفسیر:*
{قُلُوْبٌ یَّوْمَںِٕذٍ وَّاجِفَةٌ: دل اس دن خوفزدہ ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن (صُور میں) پھونک ماری جائے گی تواس دن مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کفار کا حال یہ ہو گا کہ برے اعمال اور قبیح اَفعال کی وجہ سے ان کے دل خوفزدہ ہوں گے۔ اور اس دن کی دہشت اور ہَولْناکی کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔(روح البیان،النّازعات،تحت الآیۃ:۸-۹،۱۰/۳۱۷، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۸-۹، ص ۱۳۱۷-۱۳۱۸، ملتقطاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر8&9
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
قُلُوْبٌ یَّوْمَںِٕذٍ وَّاجِفَةٌ(۸) اَبْصَارُهَا
خَاشِعَةٌ(۹)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (8) کتنے دل اس دن دھڑکتے ہوں گے۔ (9)آنکھ اوپر نہ اٹھا سکیں گے۔
*#تفسیر:*
{قُلُوْبٌ یَّوْمَںِٕذٍ وَّاجِفَةٌ: دل اس دن خوفزدہ ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن (صُور میں) پھونک ماری جائے گی تواس دن مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کفار کا حال یہ ہو گا کہ برے اعمال اور قبیح اَفعال کی وجہ سے ان کے دل خوفزدہ ہوں گے۔ اور اس دن کی دہشت اور ہَولْناکی کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔(روح البیان،النّازعات،تحت الآیۃ:۸-۹،۱۰/۳۱۷، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۸-۹، ص ۱۳۱۷-۱۳۱۸، ملتقطاً)
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر15تا26
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
هَلْ اَتٰںكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى(۱۵) اِذْ نَادٰںهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى(١٦) اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى٘(۱۷) فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰۤى اَنْ تَزَكّٰى(۱۸) وَ اَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى(۱۹) فَاَرٰںهُ الْاٰیَةَ الْكُبْرٰى٘(۲۰) فَكَذَّبَ وَعَصٰى٘(۲۱) ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی٘(۲۲) فَحَشَرَ فَنَادٰى٘(۲۳) فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى٘(٢٤) فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَ الْاُوْلٰى(۲۵) اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰى(٢٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (15) کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔ (16)جب اسے اس کے رب نے پاک جنگل طویٰ میں ندا فرمائی۔ (17)کہ فرعون کے پاس جا اس نے سر اٹھایا۔ (18)اس سے کہہ کیا تجھے رغبت اس طرف ہے کہ ستھرا ہو۔ (19)اور تجھے تیرے رب کی طرف راہ بتاؤں کہ تو ڈرے۔ (20) پھر موسیٰ نے اسے بہت بڑی نشانی دکھائی۔ (21)اس پر اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔ (22)پھر پیٹھ دی اپنی کوشش میں لگا۔ (23)تو لوگوں کو جمع کیا پھر پکارا۔ (24)پھر بولا میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں۔ (25)تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔ (26)بیشک اس میں سیکھ (سبق) ملتا ہے اسے جو ڈرے۔
*#تفسیر:*
{هَلْ اَتٰںكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى: کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔} جب قوم کا جھٹلانا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دشوار اور ناگوار گزرا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دل کی تسکین کے لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے بہت تکلیفیں پائی تھیں۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 11آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ مشرکین کے جھٹلانے کی وجہ سے غمگین نہ ہو ں کیونکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کفار کی طرف سے ایسی باتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ آپ میرے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی دیکھ لیں، جب اسے اس کے رب عَزَّوَجَلَّ نے ملکِ شام میں طور پہاڑ کے قریب واقع پاک جنگل طُویٰ میں ندا فرمائی کہ اے موسیٰ! تم فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہو گیا ہے اور وہ کفر وفساد میں حد سے گزر گیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تجھے اس بات کی طرف کوئی رغبت ہے کہ تو ایمان قبول کر کے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو کر کفر،شرک، مَعْصِیَت اور نافرمانی سے پاکیزہ ہوجائے۔ اور کیا تو اس بات کی طرف رغبت رکھتا ہے کہ میں تجھے تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف راہ بتاؤں تاکہ تو اس کے عذاب سے ڈرے۔ کیونکہ اس کے عذاب سے ڈر اسی وقت لگے گا جب اس کی تمہیں معرفت ہو گی۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے فرعون کو روشن ہاتھ اور عصا کی بہت بڑی نشانی دکھائی تو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ اور اس نشانی کو جادو کہنے لگا۔ پھر اس نے مقابلے اور فساد انگیزی کی کوشش کرتے ہوئے ایمان قبول کرنے سے منہ موڑ لیا اور اس نے جادوگروں کو اور اپنے لشکروں کو جمع کیا۔ جب وہ جمع ہو گئے تو فرعون نے انہیں پکارا اور ان سے کہا ’’میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں، میرے اوپر اور کوئی رب نہیں۔ تو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں اس طرح پکڑا کہ دنیا میں اسے غرق کر دیا اور آخرت میں جہنم میں داخل فرمائے گا۔ بے شک فرعون کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے عبرت ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۱۵-۲۶،۴/۳۵۱، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۱۵-۲۶، ص۱۳۱۸-۱۳۱۹، ملتقطاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر15تا26
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
هَلْ اَتٰںكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى(۱۵) اِذْ نَادٰںهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى(١٦) اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى٘(۱۷) فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰۤى اَنْ تَزَكّٰى(۱۸) وَ اَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى(۱۹) فَاَرٰںهُ الْاٰیَةَ الْكُبْرٰى٘(۲۰) فَكَذَّبَ وَعَصٰى٘(۲۱) ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی٘(۲۲) فَحَشَرَ فَنَادٰى٘(۲۳) فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى٘(٢٤) فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَ الْاُوْلٰى(۲۵) اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰى(٢٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (15) کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔ (16)جب اسے اس کے رب نے پاک جنگل طویٰ میں ندا فرمائی۔ (17)کہ فرعون کے پاس جا اس نے سر اٹھایا۔ (18)اس سے کہہ کیا تجھے رغبت اس طرف ہے کہ ستھرا ہو۔ (19)اور تجھے تیرے رب کی طرف راہ بتاؤں کہ تو ڈرے۔ (20) پھر موسیٰ نے اسے بہت بڑی نشانی دکھائی۔ (21)اس پر اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔ (22)پھر پیٹھ دی اپنی کوشش میں لگا۔ (23)تو لوگوں کو جمع کیا پھر پکارا۔ (24)پھر بولا میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں۔ (25)تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔ (26)بیشک اس میں سیکھ (سبق) ملتا ہے اسے جو ڈرے۔
*#تفسیر:*
{هَلْ اَتٰںكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى: کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔} جب قوم کا جھٹلانا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دشوار اور ناگوار گزرا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دل کی تسکین کے لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے بہت تکلیفیں پائی تھیں۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 11آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ مشرکین کے جھٹلانے کی وجہ سے غمگین نہ ہو ں کیونکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کفار کی طرف سے ایسی باتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ آپ میرے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی دیکھ لیں، جب اسے اس کے رب عَزَّوَجَلَّ نے ملکِ شام میں طور پہاڑ کے قریب واقع پاک جنگل طُویٰ میں ندا فرمائی کہ اے موسیٰ! تم فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہو گیا ہے اور وہ کفر وفساد میں حد سے گزر گیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تجھے اس بات کی طرف کوئی رغبت ہے کہ تو ایمان قبول کر کے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو کر کفر،شرک، مَعْصِیَت اور نافرمانی سے پاکیزہ ہوجائے۔ اور کیا تو اس بات کی طرف رغبت رکھتا ہے کہ میں تجھے تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف راہ بتاؤں تاکہ تو اس کے عذاب سے ڈرے۔ کیونکہ اس کے عذاب سے ڈر اسی وقت لگے گا جب اس کی تمہیں معرفت ہو گی۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے فرعون کو روشن ہاتھ اور عصا کی بہت بڑی نشانی دکھائی تو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ اور اس نشانی کو جادو کہنے لگا۔ پھر اس نے مقابلے اور فساد انگیزی کی کوشش کرتے ہوئے ایمان قبول کرنے سے منہ موڑ لیا اور اس نے جادوگروں کو اور اپنے لشکروں کو جمع کیا۔ جب وہ جمع ہو گئے تو فرعون نے انہیں پکارا اور ان سے کہا ’’میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں، میرے اوپر اور کوئی رب نہیں۔ تو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں اس طرح پکڑا کہ دنیا میں اسے غرق کر دیا اور آخرت میں جہنم میں داخل فرمائے گا۔ بے شک فرعون کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے عبرت ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۱۵-۲۶،۴/۳۵۱، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۱۵-۲۶، ص۱۳۱۸-۱۳۱۹، ملتقطاً)
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر27
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ-بَنٰںهَاٙ(۲۷)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (27) کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارا بنانا مشکل یا آسمان کا؟ اللہ نے اسے بنایا۔
*#تفسیر:*
{ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ: کیا (تمہاری سمجھ کے مطابق) تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟} اللّٰہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں سے فرمایا کہ کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارے مرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تمہیں دوبارہ بنانا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا؟ اس کے جواب میں تم یہی کہو گے کہ آسمان جیسی بڑی اور مضبوط چیز پیدا کرنے کے مقابلے میں انسان کو پیدا کرنا زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ وہ آسمان سے بہت چھوٹا اور کمزور ہے۔ تو جب تمہاری سمجھ کے مطابق تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اللّٰہ تعالیٰ پر زیادہ آسان ہے تو پھر تم اس کا انکار کیوں کرتے ہو۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ زمین و آسمان کو اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس کا تم انکار بھی نہیں کرتے۔( خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴/۳۵۱، ملخصاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر27
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ-بَنٰںهَاٙ(۲۷)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (27) کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارا بنانا مشکل یا آسمان کا؟ اللہ نے اسے بنایا۔
*#تفسیر:*
{ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ: کیا (تمہاری سمجھ کے مطابق) تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟} اللّٰہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں سے فرمایا کہ کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارے مرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تمہیں دوبارہ بنانا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا؟ اس کے جواب میں تم یہی کہو گے کہ آسمان جیسی بڑی اور مضبوط چیز پیدا کرنے کے مقابلے میں انسان کو پیدا کرنا زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ وہ آسمان سے بہت چھوٹا اور کمزور ہے۔ تو جب تمہاری سمجھ کے مطابق تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اللّٰہ تعالیٰ پر زیادہ آسان ہے تو پھر تم اس کا انکار کیوں کرتے ہو۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ زمین و آسمان کو اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس کا تم انکار بھی نہیں کرتے۔( خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴/۳۵۱، ملخصاً)
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر28تا33
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰںهَا(۲۸) وَ اَغْطَشَ لَیْلَهَا وَ اَخْرَ جَ ضُحٰںهَا(۲۹) وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰںهَا(۳۰) اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَ مَرْعٰںهَا(۳۱) وَ الْجِبَالَ اَرْسٰںهَا(۳۲) مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ(۳۳)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (28) اس کی چھت اونچی کی پھر اسے ٹھیک کیا۔ (29)اس کی رات اندھیری کی اور اس کی روشنی چمکائی۔ (30)اور اس کے بعد زمین پھیلائی۔ (31)اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔ (32)اور پہاڑوں کو جمایا۔ (33)تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کو۔
*#تفسیر:*
{رَفَعَ سَمْكَهَا: اس کی چھت اونچی کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات میں آسمان اور زمین کی تخلیق کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان کو بنایا اور کسی ستون کے بغیر، اس کی چھت اونچی کی۔ پھر اسے ایسا ٹھیک کیا کہ اس میں کہیں کوئی خَلَل نہیں اور اس کی رات کو تاریک کیا۔ اور سورج کے نور کو ظاہر فرما کر اس کی روشنی چمکائی اور اس کے بعد زمین پھیلائی جو پیدا تو آسمان سے پہلے فرمائی گئی تھی مگر پھیلائی نہ گئی تھی۔ اور اس میں سے چشمے جاری فرما کر اس کا پانی اور اس کاچارہ نکالا جسے جاندار کھاتے ہیں۔ اور پہاڑوں کو روئے زمین پرجمایا تاکہ اس کو سکون ہو اور جو کچھ زمین سے نکالا ہے وہ تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدے کیلئے ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۲۸-۳۳، ۴/۳۵۱-۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۱۳۱۹، جلالین، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۴۸۹، ملتقطاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر28تا33
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰںهَا(۲۸) وَ اَغْطَشَ لَیْلَهَا وَ اَخْرَ جَ ضُحٰںهَا(۲۹) وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰںهَا(۳۰) اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَ مَرْعٰںهَا(۳۱) وَ الْجِبَالَ اَرْسٰںهَا(۳۲) مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ(۳۳)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (28) اس کی چھت اونچی کی پھر اسے ٹھیک کیا۔ (29)اس کی رات اندھیری کی اور اس کی روشنی چمکائی۔ (30)اور اس کے بعد زمین پھیلائی۔ (31)اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔ (32)اور پہاڑوں کو جمایا۔ (33)تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کو۔
*#تفسیر:*
{رَفَعَ سَمْكَهَا: اس کی چھت اونچی کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات میں آسمان اور زمین کی تخلیق کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان کو بنایا اور کسی ستون کے بغیر، اس کی چھت اونچی کی۔ پھر اسے ایسا ٹھیک کیا کہ اس میں کہیں کوئی خَلَل نہیں اور اس کی رات کو تاریک کیا۔ اور سورج کے نور کو ظاہر فرما کر اس کی روشنی چمکائی اور اس کے بعد زمین پھیلائی جو پیدا تو آسمان سے پہلے فرمائی گئی تھی مگر پھیلائی نہ گئی تھی۔ اور اس میں سے چشمے جاری فرما کر اس کا پانی اور اس کاچارہ نکالا جسے جاندار کھاتے ہیں۔ اور پہاڑوں کو روئے زمین پرجمایا تاکہ اس کو سکون ہو اور جو کچھ زمین سے نکالا ہے وہ تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدے کیلئے ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۲۸-۳۳، ۴/۳۵۱-۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۱۳۱۹، جلالین، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۴۸۹، ملتقطاً)
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر34تا41
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘(٣٤) یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی(۳۵) وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى(٣٦) فَاَمَّا مَنْ طَغٰى(۳۷) وَ اٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا(۳۸) فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰى(۳۹) وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی(٤٠) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى(٤١)
*#ترجمہ کنز الایمان:*(34)پھر جب آئے گی وہ عام مصیبت سب سے بڑی۔ (35)اس دن آدمی یاد کرے گا جو کوشش کی تھی۔ (36)اور جہنم ہر دیکھنے والے پر ظاہر کی جائے گی۔ (37) تو وہ جس نے سرکشی کی۔ (38)اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ (39)تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ (40)اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ (41)تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
*#تفسیر:*
{فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘: پھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبت آئے گی۔} یہاں سے مخلوق کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی7آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صُور میں پھونک ماری جائے گی اور اس وقت مردے زندہ کر دئیے جائیں گے تو اس دن آدمی کو اپنے اعمال نامے دیکھ کر وہ تمام اچھے برے اعمال یاد آ جائیں گے جو اس نے دنیا میں کئے تھے۔ اور اس دن جہنم ظاہر کر دی جائے گی اورتمام مخلوق اسے دیکھے گی تو وہ شخص جس نے سرکشی کی، نافرمانی میں حد سے گزرا اور کفر اختیار کیا اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی اور اپنی نفسانی خواہشات کا تابع ہوا تو بیشک جہنم ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔ جس سے اسے نکالا نہیں جائے گا اور وہ جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور اس نے جانا کہ اسے قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حساب کے لئے حاضر ہونا ہے اور اس نے اپنے نفس کو حرام چیزوں کی خواہش سے روکا تو بیشک ثواب کا گھرجنت ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔( روح البیان ، النّازعات ، تحت الآیۃ : ۳۴- ۴۱ ، ۱۰/ ۳۲۶-۳۲۸، خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ۴/۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ص۱۳۱۹-۱۳۲۰، ملتقطاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر34تا41
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘(٣٤) یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی(۳۵) وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى(٣٦) فَاَمَّا مَنْ طَغٰى(۳۷) وَ اٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا(۳۸) فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰى(۳۹) وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی(٤٠) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى(٤١)
*#ترجمہ کنز الایمان:*(34)پھر جب آئے گی وہ عام مصیبت سب سے بڑی۔ (35)اس دن آدمی یاد کرے گا جو کوشش کی تھی۔ (36)اور جہنم ہر دیکھنے والے پر ظاہر کی جائے گی۔ (37) تو وہ جس نے سرکشی کی۔ (38)اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ (39)تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ (40)اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ (41)تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
*#تفسیر:*
{فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘: پھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبت آئے گی۔} یہاں سے مخلوق کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی7آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صُور میں پھونک ماری جائے گی اور اس وقت مردے زندہ کر دئیے جائیں گے تو اس دن آدمی کو اپنے اعمال نامے دیکھ کر وہ تمام اچھے برے اعمال یاد آ جائیں گے جو اس نے دنیا میں کئے تھے۔ اور اس دن جہنم ظاہر کر دی جائے گی اورتمام مخلوق اسے دیکھے گی تو وہ شخص جس نے سرکشی کی، نافرمانی میں حد سے گزرا اور کفر اختیار کیا اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی اور اپنی نفسانی خواہشات کا تابع ہوا تو بیشک جہنم ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔ جس سے اسے نکالا نہیں جائے گا اور وہ جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور اس نے جانا کہ اسے قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حساب کے لئے حاضر ہونا ہے اور اس نے اپنے نفس کو حرام چیزوں کی خواہش سے روکا تو بیشک ثواب کا گھرجنت ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔( روح البیان ، النّازعات ، تحت الآیۃ : ۳۴- ۴۱ ، ۱۰/ ۳۲۶-۳۲۸، خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ۴/۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ص۱۳۱۹-۱۳۲۰، ملتقطاً)
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر42تا46
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
یَسْـــٴـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰںهَا(٤٢) فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰںهَا (٤٣) اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰںهَا(٤٤) اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰںهَا(٤٥) كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا عَشِیَّةً اَوْ ضُحٰںهَا(٤٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (42) تم سے قیامت کو پوچھتے ہیں کہ وہ کب کے لیے ٹھہری ہوئی ہے۔ (43) تمہیں اس کے بیان سے کیا تعلق۔ (44) تمہارے رب ہی تک اس کی انتہا ہے۔ (45)تم تو فقط اسے ڈرانے والے ہو جو اس سے ڈرے۔ (46)گویا جس دن وہ اسے دیکھیں گے دنیا میں نہ رہے تھے مگر ایک شام یا اس کے دن چڑھے۔
*#تفسیر:*
{یَسْـــٴـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ: تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین قیامت اور اس کی ہَولْناکْیوں کے بارے میں آنے والی خبریں سنتے تھے۔ تو انہوں نے مذاق کے طور پر اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کہا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کفار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ”کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مکہ کے کافر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب ظاہر ہو گی؟ اور کس وقت قائم ہو گی؟ آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ آپ انہیں بتائیں کہ قیامت کب اور کس وقت واقع ہو گی۔ قیامت ایسی چیز ہے کہ اس کے واقع ہو نے کے علم کی انتہاء آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ تک ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ آپ کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو قیامت کی ہَولْناکْیوں اور سختیوں سے ڈرائیں“۔ جو ڈرانے سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور آپ کا ڈرانا اس بات پر مَوقوف نہیں کہ آپ کو قیامت واقع ہونے کا علم بھی ہو۔ کیونکہ اس کے علم کے بغیر بھی آپ کی ذمہ داری پوری ہو سکتی ہے۔ کافر جس قیامت کا انکار کر رہے ہیں عنقریب اسے دیکھ لیں گے اور گویا کہ جس دن کافر قیامت کو دیکھیں گے تو اس کی ہَولْناکی اور دہشت کی وجہ سے ان کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کی مدت بھول جائیں گے۔ اور یہ خیال کریں گے کہ وہ دنیا میں صرف ایک رات یا ایک دن چڑھے کے وقت برابر ہی رہے تھے۔( تفسیرکبیر،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶،۱۱/۵۰-۵۱، مدارک،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶، ص۱۳۲۰، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم دیا گیا ہے:
علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ اس وقت کی بات ہے جب اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت واقع ہونے کے وقت کا علم نہیں دیا تھا۔ لہٰذا یہ اس بات کے مُنافی نہیں کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دنیا سے اس وقت تک وصال ظاہری نہیں فرمایا جب تک اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا اور آخرت کے تمام غُیوب کا علم عطا نہیں فرمایا۔ (اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کچھ چیزوں کی غیبی معلومات نہ بتانا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ کو غیب کا علم نہیں تھا کیونکہ) آپ کو (علم ہونے کے باوجود) کچھ باتیں چھپانے کا حکم تھا۔( صاوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴۳، ۶/۲۳۱۲)
🍀🍀🍀🍀🍀
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کو عوام اور خواص سبھی مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند بنائے۔ اور اسے مسلمانوں کی اعتقادی، علمی اور عملی اصلاح کا بہترین ذریعہ بنائے۔ اور اس کے صدقے میری، میرے والدین، میرے عزیز رشتہ داروں، اساتذہ ِکرام، دوست اَحباب، دیگر متعلقین اور معاونین کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر42تا46
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
یَسْـــٴـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰںهَا(٤٢) فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰںهَا (٤٣) اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰںهَا(٤٤) اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰںهَا(٤٥) كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا عَشِیَّةً اَوْ ضُحٰںهَا(٤٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (42) تم سے قیامت کو پوچھتے ہیں کہ وہ کب کے لیے ٹھہری ہوئی ہے۔ (43) تمہیں اس کے بیان سے کیا تعلق۔ (44) تمہارے رب ہی تک اس کی انتہا ہے۔ (45)تم تو فقط اسے ڈرانے والے ہو جو اس سے ڈرے۔ (46)گویا جس دن وہ اسے دیکھیں گے دنیا میں نہ رہے تھے مگر ایک شام یا اس کے دن چڑھے۔
*#تفسیر:*
{یَسْـــٴـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ: تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین قیامت اور اس کی ہَولْناکْیوں کے بارے میں آنے والی خبریں سنتے تھے۔ تو انہوں نے مذاق کے طور پر اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کہا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کفار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ”کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مکہ کے کافر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب ظاہر ہو گی؟ اور کس وقت قائم ہو گی؟ آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ آپ انہیں بتائیں کہ قیامت کب اور کس وقت واقع ہو گی۔ قیامت ایسی چیز ہے کہ اس کے واقع ہو نے کے علم کی انتہاء آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ تک ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ آپ کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو قیامت کی ہَولْناکْیوں اور سختیوں سے ڈرائیں“۔ جو ڈرانے سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور آپ کا ڈرانا اس بات پر مَوقوف نہیں کہ آپ کو قیامت واقع ہونے کا علم بھی ہو۔ کیونکہ اس کے علم کے بغیر بھی آپ کی ذمہ داری پوری ہو سکتی ہے۔ کافر جس قیامت کا انکار کر رہے ہیں عنقریب اسے دیکھ لیں گے اور گویا کہ جس دن کافر قیامت کو دیکھیں گے تو اس کی ہَولْناکی اور دہشت کی وجہ سے ان کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کی مدت بھول جائیں گے۔ اور یہ خیال کریں گے کہ وہ دنیا میں صرف ایک رات یا ایک دن چڑھے کے وقت برابر ہی رہے تھے۔( تفسیرکبیر،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶،۱۱/۵۰-۵۱، مدارک،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶، ص۱۳۲۰، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم دیا گیا ہے:
علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ اس وقت کی بات ہے جب اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت واقع ہونے کے وقت کا علم نہیں دیا تھا۔ لہٰذا یہ اس بات کے مُنافی نہیں کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دنیا سے اس وقت تک وصال ظاہری نہیں فرمایا جب تک اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا اور آخرت کے تمام غُیوب کا علم عطا نہیں فرمایا۔ (اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کچھ چیزوں کی غیبی معلومات نہ بتانا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ کو غیب کا علم نہیں تھا کیونکہ) آپ کو (علم ہونے کے باوجود) کچھ باتیں چھپانے کا حکم تھا۔( صاوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴۳، ۶/۲۳۱۲)
🍀🍀🍀🍀🍀
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کو عوام اور خواص سبھی مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند بنائے۔ اور اسے مسلمانوں کی اعتقادی، علمی اور عملی اصلاح کا بہترین ذریعہ بنائے۔ اور اس کے صدقے میری، میرے والدین، میرے عزیز رشتہ داروں، اساتذہ ِکرام، دوست اَحباب، دیگر متعلقین اور معاونین کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
Forwarded from ✺القرآن الکریم Daily Quran✺
ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سورۂ فاتحہ ہر مرض کے لیے شفا ء ہے۔‘‘ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲/۴۵۰، الحدیث: ۲۳۷۰)
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱/۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱/۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں۔ اس کی بہت برکت ہے۔
{الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: جو نہایت مہربان رحم والا۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے۔ مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا۔ دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آیا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔ اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا: تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔ اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱/۱۵۳)
*🌺 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:🌺*
علماء کرام نے ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)… جو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تاکہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے۔ اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے۔ اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا۔ نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے۔ لیکن اگر شاگرد استاد سے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰه‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
*🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے———————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱/۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱/۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں۔ اس کی بہت برکت ہے۔
{الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: جو نہایت مہربان رحم والا۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے۔ مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا۔ دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آیا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔ اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا: تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔ اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱/۱۵۳)
*🌺 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:🌺*
علماء کرام نے ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)… جو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تاکہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے۔ اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے۔ اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا۔ نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے۔ لیکن اگر شاگرد استاد سے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰه‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
*🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے———————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
Telegram
✺القرآن الکریم Daily Quran✺
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ
*💐سورۂ فاتحہ کا تعارف💐*
*🌴 مقامِ نزول:*
اکثر علماء کے نزدیک’’سورۂ فاتحہ ‘‘مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے۔…
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ
*💐سورۂ فاتحہ کا تعارف💐*
*🌴 مقامِ نزول:*
اکثر علماء کے نزدیک’’سورۂ فاتحہ ‘‘مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے۔…
Forwarded from ✺القرآن الکریم Daily Quran✺
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر1
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*(1)سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: سب خوبیاں اللہ کو۔} یعنی ہر طرح کی حمد اور تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کمال کی تمام صفات کا جامع ہے۔
*🌴حمد اور شکر کی تعریف:*
حمد کا معنی ہے کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر اُس کی تعریف کرنا۔ اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان، دل یا اعضاء سے اُس کی تعظیم کرنا۔ اورہم چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد عام طور پر اُس کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں اس لئے ہماری یہ حمد’’ شکر‘‘ بھی ہوتی ہے۔
*🌹اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے فضائل:*
احادیث میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے 3فضائل درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور کچھ پئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب استحباب حمد اللہ۔۔۔الخ، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۸۹(۲۷۳۴))
(2)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل ذکر ’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ ہے اور سب سے افضل دُعا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۴۸، الحدیث: ۳۸۰۰)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
*💚حمد سے متعلق شرعی حکم:*
خطبے میں حمد ’’واجب‘‘، کھانے کے بعد ’’مستحب‘‘، چھینک آنے کے بعد ’’سنت‘‘، حرام کام کے بعد ’’حرام‘‘ اور بعض صورتوں میں ’’کفر‘‘ہے۔
{لِلّٰهِ: اللہ کے لئے۔} ’’اللہ‘‘ اس ذات ِ اعلیٰ کاعظمت والا نام ہے جو تمام کمال والی صفتوں کی جامع ہے اوربعض مفسرین نے اس لفظ کے معنٰی بھی بیان کیے ہیں جیسے اس کا ایک معنی ہے: *’’عبادت کا مستحق‘‘* دوسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی معرفت میں عقلیں حیران ہیں ‘‘ تیسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی بارگاہ میں سکون حاصل ہوتاہے:‘‘ اور چوتھا معنی ہے: ’’وہ ذات کہ مصیبت کے وقت جس کی پناہ تلاش کی جائے۔‘‘(بیضاوی، الفاتحۃ، ۱/۳۲)
{رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: جو سارے جہان والوں کا مالک ہے۔} لفظ’’رب‘‘ کے کئی معنی ہیں: جیسے سید، مالک، معبود، ثابت، مصلح اور بتدریج مرتبہ کمال تک پہنچانے والا۔ اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر موجود چیز کو عالَم کہتے ہیں اور اس میں تمام مخلوقات داخل ہیں۔(صاوی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۶، خازن، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۷، ملتقطاً)
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
——————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر1
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*(1)سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: سب خوبیاں اللہ کو۔} یعنی ہر طرح کی حمد اور تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کمال کی تمام صفات کا جامع ہے۔
*🌴حمد اور شکر کی تعریف:*
حمد کا معنی ہے کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر اُس کی تعریف کرنا۔ اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان، دل یا اعضاء سے اُس کی تعظیم کرنا۔ اورہم چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد عام طور پر اُس کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں اس لئے ہماری یہ حمد’’ شکر‘‘ بھی ہوتی ہے۔
*🌹اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے فضائل:*
احادیث میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے 3فضائل درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور کچھ پئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب استحباب حمد اللہ۔۔۔الخ، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۸۹(۲۷۳۴))
(2)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل ذکر ’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ ہے اور سب سے افضل دُعا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۴۸، الحدیث: ۳۸۰۰)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
*💚حمد سے متعلق شرعی حکم:*
خطبے میں حمد ’’واجب‘‘، کھانے کے بعد ’’مستحب‘‘، چھینک آنے کے بعد ’’سنت‘‘، حرام کام کے بعد ’’حرام‘‘ اور بعض صورتوں میں ’’کفر‘‘ہے۔
{لِلّٰهِ: اللہ کے لئے۔} ’’اللہ‘‘ اس ذات ِ اعلیٰ کاعظمت والا نام ہے جو تمام کمال والی صفتوں کی جامع ہے اوربعض مفسرین نے اس لفظ کے معنٰی بھی بیان کیے ہیں جیسے اس کا ایک معنی ہے: *’’عبادت کا مستحق‘‘* دوسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی معرفت میں عقلیں حیران ہیں ‘‘ تیسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی بارگاہ میں سکون حاصل ہوتاہے:‘‘ اور چوتھا معنی ہے: ’’وہ ذات کہ مصیبت کے وقت جس کی پناہ تلاش کی جائے۔‘‘(بیضاوی، الفاتحۃ، ۱/۳۲)
{رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: جو سارے جہان والوں کا مالک ہے۔} لفظ’’رب‘‘ کے کئی معنی ہیں: جیسے سید، مالک، معبود، ثابت، مصلح اور بتدریج مرتبہ کمال تک پہنچانے والا۔ اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر موجود چیز کو عالَم کہتے ہیں اور اس میں تمام مخلوقات داخل ہیں۔(صاوی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۶، خازن، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۷، ملتقطاً)
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
——————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
Forwarded from ✺القرآن الکریم Daily Quran✺
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر2
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(۲)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (2)بہت مہربان رحمت والا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{اَلرَّحْمٰنْ:بہت مہربان۔} رحمٰن اور رحیم اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں۔ رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے: بہت رحمت فرمانے والا۔
یاد رہے کہ حقیقی طور پر نعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی۔ ہر چھوٹی، بڑی، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہے۔ کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اُٹھانا اور فائدہ اٹھانے کے لئے اَعضاء کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔
🔷 *اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہونا چاہئے:*
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کے بعد اپنے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم بیان فرمائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہے، تو اس سے (سننے اور پڑھنے والے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اس کا) خوف پیدا ہوا،تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم ذکر کر دئیے گئے جن کے ضمن میں (اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی) ترغیب ہے۔ یوں ترہیب اور ترغیب دونوں کا بیان ہو گیا تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی طرف اچھی طرح راغب ہو اور اس کی نافرمانی کرنے سے رکنے کی خوب کوشش کرے۔ (قرطبی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱/۱۲۹، الجزء الاوّل)
قرآن مجید میں اور مقامات پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب دونوں کو واضح طور پر ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(٤٩) وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰)‘‘(حجر: ٤۹،۵۰)
ترجمہ: میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ-ذِی الطَّوْلِ- لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(۳)‘‘(مومن: ۳)
ترجمہ: گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا، بڑے انعام(عطا فرمانے) والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف پھرنا ہے۔
نیزحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ۔۔۔الخ،ص۱۴۷۳،الحدیث:۲۳(۲۷۵۵))
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بےباک نہ ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہو۔
*🌴کسی کورحمٰن اور رحیم کہنے کے بارے میں شرعی حکم:*
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا جائز نہیں، جبکہ رحیم کہا جا سکتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی رحیم فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)‘‘(توبہ: ۱۲۸)
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر2
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(۲)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (2)بہت مہربان رحمت والا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{اَلرَّحْمٰنْ:بہت مہربان۔} رحمٰن اور رحیم اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں۔ رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے: بہت رحمت فرمانے والا۔
یاد رہے کہ حقیقی طور پر نعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی۔ ہر چھوٹی، بڑی، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہے۔ کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اُٹھانا اور فائدہ اٹھانے کے لئے اَعضاء کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔
🔷 *اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہونا چاہئے:*
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کے بعد اپنے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم بیان فرمائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہے، تو اس سے (سننے اور پڑھنے والے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اس کا) خوف پیدا ہوا،تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم ذکر کر دئیے گئے جن کے ضمن میں (اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی) ترغیب ہے۔ یوں ترہیب اور ترغیب دونوں کا بیان ہو گیا تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی طرف اچھی طرح راغب ہو اور اس کی نافرمانی کرنے سے رکنے کی خوب کوشش کرے۔ (قرطبی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱/۱۲۹، الجزء الاوّل)
قرآن مجید میں اور مقامات پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب دونوں کو واضح طور پر ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(٤٩) وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰)‘‘(حجر: ٤۹،۵۰)
ترجمہ: میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ-ذِی الطَّوْلِ- لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(۳)‘‘(مومن: ۳)
ترجمہ: گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا، بڑے انعام(عطا فرمانے) والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف پھرنا ہے۔
نیزحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ۔۔۔الخ،ص۱۴۷۳،الحدیث:۲۳(۲۷۵۵))
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بےباک نہ ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہو۔
*🌴کسی کورحمٰن اور رحیم کہنے کے بارے میں شرعی حکم:*
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا جائز نہیں، جبکہ رحیم کہا جا سکتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی رحیم فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)‘‘(توبہ: ۱۲۸)
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
Forwarded from ✺القرآن الکریم Daily Quran✺
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر3
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ(۳)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (3)روزِ جزاء کا مالک۔
*🍀تفسیر🍀*
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ: روزِ جزاء کا مالک۔} جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ کہ اس دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی۔ جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ دنیا و آخرت دونوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔ نیز دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا کیونکہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی۔ اس لئے یہاں خاص طور پر قیامت کے دن کی ملکیت کا ذکر کیا گیا۔
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر3
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ(۳)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (3)روزِ جزاء کا مالک۔
*🍀تفسیر🍀*
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ: روزِ جزاء کا مالک۔} جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ کہ اس دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی۔ جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ دنیا و آخرت دونوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔ نیز دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا کیونکہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی۔ اس لئے یہاں خاص طور پر قیامت کے دن کی ملکیت کا ذکر کیا گیا۔
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran