جب کسی شخص کو بہت زیادہ تنگ کیا جائے تو وہ ایسے شخص کی تلاش میں ہوتا ہے جس کو وہ اپنے اوپر ہونے والی ظلم و ستم کی کہانیاں سنا کے اپنا دکھ ہلکا کرسکتے....!!!
@HamariUrduPiyariUrdu
@HamariUrduPiyariUrdu
اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا ایک بہترین خصوصیت ہے اس سے نفس میں عاجزی پروان چڑھتی ہے تکبر کمزور ہوتا ہے.....!!!
@HamariUrduPiyariUrdu
@HamariUrduPiyariUrdu
دوسروں سے بدگمان ھونے میں جلدی مت کیا کریں کچھ چیزیں ویسی نہیں ہوتی جیسی دیکھائی دیتی ہیں ہر کہانی کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے جو آپ کو معلوم نہیں ہوتی.....!!!
@HamariUrduPiyariUrdu
@HamariUrduPiyariUrdu
کسی کی بدتمیزی سے مت گھبرائیں وہ بس اپنا تعارف کرواتے ہیں سمجھداری اسی میں ہے کہ آپ انہیں پہچان کے آگے چل دیں.....!!!
@HamariUrduPiyariUrdu
@HamariUrduPiyariUrdu
" ماہ محرم الحرام کی فضیلتیں "
.
ویسے تو اسلام میں قتل و غارت گری، خونریزی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی مہینے، ہفتےیادن میں اجازت نہیں تاہم چارمہینوں میں فتنہ وفساد سے خصوصی طور پر بچنے کاحکم ہےاور اس کی وجہ ان مہینوں کا حرمت والا ہونا ہے چنانچہ :
.
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ : ’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار مہینے ادب و احترام کے لائق ہیں، یہی درست دین ہے لہٰذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو *(التوبہ:۳۶)*
.
پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرما رکھے ہیں۔ جن میں چار کو خصوصی احترام اورعزت و تکریم سے نوازا گیا۔ یہ چار مہینے کون سے ہیں، ان کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ
.
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :ـ ’’ سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں، تین تو لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا مضر قبیلے کا ماہِ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے‘‘ ۔
*(بخاری: کتاب التفسیر، سورة التوبہ ؛4662)*
.
معلوم چلا کہ ماہِ محرم بھی ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے بلکہ اس کے تو نام کا مطلب ہی حرمت و عظمت والاہے ۔ اس ماہ کو اسلام میں بڑی عظمت و فضیلت حاصل ہیں ۔ ان فضیلتوں میں سے ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس میں عاشوراء کا دن بھی ہے جس کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایاکہ : ''مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشوراء کاروزہ ایک سال قبل کے گُناہ مِٹادیتاہے۔ ''
*(صحیح مسلم، کتاب الصیام ،باب استحباب صیام الخ ، حدیث1162)*
محرم کے مہینوں میں روزے رکھنے کی بھی بڑی فضیلت ہے چنانچہ ایک حدیث میں محرم کی فضیلت کچھ یوں آئی ہے کہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : حضور ﷺ نے فرمایا: ''ماہِ رمضان کے بعد افضل روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔''
*(صحیح مسلم،کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم،الحدیث1163 )*
.
ماہِ محرم کو یوں بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس سے ہماراا سلامی سال شروع ہوتا ہے ۔ اسلامی سال کی بنیاد تونبی کریم ﷺ کےواقعہٴ ہجرت پر ہےلیکن اس اسلامی سن کاتقرّر اورآغازِاستعمال۱۷ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےدورسےہوا ۔ بیان کیاجاتاہےکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کےگورنر تھے،ان کےپاس حضرت عمر فاروق کےپیغامات آتےتھےجن پرتاریخ درج نہ ہوتی تھی ۔
.
۱۷ھ میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےتوجہ دلانےپر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےصحابہ کواپنےہاں جمع فرمایااوران کےسامنےیہ مسئلہ رکھا ۔تبادلہٴ خیال کےبعد طےپایاکہ اپنےسِن تاریخ کی بنیاد واقعہ ٴہجرت کوبنایاجائےاوراس کی ابتداء ماہ ِمحرم سے کی جائے کیونکہ ذو الحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کامنصوبہ طےکرلیاگیا تھااوراس کےبعد جو چاند طلوع ہواوہ محرم کاتھا۔
*(فتح الباری ، شرح باب التاریخ ومن أین أرّخوا التاریخ ؛ ج 7 ، ص 268 ملخصاً )*
.
لہٰذا ہجری سال کا آغاز ہمیں ہجرت نبوی ﷺ کی یاددلا کر بتاتاہےکہ اسلام ایک بہت بڑی نعمت ہےاور یہ قربانی،فیاضی ،عزت انسانی کے تحفظ ، بنی نوع انسان کی آزادی ، اور انکے حقوق کی حفاظت کا دین ہے ۔یہ دین غموں اور پریشانیوں میں رونے پیٹنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ صبر واستقامت کے ساتھ جرأت وبسالت کی داستانیں رقم کرنے کا کہتا ہے ، اخوت وبھائی چارے کی تاریخ قائم کرتا ہے ، ایثار وقربانی کے انمٹ نقوش پیدا کرتا ہے ۔
.
ہمیں اس ماہ کی فضیلتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں اور اس ماہ میں ہونے والی خرافات سےخود کو ، گھر والوں کو اور دوستوں کو بھی بچانا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ
.
ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور ہر قسم کی نافرمانی سےمحفوظ فرمائے، ہمیں اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نواز دے ۔ آمین
✍
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=930844113918754&id=463816663954837
.
ویسے تو اسلام میں قتل و غارت گری، خونریزی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی مہینے، ہفتےیادن میں اجازت نہیں تاہم چارمہینوں میں فتنہ وفساد سے خصوصی طور پر بچنے کاحکم ہےاور اس کی وجہ ان مہینوں کا حرمت والا ہونا ہے چنانچہ :
.
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ : ’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار مہینے ادب و احترام کے لائق ہیں، یہی درست دین ہے لہٰذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو *(التوبہ:۳۶)*
.
پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرما رکھے ہیں۔ جن میں چار کو خصوصی احترام اورعزت و تکریم سے نوازا گیا۔ یہ چار مہینے کون سے ہیں، ان کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ
.
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :ـ ’’ سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں، تین تو لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا مضر قبیلے کا ماہِ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے‘‘ ۔
*(بخاری: کتاب التفسیر، سورة التوبہ ؛4662)*
.
معلوم چلا کہ ماہِ محرم بھی ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے بلکہ اس کے تو نام کا مطلب ہی حرمت و عظمت والاہے ۔ اس ماہ کو اسلام میں بڑی عظمت و فضیلت حاصل ہیں ۔ ان فضیلتوں میں سے ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس میں عاشوراء کا دن بھی ہے جس کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایاکہ : ''مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشوراء کاروزہ ایک سال قبل کے گُناہ مِٹادیتاہے۔ ''
*(صحیح مسلم، کتاب الصیام ،باب استحباب صیام الخ ، حدیث1162)*
محرم کے مہینوں میں روزے رکھنے کی بھی بڑی فضیلت ہے چنانچہ ایک حدیث میں محرم کی فضیلت کچھ یوں آئی ہے کہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : حضور ﷺ نے فرمایا: ''ماہِ رمضان کے بعد افضل روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔''
*(صحیح مسلم،کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم،الحدیث1163 )*
.
ماہِ محرم کو یوں بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس سے ہماراا سلامی سال شروع ہوتا ہے ۔ اسلامی سال کی بنیاد تونبی کریم ﷺ کےواقعہٴ ہجرت پر ہےلیکن اس اسلامی سن کاتقرّر اورآغازِاستعمال۱۷ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےدورسےہوا ۔ بیان کیاجاتاہےکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کےگورنر تھے،ان کےپاس حضرت عمر فاروق کےپیغامات آتےتھےجن پرتاریخ درج نہ ہوتی تھی ۔
.
۱۷ھ میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےتوجہ دلانےپر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےصحابہ کواپنےہاں جمع فرمایااوران کےسامنےیہ مسئلہ رکھا ۔تبادلہٴ خیال کےبعد طےپایاکہ اپنےسِن تاریخ کی بنیاد واقعہ ٴہجرت کوبنایاجائےاوراس کی ابتداء ماہ ِمحرم سے کی جائے کیونکہ ذو الحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کامنصوبہ طےکرلیاگیا تھااوراس کےبعد جو چاند طلوع ہواوہ محرم کاتھا۔
*(فتح الباری ، شرح باب التاریخ ومن أین أرّخوا التاریخ ؛ ج 7 ، ص 268 ملخصاً )*
.
لہٰذا ہجری سال کا آغاز ہمیں ہجرت نبوی ﷺ کی یاددلا کر بتاتاہےکہ اسلام ایک بہت بڑی نعمت ہےاور یہ قربانی،فیاضی ،عزت انسانی کے تحفظ ، بنی نوع انسان کی آزادی ، اور انکے حقوق کی حفاظت کا دین ہے ۔یہ دین غموں اور پریشانیوں میں رونے پیٹنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ صبر واستقامت کے ساتھ جرأت وبسالت کی داستانیں رقم کرنے کا کہتا ہے ، اخوت وبھائی چارے کی تاریخ قائم کرتا ہے ، ایثار وقربانی کے انمٹ نقوش پیدا کرتا ہے ۔
.
ہمیں اس ماہ کی فضیلتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں اور اس ماہ میں ہونے والی خرافات سےخود کو ، گھر والوں کو اور دوستوں کو بھی بچانا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ
.
ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور ہر قسم کی نافرمانی سےمحفوظ فرمائے، ہمیں اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نواز دے ۔ آمین
✍
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=930844113918754&id=463816663954837
🌴101 لفظوں کی نصیحت 🌴
دوسروں کی تحریروں سے اُن کا نام مِٹا کر اپنا نام چِسپاں نہ کیا کریں ، یہ بہت غلط کام ہے ۔
اِس سے نہ صرف آپ کی ثقاہت مجروح ہوتی ہے ، بلکہ لوگ سمجھتے ہیں یہ چور ہے ، جودوسروں کی محنت پر ناحق قبضہ جمانا چاہتا ہے ۔
آپ کا مقصد جب اچھی بات کو آگے پہنچانا ہے ، تو وہ لکھنے والے کے نام سے بھی پہنچ سکتی ہے ۔
جس نے اپنا وقت صَرف کر کے ، محنت سے لکھا ہو ، تحریر کا اُسی کے نام سے شائع ہونا اُس کا حق ہے ؛ اور کسی کا حق مارنے والے اچھے لوگ نہیں ہوتے ۔
✍لقمان شاہد
28/8/2019 ء
دوسروں کی تحریروں سے اُن کا نام مِٹا کر اپنا نام چِسپاں نہ کیا کریں ، یہ بہت غلط کام ہے ۔
اِس سے نہ صرف آپ کی ثقاہت مجروح ہوتی ہے ، بلکہ لوگ سمجھتے ہیں یہ چور ہے ، جودوسروں کی محنت پر ناحق قبضہ جمانا چاہتا ہے ۔
آپ کا مقصد جب اچھی بات کو آگے پہنچانا ہے ، تو وہ لکھنے والے کے نام سے بھی پہنچ سکتی ہے ۔
جس نے اپنا وقت صَرف کر کے ، محنت سے لکھا ہو ، تحریر کا اُسی کے نام سے شائع ہونا اُس کا حق ہے ؛ اور کسی کا حق مارنے والے اچھے لوگ نہیں ہوتے ۔
✍لقمان شاہد
28/8/2019 ء
یہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں ...
یہ مفتئ دعوت اسلامی علامہ حافظ مفتی محمد حسان صاحب دام ظلہ ہیں ..
جو تقریبا پچھلے گیارہ سال سے "#بخاری_شریف" پڑھا رہے ہیں....
ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ...
یہ حدیث مبارکہ اور #اسماءالرجال پر متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں ...
تقریبا ڈھائی سال سے #شفاءشریف کا درس دے رہے ہیں ...
یہاں تک کہ ایک دینی طالب علم نے خواب میں دیکھا کہ #سرکار_دوعالمﷺ فرما رہے ہیں... " #اے_حسان میں تجھ سے خوش ہوں" ..
اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے ... لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کس سر زمین پر نیچے لیٹے ہوئے ہیں؟؟ ...
جی ہاں یہ #مدینہ_منورہ(زادھااللہ شرفاوتعظیما) میں مبارک سیڑھیوں پر نیچے سوئے ہوئے ہیں ...
یہ ہے #مسلک_حق_اہل_السنہ_وجماعہ میں ادب و عشقِ مدینہ جو کہ ہم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے سیکھا ہے .. #الحمدللہ_الذی_ھدٰنا_لھٰذا ....
یہ مفتئ دعوت اسلامی علامہ حافظ مفتی محمد حسان صاحب دام ظلہ ہیں ..
جو تقریبا پچھلے گیارہ سال سے "#بخاری_شریف" پڑھا رہے ہیں....
ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ...
یہ حدیث مبارکہ اور #اسماءالرجال پر متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں ...
تقریبا ڈھائی سال سے #شفاءشریف کا درس دے رہے ہیں ...
یہاں تک کہ ایک دینی طالب علم نے خواب میں دیکھا کہ #سرکار_دوعالمﷺ فرما رہے ہیں... " #اے_حسان میں تجھ سے خوش ہوں" ..
اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے ... لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کس سر زمین پر نیچے لیٹے ہوئے ہیں؟؟ ...
جی ہاں یہ #مدینہ_منورہ(زادھااللہ شرفاوتعظیما) میں مبارک سیڑھیوں پر نیچے سوئے ہوئے ہیں ...
یہ ہے #مسلک_حق_اہل_السنہ_وجماعہ میں ادب و عشقِ مدینہ جو کہ ہم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے سیکھا ہے .. #الحمدللہ_الذی_ھدٰنا_لھٰذا ....
🌹 *فیضانِ قرآن* 🌹
مسلمانوں اور منافقوں کے اَوصاف:
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)
ترجمہ
اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
تفسیر
*{وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔}* اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے خبیث اَعمال اور فاسد اَحوال بیان فرمائے، پھراس عذاب کا بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دنیاو آخرت میں تیار کیا اور اِس آیت سے مومنوں کے اوصاف، ان کے اچھے اعمال اور ان کے اس اجر و ثواب کو بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ان کے لئے تیار فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ، آپس میں دینی محبت والفت رکھتے اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شرک و معصیت سے منع کرتے ہیں۔ فرض نمازیں ان کے حدود و اَرکان پورے کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اپنے اوپر واجب ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔ان صفات سے مُتَّصِف مومن مرد اور عورتیں وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ رحم فرماے گا اور انہیں دردناک عذاب سے نجات دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۲۵۹-۲۶۰)
*مسلمانوں اور منافقوں کے اَوصاف:*
اس آیت سے تین آیات پہلے منافق مردوں اور منافقہ عورتوں کے4 اَوصاف بیان ہوئے
(1)… یہ سب نفاق اور اعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں۔
(2)…یہ کفر و معصیت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں ، یونہی برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں۔
(4)…راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں۔
اورمذکورہ بالا آیت میں مومنوں کے5 اَوصاف بیان کئے گئے
(1)…وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
(2)…بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…نماز قائم کرتے ہیں۔
(4)… زکوٰۃ دیتے ہیں۔
(5)…اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔
منافقوں اور مخلص ایمان والوں کے اوصاف کوسامنے رکھتے ہوئے عمومی طور پر تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ غور کریں کہ ان کے اعمال کن لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں ؟ اگر ان کے اعمال مخلص ایمان والوں کے ساتھ ملتے ہیں تووہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کریں اور اگراعمال منافقوں کے ساتھ ملتے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اپنی عملی حالت درست کرنے کی بھر پور کوشش کریں اور مخلص ایمان والوں جیسے اوصاف اپنائیں تاکہ وہ منافقوں کے بارے میں بیان کی گئی وعید میں داخل ہونے سے بچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
*مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق:*
اس آیت میں بیان ہوا کہ مسلمان ایک دوسرے کے رفیق اور معین ومددگار ہیں اور حدیثِ پاک میں بیان ہوا کہ مسلمان اتفاق اور اتحاد میں ایک عمارت کی طرح ہیں ، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فر مایا ’’سارے مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو طاقت پہنچاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب نصر المظلوم، ۲ / ۱۲۷، الحدیث: ۲۴۴۶)
اور حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں کی آپس میں دوستی، رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضْو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو جاتاہے۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۶(۲۵۸۶))
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد کی اہمیت کو سمجھنے اورآپس میں متفق و متحد ہونے کی ت
مسلمانوں اور منافقوں کے اَوصاف:
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)
ترجمہ
اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
تفسیر
*{وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔}* اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے خبیث اَعمال اور فاسد اَحوال بیان فرمائے، پھراس عذاب کا بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دنیاو آخرت میں تیار کیا اور اِس آیت سے مومنوں کے اوصاف، ان کے اچھے اعمال اور ان کے اس اجر و ثواب کو بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ان کے لئے تیار فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ، آپس میں دینی محبت والفت رکھتے اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شرک و معصیت سے منع کرتے ہیں۔ فرض نمازیں ان کے حدود و اَرکان پورے کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اپنے اوپر واجب ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔ان صفات سے مُتَّصِف مومن مرد اور عورتیں وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ رحم فرماے گا اور انہیں دردناک عذاب سے نجات دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۲۵۹-۲۶۰)
*مسلمانوں اور منافقوں کے اَوصاف:*
اس آیت سے تین آیات پہلے منافق مردوں اور منافقہ عورتوں کے4 اَوصاف بیان ہوئے
(1)… یہ سب نفاق اور اعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں۔
(2)…یہ کفر و معصیت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں ، یونہی برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں۔
(4)…راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں۔
اورمذکورہ بالا آیت میں مومنوں کے5 اَوصاف بیان کئے گئے
(1)…وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
(2)…بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…نماز قائم کرتے ہیں۔
(4)… زکوٰۃ دیتے ہیں۔
(5)…اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔
منافقوں اور مخلص ایمان والوں کے اوصاف کوسامنے رکھتے ہوئے عمومی طور پر تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ غور کریں کہ ان کے اعمال کن لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں ؟ اگر ان کے اعمال مخلص ایمان والوں کے ساتھ ملتے ہیں تووہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کریں اور اگراعمال منافقوں کے ساتھ ملتے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اپنی عملی حالت درست کرنے کی بھر پور کوشش کریں اور مخلص ایمان والوں جیسے اوصاف اپنائیں تاکہ وہ منافقوں کے بارے میں بیان کی گئی وعید میں داخل ہونے سے بچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
*مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق:*
اس آیت میں بیان ہوا کہ مسلمان ایک دوسرے کے رفیق اور معین ومددگار ہیں اور حدیثِ پاک میں بیان ہوا کہ مسلمان اتفاق اور اتحاد میں ایک عمارت کی طرح ہیں ، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فر مایا ’’سارے مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو طاقت پہنچاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب نصر المظلوم، ۲ / ۱۲۷، الحدیث: ۲۴۴۶)
اور حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں کی آپس میں دوستی، رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضْو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو جاتاہے۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۶(۲۵۸۶))
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد کی اہمیت کو سمجھنے اورآپس میں متفق و متحد ہونے کی ت
وفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی ضرورت:
اس آیت میں ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ فی زمانہ اس کام کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت بے عملی کا شکار ہے، نیکیاں کرنا، نفس کے لئے بے حد دشوار جبکہ گناہ کا اِرتکاب کرنا بہت آسان ہو چکا ہے، مسجدوں کی ویرانی، سینما گھروں اور ڈرامہ گاہوں کی رونق، دین کا درد رکھنے والوں کو رُلا دیتی ہے، ڈش انٹینا اور کیبل کے ذریعے ٹی وی اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں نے گویا اپنی آنکھوں سے حیا دھو ڈالی ہے، ضروریات کی تکمیل اور سہولیات کے حصول کی حد سے زیادہ جدو جہد نے مسلمانوں کی بھاری تعداد کو آخرت کی فکر سے غافل کر دیا ہے ،گالی دینا، تہمت لگانا، بد گمانی کرنا، غیبت کرنا، چغلی کھانا، لوگوں کے عیب جاننے کی جستجو میں رہنا، لوگوں کے عیب اچھالنا، جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، کسی کا مال ناحق کھانا، خون بہانا، کسی کو شرعی اجازت کے بغیر تکلیف دینا، کسی کا قرض دبا لینا، کسی کی چیز وقتی طور پر لے کر واپس نہ کرنا، مسلمانوں کو برے القاب سے پکارنا، کسی کی چیز اسے ناگوار گزرنے کے باوجود اجازت کے بغیر استعمال کرنا، شراب پینا، جوا کھیلنا، چوری کرنا، زنا کرنا، فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سننا، سود اور رشوت کا لین دین کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور انہیں ستانا، امانت میں خیانت کرنا، بد نگاہی کرنا، عورتوں کا مردوں اور مردوں کا عورتوں کی نقالی کرنا، بے پردگی، غرور، تکبر ، حسد،ریا کاری، اپنے دل میں کسی مسلمان کا بغض و کینہ رکھنا، غصہ آجانے پر شریعت کی حد توڑ ڈالنا، گناہوں کی حرص ،حُب ِجاہ، بخل اور خود پسندی وغیرہ معاملات ہمارے معاشرے میں بڑی بے باکی کے ساتھ کئے جاتے ہیں حتّٰی کہ بظاہر نیک نظر آنے والے کسی شخص کے قریب جائیں تو وہ بھی بسا اوقات عقیدے کی خرابی، زبان کی بے احتیاطی، بد نگاہی اور بد اَخلاقی وغیرہ کی آفتوں میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا، جذبہ ،ہمت اور توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
*طالبِ دعاابوعمر*
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی ضرورت:
اس آیت میں ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ فی زمانہ اس کام کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت بے عملی کا شکار ہے، نیکیاں کرنا، نفس کے لئے بے حد دشوار جبکہ گناہ کا اِرتکاب کرنا بہت آسان ہو چکا ہے، مسجدوں کی ویرانی، سینما گھروں اور ڈرامہ گاہوں کی رونق، دین کا درد رکھنے والوں کو رُلا دیتی ہے، ڈش انٹینا اور کیبل کے ذریعے ٹی وی اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں نے گویا اپنی آنکھوں سے حیا دھو ڈالی ہے، ضروریات کی تکمیل اور سہولیات کے حصول کی حد سے زیادہ جدو جہد نے مسلمانوں کی بھاری تعداد کو آخرت کی فکر سے غافل کر دیا ہے ،گالی دینا، تہمت لگانا، بد گمانی کرنا، غیبت کرنا، چغلی کھانا، لوگوں کے عیب جاننے کی جستجو میں رہنا، لوگوں کے عیب اچھالنا، جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، کسی کا مال ناحق کھانا، خون بہانا، کسی کو شرعی اجازت کے بغیر تکلیف دینا، کسی کا قرض دبا لینا، کسی کی چیز وقتی طور پر لے کر واپس نہ کرنا، مسلمانوں کو برے القاب سے پکارنا، کسی کی چیز اسے ناگوار گزرنے کے باوجود اجازت کے بغیر استعمال کرنا، شراب پینا، جوا کھیلنا، چوری کرنا، زنا کرنا، فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سننا، سود اور رشوت کا لین دین کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور انہیں ستانا، امانت میں خیانت کرنا، بد نگاہی کرنا، عورتوں کا مردوں اور مردوں کا عورتوں کی نقالی کرنا، بے پردگی، غرور، تکبر ، حسد،ریا کاری، اپنے دل میں کسی مسلمان کا بغض و کینہ رکھنا، غصہ آجانے پر شریعت کی حد توڑ ڈالنا، گناہوں کی حرص ،حُب ِجاہ، بخل اور خود پسندی وغیرہ معاملات ہمارے معاشرے میں بڑی بے باکی کے ساتھ کئے جاتے ہیں حتّٰی کہ بظاہر نیک نظر آنے والے کسی شخص کے قریب جائیں تو وہ بھی بسا اوقات عقیدے کی خرابی، زبان کی بے احتیاطی، بد نگاہی اور بد اَخلاقی وغیرہ کی آفتوں میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا، جذبہ ،ہمت اور توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
*طالبِ دعاابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت:
آٹھ جنتوں کے اسماء:
جنتِ عدن اور اس کی نعمتیں:
وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕ-وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۷۲)
ترجمہ
اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عدن کے باغات میں پاکیزہ رہائشوں کا (وعدہ فرمایا ہے) اوراللہ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
تفسیر
*{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ:اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔}*" اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں وعیدیں اور ان کے لئے تیار کردہ جہنم کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جس ثواب اور جزاء کا وعدہ فرمایا، اسے ذکر فرمایا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۰)
*{فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ: عدن کے باغات میں۔}* ایک قول یہ ہے کہ ’’عَدن‘‘ جنت میں ایک خاص جگہ کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عدن جنت کی صفت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۱۰۲)
*آٹھ جنتوں کے اَسماء*
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ ہے کہ جنتیں آٹھ ہیں اورا ن کے نام یہ ہیں (1) دارُ الجلال۔ (2) دارُ القرار ۔ (3) دارُ السّلام۔ (4) جنتِ عدن۔ (5) جنتِ مأویٰ۔ (6) جنتِ خُلد۔ (7) جنت فردوس۔ (8) جنتِ نعیم۔(روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۵۰۸)
*جنتِ عدن اور اس کی نعمتیں :*
جنت عدن کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے جنتِ عدن کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا، اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک سرخ یاقوت کی اور ایک سبز زبرجد کی ہے، مشک کا گارا ہے، اس کی گھاس زعفران کی ہے، موتی کی کنکریاں اور عنبر کی مٹی ہے۔ (ابن ابی دنیا،صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۱۹، الحدیث: ۲۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب اللہ تعالیٰ نے جنتِ عد ن کو پیدا فرمایا تو اس میں وہ چیزیں پیدا فرمائیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت عدن سے فرمایا ’’ مجھ سے کلام کر۔ اس نے کہا ’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۵، الحدیث: ۷۳۸)
*{ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ:اور اللہ کی رضا سب سے بڑی ہے۔}* یعنی جنت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ جنتیوں سے راضی ہو گا ۔کبھی نا راض نہ ہوگا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۱)
یہ نعمت تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور عاشقانِ الٰہی کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی عمل کا بد لہ نہ ہو گا بلکہ یہ خاص رب عَزَّوَجَلَّ کا عطیہ ہو گا۔ ’’ رَزَقَنَا اللہُ تَعَالٰی بِجَاہِ حَبِیْبِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘
*دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت:*
کسی بندے سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی ایک علا مت یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندےراضی ہوں اور اسے نیک اعمال کی توفیق ملے ۔ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی سے راضی ہوتا ہے تو فر شتوں میں اعلان ہوتا ہے کہ ہم اس سے راضی ہیں تم بھی اس سے راضی ہو جاؤ پھر تما م زمین والوں کے دلوں میں اس کی محبت پڑ جا تی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمانی مخلوق میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں (کے دلوں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)
اس سے معلوم ہوا کہ بزر گا نِ دین کی طرف دلو ں کا مائل ہونا ان کے محبوبِ الٰہی ہونے کی علامت ہے ۔
*طال
دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت:
آٹھ جنتوں کے اسماء:
جنتِ عدن اور اس کی نعمتیں:
وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕ-وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۷۲)
ترجمہ
اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عدن کے باغات میں پاکیزہ رہائشوں کا (وعدہ فرمایا ہے) اوراللہ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
تفسیر
*{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ:اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔}*" اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں وعیدیں اور ان کے لئے تیار کردہ جہنم کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جس ثواب اور جزاء کا وعدہ فرمایا، اسے ذکر فرمایا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۰)
*{فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ: عدن کے باغات میں۔}* ایک قول یہ ہے کہ ’’عَدن‘‘ جنت میں ایک خاص جگہ کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عدن جنت کی صفت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۱۰۲)
*آٹھ جنتوں کے اَسماء*
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ ہے کہ جنتیں آٹھ ہیں اورا ن کے نام یہ ہیں (1) دارُ الجلال۔ (2) دارُ القرار ۔ (3) دارُ السّلام۔ (4) جنتِ عدن۔ (5) جنتِ مأویٰ۔ (6) جنتِ خُلد۔ (7) جنت فردوس۔ (8) جنتِ نعیم۔(روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۵۰۸)
*جنتِ عدن اور اس کی نعمتیں :*
جنت عدن کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے جنتِ عدن کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا، اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک سرخ یاقوت کی اور ایک سبز زبرجد کی ہے، مشک کا گارا ہے، اس کی گھاس زعفران کی ہے، موتی کی کنکریاں اور عنبر کی مٹی ہے۔ (ابن ابی دنیا،صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۱۹، الحدیث: ۲۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب اللہ تعالیٰ نے جنتِ عد ن کو پیدا فرمایا تو اس میں وہ چیزیں پیدا فرمائیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت عدن سے فرمایا ’’ مجھ سے کلام کر۔ اس نے کہا ’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۵، الحدیث: ۷۳۸)
*{ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ:اور اللہ کی رضا سب سے بڑی ہے۔}* یعنی جنت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ جنتیوں سے راضی ہو گا ۔کبھی نا راض نہ ہوگا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۱)
یہ نعمت تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور عاشقانِ الٰہی کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی عمل کا بد لہ نہ ہو گا بلکہ یہ خاص رب عَزَّوَجَلَّ کا عطیہ ہو گا۔ ’’ رَزَقَنَا اللہُ تَعَالٰی بِجَاہِ حَبِیْبِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘
*دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت:*
کسی بندے سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی ایک علا مت یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندےراضی ہوں اور اسے نیک اعمال کی توفیق ملے ۔ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی سے راضی ہوتا ہے تو فر شتوں میں اعلان ہوتا ہے کہ ہم اس سے راضی ہیں تم بھی اس سے راضی ہو جاؤ پھر تما م زمین والوں کے دلوں میں اس کی محبت پڑ جا تی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمانی مخلوق میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں (کے دلوں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)
اس سے معلوم ہوا کہ بزر گا نِ دین کی طرف دلو ں کا مائل ہونا ان کے محبوبِ الٰہی ہونے کی علامت ہے ۔
*طال
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْؕ-وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(۷۳)
ترجمہ
اے غیب کی خبریں دینے والے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور کتنی بری پلٹنے کی جگہ ہے۔
تفسیر
*{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے غیب کی خبریں دینے والے نبی!}* اس سے معلوم ہوا کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام لے کر نہ پکارا جائے بلکہ اچھے القاب سے پکارا جائے جب خداوند ِ قدوس عَزَّوَجَلَّ ان کو نام لے کر نہیں پکارتا تو ہم کس شمار میں ہیں۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ واضح طور پرفرماتا ہے۔
’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ‘‘ (النور :۶۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا (معمولی) نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔
*{جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ:کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔}* یعنی کافروں پر تو تلوار اور جنگ سے اور منافقوں پر حجت قائم کرنے سے جہاد کرو اور ان سب پر سختی کرو۔ حضرت عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہر وہ شخص جس کے عقیدے میں فساد ہو اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کہ حجت و دلائل کے ساتھ اس سے جہاد کیا جائے اور جتنا ممکن ہو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۴۴۵)
*دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے:*
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد صرف لڑائی کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے خواہ وہ زبان یا قلم سے ہو۔ یہ بھی واضح ہوا کہ جو علماء ،دینِ حق اور عقیدہ ِ صحیحہ کے تحفظ و بَقا کیلئے تقریر وتحریر کے ذریعے کوشش کرتے ہیں وہ سب مجاہدین ہیں اور اِس آیتِ مبارکہ پر عمل کرنے والے ہیں۔ اس میں مصنفین اور صحیح مقررین کیلئے بڑی بشارت و فضیلت ہے۔
*دین کے دشمنوں پر سختی کرنے کا حکم:*
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کافروں اور منافقوں پر سختی کرنے کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوا کہ دین و ایمان کے دشمنوں پر سختی کرنا اَخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں اور نہ ہی یہ شدت پسندی ہے بلکہ یہ عین اسلام کی تعلیمات اوراللہ تعالیٰ کا حکم ہے البتہ بے جا کی سختی یا اسلامی تعلیمات کے منافی قتل و غارت گری ضرور حرام ہے جیسے آج کل مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کی مہم جاری ہے۔
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْاؕ-وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْاۚ-وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْۚ-وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِیْمًاۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ مَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۷۴)
ترجمہ
منافقین اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہ کہا حالانکہ انہوں نے یقینا کفریہ کلمہ کہا اور وہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے اور انہوں نے اس چیز کا قصد و اِرادہ کیا جو انہیں نہ ملی اور انہیں یہی برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کے لئے بہتر ہوگا اور اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں سخت عذاب دے گا اور ان کے لئے زمین میں نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ مددگار۔
تفسیر
*{یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اللہکی قسم کھاتے ہیں۔}* شانِ نزول: امام بغوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کلبی سے نقل کیا کہ یہ آیت جُلَّاسْ بن سُوَید کے بارے میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک روز سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تبوک میں خطبہ فرمایا اس میں منافقین کا ذکر کیا اور ان کی بدحالی و بدما ٓلی کا ذکر فرمایا: یہ سن کر جُلَّاسْ نے کہا کہ اگر محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سچے ہیں تو ہم لوگ گد ھوں سے بدتر ہیں۔ جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ واپس تشریف لائے تو حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جُلَّاسْ کا مقولہ بیان کیا۔ جُلَّاسْ نے انکار کیا اور کہا کہ یا رسولَ اللہ ! عامر نے مجھ پر جھوٹ بولا ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دونوں کو حکم فرمایا کہ منبر کے پاس قسم کھائیں۔ جُلَّاسْ نے عصر کے بعد منبر کے پاس کھڑے ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھائی کہ یہ بات اس نے نہیں کہی
دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْؕ-وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(۷۳)
ترجمہ
اے غیب کی خبریں دینے والے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور کتنی بری پلٹنے کی جگہ ہے۔
تفسیر
*{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے غیب کی خبریں دینے والے نبی!}* اس سے معلوم ہوا کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام لے کر نہ پکارا جائے بلکہ اچھے القاب سے پکارا جائے جب خداوند ِ قدوس عَزَّوَجَلَّ ان کو نام لے کر نہیں پکارتا تو ہم کس شمار میں ہیں۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ واضح طور پرفرماتا ہے۔
’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ‘‘ (النور :۶۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا (معمولی) نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔
*{جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ:کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔}* یعنی کافروں پر تو تلوار اور جنگ سے اور منافقوں پر حجت قائم کرنے سے جہاد کرو اور ان سب پر سختی کرو۔ حضرت عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہر وہ شخص جس کے عقیدے میں فساد ہو اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کہ حجت و دلائل کے ساتھ اس سے جہاد کیا جائے اور جتنا ممکن ہو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۴۴۵)
*دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے:*
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد صرف لڑائی کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے خواہ وہ زبان یا قلم سے ہو۔ یہ بھی واضح ہوا کہ جو علماء ،دینِ حق اور عقیدہ ِ صحیحہ کے تحفظ و بَقا کیلئے تقریر وتحریر کے ذریعے کوشش کرتے ہیں وہ سب مجاہدین ہیں اور اِس آیتِ مبارکہ پر عمل کرنے والے ہیں۔ اس میں مصنفین اور صحیح مقررین کیلئے بڑی بشارت و فضیلت ہے۔
*دین کے دشمنوں پر سختی کرنے کا حکم:*
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کافروں اور منافقوں پر سختی کرنے کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوا کہ دین و ایمان کے دشمنوں پر سختی کرنا اَخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں اور نہ ہی یہ شدت پسندی ہے بلکہ یہ عین اسلام کی تعلیمات اوراللہ تعالیٰ کا حکم ہے البتہ بے جا کی سختی یا اسلامی تعلیمات کے منافی قتل و غارت گری ضرور حرام ہے جیسے آج کل مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کی مہم جاری ہے۔
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْاؕ-وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْاۚ-وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْۚ-وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِیْمًاۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ مَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۷۴)
ترجمہ
منافقین اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہ کہا حالانکہ انہوں نے یقینا کفریہ کلمہ کہا اور وہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے اور انہوں نے اس چیز کا قصد و اِرادہ کیا جو انہیں نہ ملی اور انہیں یہی برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کے لئے بہتر ہوگا اور اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں سخت عذاب دے گا اور ان کے لئے زمین میں نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ مددگار۔
تفسیر
*{یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اللہکی قسم کھاتے ہیں۔}* شانِ نزول: امام بغوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کلبی سے نقل کیا کہ یہ آیت جُلَّاسْ بن سُوَید کے بارے میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک روز سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تبوک میں خطبہ فرمایا اس میں منافقین کا ذکر کیا اور ان کی بدحالی و بدما ٓلی کا ذکر فرمایا: یہ سن کر جُلَّاسْ نے کہا کہ اگر محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سچے ہیں تو ہم لوگ گد ھوں سے بدتر ہیں۔ جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ واپس تشریف لائے تو حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جُلَّاسْ کا مقولہ بیان کیا۔ جُلَّاسْ نے انکار کیا اور کہا کہ یا رسولَ اللہ ! عامر نے مجھ پر جھوٹ بولا ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دونوں کو حکم فرمایا کہ منبر کے پاس قسم کھائیں۔ جُلَّاسْ نے عصر کے بعد منبر کے پاس کھڑے ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھائی کہ یہ بات اس نے نہیں کہی
اور عامر نے اس پر جھوٹ بولا پھر حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ بے شک یہ مقولہ جُلَّاس نے کہا اور میں نے اس پر جھوٹ نہیں بولا ۔حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ، اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سچے آدمی کی تصدیق نازل فرما۔ ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ہی حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ آیت میں ’’فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ‘‘ سن کر جُلَّاسْ کھڑے ہوگئے اور عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سنئے، اللہ تعالیٰ نے مجھے توبہ کا موقع دیا، حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو کچھ کہا سچ کہا اور میں نے وہ کلمہ کہا تھا اور اب میں توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور وہ توبہ پر ثابت رہے۔ (بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۳)اس آیت میں جمع کے صیغے ذکر کئے گئے حالانکہ توہین آمیز بات کہنے والا شخص ایک تھا، اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ باقی منافق اس بات پر راضی ہونے کی وجہ سے کہنے والے کی طرح ہیں۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۴۶۷)
*{وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا:اور انہوں نے اس چیز کا قصد و ارادہ کیا جو انہیں نہ ملی۔}* ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد منافقین کا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سواری سے گرانے کا ارادہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پندرہ کے قریب منافقین کے ایک گروہ نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ تبوک سے واپسی پر رات کے اندھیرے میں کسی گھاٹی پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی سواری سے گرا کے شہید کردیا جائے۔ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سواری پیچھے سے ہانک رہے تھے اور حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سواری کی لگام تھامے آگے چل رہے تھے۔ اسی دوران جب حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اونٹوں اور اسلحے کی آواز سنی توانہوں نے پکار کر کہا کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمنو! دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔ یہ سن کر منافقین بھاگ گئے۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۱۵۸-۱۵۹)
ایک قول یہ ہے کہ منافقین نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا کے بغیر عبداللہ بن اُبی کی تاج پوشی کا ارادہ کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے جس چیز کا قصد و ارادہ کیا تھا وہ انہیں نہ ملی۔ (ابو سعود، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۴۲۸)
امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جلاس نے افشائے راز کے اندیشہ سے حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ پورا نہ ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۲)
*{اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ:اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔}* اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مدینہ منورہ تشریف آوری سے پہلے یہ منافق تنگدستی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ جب مدینہ منورہ میں رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد ہوئی تو ان کے صدقے غنیمت میں مال و دولت پا کر یہ منافق خوشحال ہو گئے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جُلَّاسْ کا غلام قتل کر دیا گیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بارہ ہزار درہم اس کی دِیَت ادا کرنے کا حکم دیا تو دیت پا کر وہ غنی گیا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۶ / ۱۰۴)
یہاں آیت میں غنی کرنے کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کی گئی ہے۔ اس پر تفصیلی کلام اسی سورت کی آیت نمبر 62 کی تفسیر میں گزر چکا ہے
*طالبِ دعا ابوعمر*
*{وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا:اور انہوں نے اس چیز کا قصد و ارادہ کیا جو انہیں نہ ملی۔}* ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد منافقین کا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سواری سے گرانے کا ارادہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پندرہ کے قریب منافقین کے ایک گروہ نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ تبوک سے واپسی پر رات کے اندھیرے میں کسی گھاٹی پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی سواری سے گرا کے شہید کردیا جائے۔ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سواری پیچھے سے ہانک رہے تھے اور حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سواری کی لگام تھامے آگے چل رہے تھے۔ اسی دوران جب حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اونٹوں اور اسلحے کی آواز سنی توانہوں نے پکار کر کہا کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمنو! دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔ یہ سن کر منافقین بھاگ گئے۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۱۵۸-۱۵۹)
ایک قول یہ ہے کہ منافقین نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا کے بغیر عبداللہ بن اُبی کی تاج پوشی کا ارادہ کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے جس چیز کا قصد و ارادہ کیا تھا وہ انہیں نہ ملی۔ (ابو سعود، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۴۲۸)
امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جلاس نے افشائے راز کے اندیشہ سے حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ پورا نہ ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۲)
*{اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ:اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔}* اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مدینہ منورہ تشریف آوری سے پہلے یہ منافق تنگدستی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ جب مدینہ منورہ میں رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد ہوئی تو ان کے صدقے غنیمت میں مال و دولت پا کر یہ منافق خوشحال ہو گئے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جُلَّاسْ کا غلام قتل کر دیا گیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بارہ ہزار درہم اس کی دِیَت ادا کرنے کا حکم دیا تو دیت پا کر وہ غنی گیا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۶ / ۱۰۴)
یہاں آیت میں غنی کرنے کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کی گئی ہے۔ اس پر تفصیلی کلام اسی سورت کی آیت نمبر 62 کی تفسیر میں گزر چکا ہے
*طالبِ دعا ابوعمر*
دلوں میں نیزے، جگر میں خنجر، چھبے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
ہماری نظروں کے سامنے تَن، کٹے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
یہ حالِ غیرت، یہ سوزِ ایماں، یہ کیفِ ہستی، کہ فربہ ہو کر
عدو کے ہاتھوں ، گلے ہمارے، دبے ہوئے تھے ، پر ہم کھڑے تھے
ہمارے نیزوں، ہماری ڈھالوں، پہ تھا بھروسہ، جنھیں ازل سے
ہمارے آگے ، وہ سر بریدہ، پڑے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
جنھیں دلاسہ، دہائیوں سے، وفا کا ہم نے، دیا ہوا تھا
وہ خواب آزادیوں کا لے کر، مَرے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
جو اہلِ باطل تھے، ان کے سینوں پہ، سج رہے تھے، عرب کے تمغے
جو اہلِ حق تھے، وہ سولیوں پر ، چڑھے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
لکھو مورخ! یہ المیہ کہ، جہان بھر کے، ستم کدوں میں
ہماری بہنوں کے جسم سارے، چِھلے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
ہماری نظروں کے سامنے تَن، کٹے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
یہ حالِ غیرت، یہ سوزِ ایماں، یہ کیفِ ہستی، کہ فربہ ہو کر
عدو کے ہاتھوں ، گلے ہمارے، دبے ہوئے تھے ، پر ہم کھڑے تھے
ہمارے نیزوں، ہماری ڈھالوں، پہ تھا بھروسہ، جنھیں ازل سے
ہمارے آگے ، وہ سر بریدہ، پڑے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
جنھیں دلاسہ، دہائیوں سے، وفا کا ہم نے، دیا ہوا تھا
وہ خواب آزادیوں کا لے کر، مَرے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
جو اہلِ باطل تھے، ان کے سینوں پہ، سج رہے تھے، عرب کے تمغے
جو اہلِ حق تھے، وہ سولیوں پر ، چڑھے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
لکھو مورخ! یہ المیہ کہ، جہان بھر کے، ستم کدوں میں
ہماری بہنوں کے جسم سارے، چِھلے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
🕌 اپنی مسجد 🕌
نبی پاکﷺ نے مدینہ شریف میں مسجد بنانے کا ارادہ کیا تو زمین قیمتاً خریدی ۔
حالاں کہ جن کی زمین تھی وہ کہتےتھے کہ حضور مفت میں قبول فرمالیں! لیکن سرکار نے ایسا نہیں کیا ۔
حافظ الحدیث پیر سید جلال الدین شاہ صاحب رحمة اللہ تعالیٰ علیہ سرکارﷺ کا یہ عمل بیان کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے:
” اس میں ہمارے لیے بھی نصیحت ہے کہ:
مسجد اپنی ہو ، چاہےڈیڑھ انچ کی ہو ؛ تبھی کھل کر دین کا کام ہوسکتا ہے ۔ “
آپ رحمہ اللہ نے سچ فرمایا!!
واقعی جب تک مسجدیں اور مدرسے اپنےنہ ہوں ، لوگ کُھل کر دین کا کام نہیں کرنے دیتے ؛ سو سو رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں ۔
آج کل ائمہ ، مدرسین کی بہ نسبت پیر کیوں ترقی کررہے ہیں ؟
اس لیے کہ اُن کے آستانے اپنے ہوتے ہیں جہاں انھیں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی!!
بہ غور دیکھا جائے تو جن علما نے فرداً فرداً ترقی کی ہے ( کثیر شاگرد وغیرہ بنائے ہیں ) اُن کی مسجدیں اور مدرسے اپنے ہی تھے ، انھیں بے جا روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا ۔
حافظ الحدیث رحمہ اللہ کے اس فرمان کا مجھے بھی تجربہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ پاک سارے ائمہ کرام اور مدرسین پر کرم فرمائے!!
1: مسجدیں اور مدرسے کسی فرد یا افراد کی مِلک نہیں ہوتے ، یہ اللہ کے لیے ہوتے ہیں ۔
انھیں پراپرٹی نہیں ، دین کا مرکز سمجھنا چاہیے ۔
2: ائمہ اور مدرسین کو حق بیانی کا پورا پورا حق دینا چاہیے اور انھیں یہ باور کروانا چاہیے کہ یہ مسجدیں اور مدرسے آپ کے ہیں ، آپ کھل کر دین کی تبلیغ کریں ہم کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے ۔
2: ائمہ اور مدرسین کو یہ بھی اختیار ہونا چاہیے کہ اگر انتظامیہ غلط کام کرے تو وہ بلاجھجک اسے روک ٹوک سکیں ۔
3: بغیر شرعی عذر کے کسی مدرس اور امام کو معزول نہیں کرنا چاہیے ۔
ایک امام اور مدرس بڑی مشکل سے زمین بناتا ہے ، فصل تیار کرتا ہے ، لیکن جب پکنے پہ آتی ہے تو اُسے نکال دیا جاتا ہے ؛ یہ بہت غلط طریقہ ہے ۔
مہتمم ، ناظم ، منتظم دینی مراکز کے خادم ہوتے ہیں ، ائمہ مدرسین پر حاکم نہیں ؛ انھیں دین اور دین داروں کا احترام ملحوظ رکھنا چاہیے ۔
✍لقمان شاہد
28/8/2019 ء
نبی پاکﷺ نے مدینہ شریف میں مسجد بنانے کا ارادہ کیا تو زمین قیمتاً خریدی ۔
حالاں کہ جن کی زمین تھی وہ کہتےتھے کہ حضور مفت میں قبول فرمالیں! لیکن سرکار نے ایسا نہیں کیا ۔
حافظ الحدیث پیر سید جلال الدین شاہ صاحب رحمة اللہ تعالیٰ علیہ سرکارﷺ کا یہ عمل بیان کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے:
” اس میں ہمارے لیے بھی نصیحت ہے کہ:
مسجد اپنی ہو ، چاہےڈیڑھ انچ کی ہو ؛ تبھی کھل کر دین کا کام ہوسکتا ہے ۔ “
آپ رحمہ اللہ نے سچ فرمایا!!
واقعی جب تک مسجدیں اور مدرسے اپنےنہ ہوں ، لوگ کُھل کر دین کا کام نہیں کرنے دیتے ؛ سو سو رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں ۔
آج کل ائمہ ، مدرسین کی بہ نسبت پیر کیوں ترقی کررہے ہیں ؟
اس لیے کہ اُن کے آستانے اپنے ہوتے ہیں جہاں انھیں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی!!
بہ غور دیکھا جائے تو جن علما نے فرداً فرداً ترقی کی ہے ( کثیر شاگرد وغیرہ بنائے ہیں ) اُن کی مسجدیں اور مدرسے اپنے ہی تھے ، انھیں بے جا روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا ۔
حافظ الحدیث رحمہ اللہ کے اس فرمان کا مجھے بھی تجربہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ پاک سارے ائمہ کرام اور مدرسین پر کرم فرمائے!!
1: مسجدیں اور مدرسے کسی فرد یا افراد کی مِلک نہیں ہوتے ، یہ اللہ کے لیے ہوتے ہیں ۔
انھیں پراپرٹی نہیں ، دین کا مرکز سمجھنا چاہیے ۔
2: ائمہ اور مدرسین کو حق بیانی کا پورا پورا حق دینا چاہیے اور انھیں یہ باور کروانا چاہیے کہ یہ مسجدیں اور مدرسے آپ کے ہیں ، آپ کھل کر دین کی تبلیغ کریں ہم کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے ۔
2: ائمہ اور مدرسین کو یہ بھی اختیار ہونا چاہیے کہ اگر انتظامیہ غلط کام کرے تو وہ بلاجھجک اسے روک ٹوک سکیں ۔
3: بغیر شرعی عذر کے کسی مدرس اور امام کو معزول نہیں کرنا چاہیے ۔
ایک امام اور مدرس بڑی مشکل سے زمین بناتا ہے ، فصل تیار کرتا ہے ، لیکن جب پکنے پہ آتی ہے تو اُسے نکال دیا جاتا ہے ؛ یہ بہت غلط طریقہ ہے ۔
مہتمم ، ناظم ، منتظم دینی مراکز کے خادم ہوتے ہیں ، ائمہ مدرسین پر حاکم نہیں ؛ انھیں دین اور دین داروں کا احترام ملحوظ رکھنا چاہیے ۔
✍لقمان شاہد
28/8/2019 ء
حضرت إمام غزالي فرماتے ہیں :
یہی علماء کی سیرت و کردار رہا ہے کہ وہ اچھائی کا حكم ديتے تھے اور برائی سے روکتے تھے اور بادشاہان وقت کی ناراضگی و غصے کو خاطر ميں نہ لاتے تھے،کیونکہ انکا بھروسہ رب تعالی کے فضل پر تھا کہ وہ انکی حفاظت كريگا،اور اگر انہیں موت بھی آتی تو اسے رضاء الہی سمجھ کر شہادت کا رتبہ پالیا کرتے تھے۔
چونکہ انکی نیت خالص ہوتی تھی تو انکی نصيحت بھی پر اثر ہوا کرتی تھی۔
رہی بات اسوقت کی تو لالچ نے (کچھ) علماء کی زبانوں کو تالے لگادیے ہیں،اور وه خاموش ہیں اگر بولیں بھی تو انکے گفتار انكے کردار کے موافق نہیں ہوتے،لا محالہ ایسے لوگ کامیاب نہیں ہوتے اگر سچے ہوتے تو ضرور كامياب ہوتے۔
رعیت کے بگاڑ کا سبب ،بادشاہ ہوتے ہیں، اور بادشاہوں کے بگاڑ کا سبب علماء ہوتے ہیں۔
رہی بات کہ علماء کیوں بگڑ جاتے ہیں ؟
تو وہ اسلئیے کہ انہیں شہرت اور جاہ وجلال کی محبت گھیر لیتی ہے۔
یاد رکھو کہ جس کے دل پر دنیا کی محبت غالب آجائے وہ کمینے اور فسادي لوگوں کا محاسبہ نہیں کرسکتا چہ جائیکہ وہ بادشاہوں اور وزیروں کی اصلاح کرسکے۔
(إحياء علوم الدين: [2/357]).
یہی علماء کی سیرت و کردار رہا ہے کہ وہ اچھائی کا حكم ديتے تھے اور برائی سے روکتے تھے اور بادشاہان وقت کی ناراضگی و غصے کو خاطر ميں نہ لاتے تھے،کیونکہ انکا بھروسہ رب تعالی کے فضل پر تھا کہ وہ انکی حفاظت كريگا،اور اگر انہیں موت بھی آتی تو اسے رضاء الہی سمجھ کر شہادت کا رتبہ پالیا کرتے تھے۔
چونکہ انکی نیت خالص ہوتی تھی تو انکی نصيحت بھی پر اثر ہوا کرتی تھی۔
رہی بات اسوقت کی تو لالچ نے (کچھ) علماء کی زبانوں کو تالے لگادیے ہیں،اور وه خاموش ہیں اگر بولیں بھی تو انکے گفتار انكے کردار کے موافق نہیں ہوتے،لا محالہ ایسے لوگ کامیاب نہیں ہوتے اگر سچے ہوتے تو ضرور كامياب ہوتے۔
رعیت کے بگاڑ کا سبب ،بادشاہ ہوتے ہیں، اور بادشاہوں کے بگاڑ کا سبب علماء ہوتے ہیں۔
رہی بات کہ علماء کیوں بگڑ جاتے ہیں ؟
تو وہ اسلئیے کہ انہیں شہرت اور جاہ وجلال کی محبت گھیر لیتی ہے۔
یاد رکھو کہ جس کے دل پر دنیا کی محبت غالب آجائے وہ کمینے اور فسادي لوگوں کا محاسبہ نہیں کرسکتا چہ جائیکہ وہ بادشاہوں اور وزیروں کی اصلاح کرسکے۔
(إحياء علوم الدين: [2/357]).
آج كھانا تم بناؤ گی ، جس نے پانی کا گلاس اٹھ کے کبھی نہیں پیا تھا ، اسے میری ماں نے حکم دیا .
وہ اٹھی ، جیسے تیسے کر کے 3 ، 4 گھنٹے لگاے اور كھانا بنایا مگر نمک مرچ اس ٹیسٹ کے مطابق نہیں تھے جسے پرفیکٹ کہا جاتا ہے . اِس لیے كھانا گھر کے کسی فرد نے نہیں کھایا اور طنز کیا " اپنی ماں کے گھر سے یہ سیکھ کے آئی ہو" ؟
میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کے بَعْد گھر آیا ، ابھی بیگ گھر نہیں رکھا تھا کہ میری ماں کہنے لگی " ہم تو صبح سے بھوکے بیٹھے ہیں ، کچھ بازار سے لا دو كھانے کے لیے " . میں نے ایک نظر اپنی سہمی ہوئے بِیوِی پہ ڈالی اور مارکیٹ چلا گیا . كھانا لے کر آیا تو سب کھانے لگے . میں نے اپنی بیگم کا بازو پکرا اور کچن میں لے گیا ، کیا پکایا ہے آج ؟ اس نے آنسو آنکھوں میں ہی کہیں روکے ہوئے تھے ، میری بات سن کر مسکرا دی .
باقی سب کی طرح تم بازار والا كھانا نہیں کھاؤ گے ؟ ؟
نہیں ، مجھے تو اپنی بیٹر ہالف کے ہاتھ کا بنا كھانا پسند ہے
اس نے کچن میں میرے لیے كھانا لگا دیا . جب میں نے چکھا تو اتنا بھی بد ذائقہ نہیں تھا کہ کھایا نا جاتا . مگر اسے اتنا مارجن ہی نہیں دیاگیا کہ وہ اپنی غلطی ٹھیک کر لیتی . . . . . . . . . . . .
قصور میری بِیوِی کا بھی نہیں تھا کہ وہ ماسٹرز کر رہی تھی اور شادی ہو گئی . اسے تعلیم نے گھرداری کی فرصت ہی نہیں دی . اور قصور میری ماں کا بھی نہیں تھا جس نے ہاؤس وائف بن کے ساری زندگی اپنے بچون کےلئے " اچھا كھانا " بنایا تھا ، پِھر وہ عورت بہو کے ہاتھ کا بنا بدمزہ كھانا کیسے کھا سکتی تھی . . . . . . میں نے اس دن اپنی ماں کی بات بھی مان لی _ بِیوِی کے ہاتھ کا بنا كھانا بھی کھا لیا . میرے ایک عمل نے مجھے اپنی لائف پارٹنر کی نظر میں ہمیشہ کےلئے معتبر کر دیا اور اس ایک محبت بھرے عمل کی وجہ سے آج وہ ہر قسم کی ڈش بنانا سیکھ چکی ہے . اس دن اگر مارکیٹ سے كھانا نا لے کے آتا تو ماں ناراض ہو جاتی اور اگر میں اپنی ماں کی بات سن کر سب کے سامنے اسے ڈانٹ دیتا تو وہ شاید مجھ سے بدگمان ہوجاتی .
رشتوں میں بیلنس قائم کریں اور اتنا مارجن ضرور دیں کہ لوگ ایڈجسٹ ھونا سیکھ لیں ، محبت کا جذبہ کبھی نا ختم ہونے دیں کیوں کہ میاں بِیوِی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں اور لباس خراب ہو جائے تو بھرے بازارمیں اتارا نہیں جاتا ، پیوند لگایا جاتا ہے .رشتوں میں بھی پیوند لگائیں-
تحریر... سکندر جیلانی
وہ اٹھی ، جیسے تیسے کر کے 3 ، 4 گھنٹے لگاے اور كھانا بنایا مگر نمک مرچ اس ٹیسٹ کے مطابق نہیں تھے جسے پرفیکٹ کہا جاتا ہے . اِس لیے كھانا گھر کے کسی فرد نے نہیں کھایا اور طنز کیا " اپنی ماں کے گھر سے یہ سیکھ کے آئی ہو" ؟
میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کے بَعْد گھر آیا ، ابھی بیگ گھر نہیں رکھا تھا کہ میری ماں کہنے لگی " ہم تو صبح سے بھوکے بیٹھے ہیں ، کچھ بازار سے لا دو كھانے کے لیے " . میں نے ایک نظر اپنی سہمی ہوئے بِیوِی پہ ڈالی اور مارکیٹ چلا گیا . كھانا لے کر آیا تو سب کھانے لگے . میں نے اپنی بیگم کا بازو پکرا اور کچن میں لے گیا ، کیا پکایا ہے آج ؟ اس نے آنسو آنکھوں میں ہی کہیں روکے ہوئے تھے ، میری بات سن کر مسکرا دی .
باقی سب کی طرح تم بازار والا كھانا نہیں کھاؤ گے ؟ ؟
نہیں ، مجھے تو اپنی بیٹر ہالف کے ہاتھ کا بنا كھانا پسند ہے
اس نے کچن میں میرے لیے كھانا لگا دیا . جب میں نے چکھا تو اتنا بھی بد ذائقہ نہیں تھا کہ کھایا نا جاتا . مگر اسے اتنا مارجن ہی نہیں دیاگیا کہ وہ اپنی غلطی ٹھیک کر لیتی . . . . . . . . . . . .
قصور میری بِیوِی کا بھی نہیں تھا کہ وہ ماسٹرز کر رہی تھی اور شادی ہو گئی . اسے تعلیم نے گھرداری کی فرصت ہی نہیں دی . اور قصور میری ماں کا بھی نہیں تھا جس نے ہاؤس وائف بن کے ساری زندگی اپنے بچون کےلئے " اچھا كھانا " بنایا تھا ، پِھر وہ عورت بہو کے ہاتھ کا بنا بدمزہ كھانا کیسے کھا سکتی تھی . . . . . . میں نے اس دن اپنی ماں کی بات بھی مان لی _ بِیوِی کے ہاتھ کا بنا كھانا بھی کھا لیا . میرے ایک عمل نے مجھے اپنی لائف پارٹنر کی نظر میں ہمیشہ کےلئے معتبر کر دیا اور اس ایک محبت بھرے عمل کی وجہ سے آج وہ ہر قسم کی ڈش بنانا سیکھ چکی ہے . اس دن اگر مارکیٹ سے كھانا نا لے کے آتا تو ماں ناراض ہو جاتی اور اگر میں اپنی ماں کی بات سن کر سب کے سامنے اسے ڈانٹ دیتا تو وہ شاید مجھ سے بدگمان ہوجاتی .
رشتوں میں بیلنس قائم کریں اور اتنا مارجن ضرور دیں کہ لوگ ایڈجسٹ ھونا سیکھ لیں ، محبت کا جذبہ کبھی نا ختم ہونے دیں کیوں کہ میاں بِیوِی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں اور لباس خراب ہو جائے تو بھرے بازارمیں اتارا نہیں جاتا ، پیوند لگایا جاتا ہے .رشتوں میں بھی پیوند لگائیں-
تحریر... سکندر جیلانی
⭕ *ﺣﻀﺮﺕ سیدنا ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ :*
*🍀 ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔*
*🍀 ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔*
*🍀 ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ*
*🍀 ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ.*
*🍀ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔*
*🍀 ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔*
*🍀 ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔*
*🍀 ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔*
*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔*
*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔*
*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ*
*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔*
*🍀 ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ نگرانی ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔*
ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ کہ :
*’’ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘*
ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
*’’ ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘*
🍀 ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
🍀ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔
🍀ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
🍀ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.
🍀 ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔
"ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔"
🍀ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔
"ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘
🍀 ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ
*’’ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ...!*
🍀 ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ،
🍀 *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔*
🍀ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ ...!
🍀 ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ ( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ) ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ ...!
🍀 ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ :
*’’ ﻟﻮﮔﻮ ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘*
🍀 ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
’’ ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘
ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ :
’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ
ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞ ﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘
🍀 ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...!
🍀 ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ...!
🌸
*بشرط جزیہ اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا انکا مخصوص لباس متعین کرنا اسلام و مسلمانوں کے خلاف سازش نہ کرنے کا اور وفاداری کا عہد لیکر ان کے جان و مال و دولت عزت کی حفاظت کرنا اور خصوصی توجہ دینا اسلام و ملکی معاملات میں کوئی عہدہ نہ دینا* 🌸ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ
*🍀 ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔*
*🍀 ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔*
*🍀 ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ*
*🍀 ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ.*
*🍀ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔*
*🍀 ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔*
*🍀 ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔*
*🍀 ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔*
*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔*
*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔*
*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ*
*🍀 ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔*
*🍀 ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ نگرانی ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔*
ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ کہ :
*’’ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘*
ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
*’’ ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘*
🍀 ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
🍀ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔
🍀ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
🍀ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔
🍀 ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.
🍀 ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔
"ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔"
🍀ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔
"ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘
🍀 ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ
*’’ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ...!*
🍀 ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ،
🍀 *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔*
🍀ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ ...!
🍀 ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ ( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ) ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ ...!
🍀 ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ :
*’’ ﻟﻮﮔﻮ ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘*
🍀 ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
’’ ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘
ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ :
’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ
ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞ ﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘
🍀 ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...!
🍀 ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ...!
🌸
*بشرط جزیہ اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا انکا مخصوص لباس متعین کرنا اسلام و مسلمانوں کے خلاف سازش نہ کرنے کا اور وفاداری کا عہد لیکر ان کے جان و مال و دولت عزت کی حفاظت کرنا اور خصوصی توجہ دینا اسلام و ملکی معاملات میں کوئی عہدہ نہ دینا* 🌸ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ
ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ
ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ...!
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ کہ :
’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ کہ :
’’ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ (ﺣﻀﺮﺕ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘
ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﺸﺮﻗﯿﻦ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
" ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﻮتا ﻣ
دوستوں چلتے، چلتے ہمیشہ کی طرح وہ ہی ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہوگا لیکن ہوسکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ....!
*جزاک اللہ خیرا کثیرا.*
منقول
ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ...!
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ کہ :
’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ کہ :
’’ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ (ﺣﻀﺮﺕ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘
ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﺸﺮﻗﯿﻦ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
" ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﻮتا ﻣ
دوستوں چلتے، چلتے ہمیشہ کی طرح وہ ہی ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہوگا لیکن ہوسکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ....!
*جزاک اللہ خیرا کثیرا.*
منقول