. ♣️ *کیا مطالعہ دوست ہے* ؟ ♣️
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131*:-
👈 جی ہاں!! مطالعہ انسان کا ایک وفادار دوست ہے۔ ایسا دوست جو مشکل گھاٹیوں میں انسان کا سہارا بنتا ہے۔ ایسا دوست جو انسان کی زندگی کے امتحانات میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اور اس امتحانات میں اپنے دوست کو کامیابی و کامرانی سے ہم کنار کر دیتا ہے۔
👈 لہذا انسان کو بھی چاہیے کہ اپنی دوستی کتاب سے کرلے یقین جانیں کہ یہ دوست آپ کو کبھی بھی کسی بھی مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ آپ کے کندھے کے ساتھ کندھا دے کر کھڑا رہے گا۔
👈 ایک بات یاد رکھیں!! جب آپ اپنے مسائل کا حل کسی انسان سے پوچھتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کسی موڑ پہ آپ کو دھوکا دے دے۔ لیکن جب آپ کتابوں سے دوستی کرکے ان سے ہم کلام ہوتے ہیں تو کتاب آپ کو مسائل سے لڑنے کا طریقہ بتاتی ہے ، لوگوں کے ساتھ جینے کے راز سکھاتی ہے۔
👈 اگر آپ بلند فضا میں اڑنا چاہتے ہیں تو آپ مطالعے کو مستقل مزاجی کے ساتھ تھام لو ؛ مطالعہ آپ کو عروج پر پہنچا دے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ *پروں کو کھول زمانہ اُڑنا دیکھتا ہے* ، *زمین پر بیٹھ کر کیا آسمان دیکھتا ہے*۔
👈 آپ کمر کَس کے مطالعے کو اپنے اوّلین دوستوں میں سے بنا لو یہ مطالعہ آپ کو بلند مقام عطا کرے گا۔ ایک قول ملتا ہے کہ *خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہوگا* ،
*کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے* ،
*اپنے حصے کا دِیا جلانا ہوگا*۔
👈 آخری بات کہہ کر تحریر کو سمیٹ لیتا ہوں کہ
*ہمیشہ یاد رکھنا کہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے آپ کو اکیلے ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے*
*لوگ آپ کے ساتھ تب آتے ہیں جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں*۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131*:-
👈 جی ہاں!! مطالعہ انسان کا ایک وفادار دوست ہے۔ ایسا دوست جو مشکل گھاٹیوں میں انسان کا سہارا بنتا ہے۔ ایسا دوست جو انسان کی زندگی کے امتحانات میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اور اس امتحانات میں اپنے دوست کو کامیابی و کامرانی سے ہم کنار کر دیتا ہے۔
👈 لہذا انسان کو بھی چاہیے کہ اپنی دوستی کتاب سے کرلے یقین جانیں کہ یہ دوست آپ کو کبھی بھی کسی بھی مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ آپ کے کندھے کے ساتھ کندھا دے کر کھڑا رہے گا۔
👈 ایک بات یاد رکھیں!! جب آپ اپنے مسائل کا حل کسی انسان سے پوچھتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کسی موڑ پہ آپ کو دھوکا دے دے۔ لیکن جب آپ کتابوں سے دوستی کرکے ان سے ہم کلام ہوتے ہیں تو کتاب آپ کو مسائل سے لڑنے کا طریقہ بتاتی ہے ، لوگوں کے ساتھ جینے کے راز سکھاتی ہے۔
👈 اگر آپ بلند فضا میں اڑنا چاہتے ہیں تو آپ مطالعے کو مستقل مزاجی کے ساتھ تھام لو ؛ مطالعہ آپ کو عروج پر پہنچا دے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ *پروں کو کھول زمانہ اُڑنا دیکھتا ہے* ، *زمین پر بیٹھ کر کیا آسمان دیکھتا ہے*۔
👈 آپ کمر کَس کے مطالعے کو اپنے اوّلین دوستوں میں سے بنا لو یہ مطالعہ آپ کو بلند مقام عطا کرے گا۔ ایک قول ملتا ہے کہ *خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہوگا* ،
*کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے* ،
*اپنے حصے کا دِیا جلانا ہوگا*۔
👈 آخری بات کہہ کر تحریر کو سمیٹ لیتا ہوں کہ
*ہمیشہ یاد رکھنا کہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے آپ کو اکیلے ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے*
*لوگ آپ کے ساتھ تب آتے ہیں جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں*۔
. 👈 *کامیاب تحریر کے راز* 👉
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-
👈 آپ کی تحریر ہر دل عزیز کیسے بنے ؟
آپ کی تحریر مقبول عام کیسے بنے ؟
اسی کے متعلق " *5*" ایسے راز عرض کرتا ہوں جن سے آپ کی تحریر مقبول ہوگی۔
👈 راز نمبر *1*:-
تحریر لکھنے کا مقصد اللہ تعالی اور اس کے پیارے حبیب علیہ الصلاة و السلام کی خوشنودی اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہو :-
👈 راز نمبر *2*:-
تحریر کو تحریر کے انداز پر لکھیں ؛ خط کے انداز پر نہ لکھیں ؛ کسی کی نقالی نہ کریں ؛ جو لکھیں اپنے سے لکھیں :-
👈 راز نمبر *3* :-
شوق ؛ لگن ؛ جزبہ ؛ مستقل مزاجی کے ساتھ لکھیں۔ اس طرح کرنے سے آپ کی ہر تحریر پچھلی تحریر سے بہتر ہوتی جائے گی :-
👈 راز نمبر *4* :-
اپنی تحریر کی مقبولیت چاہتے ہیں تو دوسروں کو تحریر سکھانا شروع کریں ؛ کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا کہ " کسی اور کو آگے بڑھائو ، اگر آپ بڑھنا چاہتے ہو :-
👈 راز نمبر *5* :-
جو بات تحریر کریں وہ درد دل سے لکھیں۔ کیونکہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے :-
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-
👈 آپ کی تحریر ہر دل عزیز کیسے بنے ؟
آپ کی تحریر مقبول عام کیسے بنے ؟
اسی کے متعلق " *5*" ایسے راز عرض کرتا ہوں جن سے آپ کی تحریر مقبول ہوگی۔
👈 راز نمبر *1*:-
تحریر لکھنے کا مقصد اللہ تعالی اور اس کے پیارے حبیب علیہ الصلاة و السلام کی خوشنودی اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہو :-
👈 راز نمبر *2*:-
تحریر کو تحریر کے انداز پر لکھیں ؛ خط کے انداز پر نہ لکھیں ؛ کسی کی نقالی نہ کریں ؛ جو لکھیں اپنے سے لکھیں :-
👈 راز نمبر *3* :-
شوق ؛ لگن ؛ جزبہ ؛ مستقل مزاجی کے ساتھ لکھیں۔ اس طرح کرنے سے آپ کی ہر تحریر پچھلی تحریر سے بہتر ہوتی جائے گی :-
👈 راز نمبر *4* :-
اپنی تحریر کی مقبولیت چاہتے ہیں تو دوسروں کو تحریر سکھانا شروع کریں ؛ کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا کہ " کسی اور کو آگے بڑھائو ، اگر آپ بڑھنا چاہتے ہو :-
👈 راز نمبر *5* :-
جو بات تحریر کریں وہ درد دل سے لکھیں۔ کیونکہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے :-
. 🔷 *محرِّر کے اصول* 🔷
✍️ *ابو المتبسّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-
👈 انگریزی کا ایک مشھور جملہ ہے کہ " لکھنا ایک مسلسل تخلیق کا عمل ہے "۔ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے
کہ کبھی بھی آپ نے کسی تحریر لکھنے والے کو یک دم مشھور ہوتا نہیں دیکھا ہوگا۔ اس سفر میں " محرّر " کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ بڑی سے بڑی قربانی دینی ہوتی ہے۔ اس سفر کے اندر محرر کو اپنے مزاج کے خلاف لڑنا پڑتا ہے ، حالات سے لڑنا ہوتا ہے ، تنقیدوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ، اور اپنے آپ سے یہ کہنا ہوتا ہے کہ یہ کام میں کرونگا اور دنیا والوں کو کرکے دیکھائوں گا۔ کیونکہ لکھنا ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے یہ ایسا جنون ہے کہ جسے نبھانا صرف مشکل نہیں بلکہ بے حد مشکل ہے۔ جب محرّر کو تحریر کا جنون ہوگا تبھی جاکر وہ ایک اچھا محرّر بنے گا ۔
👈 اسی طرح جب صحافی کو صحافت کرنے کا شوق ہوگا تب جاکر وہ ایک اچھا اور بہترین صحافی بننے میں کامیاب ہو گا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ " راہ علم کا سفر آسان نہیں مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دشواریاں منزل تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتیں "۔ شوق بندے کو ناممکن سے ممکن کام کرا دیتا ہے۔ جیسا کہ " ہیلن کیلر " اس عورت نے تقریبا 12 کتابیں لکھیں۔ اور 40 ممالک کا سفر کیا۔ یہ وہ عورت ہے جس کی
نہ آنکھیں ہیں ،
نہ زبان ہے ،
نہ کان ہیں ،
عورت بہری و گونگی و اندھی ہے۔ اس عورت نے لمس زبان ( چُھونے ) کے ذریعے اتنا بڑا کام کیا۔ جب یہ عورت اتنا بڑا کام کرسکتی ہے ۔ تو ایک
آنکھ والا 👁️
زبان والا 👅
کان والا 👂
کیوں نہیں کر سکتا ؟
کیوں نہیں صحافی بن سکتا ؟
کیوں نہیں محرّر بن سکتا ؟
بس بات صرف دل ❤️ کی ہے جو بندہ دل سے کام کرتا ہے وہ بندہ کامیاب ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ جس شخص نے اپنے آپ کو منوایا کہ میں یہ کرونگا اور لوگوں کو دیکھلائو گا۔ تو ایسے بندے کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایک مشھور کہاوت ہے کہ
لنگڑا بھی کام کرسکتا ہے ،
اندھا بھی کام کر سکتا ہے ،
لیکن دل کا ٹوٹا ہوا کبھی کام نہیں کرسکتا۔ اسلئے جو کام کریں دل سے کریں ۔
👈 بعض محرّرین کہتے ہیں کہ ہماری تحریر شائع نہیں ہوتی ، اور بعض کہتے ہیں کہ ہماری تحریر شائع تو ہوتی ہے لیکن ہر دل عزیز نہیں بنتی۔ اے گروہِ محرّیرین ایک بات کان کھول کر سن لیں کہ اگر آپ تھوڑا سا بھی غور و فکر کریں گے تو یہ بات آپ کے سامنے آجائے گی کہ دنیا کی کوئی بھی چیز اصول و قواعد کے بغیر نہیں چل رہی، ہر ایک کے مختلف قوانین و ضوابط ہیں ، سوائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کہ یہ بغیر نظام کے چل رہی ہے ۔
👈 دوسری بات یہ ہے کہ جب ایک چیز قاعدے و قانون کے مطابق ہوتی ہے۔ تو وہ کامیابی و صحیح انداز سے چلتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح " تحریر کا ہر دل عزیز بننے " کیلئے اور"محرّر" کے کچھ اصول ہیں ۔
👈 تو اسی کے متعلق میں اس مقالے میں محرّر کے ایسے " *11* " اصول لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
جس سے محرّر کی تحریر ہر دل عزیز اور مقبول ہو گی :-
1️⃣ کثیر مطالعہ: جب مقالہ لکھنے والے کے پاس زیادہ سے زیادہ مطالعہ ہوگا تو محرّر ایک خوبصورت تحریر لکھنے میں کامیاب ہو گا۔ اور اپنی تحریر میں ایسے ایسے لفظوں کا استعمال کرے گا جس سے لوگوں کی دل مقالے کی طرف مائل ہوں گی ۔
2️⃣ نیاپن: محرر کوشش کرے کہ اپنی تحریر میں جدت پیدا کرے ایک نیا پن اپنائے۔ اور مقالہ ایک نئ جہت اور ایک نئے نقطہ نظر سے تحریر کرے۔
3️⃣ مشاہدات کو بیان کرنا: اُس محرّر کی تحریر کامیاب ہے جس محرّر کو اپنے مشاہدات و تجربات کا لفظوں میں بیان کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ جیسا کہ 7 دوست سیر کرنے کیلئے کسی شہر چلے گئے۔ واپسی پر 7 دوستوں میں سے ایک دوست نے کتاب لکھ ڈالی اس کتاب میں اس شخص نے وہ باتیں لکھیں جو اس نے اس سفر میں مشاہدے کیے تھے۔ وہ تحریر کر ڈالیں۔ آپ تھوڑا سا غور کریں گے تو یہ بات آپ کے سامنے آجائے گی کہ اس محرّر کو وقت کا احساس تھا ، لوگوں کا احساس تھا ، اپنا احساس تھا ، تبھی جاکر اس نے اپنے مشاہدات و تجربات کو لفظوں میں بیان کیے۔ تاکہ لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔
4️⃣ قوت برداشت: جب ایک محرّر تحریر لکھتا ہے تو اس کے خلاف باتیں اٹھتی ہیں ، اس محرّر پر لوگ تنقیدیں کرتے ہیں ، اعتراضات کرتے ہیں ، اور محرّر کے اس سفر میں لوگ رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ پتہ نہیں لوگ اس محرّر کے خلاف کیا سے کیا کرتے ہیں۔
👈 اے محرّر ایک بات یاد رکھ کہ " اگر کبھی مقصد میں ناکام ہوجائیں تو مایوس نہ ہوں کیونکہ کسی بھی کتاب میں نہیں لکھا ہے کہ پیروں میں قیمتی جوتے نہ ہوں تو آپ چلنا چھوڑ دیں " اسی طرح کسی اور نے بھی کیا خوب لکھا ہے کہ زندگی میں جب آپ ٹوٹنے لگیں تو صبر رکھنا۔ کیونکہ نکھرتے وہی ہیں جو پہلے بکھرتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی آپ کو بُرا بھلا کہے تو آپ صبر رکھیں۔ دل چھوٹا نہ کریں۔ پتہ ہے کیوں؟ اسلئے کہ بڑی منزل کے مسافر چھوٹا دل نہیں رکھتے ، کسی اور ب
✍️ *ابو المتبسّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-
👈 انگریزی کا ایک مشھور جملہ ہے کہ " لکھنا ایک مسلسل تخلیق کا عمل ہے "۔ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے
کہ کبھی بھی آپ نے کسی تحریر لکھنے والے کو یک دم مشھور ہوتا نہیں دیکھا ہوگا۔ اس سفر میں " محرّر " کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ بڑی سے بڑی قربانی دینی ہوتی ہے۔ اس سفر کے اندر محرر کو اپنے مزاج کے خلاف لڑنا پڑتا ہے ، حالات سے لڑنا ہوتا ہے ، تنقیدوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ، اور اپنے آپ سے یہ کہنا ہوتا ہے کہ یہ کام میں کرونگا اور دنیا والوں کو کرکے دیکھائوں گا۔ کیونکہ لکھنا ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے یہ ایسا جنون ہے کہ جسے نبھانا صرف مشکل نہیں بلکہ بے حد مشکل ہے۔ جب محرّر کو تحریر کا جنون ہوگا تبھی جاکر وہ ایک اچھا محرّر بنے گا ۔
👈 اسی طرح جب صحافی کو صحافت کرنے کا شوق ہوگا تب جاکر وہ ایک اچھا اور بہترین صحافی بننے میں کامیاب ہو گا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ " راہ علم کا سفر آسان نہیں مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دشواریاں منزل تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتیں "۔ شوق بندے کو ناممکن سے ممکن کام کرا دیتا ہے۔ جیسا کہ " ہیلن کیلر " اس عورت نے تقریبا 12 کتابیں لکھیں۔ اور 40 ممالک کا سفر کیا۔ یہ وہ عورت ہے جس کی
نہ آنکھیں ہیں ،
نہ زبان ہے ،
نہ کان ہیں ،
عورت بہری و گونگی و اندھی ہے۔ اس عورت نے لمس زبان ( چُھونے ) کے ذریعے اتنا بڑا کام کیا۔ جب یہ عورت اتنا بڑا کام کرسکتی ہے ۔ تو ایک
آنکھ والا 👁️
زبان والا 👅
کان والا 👂
کیوں نہیں کر سکتا ؟
کیوں نہیں صحافی بن سکتا ؟
کیوں نہیں محرّر بن سکتا ؟
بس بات صرف دل ❤️ کی ہے جو بندہ دل سے کام کرتا ہے وہ بندہ کامیاب ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ جس شخص نے اپنے آپ کو منوایا کہ میں یہ کرونگا اور لوگوں کو دیکھلائو گا۔ تو ایسے بندے کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایک مشھور کہاوت ہے کہ
لنگڑا بھی کام کرسکتا ہے ،
اندھا بھی کام کر سکتا ہے ،
لیکن دل کا ٹوٹا ہوا کبھی کام نہیں کرسکتا۔ اسلئے جو کام کریں دل سے کریں ۔
👈 بعض محرّرین کہتے ہیں کہ ہماری تحریر شائع نہیں ہوتی ، اور بعض کہتے ہیں کہ ہماری تحریر شائع تو ہوتی ہے لیکن ہر دل عزیز نہیں بنتی۔ اے گروہِ محرّیرین ایک بات کان کھول کر سن لیں کہ اگر آپ تھوڑا سا بھی غور و فکر کریں گے تو یہ بات آپ کے سامنے آجائے گی کہ دنیا کی کوئی بھی چیز اصول و قواعد کے بغیر نہیں چل رہی، ہر ایک کے مختلف قوانین و ضوابط ہیں ، سوائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کہ یہ بغیر نظام کے چل رہی ہے ۔
👈 دوسری بات یہ ہے کہ جب ایک چیز قاعدے و قانون کے مطابق ہوتی ہے۔ تو وہ کامیابی و صحیح انداز سے چلتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح " تحریر کا ہر دل عزیز بننے " کیلئے اور"محرّر" کے کچھ اصول ہیں ۔
👈 تو اسی کے متعلق میں اس مقالے میں محرّر کے ایسے " *11* " اصول لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
جس سے محرّر کی تحریر ہر دل عزیز اور مقبول ہو گی :-
1️⃣ کثیر مطالعہ: جب مقالہ لکھنے والے کے پاس زیادہ سے زیادہ مطالعہ ہوگا تو محرّر ایک خوبصورت تحریر لکھنے میں کامیاب ہو گا۔ اور اپنی تحریر میں ایسے ایسے لفظوں کا استعمال کرے گا جس سے لوگوں کی دل مقالے کی طرف مائل ہوں گی ۔
2️⃣ نیاپن: محرر کوشش کرے کہ اپنی تحریر میں جدت پیدا کرے ایک نیا پن اپنائے۔ اور مقالہ ایک نئ جہت اور ایک نئے نقطہ نظر سے تحریر کرے۔
3️⃣ مشاہدات کو بیان کرنا: اُس محرّر کی تحریر کامیاب ہے جس محرّر کو اپنے مشاہدات و تجربات کا لفظوں میں بیان کرنے کا ملکہ حاصل ہے۔ جیسا کہ 7 دوست سیر کرنے کیلئے کسی شہر چلے گئے۔ واپسی پر 7 دوستوں میں سے ایک دوست نے کتاب لکھ ڈالی اس کتاب میں اس شخص نے وہ باتیں لکھیں جو اس نے اس سفر میں مشاہدے کیے تھے۔ وہ تحریر کر ڈالیں۔ آپ تھوڑا سا غور کریں گے تو یہ بات آپ کے سامنے آجائے گی کہ اس محرّر کو وقت کا احساس تھا ، لوگوں کا احساس تھا ، اپنا احساس تھا ، تبھی جاکر اس نے اپنے مشاہدات و تجربات کو لفظوں میں بیان کیے۔ تاکہ لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔
4️⃣ قوت برداشت: جب ایک محرّر تحریر لکھتا ہے تو اس کے خلاف باتیں اٹھتی ہیں ، اس محرّر پر لوگ تنقیدیں کرتے ہیں ، اعتراضات کرتے ہیں ، اور محرّر کے اس سفر میں لوگ رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ پتہ نہیں لوگ اس محرّر کے خلاف کیا سے کیا کرتے ہیں۔
👈 اے محرّر ایک بات یاد رکھ کہ " اگر کبھی مقصد میں ناکام ہوجائیں تو مایوس نہ ہوں کیونکہ کسی بھی کتاب میں نہیں لکھا ہے کہ پیروں میں قیمتی جوتے نہ ہوں تو آپ چلنا چھوڑ دیں " اسی طرح کسی اور نے بھی کیا خوب لکھا ہے کہ زندگی میں جب آپ ٹوٹنے لگیں تو صبر رکھنا۔ کیونکہ نکھرتے وہی ہیں جو پہلے بکھرتے ہیں۔ اگر کبھی کوئی آپ کو بُرا بھلا کہے تو آپ صبر رکھیں۔ دل چھوٹا نہ کریں۔ پتہ ہے کیوں؟ اسلئے کہ بڑی منزل کے مسافر چھوٹا دل نہیں رکھتے ، کسی اور ب
ندے نے ایک بات لکھی کہ اگر آپ اچھا ''ناصح'' ''بانی'' بننے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہش مند ہیں تو الفاظ کی چوٹ سہنا سیکھیں۔
5️⃣ حقیقت پسند: محرّر جب بھی کوئی بات تحریر کرے تو حق و سچ بیان کرے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی بیان نہ کرے۔ کیونکہ ایک تحقیق کے مطابق ایک مقبول محرّر اور ناکام محرّر میں فرق صرف " حق و سچ " کا ہے۔ کتنا ہی مشکل وقت کیوں نہ آئے لیکن سچ بیان کریں۔ کیونکہ ایک قول ملتا ہے کہ "مشکل وقت کوشش سے نہیں نکلتا بلکہ یقین سے نکلتا ہے "۔
6️⃣ حال کو غنیمت جاننا: اے محرّر جو وقت آپ کے پاس ہے اس کو غنیمت جان کر اسی وقت میں لکھنا شروع کریں۔ کل کا انتظار نہ کریں۔کیونکہ شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا قول ہے کہ " جو کہتا ہے کہ یہ کام کل کرونگا ، تو اس کی کل آتی بھی نہیں "۔ اسی طرح کسی اور نے بھی کیا خوب بات ارشاد فرمائی ہے کہ "ماضی غموں سے بھرا ہوا ہے اور مستقبل خوف سے بھرا ہوا ہے اس لئے جو حال میں وقت آپ کے پاس میسر ہے اسی وقت میں قلم اٹھائو اور لکھنا شروع کرو۔ کل کا انتظار نہ کرو۔
👈 اے محرّر کام کر کے دنیا والوں کو دیکھائوں کیونکہ ہر مخالفت کا جواب کام ہے۔ کیونکہ نیند سے عشق کی عادت سر بلند لوگوں کو بلندی سے گرا دیتی ہے اور کام سے عشق کی عادت زمین بوس لوگوں کو بلندی سے سرفراز دیتی ہے۔
7️⃣ حُسن ترتیب: محرّر کو چاہیے کہ جملوں کو ایک اچھے انداز سے ترتیب دے ، اور ایک خوبصورت طریقے سے لکھنے کی کوشش کرے ۔
8️⃣ قواعد کا علم ہونا: محرّر جس زبان میں مقالہ لکھ رہا ہے اس زبان کے قواعد کا علم ہونا بے حد ضروری ہے ۔
9️⃣ مختصرا لکھنا: ایک نظریے کے مطابق اُس محرّر کی تحریر مقبول ہوتی ہے جو اپنا مقصد مختصر لفظوں میں بیان کرتا ہے۔ اور طوالت سے بچتا ہے۔ محرّر کی زیادہ سے زیادہ یہ کوشش رہے کہ اپنا مقصد بھی بیان کرے اور طویل بھی نہ ہو ۔
0️⃣1️⃣ رضاء الٰہی: جب محرّر کوئ تحریر لکھے تو یہ نیت کرے کہ اس تحریر کے ذریعے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرونگا۔کیونکہ " جس طرح علم کا پھول کبھی نہیں مُرجھاتا ، اسی طرح نیک نیتی سے کیا گیا عمل کبھی نقصان نہیں پہنچاتا "۔
1️⃣1️⃣ عنوان: عنوان ایسا سلیکٹ کریں کہ قارئین کو جس سے دلچسپی پیدا ہو :-
👈 آخر میں ان تمام تر باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ " محرّر جب بھی کوئ تحریر لکھے تو دل سے لکھے کیونکہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے۔ قطع نظر سہولیات کے کہ سہولیات ہیں یا نہیں ؟
لفظوں کا ذخیرہ ہے یا نہیں ؟
لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گیے کیا نہیں کہیں گیے ؟
ان سب باتوں سے خالی ہو کر جو دردِ دل سے تحریر لکھتا ہے وہ مقبول اور ہر دل عزیز بنتی ہے :-
5️⃣ حقیقت پسند: محرّر جب بھی کوئی بات تحریر کرے تو حق و سچ بیان کرے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی بیان نہ کرے۔ کیونکہ ایک تحقیق کے مطابق ایک مقبول محرّر اور ناکام محرّر میں فرق صرف " حق و سچ " کا ہے۔ کتنا ہی مشکل وقت کیوں نہ آئے لیکن سچ بیان کریں۔ کیونکہ ایک قول ملتا ہے کہ "مشکل وقت کوشش سے نہیں نکلتا بلکہ یقین سے نکلتا ہے "۔
6️⃣ حال کو غنیمت جاننا: اے محرّر جو وقت آپ کے پاس ہے اس کو غنیمت جان کر اسی وقت میں لکھنا شروع کریں۔ کل کا انتظار نہ کریں۔کیونکہ شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا قول ہے کہ " جو کہتا ہے کہ یہ کام کل کرونگا ، تو اس کی کل آتی بھی نہیں "۔ اسی طرح کسی اور نے بھی کیا خوب بات ارشاد فرمائی ہے کہ "ماضی غموں سے بھرا ہوا ہے اور مستقبل خوف سے بھرا ہوا ہے اس لئے جو حال میں وقت آپ کے پاس میسر ہے اسی وقت میں قلم اٹھائو اور لکھنا شروع کرو۔ کل کا انتظار نہ کرو۔
👈 اے محرّر کام کر کے دنیا والوں کو دیکھائوں کیونکہ ہر مخالفت کا جواب کام ہے۔ کیونکہ نیند سے عشق کی عادت سر بلند لوگوں کو بلندی سے گرا دیتی ہے اور کام سے عشق کی عادت زمین بوس لوگوں کو بلندی سے سرفراز دیتی ہے۔
7️⃣ حُسن ترتیب: محرّر کو چاہیے کہ جملوں کو ایک اچھے انداز سے ترتیب دے ، اور ایک خوبصورت طریقے سے لکھنے کی کوشش کرے ۔
8️⃣ قواعد کا علم ہونا: محرّر جس زبان میں مقالہ لکھ رہا ہے اس زبان کے قواعد کا علم ہونا بے حد ضروری ہے ۔
9️⃣ مختصرا لکھنا: ایک نظریے کے مطابق اُس محرّر کی تحریر مقبول ہوتی ہے جو اپنا مقصد مختصر لفظوں میں بیان کرتا ہے۔ اور طوالت سے بچتا ہے۔ محرّر کی زیادہ سے زیادہ یہ کوشش رہے کہ اپنا مقصد بھی بیان کرے اور طویل بھی نہ ہو ۔
0️⃣1️⃣ رضاء الٰہی: جب محرّر کوئ تحریر لکھے تو یہ نیت کرے کہ اس تحریر کے ذریعے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرونگا۔کیونکہ " جس طرح علم کا پھول کبھی نہیں مُرجھاتا ، اسی طرح نیک نیتی سے کیا گیا عمل کبھی نقصان نہیں پہنچاتا "۔
1️⃣1️⃣ عنوان: عنوان ایسا سلیکٹ کریں کہ قارئین کو جس سے دلچسپی پیدا ہو :-
👈 آخر میں ان تمام تر باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ " محرّر جب بھی کوئ تحریر لکھے تو دل سے لکھے کیونکہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے۔ قطع نظر سہولیات کے کہ سہولیات ہیں یا نہیں ؟
لفظوں کا ذخیرہ ہے یا نہیں ؟
لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گیے کیا نہیں کہیں گیے ؟
ان سب باتوں سے خالی ہو کر جو دردِ دل سے تحریر لکھتا ہے وہ مقبول اور ہر دل عزیز بنتی ہے :-
. ♾ *زندگی کو بدلنا پڑے گا* ♾
👈 ایک تحقیق کے مطابق جب عقاب کی عمر 70 سال کے قریب ہوتی ہے اس عمر تک پہنچنے کے لیے اسے سخت مشکلات سے گزرنا ہوتا ہے جب اس کی عمر 40 سال ہوتی ہے تو اس کے پنچے کمزور ہو جاتے ہیں جس سے وہ شکار نہیں کر پاتا اِسی طرح اس کی مظبوط چونچ بھی عمر کے بڑھنے سے شدید ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔
👈 اس کے پر جس سے وہ پرواز کرتا ہے بہت بھاری ہو جاتے ہیں اور سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے اڑان بھرنے میں اسے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سب مشکلات کے ہوتے ہوے اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ موت کو تسلیم کر لے یا پھر 150 دن کی سخت ترین مشقت کیلئے تیار ہو جائے۔
👈 چنانچہ وہ پہاڑوں میں جاتا ہے اور سب سے پہلے اپنی چونچ کو پتھروں پہ مارتا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جاتی ہے کچھ دنوں کے بعد جب نئی چونچ نکلتی ہے تو وہ اس سے اپنے سارے ناخن جڑ سے کاٹ پھینکتا ہے پھر جب اس کے نئے ناخن نکل آتے ہیں تو وہ چونچ اور ناخن سے اپنا ایک ایک بال اکھاڑ دیتا ہے اس سارے عمل میں اسے پانچ ماہ کی طویل تکلیف اور مشقت سے گزرنا ہوتا ہے پانچ ماہ بعد جب وہ اڑان بھرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہو۔ تو اس طرح پھر وہ 30 سال مزید زندہ رہ پاتا ہے۔
👈 اے میرے محترم بھائیو!! عقاب کی زندگی اور ان ساری باتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بعض دفعہ ہمارے لیے اپنی زندگی کو بدلنا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ ہم اس سے بہتر زندگی گزار سکیں اگرچہ اس زندگی کو بدلنے کے لیے ہمیں سخت جد و جہد کیوں نہ کرنی پڑے۔
👈 ایک بات یاد رکھنا!! ستارے ہمیشہ تاریکی ہی میں چمکتے ہیں۔ بس آپ کوشش کریں ، ہمت کریں ، محنت سخت کریں ، یقین پختہ رکھیں ان شاء اللہ عزوجل کامیابی آپ کے قدم چومے گی :-
✍ *ابو المتبسم ایاز احمد عطاری*:-
📲 *03128065131*:-
👈 ایک تحقیق کے مطابق جب عقاب کی عمر 70 سال کے قریب ہوتی ہے اس عمر تک پہنچنے کے لیے اسے سخت مشکلات سے گزرنا ہوتا ہے جب اس کی عمر 40 سال ہوتی ہے تو اس کے پنچے کمزور ہو جاتے ہیں جس سے وہ شکار نہیں کر پاتا اِسی طرح اس کی مظبوط چونچ بھی عمر کے بڑھنے سے شدید ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔
👈 اس کے پر جس سے وہ پرواز کرتا ہے بہت بھاری ہو جاتے ہیں اور سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے اڑان بھرنے میں اسے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سب مشکلات کے ہوتے ہوے اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ موت کو تسلیم کر لے یا پھر 150 دن کی سخت ترین مشقت کیلئے تیار ہو جائے۔
👈 چنانچہ وہ پہاڑوں میں جاتا ہے اور سب سے پہلے اپنی چونچ کو پتھروں پہ مارتا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جاتی ہے کچھ دنوں کے بعد جب نئی چونچ نکلتی ہے تو وہ اس سے اپنے سارے ناخن جڑ سے کاٹ پھینکتا ہے پھر جب اس کے نئے ناخن نکل آتے ہیں تو وہ چونچ اور ناخن سے اپنا ایک ایک بال اکھاڑ دیتا ہے اس سارے عمل میں اسے پانچ ماہ کی طویل تکلیف اور مشقت سے گزرنا ہوتا ہے پانچ ماہ بعد جب وہ اڑان بھرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہو۔ تو اس طرح پھر وہ 30 سال مزید زندہ رہ پاتا ہے۔
👈 اے میرے محترم بھائیو!! عقاب کی زندگی اور ان ساری باتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بعض دفعہ ہمارے لیے اپنی زندگی کو بدلنا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ ہم اس سے بہتر زندگی گزار سکیں اگرچہ اس زندگی کو بدلنے کے لیے ہمیں سخت جد و جہد کیوں نہ کرنی پڑے۔
👈 ایک بات یاد رکھنا!! ستارے ہمیشہ تاریکی ہی میں چمکتے ہیں۔ بس آپ کوشش کریں ، ہمت کریں ، محنت سخت کریں ، یقین پختہ رکھیں ان شاء اللہ عزوجل کامیابی آپ کے قدم چومے گی :-
✍ *ابو المتبسم ایاز احمد عطاری*:-
📲 *03128065131*:-
*⚡اسلام سے پہلے کا ہندوستان⚡*
✍🏻تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
یہ سب بچے کہاں ہیں ؟ کوئی شورو غل نہیں مچا رہا۔۔۔نائلہ نے کہا ۔
اکیسویں صدی ہے ممکن ہے ہمارے عہد کے بچے تمیز دار ہو چکے ہوں ۔شمائلہ نے نائلہ کو جواب دیا۔
صدی کوئی بھی ہو بچے تو بچے ہی ہو تے ہیں میری بچیو! نانی جان نے اپنی دونوں بڑی نواسیوں سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اسی دوران تمام بچوں نے گھر میں داخل ہو تے ہوئے کہا ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اوہو!!! تو بچوں کی یہ پوری جماعت ، باجماعت نماز پڑھنے مسجد گئی ہوئی تھی ۔نائلہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
جی جی ۔۔۔
میں اور تمام بچے وہیں لاؤنج میں بیٹھ گئے ۔
ہاں بھئی شہزاد ! آپ کے کچھ مزید سوالات تھے ؟ میں نے شہزاد کی طرف دیکھتے ہوئے ۔
نانا جان ! ہماری مس نے بتایا تھا کہ ہندوستان، روم ، ایران،یونان ،مصر اور عرب اپنے وقت کی بہت بڑی طاقتیں تھیں اور تہذیب یافتہ سمجھی جاتی تھیں ۔
میرے بچو! تمہیں ایک کہانی سُناتا ہوں ۔
کہانی ! سب بچوں نے ایک ساتھ کہا تو نائلہ اور شمائلہ بھی کہانی سننے کے اشتیاق میں وہیں صوفے پر ساتھ بیٹھ گئیں ۔
ہاں !کہانی ۔
ایک جنگل میں ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا ایک دن اسے خیال آیا کیوں نا وہ بادشاہ سے جا کر ملے ۔
گھر پہنچ کر اس نےاپنی بیوی سے کہا : نیک بخت ! میں چاہتا ہوں کہ بادشاہ سے ملاقات کروں ۔
بیوی نے کہا: یہ تو بہت اچھی بات ہے تم ملاقات کر لو ۔
اس آدمی نے کہا: لیکن نیک بخت ایک مسئلہ ہے ۔
بیوی نے پوچھا : کیا مسئلہ ہے ؟
اس آدمی نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ بادشاہ کے پاس جاؤں تو کیا لے کر جاؤں ؟ کیونکہ خالی ہاتھ جانا تومناسب معلوم نہیں ہوتا۔
بیوی نے کہا : ہاں یہ تو ٹھیک ہے تو کوئی چیز لےجاؤ۔
اس نے کہا: یہ ہی تو مسئلہ ہے لے کر کیا جاؤں ،بادشاہ کے پاس تو ہر چیز موجود ہوتی ہے کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے جو بادشاہ نے نہ دیکھی ہو کبھی استعمال نہ کی ہو وہ اس کو دیکھے اور استعمال کرے تو خوش ہوجائے ۔
بیوی نے کہا : یہ بھی ٹھیک ہے۔
اس آدمی نے کہا : نیک بخت !یہ بھی ٹھیک اور یہ بھی ٹھیک ہے یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، پر لے کر کیا جاؤں یہ سمجھ نہیں آرہا۔
بیوی نے کہا : میرے سرتاج ! آپ ایسا کیجیے کہ ہمارے تالاب میں بارش کا جو ٹھنڈا اور میٹھا پانی جمع ہے اسے بادشاہ کے پاس تحفۃً لے جائیے ایسا میٹھا اور ٹھنڈا پانی تو پورے ملک میں کہیں نہیں ہو گا۔
آدمی نے سوچا : نیک بخت یہ تو،تونے اچھا مشورہ دیا میں کل ہی بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہو جاتا ہوں ۔
آدمی نے تالاب میں جمع بارش کے پانی سے گھڑا بھرا اور بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گیا پرانا زمانہ تھا گھوڑے کا سفر تھا کئی دنوں کا سفر کرکے وہ بادشاہ کے محل کےپاس پہنچا اور دربانوں سے کہا وہ بہت دور سے آیا ہے اور بادشاہ کے لیے بہت قیمتی تحفہ لایا ہے ۔
تو کیا دربانوں نے اسے اندر جانے دیا۔دانش نے پوچھا
ہاں ہاں تو دربانوں نے بادشاہ سے اجازت لی اور اس شخص کو دربار میں جانے کی اجازت میں گئی ۔
اس نے بادشاہ سے کہا : بادشاہ سلامت ! میں آپ کے لیے دنیا کا بہترین اور میٹھا پانی لے کر حاضر ہوا ہوں ایساپانی جوپورے ملک میں کہیں نہیں ہے ۔
بادشاہ کے وزیر نے گھڑے پر سے کپڑا ہٹایا تو اسے ایک دم پانی میں بدبو محسوس ہو ئی ۔
وہ کیوں ؟دانش نے پوچھا ۔
ارے بھئی کئی دن کا پرانا اور تالاب کا پانی بدبو تو آئے گی نا ! کہانی سننے دو۔شہزاد نے کہا۔
میں نے دونوں بچوں کو مسکرا کر دیکھا اور کہا : ہاں تو بدبو کی وجہ سے وزیر نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا اور رحم دل بادشاہ سمجھ گیا کہ غریب دیہاتی بارش کا پانی جمع کر کے لے آیا اس نے کیوں کہ میٹھا پانی کبھی پیا ہی نہیں وہ اسی کو سب سےزیادہ میٹھا پانی سمجھتا ہےبادشاہ نے انگلی کے اشارے سے وزیر کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور وزیر سے کہا: اس پانی کواس گھڑے سےنکال کر اس گھڑے کو ہیرے جواہرات سے بھر دو۔
حکم کی تعمیل ہوئی ۔
اس کے بعد بادشاہ نےوزیر سے کہا : جب یہ جانے لگے تو اس کو ان چشموں سے گزار کر لے جانا جہاں سے ہمارے محل میں میٹھا پانی آتا ہے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ ہم نے اس کا تحفہ پھر بھی قبول کر لیا۔
نانا جان سانس لینےکے لیے روکے تو دانش نےبے تابی سےپوچھا: پھر کیا ہوا؟
پھر یہ ہوا کہ واپسی پر جب اسے چشمے کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی پلایا تو اسے اندازا ہو ا کہ بادشاہ کتنا اچھا آدمی تھا کہ اس نےا س کے حقیر تحفے کو قبول کر کے اسے انعام بھی دیا۔اس آدمی کے دل میں اپنے بادشاہ سے اور بھی محبت بڑھ گئی ۔
بالکل ایسے ہی ہندوستان ، ایران ، یونان ، مصر اور روم کی سلطنتیں اسلام سے قبل اپنے اپنے زمانے میں خود کواس دیہاتی کی طرح ہی سمجھتی تھیں ۔
✍🏻تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
یہ سب بچے کہاں ہیں ؟ کوئی شورو غل نہیں مچا رہا۔۔۔نائلہ نے کہا ۔
اکیسویں صدی ہے ممکن ہے ہمارے عہد کے بچے تمیز دار ہو چکے ہوں ۔شمائلہ نے نائلہ کو جواب دیا۔
صدی کوئی بھی ہو بچے تو بچے ہی ہو تے ہیں میری بچیو! نانی جان نے اپنی دونوں بڑی نواسیوں سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اسی دوران تمام بچوں نے گھر میں داخل ہو تے ہوئے کہا ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اوہو!!! تو بچوں کی یہ پوری جماعت ، باجماعت نماز پڑھنے مسجد گئی ہوئی تھی ۔نائلہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
جی جی ۔۔۔
میں اور تمام بچے وہیں لاؤنج میں بیٹھ گئے ۔
ہاں بھئی شہزاد ! آپ کے کچھ مزید سوالات تھے ؟ میں نے شہزاد کی طرف دیکھتے ہوئے ۔
نانا جان ! ہماری مس نے بتایا تھا کہ ہندوستان، روم ، ایران،یونان ،مصر اور عرب اپنے وقت کی بہت بڑی طاقتیں تھیں اور تہذیب یافتہ سمجھی جاتی تھیں ۔
میرے بچو! تمہیں ایک کہانی سُناتا ہوں ۔
کہانی ! سب بچوں نے ایک ساتھ کہا تو نائلہ اور شمائلہ بھی کہانی سننے کے اشتیاق میں وہیں صوفے پر ساتھ بیٹھ گئیں ۔
ہاں !کہانی ۔
ایک جنگل میں ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا ایک دن اسے خیال آیا کیوں نا وہ بادشاہ سے جا کر ملے ۔
گھر پہنچ کر اس نےاپنی بیوی سے کہا : نیک بخت ! میں چاہتا ہوں کہ بادشاہ سے ملاقات کروں ۔
بیوی نے کہا: یہ تو بہت اچھی بات ہے تم ملاقات کر لو ۔
اس آدمی نے کہا: لیکن نیک بخت ایک مسئلہ ہے ۔
بیوی نے پوچھا : کیا مسئلہ ہے ؟
اس آدمی نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ بادشاہ کے پاس جاؤں تو کیا لے کر جاؤں ؟ کیونکہ خالی ہاتھ جانا تومناسب معلوم نہیں ہوتا۔
بیوی نے کہا : ہاں یہ تو ٹھیک ہے تو کوئی چیز لےجاؤ۔
اس نے کہا: یہ ہی تو مسئلہ ہے لے کر کیا جاؤں ،بادشاہ کے پاس تو ہر چیز موجود ہوتی ہے کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے جو بادشاہ نے نہ دیکھی ہو کبھی استعمال نہ کی ہو وہ اس کو دیکھے اور استعمال کرے تو خوش ہوجائے ۔
بیوی نے کہا : یہ بھی ٹھیک ہے۔
اس آدمی نے کہا : نیک بخت !یہ بھی ٹھیک اور یہ بھی ٹھیک ہے یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، پر لے کر کیا جاؤں یہ سمجھ نہیں آرہا۔
بیوی نے کہا : میرے سرتاج ! آپ ایسا کیجیے کہ ہمارے تالاب میں بارش کا جو ٹھنڈا اور میٹھا پانی جمع ہے اسے بادشاہ کے پاس تحفۃً لے جائیے ایسا میٹھا اور ٹھنڈا پانی تو پورے ملک میں کہیں نہیں ہو گا۔
آدمی نے سوچا : نیک بخت یہ تو،تونے اچھا مشورہ دیا میں کل ہی بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہو جاتا ہوں ۔
آدمی نے تالاب میں جمع بارش کے پانی سے گھڑا بھرا اور بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گیا پرانا زمانہ تھا گھوڑے کا سفر تھا کئی دنوں کا سفر کرکے وہ بادشاہ کے محل کےپاس پہنچا اور دربانوں سے کہا وہ بہت دور سے آیا ہے اور بادشاہ کے لیے بہت قیمتی تحفہ لایا ہے ۔
تو کیا دربانوں نے اسے اندر جانے دیا۔دانش نے پوچھا
ہاں ہاں تو دربانوں نے بادشاہ سے اجازت لی اور اس شخص کو دربار میں جانے کی اجازت میں گئی ۔
اس نے بادشاہ سے کہا : بادشاہ سلامت ! میں آپ کے لیے دنیا کا بہترین اور میٹھا پانی لے کر حاضر ہوا ہوں ایساپانی جوپورے ملک میں کہیں نہیں ہے ۔
بادشاہ کے وزیر نے گھڑے پر سے کپڑا ہٹایا تو اسے ایک دم پانی میں بدبو محسوس ہو ئی ۔
وہ کیوں ؟دانش نے پوچھا ۔
ارے بھئی کئی دن کا پرانا اور تالاب کا پانی بدبو تو آئے گی نا ! کہانی سننے دو۔شہزاد نے کہا۔
میں نے دونوں بچوں کو مسکرا کر دیکھا اور کہا : ہاں تو بدبو کی وجہ سے وزیر نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا اور رحم دل بادشاہ سمجھ گیا کہ غریب دیہاتی بارش کا پانی جمع کر کے لے آیا اس نے کیوں کہ میٹھا پانی کبھی پیا ہی نہیں وہ اسی کو سب سےزیادہ میٹھا پانی سمجھتا ہےبادشاہ نے انگلی کے اشارے سے وزیر کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور وزیر سے کہا: اس پانی کواس گھڑے سےنکال کر اس گھڑے کو ہیرے جواہرات سے بھر دو۔
حکم کی تعمیل ہوئی ۔
اس کے بعد بادشاہ نےوزیر سے کہا : جب یہ جانے لگے تو اس کو ان چشموں سے گزار کر لے جانا جہاں سے ہمارے محل میں میٹھا پانی آتا ہے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ ہم نے اس کا تحفہ پھر بھی قبول کر لیا۔
نانا جان سانس لینےکے لیے روکے تو دانش نےبے تابی سےپوچھا: پھر کیا ہوا؟
پھر یہ ہوا کہ واپسی پر جب اسے چشمے کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی پلایا تو اسے اندازا ہو ا کہ بادشاہ کتنا اچھا آدمی تھا کہ اس نےا س کے حقیر تحفے کو قبول کر کے اسے انعام بھی دیا۔اس آدمی کے دل میں اپنے بادشاہ سے اور بھی محبت بڑھ گئی ۔
بالکل ایسے ہی ہندوستان ، ایران ، یونان ، مصر اور روم کی سلطنتیں اسلام سے قبل اپنے اپنے زمانے میں خود کواس دیہاتی کی طرح ہی سمجھتی تھیں ۔
سب ہی بچے مسکرا دئیے ۔
ابو ریحان البیرونی ایک مسلم محقق اور سائنسدان گزرے ہیں انہوں نے ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ طویل عرصہ گزارا ان کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ان کی زبان سیکھی اور ان کے علوم سیکھے انہیں ہندوستان کے بڑے بڑے دانشور علم البحر یعنی علم کا سمندر کہتے تھے ،وہ لکھتےہیں ۔
ہندو اپنی نسلی ،علمی اور سیاسی برتری کے گھمنڈ میں اس طرح مبتلا ہیں کہ کسی کوخاطر میں نہیں لاتے اگر ان کو بتایا جائے کہ فلاں ملک میں فلاں بہت بڑے عالم ہیں تو وہ ایساکہنے والوں کو جھٹلاتے ہیں اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہو تے کہ ان کے علاوہ بھی دنیا میں کوئی عالم اور دانشور ہو سکتا ہے۔
نانا جان ! ایک سوال ! طلحہ نے کہا ۔
ہاں بھئی بالکل سوال پوچھیے ۔
البیرونی کا تعلق تو ہندوستان سے تھا بھی نہیں پھر وہ البیرونی کو "بحرالعلم "یعنی علم کا سمندر کیوں کہتے تھے ۔
شروع شروع میں البیرونی ان کے نجومیوں کے درس میں جاتا اور شاگردوں کی طرح خاموشی سے بیٹھا رہتاجب البیرونی کو ان کی زبان پر مکمل عبور حاصل ہو گیا تو اس نے اپنے ان نجومی استادوں سے سوالات شروع کر دئیے ۔۔۔
وہ نجومی البیرونی کے سوالات کے جوابات نہیں دے پاتے ان کے اوپر البیرونی کا علمی رعب طاری ہو گیا او راسی سبب سے وہ البیرونی کو بحر العلم (علم کاسمندر )کہنے لگے ۔
ابتدائی زمانے میں ہندوستان کے لوگ بھی تو حید کے قائل تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں گمراہی بڑھتی چلی گئی۔
وہ کیسے ؟شہزاد نے پوچھا۔
جیسےسیدنابراہیم علیہ السلام نے توحید کی دعوت دی تھی لیکن عرب کے لوگوں نے ان تعلیمات کو بھلا دیا اور بیت اللہ شریف تک میں بت لا کر رکھ دئیے اسی طرح ہندوستان میں بھی ہوا اور توحید کی تعلیم میں شیطان اور اس کے چیلوں نے شرک کی غلاظت شامل کر دی اور یہ بھی کئی خداؤں کی عبادت کرنے لگے۔
اب آپ خود بتائیے جن پتھروں کو وہ اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں انہیں خدا بھی جانتے ہیں ۔وہ تہذیب یافتہ قوم ہو سکتی ہے ؟
لیکن نانا جان ! جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو لبرل اور سیکولر یہ کہتے ہیں یہ تو ان کے مذہبی عقائد ہیں ۔۔۔شمائلہ نے گفتگو میں شریک ہوتے ہوئے کہا ۔
ہاں بیٹا ! بالکل ! مذہب کا تو انسانی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اچھا ہم ان کی معاشرتی زندگی اور مذہبی تعلیمات دیکھیں تو ہم اور اچھے طریقے سے ان کی تہذیب کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔
ہندوستان میں ذات پات کا نظام تو آج بھی نہیں سدھر سکا ان کے ہاں چار ذاتیں ہوتی ہیں معلوم ہیں آپ کو ؟ میں نے سوال کیا ۔
جی ہاں مجھے معلوم ہیں ۔ نائلہ نے کہا ۔
آپ کو کیسے معلوم ؟ طلحہ کو شاید جیلسی محسوس ہوئی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کا ہی مطالعہ اچھا ہے۔
ہماری یونیورسٹی میں پروفیسر عدنا ن صاحب ہیں وہ اکثر ہمیں تاریخ کے بارے میں اور اقوامِ عالم کے بارے میں بتاتے ہیں اس بارے میں بھی انہوں نے ہی بتایا تھا ۔نائلہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ۔
ہاں تو پھر بتائیے ہندوؤں میں یہ چار ذاتیں کون سی ہیں ؟ میں نے سوال کیا ۔
ہندوؤں کی چار ذاتیں یہ ہیں ۔
1۔ برہمن 2 ۔کھشتری 3۔ویش
4۔شودر
ان میں سب سے بڑی ، معتبر اور مقدس ذات برہمن مانی جاتی ہے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ برہمن ،برہما کے سر سے پیدا ہوئے ہیں دیوتاؤں کے چڑھاوے کے لیے یہ ہی مخصوص ہیں
کھشتری ملک کی حفاظت کے لیےہیں
ویش تجارت کے لیےہیں
اور شودر ان میں سب سے مظلوم طبقہ ہے جس کے لیے ہندو کہتے ہیں کہ یہ برہما کے پیروں سے پیدا ہوا ہے اور یہ صرف تینوں کی خدمت کے لیے ہے ۔۔ شودر ذات پر سب سے زیادہ ظلم کیےگئے ۔
واہ بھئی واہ ! مجھے تومعلوم ہی نہیں تھا میری نواسی کو بھی اتنی ساری معلومات ہیں ۔
لیکن نانا جان ! اتنی معلومات تو نہیں ہیں نا جتنی آپ کو ہے ۔۔۔نائلہ نے کہا ۔
بھئی عمر کے ساتھ ساتھ ہوجائےگی مگر آج کل کے بچوں کو تو یہ معلومات بھی نہیں ہوتیں ۔
نانا جان ! ویسے یہ ذات پات تو اچھی بات نہیں ہے ۔۔دانش نے کہا۔
اور قرآن نےتوبیان کیا ہے۔ طلحہ نے قرآں کریم کی آیت تلاوت کی ۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بےشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔
بھئی شاباش ماشاء اللہ !
الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ کا بہت شکر اور احسان ہے اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا ۔
ویسے نانا جان ! ان کا ذات پات کا نظام کیسا تھا؟ شہزاد نے پوچھا۔
ابو ریحان البیرونی ایک مسلم محقق اور سائنسدان گزرے ہیں انہوں نے ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ طویل عرصہ گزارا ان کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ان کی زبان سیکھی اور ان کے علوم سیکھے انہیں ہندوستان کے بڑے بڑے دانشور علم البحر یعنی علم کا سمندر کہتے تھے ،وہ لکھتےہیں ۔
ہندو اپنی نسلی ،علمی اور سیاسی برتری کے گھمنڈ میں اس طرح مبتلا ہیں کہ کسی کوخاطر میں نہیں لاتے اگر ان کو بتایا جائے کہ فلاں ملک میں فلاں بہت بڑے عالم ہیں تو وہ ایساکہنے والوں کو جھٹلاتے ہیں اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہو تے کہ ان کے علاوہ بھی دنیا میں کوئی عالم اور دانشور ہو سکتا ہے۔
نانا جان ! ایک سوال ! طلحہ نے کہا ۔
ہاں بھئی بالکل سوال پوچھیے ۔
البیرونی کا تعلق تو ہندوستان سے تھا بھی نہیں پھر وہ البیرونی کو "بحرالعلم "یعنی علم کا سمندر کیوں کہتے تھے ۔
شروع شروع میں البیرونی ان کے نجومیوں کے درس میں جاتا اور شاگردوں کی طرح خاموشی سے بیٹھا رہتاجب البیرونی کو ان کی زبان پر مکمل عبور حاصل ہو گیا تو اس نے اپنے ان نجومی استادوں سے سوالات شروع کر دئیے ۔۔۔
وہ نجومی البیرونی کے سوالات کے جوابات نہیں دے پاتے ان کے اوپر البیرونی کا علمی رعب طاری ہو گیا او راسی سبب سے وہ البیرونی کو بحر العلم (علم کاسمندر )کہنے لگے ۔
ابتدائی زمانے میں ہندوستان کے لوگ بھی تو حید کے قائل تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں گمراہی بڑھتی چلی گئی۔
وہ کیسے ؟شہزاد نے پوچھا۔
جیسےسیدنابراہیم علیہ السلام نے توحید کی دعوت دی تھی لیکن عرب کے لوگوں نے ان تعلیمات کو بھلا دیا اور بیت اللہ شریف تک میں بت لا کر رکھ دئیے اسی طرح ہندوستان میں بھی ہوا اور توحید کی تعلیم میں شیطان اور اس کے چیلوں نے شرک کی غلاظت شامل کر دی اور یہ بھی کئی خداؤں کی عبادت کرنے لگے۔
اب آپ خود بتائیے جن پتھروں کو وہ اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں انہیں خدا بھی جانتے ہیں ۔وہ تہذیب یافتہ قوم ہو سکتی ہے ؟
لیکن نانا جان ! جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو لبرل اور سیکولر یہ کہتے ہیں یہ تو ان کے مذہبی عقائد ہیں ۔۔۔شمائلہ نے گفتگو میں شریک ہوتے ہوئے کہا ۔
ہاں بیٹا ! بالکل ! مذہب کا تو انسانی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اچھا ہم ان کی معاشرتی زندگی اور مذہبی تعلیمات دیکھیں تو ہم اور اچھے طریقے سے ان کی تہذیب کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔
ہندوستان میں ذات پات کا نظام تو آج بھی نہیں سدھر سکا ان کے ہاں چار ذاتیں ہوتی ہیں معلوم ہیں آپ کو ؟ میں نے سوال کیا ۔
جی ہاں مجھے معلوم ہیں ۔ نائلہ نے کہا ۔
آپ کو کیسے معلوم ؟ طلحہ کو شاید جیلسی محسوس ہوئی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کا ہی مطالعہ اچھا ہے۔
ہماری یونیورسٹی میں پروفیسر عدنا ن صاحب ہیں وہ اکثر ہمیں تاریخ کے بارے میں اور اقوامِ عالم کے بارے میں بتاتے ہیں اس بارے میں بھی انہوں نے ہی بتایا تھا ۔نائلہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ۔
ہاں تو پھر بتائیے ہندوؤں میں یہ چار ذاتیں کون سی ہیں ؟ میں نے سوال کیا ۔
ہندوؤں کی چار ذاتیں یہ ہیں ۔
1۔ برہمن 2 ۔کھشتری 3۔ویش
4۔شودر
ان میں سب سے بڑی ، معتبر اور مقدس ذات برہمن مانی جاتی ہے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ برہمن ،برہما کے سر سے پیدا ہوئے ہیں دیوتاؤں کے چڑھاوے کے لیے یہ ہی مخصوص ہیں
کھشتری ملک کی حفاظت کے لیےہیں
ویش تجارت کے لیےہیں
اور شودر ان میں سب سے مظلوم طبقہ ہے جس کے لیے ہندو کہتے ہیں کہ یہ برہما کے پیروں سے پیدا ہوا ہے اور یہ صرف تینوں کی خدمت کے لیے ہے ۔۔ شودر ذات پر سب سے زیادہ ظلم کیےگئے ۔
واہ بھئی واہ ! مجھے تومعلوم ہی نہیں تھا میری نواسی کو بھی اتنی ساری معلومات ہیں ۔
لیکن نانا جان ! اتنی معلومات تو نہیں ہیں نا جتنی آپ کو ہے ۔۔۔نائلہ نے کہا ۔
بھئی عمر کے ساتھ ساتھ ہوجائےگی مگر آج کل کے بچوں کو تو یہ معلومات بھی نہیں ہوتیں ۔
نانا جان ! ویسے یہ ذات پات تو اچھی بات نہیں ہے ۔۔دانش نے کہا۔
اور قرآن نےتوبیان کیا ہے۔ طلحہ نے قرآں کریم کی آیت تلاوت کی ۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بےشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔
بھئی شاباش ماشاء اللہ !
الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ کا بہت شکر اور احسان ہے اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا ۔
ویسے نانا جان ! ان کا ذات پات کا نظام کیسا تھا؟ شہزاد نے پوچھا۔
اور یہ شودر پر کیا ظلم کرتے تھے ؟طلحہ نے سوال کیا ۔
باقی باتیں اب کل ۔۔۔ان شاء اللہ ۔
*بچوں کے لیے ایسی کتابیں جن کی والدین کو ہمیشہ تلاش رہتی ہے*
سنہری سیریز یعنی 6 کتابیں1500 روپے میں فری ہوم ڈیلیوری
ابھی آرڈر کیجیے*03082462723* فہیم بھائی
باقی باتیں اب کل ۔۔۔ان شاء اللہ ۔
*بچوں کے لیے ایسی کتابیں جن کی والدین کو ہمیشہ تلاش رہتی ہے*
سنہری سیریز یعنی 6 کتابیں1500 روپے میں فری ہوم ڈیلیوری
ابھی آرڈر کیجیے*03082462723* فہیم بھائی
ایسا شخص فضول اور احمق ہے
امامِ ربانی حضرت مجدّد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ " مکتوبات شریف " جلد اوّل ، مکتوب نمبر 22 میں فرماتے ہیں :
(( کسے کہ حضرت علی را افضل از حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنھما گوید از جرکہ ومسلکہ اہل سنت می بر آید اجماع سلف بر افضلیۃ حضرت صدیق بر جمیع بشر بعد انبیاء علیھم الصلوة والتسلیم منعقد گشتہ است احمقی باشد کہ توھم خرق این اجماع نماید ))
ترجمہ : جو شخص سیدنا علی پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل اور بہتر جانے وہ اہلِ سُنت و جماعت سے خارج ہو جاتا ہے ـ اس بات پر اسلاف کا اجماع منعقد ہے کہ حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انبیاے کرام علیھم السلام کے بعد تمام انسانوں سے افضل ہیں ـ اس اجماع کا مخالف بڑا احمق ہے ـ
ہمارے زمانے کے تفضیلی جب دلائل میں اپنا عِجز دیکھتے ہیں کہ " افضلیتِ صدیقِ اکبر " تو اجماعی قطعی مسئلہ ہے تو اس کو مذہبِ جمہور اور ظنی بنانے کی بھونڈی کوشش کرتے ہیں اور بعض تو یہ کہتے ہوئے بھی سُنائی دیتے ہیں کہ یہ چاروں ( خلفاے اربعہ : سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم ) ہی افضل ہیں ان میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں دینی چاہیے ہم سے اس کا بہ روزِ حشر سوال نہیں ہو گا ......... اور وہ افضلیت کے مدارج کو فضول سمجھتے ہیں ـ اور پیشِ نظر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی سارے صحابہ سے افضل جاننا ہوتا ہے ـ ایسوں کے لیے سیدنا مجدّد پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکتوب نمبر 266 کا اقتباس پیشِ خدمت ہے :
(( وآنکہ خلفاء اربعۃ را برابر داند وفضل یکی بردیگری فضولی انگارد بوالفضولی است عجب بوالفضولی کہ اجماع اہل حق را فضولی داند ))
ترجمہ : جو شخص خلفاے اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کو برابر جانے اور ان کے درمیان ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے کو فضول سمجھے وہ خود بڑا فضول اور احمق ہے ـ کتنا عجیب ابوالفضول ہے وہ شخص جو اہلِ حق کے اجماع کو فضول سمجھتا ہے ـ
اللہ پاک ہم اھل السنۃ والجماعۃ کو مسئلہءِ افضیلتِ صدیق پر مستقیم فرمائے اور اس کا خوب پرچار کر کے سُنیوں کے حفظِ عقیدہ کی توفیق نصیب فرمائے ـــ اٰمین ، اٰمین ثم اٰمین
✏ حسن رضا مشرّف قادری
١٤ جمادی الاخریٰ ، ١٤٤٢ ھ
28 جنوری ، 2021 ء / جمعرات
امامِ ربانی حضرت مجدّد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ " مکتوبات شریف " جلد اوّل ، مکتوب نمبر 22 میں فرماتے ہیں :
(( کسے کہ حضرت علی را افضل از حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنھما گوید از جرکہ ومسلکہ اہل سنت می بر آید اجماع سلف بر افضلیۃ حضرت صدیق بر جمیع بشر بعد انبیاء علیھم الصلوة والتسلیم منعقد گشتہ است احمقی باشد کہ توھم خرق این اجماع نماید ))
ترجمہ : جو شخص سیدنا علی پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل اور بہتر جانے وہ اہلِ سُنت و جماعت سے خارج ہو جاتا ہے ـ اس بات پر اسلاف کا اجماع منعقد ہے کہ حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انبیاے کرام علیھم السلام کے بعد تمام انسانوں سے افضل ہیں ـ اس اجماع کا مخالف بڑا احمق ہے ـ
ہمارے زمانے کے تفضیلی جب دلائل میں اپنا عِجز دیکھتے ہیں کہ " افضلیتِ صدیقِ اکبر " تو اجماعی قطعی مسئلہ ہے تو اس کو مذہبِ جمہور اور ظنی بنانے کی بھونڈی کوشش کرتے ہیں اور بعض تو یہ کہتے ہوئے بھی سُنائی دیتے ہیں کہ یہ چاروں ( خلفاے اربعہ : سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم ) ہی افضل ہیں ان میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں دینی چاہیے ہم سے اس کا بہ روزِ حشر سوال نہیں ہو گا ......... اور وہ افضلیت کے مدارج کو فضول سمجھتے ہیں ـ اور پیشِ نظر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی سارے صحابہ سے افضل جاننا ہوتا ہے ـ ایسوں کے لیے سیدنا مجدّد پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکتوب نمبر 266 کا اقتباس پیشِ خدمت ہے :
(( وآنکہ خلفاء اربعۃ را برابر داند وفضل یکی بردیگری فضولی انگارد بوالفضولی است عجب بوالفضولی کہ اجماع اہل حق را فضولی داند ))
ترجمہ : جو شخص خلفاے اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کو برابر جانے اور ان کے درمیان ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے کو فضول سمجھے وہ خود بڑا فضول اور احمق ہے ـ کتنا عجیب ابوالفضول ہے وہ شخص جو اہلِ حق کے اجماع کو فضول سمجھتا ہے ـ
اللہ پاک ہم اھل السنۃ والجماعۃ کو مسئلہءِ افضیلتِ صدیق پر مستقیم فرمائے اور اس کا خوب پرچار کر کے سُنیوں کے حفظِ عقیدہ کی توفیق نصیب فرمائے ـــ اٰمین ، اٰمین ثم اٰمین
✏ حسن رضا مشرّف قادری
١٤ جمادی الاخریٰ ، ١٤٤٢ ھ
28 جنوری ، 2021 ء / جمعرات
. 🔹️ *چند سُنہری باتیں* 🔹️ " *قسط نمبر 25* "
🥀اگر تعلق میں اداکاری نہیں، بلکہ وفاداری کا معاملہ رکھا جائے تو ہر رشتہ بہت انمول ہو جائے گا۔
🥀کبھی بھی کسی کو نیچی نظر سے مت دیکھو کیونکہ تمہاری جو حیثیت ہے یہ تمہاری قابلیت نہیں بلکہ رب تعالی کا تم پر احسان و کرم ہے۔
🥀لوگوں کے بدلے ہوئے مزاج ہی تو ہمیں انسان بناتے ہیں ، ورنہ ہم سمجھ ہی نہ پائیں گیں کہ زندگی کتنی مشکل ہے۔
🥀تم اپنی ہزار غلطیوں کے باوجود اپنے آپ سے محبت کرتے ہو ، لیکن دوسروں کی ایک غلطی کی وجہ سے ان سے نفرت کیوں کرنے لگ جاتے ہو یا خود غلطیاں کرنا چھوڑ دو یا دوسروں کو معاف کرنا سیکھ لو۔
🥀اس کائنات میں الله کے سوا کوئی بھی آپکو ہمیشـــہ ، ہر وقت اور ہر حال میں “ایک جیسا“ میسر نہیں ہو سکتا۔
🥀کبھی بھی کسی کے سامنے اپنی سچائی اور خلوص کو بیان مت کرو کیونکہ وقت ایک دن خود تمھارے الفاظ بن کر بیان کر دیگا۔
🥀ہم نے صرف بولنا ہی سیکھا ہوتا ہے چپ رہنا نہیں چپ رہنا بھی سیکھیں ، اچھی زندگی گزارنے کیلئے یہ بہت اہم ہے کے آپ کو پتہ ہو کے "کب" "کہاں" چپ رہنا ہے اور کہاں بولنا ہے۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
🥀اگر تعلق میں اداکاری نہیں، بلکہ وفاداری کا معاملہ رکھا جائے تو ہر رشتہ بہت انمول ہو جائے گا۔
🥀کبھی بھی کسی کو نیچی نظر سے مت دیکھو کیونکہ تمہاری جو حیثیت ہے یہ تمہاری قابلیت نہیں بلکہ رب تعالی کا تم پر احسان و کرم ہے۔
🥀لوگوں کے بدلے ہوئے مزاج ہی تو ہمیں انسان بناتے ہیں ، ورنہ ہم سمجھ ہی نہ پائیں گیں کہ زندگی کتنی مشکل ہے۔
🥀تم اپنی ہزار غلطیوں کے باوجود اپنے آپ سے محبت کرتے ہو ، لیکن دوسروں کی ایک غلطی کی وجہ سے ان سے نفرت کیوں کرنے لگ جاتے ہو یا خود غلطیاں کرنا چھوڑ دو یا دوسروں کو معاف کرنا سیکھ لو۔
🥀اس کائنات میں الله کے سوا کوئی بھی آپکو ہمیشـــہ ، ہر وقت اور ہر حال میں “ایک جیسا“ میسر نہیں ہو سکتا۔
🥀کبھی بھی کسی کے سامنے اپنی سچائی اور خلوص کو بیان مت کرو کیونکہ وقت ایک دن خود تمھارے الفاظ بن کر بیان کر دیگا۔
🥀ہم نے صرف بولنا ہی سیکھا ہوتا ہے چپ رہنا نہیں چپ رہنا بھی سیکھیں ، اچھی زندگی گزارنے کیلئے یہ بہت اہم ہے کے آپ کو پتہ ہو کے "کب" "کہاں" چپ رہنا ہے اور کہاں بولنا ہے۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
🕸 *ہر شخص مطالعہ کیوں نہیں کر پاتا* ؟؟ 🕸
✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :-
👈 ہر چیز پایہ تکمیل تک اپنے اسباب کے ساتھ پہنچتی ہے۔ جیسے کسی نے کسی کی دعوت کی تو یہ دعوت مکمل اس وقت کہلائے گی جب میزبان دعوت کے اسباب کو مکمل کرے گا۔ اگر مکمل نہ کرے گا تو مہمان کہے گا کہ یہ کونسی دعوت ہے ؟
👈 اسی طرح تحریر کے اسباب میں سے ایک سبب مشاہدہ بھی ہے۔ اور پھر مشاہدے کو لفظوں میں بیان کر کے آگے پہنچانا بھی ایک ملکہ ہے۔لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس دور میں مشاہدہ کرنا کسی حد تک نظر نہیں آرہا ، اور مشاہدے کو لفظوں میں بیان کرنا تو کُوسُوں دور تک نظر نہیں آرہا۔
👈 اور تحریرات کے اسباب میں سے ایک سبب مطالعہ بھی ہے۔ تحریر کیلئے مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ ہر شخص اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ مطالعے کے بہت فوائد ہیں۔ لیکن ایک طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص مطالعہ کر بھی نہیں پاتا۔ اور دور حاضر میں مطالعہ نہ کرنے کی شکایت بھی عام ہے۔
👈 اب میں آپ کو *22* ایسے اسباب بتاتا ہوں جن کی وجہ سے مطالعہ نہیں ہو سکتا۔ اور وہ اسباب یہ ہیں۔
1️⃣ کتابوں سے دوری :-
2️⃣ علم کی ناقدری :-
3️⃣ بے مقصد زندگی :-
4️⃣ سُستی اور لاپرواہی :-
5️⃣ وقت کو فضولیات میں گزار دینا :-
6️⃣ اچھی ملازمت پر اطیمنان :-
7️⃣ امتحان میں پاس ہونے پر اطیمنان :-
8️⃣ سُوشل میڈیا کا زیادہ استعمال :-
9️⃣ کاموں کی ترتیب کا نہ ہونا :-
🔟 حافظے کی کمزوری :-
1️⃣1️⃣ احساس کمتری :-
2️⃣ 1️⃣خود اعتمادی کا نہ ہونا :-
3️⃣1️⃣ نصابی مطالعہ پر اکتفاء :-
4️⃣1️⃣ خود پسندی :-
5️⃣1️⃣ انانیت :-
6️⃣1️⃣ کسی کو کمتر سمجھنا :-
7️⃣1️⃣ کتاب کی ظاہری صورت پر دل کا مائل نہ ہونا :-
8️⃣1️⃣ عشق مجازی میں گرفتار ہوجانا :-
9️⃣1️⃣ اچھی صحبت کا نہ ملنا :-
0️⃣2️⃣ خودشناسی کا نہ ہونا :-
1️⃣2️⃣ گناہوں کی کثرت :-
2️⃣2️⃣ روحانی آداب کا اہتمام نہ ہونا :-
👈 جس طرح باسی روٹی کھانا انسان پسند نہیں کرتا ، اسی طرح باسی لوگوں کے ساتھ رہنا بھی کوئ پسند نہیں کرتا۔ لہذا!! اپنے آپ کو تر رکھا کرو۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ اپنے اندر صلاحیت بڑھائو کتابیں پڑھ کر :-
👈 سیکھنے والا انسان تروتازہ رہتا ہے ، خوش رہتا ہے اسلئے ہمیشہ سیکھتے رہو۔
👈 سیکھنے کیلئے کتاب ضروری نہیں ہے بلکہ ہوش و حواس ضروری ہے :-
✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :-
👈 ہر چیز پایہ تکمیل تک اپنے اسباب کے ساتھ پہنچتی ہے۔ جیسے کسی نے کسی کی دعوت کی تو یہ دعوت مکمل اس وقت کہلائے گی جب میزبان دعوت کے اسباب کو مکمل کرے گا۔ اگر مکمل نہ کرے گا تو مہمان کہے گا کہ یہ کونسی دعوت ہے ؟
👈 اسی طرح تحریر کے اسباب میں سے ایک سبب مشاہدہ بھی ہے۔ اور پھر مشاہدے کو لفظوں میں بیان کر کے آگے پہنچانا بھی ایک ملکہ ہے۔لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس دور میں مشاہدہ کرنا کسی حد تک نظر نہیں آرہا ، اور مشاہدے کو لفظوں میں بیان کرنا تو کُوسُوں دور تک نظر نہیں آرہا۔
👈 اور تحریرات کے اسباب میں سے ایک سبب مطالعہ بھی ہے۔ تحریر کیلئے مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ ہر شخص اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ مطالعے کے بہت فوائد ہیں۔ لیکن ایک طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص مطالعہ کر بھی نہیں پاتا۔ اور دور حاضر میں مطالعہ نہ کرنے کی شکایت بھی عام ہے۔
👈 اب میں آپ کو *22* ایسے اسباب بتاتا ہوں جن کی وجہ سے مطالعہ نہیں ہو سکتا۔ اور وہ اسباب یہ ہیں۔
1️⃣ کتابوں سے دوری :-
2️⃣ علم کی ناقدری :-
3️⃣ بے مقصد زندگی :-
4️⃣ سُستی اور لاپرواہی :-
5️⃣ وقت کو فضولیات میں گزار دینا :-
6️⃣ اچھی ملازمت پر اطیمنان :-
7️⃣ امتحان میں پاس ہونے پر اطیمنان :-
8️⃣ سُوشل میڈیا کا زیادہ استعمال :-
9️⃣ کاموں کی ترتیب کا نہ ہونا :-
🔟 حافظے کی کمزوری :-
1️⃣1️⃣ احساس کمتری :-
2️⃣ 1️⃣خود اعتمادی کا نہ ہونا :-
3️⃣1️⃣ نصابی مطالعہ پر اکتفاء :-
4️⃣1️⃣ خود پسندی :-
5️⃣1️⃣ انانیت :-
6️⃣1️⃣ کسی کو کمتر سمجھنا :-
7️⃣1️⃣ کتاب کی ظاہری صورت پر دل کا مائل نہ ہونا :-
8️⃣1️⃣ عشق مجازی میں گرفتار ہوجانا :-
9️⃣1️⃣ اچھی صحبت کا نہ ملنا :-
0️⃣2️⃣ خودشناسی کا نہ ہونا :-
1️⃣2️⃣ گناہوں کی کثرت :-
2️⃣2️⃣ روحانی آداب کا اہتمام نہ ہونا :-
👈 جس طرح باسی روٹی کھانا انسان پسند نہیں کرتا ، اسی طرح باسی لوگوں کے ساتھ رہنا بھی کوئ پسند نہیں کرتا۔ لہذا!! اپنے آپ کو تر رکھا کرو۔ وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ اپنے اندر صلاحیت بڑھائو کتابیں پڑھ کر :-
👈 سیکھنے والا انسان تروتازہ رہتا ہے ، خوش رہتا ہے اسلئے ہمیشہ سیکھتے رہو۔
👈 سیکھنے کیلئے کتاب ضروری نہیں ہے بلکہ ہوش و حواس ضروری ہے :-
آئے دن ہر کھسکا ہوا خود کو اہل سنت کے اندر فٹ کرنے کی سرتوڑ کوشش میں لگا ہے
سنو صاحب!
اہل سنت کو کسی کی حاجت نہیں ہے تمہیں حاجت ہے سیدھے راستے کی اہل سنت ایک مضبوط و منظم وہ عالمی سنی تنظیم و ادارہ ہے جس کی بنیاد صحابہ کرام علیہم الرضوان دو عالم کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں رہ کر رکھ گئے آپ کو اختلاف ہے تو آپ کا ذاتی مسئلہ ہے آپ کھسک گئے ہیں اہل سنت وہیں اپنے عقائد و نظریات پر کھڑی ہے وہ کسی کے گھر کی جاگیر نہیں ہے کہ جو جس کا من چاہا منہ اٹھا کے اپنے ذاتی بغض و عناد کو دلائل بنا کر اس میں فٹ کرنا شروع ہو جائے اللہ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے
✍️ محمد سرمد لطیف
سنو صاحب!
اہل سنت کو کسی کی حاجت نہیں ہے تمہیں حاجت ہے سیدھے راستے کی اہل سنت ایک مضبوط و منظم وہ عالمی سنی تنظیم و ادارہ ہے جس کی بنیاد صحابہ کرام علیہم الرضوان دو عالم کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں رہ کر رکھ گئے آپ کو اختلاف ہے تو آپ کا ذاتی مسئلہ ہے آپ کھسک گئے ہیں اہل سنت وہیں اپنے عقائد و نظریات پر کھڑی ہے وہ کسی کے گھر کی جاگیر نہیں ہے کہ جو جس کا من چاہا منہ اٹھا کے اپنے ذاتی بغض و عناد کو دلائل بنا کر اس میں فٹ کرنا شروع ہو جائے اللہ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے
✍️ محمد سرمد لطیف
Forwarded from ✺ Best Telegram Links ✺
ٹیلی گرام اوفیشل کا آج اپ ڈیٹ آیا ہے، اس میں ایک اہم ترین سہولت یہ دی گئی ہے کہ اگر آپ واٹس ایپ کے اپنے گروپ کے تمام میسیج کو ٹیلی گرام کے گروپ میں بیک جنبش و بیک کِلِک منتقل کرنا چاہتے ہوں تو منتقل کر سکتے ہیں.......... زیر نظر ویڈیو میں یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ واٹس ایپ گروپ کا مواد ٹیلی گرام گروپ میں کیسے ارسال کیا جائے
واٹس ایپ گروپ کے ساتھ ساتھ واٹس ایپ پر کسی خاص فرد سے ہونے والی گفتگو کو بھی ٹیلی گرام پر منتقل کرنے کی سہولت ہے، طریقہ اس کا بھی یہی ہے کہ پرسنل پر چیٹ کو امپورٹ کر دیں گے .......... ویڈیو کا لنک ⬇
https://tttttt.me/SarmadiMedia/97
واٹس ایپ گروپ کے ساتھ ساتھ واٹس ایپ پر کسی خاص فرد سے ہونے والی گفتگو کو بھی ٹیلی گرام پر منتقل کرنے کی سہولت ہے، طریقہ اس کا بھی یہی ہے کہ پرسنل پر چیٹ کو امپورٹ کر دیں گے .......... ویڈیو کا لنک ⬇
https://tttttt.me/SarmadiMedia/97
امام صاحب نے نماز کے بعد دعا شروع کی تو پیچھے سے آواز آئی کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیئے بھی دعا ہوجائے۔
امام صاحب نے مسکراکر اپنی جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا، اور کہا کہ معیشت سے یاد آیا کہ یہ پانچ ہزار کا نوٹ مسجد سے ملا ہے۔ جن صاحب کا ہو وہ نشانی بتاکر لے جائیں۔چند لوگ کھڑے ہوئے تو امام صاحب نے انھیں واپس بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ دعا کروائی۔ اور پھر کہا کہ یہ پانچ ہزار کا نوٹ میں گھر سے لیکر آیا ہوں سودا سلف لانے کے لیے۔ اس نوٹ کے دعویدار خود کو سدھاریں، معیشت خودبخود ٹھیک ہوجائے گی۔
@HamariUrduPiyariUrdu
امام صاحب نے مسکراکر اپنی جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا، اور کہا کہ معیشت سے یاد آیا کہ یہ پانچ ہزار کا نوٹ مسجد سے ملا ہے۔ جن صاحب کا ہو وہ نشانی بتاکر لے جائیں۔چند لوگ کھڑے ہوئے تو امام صاحب نے انھیں واپس بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ دعا کروائی۔ اور پھر کہا کہ یہ پانچ ہزار کا نوٹ میں گھر سے لیکر آیا ہوں سودا سلف لانے کے لیے۔ اس نوٹ کے دعویدار خود کو سدھاریں، معیشت خودبخود ٹھیک ہوجائے گی۔
@HamariUrduPiyariUrdu
ایک شخص جو کتوں کی دوڑ کے مقابلے کا انعقاد کرواتا تھا۔ایک دفعہ اس نے مقابلے میں ایک چیتے کو شامل کیا۔۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جب مقابلہ شروع ہوا تو چیتا اپنی جگہ سے نہیں ہلا اور کتے اپنی پوری قوت کے ساتھ مقابلہ جیتنے کی کوشش کر رہے تھے۔چیتا خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔
جب مالک سے پوچھا گیا کہ چیتے نے مقابلے میں شرکت کیوں نہیں کی۔۔مالک نے دلچسپ جواب دیا:کبھی کبھی خود کو بہترین ثابت کرنا دراصل اپنی ہی توہین ہوتی ہے۔ہر جگہ خود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بعض لوگوں کے سامنے خاموش رہنا ہی بہترین جواب ہوتا ہے۔
اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ نے صحیح راستہ انتخاب کیا ہے تو اس کو جاری رکھیں۔دوسرے آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں یہ اہم نہیں ہے۔ضروری نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ثابت کرو
@HamariUrduPiyariUrdu
جب مالک سے پوچھا گیا کہ چیتے نے مقابلے میں شرکت کیوں نہیں کی۔۔مالک نے دلچسپ جواب دیا:کبھی کبھی خود کو بہترین ثابت کرنا دراصل اپنی ہی توہین ہوتی ہے۔ہر جگہ خود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بعض لوگوں کے سامنے خاموش رہنا ہی بہترین جواب ہوتا ہے۔
اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ نے صحیح راستہ انتخاب کیا ہے تو اس کو جاری رکھیں۔دوسرے آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں یہ اہم نہیں ہے۔ضروری نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ثابت کرو
@HamariUrduPiyariUrdu
. 🌹 *جیت آپ کی ہے لیکن*.......❓
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
👈 اس دنیا میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جیسے آتی ہے۔ویسے ہی چلی جاتی ہے۔وہ یوں زندگی گزراتے ہیں گویا کبھی زندہ ہی نہ تھے۔جبکہ بعض لوگ آتے ہیں۔اور ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ زندہ ہوجاتا ہے۔وہ کیوں زندہ رہتے ہیں؟؟ دونوں کی زندگیوں میں صرف ایک فرق ہے۔وہ فرق کامیابی کا ہے۔وہ کامیابیاں جو انھوں نے حاصل کی ہوتی ہیں۔ان کی کامیابیوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ ان کا مضبوط تعلق بن جاتا ہے۔
👈 ایک دن ایک بچے نے اپنے والد صاحب سے عرض کی۔ ابا جان مجھے اپنے پَردادا کی قبر پر لے چلیں۔ والد صاحب اپنے بچے کے ساتھ قبرستان چلا گیا۔ باپ اور بیٹا پَردادا کی قبر دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔ لیکن پَردادا کی قبر نہ ملی تو بچہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ اور والد صاحب نے پوچھا۔ بیٹا کیا ہوا ؟ بیٹا جواباً عرض کرنے لگا ابا جان پَردادا سے ہمارا خونی رشتہ ہے اس کے باوجود بھی ہمیں اس کی قبر کا پتہ نہیں۔ اور ایک طرف تو ڈاکٹر اقبال ہیں جس سے ہمارا کوئ رشتہ بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی ان کا نام باقی ہے۔ اور بچہ بچہ ان کا جانتا ہے۔ والد صاحب یہ جواب سُن کر خاموش ہوگیا۔
👈 جی ہاں میرے بھائیو!! اگر ہم بحیثیت انسان غور کریں تو اللہ عزوجل نے ان دونوں کو دو آنکھیں ، دو پائوں ، دو ہاتھ اور ایک جسم دیا۔ لیکن ڈاکٹر اقبال کا نام باقی رہ گیا۔ اور اس کے دادا کا نام باقی نہ رہا۔
👈 ٹھیک اسی طرح اس دنیا میں کچھ لوگوں کے نام کے چرچے ہوتے ہیں۔ اور کچھ کے نام تو اپنے خاندان اور کچھ دوستوں تک رہتے ہیں۔حالانکہ دونوں انسان ہیں۔ پھر ایسی کونسی بات ہے جس نے ایک کو عُروج دیا اور دوسرے کو زوال ؟؟ فرق صرف اپنی ذات کو سمجھنے میں ہے۔ جس نے اپنی ذات کو سمجھا ، اور اپنی زندگی کو اہمیت دی اُس کا نام باقی رہ گیا۔ اور جس نے نہ سمجھا اس کا نام مٹ گیا۔
👈 زندگی کو جتنی اہمیت دینی چاہیے۔ ہم اسے اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ سب سے قیمتی چیز زندگی ہے۔ افسوس سے یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ لوگ پیسوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن زندگی کو اہمیت نہیں دیتے۔ میرے بھائیو!! زندگی ایک بار ملی ہے۔ اس لیے جینے کا حق ادا کیجئے۔ اس زندگی کو محسوس کرکے شان دار بناکر جائیے۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں کل سے کرونگا ، اس کا شان دار لمحہ کبھی نہیں آتا۔ اس کی زندگی کبھی شان دار نہیں ہو پاتی۔ اسی لمحے سے شروع کیجئے۔
👈 غُبارے کالے ہوں ، نیلے ہوں الغرض غُبارے کسی بھی کلر کے ہوں وہ غُبارے کلر کی وجہ سے نہیں اُڑتے۔ بلکہ اندر موجود گیس کی وجہ سے اُڑتے ہیں۔ اسی طرح کامیابی کا تعلق امیری،غریبی شہری،دیہاتی اچھے،کالے سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اندر موجود جذبے ، جنون ، سے ہوتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ *پَروں کو کھول زمانہ اُڑانا دیکھتا ہے ، زمین پر بیٹھ کر کیا آسمان دیکھتا ہے*۔
👈 انسان کے اندر کچھ ہوگا تو وہ اُڑان کے قابل بنے گا۔ جس میں کوئ تڑپ ہے ، لگن ہے ، آنسوں ہیں۔ وہ زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔ کیونکہ "انسان طاقتور اپنے حوصلے سے بنتا ہے نہ کہ جسم سے۔ ورنہ جنگل کا بادشاہ ، شیر کے بجائے ہاتھی ہوتا۔
👈 بس آپ سر جھکائے اپنی منزل کی طرف چلتے چلے جائیے۔ اس چیز کی پروا چھوڑ دیجئے۔ کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ صرف اپنی منزل کا فوکس رکھئیے۔ ایک دن جب آپ کا سر اٹھائیں گیں تو زمانہ آپ کے ساتھ ہوگا۔ شرط یہ ہے کہ آپ لگے رہیں۔
👈 ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے آپ کو اکیلے ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ لوگ آپ کے ساتھ تب آتے ہیں جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
👈 اس دنیا میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جیسے آتی ہے۔ویسے ہی چلی جاتی ہے۔وہ یوں زندگی گزراتے ہیں گویا کبھی زندہ ہی نہ تھے۔جبکہ بعض لوگ آتے ہیں۔اور ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ زندہ ہوجاتا ہے۔وہ کیوں زندہ رہتے ہیں؟؟ دونوں کی زندگیوں میں صرف ایک فرق ہے۔وہ فرق کامیابی کا ہے۔وہ کامیابیاں جو انھوں نے حاصل کی ہوتی ہیں۔ان کی کامیابیوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ ان کا مضبوط تعلق بن جاتا ہے۔
👈 ایک دن ایک بچے نے اپنے والد صاحب سے عرض کی۔ ابا جان مجھے اپنے پَردادا کی قبر پر لے چلیں۔ والد صاحب اپنے بچے کے ساتھ قبرستان چلا گیا۔ باپ اور بیٹا پَردادا کی قبر دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔ لیکن پَردادا کی قبر نہ ملی تو بچہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ اور والد صاحب نے پوچھا۔ بیٹا کیا ہوا ؟ بیٹا جواباً عرض کرنے لگا ابا جان پَردادا سے ہمارا خونی رشتہ ہے اس کے باوجود بھی ہمیں اس کی قبر کا پتہ نہیں۔ اور ایک طرف تو ڈاکٹر اقبال ہیں جس سے ہمارا کوئ رشتہ بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی ان کا نام باقی ہے۔ اور بچہ بچہ ان کا جانتا ہے۔ والد صاحب یہ جواب سُن کر خاموش ہوگیا۔
👈 جی ہاں میرے بھائیو!! اگر ہم بحیثیت انسان غور کریں تو اللہ عزوجل نے ان دونوں کو دو آنکھیں ، دو پائوں ، دو ہاتھ اور ایک جسم دیا۔ لیکن ڈاکٹر اقبال کا نام باقی رہ گیا۔ اور اس کے دادا کا نام باقی نہ رہا۔
👈 ٹھیک اسی طرح اس دنیا میں کچھ لوگوں کے نام کے چرچے ہوتے ہیں۔ اور کچھ کے نام تو اپنے خاندان اور کچھ دوستوں تک رہتے ہیں۔حالانکہ دونوں انسان ہیں۔ پھر ایسی کونسی بات ہے جس نے ایک کو عُروج دیا اور دوسرے کو زوال ؟؟ فرق صرف اپنی ذات کو سمجھنے میں ہے۔ جس نے اپنی ذات کو سمجھا ، اور اپنی زندگی کو اہمیت دی اُس کا نام باقی رہ گیا۔ اور جس نے نہ سمجھا اس کا نام مٹ گیا۔
👈 زندگی کو جتنی اہمیت دینی چاہیے۔ ہم اسے اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ سب سے قیمتی چیز زندگی ہے۔ افسوس سے یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ لوگ پیسوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن زندگی کو اہمیت نہیں دیتے۔ میرے بھائیو!! زندگی ایک بار ملی ہے۔ اس لیے جینے کا حق ادا کیجئے۔ اس زندگی کو محسوس کرکے شان دار بناکر جائیے۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں کل سے کرونگا ، اس کا شان دار لمحہ کبھی نہیں آتا۔ اس کی زندگی کبھی شان دار نہیں ہو پاتی۔ اسی لمحے سے شروع کیجئے۔
👈 غُبارے کالے ہوں ، نیلے ہوں الغرض غُبارے کسی بھی کلر کے ہوں وہ غُبارے کلر کی وجہ سے نہیں اُڑتے۔ بلکہ اندر موجود گیس کی وجہ سے اُڑتے ہیں۔ اسی طرح کامیابی کا تعلق امیری،غریبی شہری،دیہاتی اچھے،کالے سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اندر موجود جذبے ، جنون ، سے ہوتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ *پَروں کو کھول زمانہ اُڑانا دیکھتا ہے ، زمین پر بیٹھ کر کیا آسمان دیکھتا ہے*۔
👈 انسان کے اندر کچھ ہوگا تو وہ اُڑان کے قابل بنے گا۔ جس میں کوئ تڑپ ہے ، لگن ہے ، آنسوں ہیں۔ وہ زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔ کیونکہ "انسان طاقتور اپنے حوصلے سے بنتا ہے نہ کہ جسم سے۔ ورنہ جنگل کا بادشاہ ، شیر کے بجائے ہاتھی ہوتا۔
👈 بس آپ سر جھکائے اپنی منزل کی طرف چلتے چلے جائیے۔ اس چیز کی پروا چھوڑ دیجئے۔ کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ صرف اپنی منزل کا فوکس رکھئیے۔ ایک دن جب آپ کا سر اٹھائیں گیں تو زمانہ آپ کے ساتھ ہوگا۔ شرط یہ ہے کہ آپ لگے رہیں۔
👈 ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے آپ کو اکیلے ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ لوگ آپ کے ساتھ تب آتے ہیں جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
. *کیا کالم نگار بننا مشکل ہے* ❓
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
👈 جی نہیں کالم نگار بننا مشکل نہیں ہے بلکہ آسان ہے۔ اس کیلئے جو ان *7* خوبیوں کا حامل ہوگا ایسے بندے کیلئے کالم نگار بننا آسان ہے۔
1️⃣ لکھنے کا شوق :-
2️⃣ لکھنے کا جذبہ :-
3️⃣ مشاہدہ کرنے کی صلاحیت :-
4️⃣ محسوس کرنے کی صلاحیت :-
5️⃣ ہر دن کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا :-
6️⃣ مطالعہ کرنے کا شوق :-
7️⃣ اپنے دل و دماغ سے یہ بات نکال دے کہ یہ کام مشکل ہے ، میں نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ :-
👈 بلکہ اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کلام کرے کہ میں کرسکتا ہوں اور ضرور کرکے دیکھاو گا۔ پھر ایسے شخص کیلئے لکھنا آسان ہوجاتا ہے۔بس جس کو کالم نگار بننے کا شوق ہے وہ کمر کس کے ابھی لکھنا شروع کرے۔ ان شاء اللہ عزوجل آپ کیلئے راہ ہموار ہوتی جائے گی۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
👈 جی نہیں کالم نگار بننا مشکل نہیں ہے بلکہ آسان ہے۔ اس کیلئے جو ان *7* خوبیوں کا حامل ہوگا ایسے بندے کیلئے کالم نگار بننا آسان ہے۔
1️⃣ لکھنے کا شوق :-
2️⃣ لکھنے کا جذبہ :-
3️⃣ مشاہدہ کرنے کی صلاحیت :-
4️⃣ محسوس کرنے کی صلاحیت :-
5️⃣ ہر دن کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا :-
6️⃣ مطالعہ کرنے کا شوق :-
7️⃣ اپنے دل و دماغ سے یہ بات نکال دے کہ یہ کام مشکل ہے ، میں نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ :-
👈 بلکہ اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کلام کرے کہ میں کرسکتا ہوں اور ضرور کرکے دیکھاو گا۔ پھر ایسے شخص کیلئے لکھنا آسان ہوجاتا ہے۔بس جس کو کالم نگار بننے کا شوق ہے وہ کمر کس کے ابھی لکھنا شروع کرے۔ ان شاء اللہ عزوجل آپ کیلئے راہ ہموار ہوتی جائے گی۔
. 🤲 *اے اللہ بے سہاروں کو سہارا عطا فرما* 🤲
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
👈 ایک زینب تھی ، پیاری و خوبصورت سی زینب ، جس کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ غربت کے مکان میں پیدا ہوئی ، غربت والے حالات میں پروان چڑھی۔ غربت سہتے سہتے زینب کی ماں بھی مر گئی کچھ عرصہ کے بعد زینب کے ابو نے زینب کو کہا کہ تیار ہوجائو میں آپ کو بڑے شہر میں لے جائونگا۔ اس وقت زینب کی عمر 14 سال تھی۔ زینب خوشی خوشی تیار ہوگئ۔ اس امید پہ کہ بڑے شہر جارہی ہوں۔ ابو اسے کراچی شہر لے کر پہنچا اور کراچی کے ایک امیر شخص کے گھر لے کر آیا۔
👈 زینب کو گھر میں تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں ملتا۔ ابو نے سوچا ہوگا کہ کسی امیر کے گھر گندے برتن دھو لے گی۔ اور ان کی خدمت کرے گی تو زینب کو پیٹ بھر کھانا ملے گا۔ اتنا بڑا شہر تھا اور جس گھر اس کے ابو اسے لے کر آئے تھے وہ تو ایسا تھا جیسے کوئی محل تھا۔ زینب نے ایک لمحے کیلئے دل ہی دل میں سوچا کہ جیسے کہ وہ کوئی امیر لڑکی ہے اور کھانے کو بھی بہت کچھ ملے گا۔ میں خوب پیٹ بھر کر کھائوں گی ، لیکن زینب کو یہ سب کچھ خواب ہی نظر آرہا تھا۔
👈 ایک بیگم اور صاحب نے زینب کے ابو کو چند ہزار دے دیے اور اس کی پیاری سی بیٹی کو گھر کے اندر لے کر چلے گئے۔ زینب جاتے ہوئے ابو کو آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اندر چلی گئ۔ ابو نے زینب کو یقین دلایا تھا کہ ہر ہفتے زینب آپ سے بات کرونگا۔ بیگم صاحبہ کا نمبر بھی لے لیا۔
👈 بس پھر زینب کو اس محل میں دو مہینے گزر گئے ، دو مہینے کیا تھے اذیت کی دو صدیاں تھیں۔ زینب نے اپنے گھر میں غربت بھوک تو دیکھی تھی لیکن ظلم ، تشدد ، زیادتیاں ، مارپیٹ ہولناکیاں نہیں دیکھی تھیں۔ 14 سالہ کم سن زینب صبح سے رات گئے تک نوکروں کی طرح کام کرتی رہتی۔ کھانے کو بچی کھچی روٹیاں ملتیں اور اس کے علاوہ گالیاں اور طرح طرح کی اذیتیں ملتیں۔ اس گھر کے مردوں کے لئے زینب ایک کھلونا بن گئی تھی۔ اس کا وجود مسلا جاتا ، روندا جاتا صرف دو مہینے میں زینب نے اذیت کے کتنے دریا پار کر لئے۔
👈 ابو اسے فون کرتا تو بیگم صاحبہ بہانہ بناتی۔ اور ایک دن بھی زینب کی بات ابو سے نہ کروائی۔یوں ایک روز غربت کے جھولے میں پروان چڑھنے والی زینب جو شہر کے ایک خوشحال گھر میں اپنے باپ کا معاشی بوجھ بانٹنے آئی تھی اس گھر کے ظالم بدبخت مالکوں کا بہیمانہ تشدد سہتے سہتے موت کے سکون سے ہمکنار ہو گئی۔ پیٹ بھر روٹی سالن کا خواب لے کر کراچی شہر کے ایک خوشحال گھرانے میں آئ تھی۔ لیکن جو ظلم و ستم ہوتا رہا۔ اس کی خبر کسی کو نہ ہوئی۔ مگر جب زینب یہ وحشت ناک تشدد سہتے سہتے موت کے ہمکنار ہوگئ۔
👈 تو زینب کے ابو اور خاندان کی کچھ عورتیں سب پہنچ گئیں۔ اور زینب کا بے جان وجود ، زخموں ، ٹھڈوں ، زیادتیوں کے نشانات سے نیل و نیل ہوا دو مہینے اس پر گزرنے والے عذاب کی کہانی سنا رہے تھے۔ مقدمہ چلا عدالت میں ، عدالت نے فیصلہ دیا کہ ان کو ایک سال کی سزا ہوئی ، اور ایک لاکھ جرمانہ ہوا ، بڑی واہ واہ ہوئی کہ کیا انصاف ہے اور اس انصاف کی دوسری تصویر یہ نکلی کہ زینب کے والد نے دبائو میں آکر ایک صلح نامے پر دستخط کر دیے اور کہا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی کی بنا پر ہوا۔ اللہ اللہ خیر صلا ، ایسی کئی زینبیں ، دولت مندوں کی وحشت اور ظلم کا شکار ہوتی ہیں کبھی اس تشدد سے جان سے گزر جاتی ہیں۔
👈 اے ظالمو!! اگرچہ یہاں پہ آپ کا حکم چلتا ہے لیکن اس دن سے ڈریے کہ جس دن صرف ایک ہی ذات کا حکم چلے گا ، وہ ذات جو جبار ہے ، وہ ذات جو قہار ہے ، اس دن کیا کرو گے۔ جس دن مظلوم کو پورا پورا انصاف ملے گا اور ظالم کو اس کے کیے کی سزا ملے گی۔ اگر آپ کسی کی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم کسی کی جان سے تو نہ کھیلیں۔غریب ہونے کا یہ تو مطلب نہیں ہے کہ جس طرح آپ اس کی ذات سے کھیلنا چاہیں ، کھیلیں۔
👈 اے اللہ کے بندو!! آپ تو اس بات پہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اللہ نے آپ کو دینے والا بنایا ہے ، لینے والا نہیں ، اس بات پہ شکر ادا کرو کہ اللہ نے آپ کو صحت عطا فرمائ ہے ، اس بات پہ اس کریم ذات کا شکر ادا کرو جس نے آپ کو معاشرے میں عزت عطا کی ہے ، اس بات پہ اس رحمن ذات کا شکر ادا کرو جس ذات نے آپ نکمے جیسے کو بھی منصب عطا کیا ہے۔
👈 آخر میں بے سہاروں سے عرض گزار ہوں کہ اے بے سہارو!! آپ پریشان نہ ہوں ان شاء اللہ عزوجل ایک ایسا دن آئے گا جس دن تم بھی خوشحال زندگی اپنے بچوں کے ساتھ گزارو گے ، رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو لیکن آخر کار سورج طلوع ہوہی جاتا ہے ، درخت پہ شاخیں رہیں تو پتے بھی ضرور آہی جائیں گیں۔
🤲 اے میرے اللہ عزوجل اپنے پیاروں کے صدقے بے سہاروں کو سہارا عطا فرما ، اے میرے کریم رب کسی مسلمان بھائ کو اپنی ذات کے سواء کسی کا محتاج نہ کر ، اے میرے اللہ پریشان حالوں کی پریشانی دور فرما۔ آمین بجاہ طہ
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
👈 ایک زینب تھی ، پیاری و خوبصورت سی زینب ، جس کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ غربت کے مکان میں پیدا ہوئی ، غربت والے حالات میں پروان چڑھی۔ غربت سہتے سہتے زینب کی ماں بھی مر گئی کچھ عرصہ کے بعد زینب کے ابو نے زینب کو کہا کہ تیار ہوجائو میں آپ کو بڑے شہر میں لے جائونگا۔ اس وقت زینب کی عمر 14 سال تھی۔ زینب خوشی خوشی تیار ہوگئ۔ اس امید پہ کہ بڑے شہر جارہی ہوں۔ ابو اسے کراچی شہر لے کر پہنچا اور کراچی کے ایک امیر شخص کے گھر لے کر آیا۔
👈 زینب کو گھر میں تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں ملتا۔ ابو نے سوچا ہوگا کہ کسی امیر کے گھر گندے برتن دھو لے گی۔ اور ان کی خدمت کرے گی تو زینب کو پیٹ بھر کھانا ملے گا۔ اتنا بڑا شہر تھا اور جس گھر اس کے ابو اسے لے کر آئے تھے وہ تو ایسا تھا جیسے کوئی محل تھا۔ زینب نے ایک لمحے کیلئے دل ہی دل میں سوچا کہ جیسے کہ وہ کوئی امیر لڑکی ہے اور کھانے کو بھی بہت کچھ ملے گا۔ میں خوب پیٹ بھر کر کھائوں گی ، لیکن زینب کو یہ سب کچھ خواب ہی نظر آرہا تھا۔
👈 ایک بیگم اور صاحب نے زینب کے ابو کو چند ہزار دے دیے اور اس کی پیاری سی بیٹی کو گھر کے اندر لے کر چلے گئے۔ زینب جاتے ہوئے ابو کو آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اندر چلی گئ۔ ابو نے زینب کو یقین دلایا تھا کہ ہر ہفتے زینب آپ سے بات کرونگا۔ بیگم صاحبہ کا نمبر بھی لے لیا۔
👈 بس پھر زینب کو اس محل میں دو مہینے گزر گئے ، دو مہینے کیا تھے اذیت کی دو صدیاں تھیں۔ زینب نے اپنے گھر میں غربت بھوک تو دیکھی تھی لیکن ظلم ، تشدد ، زیادتیاں ، مارپیٹ ہولناکیاں نہیں دیکھی تھیں۔ 14 سالہ کم سن زینب صبح سے رات گئے تک نوکروں کی طرح کام کرتی رہتی۔ کھانے کو بچی کھچی روٹیاں ملتیں اور اس کے علاوہ گالیاں اور طرح طرح کی اذیتیں ملتیں۔ اس گھر کے مردوں کے لئے زینب ایک کھلونا بن گئی تھی۔ اس کا وجود مسلا جاتا ، روندا جاتا صرف دو مہینے میں زینب نے اذیت کے کتنے دریا پار کر لئے۔
👈 ابو اسے فون کرتا تو بیگم صاحبہ بہانہ بناتی۔ اور ایک دن بھی زینب کی بات ابو سے نہ کروائی۔یوں ایک روز غربت کے جھولے میں پروان چڑھنے والی زینب جو شہر کے ایک خوشحال گھر میں اپنے باپ کا معاشی بوجھ بانٹنے آئی تھی اس گھر کے ظالم بدبخت مالکوں کا بہیمانہ تشدد سہتے سہتے موت کے سکون سے ہمکنار ہو گئی۔ پیٹ بھر روٹی سالن کا خواب لے کر کراچی شہر کے ایک خوشحال گھرانے میں آئ تھی۔ لیکن جو ظلم و ستم ہوتا رہا۔ اس کی خبر کسی کو نہ ہوئی۔ مگر جب زینب یہ وحشت ناک تشدد سہتے سہتے موت کے ہمکنار ہوگئ۔
👈 تو زینب کے ابو اور خاندان کی کچھ عورتیں سب پہنچ گئیں۔ اور زینب کا بے جان وجود ، زخموں ، ٹھڈوں ، زیادتیوں کے نشانات سے نیل و نیل ہوا دو مہینے اس پر گزرنے والے عذاب کی کہانی سنا رہے تھے۔ مقدمہ چلا عدالت میں ، عدالت نے فیصلہ دیا کہ ان کو ایک سال کی سزا ہوئی ، اور ایک لاکھ جرمانہ ہوا ، بڑی واہ واہ ہوئی کہ کیا انصاف ہے اور اس انصاف کی دوسری تصویر یہ نکلی کہ زینب کے والد نے دبائو میں آکر ایک صلح نامے پر دستخط کر دیے اور کہا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی کی بنا پر ہوا۔ اللہ اللہ خیر صلا ، ایسی کئی زینبیں ، دولت مندوں کی وحشت اور ظلم کا شکار ہوتی ہیں کبھی اس تشدد سے جان سے گزر جاتی ہیں۔
👈 اے ظالمو!! اگرچہ یہاں پہ آپ کا حکم چلتا ہے لیکن اس دن سے ڈریے کہ جس دن صرف ایک ہی ذات کا حکم چلے گا ، وہ ذات جو جبار ہے ، وہ ذات جو قہار ہے ، اس دن کیا کرو گے۔ جس دن مظلوم کو پورا پورا انصاف ملے گا اور ظالم کو اس کے کیے کی سزا ملے گی۔ اگر آپ کسی کی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم کسی کی جان سے تو نہ کھیلیں۔غریب ہونے کا یہ تو مطلب نہیں ہے کہ جس طرح آپ اس کی ذات سے کھیلنا چاہیں ، کھیلیں۔
👈 اے اللہ کے بندو!! آپ تو اس بات پہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اللہ نے آپ کو دینے والا بنایا ہے ، لینے والا نہیں ، اس بات پہ شکر ادا کرو کہ اللہ نے آپ کو صحت عطا فرمائ ہے ، اس بات پہ اس کریم ذات کا شکر ادا کرو جس نے آپ کو معاشرے میں عزت عطا کی ہے ، اس بات پہ اس رحمن ذات کا شکر ادا کرو جس ذات نے آپ نکمے جیسے کو بھی منصب عطا کیا ہے۔
👈 آخر میں بے سہاروں سے عرض گزار ہوں کہ اے بے سہارو!! آپ پریشان نہ ہوں ان شاء اللہ عزوجل ایک ایسا دن آئے گا جس دن تم بھی خوشحال زندگی اپنے بچوں کے ساتھ گزارو گے ، رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو لیکن آخر کار سورج طلوع ہوہی جاتا ہے ، درخت پہ شاخیں رہیں تو پتے بھی ضرور آہی جائیں گیں۔
🤲 اے میرے اللہ عزوجل اپنے پیاروں کے صدقے بے سہاروں کو سہارا عطا فرما ، اے میرے کریم رب کسی مسلمان بھائ کو اپنی ذات کے سواء کسی کا محتاج نہ کر ، اے میرے اللہ پریشان حالوں کی پریشانی دور فرما۔ آمین بجاہ طہ
. *اردو پر مہارت کیسے حاصل کریں*❓
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
👈 زبانوں کی بنیاد اہل زبان کے استعمال پر ہوتی ہے۔ قواعد و قوانین بعد میں وضع ہوتے ہیں۔ اور کوئ بھی زبان ہو وہ کسی حد تک تو اپنے اصولوں کے مطابق چلے گی لیکن بعد میں وہ سماع پر موقوف ہوجائے گی (یعنی:: ایسے اس زبان والوں سے سنا ہے) اور اپنے ہی اصولوں کے خلاف استعمال ہوگی۔
👈 زبانوں میں سے ایک لینگوج اردو بھی ہے۔ اور اردو زبان ایک پیاری زبان ہے۔ اس زبان پر لوگ باقاعدہ پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اوراس زبان کو سیکھنے کا سلسلہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا نظر آرہا ہے ۔
👈 اردو زبان جسے "بے چاری اردو" کہا جائے تب بھی غلط نہیں ہوگا۔ مجھے یہ کہنے دیں کہ تقریبا %90 اردو زبان کا حال ناگفتہ به ہے۔ اس کی وجہ نا قدری اور اہمیت کا نہ ہونا ہے۔
👈 اردو زبان پر مہارت حاصل کرنے کیلئے *10* باتیں عرض کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ عزوجل ان باتوں پر عمل کرنے سے آپ کی اردو اچھی ہوجائے گی اور آپ مذکر و مئونث میں فرق کر سکیں گیے۔
1️⃣ اردو زبان کی گرائمر کا علم ہونا :-
2️⃣ اردو کو اردو کے انداز پر لکھیں ، بولیں اور اسی کا لہجہ اختیار کریں ، اور اسی کی گرائمر کے مطابق چلیں :-
3️⃣ اردو شاعری پڑھا کریں :-
4️⃣ اپنی گفتگو میں اردو کے محاورات استعمال کریں :-
5️⃣ اردو کا املاء کرتے رہنا :-
6️⃣ اردو کی ترجمانی کرنا :-
7️⃣ سوچیں بھی اردو میں
اور بولیں بھی اردو میں :-
8️⃣ اگر آپ کو اردو سیکھنی ہے تو بولنے میں عار محسوس نہ کریں :-
9️⃣ اردو ادب کا مسلسل مطالعہ کرنا :-
🔟 محنت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے رہنا:-
👈 اسی قول پر تحریر کو اختتام کر رہا ہوں کہ *مشکل وقت سبھی پر آتا ہے ، کوئ نکھر جاتا ہے ، کوئ بکھر جاتا ہے*
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
👈 زبانوں کی بنیاد اہل زبان کے استعمال پر ہوتی ہے۔ قواعد و قوانین بعد میں وضع ہوتے ہیں۔ اور کوئ بھی زبان ہو وہ کسی حد تک تو اپنے اصولوں کے مطابق چلے گی لیکن بعد میں وہ سماع پر موقوف ہوجائے گی (یعنی:: ایسے اس زبان والوں سے سنا ہے) اور اپنے ہی اصولوں کے خلاف استعمال ہوگی۔
👈 زبانوں میں سے ایک لینگوج اردو بھی ہے۔ اور اردو زبان ایک پیاری زبان ہے۔ اس زبان پر لوگ باقاعدہ پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اوراس زبان کو سیکھنے کا سلسلہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا نظر آرہا ہے ۔
👈 اردو زبان جسے "بے چاری اردو" کہا جائے تب بھی غلط نہیں ہوگا۔ مجھے یہ کہنے دیں کہ تقریبا %90 اردو زبان کا حال ناگفتہ به ہے۔ اس کی وجہ نا قدری اور اہمیت کا نہ ہونا ہے۔
👈 اردو زبان پر مہارت حاصل کرنے کیلئے *10* باتیں عرض کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ عزوجل ان باتوں پر عمل کرنے سے آپ کی اردو اچھی ہوجائے گی اور آپ مذکر و مئونث میں فرق کر سکیں گیے۔
1️⃣ اردو زبان کی گرائمر کا علم ہونا :-
2️⃣ اردو کو اردو کے انداز پر لکھیں ، بولیں اور اسی کا لہجہ اختیار کریں ، اور اسی کی گرائمر کے مطابق چلیں :-
3️⃣ اردو شاعری پڑھا کریں :-
4️⃣ اپنی گفتگو میں اردو کے محاورات استعمال کریں :-
5️⃣ اردو کا املاء کرتے رہنا :-
6️⃣ اردو کی ترجمانی کرنا :-
7️⃣ سوچیں بھی اردو میں
اور بولیں بھی اردو میں :-
8️⃣ اگر آپ کو اردو سیکھنی ہے تو بولنے میں عار محسوس نہ کریں :-
9️⃣ اردو ادب کا مسلسل مطالعہ کرنا :-
🔟 محنت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے رہنا:-
👈 اسی قول پر تحریر کو اختتام کر رہا ہوں کہ *مشکل وقت سبھی پر آتا ہے ، کوئ نکھر جاتا ہے ، کوئ بکھر جاتا ہے*
*” ھ “ اور ” ہ “ میں فرق*
از✏️ خواستگار اُردو : حسن رضا مشرف قادری
” ھاں “ اور ” ہاں “ کیا دونوں درست ہیں؟ اِسی طرح ” ہم “ اور ” ھم “ میں کیا فرق ہے ؟؟؟
جان لیجیے! اُردو میں دو چشمی ” ھ “ جسے ( ہاے مخلوط کہتے ہیں ) کا استعمال دو حروف تہجی بنانے کے لیے ہوتا ہے ۔ مثلاً :
بھ ، پھ ، تھ ، ٹھ ، جھ ، چھ ، دھ ، ڈھ ، گھ ، اور لھ وغیرہ ـ
بعض جگہوں پر خوب صورتی یا کسی اور وجہ سے لوگ ابتدا میں ” ھ “ کا استعمال کرتے ہیں مثلاً : ” ھم “ ، ” ھماری “ اور ” ھاں “ وغیرہ ـ
مگر یہ استعمال درست نہیں ہے ـ اولاً اس لیے کہ اردو میں ” ھ “ ابتدا میں کبھی آ ہی نہیں سکتا ـ کیوں کہ یہ صورت عربی سے آئی ہے ـ
یہاں ذوق کا ایک شعر اہلِ ذوق کی نذر کرتا ہوں :
*ہائے رے حسرتِ دیدار ، مِری " ہاے " کو بھی*
*لکھتے ہیں ہاے دو چشمی سے ، کتابت والے*
ثانیاً دو چشمی ” ھ “ کی اکیلی مستقل آواز نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملا کر لکھا اور پڑھا جاتا ہے ، دو چشمی ” ھ “ اردو میں ہندی زبان سے اخذ کی گئی ہے اور یہ صرف چند حروف کے ساتھ ہی آسکتی ہے ، اردو کے تمام حروف تہجی کے ساتھ نہیں آسکتی مثلاً :
بھ ، پھ ، تھ ، ٹھ ، جھ ، چھ ، دھ ، ڈھ ، گھ ، اور لھ وغیرہ۔
اس کے علاوہ باقی حروف کے ساتھ دوچشمی ” ھ “ نہیں آتی ، جب کہ ” ہ “ کی الگ مستقل آواز ہوتی ہے ـ
ذیل میں دوچشمی ” ھ “ یعنی ہاے مخلوط اور ” ہ “ یعنی ہاے ملفوظ کے چند جملے لکھے جارہے ہیں ، انھیں پڑھ کر ہمارے قارئین کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان دونوں کے پڑھنے میں کیا فرق ہے اور اُردو زبان میں یہ دو مختلف ھ/ہ الگ الگ کیوں رائج ہیں اور ان کی اہمیت کس قدر ہے ـ
دیکھیے : لفظ " بھاتے اور بہاتے " پہلے میں ہاے مخلوط اور دوسرے میں ہاے ملفوظ ہے ـــــ اب ان دونوں کا ایک ایک جملہ ملاحظہ کیجیے :
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : ننھے مُنے بچے مَن کو *بھاتے* ہیں
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : لاپروا لوگ پانی زیادہ *بہاتے* ہیں
دیکھیے : لفظ " پھاڑ اور پہاڑ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : بچے نے کاپی کا صفحہ *پھاڑ* دیا
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : *پہاڑ* پر چڑھنا ایک مشکل کام ہے
دیکھیے : لفظ " تھ اور تَہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : دنیا کا ایک مُلک *تھائی* لینڈ بھی ہے
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : ایک *تِہائی* کام ہو گیا ہے دو تِہائی باقی ہے
دیکھیے : لفظ " ٹھ اور ٹہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : آج کل اُن دونوں کی آپس میں *ٹھنی* ہوئی ہے
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : درخت کی *ٹہنی* پر بلبل نغمہ سرا ہے
دیکھیے : لفظ " جھ اور جہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : قرض کے بار نے *بوجھل* کر دیا ہے
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : *بوجہل* کو محبوب ﷺ دکھائے نہیں جاتے
دیکھیے : لفظ " چھ اور چہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال :قربانی کے جانور کے لیے *چھرا* تیز کرو
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال :خوش خبری سُن کر اُس کا *چہرا* کِھل اُٹھا
دیکھیے : لفظ " دھ اور دہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : صبح صبح میرا *دھندا* ( کاروبار ) خراب نہ کرو
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال :مذہبِ اہلِ سنت ہی نجات *دہندہ* ہے اسے مضبوطی سے تھام لو
دیکھیے : لفظ " کھ اور کہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : میرا قلم کہیں *کھو* گیا ہے
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال :اب *کہو* کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟
دیکھیے : لفظ " گھ اور گہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : جنگلات میں *گھنے* درخت ہوتے ہیں
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : اُس نے اپنی شادی پر *گہنے* اور دیگر زیورات پہنے تھے
قارئینِ باتمکین! یہ چند جملے صرف دوچشمی ” ھ “ اور ” ہ “ کے آپس میں فرق کو واضح کرنے کے لیے بہ طور مثال لکھے ہیں ، ورنہ اور بہت سے الفاظ ہیں جن میں ” ھ " کی جگہ ” ہ “ اور اِس کے برعکس لکھنے سے لفظوں کی بناوٹ کیا سے کیا ہو جائے اوپر دی گئی مثالوں سے آپ سمجھ چکے ہوں گے ـ اُردو ہماری اپنی اور بہت ہی پیاری زبان ہے اس کی ترویج کے لیے حتی المقدور ( طاقت بھر ) کوشش کیجیے ......... خود اُردو بولیے ، لکھیے اور لکھتے وقت اِملا و انشا کا خاص خیال رکھیے ـ بچوں کے ساتھ اُردو میں بات کیجیے تا کہ اُن کی زبان صاف ہو ـ
@HamariUrduPiyariUrdu
از✏️ خواستگار اُردو : حسن رضا مشرف قادری
” ھاں “ اور ” ہاں “ کیا دونوں درست ہیں؟ اِسی طرح ” ہم “ اور ” ھم “ میں کیا فرق ہے ؟؟؟
جان لیجیے! اُردو میں دو چشمی ” ھ “ جسے ( ہاے مخلوط کہتے ہیں ) کا استعمال دو حروف تہجی بنانے کے لیے ہوتا ہے ۔ مثلاً :
بھ ، پھ ، تھ ، ٹھ ، جھ ، چھ ، دھ ، ڈھ ، گھ ، اور لھ وغیرہ ـ
بعض جگہوں پر خوب صورتی یا کسی اور وجہ سے لوگ ابتدا میں ” ھ “ کا استعمال کرتے ہیں مثلاً : ” ھم “ ، ” ھماری “ اور ” ھاں “ وغیرہ ـ
مگر یہ استعمال درست نہیں ہے ـ اولاً اس لیے کہ اردو میں ” ھ “ ابتدا میں کبھی آ ہی نہیں سکتا ـ کیوں کہ یہ صورت عربی سے آئی ہے ـ
یہاں ذوق کا ایک شعر اہلِ ذوق کی نذر کرتا ہوں :
*ہائے رے حسرتِ دیدار ، مِری " ہاے " کو بھی*
*لکھتے ہیں ہاے دو چشمی سے ، کتابت والے*
ثانیاً دو چشمی ” ھ “ کی اکیلی مستقل آواز نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملا کر لکھا اور پڑھا جاتا ہے ، دو چشمی ” ھ “ اردو میں ہندی زبان سے اخذ کی گئی ہے اور یہ صرف چند حروف کے ساتھ ہی آسکتی ہے ، اردو کے تمام حروف تہجی کے ساتھ نہیں آسکتی مثلاً :
بھ ، پھ ، تھ ، ٹھ ، جھ ، چھ ، دھ ، ڈھ ، گھ ، اور لھ وغیرہ۔
اس کے علاوہ باقی حروف کے ساتھ دوچشمی ” ھ “ نہیں آتی ، جب کہ ” ہ “ کی الگ مستقل آواز ہوتی ہے ـ
ذیل میں دوچشمی ” ھ “ یعنی ہاے مخلوط اور ” ہ “ یعنی ہاے ملفوظ کے چند جملے لکھے جارہے ہیں ، انھیں پڑھ کر ہمارے قارئین کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان دونوں کے پڑھنے میں کیا فرق ہے اور اُردو زبان میں یہ دو مختلف ھ/ہ الگ الگ کیوں رائج ہیں اور ان کی اہمیت کس قدر ہے ـ
دیکھیے : لفظ " بھاتے اور بہاتے " پہلے میں ہاے مخلوط اور دوسرے میں ہاے ملفوظ ہے ـــــ اب ان دونوں کا ایک ایک جملہ ملاحظہ کیجیے :
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : ننھے مُنے بچے مَن کو *بھاتے* ہیں
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : لاپروا لوگ پانی زیادہ *بہاتے* ہیں
دیکھیے : لفظ " پھاڑ اور پہاڑ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : بچے نے کاپی کا صفحہ *پھاڑ* دیا
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : *پہاڑ* پر چڑھنا ایک مشکل کام ہے
دیکھیے : لفظ " تھ اور تَہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : دنیا کا ایک مُلک *تھائی* لینڈ بھی ہے
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : ایک *تِہائی* کام ہو گیا ہے دو تِہائی باقی ہے
دیکھیے : لفظ " ٹھ اور ٹہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : آج کل اُن دونوں کی آپس میں *ٹھنی* ہوئی ہے
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : درخت کی *ٹہنی* پر بلبل نغمہ سرا ہے
دیکھیے : لفظ " جھ اور جہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : قرض کے بار نے *بوجھل* کر دیا ہے
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : *بوجہل* کو محبوب ﷺ دکھائے نہیں جاتے
دیکھیے : لفظ " چھ اور چہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال :قربانی کے جانور کے لیے *چھرا* تیز کرو
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال :خوش خبری سُن کر اُس کا *چہرا* کِھل اُٹھا
دیکھیے : لفظ " دھ اور دہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : صبح صبح میرا *دھندا* ( کاروبار ) خراب نہ کرو
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال :مذہبِ اہلِ سنت ہی نجات *دہندہ* ہے اسے مضبوطی سے تھام لو
دیکھیے : لفظ " کھ اور کہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : میرا قلم کہیں *کھو* گیا ہے
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال :اب *کہو* کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟
دیکھیے : لفظ " گھ اور گہ "
✨ ہاے مخلوط ” ھ “ کے ساتھ مثال : جنگلات میں *گھنے* درخت ہوتے ہیں
✨ ہاے ملفوظ ” ہ “ کے ساتھ مثال : اُس نے اپنی شادی پر *گہنے* اور دیگر زیورات پہنے تھے
قارئینِ باتمکین! یہ چند جملے صرف دوچشمی ” ھ “ اور ” ہ “ کے آپس میں فرق کو واضح کرنے کے لیے بہ طور مثال لکھے ہیں ، ورنہ اور بہت سے الفاظ ہیں جن میں ” ھ " کی جگہ ” ہ “ اور اِس کے برعکس لکھنے سے لفظوں کی بناوٹ کیا سے کیا ہو جائے اوپر دی گئی مثالوں سے آپ سمجھ چکے ہوں گے ـ اُردو ہماری اپنی اور بہت ہی پیاری زبان ہے اس کی ترویج کے لیے حتی المقدور ( طاقت بھر ) کوشش کیجیے ......... خود اُردو بولیے ، لکھیے اور لکھتے وقت اِملا و انشا کا خاص خیال رکھیے ـ بچوں کے ساتھ اُردو میں بات کیجیے تا کہ اُن کی زبان صاف ہو ـ
@HamariUrduPiyariUrdu