فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اسکی حدیث.و.روایت منکر و مردود ہے..(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)
.
نیز اس روایت کا ایک اور راوی محمد بن اسماعیل مرادی مجھول و باطل مردود ہے
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِي عَن أَبِيه قَالَ أَبُو حَاتِم مَجْهُول وَأَبوهُ مَجْهُول والْحَدِيث الَّذِي رَوَاهُ بَاطِل
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِی کے متعلق امام ابو حاتم نے فرمایا ہے کہ یہ اور اس کا والد مجہول ہیں اور اس نےجو حدیث بیان کی وہ باطل ہے
(الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي3/42)
.
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِي لَا يدرى من هُوَ والْحَدِيث بَاطِل
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِی مجہول راوی ہے اور اس نے جو حدیث بیان کی ہے وہ باطل ہے
(المغني في الضعفاء2/555)
.
محمد بن إسماعيل المرادي. أتى بحديث باطل
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِی نےجو حدیث بیان کی ہے وہ باطل ہے
(لسان الميزان ت أبي غدة6/570)
.
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات مرض اور وصیت وغیرہ کے متعلق تمام احوال مستند کتب میں آئے ہیں جس میں مذکورہ واقعہ کا کچھ اتا پتہ ہی نہیں لیھذا یہ منفرد و منکر روایت مردود باطل و ناقابل حجت ہے…سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کچھ نہیں کہا اور نہ ہی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا و فداھا روحی کے گھر کی بےحرمتی کی...اس سلسلہ میں جو کچھ شیعہ بیان کرتے ہیں وہ جھوٹ ، ضعیف جدا، منکر و مردود باطل ہے
.
جو کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ کو شہید کیا گیا،ظلم کیاگیا،سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و فداہ روحی نے مکا مارا…سب جھوٹ ہے
تحقیق تفصیل اس فیس بک لنک پے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=812217336201266&id=100022390216317
.
تحقیق یہ ہے کہ اہل بیت وغیرہ کو باغ فدک میں سے خرچہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر وغیرہ خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین دیتے رہے اور سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر سے راضی تھیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اصرار پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پڑھایا
تفصیل اس فس بک لنک میں
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=633370834085918&id=100022390216317
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475
ترجمہ:
اسکی حدیث.و.روایت منکر و مردود ہے..(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)
.
نیز اس روایت کا ایک اور راوی محمد بن اسماعیل مرادی مجھول و باطل مردود ہے
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِي عَن أَبِيه قَالَ أَبُو حَاتِم مَجْهُول وَأَبوهُ مَجْهُول والْحَدِيث الَّذِي رَوَاهُ بَاطِل
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِی کے متعلق امام ابو حاتم نے فرمایا ہے کہ یہ اور اس کا والد مجہول ہیں اور اس نےجو حدیث بیان کی وہ باطل ہے
(الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي3/42)
.
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِي لَا يدرى من هُوَ والْحَدِيث بَاطِل
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِی مجہول راوی ہے اور اس نے جو حدیث بیان کی ہے وہ باطل ہے
(المغني في الضعفاء2/555)
.
محمد بن إسماعيل المرادي. أتى بحديث باطل
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِی نےجو حدیث بیان کی ہے وہ باطل ہے
(لسان الميزان ت أبي غدة6/570)
.
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات مرض اور وصیت وغیرہ کے متعلق تمام احوال مستند کتب میں آئے ہیں جس میں مذکورہ واقعہ کا کچھ اتا پتہ ہی نہیں لیھذا یہ منفرد و منکر روایت مردود باطل و ناقابل حجت ہے…سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کچھ نہیں کہا اور نہ ہی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا و فداھا روحی کے گھر کی بےحرمتی کی...اس سلسلہ میں جو کچھ شیعہ بیان کرتے ہیں وہ جھوٹ ، ضعیف جدا، منکر و مردود باطل ہے
.
جو کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ کو شہید کیا گیا،ظلم کیاگیا،سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و فداہ روحی نے مکا مارا…سب جھوٹ ہے
تحقیق تفصیل اس فیس بک لنک پے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=812217336201266&id=100022390216317
.
تحقیق یہ ہے کہ اہل بیت وغیرہ کو باغ فدک میں سے خرچہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر وغیرہ خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین دیتے رہے اور سیدہ فاطمہ سیدنا ابوبکر سے راضی تھیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اصرار پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پڑھایا
تفصیل اس فس بک لنک میں
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=633370834085918&id=100022390216317
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475
Facebook
Log in to Facebook
Log in to Facebook to start sharing and connecting with your friends, family and people you know.
جب سرکار علیہ الصلاۃ و السلام کی وفات کا وقت آیا تو آپ کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زیارت کروائی گئی تاکہ آپ کے لیے یہ معاملہ آسان ہو جائے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
" تحقیق میں نے عائشہ کو جنت میں دیکھا گویا کہ میں اس کی ہتھیلی کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں تاکہ اس کے ذریعے مجھ پر موت آسان ہو۔"
[ فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل ، صفحه 871 ، أم القري]
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سید العالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ خوش نصیب زوجہ محترمہ ہیں جن کی گود میں سرکار علیہ الصلاۃ و السلام کی وفات ہوئی اور جن کا حجرہ مبارک ہی سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ مبارک بنا اور کل قیامت میں بھی آپ رضی اللہ عںہا کی شان سب سے نرالی ہو گی۔
کیا مبارک نام دیکھو کیسا پیارا ہے لقب
عائشہ محبوبۂ محبوبِ رب العالمین
اس مبارک ماں پہ صدقہ کیوں نہ ہوں سب اہل دیں
جو ہو ام المومنین بنت امیر المؤمنین
جن کا پہلو ہو نبی کی آخری آرام گاہ
جن کے حجرے میں قیامت تک نبی ہوں جاگزیں
✍️ غلام رضا
23-01-2021ء
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
" تحقیق میں نے عائشہ کو جنت میں دیکھا گویا کہ میں اس کی ہتھیلی کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں تاکہ اس کے ذریعے مجھ پر موت آسان ہو۔"
[ فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل ، صفحه 871 ، أم القري]
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سید العالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ خوش نصیب زوجہ محترمہ ہیں جن کی گود میں سرکار علیہ الصلاۃ و السلام کی وفات ہوئی اور جن کا حجرہ مبارک ہی سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ مبارک بنا اور کل قیامت میں بھی آپ رضی اللہ عںہا کی شان سب سے نرالی ہو گی۔
کیا مبارک نام دیکھو کیسا پیارا ہے لقب
عائشہ محبوبۂ محبوبِ رب العالمین
اس مبارک ماں پہ صدقہ کیوں نہ ہوں سب اہل دیں
جو ہو ام المومنین بنت امیر المؤمنین
جن کا پہلو ہو نبی کی آخری آرام گاہ
جن کے حجرے میں قیامت تک نبی ہوں جاگزیں
✍️ غلام رضا
23-01-2021ء
✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
Photo
امریکہ کا چھتیسواں صدر لینڈن جانسن1961ء میں کراچی آیا تھا ۔
یہ ایک دن کارساز سے گزر رہا تھا تواس کی ملاقات بشیر احمد نامی ایک مزدور سے ہوئی ۔
جانسن کو بشیر احمد بہت زیادہ پسند آیا اور وہ اسے امریکہ لے گیا ۔
امریکہ میں بشیر احمد کو شاہی مہمان بنایا گیا ، بڑی آؤ بَھگت کی گئی ، تحفے تحائف دیے گئے ، بہترین کھانے پیش کیے گئے ؛ بشیر احمد چمچ کے بجائے ہاتھ سے کھانا کھاتا تھا ، اس لیے ایسے کھانے تیار کروائے گئے جنھیں ہاتھ سے کھاتے ہوئےبشیر احمد کو دقت نہ ہو ۔
ایکدن جانسن نے بشیر احمد سے کہا:
تُو جب سے آیا ہے ، تُو نے کوئی مطالبہ نہیں کیا ، اپنی کسی خواہش کا اظہار تو کر !
بشیر احمد کہنے لگا: میری کوئی خواہش نہیں ۔
اس نے کہا: نہیں ، کچھ نہ کچھ تو کَہ ۔
بشیر احمد نے کمال سادگی سے کہا:اچھا پھر جو کہوں گا کردو گے ؟ کہنے لگا: ہاں !
تو پھر ایک پھیرا مدینے کا لگوا دو ۔
( بس میری یہی تمنا ہے )
جانسن یہ سن کر ششدر رہ گیا ، کہ یہ کیسا شخص ہے جسے سوائے مدینے کی زیارت کے کوئی حسرت ہی نہیں ۔
اس نے بشیر احمد کو مدینہ پاک کے لیے روانہ کردیا اور ایک عریضہ سعودی حکومت کو پیش کیا کہ:
میں بھی وہ شہر دیکھنا چاہتا ہوں ( جسے دیکھنے کے لیے بشیر احمد جیسے لوگ ترستے ہیں ) ۔
مولانا اجمل صاحب کہتے ہیں:
یہ جانسن نے خود لکھا ہے ، اور یہ امریکہ کا واحد صدر ہے جس نے مدینۃ النبی دیکھنے کی درخواست دی تھی ، جو اس کے غیرمسلم ہونے کی وجہ سے منظور تو نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس نے مدینہ پاک کی تصویریں کھنچوا کر اپنے کمرے میں لگالیں اور مرتے دم تک انھیں دیکھتا رہا ۔
✍️لقمان شاہد
25-1-2021 ء
@HamariUrduPiyariUrdu
یہ ایک دن کارساز سے گزر رہا تھا تواس کی ملاقات بشیر احمد نامی ایک مزدور سے ہوئی ۔
جانسن کو بشیر احمد بہت زیادہ پسند آیا اور وہ اسے امریکہ لے گیا ۔
امریکہ میں بشیر احمد کو شاہی مہمان بنایا گیا ، بڑی آؤ بَھگت کی گئی ، تحفے تحائف دیے گئے ، بہترین کھانے پیش کیے گئے ؛ بشیر احمد چمچ کے بجائے ہاتھ سے کھانا کھاتا تھا ، اس لیے ایسے کھانے تیار کروائے گئے جنھیں ہاتھ سے کھاتے ہوئےبشیر احمد کو دقت نہ ہو ۔
ایکدن جانسن نے بشیر احمد سے کہا:
تُو جب سے آیا ہے ، تُو نے کوئی مطالبہ نہیں کیا ، اپنی کسی خواہش کا اظہار تو کر !
بشیر احمد کہنے لگا: میری کوئی خواہش نہیں ۔
اس نے کہا: نہیں ، کچھ نہ کچھ تو کَہ ۔
بشیر احمد نے کمال سادگی سے کہا:اچھا پھر جو کہوں گا کردو گے ؟ کہنے لگا: ہاں !
تو پھر ایک پھیرا مدینے کا لگوا دو ۔
( بس میری یہی تمنا ہے )
جانسن یہ سن کر ششدر رہ گیا ، کہ یہ کیسا شخص ہے جسے سوائے مدینے کی زیارت کے کوئی حسرت ہی نہیں ۔
اس نے بشیر احمد کو مدینہ پاک کے لیے روانہ کردیا اور ایک عریضہ سعودی حکومت کو پیش کیا کہ:
میں بھی وہ شہر دیکھنا چاہتا ہوں ( جسے دیکھنے کے لیے بشیر احمد جیسے لوگ ترستے ہیں ) ۔
مولانا اجمل صاحب کہتے ہیں:
یہ جانسن نے خود لکھا ہے ، اور یہ امریکہ کا واحد صدر ہے جس نے مدینۃ النبی دیکھنے کی درخواست دی تھی ، جو اس کے غیرمسلم ہونے کی وجہ سے منظور تو نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس نے مدینہ پاک کی تصویریں کھنچوا کر اپنے کمرے میں لگالیں اور مرتے دم تک انھیں دیکھتا رہا ۔
✍️لقمان شاہد
25-1-2021 ء
@HamariUrduPiyariUrdu
اسلام سے پہلے کا ہندوستان
تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
یہ سب بچے کہاں ہیں ؟ کوئی شورو غل نہیں مچا رہا۔۔۔نائلہ نے کہا ۔
اکیسویں صدی ہے ممکن ہے ہمارے عہد کے بچے تمیز دار ہو چکے ہوں ۔شمائلہ نے نائلہ کو جواب دیا۔
صدی کوئی بھی ہو بچے تو بچے ہی ہو تے ہیں میری بچیو! نانی جان نے اپنی دونوں بڑی نواسیوں سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اسی دوران تمام بچوں نے گھر میں داخل ہو تے ہوئے کہا ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اوہو!!! تو بچوں کی یہ پوری جماعت ، باجماعت نماز پڑھنے مسجد گئی ہوئی تھی ۔نائلہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
جی جی ۔۔۔
میں اور تمام بچے وہیں لاؤنج میں بیٹھ گئے ۔
ہاں بھئی شہزاد ! آپ کے کچھ مزید سوالات تھے ؟ میں نے شہزاد کی طرف دیکھتے ہوئے ۔
نانا جان ! ہماری مس نے بتایا تھا کہ ہندوستان ، روم ، ایران ،یونان ،مصر اور عرب اپنے وقت کی بہت بڑی طاقتیں تھیں اور تہذیب یافتہ سمجھی جاتی تھیں ۔
میرے بچو! تمہیں ایک کہانی سُناتا ہوں ۔
کہانی ! سب بچوں نے ایک ساتھ کہا تو نائلہ اور شمائلہ بھی کہانی سننے کے اشتیاق میں وہیں صوفے پر ساتھ بیٹھ گئیں ۔
ہاں !کہانی ۔
ایک جنگل میں ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا ایک دن اسے خیال آیا کیوں نا وہ بادشاہ سے جا کر ملے ۔
گھر پہنچ کر اس نےاپنی بیوی سے کہا : نیک بخت ! میں چاہتا ہوں کہ بادشاہ سے ملاقات کروں ۔
بیوی نے کہا: یہ تو بہت اچھی بات ہے تم ملاقات کر لو ۔
اس آدمی نے کہا: لیکن نیک بخت ایک مسئلہ ہے ۔
بیوی نے پوچھا : کیا مسئلہ ہے ؟
اس آدمی نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ بادشاہ کے پاس جاؤں تو کیا لے کر جاؤں ؟ کیونکہ خالی ہاتھ جانا تومناسب معلوم نہیں ہوتا۔
بیوی نے کہا : ہاں یہ تو ٹھیک ہے تو کوئی چیز لےجاؤ۔
اس نے کہا: یہ ہی تو مسئلہ ہے لے کر کیا جاؤں ،بادشاہ کے پاس تو ہر چیز موجود ہوتی ہے کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے جو بادشاہ نے نہ دیکھی ہو کبھی استعمال نہ کی ہو وہ اس کو دیکھے اور استعمال کرے تو خوش ہوجائے ۔
بیوی نے کہا : یہ بھی ٹھیک ہے۔
اس آدمی نے کہا : نیک بخت !یہ بھی ٹھیک اور یہ بھی ٹھیک ہے یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، پر لے کر کیا جاؤں یہ سمجھ نہیں آرہا۔
بیوی نے کہا : میرے سرتاج ! آپ ایسا کیجیے کہ ہمارے تالاب میں بارش کا جو ٹھنڈا اور میٹھا پانی جمع ہے اسے بادشاہ کے پاس تحفۃً لے جائیے ایسا میٹھا اور ٹھنڈا پانی تو پورے ملک میں کہیں نہیں ہو گا۔
آدمی نے سوچا : نیک بخت یہ تو،تونے اچھا مشورہ دیا میں کل ہی بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہو جاتا ہوں ۔
آدمی نے تالاب میں جمع بارش کے پانی سے گھڑا بھرا اور بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گیا پرانا زمانہ تھا گھوڑے کا سفر تھا کئی دنوں کا سفر کرکے وہ بادشاہ کے محل کےپاس پہنچا اور دربانوں سے کہا وہ بہت دور سے آیا ہے اور بادشاہ کے لیے بہت قیمتی تحفہ لایا ہے ۔
تو کیا دربانوں نے اسے اندر جانے دیا۔دانش نے پوچھا
ہاں ہاں تو دربانوں نے بادشاہ سے اجازت لی اور اس شخص کو دربار میں جانے کی اجازت میں گئی ۔
اس نے بادشاہ سے کہا : بادشاہ سلامت ! میں آپ کے لیے دنیا کا بہترین اور میٹھا پانی لے کر حاضر ہوا ہوں ایساپانی جوپورے ملک میں کہیں نہیں ہے ۔
بادشاہ کے وزیر نے گھڑے پر سے کپڑا ہٹایا تو اسے ایک دم پانی میں بدبو محسوس ہو ئی ۔
وہ کیوں ؟دانش نے پوچھا ۔
ارے بھئی کئی دن کا پرانا اور تالاب کا پانی بدبو تو آئے گی نا ! کہانی سننے دو۔شہزاد نے کہا۔
میں نے دونوں بچوں کو مسکرا کر دیکھا اور کہا : ہاں تو بدبو کی وجہ سے وزیر نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا اور رحم دل بادشاہ سمجھ گیا کہ غریب دیہاتی بارش کا پانی جمع کر کے لے آیا اس نے کیوں کہ میٹھا پانی کبھی پیا ہی نہیں وہ اسی کو سب سےزیادہ میٹھا پانی سمجھتا ہےبادشاہ نے انگلی کے اشارے سے وزیر کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور وزیر سے کہا: اس پانی کواس گھڑے سےنکال کر اس گھڑے کو ہیرے جواہرات سے بھر دو۔
حکم کی تعمیل ہوئی ۔
اس کے بعد بادشاہ نےوزیر سے کہا : جب یہ جانے لگے تو اس کو ان چشموں سے گزار کر لے جانا جہاں سے ہمارے محل میں میٹھا پانی آتا ہے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ ہم نے اس کا تحفہ پھر بھی قبول کر لیا۔
نانا جان سانس لینےکے لیے روکے تو دانش نےبے تابی سےپوچھا: پھر کیا ہوا؟
پھر یہ ہوا کہ واپسی پر جب اسے چشمے کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی پلایا تو اسے اندازا ہو ا کہ بادشاہ کتنا اچھا آدمی تھا کہ اس نےا س کے حقیر تحفے کو قبول کر کے اسے انعام بھی دیا۔اس آدمی کے دل میں اپنے بادشاہ سے اور بھی محبت بڑھ گئی ۔
تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
یہ سب بچے کہاں ہیں ؟ کوئی شورو غل نہیں مچا رہا۔۔۔نائلہ نے کہا ۔
اکیسویں صدی ہے ممکن ہے ہمارے عہد کے بچے تمیز دار ہو چکے ہوں ۔شمائلہ نے نائلہ کو جواب دیا۔
صدی کوئی بھی ہو بچے تو بچے ہی ہو تے ہیں میری بچیو! نانی جان نے اپنی دونوں بڑی نواسیوں سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اسی دوران تمام بچوں نے گھر میں داخل ہو تے ہوئے کہا ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اوہو!!! تو بچوں کی یہ پوری جماعت ، باجماعت نماز پڑھنے مسجد گئی ہوئی تھی ۔نائلہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
جی جی ۔۔۔
میں اور تمام بچے وہیں لاؤنج میں بیٹھ گئے ۔
ہاں بھئی شہزاد ! آپ کے کچھ مزید سوالات تھے ؟ میں نے شہزاد کی طرف دیکھتے ہوئے ۔
نانا جان ! ہماری مس نے بتایا تھا کہ ہندوستان ، روم ، ایران ،یونان ،مصر اور عرب اپنے وقت کی بہت بڑی طاقتیں تھیں اور تہذیب یافتہ سمجھی جاتی تھیں ۔
میرے بچو! تمہیں ایک کہانی سُناتا ہوں ۔
کہانی ! سب بچوں نے ایک ساتھ کہا تو نائلہ اور شمائلہ بھی کہانی سننے کے اشتیاق میں وہیں صوفے پر ساتھ بیٹھ گئیں ۔
ہاں !کہانی ۔
ایک جنگل میں ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا ایک دن اسے خیال آیا کیوں نا وہ بادشاہ سے جا کر ملے ۔
گھر پہنچ کر اس نےاپنی بیوی سے کہا : نیک بخت ! میں چاہتا ہوں کہ بادشاہ سے ملاقات کروں ۔
بیوی نے کہا: یہ تو بہت اچھی بات ہے تم ملاقات کر لو ۔
اس آدمی نے کہا: لیکن نیک بخت ایک مسئلہ ہے ۔
بیوی نے پوچھا : کیا مسئلہ ہے ؟
اس آدمی نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ بادشاہ کے پاس جاؤں تو کیا لے کر جاؤں ؟ کیونکہ خالی ہاتھ جانا تومناسب معلوم نہیں ہوتا۔
بیوی نے کہا : ہاں یہ تو ٹھیک ہے تو کوئی چیز لےجاؤ۔
اس نے کہا: یہ ہی تو مسئلہ ہے لے کر کیا جاؤں ،بادشاہ کے پاس تو ہر چیز موجود ہوتی ہے کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے جو بادشاہ نے نہ دیکھی ہو کبھی استعمال نہ کی ہو وہ اس کو دیکھے اور استعمال کرے تو خوش ہوجائے ۔
بیوی نے کہا : یہ بھی ٹھیک ہے۔
اس آدمی نے کہا : نیک بخت !یہ بھی ٹھیک اور یہ بھی ٹھیک ہے یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، پر لے کر کیا جاؤں یہ سمجھ نہیں آرہا۔
بیوی نے کہا : میرے سرتاج ! آپ ایسا کیجیے کہ ہمارے تالاب میں بارش کا جو ٹھنڈا اور میٹھا پانی جمع ہے اسے بادشاہ کے پاس تحفۃً لے جائیے ایسا میٹھا اور ٹھنڈا پانی تو پورے ملک میں کہیں نہیں ہو گا۔
آدمی نے سوچا : نیک بخت یہ تو،تونے اچھا مشورہ دیا میں کل ہی بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہو جاتا ہوں ۔
آدمی نے تالاب میں جمع بارش کے پانی سے گھڑا بھرا اور بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گیا پرانا زمانہ تھا گھوڑے کا سفر تھا کئی دنوں کا سفر کرکے وہ بادشاہ کے محل کےپاس پہنچا اور دربانوں سے کہا وہ بہت دور سے آیا ہے اور بادشاہ کے لیے بہت قیمتی تحفہ لایا ہے ۔
تو کیا دربانوں نے اسے اندر جانے دیا۔دانش نے پوچھا
ہاں ہاں تو دربانوں نے بادشاہ سے اجازت لی اور اس شخص کو دربار میں جانے کی اجازت میں گئی ۔
اس نے بادشاہ سے کہا : بادشاہ سلامت ! میں آپ کے لیے دنیا کا بہترین اور میٹھا پانی لے کر حاضر ہوا ہوں ایساپانی جوپورے ملک میں کہیں نہیں ہے ۔
بادشاہ کے وزیر نے گھڑے پر سے کپڑا ہٹایا تو اسے ایک دم پانی میں بدبو محسوس ہو ئی ۔
وہ کیوں ؟دانش نے پوچھا ۔
ارے بھئی کئی دن کا پرانا اور تالاب کا پانی بدبو تو آئے گی نا ! کہانی سننے دو۔شہزاد نے کہا۔
میں نے دونوں بچوں کو مسکرا کر دیکھا اور کہا : ہاں تو بدبو کی وجہ سے وزیر نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا اور رحم دل بادشاہ سمجھ گیا کہ غریب دیہاتی بارش کا پانی جمع کر کے لے آیا اس نے کیوں کہ میٹھا پانی کبھی پیا ہی نہیں وہ اسی کو سب سےزیادہ میٹھا پانی سمجھتا ہےبادشاہ نے انگلی کے اشارے سے وزیر کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور وزیر سے کہا: اس پانی کواس گھڑے سےنکال کر اس گھڑے کو ہیرے جواہرات سے بھر دو۔
حکم کی تعمیل ہوئی ۔
اس کے بعد بادشاہ نےوزیر سے کہا : جب یہ جانے لگے تو اس کو ان چشموں سے گزار کر لے جانا جہاں سے ہمارے محل میں میٹھا پانی آتا ہے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ ہم نے اس کا تحفہ پھر بھی قبول کر لیا۔
نانا جان سانس لینےکے لیے روکے تو دانش نےبے تابی سےپوچھا: پھر کیا ہوا؟
پھر یہ ہوا کہ واپسی پر جب اسے چشمے کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی پلایا تو اسے اندازا ہو ا کہ بادشاہ کتنا اچھا آدمی تھا کہ اس نےا س کے حقیر تحفے کو قبول کر کے اسے انعام بھی دیا۔اس آدمی کے دل میں اپنے بادشاہ سے اور بھی محبت بڑھ گئی ۔
بالکل ایسے ہی ہندوستان ، ایران ، یونان ، مصر اور روم کی سلطنتیں اسلام سے قبل اپنے اپنے زمانے میں خود کواس دیہاتی کی طرح ہی سمجھتی تھیں ۔
سب ہی بچے مسکرا دئیے ۔
ابو ریحان البیرونی ایک مسلم محقق اور سائنسدان گزرے ہیں انہوں نے ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ طویل عرصہ گزارا ان کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ان کی زبان سیکھی اور ان کے علوم سیکھے انہیں ہندوستان کے بڑے بڑے دانشور علم البحر یعنی علم کا سمندر کہتے تھے ،وہ لکھتےہیں ۔
ہندو اپنی نسلی ،علمی اور سیاسی برتری کے گھمنڈ میں اس طرح مبتلا ہیں کہ کسی کوخاطر میں نہیں لاتے اگر ان کو بتایا جائے کہ فلاں ملک میں فلاں بہت بڑے عالم ہیں تو وہ ایساکہنے والوں کو جھٹلاتے ہیں اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہو تے کہ ان کے علاوہ بھی دنیا میں کوئی عالم اور دانشور ہو سکتا ہے۔
نانا جان ! ایک سوال ! طلحہ نے کہا ۔
ہاں بھئی بالکل سوال پوچھیے ۔
البیرونی کا تعلق تو ہندوستان سے تھا بھی نہیں پھر وہ البیرونی کو "بحرالعلم "یعنی علم کا سمندر کیوں کہتے تھے ۔
شروع شروع میں البیرونی ان کے نجومیوں کے درس میں جاتا اور شاگردوں کی طرح خاموشی سے بیٹھا رہتاجب البیرونی کو ان کی زبان پر مکمل عبور حاصل ہو گیا تو اس نے اپنے ان نجومی استادوں سے سوالات شروع کر دئیے ۔۔۔
وہ نجومی البیرونی کے سوالات کے جوابات نہیں دے پاتے ان کے اوپر البیرونی کا علمی رعب طاری ہو گیا او راسی سبب سے وہ البیرونی کو بحر العلم (علم کاسمندر )کہنے لگے ۔
ابتدائی زمانے میں ہندوستان کے لوگ بھی تو حید کے قائل تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں گمراہی بڑھتی چلی گئی۔
وہ کیسے ؟شہزاد نے پوچھا۔
جیسےسیدنابراہیم علیہ السلام نے توحید کی دعوت دی تھی لیکن عرب کے لوگوں نے ان تعلیمات کو بھلا دیا اور بیت اللہ شریف تک میں بت لا کر رکھ دئیے اسی طرح ہندوستان میں بھی ہوا اور توحید کی تعلیم میں شیطان اور اس کے چیلوں نے شرک کی غلاظت شامل کر دی اور یہ بھی کئی خداؤں کی عبادت کرنے لگے۔
اب آپ خود بتائیے جن پتھروں کو وہ اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں انہیں خدا بھی جانتے ہیں ۔وہ تہذیب یافتہ قوم ہو سکتی ہے ؟
لیکن نانا جان ! جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو لبرل اور سیکولر یہ کہتے ہیں یہ تو ان کے مذہبی عقائد ہیں ۔۔۔شمائلہ نے گفتگو میں شریک ہوتے ہوئے کہا ۔
ہاں بیٹا ! بالکل ! مذہب کا تو انسانی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اچھا ہم ان کی معاشرتی زندگی اور مذہبی تعلیمات دیکھیں تو ہم اور اچھے طریقے سے ان کی تہذیب کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔
ہندوستان میں ذات پات کا نظام تو آج بھی نہیں سدھر سکا ان کے ہاں چار ذاتیں ہوتی ہیں معلوم ہیں آپ کو ؟ میں نے سوال کیا ۔
جی ہاں مجھے معلوم ہیں ۔ نائلہ نے کہا ۔
آپ کو کیسے معلوم ؟ طلحہ کو شاید جیلسی محسوس ہوئی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کا ہی مطالعہ اچھا ہے۔
ہماری یونیورسٹی میں پروفیسر عدنا ن صاحب ہیں وہ اکثر ہمیں تاریخ کے بارے میں اور اقوامِ عالم کے بارے میں بتاتے ہیں اس بارے میں بھی انہوں نے ہی بتایا تھا ۔نائلہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ۔
ہاں تو پھر بتائیے ہندوؤں میں یہ چار ذاتیں کون سی ہیں ؟ میں نے سوال کیا ۔
ہندوؤں کی چار ذاتیں یہ ہیں ۔
1۔ برہمن
2 ۔کھشتری
3۔ویش
4۔شودر
ان میں سب سے بڑی ، معتبر اور مقدس ذات برہمن مانی جاتی ہے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ برہمن ،برہما کے سر سے پیدا ہوئے ہیں دیوتاؤں کے چڑھاوے کے لیے یہ ہی مخصوص ہیں
کھشتری ملک کی حفاظت کے لیےہیں
ویش تجارت کے لیےہیں
اور شودر ان میں سب سے مظلوم طبقہ ہے جس کے لیے ہندو کہتے ہیں کہ یہ برہما کے پیروں سے پیدا ہوا ہے اور یہ صرف تینوں کی خدمت کے لیے ہے ۔۔ شودر ذات پر سب سے زیادہ ظلم کیےگئے ۔
واہ بھئی واہ ! مجھے تومعلوم ہی نہیں تھا میری نواسی کو بھی اتنی ساری معلومات ہیں ۔
لیکن نانا جان ! اتنی معلومات تو نہیں ہیں نا جتنی آپ کو ہے ۔۔۔نائلہ نے کہا ۔
بھئی عمر کے ساتھ ساتھ ہوجائےگی مگر آج کل کے بچوں کو تو یہ معلومات بھی نہیں ہوتیں ۔
نانا جان ! ویسے یہ ذات پات تو اچھی بات نہیں ہے ۔۔دانش نے کہا۔
اور قرآن نےتوبیان کیا ہے۔ طلحہ نے قرآں کریم کی آیت تلاوت کی ۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بےشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔
سب ہی بچے مسکرا دئیے ۔
ابو ریحان البیرونی ایک مسلم محقق اور سائنسدان گزرے ہیں انہوں نے ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ طویل عرصہ گزارا ان کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ان کی زبان سیکھی اور ان کے علوم سیکھے انہیں ہندوستان کے بڑے بڑے دانشور علم البحر یعنی علم کا سمندر کہتے تھے ،وہ لکھتےہیں ۔
ہندو اپنی نسلی ،علمی اور سیاسی برتری کے گھمنڈ میں اس طرح مبتلا ہیں کہ کسی کوخاطر میں نہیں لاتے اگر ان کو بتایا جائے کہ فلاں ملک میں فلاں بہت بڑے عالم ہیں تو وہ ایساکہنے والوں کو جھٹلاتے ہیں اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہو تے کہ ان کے علاوہ بھی دنیا میں کوئی عالم اور دانشور ہو سکتا ہے۔
نانا جان ! ایک سوال ! طلحہ نے کہا ۔
ہاں بھئی بالکل سوال پوچھیے ۔
البیرونی کا تعلق تو ہندوستان سے تھا بھی نہیں پھر وہ البیرونی کو "بحرالعلم "یعنی علم کا سمندر کیوں کہتے تھے ۔
شروع شروع میں البیرونی ان کے نجومیوں کے درس میں جاتا اور شاگردوں کی طرح خاموشی سے بیٹھا رہتاجب البیرونی کو ان کی زبان پر مکمل عبور حاصل ہو گیا تو اس نے اپنے ان نجومی استادوں سے سوالات شروع کر دئیے ۔۔۔
وہ نجومی البیرونی کے سوالات کے جوابات نہیں دے پاتے ان کے اوپر البیرونی کا علمی رعب طاری ہو گیا او راسی سبب سے وہ البیرونی کو بحر العلم (علم کاسمندر )کہنے لگے ۔
ابتدائی زمانے میں ہندوستان کے لوگ بھی تو حید کے قائل تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں گمراہی بڑھتی چلی گئی۔
وہ کیسے ؟شہزاد نے پوچھا۔
جیسےسیدنابراہیم علیہ السلام نے توحید کی دعوت دی تھی لیکن عرب کے لوگوں نے ان تعلیمات کو بھلا دیا اور بیت اللہ شریف تک میں بت لا کر رکھ دئیے اسی طرح ہندوستان میں بھی ہوا اور توحید کی تعلیم میں شیطان اور اس کے چیلوں نے شرک کی غلاظت شامل کر دی اور یہ بھی کئی خداؤں کی عبادت کرنے لگے۔
اب آپ خود بتائیے جن پتھروں کو وہ اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں انہیں خدا بھی جانتے ہیں ۔وہ تہذیب یافتہ قوم ہو سکتی ہے ؟
لیکن نانا جان ! جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو لبرل اور سیکولر یہ کہتے ہیں یہ تو ان کے مذہبی عقائد ہیں ۔۔۔شمائلہ نے گفتگو میں شریک ہوتے ہوئے کہا ۔
ہاں بیٹا ! بالکل ! مذہب کا تو انسانی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اچھا ہم ان کی معاشرتی زندگی اور مذہبی تعلیمات دیکھیں تو ہم اور اچھے طریقے سے ان کی تہذیب کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔
ہندوستان میں ذات پات کا نظام تو آج بھی نہیں سدھر سکا ان کے ہاں چار ذاتیں ہوتی ہیں معلوم ہیں آپ کو ؟ میں نے سوال کیا ۔
جی ہاں مجھے معلوم ہیں ۔ نائلہ نے کہا ۔
آپ کو کیسے معلوم ؟ طلحہ کو شاید جیلسی محسوس ہوئی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کا ہی مطالعہ اچھا ہے۔
ہماری یونیورسٹی میں پروفیسر عدنا ن صاحب ہیں وہ اکثر ہمیں تاریخ کے بارے میں اور اقوامِ عالم کے بارے میں بتاتے ہیں اس بارے میں بھی انہوں نے ہی بتایا تھا ۔نائلہ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ۔
ہاں تو پھر بتائیے ہندوؤں میں یہ چار ذاتیں کون سی ہیں ؟ میں نے سوال کیا ۔
ہندوؤں کی چار ذاتیں یہ ہیں ۔
1۔ برہمن
2 ۔کھشتری
3۔ویش
4۔شودر
ان میں سب سے بڑی ، معتبر اور مقدس ذات برہمن مانی جاتی ہے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ برہمن ،برہما کے سر سے پیدا ہوئے ہیں دیوتاؤں کے چڑھاوے کے لیے یہ ہی مخصوص ہیں
کھشتری ملک کی حفاظت کے لیےہیں
ویش تجارت کے لیےہیں
اور شودر ان میں سب سے مظلوم طبقہ ہے جس کے لیے ہندو کہتے ہیں کہ یہ برہما کے پیروں سے پیدا ہوا ہے اور یہ صرف تینوں کی خدمت کے لیے ہے ۔۔ شودر ذات پر سب سے زیادہ ظلم کیےگئے ۔
واہ بھئی واہ ! مجھے تومعلوم ہی نہیں تھا میری نواسی کو بھی اتنی ساری معلومات ہیں ۔
لیکن نانا جان ! اتنی معلومات تو نہیں ہیں نا جتنی آپ کو ہے ۔۔۔نائلہ نے کہا ۔
بھئی عمر کے ساتھ ساتھ ہوجائےگی مگر آج کل کے بچوں کو تو یہ معلومات بھی نہیں ہوتیں ۔
نانا جان ! ویسے یہ ذات پات تو اچھی بات نہیں ہے ۔۔دانش نے کہا۔
اور قرآن نےتوبیان کیا ہے۔ طلحہ نے قرآں کریم کی آیت تلاوت کی ۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بےشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔
بھئی شاباش ماشاء اللہ !
الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ کا بہت شکر اور احسان ہے اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا ۔
ویسے نانا جان ! ان کا ذات پات کا نظام کیسا تھا؟ شہزاد نے پوچھا۔
اور یہ شودر پر کیا ظلم کرتے تھے ؟طلحہ نے سوال کیا ۔
باقی باتیں اب کل ۔۔۔ان شاء اللہ ۔
*بچوں کے لیے ایسی کتابیں جن کی والدین کو ہمیشہ تلاش رہتی ہے*
سنہری سیریز یعنی 6 کتابیں1500 روپے میں فری ہوم ڈیلیوری
ابھی آرڈر کیجیے*03082462723* فہیم بھائی
الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ کا بہت شکر اور احسان ہے اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا ۔
ویسے نانا جان ! ان کا ذات پات کا نظام کیسا تھا؟ شہزاد نے پوچھا۔
اور یہ شودر پر کیا ظلم کرتے تھے ؟طلحہ نے سوال کیا ۔
باقی باتیں اب کل ۔۔۔ان شاء اللہ ۔
*بچوں کے لیے ایسی کتابیں جن کی والدین کو ہمیشہ تلاش رہتی ہے*
سنہری سیریز یعنی 6 کتابیں1500 روپے میں فری ہوم ڈیلیوری
ابھی آرڈر کیجیے*03082462723* فہیم بھائی
. ♻️ *سفر کیا ہے ؟*♻️
✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :-
👈 سفر پریشانیوں کا نام ہے ، تکلیفوں کا نام ہے ، صبر کا نام سفر ہے۔ اسلئے سفر کریں مگر گلے شکوے مت کریں ، کیونکہ سفر ایک عذاب کا ٹکڑا ہے۔ جب سفر کو عذاب کا ٹکڑا کہا گیا ہے تو پھر آرام و سکون کہاں سے ملے گا۔
👈 بلا مصلحت شرعی ہر کسی کے سامنے اپنی تکلیفیں سنانا ، یہ ثواب کو ضائع کرنا ہوگا۔ لہذا سفر میں آنے والے معاملات کو ہر کسی کے سامنے بیان نہ کریں۔
👈 اے میرے بھائیو!! جب آپ سفر کریں تو دوران سفر اللہ تعالی کی مخلوق میں غور و فکر کریں ، اس صورت میں آپ کے سامنے اللہ تعالی کی وحدانیت اور اجاگر ہو جائے گی۔
👈 سفر کا ایک تو فائدہ یہ ہے کہ آپ نے سفر کے دوران جو مشاہدہ کیا ہے اس کو لفظوں میں بیان کرسکتے ہیں۔ اور اس کو تحریر کر کے امت مسلمہ تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔تاکہ آپ کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
👈 سفر کا دوسرا فائدہ آپ کو یہ ملے گا کہ آپکو لوگوں کی پہچان حاصل ہو جائے گی۔ کیونکہ سفر میں آپ کو اچھے لوگ بھی ملے گیے اور بُرے لوگ بھی۔
👈 سفر کا تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کا ذہن کُھلے گا۔ آپ کو گھر کا احساس ہو گا ، آپ کو گھر والوں کا احساس ہو گا۔
*تنبیہ*:: جس بندے کی (حس) زندہ ہوتی ہے اسی شخص کو ان چیزوں کا احساس ہوتا ہے۔ ورنہ بے حس شخص کو کہاں سے احساس ہو گا۔
👈 سفر کا چوتھا فائدہ یہ ملتا ہے کہ آپ کی نالج میں اضافہ ہوگا۔
👈 *خبردار*: سفر میں کبھی بھی کسی سے گہرائ مت کرنا۔ اور سفر کے دوران کسی کی بھی کوئ چیز مت کھانا۔
✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :-
👈 سفر پریشانیوں کا نام ہے ، تکلیفوں کا نام ہے ، صبر کا نام سفر ہے۔ اسلئے سفر کریں مگر گلے شکوے مت کریں ، کیونکہ سفر ایک عذاب کا ٹکڑا ہے۔ جب سفر کو عذاب کا ٹکڑا کہا گیا ہے تو پھر آرام و سکون کہاں سے ملے گا۔
👈 بلا مصلحت شرعی ہر کسی کے سامنے اپنی تکلیفیں سنانا ، یہ ثواب کو ضائع کرنا ہوگا۔ لہذا سفر میں آنے والے معاملات کو ہر کسی کے سامنے بیان نہ کریں۔
👈 اے میرے بھائیو!! جب آپ سفر کریں تو دوران سفر اللہ تعالی کی مخلوق میں غور و فکر کریں ، اس صورت میں آپ کے سامنے اللہ تعالی کی وحدانیت اور اجاگر ہو جائے گی۔
👈 سفر کا ایک تو فائدہ یہ ہے کہ آپ نے سفر کے دوران جو مشاہدہ کیا ہے اس کو لفظوں میں بیان کرسکتے ہیں۔ اور اس کو تحریر کر کے امت مسلمہ تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔تاکہ آپ کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
👈 سفر کا دوسرا فائدہ آپ کو یہ ملے گا کہ آپکو لوگوں کی پہچان حاصل ہو جائے گی۔ کیونکہ سفر میں آپ کو اچھے لوگ بھی ملے گیے اور بُرے لوگ بھی۔
👈 سفر کا تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کا ذہن کُھلے گا۔ آپ کو گھر کا احساس ہو گا ، آپ کو گھر والوں کا احساس ہو گا۔
*تنبیہ*:: جس بندے کی (حس) زندہ ہوتی ہے اسی شخص کو ان چیزوں کا احساس ہوتا ہے۔ ورنہ بے حس شخص کو کہاں سے احساس ہو گا۔
👈 سفر کا چوتھا فائدہ یہ ملتا ہے کہ آپ کی نالج میں اضافہ ہوگا۔
👈 *خبردار*: سفر میں کبھی بھی کسی سے گہرائ مت کرنا۔ اور سفر کے دوران کسی کی بھی کوئ چیز مت کھانا۔
. ♣️ *فیصلہ کس بنیاد پر ہو*؟ ♣️
✍ *ابو المتسِّم ایازاحمد عطاری* :-
👈 ایک بات یاد رکھیں کہ *فیصلہ* کامیابی اور ناکامی دونوں پر اثر ہوتا ہے۔ اور فیصلے کے اثرات مستقبل کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں۔فیصلوں کی وجہ سے مستقبل متاثر ہوتا ہے۔آج ہم اور آپ جس مقام پر کھڑے ہیں۔یہ بھی ہمارے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔اور جس مقام پر نہیں ہیں۔یہ بھی ہمارے اور آپ کے فیصلوں کی وجہ سے ہیں۔
👈 یہ فیصلے کبھی ماضی میں کیے تھے۔اور ان فیصلوں کے اثرات آج نتائج دے رہے ہیں۔
👈 انسان کی خوش بختی اور بد بختی دونوں بھی فیصلوں سے جُڑی ہوتی ہیں۔اگر کسی مجرم سے پوچھا جائے کہ آپ یہاں پر کیسے پہنچے۔تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ مجھ سے ایک غلط فیصلہ ہوگیا تھا۔ اور اگر کسی کامیاب شخص سے پوچھا جائے کہ آپ یہاں پر کیسے پہنچے تو وہ جواب دے گا کہ میں نے کچھ ایسے فیصلے کیے تھے۔ جنھوں نے مجھے اس مقام پر لا کر کھڑا کیا ہے۔
👈 تاریخ کے جتنے بھی کامیاب یا ناکام انسان ہیں۔وہ فیصلوں کی وجہ سے کامیاب یا ناکام ہوئے ہیں۔
👈 قسمت کا وہ ایک حصہ جسے بدلا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد بھی فیصلوں پر ہے۔ اگر آپ کا فیصلہ مضبوط اور واضح اور خود اعتمادی کے ساتھ ہے۔تو آپ کا یہ حصہ خوش قسمتی میں تبدیل ہو جائے گا۔
👈 جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے تو وہ کامیاب نہیں ہونگے۔کیونکہ جب تک ان کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہو گی۔تو وہ کامیابی تک کیسے پہنچے گیے۔
👈 اب سوال یہ ہے کہ !! فیصلے !!
کا مطلب کیا ہے؟
اور فیصلہ کس بنیاد پر کیا جائے؟
👈 فیصلہ کا معنی:: انسان پہلے جس حالت میں تھا اس حالت کو ختم کرکے نئ حالت میں لے جانے کیلئے عملی اقدامات کرے اس کو فیصلہ کہتے ہیں۔
👈 فیصلے کی بنیاد کیا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی بھی آپ فیصلہ
1..غصہ
2..خوشی
3..نا امیدی
4..دل
5..دماغ
ان بنیادوں پر نہ کریں۔کیونکہ جن لوگوں نے غصہ ، خوشی ، نا امیدی ، دل ، دماغ پر فیصلہ کیا ہے۔ان کو ان فیصلوں میں پچھتانا پڑا ہے۔
👈 تو پھر فیصلہ کس بنیاد پر کریں ؟؟
فیصلہ جب بھی کریں شریعت کی بنیاد پر کریں۔کہ میں جو یہ فیصلہ کررہا ہو۔اس بارے میں میری شریعت کیا کہہ رہی ہے۔۔؟؟
جب آپ نے اپنے فیصلوں کی بنیاد شریعت پر رکھی۔تو ان شاء اللہ عزوجل آپ کو کبھی بھی فیصلوں میں نقصان اور پچھتاوا نہیں ملے گا۔
👈 اس بات کو ایک مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ جیسا کہ آپ بھی بھوکے ہیں اور آپ کا پڑوسی بھی بھوکا ہے۔ اور آپ کے پاس دو روٹیاں ہیں کھانے کیلئے۔ آپ کا دل و دماغ کا تقاضا یہ ہوگا کہ دونوں روٹیاں آپ کھا جائیں تاکہ آپ کی جان بچ جائے۔ لیکن شریعت آپ کی یہ رہنمائ کررہی ہے کہ حسن اخلاق کو اپناتے ہوئے ایک روٹی آپ کھائیں اور دوسری روٹی اپنے پڑوسی بھائ کو کھلائیں۔
👈 زندگی ایک لمحے میں بدلتی ہے اور وہ لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جب آپ فیصلہ کرتے ہیں۔کہ مجھے اپنی زندگی بدلنی ہے۔
👈 اس دنیا میں مثالیں دینے والے بے شمار ہیں۔لیکن مثال بننے والے بہت کم ہیں۔ آپ مثال بننے والے انسان بنیں۔
👈 اس دنیا میں صرف انتخاب ہے اور انتخاب فیصلوں سے ہوتا ہے۔اپنے فیصلوں میں اللہ تعالی کو شامل کیجئے ۔کیونکہ جب آپ اللہ تعالی کو شامل کرتے ہیں تو وہ آپ کے فیصلوں میں برکت ڈال دیتا ہے۔وہ فیصلے نہ صرف اچھے نتائج دیتے ہیں بلکہ ان فیصلوں میں دوسروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
👈 دوسروں کو بدلنے کا فیصلہ چھوڑیے۔خود کو بدلنے کا فیصلہ کیجئے۔ کیونکہ خود کے بدلنے سے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کی زندگی بدل جائے گی۔
👈 ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم کتنے قیمتی انسان ہیں۔ جب ہم بدلتے ہیں۔ تو کتنا کچھ بدل جاتا ہے اس لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کیجئے۔
👈 بہت اہم اور آخری بات:: *آپ کا فیصلہ ہی آپ کی منزل کی تعیین کرتا ہے*۔
✍ *ابو المتسِّم ایازاحمد عطاری* :-
👈 ایک بات یاد رکھیں کہ *فیصلہ* کامیابی اور ناکامی دونوں پر اثر ہوتا ہے۔ اور فیصلے کے اثرات مستقبل کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں۔فیصلوں کی وجہ سے مستقبل متاثر ہوتا ہے۔آج ہم اور آپ جس مقام پر کھڑے ہیں۔یہ بھی ہمارے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔اور جس مقام پر نہیں ہیں۔یہ بھی ہمارے اور آپ کے فیصلوں کی وجہ سے ہیں۔
👈 یہ فیصلے کبھی ماضی میں کیے تھے۔اور ان فیصلوں کے اثرات آج نتائج دے رہے ہیں۔
👈 انسان کی خوش بختی اور بد بختی دونوں بھی فیصلوں سے جُڑی ہوتی ہیں۔اگر کسی مجرم سے پوچھا جائے کہ آپ یہاں پر کیسے پہنچے۔تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ مجھ سے ایک غلط فیصلہ ہوگیا تھا۔ اور اگر کسی کامیاب شخص سے پوچھا جائے کہ آپ یہاں پر کیسے پہنچے تو وہ جواب دے گا کہ میں نے کچھ ایسے فیصلے کیے تھے۔ جنھوں نے مجھے اس مقام پر لا کر کھڑا کیا ہے۔
👈 تاریخ کے جتنے بھی کامیاب یا ناکام انسان ہیں۔وہ فیصلوں کی وجہ سے کامیاب یا ناکام ہوئے ہیں۔
👈 قسمت کا وہ ایک حصہ جسے بدلا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد بھی فیصلوں پر ہے۔ اگر آپ کا فیصلہ مضبوط اور واضح اور خود اعتمادی کے ساتھ ہے۔تو آپ کا یہ حصہ خوش قسمتی میں تبدیل ہو جائے گا۔
👈 جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے تو وہ کامیاب نہیں ہونگے۔کیونکہ جب تک ان کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہو گی۔تو وہ کامیابی تک کیسے پہنچے گیے۔
👈 اب سوال یہ ہے کہ !! فیصلے !!
کا مطلب کیا ہے؟
اور فیصلہ کس بنیاد پر کیا جائے؟
👈 فیصلہ کا معنی:: انسان پہلے جس حالت میں تھا اس حالت کو ختم کرکے نئ حالت میں لے جانے کیلئے عملی اقدامات کرے اس کو فیصلہ کہتے ہیں۔
👈 فیصلے کی بنیاد کیا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی بھی آپ فیصلہ
1..غصہ
2..خوشی
3..نا امیدی
4..دل
5..دماغ
ان بنیادوں پر نہ کریں۔کیونکہ جن لوگوں نے غصہ ، خوشی ، نا امیدی ، دل ، دماغ پر فیصلہ کیا ہے۔ان کو ان فیصلوں میں پچھتانا پڑا ہے۔
👈 تو پھر فیصلہ کس بنیاد پر کریں ؟؟
فیصلہ جب بھی کریں شریعت کی بنیاد پر کریں۔کہ میں جو یہ فیصلہ کررہا ہو۔اس بارے میں میری شریعت کیا کہہ رہی ہے۔۔؟؟
جب آپ نے اپنے فیصلوں کی بنیاد شریعت پر رکھی۔تو ان شاء اللہ عزوجل آپ کو کبھی بھی فیصلوں میں نقصان اور پچھتاوا نہیں ملے گا۔
👈 اس بات کو ایک مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ جیسا کہ آپ بھی بھوکے ہیں اور آپ کا پڑوسی بھی بھوکا ہے۔ اور آپ کے پاس دو روٹیاں ہیں کھانے کیلئے۔ آپ کا دل و دماغ کا تقاضا یہ ہوگا کہ دونوں روٹیاں آپ کھا جائیں تاکہ آپ کی جان بچ جائے۔ لیکن شریعت آپ کی یہ رہنمائ کررہی ہے کہ حسن اخلاق کو اپناتے ہوئے ایک روٹی آپ کھائیں اور دوسری روٹی اپنے پڑوسی بھائ کو کھلائیں۔
👈 زندگی ایک لمحے میں بدلتی ہے اور وہ لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جب آپ فیصلہ کرتے ہیں۔کہ مجھے اپنی زندگی بدلنی ہے۔
👈 اس دنیا میں مثالیں دینے والے بے شمار ہیں۔لیکن مثال بننے والے بہت کم ہیں۔ آپ مثال بننے والے انسان بنیں۔
👈 اس دنیا میں صرف انتخاب ہے اور انتخاب فیصلوں سے ہوتا ہے۔اپنے فیصلوں میں اللہ تعالی کو شامل کیجئے ۔کیونکہ جب آپ اللہ تعالی کو شامل کرتے ہیں تو وہ آپ کے فیصلوں میں برکت ڈال دیتا ہے۔وہ فیصلے نہ صرف اچھے نتائج دیتے ہیں بلکہ ان فیصلوں میں دوسروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
👈 دوسروں کو بدلنے کا فیصلہ چھوڑیے۔خود کو بدلنے کا فیصلہ کیجئے۔ کیونکہ خود کے بدلنے سے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کی زندگی بدل جائے گی۔
👈 ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم کتنے قیمتی انسان ہیں۔ جب ہم بدلتے ہیں۔ تو کتنا کچھ بدل جاتا ہے اس لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کیجئے۔
👈 بہت اہم اور آخری بات:: *آپ کا فیصلہ ہی آپ کی منزل کی تعیین کرتا ہے*۔
. 🗣 *کیا غصے پر قابو پانا ممکن ہے*؟🗣
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
👈 گائوں کے ایک بندے کو غصہ زیادہ آتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ لوگوں کی دل آزاریاں بھی زیادہ کرتا تھا۔ وہ بندہ اب غصے سے کافی تنگ آگیا تھا۔ لیکن وہ مجبور تھا کہ وہ اس حالت سے نکل نہیں پا رہا تھا۔
👈 ایک دن یہ شخص بادشاہ کے پاس چلا گیا اور اپنی پوری حالت بیان کی۔ بادشاہ نے پورا واقعہ سننے کے بعد اس شخص کو ایک لکڑی دی اور ایک ہتھوڑا دیا اور کچھ کیلیں ساتھ میں دیں۔ بادشاہ نے بولا جب آپ کو غصہ آئے تو ایک کیل اس لکڑی میں دبّا دو۔
👈 یہ شخص واپس گائوں چلا آیا اور جب اس کو غصہ آتا تو ایک کیل اس لکڑی میں دبا دیتا۔ اسطرح کرتے کرتے اس کی غصے کی عادت کم ہو گئ۔ اور ساتھ میں کیلیں بھی ختم ہوگئیں۔
👈 یہ شخص بادشاہ کے پاس دوبارہ گیا کہ بادشاہِ سلامت میری غصے کی عادت نکل گئ ہے۔ اب یہ لکڑی اپنی واپس لے لیں۔ بادشاہ نے بولا کہ میں یہ لکڑی واپس نہیں لونگا۔ اب آپ ایسا کریں کہ جب آپ کسی کی دل آزاری کریں تو اس لکڑی سے ایک کیل نکال دیں جو آپ نے اس میں دبائ ہے۔
👈 وہ شخص چلا گیا اور جب کسی کی دل آزاری کرتا تو اس لکڑی میں سے ایک کیل نکال دیتا۔ اس طرح کرتے کرتے اس نے لوگوں کی دل آزاری کرنا بھی چھوڑ دی اور لکڑی سے ساری کیلیں بھی نکل گئیں۔
👈 پھر دوبارہ بادشاہ کے پاس چلا گیا اور پوری حقیقت حال سے آگاہی دی۔ بادشاہ نے بولا کہ دیکھو لکڑی سے کیلیں اگرچہ آپ نے نکال دیں ہیں لیکن لکڑی پر سوراخ کا داغ اب بھی باقی ہے۔ اسی طرح زبان سے دیے ہوئے زخم کا نشان باقی رہتا ہے :-
👈 جی ہاں پیارے بھائیو!! بالکل ایسا ہی ہے کہ زبان کا زخم باقی رہتا ہے۔ بندہ غصے کی حالت میں آکر پتہ نہیں کیا سے کیا کرتا ہے۔جس سے لوگوں کی حق تلفیاں بھی ہوتی ہیں۔ اور اس سے لوگوں کی دل آزاریاں بھی ہوتی ہیں۔ اور اس طرح وہ بندہ اکیلا رہ جاتا ہے کوئ پاس اس کے نہیں ہوتا :-
👈 اب سوال یہ ہے کہ غصے پر قابو پانا ممکن ہے یا نہیں ؟
👈 جی ہاں غصے پر قابو پانا ممکن ہے:: اب میں آپ کو *12* ایسی تدابیر بتاتا ہوں۔ جس پر عمل کر کے ان شاء اللہ عزوجل غصے پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔
1️⃣ غصے پر قابو پانے کیلئے " قوت برداشت " ضروری ہے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے اندر قوت برداشت پیدا کریں۔ ( برداشت کرکے ہی برداشت پیدا کی جاسکتی ہے۔برداشت ہمیشہ اس کی ہوگی جو خود شناس ہوگا )
2️⃣ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس نہ کریں۔ آہستہ آہستہ اپنے آپ کو مضبوط بناتے جائیں :-
3️⃣ جب بھی غیر موافق صورتِ حال پیدا ہو تو بجائے غصہ کرنے کے چند منٹ تک اس کا تجزیہ کریں۔ اور اس مسئلے کی گہرائ میں جائیں کہ کیا واقعی مسئلہ اس قابل ہے کہ آپ اس پر غصہ کریں۔ اور اپنی بے پناہ توانائ صَرْف کریں۔ اگر نہیں ہے تو فورا اس بات کو اپنے ذہن سے نکال کر ذہن کو پرسکون بنا لیں :-
4️⃣ غصے کی حالت میں کوئ جسمانی کام کرنا شروع کر دیں۔اسی طرح آپ کی توجہ اور توانائ دوسری طرف مبذول ہوجائے گی۔ اور آپ غصے پر قابو پالیں گیے :-
5️⃣ غصے کی حالت میں ذہنی طور پر "پرسکون" ہونے کی کوشش کریں۔ دماغ کو خیالات سے خالی کر دیں :-
6️⃣ غصے کی حالت میں کوئ سوچ ذہن پر مسلط نہ کریں۔ اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دیں :-
7️⃣ غصے کی حالت میں کوئ کتاب یا ناول یا مقالہ پڑھنا شروع کریں :-
8️⃣ کوئ تحریر لکھنا شروع کریں :-
9️⃣ غصے کی حالت میں اُس جگہ سے کچھ فاصلے پر دور چلے جائیں :-
🔟 اگر کوئ حل خود تلاش نہ کر سکیں تو کسی مخلص دوست کا سہارا لیں۔ اس سے نہ صرف مسئلے کا مناسب حل مل جائے گا۔ بلکہ آپ کا ذہنی بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا :-
1️⃣1️⃣ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے رہیں :-
2️⃣1️⃣ " تعوُّذ " اور " لاحول " شریف کی کثرت کرتے رہیں :-
👈 آخری بات یاد رکھیں!! غصے کی حالت میں کوئ ضروری کام سرانجام نہ دیں۔ اس وقت کسی دوست کے پاس نہ جائیں۔ جب تک کہ آپ کا ذہن پرسکون نہ ہو جائے :-
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
👈 گائوں کے ایک بندے کو غصہ زیادہ آتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ لوگوں کی دل آزاریاں بھی زیادہ کرتا تھا۔ وہ بندہ اب غصے سے کافی تنگ آگیا تھا۔ لیکن وہ مجبور تھا کہ وہ اس حالت سے نکل نہیں پا رہا تھا۔
👈 ایک دن یہ شخص بادشاہ کے پاس چلا گیا اور اپنی پوری حالت بیان کی۔ بادشاہ نے پورا واقعہ سننے کے بعد اس شخص کو ایک لکڑی دی اور ایک ہتھوڑا دیا اور کچھ کیلیں ساتھ میں دیں۔ بادشاہ نے بولا جب آپ کو غصہ آئے تو ایک کیل اس لکڑی میں دبّا دو۔
👈 یہ شخص واپس گائوں چلا آیا اور جب اس کو غصہ آتا تو ایک کیل اس لکڑی میں دبا دیتا۔ اسطرح کرتے کرتے اس کی غصے کی عادت کم ہو گئ۔ اور ساتھ میں کیلیں بھی ختم ہوگئیں۔
👈 یہ شخص بادشاہ کے پاس دوبارہ گیا کہ بادشاہِ سلامت میری غصے کی عادت نکل گئ ہے۔ اب یہ لکڑی اپنی واپس لے لیں۔ بادشاہ نے بولا کہ میں یہ لکڑی واپس نہیں لونگا۔ اب آپ ایسا کریں کہ جب آپ کسی کی دل آزاری کریں تو اس لکڑی سے ایک کیل نکال دیں جو آپ نے اس میں دبائ ہے۔
👈 وہ شخص چلا گیا اور جب کسی کی دل آزاری کرتا تو اس لکڑی میں سے ایک کیل نکال دیتا۔ اس طرح کرتے کرتے اس نے لوگوں کی دل آزاری کرنا بھی چھوڑ دی اور لکڑی سے ساری کیلیں بھی نکل گئیں۔
👈 پھر دوبارہ بادشاہ کے پاس چلا گیا اور پوری حقیقت حال سے آگاہی دی۔ بادشاہ نے بولا کہ دیکھو لکڑی سے کیلیں اگرچہ آپ نے نکال دیں ہیں لیکن لکڑی پر سوراخ کا داغ اب بھی باقی ہے۔ اسی طرح زبان سے دیے ہوئے زخم کا نشان باقی رہتا ہے :-
👈 جی ہاں پیارے بھائیو!! بالکل ایسا ہی ہے کہ زبان کا زخم باقی رہتا ہے۔ بندہ غصے کی حالت میں آکر پتہ نہیں کیا سے کیا کرتا ہے۔جس سے لوگوں کی حق تلفیاں بھی ہوتی ہیں۔ اور اس سے لوگوں کی دل آزاریاں بھی ہوتی ہیں۔ اور اس طرح وہ بندہ اکیلا رہ جاتا ہے کوئ پاس اس کے نہیں ہوتا :-
👈 اب سوال یہ ہے کہ غصے پر قابو پانا ممکن ہے یا نہیں ؟
👈 جی ہاں غصے پر قابو پانا ممکن ہے:: اب میں آپ کو *12* ایسی تدابیر بتاتا ہوں۔ جس پر عمل کر کے ان شاء اللہ عزوجل غصے پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔
1️⃣ غصے پر قابو پانے کیلئے " قوت برداشت " ضروری ہے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے اندر قوت برداشت پیدا کریں۔ ( برداشت کرکے ہی برداشت پیدا کی جاسکتی ہے۔برداشت ہمیشہ اس کی ہوگی جو خود شناس ہوگا )
2️⃣ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس نہ کریں۔ آہستہ آہستہ اپنے آپ کو مضبوط بناتے جائیں :-
3️⃣ جب بھی غیر موافق صورتِ حال پیدا ہو تو بجائے غصہ کرنے کے چند منٹ تک اس کا تجزیہ کریں۔ اور اس مسئلے کی گہرائ میں جائیں کہ کیا واقعی مسئلہ اس قابل ہے کہ آپ اس پر غصہ کریں۔ اور اپنی بے پناہ توانائ صَرْف کریں۔ اگر نہیں ہے تو فورا اس بات کو اپنے ذہن سے نکال کر ذہن کو پرسکون بنا لیں :-
4️⃣ غصے کی حالت میں کوئ جسمانی کام کرنا شروع کر دیں۔اسی طرح آپ کی توجہ اور توانائ دوسری طرف مبذول ہوجائے گی۔ اور آپ غصے پر قابو پالیں گیے :-
5️⃣ غصے کی حالت میں ذہنی طور پر "پرسکون" ہونے کی کوشش کریں۔ دماغ کو خیالات سے خالی کر دیں :-
6️⃣ غصے کی حالت میں کوئ سوچ ذہن پر مسلط نہ کریں۔ اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دیں :-
7️⃣ غصے کی حالت میں کوئ کتاب یا ناول یا مقالہ پڑھنا شروع کریں :-
8️⃣ کوئ تحریر لکھنا شروع کریں :-
9️⃣ غصے کی حالت میں اُس جگہ سے کچھ فاصلے پر دور چلے جائیں :-
🔟 اگر کوئ حل خود تلاش نہ کر سکیں تو کسی مخلص دوست کا سہارا لیں۔ اس سے نہ صرف مسئلے کا مناسب حل مل جائے گا۔ بلکہ آپ کا ذہنی بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا :-
1️⃣1️⃣ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے رہیں :-
2️⃣1️⃣ " تعوُّذ " اور " لاحول " شریف کی کثرت کرتے رہیں :-
👈 آخری بات یاد رکھیں!! غصے کی حالت میں کوئ ضروری کام سرانجام نہ دیں۔ اس وقت کسی دوست کے پاس نہ جائیں۔ جب تک کہ آپ کا ذہن پرسکون نہ ہو جائے :-
. 🔹️ *صرفی اجراء کرنے کا طریقہ* 🔹️
👈 کسی کلمے پر صرف کا اجراء کیسے کیا جائے ؟
اور صرفی اجراء میں کیا کیا سوالات پوچھے جائیں گیے ؟
اس مقالے میں اس سوال کا جواب عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
《 عرض :- اگر غلطی پر مطلع ہوں تو ضرور آگاہ فرمائیے گا 》
1️⃣ صیغہ واحد ہے یا تثنیہ یا جمع ؟
مذکر ہے یا مئونث ؟
2️⃣ سہ اقسام میں کیا ہے: اسم ، فعل ، حرف ؟
3️⃣ اگر اسم ہے تو سب سے پہلے دیکھیں گے کہ اسم کی کونسی قسم سے ہے مصدر ہے مشتق ہے یا پھر جامد ؟ اگر اسم مشتق ہے تو اس میں 5 چیزیں پوچھی جائیں گیں
صیغہ ، سہ اقسام ، شش اقسام ، ہفت اقسام ، باب ، بحث۔
اگر مصدر ہے تو 4 چیزیں دیکھی جائیں گیں: شش اقسام ، ہفت اقسام ، باب اور تعلیل۔
اگر جامد ہے تو 2 چیزیں ہوں گی شش اقسام ، ہفت اقسام۔
4️⃣ اگر فعل ہے تو کونسا فعل ہے ؟
5️⃣ اور یہ فعل کس حالت میں ہے: مرفوع یا منصوب ؟
6️⃣ شش اقسام میں کیا ہے: ثلاثی یا رباعی یا خماسی ؟
7️⃣ یہ صیغہ ہفت اقسام میں کیا ہے ؟
8️⃣ اس صیغے کا باب کونسا ہے ؟
اور اس کی علامت کیا ہے ؟
9️⃣ اس صیغے میں "تعلیل یا تخفیف یا ادغام" ہوا ہے یا نہیں ؟
🔟 اگر ہوا ہے تو پورا صیغہ مع قاعدے کے بیان کریں۔
👈 *اہم نوٹ*:- مذکورہ بالاطریقہ اختیار کرتے ہوئے اگر آپ عربی کتابوں کا مطالعہ کریں گیے۔ تو عربی کلمات کے تلفظ میں خطأ نہیں ہوگی۔ شروع شروع میں اتنے سارے سوالات حل کرنے میں آپ کا کافی وقت صرف ہوگا۔ لیکن چند دنوں میں اس طرح مشق کرنے سے آپ کا ذہن کُھل جائے گا :-
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
📲 *03128065131*:-
👈 کسی کلمے پر صرف کا اجراء کیسے کیا جائے ؟
اور صرفی اجراء میں کیا کیا سوالات پوچھے جائیں گیے ؟
اس مقالے میں اس سوال کا جواب عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
《 عرض :- اگر غلطی پر مطلع ہوں تو ضرور آگاہ فرمائیے گا 》
1️⃣ صیغہ واحد ہے یا تثنیہ یا جمع ؟
مذکر ہے یا مئونث ؟
2️⃣ سہ اقسام میں کیا ہے: اسم ، فعل ، حرف ؟
3️⃣ اگر اسم ہے تو سب سے پہلے دیکھیں گے کہ اسم کی کونسی قسم سے ہے مصدر ہے مشتق ہے یا پھر جامد ؟ اگر اسم مشتق ہے تو اس میں 5 چیزیں پوچھی جائیں گیں
صیغہ ، سہ اقسام ، شش اقسام ، ہفت اقسام ، باب ، بحث۔
اگر مصدر ہے تو 4 چیزیں دیکھی جائیں گیں: شش اقسام ، ہفت اقسام ، باب اور تعلیل۔
اگر جامد ہے تو 2 چیزیں ہوں گی شش اقسام ، ہفت اقسام۔
4️⃣ اگر فعل ہے تو کونسا فعل ہے ؟
5️⃣ اور یہ فعل کس حالت میں ہے: مرفوع یا منصوب ؟
6️⃣ شش اقسام میں کیا ہے: ثلاثی یا رباعی یا خماسی ؟
7️⃣ یہ صیغہ ہفت اقسام میں کیا ہے ؟
8️⃣ اس صیغے کا باب کونسا ہے ؟
اور اس کی علامت کیا ہے ؟
9️⃣ اس صیغے میں "تعلیل یا تخفیف یا ادغام" ہوا ہے یا نہیں ؟
🔟 اگر ہوا ہے تو پورا صیغہ مع قاعدے کے بیان کریں۔
👈 *اہم نوٹ*:- مذکورہ بالاطریقہ اختیار کرتے ہوئے اگر آپ عربی کتابوں کا مطالعہ کریں گیے۔ تو عربی کلمات کے تلفظ میں خطأ نہیں ہوگی۔ شروع شروع میں اتنے سارے سوالات حل کرنے میں آپ کا کافی وقت صرف ہوگا۔ لیکن چند دنوں میں اس طرح مشق کرنے سے آپ کا ذہن کُھل جائے گا :-
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
📲 *03128065131*:-
. 👈 *تحریر چوری کرنے والو* ‼
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-
👈 اے وہ لوگوں جو تحریرات کو کاپی کرکے پھر اس پہ اپنا نام لکھ دیتے ہو۔ تم جانتے ہو جو لکھنے والے نے الفاظ تخلیق کیے ہیں ، جو اس کی تحریر ہے ، جو اس کے جملے ہیں۔ تمہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اُسے یہ *عزیز از جان* ہوتے ہیں۔
👈 اور تم اّسی تحریر یا تصنیف میں لفظوں کو پھیر کرکے اپنا نام لکھ دیتے ہو۔ اُسے کتنا دُکھ ہوتا ہے ؟ تمہیں اس بات کا اندازہ نہیں۔ بس آپ اس کے دکھ ، تکلیف کو اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اسے یہ تحریر *عزیز از جان* ہوتی ہے۔
👈 اگر کوئ شخص آپ کی تحریر ، تألیف میں ردوبدل کرے تو تمہیں کتنا دکھ ہوتا ؟؟ اسی طرح میرے بھائ سامنے والے کو بھی بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب وہ اپنی تحریر میں کسی اور نام دیکھتا ہے۔
👈 جمال الدین قاسمی علیہ الرحمہ نے یہاں تک کہ لکھا ہے کہ *تصنیف و تالیف کے میدان میں یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ علمی نکات ، مسائل ، فوائد قائلین کی جانب منسوب کریں تاکہ کسی کی محنت پر اپنا نام مت لگے۔ اور ایسا نہ ہو کہ اونچی دکان پھیکا پکوان کا مصداق بن جائے*۔ (قواعد التحدیث 40)
👈 کسی کی تحریر یا تصنیف اٹھا کر اس پہ اپنا نام لکھ دینا۔ کیا یہ اخلاقا و شرعا جائز ہے ؟؟
👈 اے میرے بھائ!! شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ جو لکھنے والا چند سطروں کی تحریر لکھتا ہے۔ اُس کو اِس کیلئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ آپ کے سامنے تو چند سطروں کی تحریر ہے۔لیکن لکھنے والا اس کیلئے نہ جانے کتنی کتب اور اقوال علماء اور اپنے ماضی کے تجربات کو جمع کرتا ہے۔ بسا اوقات لکھنے والے کو چند سطروں کی تحریر کیلئے کئ کئ دن لگ جاتے ہیں۔ پھر جاکر یہ چند سطروں لکی تحریر تیار ہوتی ہے۔
👈 اور آپ 2 منٹ میں اُس کی تحریر کو کاپی کرکے اس پہ اپنا نام لکھ دیتے ہو؟۔ کیا آپ کو ضمیر اس طرح کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کہ کسی کی کاوش و محنت پر اپنا نام لکھ دو ؟؟
👈 لہذا!! اے میرے بھائیو!! اگر آپ اس کی تحریر کو شیئر نہیں کرنا چاہ رہے۔ تو خدارا اس تحریر پہ اپنا نام لکھ کر شیئر بھی مت کریں۔ یا اُس کا نام مٹا کر آپ اس کی تحریر کو ایسے بھی شیئر مت کریں۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-
👈 اے وہ لوگوں جو تحریرات کو کاپی کرکے پھر اس پہ اپنا نام لکھ دیتے ہو۔ تم جانتے ہو جو لکھنے والے نے الفاظ تخلیق کیے ہیں ، جو اس کی تحریر ہے ، جو اس کے جملے ہیں۔ تمہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اُسے یہ *عزیز از جان* ہوتے ہیں۔
👈 اور تم اّسی تحریر یا تصنیف میں لفظوں کو پھیر کرکے اپنا نام لکھ دیتے ہو۔ اُسے کتنا دُکھ ہوتا ہے ؟ تمہیں اس بات کا اندازہ نہیں۔ بس آپ اس کے دکھ ، تکلیف کو اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اسے یہ تحریر *عزیز از جان* ہوتی ہے۔
👈 اگر کوئ شخص آپ کی تحریر ، تألیف میں ردوبدل کرے تو تمہیں کتنا دکھ ہوتا ؟؟ اسی طرح میرے بھائ سامنے والے کو بھی بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب وہ اپنی تحریر میں کسی اور نام دیکھتا ہے۔
👈 جمال الدین قاسمی علیہ الرحمہ نے یہاں تک کہ لکھا ہے کہ *تصنیف و تالیف کے میدان میں یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ علمی نکات ، مسائل ، فوائد قائلین کی جانب منسوب کریں تاکہ کسی کی محنت پر اپنا نام مت لگے۔ اور ایسا نہ ہو کہ اونچی دکان پھیکا پکوان کا مصداق بن جائے*۔ (قواعد التحدیث 40)
👈 کسی کی تحریر یا تصنیف اٹھا کر اس پہ اپنا نام لکھ دینا۔ کیا یہ اخلاقا و شرعا جائز ہے ؟؟
👈 اے میرے بھائ!! شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ جو لکھنے والا چند سطروں کی تحریر لکھتا ہے۔ اُس کو اِس کیلئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ آپ کے سامنے تو چند سطروں کی تحریر ہے۔لیکن لکھنے والا اس کیلئے نہ جانے کتنی کتب اور اقوال علماء اور اپنے ماضی کے تجربات کو جمع کرتا ہے۔ بسا اوقات لکھنے والے کو چند سطروں کی تحریر کیلئے کئ کئ دن لگ جاتے ہیں۔ پھر جاکر یہ چند سطروں لکی تحریر تیار ہوتی ہے۔
👈 اور آپ 2 منٹ میں اُس کی تحریر کو کاپی کرکے اس پہ اپنا نام لکھ دیتے ہو؟۔ کیا آپ کو ضمیر اس طرح کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کہ کسی کی کاوش و محنت پر اپنا نام لکھ دو ؟؟
👈 لہذا!! اے میرے بھائیو!! اگر آپ اس کی تحریر کو شیئر نہیں کرنا چاہ رہے۔ تو خدارا اس تحریر پہ اپنا نام لکھ کر شیئر بھی مت کریں۔ یا اُس کا نام مٹا کر آپ اس کی تحریر کو ایسے بھی شیئر مت کریں۔
. 🌀 *تنقیدوں کا مقابلہ* 🌀
✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :-
👈 زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے کچھ مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے اسکول اور مدرسے میں تعلیم اور ڈگری تو دی جاتی ہے۔ لیکن زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتیں نہیں سکھائیں جاتیں۔
👈 تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں نیک اور بد ، لیڈر اور عالم ہر ایک کو بُرا بھلا ضرور کہا گیا ہے۔لیکن یہ تنقید ان بڑے لوگوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بں سکی۔
👈 اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے پاس دل بھی تھے اور ان کا دل ٹوٹ بھی جاتا تھا۔ لیکن یہ لوگ تنقید کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے واقف تھے۔
👈 کچھ صلاحتیں پیدائشی ہوتی ہیں۔ یہ خاص لوگوں کو ملتی ہیں۔اور کچھ صلاحتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اور پیدا اس وقت ہونگی جب" کوئ بھی انسان اگر سچے دل کے ساتھ چاہے تو کسی بھی صلاحیت کو محنت کرکے اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے "۔
👈 اب *6* ایسے نکات عرض کرتا ہوں کہ جن پر عمل کرکے آپ تنقیدوں کا مقابلہ کر سکیں گیے۔
1️⃣ کسی کی تنقید کو آپ اہمیت نہ دیں۔
2️⃣ ہمیشہ اچھے لوگوں کی رائے کو ذہن نشین رکھیں۔ اور انہیں بار بار دہراتے اور یاد کرتے رہیں۔
3️⃣ آپ اپنے آپ کو پہچانیں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھیں۔ اپنی خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔
4️⃣ تنقید کرنے والوں کی فطرت تنقید کرنا ہے۔ تو آپ ان کو چھوڑ دیں۔ آپ ان کی وجہ سے اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ ایک بات یاد رکھیں "کتے کی فطرت بوکنا ہے"۔
5️⃣ آپ بڑا سوچیں ، چھوٹے جھگڑوں میں نہ پڑیں۔ کیونکہ "بڑی منزل کے مسافر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے "۔
6️⃣ آپ اچھے لوگوں کی مجلس
اختیار کریں۔ کیونکہ اچھا کام کرنے والوں پر تنقید کا اثر کم ہوتا ہے۔
👈 آخری بات!! جو سب باتوں سے اہم ہے۔ کبھی بھی کسی کی تنقید آپ کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے۔کیونکہ تنقید کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایک فائدہ سارے مانتے ہیں کہ تنقید "آپ کے اندر سوئے ہوئے احساس کو جگاتی ہے " کیونکہ جس کو احساس نہ جگائے اسے کون جگا سکتا ہے۔
✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :-
👈 زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے کچھ مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے اسکول اور مدرسے میں تعلیم اور ڈگری تو دی جاتی ہے۔ لیکن زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتیں نہیں سکھائیں جاتیں۔
👈 تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں نیک اور بد ، لیڈر اور عالم ہر ایک کو بُرا بھلا ضرور کہا گیا ہے۔لیکن یہ تنقید ان بڑے لوگوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بں سکی۔
👈 اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے پاس دل بھی تھے اور ان کا دل ٹوٹ بھی جاتا تھا۔ لیکن یہ لوگ تنقید کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے واقف تھے۔
👈 کچھ صلاحتیں پیدائشی ہوتی ہیں۔ یہ خاص لوگوں کو ملتی ہیں۔اور کچھ صلاحتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اور پیدا اس وقت ہونگی جب" کوئ بھی انسان اگر سچے دل کے ساتھ چاہے تو کسی بھی صلاحیت کو محنت کرکے اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے "۔
👈 اب *6* ایسے نکات عرض کرتا ہوں کہ جن پر عمل کرکے آپ تنقیدوں کا مقابلہ کر سکیں گیے۔
1️⃣ کسی کی تنقید کو آپ اہمیت نہ دیں۔
2️⃣ ہمیشہ اچھے لوگوں کی رائے کو ذہن نشین رکھیں۔ اور انہیں بار بار دہراتے اور یاد کرتے رہیں۔
3️⃣ آپ اپنے آپ کو پہچانیں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھیں۔ اپنی خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔
4️⃣ تنقید کرنے والوں کی فطرت تنقید کرنا ہے۔ تو آپ ان کو چھوڑ دیں۔ آپ ان کی وجہ سے اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ ایک بات یاد رکھیں "کتے کی فطرت بوکنا ہے"۔
5️⃣ آپ بڑا سوچیں ، چھوٹے جھگڑوں میں نہ پڑیں۔ کیونکہ "بڑی منزل کے مسافر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے "۔
6️⃣ آپ اچھے لوگوں کی مجلس
اختیار کریں۔ کیونکہ اچھا کام کرنے والوں پر تنقید کا اثر کم ہوتا ہے۔
👈 آخری بات!! جو سب باتوں سے اہم ہے۔ کبھی بھی کسی کی تنقید آپ کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے۔کیونکہ تنقید کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایک فائدہ سارے مانتے ہیں کہ تنقید "آپ کے اندر سوئے ہوئے احساس کو جگاتی ہے " کیونکہ جس کو احساس نہ جگائے اسے کون جگا سکتا ہے۔
. 🍁 *تحریر کی ابتداء کہاں سے کی جائے* ؟ 🍁
👈 تحریر کے میدان میں سفر کرنا بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ اس سفر میں وہی کامیاب ہوگا جس کو تحریر کا شوق ہوگا۔ اس شوق کو پورا کرنے کیلئے قلم اور کاغذ اٹھائے اور لکھنا شروع کیا ، ایسا ہرگز نہیں ہے میرے بھائ۔ بلکہ لکھنے کیلئے تو مطالعہ چاہیے۔ اچھا محرّر بننے کیلئے کثیر مطالعہ چاہیے۔
👈 آج تک جس بھی محرِّر کی تحریر ہر دل عزیز بنی ہے ، اس کی وجہ: اُس تحریر کی ابتداء اچھی ہوتی ہے ، بندہ جب اس تحریر کو پڑھنا شروع کر دیتا ہے تو اس کو ختم کرنے کا دل نہیں کرتا ایسے کلماتِ حسنہ پر تحریر مشتمل ہوتی ہے۔
👈 جس قدر تحریر کی ابتداء مختصر مگر جامع ہوگی اُسی قدر اس تحریر کو مقبولیت حاصل ہوگی ، اور لوگ شوق و ذوق سے پڑھیں گیں۔
👈 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریر کی ابتداء کس سے کی جائے ؟
جس سے ہماری بھی تحریر سب لوگوں کو پسند آجائے ، اور لوگ ہماری تحریر کو شوق سے پڑھیں اور اگلی تحریر کے آنے کا انتظار کریں۔
👈اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تحریر کی ابتداء کوشش کرکے ایک اچھے اور دل کش واقعے سے کی جائے ، اور واقعے کو ایک نئے طرز پر لے کر آئیں ، پرانے طرز پر نہ ہو۔
👈 اس طرح ان شاء اللہ عزوجل آپ کی تحریر ہر قاری کیلئے اکتاہٹ کا سبب نہیں بنے گی ، بلکہ قاری کیلئے تروتازہ ہوکر ثابت ہوگی ، اور آپ کی تحریر عوام و خواص میں مقبول ہوگی۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-
👈 تحریر کے میدان میں سفر کرنا بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ اس سفر میں وہی کامیاب ہوگا جس کو تحریر کا شوق ہوگا۔ اس شوق کو پورا کرنے کیلئے قلم اور کاغذ اٹھائے اور لکھنا شروع کیا ، ایسا ہرگز نہیں ہے میرے بھائ۔ بلکہ لکھنے کیلئے تو مطالعہ چاہیے۔ اچھا محرّر بننے کیلئے کثیر مطالعہ چاہیے۔
👈 آج تک جس بھی محرِّر کی تحریر ہر دل عزیز بنی ہے ، اس کی وجہ: اُس تحریر کی ابتداء اچھی ہوتی ہے ، بندہ جب اس تحریر کو پڑھنا شروع کر دیتا ہے تو اس کو ختم کرنے کا دل نہیں کرتا ایسے کلماتِ حسنہ پر تحریر مشتمل ہوتی ہے۔
👈 جس قدر تحریر کی ابتداء مختصر مگر جامع ہوگی اُسی قدر اس تحریر کو مقبولیت حاصل ہوگی ، اور لوگ شوق و ذوق سے پڑھیں گیں۔
👈 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریر کی ابتداء کس سے کی جائے ؟
جس سے ہماری بھی تحریر سب لوگوں کو پسند آجائے ، اور لوگ ہماری تحریر کو شوق سے پڑھیں اور اگلی تحریر کے آنے کا انتظار کریں۔
👈اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تحریر کی ابتداء کوشش کرکے ایک اچھے اور دل کش واقعے سے کی جائے ، اور واقعے کو ایک نئے طرز پر لے کر آئیں ، پرانے طرز پر نہ ہو۔
👈 اس طرح ان شاء اللہ عزوجل آپ کی تحریر ہر قاری کیلئے اکتاہٹ کا سبب نہیں بنے گی ، بلکہ قاری کیلئے تروتازہ ہوکر ثابت ہوگی ، اور آپ کی تحریر عوام و خواص میں مقبول ہوگی۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-
. 🖊 *مضمون لکھنے کے فوائد* 🖊
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
✒ تحریر ایک کٹھن سفر ہے ، اس راہ کے راہی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، دشتِ طلب میں کبھی اِس نگر کبھی اُس نگر جانا پڑتا ہے ، دھوپ اور چھائوں کو برداشت کرتے ہوئے بلند ہمت افراد ہی مشکلات کے دریا کو عبور کرکے منزل پر پہنچتے ہیں ۔
✒ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ! راہ علم کا سفر آسان نہیں مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دشواریاں منزل تک پہنچنے میں رکاوٹیں نہیں بنتیں۔ جب محرّر کو حقائق کا اجالا ملتا ہے تو سفر کی ساری تکان راحت میں تبدیل ہوجاتی ہے :-
✒ محرّر کو اس سفر میں تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لیکن ان تنقیدوں کی وجہ سے محرر اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے کیونکہ
بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹے مسائل میں نہیں پڑتے۔
✒ کسی نے کیا خوب کہا کہ " زندگی میں جب بھی آپ ٹوٹنے لگیں تو صبر رکھنا کیونکہ نکھرتے وہی ہیں جو پہلے بکھرتے ہیں "
✒ تحریر کے *11* فوائد عرض کرتا ہوں :-
1️⃣ اچھی تحریر صدقہ جاریہ کا سبب ہے :-
2️⃣ محرّر اپنا مافی الضمیر اچھے انداز سے بیان کرسکتا ہے :-
3️⃣ محرّر ایسی صلاحیت کا مالک ہوجاتا ہے کہ ایک سبق کو مختصرا بھی پیش کرسکتا ہے اور اُسی سبق کو طویل بھی پیش کرسکتا ہے :-
4️⃣ مطالعے کی عادت پختہ ہوجاتی ہے :-
5️⃣ مشاہدات کو لفظوں میں بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی :-
6️⃣ حافظہ مضبوط ہوجائے گا :-
7️⃣ تحریر کے ذریعے آپ اپنے خیالات کو فروغ اور دفاع کرسکیں گیں :-
8️⃣ خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا ، احساس کمتری ختم ہوگی :-
9️⃣ عوام و خواص کے نزدیک محرّر علمی شخصیت سے مشھور ہوگا :-
🔟 تحریر ایک ہنر ہے اور جائز مقامات پر جائز حدود میں رہ کر آپ اسے ذریعہ معاش بنا سکتے ہیں :-
1️⃣1️⃣ تحریر امتِ اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے :-
✒ لہذا اے میرے بھائیو!! ہر دن کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ تحریر کرتے رہو ؛ ان شاء اللہ عزوجل ایک دن آپ مصنف و مئولف سے موسوم ہوگیں :-
✒ اس بات پر تحریر کا اختتام کررہا ہوں کہ " زندگی مشکل ترین امتحان ہے ، بہت سے لوگ اس لئے فیل ہوجاتے ہیں ، چونکہ وہ دوسروں کی نقل کرتے ہیں ، یہ بات جانے بغیر کہ ہر کسی کا امتحانی سوال نامہ مختلف ہے "۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
✒ تحریر ایک کٹھن سفر ہے ، اس راہ کے راہی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، دشتِ طلب میں کبھی اِس نگر کبھی اُس نگر جانا پڑتا ہے ، دھوپ اور چھائوں کو برداشت کرتے ہوئے بلند ہمت افراد ہی مشکلات کے دریا کو عبور کرکے منزل پر پہنچتے ہیں ۔
✒ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ! راہ علم کا سفر آسان نہیں مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دشواریاں منزل تک پہنچنے میں رکاوٹیں نہیں بنتیں۔ جب محرّر کو حقائق کا اجالا ملتا ہے تو سفر کی ساری تکان راحت میں تبدیل ہوجاتی ہے :-
✒ محرّر کو اس سفر میں تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لیکن ان تنقیدوں کی وجہ سے محرر اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے کیونکہ
بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹے مسائل میں نہیں پڑتے۔
✒ کسی نے کیا خوب کہا کہ " زندگی میں جب بھی آپ ٹوٹنے لگیں تو صبر رکھنا کیونکہ نکھرتے وہی ہیں جو پہلے بکھرتے ہیں "
✒ تحریر کے *11* فوائد عرض کرتا ہوں :-
1️⃣ اچھی تحریر صدقہ جاریہ کا سبب ہے :-
2️⃣ محرّر اپنا مافی الضمیر اچھے انداز سے بیان کرسکتا ہے :-
3️⃣ محرّر ایسی صلاحیت کا مالک ہوجاتا ہے کہ ایک سبق کو مختصرا بھی پیش کرسکتا ہے اور اُسی سبق کو طویل بھی پیش کرسکتا ہے :-
4️⃣ مطالعے کی عادت پختہ ہوجاتی ہے :-
5️⃣ مشاہدات کو لفظوں میں بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی :-
6️⃣ حافظہ مضبوط ہوجائے گا :-
7️⃣ تحریر کے ذریعے آپ اپنے خیالات کو فروغ اور دفاع کرسکیں گیں :-
8️⃣ خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا ، احساس کمتری ختم ہوگی :-
9️⃣ عوام و خواص کے نزدیک محرّر علمی شخصیت سے مشھور ہوگا :-
🔟 تحریر ایک ہنر ہے اور جائز مقامات پر جائز حدود میں رہ کر آپ اسے ذریعہ معاش بنا سکتے ہیں :-
1️⃣1️⃣ تحریر امتِ اصلاح کا بہترین ذریعہ ہے :-
✒ لہذا اے میرے بھائیو!! ہر دن کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ تحریر کرتے رہو ؛ ان شاء اللہ عزوجل ایک دن آپ مصنف و مئولف سے موسوم ہوگیں :-
✒ اس بات پر تحریر کا اختتام کررہا ہوں کہ " زندگی مشکل ترین امتحان ہے ، بہت سے لوگ اس لئے فیل ہوجاتے ہیں ، چونکہ وہ دوسروں کی نقل کرتے ہیں ، یہ بات جانے بغیر کہ ہر کسی کا امتحانی سوال نامہ مختلف ہے "۔
. 🔶 *عربی عبارت کیسے درست ہو*؟ 🔶
استاذ العلماء ماہر علم المیراث حضرت علامہ مولانا جمیل احمد المدنی دامت فیوضھم کا فرمان ہے کہ جو طالب علم عبارت تیار کرتے وقت ان " *5* " باتوں کا خیال رکھے گا۔ ان شاء الله عزوجل وہ ایک اچھا مدرس بنے گا :-
1⃣ درست عبارت :-
2⃣ عبارت کا اعراب کے مطاق ترجمہ :-
3⃣ عبارت میں استعمال ہونے والے صیغوں کی صرفی تحقیق :-
4⃣ وجوہ اعراب :-
5⃣ اسی عبارت اور ترجمہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آسان خلاصہ اپنے الفاظوں میں بیان کرنا :-
👈 ابتداء اس طریقے پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد ان شاء اللہ عزوجل آپ کی عبارت بہترین ہوجائے گی۔
✍ *ابو المتبسّم ایازاحمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :'
استاذ العلماء ماہر علم المیراث حضرت علامہ مولانا جمیل احمد المدنی دامت فیوضھم کا فرمان ہے کہ جو طالب علم عبارت تیار کرتے وقت ان " *5* " باتوں کا خیال رکھے گا۔ ان شاء الله عزوجل وہ ایک اچھا مدرس بنے گا :-
1⃣ درست عبارت :-
2⃣ عبارت کا اعراب کے مطاق ترجمہ :-
3⃣ عبارت میں استعمال ہونے والے صیغوں کی صرفی تحقیق :-
4⃣ وجوہ اعراب :-
5⃣ اسی عبارت اور ترجمہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آسان خلاصہ اپنے الفاظوں میں بیان کرنا :-
👈 ابتداء اس طریقے پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد ان شاء اللہ عزوجل آپ کی عبارت بہترین ہوجائے گی۔
✍ *ابو المتبسّم ایازاحمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :'
🌷 *عربی عبارت پر مہارت کیسے حاصل ہو* ؟🌷
👈 مفتی قاسم صاحب دامت فیوضھم فرماتے ہیں کہ جس کی یہ خواہش ہو کہ مجھے عربی عبارت پر مہارت حاصل ہو۔ تو وہ ان *10* باتوں پر عمل کرے۔ ان شاء اللہ عزوجل اُس کو عربی زبان پر مہارت حاصل ہوجائے گی :-
1️⃣ کتب کی شروحات عربی میں پڑھیں :-
2️⃣ کتب کے حاشیے پڑھیں :-
( ایک ماہ تک حاشیے پڑھیں ان شاء اللہ عزوجل 80 فیصد آپ کی عربی زبان اچھی ہوجائے گی )
3️⃣ لغت عربی والی استعمال کریں :-
4️⃣ ذاتی مطالعہ بھی کوشش کرکے عربی کتب و رسائل سے کریں :-
5️⃣ عربی شاعری پڑھیں :-
6️⃣ قصے ، کہانیوں کی جو کتب عربی میں تحریر ہیں وہ پڑھیں :-
7️⃣ عربی کلمات کی تحقیق کریں :-
8️⃣ عربی زبان کی فصاحت و بلاغت پر جو کتب مرتّب ہیں اُن کا مطالعہ کریں :-
( جیسے سید سلیمان اشرف علیہ الرحمہ کی کتاب " المبین ")
9️⃣ اُردو سے عربی بنانے کی کوشش کریں :-
🔟 عربی زبان میں بیانات سُنیں :-
👈 کوشش کامیابی کی کُنجی ہے
کامیاب لوگ کوشش کبھی ترک نہیں کرتے :-
👈 کئ منزلوں کو آپ تلاش کرتے ہیں اور کئ منزلیں آپ کو تلاش کرتی ہیں لہذا ہمت کریں ، آگے بڑھیں :-
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131*:-
👈 مفتی قاسم صاحب دامت فیوضھم فرماتے ہیں کہ جس کی یہ خواہش ہو کہ مجھے عربی عبارت پر مہارت حاصل ہو۔ تو وہ ان *10* باتوں پر عمل کرے۔ ان شاء اللہ عزوجل اُس کو عربی زبان پر مہارت حاصل ہوجائے گی :-
1️⃣ کتب کی شروحات عربی میں پڑھیں :-
2️⃣ کتب کے حاشیے پڑھیں :-
( ایک ماہ تک حاشیے پڑھیں ان شاء اللہ عزوجل 80 فیصد آپ کی عربی زبان اچھی ہوجائے گی )
3️⃣ لغت عربی والی استعمال کریں :-
4️⃣ ذاتی مطالعہ بھی کوشش کرکے عربی کتب و رسائل سے کریں :-
5️⃣ عربی شاعری پڑھیں :-
6️⃣ قصے ، کہانیوں کی جو کتب عربی میں تحریر ہیں وہ پڑھیں :-
7️⃣ عربی کلمات کی تحقیق کریں :-
8️⃣ عربی زبان کی فصاحت و بلاغت پر جو کتب مرتّب ہیں اُن کا مطالعہ کریں :-
( جیسے سید سلیمان اشرف علیہ الرحمہ کی کتاب " المبین ")
9️⃣ اُردو سے عربی بنانے کی کوشش کریں :-
🔟 عربی زبان میں بیانات سُنیں :-
👈 کوشش کامیابی کی کُنجی ہے
کامیاب لوگ کوشش کبھی ترک نہیں کرتے :-
👈 کئ منزلوں کو آپ تلاش کرتے ہیں اور کئ منزلیں آپ کو تلاش کرتی ہیں لہذا ہمت کریں ، آگے بڑھیں :-
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131*:-
. 💓 *رشتوں کی اہمیت* 💓
✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :
📲 *0312.8065131*:-
👈 آج اس زمانے میں دوست ، دوست کو قتل کر رہا ہے دولت کی خاطر ، بیٹا ماں کو مار رہا ہے اسی جائیداد کی بناء پر ، اس دولت و جائیداد کی بناء پر کیا سے کیا نہیں ہو رہا۔
👈 حالانکہ اے میرے پیارے بھائیو!! اس دنیا میں رشتوں کی حاجت پڑتی ہے۔ اسلئے کہ اس دنیا میں آپ کا کوئ ہاتھ پکڑنے والا ہو گا تو آپ کی تکلیفیں کم ہو جائیں گیں۔
👈 ایک بات یاد رکھنا "آپ اکیلے ہیں تو آپ کی خوشی غم میں تبدیل ہو جائے گی کیونکہ آپ کے ساتھ خوشی منانے والا کوئ ساتھ نہیں ہے "۔ خوشیاں بڑھتی ہیں اپنوں کے ساتھ آپ کے رشتے دار ہیں تو آپ کی ایک خوشی دس خوشیوں میں تبدیل ہو جائے گی۔
👈 اس دنیا میں کسی غمگسار کا ہونا بھی ضروری ہے جو آپ کے ساتھ ہو۔ آپ کے غم میں شریک ہو۔
👈 آج ہم اور آپ اشیاء کو اہمیت دیتے ہیں۔انسانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہونا تو اسطرح چاہیے کہ
انسانوں کو اہمیت دیتے اور
اشیاء کو استعمال کی حد تک رکھتے۔
👈 رشتے کیوں بکرتے ہیں ؟
اس کی "10" وجوہات عرض کرتا ہوں۔
1️⃣ بد اخلاقی کی بناء پر :-
2️⃣ بد گمانی کی بناء پر :-
3️⃣ شک کی بناء پر :-
4️⃣ عدم برداشت کی بناء پر :-
5️⃣ عدم عاجزی کی بناء پر :-
6️⃣ عدم اعتمادی کی بناء پر :-
7️⃣ حرص کی بناء پر :-
8️⃣ جائیداد کی بناء پر :-
9️⃣ لا شعوری کی بناء پر :-
🔟 دوسروں کی باتوں میں آنے کی بناء پر :-
👈 لہذا!! "رشتوں کو اہمیت دیں ،
اپنوں کو اپنائیت دیں ، ایسا آپ کا ان کے ساتھ رویہ ہو جن سے وہ محسوس کریں کہ یہ اپنا ہے ، ان کی بری باتوں کو معاف کریں ، بھائ آپ کا کیا جائے گا اگر آپ نے ان کو معاف کیا ، معاف کرنے سے آپ کی عزت کم نہیں ہوگی بلکہ آپ کی عزت بڑھے گی ۔
👈 اس تحریر کو اس بات پہ ختم کر رہا ہوں کہ "شک بالکل نہ ہو" اور "توجہ بالکل ہو"۔
✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :
📲 *0312.8065131*:-
👈 آج اس زمانے میں دوست ، دوست کو قتل کر رہا ہے دولت کی خاطر ، بیٹا ماں کو مار رہا ہے اسی جائیداد کی بناء پر ، اس دولت و جائیداد کی بناء پر کیا سے کیا نہیں ہو رہا۔
👈 حالانکہ اے میرے پیارے بھائیو!! اس دنیا میں رشتوں کی حاجت پڑتی ہے۔ اسلئے کہ اس دنیا میں آپ کا کوئ ہاتھ پکڑنے والا ہو گا تو آپ کی تکلیفیں کم ہو جائیں گیں۔
👈 ایک بات یاد رکھنا "آپ اکیلے ہیں تو آپ کی خوشی غم میں تبدیل ہو جائے گی کیونکہ آپ کے ساتھ خوشی منانے والا کوئ ساتھ نہیں ہے "۔ خوشیاں بڑھتی ہیں اپنوں کے ساتھ آپ کے رشتے دار ہیں تو آپ کی ایک خوشی دس خوشیوں میں تبدیل ہو جائے گی۔
👈 اس دنیا میں کسی غمگسار کا ہونا بھی ضروری ہے جو آپ کے ساتھ ہو۔ آپ کے غم میں شریک ہو۔
👈 آج ہم اور آپ اشیاء کو اہمیت دیتے ہیں۔انسانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہونا تو اسطرح چاہیے کہ
انسانوں کو اہمیت دیتے اور
اشیاء کو استعمال کی حد تک رکھتے۔
👈 رشتے کیوں بکرتے ہیں ؟
اس کی "10" وجوہات عرض کرتا ہوں۔
1️⃣ بد اخلاقی کی بناء پر :-
2️⃣ بد گمانی کی بناء پر :-
3️⃣ شک کی بناء پر :-
4️⃣ عدم برداشت کی بناء پر :-
5️⃣ عدم عاجزی کی بناء پر :-
6️⃣ عدم اعتمادی کی بناء پر :-
7️⃣ حرص کی بناء پر :-
8️⃣ جائیداد کی بناء پر :-
9️⃣ لا شعوری کی بناء پر :-
🔟 دوسروں کی باتوں میں آنے کی بناء پر :-
👈 لہذا!! "رشتوں کو اہمیت دیں ،
اپنوں کو اپنائیت دیں ، ایسا آپ کا ان کے ساتھ رویہ ہو جن سے وہ محسوس کریں کہ یہ اپنا ہے ، ان کی بری باتوں کو معاف کریں ، بھائ آپ کا کیا جائے گا اگر آپ نے ان کو معاف کیا ، معاف کرنے سے آپ کی عزت کم نہیں ہوگی بلکہ آپ کی عزت بڑھے گی ۔
👈 اس تحریر کو اس بات پہ ختم کر رہا ہوں کہ "شک بالکل نہ ہو" اور "توجہ بالکل ہو"۔