. اصول
*ضروری نہیـــــــــں ... کچھ غلط کرنے سے ہی دکھ ملیــــــــں ... بعض اوقات حد سے زیادہ اچھے ہونے کی بھی قیمت چکانی پڑتی ہے .......!!!*
💞 💞 💞 💞
*ضروری نہیـــــــــں ... کچھ غلط کرنے سے ہی دکھ ملیــــــــں ... بعض اوقات حد سے زیادہ اچھے ہونے کی بھی قیمت چکانی پڑتی ہے .......!!!*
💞 💞 💞 💞
. 📦 *چند سُنہری باتیں* 📦 " *قسط نمبر 26* "
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد قادری*:-
🌻 سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحات وہ ہوتے ہیں جب آپ اپنی سب سے قیمتی چیز کو بچانے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔
🌻 اکثر وہ لوگ ﺟﻮ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ کھینچنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کو زندگی کا حصہ اور خوشی سمجھتے ہیں ، ان کو یہ ضرور سمجھ لینا چاہیے کہ جب وقت پلٹا ہے تو پھر ایسے لوگوں ﮐﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ بھی ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ ﮐﺮﺗﯽ۔
🌻 اس بات کا یقین رکھو کے جنہوں نے آپکو بے سکون کیا ہے، وہ پرسکون ہونے کی جتنی بھی اداکاری کر لیں سکون میں وہ کبھی بھی نہیں رہ سکتا۔
🌻 مجھے لگتا ہے کہ زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ وہ ہے جب آپ چیخ چیخ کر رونا چاہیں لیکن آنسوں گلے میں اٹک کر رہ جائیں۔
🌻 کبھی کبھی اِنسان کو دُکھ اِتنی اُونچائی پہ بٹھا دیتا ہے کہ اُسـے لفظوں ، لہجوں اور اِحساسات کی ساری بستیاں صاف دِکھائی دیتی ہیں ۔
🌻 وعدوں کو وفا کرنے کا ہنر بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے زندگی کی شراکت داری کسی ایسے انسان سے ہونی چاہیے جو إسں وقت بھی ساتھ نباہنا جانتا ہو۔جب آپ کے لئے چیزیں مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہوں ۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد قادری*:-
🌻 سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحات وہ ہوتے ہیں جب آپ اپنی سب سے قیمتی چیز کو بچانے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔
🌻 اکثر وہ لوگ ﺟﻮ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ کھینچنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کو زندگی کا حصہ اور خوشی سمجھتے ہیں ، ان کو یہ ضرور سمجھ لینا چاہیے کہ جب وقت پلٹا ہے تو پھر ایسے لوگوں ﮐﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ بھی ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ ﮐﺮﺗﯽ۔
🌻 اس بات کا یقین رکھو کے جنہوں نے آپکو بے سکون کیا ہے، وہ پرسکون ہونے کی جتنی بھی اداکاری کر لیں سکون میں وہ کبھی بھی نہیں رہ سکتا۔
🌻 مجھے لگتا ہے کہ زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ وہ ہے جب آپ چیخ چیخ کر رونا چاہیں لیکن آنسوں گلے میں اٹک کر رہ جائیں۔
🌻 کبھی کبھی اِنسان کو دُکھ اِتنی اُونچائی پہ بٹھا دیتا ہے کہ اُسـے لفظوں ، لہجوں اور اِحساسات کی ساری بستیاں صاف دِکھائی دیتی ہیں ۔
🌻 وعدوں کو وفا کرنے کا ہنر بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے زندگی کی شراکت داری کسی ایسے انسان سے ہونی چاہیے جو إسں وقت بھی ساتھ نباہنا جانتا ہو۔جب آپ کے لئے چیزیں مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہوں ۔
🌹"ا" سے "اُردُو" کے انشا و تلفظ🌹
میرا سر درد کرتا ہے ؟
درد کرنا بالکل غلط ہے۔ صحیح فقرہ یوں ہوگا۔
"میرے سر میں درد ہے" یا "میرا سر دُکھتا ہے۔"
حوالہ کتاب : "اِصلاحِ تَلَفُّظ و اِملا"
از : "طالب الہاشمی"
ص : 125
طالب دعا کاشف ترک
@HamariUrduPiyariUrdu
میرا سر درد کرتا ہے ؟
درد کرنا بالکل غلط ہے۔ صحیح فقرہ یوں ہوگا۔
"میرے سر میں درد ہے" یا "میرا سر دُکھتا ہے۔"
حوالہ کتاب : "اِصلاحِ تَلَفُّظ و اِملا"
از : "طالب الہاشمی"
ص : 125
طالب دعا کاشف ترک
@HamariUrduPiyariUrdu
معروف آن لائن لغت
Dictionary.com
کے مطابق انگریزی کے پاس اپنے الفاظ صرف بیس فی صد ہیں۔اس نے باقی اسی فی صد الفاظ بشمول اردو دیگر 350 زبانوں سے لیے ہیں۔یوں خالص انگریزی جیسی کوئی بھی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔
Loanwords make up 80% of English
What this means is that there is no such thing as pure English. English is a delectable, slow-cooked language of languages. As lexicographer Kory Stamper explains, “English has been borrowing words from other languages since its infancy.” As many as 350 other languages are represented and their linguistic contributions actually make up about 80% of English!
Ranking from most influential to least
, English is composed of words from: Latin, French, German, Italian, Spanish, Dutch, Scandinavian, Japanese, Arabic, Portuguese, Sanskrit, Russian, Maori, Hindi, Hebrew, Persian, Malay, Urdu, Irish, Afrikaans, Yiddish, Chinese, Turkish, Norwegian, Zulu, and Swahili. And, that’s not even 10% of the 350 languages in the English melting pot.
کسی زبان کا دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھنا عمدگی ہے۔اردو اس صلاحیت میں بلاشبہ عمدہ ترین ہے۔
@HamariUrduPiyariUrdu
Dictionary.com
کے مطابق انگریزی کے پاس اپنے الفاظ صرف بیس فی صد ہیں۔اس نے باقی اسی فی صد الفاظ بشمول اردو دیگر 350 زبانوں سے لیے ہیں۔یوں خالص انگریزی جیسی کوئی بھی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔
Loanwords make up 80% of English
What this means is that there is no such thing as pure English. English is a delectable, slow-cooked language of languages. As lexicographer Kory Stamper explains, “English has been borrowing words from other languages since its infancy.” As many as 350 other languages are represented and their linguistic contributions actually make up about 80% of English!
Ranking from most influential to least
, English is composed of words from: Latin, French, German, Italian, Spanish, Dutch, Scandinavian, Japanese, Arabic, Portuguese, Sanskrit, Russian, Maori, Hindi, Hebrew, Persian, Malay, Urdu, Irish, Afrikaans, Yiddish, Chinese, Turkish, Norwegian, Zulu, and Swahili. And, that’s not even 10% of the 350 languages in the English melting pot.
کسی زبان کا دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھنا عمدگی ہے۔اردو اس صلاحیت میں بلاشبہ عمدہ ترین ہے۔
@HamariUrduPiyariUrdu
”پاکستان کا قومی ترانہ فارسی زبان میں ہے، صرف ایک لفظ اردو کا ہے۔ “”اچھا؟ وہ کون شودر لفظ ہے؟ “”‘کا‘۔ پاک سرزمین کا نظام؛ اس میں ”کا“ اردو زبان سے ہے۔
سوچے سمجھے بنا ایسی باتیں کرنے والوں کی کمی نہیں؛ اردو زبان گویا یتیم زبان ہے، کہ جو جس کے جی میں آئے وہ اس کے لیے کہ دے۔ ”اردو تو کوئی زبان ہی نہیں، یہ تو عربی، فارسی، سنسکرت اور کئی زبانوں کا ملغوبہ ہے؛ اس کا تو نام بھی ترکی زبان مستعار ہے، اردو۔ اس کا مطلب ’لشکر‘ ہوتا ہے۔ “ بس آپ یہ دعوے ہی نہ سنیں، بل کہ پرجوش عالم میں ایسے انکشافات کرتے کاشفین کا چہرہ تکا کیجیے، کہ وہ عالمی سازش کا سراغ لائے ہیں۔ سنانے والوں کی معلومات پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیے۔
جب کوئی یہ کہے کہ اردو زبان کئی زبانوں کا ملغوبہ ہے تو میں اطمینان سے سوال کرتا ہوں، وہ کون سے زبان ہے، جو آسمان سے اتری ہے؟ سازش کا پتا دینے والا بھونچکا رہ کے تکے جاتا ہے۔
ہم نے پرایمری کلاس کی (”پرایمری کلاس“ انگریزی نہیں، اردو ہے) اسلامیات میں پڑھا تھا کہ ”عربی؛ عبرانی اور سریانی زبان کا مجموعہ ہے۔ لیکن کبھی کسی عربی کو افسوس کا اظہار کرتے نہیں پایا کہ ”عربی تو زبان ہی نہیں، یہ تو عبرانی اور سریانی کا ملغوبہ ہے۔ “
دنیا کی تمام زبانیں ایک سے زاید زبانوں کے ملاپ سے بنتی آئیں ہیں اور امید ہے ایسے ہی بنتی چلی جائیں گی۔ برصغیر پاک و ہند میں کئی اقوام بستی ہیں۔ تجارت کے غرض سے آنے والے غیر ملکی اور بدیسی حملہ آور اپنی تہذیب ہی نہیں زبان بھی ہم راہ لائے۔ ان کے ہم راہیوں میں مترجم بھی ہوں گے، جو مقامیوں سے بات چیت کرتے وسیلہ بنتے تھے؛ تبلیغ کرنے والوں کو مقامیوں ہی کی زبان کو اپنانا پڑا۔ مرور ایام نے ایک نئی زبان کو جنم دے دیا، جس کے لہجے جدا جدا ہوں گے، ہیں۔ انگریز سرکار آئی تو انھیں اپنے افسروں کو ایک ایسی زبان سکھانا تھی، جو فصحیح ہو نہ ہو، بلیغ ہو۔ ابلاغ بنیادی ضرورت تھا۔ فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں لایا گیا، انگریز کی نظر میں ”اردو“ وہ زبان ٹھیری، جو ہندستان کے کونے کونے میں سمجھی جاتی تھی۔ یہ بولی پہلے سے موجود تھی، اسے بولنے والے کسی اصول یا گرایمر سیکھنے کے محتاج نہ تھے، جیسا کہ اہل زبان ان کا محتاج نہیں ہوتا۔ زبان سیکھنے کے لیے گرایمر سکیھنا پڑتی ہے۔ اس کے اصول اس کی گرایمر ترتیب دینے کے لیے اس زبان کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں، تا کہ انگریز افسروں کو اس زبان کی تربیت دی جا سکے۔ ہر قوم کا یہ احساس تھا اور ہے کہ وہی اعلا قوم ہے اسی کی تہذیب سب تہذیبوں سے افضل ہے، اور اس کی زبان بلیغ و فصیح ہے۔ ایسے میں انگریز نے اردو کو کیوں اہمیت دی؛ اپنی قوم کو برتر سمجھنے والوں کا یہ دکھ گیا نہیں۔ مغل دربار کی زبان فارسی تھی، انگریز سرکار کی دفتری زبان انگریزی۔ ”اردو“ جنتا کی زبان تھی، ایسی جنتا جسے اپنے جیسے گوشت پوست کے دوسرے انسان سے ابلاغ کے لیے اس کی ضرورت پڑتی تھی، جو دوسری قوم سے ہوتا؛ جنتا تو جنتا ہوتی ہے، وہ کب افضل ہوئی ہے۔ جنتا کو افضل بننے کے لیے پہلے پہل فارسی سیکھنا پڑتی تھی، پھر انگریزی کی محتاج ہوئی۔ اردو نہ اشرافیہ کہ زبان تھی نہ ہے۔ اردو کے خلاف بغض تھا تو سیاسی تھا، اردو کے خلاف بغض ہے تو سیاسی ہے۔
جناح نے اردو کی وکالت کی تو اسی لیے کی تھی کہ یہ واحد زبان ہے، جو پاکستانی اقوام کی نمایندگی کرتی ہے؛ ورنہ جناح کو اردو کی طرف داری کی کیا پڑی تھی، وہ تو اردو لکھنا بولنا جانتے ہی نہ تھے۔ انھیں انگریزی کی وکالت کرنا چاہیے تھی۔
طوالت کی گنجایش ہوتی تو ابھی اور کہتا؛ نکتے پر آتا ہوں۔ پاکستان کے قومی ترانے میں ”کا“ نہ ہوتا، تو یہ مکمل فارسی زبان میں ہے۔ یہ دعوا اتنی بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے، کہ کیا کہیے۔ یہ مضمون اردو میں ہے، اس میں کوئی لفظ غیر اردو نہیں۔ ان الفاظ کو اردو میں برتا جاتا ہے، یہ اردو ہیں۔ یہ اردو ہی کے ساتھ نہیں سب زبانوں کے ساتھ ہے، کہ وہ دیگر زبانوں کے الفاظ لیتی رہتی ہیں، وہ ایسا نہ کریں تو متروک ہو جائیں۔ ”مچان، چیتا، کف، بازار، جنگل، پاجامہ، اور ڈھیروں الفاظ ہیں جو انگریزی نے ہم سے مستعار لیے۔ قومی ترانہ جسے فارسی زبان میں کہا جا رہا ہے، اس پر ایک نظر کرتے ہیں۔
پاک سرزمین شاد باد کشورِ حسین شاد بادتو نشانِ عزمِ عالی شان ارضِ پاکستان!مرکزِ یقین شاد بادپاک سرزمین کا نظام قوّتِ اخوّتِ عوامقوم، ملک، سلطنت پایندہ تابندہ باد!شاد باد منزلِ مرادپرچمِ ستارہ و ہلال رہبرِ ترقّی و کمالترجمانِ ماضی، شانِ حال جانِ استقبال!سایۂ خدائے ذوالجلال
مدعی کا دعوا مان کر چلتے ہیں کہ یہ فارسی زبان ہے، ما سوائے ”کا“ کے، تو ”یقین، قوت، اخوت، عوام، ملک، منزل، مراد، سلطنت، ہلال، ترقی، کمال، ترجمان، ماضی، شان، حال، استقبال، ذوالجلال‘ کا کیا کیجیے، کہ یہ تو عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ ہم یہ دعوا کیوں نہیں کر دیتے کہ قومی ترانہ عربی فارسی کا ملغوبہ ہے ایک لفظ اردو ہے۔ میں ایسوں کی آسانی کے لیے یہ کیوں نہ کہ دوں کہ اس میں
سوچے سمجھے بنا ایسی باتیں کرنے والوں کی کمی نہیں؛ اردو زبان گویا یتیم زبان ہے، کہ جو جس کے جی میں آئے وہ اس کے لیے کہ دے۔ ”اردو تو کوئی زبان ہی نہیں، یہ تو عربی، فارسی، سنسکرت اور کئی زبانوں کا ملغوبہ ہے؛ اس کا تو نام بھی ترکی زبان مستعار ہے، اردو۔ اس کا مطلب ’لشکر‘ ہوتا ہے۔ “ بس آپ یہ دعوے ہی نہ سنیں، بل کہ پرجوش عالم میں ایسے انکشافات کرتے کاشفین کا چہرہ تکا کیجیے، کہ وہ عالمی سازش کا سراغ لائے ہیں۔ سنانے والوں کی معلومات پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیے۔
جب کوئی یہ کہے کہ اردو زبان کئی زبانوں کا ملغوبہ ہے تو میں اطمینان سے سوال کرتا ہوں، وہ کون سے زبان ہے، جو آسمان سے اتری ہے؟ سازش کا پتا دینے والا بھونچکا رہ کے تکے جاتا ہے۔
ہم نے پرایمری کلاس کی (”پرایمری کلاس“ انگریزی نہیں، اردو ہے) اسلامیات میں پڑھا تھا کہ ”عربی؛ عبرانی اور سریانی زبان کا مجموعہ ہے۔ لیکن کبھی کسی عربی کو افسوس کا اظہار کرتے نہیں پایا کہ ”عربی تو زبان ہی نہیں، یہ تو عبرانی اور سریانی کا ملغوبہ ہے۔ “
دنیا کی تمام زبانیں ایک سے زاید زبانوں کے ملاپ سے بنتی آئیں ہیں اور امید ہے ایسے ہی بنتی چلی جائیں گی۔ برصغیر پاک و ہند میں کئی اقوام بستی ہیں۔ تجارت کے غرض سے آنے والے غیر ملکی اور بدیسی حملہ آور اپنی تہذیب ہی نہیں زبان بھی ہم راہ لائے۔ ان کے ہم راہیوں میں مترجم بھی ہوں گے، جو مقامیوں سے بات چیت کرتے وسیلہ بنتے تھے؛ تبلیغ کرنے والوں کو مقامیوں ہی کی زبان کو اپنانا پڑا۔ مرور ایام نے ایک نئی زبان کو جنم دے دیا، جس کے لہجے جدا جدا ہوں گے، ہیں۔ انگریز سرکار آئی تو انھیں اپنے افسروں کو ایک ایسی زبان سکھانا تھی، جو فصحیح ہو نہ ہو، بلیغ ہو۔ ابلاغ بنیادی ضرورت تھا۔ فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں لایا گیا، انگریز کی نظر میں ”اردو“ وہ زبان ٹھیری، جو ہندستان کے کونے کونے میں سمجھی جاتی تھی۔ یہ بولی پہلے سے موجود تھی، اسے بولنے والے کسی اصول یا گرایمر سیکھنے کے محتاج نہ تھے، جیسا کہ اہل زبان ان کا محتاج نہیں ہوتا۔ زبان سیکھنے کے لیے گرایمر سکیھنا پڑتی ہے۔ اس کے اصول اس کی گرایمر ترتیب دینے کے لیے اس زبان کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں، تا کہ انگریز افسروں کو اس زبان کی تربیت دی جا سکے۔ ہر قوم کا یہ احساس تھا اور ہے کہ وہی اعلا قوم ہے اسی کی تہذیب سب تہذیبوں سے افضل ہے، اور اس کی زبان بلیغ و فصیح ہے۔ ایسے میں انگریز نے اردو کو کیوں اہمیت دی؛ اپنی قوم کو برتر سمجھنے والوں کا یہ دکھ گیا نہیں۔ مغل دربار کی زبان فارسی تھی، انگریز سرکار کی دفتری زبان انگریزی۔ ”اردو“ جنتا کی زبان تھی، ایسی جنتا جسے اپنے جیسے گوشت پوست کے دوسرے انسان سے ابلاغ کے لیے اس کی ضرورت پڑتی تھی، جو دوسری قوم سے ہوتا؛ جنتا تو جنتا ہوتی ہے، وہ کب افضل ہوئی ہے۔ جنتا کو افضل بننے کے لیے پہلے پہل فارسی سیکھنا پڑتی تھی، پھر انگریزی کی محتاج ہوئی۔ اردو نہ اشرافیہ کہ زبان تھی نہ ہے۔ اردو کے خلاف بغض تھا تو سیاسی تھا، اردو کے خلاف بغض ہے تو سیاسی ہے۔
جناح نے اردو کی وکالت کی تو اسی لیے کی تھی کہ یہ واحد زبان ہے، جو پاکستانی اقوام کی نمایندگی کرتی ہے؛ ورنہ جناح کو اردو کی طرف داری کی کیا پڑی تھی، وہ تو اردو لکھنا بولنا جانتے ہی نہ تھے۔ انھیں انگریزی کی وکالت کرنا چاہیے تھی۔
طوالت کی گنجایش ہوتی تو ابھی اور کہتا؛ نکتے پر آتا ہوں۔ پاکستان کے قومی ترانے میں ”کا“ نہ ہوتا، تو یہ مکمل فارسی زبان میں ہے۔ یہ دعوا اتنی بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے، کہ کیا کہیے۔ یہ مضمون اردو میں ہے، اس میں کوئی لفظ غیر اردو نہیں۔ ان الفاظ کو اردو میں برتا جاتا ہے، یہ اردو ہیں۔ یہ اردو ہی کے ساتھ نہیں سب زبانوں کے ساتھ ہے، کہ وہ دیگر زبانوں کے الفاظ لیتی رہتی ہیں، وہ ایسا نہ کریں تو متروک ہو جائیں۔ ”مچان، چیتا، کف، بازار، جنگل، پاجامہ، اور ڈھیروں الفاظ ہیں جو انگریزی نے ہم سے مستعار لیے۔ قومی ترانہ جسے فارسی زبان میں کہا جا رہا ہے، اس پر ایک نظر کرتے ہیں۔
پاک سرزمین شاد باد کشورِ حسین شاد بادتو نشانِ عزمِ عالی شان ارضِ پاکستان!مرکزِ یقین شاد بادپاک سرزمین کا نظام قوّتِ اخوّتِ عوامقوم، ملک، سلطنت پایندہ تابندہ باد!شاد باد منزلِ مرادپرچمِ ستارہ و ہلال رہبرِ ترقّی و کمالترجمانِ ماضی، شانِ حال جانِ استقبال!سایۂ خدائے ذوالجلال
مدعی کا دعوا مان کر چلتے ہیں کہ یہ فارسی زبان ہے، ما سوائے ”کا“ کے، تو ”یقین، قوت، اخوت، عوام، ملک، منزل، مراد، سلطنت، ہلال، ترقی، کمال، ترجمان، ماضی، شان، حال، استقبال، ذوالجلال‘ کا کیا کیجیے، کہ یہ تو عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ ہم یہ دعوا کیوں نہیں کر دیتے کہ قومی ترانہ عربی فارسی کا ملغوبہ ہے ایک لفظ اردو ہے۔ میں ایسوں کی آسانی کے لیے یہ کیوں نہ کہ دوں کہ اس میں
ایک بھی لفظ اردو کا نہیں؛ ”کا“ سنسکرت زبان کا لفظ ہے! اوپر جن الفاظ کو میں نے عربی کہا ہے، انھیں فارسی زبان اپنا چکی ہے۔ جیسا کہ ہوتا ہے ہر زبان پر کسی دوسری زبان کے اثرات ہوتے ہیں۔ لیکن مذکورہ الفاظ اب فارسی زبان کے الفاظ ہیں؛ کوئی فارسی دان یہ نہیں کہتا کہ یہ الفاظ فارسی کے نہیں ہیں، یہ تو عربی ہیں۔ اسی لیے ان پر فارسی طرز پر اضافت لگا کے مرکب کرتے ہیں، نا کہ عربی انداز میں ”ال“ سے تراکیب بناتے ہوں۔ ہاں! جب لغت بنائی جائے، تو یہ واضح کیا جاتا ہے، کہ یہ لفظ اس زبان میں کس زبان سے در آیا۔ کیا قومی ترانے میں استعمال کیے گئے الفاظ ایسے ہی ہیں جو اردو زبان کی بول چال میں نہیں آتے؟ یہ اردو زبان کے الفاظ ہیں۔ ان پر فارسی طریق پر اضافت لگی ہے، جو اردو گرایمر کے حساب سے مباح ہے۔
لسان کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اردو زبان میں لگ بھگ تیس فی صد الفاظ عربی فارسی یا غیر زبان سے ہیں؛ باقی اسی سرزمین کی (ہندی) زبانوں کے ہیں۔ ہند کی تمام نہیں تو بیش تر زبانوں میں عربی فارسی سنسکرت کے الفاظ شامل ہیں۔ مختصرا یہ کہ ”پنج آبی“ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ آپ اپنی اپنی مادری زبان پر غور کیجیے آپ کو عربی فارسی کے الفاظ جا بجا دکھائی دیں گے۔ یہ ہے کہ اردو کے مقابلے میں عربی فارسی کے الفاظ قدرے کم ہوں گے۔ ایک دوسرے کی زبانوں میں جو مشترک الفاظ ہیں، وہ کیا ہیں؟ پرتگالی، انگریزی، ترکی، سنسکرت، عربی، فارسی! اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہند کی تمام زبانوں کی ماں سنسکرت ہے۔ یہ وہی سنسکرت ہے جس کے الفاظ فارسی زبان میں شامل ہیں۔
چلتے چلتے آپ کو بتاتا چلوں کہ قومی ترانے کی دھن میں مغربی ہے، اس میں استعمال ہوئے موسیقی کے آلات ”سیکسو فون، ٹرمپٹ، ہارن، سلایڈ، ٹرمبون، بیس ٹرمبون، یو فونیم، بے سون، پکولو اور دیگر آلات بھی مغربی ہیں۔ نہ اس میں ستار کا استعمال ہوا، نہ اک تارا، نہ اور کوئی مقامی ساز۔ احساس محرومی کے مارے ہووں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر تو نہیں۔ اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
@HamariUrduPiyariUrdu
لسان کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اردو زبان میں لگ بھگ تیس فی صد الفاظ عربی فارسی یا غیر زبان سے ہیں؛ باقی اسی سرزمین کی (ہندی) زبانوں کے ہیں۔ ہند کی تمام نہیں تو بیش تر زبانوں میں عربی فارسی سنسکرت کے الفاظ شامل ہیں۔ مختصرا یہ کہ ”پنج آبی“ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ آپ اپنی اپنی مادری زبان پر غور کیجیے آپ کو عربی فارسی کے الفاظ جا بجا دکھائی دیں گے۔ یہ ہے کہ اردو کے مقابلے میں عربی فارسی کے الفاظ قدرے کم ہوں گے۔ ایک دوسرے کی زبانوں میں جو مشترک الفاظ ہیں، وہ کیا ہیں؟ پرتگالی، انگریزی، ترکی، سنسکرت، عربی، فارسی! اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہند کی تمام زبانوں کی ماں سنسکرت ہے۔ یہ وہی سنسکرت ہے جس کے الفاظ فارسی زبان میں شامل ہیں۔
چلتے چلتے آپ کو بتاتا چلوں کہ قومی ترانے کی دھن میں مغربی ہے، اس میں استعمال ہوئے موسیقی کے آلات ”سیکسو فون، ٹرمپٹ، ہارن، سلایڈ، ٹرمبون، بیس ٹرمبون، یو فونیم، بے سون، پکولو اور دیگر آلات بھی مغربی ہیں۔ نہ اس میں ستار کا استعمال ہوا، نہ اک تارا، نہ اور کوئی مقامی ساز۔ احساس محرومی کے مارے ہووں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر تو نہیں۔ اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
@HamariUrduPiyariUrdu
" چار اینٹ کے گھر کا عارضی مالک"
ایک وہ دین ہے جہاں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے کانٹا بھی اٹھانے کی ترغیب دلاتے اور ثواب کی نوید سناتے ہیں اور اسے صدقے سے تعبیر کیا گیا کہ لوگوں کے راستے سے رکاوٹ دور کی جائے
اور ایک یہ ہم لفظی دعوے دار امتی ہیں فقط گفتار کے غازی جہاں کردار بھیک مانگے تو نہ ملے ہماری سوچوں کا یہ عالم ہے کہ ہم چار اینٹ جگہ کے مالک بن کر خدا بن بیٹھے ہیں
سنو صاحب!
یہاں سکندر فرعون قارون ہامان ایسے ایسے امیر ترین لوگ آئے جنہوں نے دنیا پر حکومت کی اب نہ بچے ان کے محل نہ قبروں کے نشان باقی تو ہمارے چار اینٹ کے گھر کی کیا وقعت ہے! موت سب کا صفایا کرنے والی ہے میرے شیخ عبدالقادر جیلانی ایک گھر بنانے والے کو دیکھ کر فرماتے ہیں:
" گھر بنانے والے بنائے گا تو اور رہے گا کوئی اور یہاں "
حق فرمایا اللہ کریم نے ہم پر جو مصیبتیں آئیں وہ ہمارے اپنے اعمال کا ہی کیا دھرا ہیں بہت کچھ تو اللہ معاف فرما دیتا ہے
اللہ تعالی ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے
✍ سرمد لطیف
ایک وہ دین ہے جہاں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے کانٹا بھی اٹھانے کی ترغیب دلاتے اور ثواب کی نوید سناتے ہیں اور اسے صدقے سے تعبیر کیا گیا کہ لوگوں کے راستے سے رکاوٹ دور کی جائے
اور ایک یہ ہم لفظی دعوے دار امتی ہیں فقط گفتار کے غازی جہاں کردار بھیک مانگے تو نہ ملے ہماری سوچوں کا یہ عالم ہے کہ ہم چار اینٹ جگہ کے مالک بن کر خدا بن بیٹھے ہیں
سنو صاحب!
یہاں سکندر فرعون قارون ہامان ایسے ایسے امیر ترین لوگ آئے جنہوں نے دنیا پر حکومت کی اب نہ بچے ان کے محل نہ قبروں کے نشان باقی تو ہمارے چار اینٹ کے گھر کی کیا وقعت ہے! موت سب کا صفایا کرنے والی ہے میرے شیخ عبدالقادر جیلانی ایک گھر بنانے والے کو دیکھ کر فرماتے ہیں:
" گھر بنانے والے بنائے گا تو اور رہے گا کوئی اور یہاں "
حق فرمایا اللہ کریم نے ہم پر جو مصیبتیں آئیں وہ ہمارے اپنے اعمال کا ہی کیا دھرا ہیں بہت کچھ تو اللہ معاف فرما دیتا ہے
اللہ تعالی ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے
✍ سرمد لطیف
اصول کے اعتبار سے کتب حدیث کی اقسام اور ان کی مختصر تعریفات
*جامع*
وہ کتاب ہے جس میں تفسیر، عقائد، آداب، احکام، مناقب، سیر، فتن، علاماتِ قیامت وغیرہا ہرقسم کے مسائل کی احادیث مندرج ہوں،
جیسے بخاری وترمذی۔
*سُنن*
وہ کتاب ہے جس میں احکام کی احادیث، ابواب فقہ کی ترتیب کے موافق بیان ہوں، جیسے سنن ابی داؤد وسنن نسائی، وسنن ابنِ ماجہ
*الصحیح*
یہ وہ کتابیں ہیں جن میں اُن کے مؤلفین نے اپنے خیال میں صرف صحیح احادیث لانے کا التزام کیا ہو، جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابنِ خزیمہ، صحیح ابنِ حبان وغیرہ۔
*مسند*
وہ کتاب ہے جس میں صحابہ کرام علیھم الرضوان کی ترتیب رتبی یاترتیب حروف ہجا یاتقدم وتأخر اسلامی کے لحاظ سے احادیث مذکور ہوں، جیسے مسند احمد ومسند دارمی۔
*معجم*
وہ کتاب ہے جس کے اندر وضع احادیث میں ترتیب اساتذہ کا لحاظ رکھا گیا ہو، جیسے معجم طبرانی
*المصنف*
جن میں روایات محض جمع کرنے کے اِرادے سے لکھی گئی ہوں، جیسے المصنف لعبدالرزاق (۲۱۱ھ)، المصنف لابنِ ابی شیبۃ (۲۳۵ھ) یہ دونوں مصنف
*جزء*
وہ کتاب ہےجس میں صرف ایک مسئلہ کی احادیث یک جا جمع ہوں، جیسےجزءالقرأۃ وجزء رفع الیدین للبخاری وجزء القرأۃ للبیہقی۔
*مفرد*
وہ کتاب ہے جس میں صرف ایک شخص کی کل مرویات ذکر ہوں
*مستخرج*
وہ کتاب ہے جس میں دوسری کتاب کی حدیثوں کی زائد سندوں کا استخراج کیا گیا ہو، جیسے مستخرج ابی عوانہ
*مستدرک*
وہ کتاب ہے جس میں دوسری کتاب کی شرط کے موافق اس کی رہی ہوئی حدیثوں کوپورا کردیا گیا ہو، جیسے مستدرک حاکم
*مؤطا*
جس کتاب کومؤلف نے دوسرے علماء کے سامنے پیش کیا ہو اور انہوں نے اس پر اتفاق فرمایا ہو، اسے مؤطا کہتے ہیں، جیسے مؤطا ابنِ ابی ذئب (۱۵۹ھ)، مؤطا امام مالک (۱۷۹ھ)، مؤطاامام محمد (۱۸۹ھ) وغیرہ
*ابو عمر غلام مجتبیٰ عطاری المدنی*
@HamariUrduPiyariUrdu
*جامع*
وہ کتاب ہے جس میں تفسیر، عقائد، آداب، احکام، مناقب، سیر، فتن، علاماتِ قیامت وغیرہا ہرقسم کے مسائل کی احادیث مندرج ہوں،
جیسے بخاری وترمذی۔
*سُنن*
وہ کتاب ہے جس میں احکام کی احادیث، ابواب فقہ کی ترتیب کے موافق بیان ہوں، جیسے سنن ابی داؤد وسنن نسائی، وسنن ابنِ ماجہ
*الصحیح*
یہ وہ کتابیں ہیں جن میں اُن کے مؤلفین نے اپنے خیال میں صرف صحیح احادیث لانے کا التزام کیا ہو، جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابنِ خزیمہ، صحیح ابنِ حبان وغیرہ۔
*مسند*
وہ کتاب ہے جس میں صحابہ کرام علیھم الرضوان کی ترتیب رتبی یاترتیب حروف ہجا یاتقدم وتأخر اسلامی کے لحاظ سے احادیث مذکور ہوں، جیسے مسند احمد ومسند دارمی۔
*معجم*
وہ کتاب ہے جس کے اندر وضع احادیث میں ترتیب اساتذہ کا لحاظ رکھا گیا ہو، جیسے معجم طبرانی
*المصنف*
جن میں روایات محض جمع کرنے کے اِرادے سے لکھی گئی ہوں، جیسے المصنف لعبدالرزاق (۲۱۱ھ)، المصنف لابنِ ابی شیبۃ (۲۳۵ھ) یہ دونوں مصنف
*جزء*
وہ کتاب ہےجس میں صرف ایک مسئلہ کی احادیث یک جا جمع ہوں، جیسےجزءالقرأۃ وجزء رفع الیدین للبخاری وجزء القرأۃ للبیہقی۔
*مفرد*
وہ کتاب ہے جس میں صرف ایک شخص کی کل مرویات ذکر ہوں
*مستخرج*
وہ کتاب ہے جس میں دوسری کتاب کی حدیثوں کی زائد سندوں کا استخراج کیا گیا ہو، جیسے مستخرج ابی عوانہ
*مستدرک*
وہ کتاب ہے جس میں دوسری کتاب کی شرط کے موافق اس کی رہی ہوئی حدیثوں کوپورا کردیا گیا ہو، جیسے مستدرک حاکم
*مؤطا*
جس کتاب کومؤلف نے دوسرے علماء کے سامنے پیش کیا ہو اور انہوں نے اس پر اتفاق فرمایا ہو، اسے مؤطا کہتے ہیں، جیسے مؤطا ابنِ ابی ذئب (۱۵۹ھ)، مؤطا امام مالک (۱۷۹ھ)، مؤطاامام محمد (۱۸۹ھ) وغیرہ
*ابو عمر غلام مجتبیٰ عطاری المدنی*
@HamariUrduPiyariUrdu
. 🌟 *چند سُنہری باتیں* 🌟 " *قسط نمبر 27* "
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
🌾کسی کو کچھ دینا ہی ہدیہ نہیں ہوتا بلکہ کسی پر غصہ آجائے تو اُس کا اظہار نہ کرنا اور کسی کے راز معلوم ہوتو اُس کو چھپانا کسی کی عزت کو تار تار کرنے سے اپنی زبان کو بچانا بھی ہدیہ ہی ہے۔
🌾زندگی کے سفر میں کوئی اچھا انسان ملے تو بندہ لاپرواہ ہو جاتا ہے برا ملے تو پھر بندہ پھونک پھونک کر قدم اٹھانے والا بن جاتا ہے۔
🌾اکیلے میں پھوٹ پھوٹ کے رونا پھر صبر سے اپنی بکھری ذات کو اپنی ہنسی میں سمیٹنا دنیا کے سامنے ایسے رہنا جیسے کبھی کوئ دکھ دیکھا نہیں ، درد سہا نہیں غم کیا ہوتے ہیں ، پتہ نہیں یہ ہوتی ہے اذیت کی انتہا۔
🌾وقت کی ایک بات بہت اچھی ہے جیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے۔
🌾جو رشتے دل سے وابستہ ہوتے ہوں خوشی اور غم ان سے وابستہ ہوجاتے ہیں تو ان سے دور نہیں بھاگ سکتے کیونکہ رشتے ہوتے ہی دل کے ہیں اور دل سے قائم رہتے ہیں اگر دل میں جگہ نہ رہے تو صرف نام کے۔
🌾کسی چیز کے کھو جانے کا اور لوگوں کہ سہاروں کا دکھ نہ کرو ، یہ دنیا یہ لوگ بس کھیل تماشا ہے یہاں ضروری کچھ بھی نہیں ہوتا ، ضروری ہے تو بس اک رب کی ذات ضروری۔ اسی کو اپنا سب کچھ سمجھو وہ ہی تمہارا جہاں ہے ، وہ ہی تمہارا رب ، وہ ہی تمہارا سہارا ہے ، وہ جو رب ہے بس وہ ہی ضروری ہے۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
🌾کسی کو کچھ دینا ہی ہدیہ نہیں ہوتا بلکہ کسی پر غصہ آجائے تو اُس کا اظہار نہ کرنا اور کسی کے راز معلوم ہوتو اُس کو چھپانا کسی کی عزت کو تار تار کرنے سے اپنی زبان کو بچانا بھی ہدیہ ہی ہے۔
🌾زندگی کے سفر میں کوئی اچھا انسان ملے تو بندہ لاپرواہ ہو جاتا ہے برا ملے تو پھر بندہ پھونک پھونک کر قدم اٹھانے والا بن جاتا ہے۔
🌾اکیلے میں پھوٹ پھوٹ کے رونا پھر صبر سے اپنی بکھری ذات کو اپنی ہنسی میں سمیٹنا دنیا کے سامنے ایسے رہنا جیسے کبھی کوئ دکھ دیکھا نہیں ، درد سہا نہیں غم کیا ہوتے ہیں ، پتہ نہیں یہ ہوتی ہے اذیت کی انتہا۔
🌾وقت کی ایک بات بہت اچھی ہے جیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے۔
🌾جو رشتے دل سے وابستہ ہوتے ہوں خوشی اور غم ان سے وابستہ ہوجاتے ہیں تو ان سے دور نہیں بھاگ سکتے کیونکہ رشتے ہوتے ہی دل کے ہیں اور دل سے قائم رہتے ہیں اگر دل میں جگہ نہ رہے تو صرف نام کے۔
🌾کسی چیز کے کھو جانے کا اور لوگوں کہ سہاروں کا دکھ نہ کرو ، یہ دنیا یہ لوگ بس کھیل تماشا ہے یہاں ضروری کچھ بھی نہیں ہوتا ، ضروری ہے تو بس اک رب کی ذات ضروری۔ اسی کو اپنا سب کچھ سمجھو وہ ہی تمہارا جہاں ہے ، وہ ہی تمہارا رب ، وہ ہی تمہارا سہارا ہے ، وہ جو رب ہے بس وہ ہی ضروری ہے۔
جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں ۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں،یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے.
قاضی نے پوچھا
تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟
ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو.
وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی.
قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟
وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی،میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کرلی ساتھ یہ شرط رکھ لی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے،میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی سہاگ رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں.
جج صاحب میری طلاق ہوگئی.
کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کرلی،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے وکالت کا حق استعمال کرتے ہوئے پھوپھی کو طلاق دے ڈالی اور پھوپھی کے سابقہ شوہر سے شادی کرلی.
قاضی حیرت سے پھر ؟
وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی.
کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد(میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟
اس نے ہاں کرلی
میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی(میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں،اس نے ایسا ہی کیا.
میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی.
قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ
اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟
میری پھوپھی کہنے لگی :
قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلیا۔
قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے:
مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا،طلاق بھی جائز ہے،وکالت بھی جائز ہے،طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے.
اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی.
كتاب :جمع الجواهر في - الحُصري.
بشکریہ جناب امین نورانی صاحب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں،یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے.
قاضی نے پوچھا
تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟
ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو.
وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی.
قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟
وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی،میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کرلی ساتھ یہ شرط رکھ لی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے،میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی سہاگ رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں.
جج صاحب میری طلاق ہوگئی.
کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کرلی،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے وکالت کا حق استعمال کرتے ہوئے پھوپھی کو طلاق دے ڈالی اور پھوپھی کے سابقہ شوہر سے شادی کرلی.
قاضی حیرت سے پھر ؟
وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی.
کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد(میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟
اس نے ہاں کرلی
میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی(میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں،اس نے ایسا ہی کیا.
میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی.
قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ
اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟
میری پھوپھی کہنے لگی :
قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلیا۔
قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے:
مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا،طلاق بھی جائز ہے،وکالت بھی جائز ہے،طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے.
اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی.
كتاب :جمع الجواهر في - الحُصري.
بشکریہ جناب امین نورانی صاحب
🌹🌹🌹 *صلاۃ الأسرار* 🌹🌹🌹
نیز اس کے لیے ایک مجرب نماز صلاۃ الاسرار ہے جو امام ابوا لحسن نور الدین علی بن جریر لخمی شطنوفی بہجۃ الاسرار میں اور مُلّا علی قاری و شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم حضور سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، اس کی ترکیب یہ ہے کہ بعد نماز مغرب سنتیں پڑھ کردو رکعت نماز نفل پڑھے اور بہتر یہ ہے کہ الحمد کے بعد ہر رکعت میں گیارہ گیارہ بار قل ھو اﷲ پڑھے سلام کے بعد اﷲ عزوجل کی حمد و ثنا کرے پھر نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر گیارہ بار دُرُود و سلام عرض کرے اور گیارہ بار یہ کہے:
یَا رَسُوْلَ اللہ یَا نَبِیَّ اللہ اَغِثْنِیْ وَامْدُدْنِیْ فِیْ قَضَاءِ حَاجَتِیْ یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ ۔ (ترجمہ: اے اللہ (عزوجل) کے رسول! اے اللہ (عزوجل) کے نبی! میری فریاد کو پہنچیے اور میری مدد کیجیے، میری حاجت پوری ہونے میں ،اے تمام حاجتوں کے پورا کرنے والے۔)
پھر عراق کی جانب گیارہ قدم چلے، ہر قدم پر یہ کہے:
یَا غَوْثَ الثَّـقَـلَیْنِ وَ یَا کَرِیْمَ الطَّرَفَیْنِ اَغِثْنِیْ وَامْدُدْنِیْ فِیْ قَضَاءِ حَاجَتِیْ یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ ۔ (ترجمہ: اے جن و انس کے فریاد رس اور اے دونوں طرف (ماں باپ)سے بزرگ! میری فریاد کو پہنچیے اور میری مدد کیجیے، میری حاجت پوری ہونے میں ، اے حاجتوں کے پورا کرنے والے۔ )
پھر حضور کے توسل سے اﷲ عزوجل سے دُعا کرے۔ (’’بھجۃ الأسرار‘‘، ذکر فضل أصحابہ و بشراہم، ص۱۹۷۔ بتصرف۔)
نیز اس کے لیے ایک مجرب نماز صلاۃ الاسرار ہے جو امام ابوا لحسن نور الدین علی بن جریر لخمی شطنوفی بہجۃ الاسرار میں اور مُلّا علی قاری و شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم حضور سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، اس کی ترکیب یہ ہے کہ بعد نماز مغرب سنتیں پڑھ کردو رکعت نماز نفل پڑھے اور بہتر یہ ہے کہ الحمد کے بعد ہر رکعت میں گیارہ گیارہ بار قل ھو اﷲ پڑھے سلام کے بعد اﷲ عزوجل کی حمد و ثنا کرے پھر نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر گیارہ بار دُرُود و سلام عرض کرے اور گیارہ بار یہ کہے:
یَا رَسُوْلَ اللہ یَا نَبِیَّ اللہ اَغِثْنِیْ وَامْدُدْنِیْ فِیْ قَضَاءِ حَاجَتِیْ یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ ۔ (ترجمہ: اے اللہ (عزوجل) کے رسول! اے اللہ (عزوجل) کے نبی! میری فریاد کو پہنچیے اور میری مدد کیجیے، میری حاجت پوری ہونے میں ،اے تمام حاجتوں کے پورا کرنے والے۔)
پھر عراق کی جانب گیارہ قدم چلے، ہر قدم پر یہ کہے:
یَا غَوْثَ الثَّـقَـلَیْنِ وَ یَا کَرِیْمَ الطَّرَفَیْنِ اَغِثْنِیْ وَامْدُدْنِیْ فِیْ قَضَاءِ حَاجَتِیْ یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ ۔ (ترجمہ: اے جن و انس کے فریاد رس اور اے دونوں طرف (ماں باپ)سے بزرگ! میری فریاد کو پہنچیے اور میری مدد کیجیے، میری حاجت پوری ہونے میں ، اے حاجتوں کے پورا کرنے والے۔ )
پھر حضور کے توسل سے اﷲ عزوجل سے دُعا کرے۔ (’’بھجۃ الأسرار‘‘، ذکر فضل أصحابہ و بشراہم، ص۱۹۷۔ بتصرف۔)
جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں ۔۔۔!
🥺😏
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں،یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے.
قاضی نے پوچھا
تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟
ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو.
وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی.
قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟
وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی،میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کرلی ساتھ یہ شرط رکھ لی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے،میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی سہاگ رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں.
جج صاحب میری طلاق ہوگئی.
کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کرلی،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے وکالت کا حق استعمال کرتے ہوئے پھوپھی کو طلاق دے ڈالی اور پھوپھی کے سابقہ شوہر سے شادی کرلی.
قاضی حیرت سے پھر ؟
وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی.
کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد(میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟
اس نے ہاں کرلی
میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی(میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں،اس نے ایسا ہی کیا.
میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی.
قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ
اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟
میری پھوپھی کہنے لگی :
قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلیا۔
قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے:
مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا،طلاق بھی جائز ہے،وکالت بھی جائز ہے،طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے.
اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی.
كتاب :جمع الجواهر في - الحُصري.
بشکریہ جناب امین نورانی صاحب
@HamariUrduPiyariUrdu
🥺😏
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں،یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے.
قاضی نے پوچھا
تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟
ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو.
وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی.
قاضی نے پوچھا اس کے بعد ؟
وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی،میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہر کو اپنی بیٹی سے دوسری شادی کی آفر کرلی ساتھ یہ شرط رکھ لی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے،میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی سہاگ رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارا شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں.
جج صاحب میری طلاق ہوگئی.
کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہر سفر سے تھکے ہارے پہنچ گیا وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فوری ہاں کرلی،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے وکالت کا حق استعمال کرتے ہوئے پھوپھی کو طلاق دے ڈالی اور پھوپھی کے سابقہ شوہر سے شادی کرلی.
قاضی حیرت سے پھر ؟
وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی.
کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی اپنی بیٹی اور داماد(میرا سابقہ شوہر) کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی پہلی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟
اس نے ہاں کرلی
میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی پہلی بیوی(میری پھوپھی کی بیٹی) کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں،اس نے ایسا ہی کیا.
میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی.
قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ
اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟
میری پھوپھی کہنے لگی :
قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلیا۔
قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے:
مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا،طلاق بھی جائز ہے،وکالت بھی جائز ہے،طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے.
اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی.
كتاب :جمع الجواهر في - الحُصري.
بشکریہ جناب امین نورانی صاحب
@HamariUrduPiyariUrdu
. پیغام زنگی
*کسی کو زخم مت دینا*
*خراشیں زندہ رہتی ہیں*
*زباں سے وار مت کرنا*
*صدائیں زندہ رہتی ہیں*
*بس اک کردار ہے*
*جو حشر میں جلوے دکھائے گا*
*مثالی بن کے رہنا ہے*
*مثالیں زندہ رہتی ہیں*
*کسی کو زخم مت دینا*
*خراشیں زندہ رہتی ہیں*
*زباں سے وار مت کرنا*
*صدائیں زندہ رہتی ہیں*
*بس اک کردار ہے*
*جو حشر میں جلوے دکھائے گا*
*مثالی بن کے رہنا ہے*
*مثالیں زندہ رہتی ہیں*
. *پیغام زندگی*
*کسی کو زخم مت دینا*
*خراشیں زندہ رہتی ہیں*
*زباں سے وار مت کرنا*
*صدائیں زندہ رہتی ہیں*
*بس اک کردار ہے*
*جو حشر میں جلوے دکھائے گا*
*مثالی بن کے رہنا ہے*
*مثالیں زندہ رہتی ہیں*
*کسی کو زخم مت دینا*
*خراشیں زندہ رہتی ہیں*
*زباں سے وار مت کرنا*
*صدائیں زندہ رہتی ہیں*
*بس اک کردار ہے*
*جو حشر میں جلوے دکھائے گا*
*مثالی بن کے رہنا ہے*
*مثالیں زندہ رہتی ہیں*
. 📓 *سبق کیسے یاد کیا جائے* ؟؟ 📓
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
👈 ہر چیز اپنے اصولوں کے مطابق چلتی ہے۔ سوائے اللہ عزوجل کی رحمت کے یہ بغیر اصولوں کے چلتی ہے۔
👈 ٹھیک اسی طرح سبق یاد کرنے کے بھی چند اصول ہیں۔ اگر سبق اس اصولوں کے مطابق یاد نہ کیا جائے تو سبق یاد نہیں ہوگا۔
👈 اسی وجہ سے بعضوں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ سبق تو یاد کرتے ہیں لیکن بعد میں سبق بھول جاتا ہے۔
👈 اگر سبق کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے تو ان *5* باتوں پہ عمل کریں ان شاء اللہ عزوجل سبق آپ کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ وہ *5* مندرجہ ذیل ہیں۔
1️⃣ سبق کو سب سے پہلے اچھی طرح سمجھ لیں :-
2️⃣ پھر اُس کو یاد کر لیں :-
3️⃣ پھر اُسی سبق کا خلاصہ اپنے لفظوں میں کسی کو سُنا دیں :-
4️⃣ پھر وہی خلاصہ زبانی کاپی پہ لکھ لیں :-
5️⃣ پھر آخر میں کچھ دنوں تک اُسی سبق کا کسی کے ساتھ تکرار کریں :-
👈 *ان شاء اللہ عزوجل* اللہ تعالی کی رحمت سے اُمید کرتا ہوں کہ اس طرح سبق یاد کرنے سے آپ کو سبق بھولے گا نہیں :-
👈 *اہم تنبیہ*!! اس طریقے کو اپناتے ہوئے سبق یاد کرنے میں اگرچہ وقت کافی صرف ہوگا۔ لیکن آپ کو فائدہ کافی ملے گا۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
👈 ہر چیز اپنے اصولوں کے مطابق چلتی ہے۔ سوائے اللہ عزوجل کی رحمت کے یہ بغیر اصولوں کے چلتی ہے۔
👈 ٹھیک اسی طرح سبق یاد کرنے کے بھی چند اصول ہیں۔ اگر سبق اس اصولوں کے مطابق یاد نہ کیا جائے تو سبق یاد نہیں ہوگا۔
👈 اسی وجہ سے بعضوں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ سبق تو یاد کرتے ہیں لیکن بعد میں سبق بھول جاتا ہے۔
👈 اگر سبق کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے تو ان *5* باتوں پہ عمل کریں ان شاء اللہ عزوجل سبق آپ کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ وہ *5* مندرجہ ذیل ہیں۔
1️⃣ سبق کو سب سے پہلے اچھی طرح سمجھ لیں :-
2️⃣ پھر اُس کو یاد کر لیں :-
3️⃣ پھر اُسی سبق کا خلاصہ اپنے لفظوں میں کسی کو سُنا دیں :-
4️⃣ پھر وہی خلاصہ زبانی کاپی پہ لکھ لیں :-
5️⃣ پھر آخر میں کچھ دنوں تک اُسی سبق کا کسی کے ساتھ تکرار کریں :-
👈 *ان شاء اللہ عزوجل* اللہ تعالی کی رحمت سے اُمید کرتا ہوں کہ اس طرح سبق یاد کرنے سے آپ کو سبق بھولے گا نہیں :-
👈 *اہم تنبیہ*!! اس طریقے کو اپناتے ہوئے سبق یاد کرنے میں اگرچہ وقت کافی صرف ہوگا۔ لیکن آپ کو فائدہ کافی ملے گا۔
الفاظ کے الٹ پھیر کا مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ لفظ کبھی ایک زبان سے دوسری زبان میں جاکر اصل معنی سے یکسر الٹ مطلب بیان کرتے ہیں اور کبھی معنی وہی رہتے ہیں مگر صوتی یا لفظی ترتیب بدل جاتی ہے۔
عربی میں گھنگھور گھٹا کو ’ غیم ‘کہتے ہیں۔یہ لفظ قرآن میں بھی آیا ہے۔یہ کالی گھٹائیں جب چھما چھم برستی ہوئی سرزمینِ فارس پہنچیں تو عربی کا ’ غیم ‘ یکسر الٹی ترتیب کے ساتھ فارسی میں ’ میغ ‘ ہوگیا۔۔۔۔پھر ابر اور کالی گھٹا کے معنوں میں فارسی ’ میغ ‘ اردو کو بھی سیراب کرگیا ۔اسی ’ میغ ‘کو بروکار لاتے ہوئے میر تقی میر کَہہ گئے ہیں: ’ تہِ میغ خورشید پنہاں ہوا ‘۔
یہی ’ میغ ‘ سنسکرت میں ’ میگھ ‘ ہے۔اول: بطور اسم ’مگھ‘ بارش کے دیوتا کا نام ہے ۔۔۔۔ ثانی: خود بادل اور برسات کو ’ میگھ ‘ کہتے ہیں۔ایک بھارتی شاعرہ اندرا ورما کا شعر ہے:
اس کے مضراب سے جب راگ بنیں گی دیپک
میگھ چپکے سے مرے دل پہ برس جائے گا
اب اس ’ میگھ ‘ اور پانی کی رعایت سے بنگلہ دیش کے مشہور دریا ’ میگھنا ‘ کے نام پر غور کریں۔بات اور آسان ہوجائے گی ۔
یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ لفظ ’ میغ ‘ عربی زبان سے سنسکرت میں آیا ہے یا معاملہ اس کے بالکل اُلٹ ہوا ہے۔
@HamariUrduPiyariUrdu
عربی میں گھنگھور گھٹا کو ’ غیم ‘کہتے ہیں۔یہ لفظ قرآن میں بھی آیا ہے۔یہ کالی گھٹائیں جب چھما چھم برستی ہوئی سرزمینِ فارس پہنچیں تو عربی کا ’ غیم ‘ یکسر الٹی ترتیب کے ساتھ فارسی میں ’ میغ ‘ ہوگیا۔۔۔۔پھر ابر اور کالی گھٹا کے معنوں میں فارسی ’ میغ ‘ اردو کو بھی سیراب کرگیا ۔اسی ’ میغ ‘کو بروکار لاتے ہوئے میر تقی میر کَہہ گئے ہیں: ’ تہِ میغ خورشید پنہاں ہوا ‘۔
یہی ’ میغ ‘ سنسکرت میں ’ میگھ ‘ ہے۔اول: بطور اسم ’مگھ‘ بارش کے دیوتا کا نام ہے ۔۔۔۔ ثانی: خود بادل اور برسات کو ’ میگھ ‘ کہتے ہیں۔ایک بھارتی شاعرہ اندرا ورما کا شعر ہے:
اس کے مضراب سے جب راگ بنیں گی دیپک
میگھ چپکے سے مرے دل پہ برس جائے گا
اب اس ’ میگھ ‘ اور پانی کی رعایت سے بنگلہ دیش کے مشہور دریا ’ میگھنا ‘ کے نام پر غور کریں۔بات اور آسان ہوجائے گی ۔
یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ لفظ ’ میغ ‘ عربی زبان سے سنسکرت میں آیا ہے یا معاملہ اس کے بالکل اُلٹ ہوا ہے۔
@HamariUrduPiyariUrdu
*حضرت خضر علیہ السلام اور آب ِ حیات کی حقیقت تذکرہ*
*حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔*
*''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ یہ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔*
*یہ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)بحوالہ کتاب عجائب قرآن وغرائب القرآن*
*تو آپ بھی ہوسکے تو اس کنیت کو یاد رکھئے گا۔ ابوالعباس بلیا بن ملکان۔*
*یہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔* *(صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)*
*تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔*
*کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔*
*اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سوبرس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے۔*
*تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور اور حضر ت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے۔*
*تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔ واللہ تعالی اعلم*
*امام بدر الدین عینی صاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ جمہور کا مذ ہب یہ ہے اور صحیح بھی یہ ہے کہ وہ نبی تھے ۔اور زندہ ہیں ۔ (عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی ۔کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)*
*خدمت بحر(یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) ا ِنہیں سے متعلق(یعنی انہیں کے سپرد ) ہے اور*
*الیاس علیہ السلام '' بَرّ ''(خشکی) میں ہیں۔(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاء المعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)*
*اسی طرح تفسیر خازن میں ہے کہ ۔اکثر عُلَماء اس پر ہیں اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔*
*اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صحابی بھی ہیں۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)*
*اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے۔اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی ۔ کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اورباطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتاہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے ۔یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔ (تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)*
*اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔واللہ تعالی اعلم*
*آب حیات کی حقیقت:۔*
*آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ۔ کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں۔*
*ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے۔*
*جیسے کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ ء حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے
*حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔*
*''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ یہ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔*
*یہ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)بحوالہ کتاب عجائب قرآن وغرائب القرآن*
*تو آپ بھی ہوسکے تو اس کنیت کو یاد رکھئے گا۔ ابوالعباس بلیا بن ملکان۔*
*یہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔* *(صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)*
*تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔*
*کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔*
*اس میں کچھ علماء نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن جمہور علماء (یعنی کثیر علماء) کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپ کا دور حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سوبرس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہے۔*
*تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور اور حضر ت موسی علیہ السلام کے درمیان 400 سال کا فرق ہے۔*
*تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔ واللہ تعالی اعلم*
*امام بدر الدین عینی صاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ جمہور کا مذ ہب یہ ہے اور صحیح بھی یہ ہے کہ وہ نبی تھے ۔اور زندہ ہیں ۔ (عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی ۔کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)*
*خدمت بحر(یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) ا ِنہیں سے متعلق(یعنی انہیں کے سپرد ) ہے اور*
*الیاس علیہ السلام '' بَرّ ''(خشکی) میں ہیں۔(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاء المعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)*
*اسی طرح تفسیر خازن میں ہے کہ ۔اکثر عُلَماء اس پر ہیں اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔*
*اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صحابی بھی ہیں۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)*
*اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے۔اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی ۔ کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اورباطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتاہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے ۔یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔ (تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)*
*اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔واللہ تعالی اعلم*
*آب حیات کی حقیقت:۔*
*آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ۔ کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں۔*
*ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے۔*
*جیسے کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ ء حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے