بہ کرے اور موت کے بعد(قبر والی برزخی زندگی اور آخرت کی زندگی)کے لئے نیک عمل کرے (ترمذی حدیث2459)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,telegram nmbr
03468392475
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,telegram nmbr
03468392475
ر پیش کیا جاتا ہے اور جس دن قیامت آئے گی (یہ حکم دیا جائے گا کہ) آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں ڈال دو
(سورہ غافر آیت46)
علمائے کرام مفسرین عظام فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں واضح ہے کہ انہیں صبح شام یعنی ہروقت عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت کے دن بھی عذاب دیا جائے گا تو صبح شام عذاب دیے جانے کی توجیہ یہ ہے کہ مستحقین عذاب کو قبر میں عذاب دیا جائے گا
.
ویسے تو عذاب قبر کے متعلق احادیث متواترہ ہیں کئی ہیں کثرت سے ہیں ہم یہاں دو احادیث مبارکہ پر اکتفا کرتے ہیں
حدیث نمبر ایک①
فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ صَلَّى صَلاَةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ: «عَذَابُ القَبْرِ حَقٌّ»
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے(آپ علیہ الصلاۃ والسلام تو جنتی ہیں عذاب قبر سے پناہ مانگنا امت کی رہنمائی کے لئے تھا کہ امت عذاب قبر سے پناہ مانگے اور برے اعمال سے بچے )اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عذاب قبر حق ہے
(بخاري حدیث1372)
۔
حدیث نمبر②
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا القَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ»:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے
[ترمذی حدیث2460)
۔
.
قاضی عیاض مالکی نے لکھا جن احادیث سے عذاب قبر اور قبر میں سوالات اور جوابات ثابت ہیں اور ان سے سماع موتی ثابت ہوتا ہے اور ان کی کوئی تاویل نہیں ہوسکتی، اسی طرح اس حدیث سے بھی سماع موتی ثابت ہے دونوں کا ایک محمل ہے، یہ قاضی عیاض کا کلام ہے اور یہی مختار ہے اور جن احادیث میں اصحاب قبور کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا بھی یہی تقاضا ہے۔ (شرح النووی ج 11، ص 7091 بحذف یسیر بحوالہ تبیان القرآن)
.
سوال:
کیا مردے پہچانتے ہیں،سلام کا جواب دیتے ہیں......؟؟
جواب:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: " إِذَا مَرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرٍ يَعْرِفُهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ وَعَرَفَهُ وَإِذَا مَرَّ بِقَبْرٍ لَا يَعْرِفُهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ "
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص کسی جاننے والے کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے اور اسے سلام کرتا ہے تو قبر والا بھی اسے پہچانتا ہے اور سلام کا جواب دیتا ہے۔۔۔اور اگر انجان قبر والے کو سلام کرتا ہے تو قبر والا بھی سلام کا جواب دیتا ہے
[شعب الإيمان ,11/473روایت8857]
۔
سوال:
اگر مردے بولتے ہیں سنتے ہیں محسوس کرتے ہیں،پہچانتے ہیں، جواب دیتے ہیں تو وہ ہم سے بات کیوں نہیں کرتے....ہمیں انکی باتیں جواب وغیرہ سنائی کیوں نہیں دیتا..ہمیں اس کا شعور کیوں نہیں ہے۔۔۔۔؟؟
جواب
القرآن:
اۨلَّذِىۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَيٰوةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ
ترجمہ:
جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرنے والا ہے(سورہ ملک آیت2)
زندگی موت دنیا یہ سب کا مقصد یہ ہے کہ کون ایمان لاتا ہے کون کفر کرتا ہے۔۔۔۔اگر عذاب قبر صاف ظاہر ہو جائے ہمیں اس کا شعور ہو جائے مردے ہم سے بات کرنے لگے قیامت کے متعلق خبریں دینے لگے تو زندگی امتحان و آزمائش نہ رہے گی جب کہ اللہ نے ہمیں اور زندگی موت کو آزمائش اور امتحان کے لیے پیدا کیا ہے....اصل قاعدہ تو یہی ہے مگر یہ مستثنی ہے کہ اللہ کی طرف سے ہدایت کے لیے بعض مردوں کی آوازیں زندوں نے سنییں....بعض اللہ کے پیاروں کو اللہ مردوں کی آواز سناتا ہے...بعض اللہ کے پیارے تو قبر کے احوال کو بھی اللہ کے اذن سے ملاحظہ کرتے ہیں
.
سوال:
کئ آیتوں میں ہے کہ اپ مردوں قبر والوں کو سنا نہیں سکتے
جواب:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : آپ مردوں کو نہیں سناتے (النمل :80) اور فرمایا ہے آپ ان کو سنانے والے نہیں ہیں جو قبروں میں ہیں (فاطر :22) ۔ حضرت عمر (رض) کی یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے(بلکہ متواتر ہے بلکہ عذاب قبر آیات سے ثابت اور عذاب قبر تب ممکن جب سماع و حس برزخی حیات ثابت کی جائےلیھذا آیات و احادیثِ متواترہ )کو مسترد کرنا صحیح نہیں ہے خصوصاً اس صورت میں جبکہ اس حدیث اور قرآن مجید کی آیتوں میں کوئی تعارض بھی نہیں کیونکہ مردوں سے مراد قرآن مجید میں کفار ہیں، اور نفی کا حاصل یہ ہے کہ آپ ان کفار کو میرا پیغام سنا کر کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے، اور اس آیت میں مطلقاً سنانے کی نفی نہیں کی گئی ہے۔ اس کی نظری یہ آیت ہے : " صم بکم عمی فہم لا یعقلون : وہ بہرے گونگے اندھے ہیں پس وہ عقل سے کام نہیں لیں گے " (البقرہ :171)
ان کو بہرا، گونگا اور اندھا اس لیے فرمایا کہ وہ کان، زبان اور آنکھوں سے نفع نہیں اٹھاتے تھے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ ان کافروں کو ایسا پی
(سورہ غافر آیت46)
علمائے کرام مفسرین عظام فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں واضح ہے کہ انہیں صبح شام یعنی ہروقت عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت کے دن بھی عذاب دیا جائے گا تو صبح شام عذاب دیے جانے کی توجیہ یہ ہے کہ مستحقین عذاب کو قبر میں عذاب دیا جائے گا
.
ویسے تو عذاب قبر کے متعلق احادیث متواترہ ہیں کئی ہیں کثرت سے ہیں ہم یہاں دو احادیث مبارکہ پر اکتفا کرتے ہیں
حدیث نمبر ایک①
فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ صَلَّى صَلاَةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ: «عَذَابُ القَبْرِ حَقٌّ»
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے(آپ علیہ الصلاۃ والسلام تو جنتی ہیں عذاب قبر سے پناہ مانگنا امت کی رہنمائی کے لئے تھا کہ امت عذاب قبر سے پناہ مانگے اور برے اعمال سے بچے )اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عذاب قبر حق ہے
(بخاري حدیث1372)
۔
حدیث نمبر②
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا القَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ»:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے
[ترمذی حدیث2460)
۔
.
قاضی عیاض مالکی نے لکھا جن احادیث سے عذاب قبر اور قبر میں سوالات اور جوابات ثابت ہیں اور ان سے سماع موتی ثابت ہوتا ہے اور ان کی کوئی تاویل نہیں ہوسکتی، اسی طرح اس حدیث سے بھی سماع موتی ثابت ہے دونوں کا ایک محمل ہے، یہ قاضی عیاض کا کلام ہے اور یہی مختار ہے اور جن احادیث میں اصحاب قبور کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا بھی یہی تقاضا ہے۔ (شرح النووی ج 11، ص 7091 بحذف یسیر بحوالہ تبیان القرآن)
.
سوال:
کیا مردے پہچانتے ہیں،سلام کا جواب دیتے ہیں......؟؟
جواب:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: " إِذَا مَرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرٍ يَعْرِفُهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ وَعَرَفَهُ وَإِذَا مَرَّ بِقَبْرٍ لَا يَعْرِفُهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ "
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص کسی جاننے والے کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے اور اسے سلام کرتا ہے تو قبر والا بھی اسے پہچانتا ہے اور سلام کا جواب دیتا ہے۔۔۔اور اگر انجان قبر والے کو سلام کرتا ہے تو قبر والا بھی سلام کا جواب دیتا ہے
[شعب الإيمان ,11/473روایت8857]
۔
سوال:
اگر مردے بولتے ہیں سنتے ہیں محسوس کرتے ہیں،پہچانتے ہیں، جواب دیتے ہیں تو وہ ہم سے بات کیوں نہیں کرتے....ہمیں انکی باتیں جواب وغیرہ سنائی کیوں نہیں دیتا..ہمیں اس کا شعور کیوں نہیں ہے۔۔۔۔؟؟
جواب
القرآن:
اۨلَّذِىۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَيٰوةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ
ترجمہ:
جس نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرنے والا ہے(سورہ ملک آیت2)
زندگی موت دنیا یہ سب کا مقصد یہ ہے کہ کون ایمان لاتا ہے کون کفر کرتا ہے۔۔۔۔اگر عذاب قبر صاف ظاہر ہو جائے ہمیں اس کا شعور ہو جائے مردے ہم سے بات کرنے لگے قیامت کے متعلق خبریں دینے لگے تو زندگی امتحان و آزمائش نہ رہے گی جب کہ اللہ نے ہمیں اور زندگی موت کو آزمائش اور امتحان کے لیے پیدا کیا ہے....اصل قاعدہ تو یہی ہے مگر یہ مستثنی ہے کہ اللہ کی طرف سے ہدایت کے لیے بعض مردوں کی آوازیں زندوں نے سنییں....بعض اللہ کے پیاروں کو اللہ مردوں کی آواز سناتا ہے...بعض اللہ کے پیارے تو قبر کے احوال کو بھی اللہ کے اذن سے ملاحظہ کرتے ہیں
.
سوال:
کئ آیتوں میں ہے کہ اپ مردوں قبر والوں کو سنا نہیں سکتے
جواب:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : آپ مردوں کو نہیں سناتے (النمل :80) اور فرمایا ہے آپ ان کو سنانے والے نہیں ہیں جو قبروں میں ہیں (فاطر :22) ۔ حضرت عمر (رض) کی یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے(بلکہ متواتر ہے بلکہ عذاب قبر آیات سے ثابت اور عذاب قبر تب ممکن جب سماع و حس برزخی حیات ثابت کی جائےلیھذا آیات و احادیثِ متواترہ )کو مسترد کرنا صحیح نہیں ہے خصوصاً اس صورت میں جبکہ اس حدیث اور قرآن مجید کی آیتوں میں کوئی تعارض بھی نہیں کیونکہ مردوں سے مراد قرآن مجید میں کفار ہیں، اور نفی کا حاصل یہ ہے کہ آپ ان کفار کو میرا پیغام سنا کر کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے، اور اس آیت میں مطلقاً سنانے کی نفی نہیں کی گئی ہے۔ اس کی نظری یہ آیت ہے : " صم بکم عمی فہم لا یعقلون : وہ بہرے گونگے اندھے ہیں پس وہ عقل سے کام نہیں لیں گے " (البقرہ :171)
ان کو بہرا، گونگا اور اندھا اس لیے فرمایا کہ وہ کان، زبان اور آنکھوں سے نفع نہیں اٹھاتے تھے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ ان کافروں کو ایسا پی
غام نہیں سنا سکتے جس سے وہ آپ کے پیغام کو تسلیم اور قبول کرلیں،
(مرقاۃ شرح مشکاۃ جلد8 ص11بحوالہ تبیآن القرآن)
.
سوال:
کی مردے جلائے جاتے ہیں کئی مردے جانور کھا جاتے ہیں تو ان کو تو قبر میں دفنایا نہیں جاتا تو ان کو قبر میں کیسے عذاب ہوگا یا کیسے نعمتیں ملیں گی۔۔۔۔۔۔؟
جواب:
وإنما أضيف عذاب البرزخ ونعيمه إلى القبر لكون معظمه يقع فيه، ولكون الغالب على الموتى أن يقبروا، وإلا فالكافر ومن شاء الله عذابه من العصاة يعذب بعد موته ولو لم يدفن، ولكن ذلك محجوب عن الخلق إلا من شاءالله
برزخ کا عذاب اور نعمتوں کو قبر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس لیے کہ اکثر لوگوں کو دفنایا جاتا ہے ورنہ جنہیں دفنایا نا جائے تو ان کو بھی عذاب ہوتا ہے یا نعمتیں ملتی ہیں لیکن یہ سب کچھ اللہ کی قدرت سے مخلوق سے پوشیدہ ہوتا ہے(ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔۔۔شعور کیوں نہیں ہوتا اس کا جواب اوپر بیان ہو چکا ہے)
[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,1/217]
۔
سوال:
کیا مردوں کو ایصال ثواب پہنچتا ہے۔۔۔۔۔؟؟
جواب:
کفار و مشرکین کے بارے میں اللہ نے فرما دیا ہے واضح فرما دیا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے انہیں کچھ بھی چیز فائدہ نہ پہنچ جائے گی لہذا انہیں ایصال ثواب نہیں پہنچ سکتا بلکہ انہیں ایصال ثواب کرنا علماء کرام نے کفر تک لکھا ہے
البتہ
نیک جنتی مسلمان کو ایصال ثواب کی وجہ سے درجات میں بلندی ہوتی ہے اور گناہ گار مسلمان کو ایصال ثواب کی برکت سے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور کیا پتا ایصال ثواب کی برکت سے عذاب مکمل ہی ختم ہو جائے
ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ وفات پا گئیں صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سوال کیا
فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»
اگر میں اپنی وفات شدہ والدہ کی طرف سے صدقہ( ایصال ثواب )کروں تو کیا اس کو اجر.و.ثواب ملے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں
(بخاري حدیث1388)
.
سوال:
کیا وفات شدگان سے مانگنا جائز ہے....؟ کیا وفات شدگان خاص کر اولیاء کرام و مرشد بعد از وفات نفع پہنچا سکتے ہیں.....؟؟
جواب:
امام بخاری کے استاد لکھتے ہیں
أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ: " ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں قحط ہوا تو ایک شخص(زرقانی وغیرہ میں لکھا ہے کہ وہ شخص حضرت بلال بن حارث المزنی تھے)رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش طلب کیجئے قحط سالی کی وجہ سے امت ہلاک ہوا جاتی ہے۔ ۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ اور اسے میرا سلام کہو اور اسے خبر دو کے تم عنقریب بارش دیے جاؤ گے
[مصنف ابن أبي شيبة ,6/356 روایت32002]
۔
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر کچھ عرض کرنا اسی طرح اولیاءکرام وغیرہ کی قبروں پہ حاضر ہو کر کچھ عرض کرنا برحق ہے اس سے نفع حاصل ہوتا ہے حاجت روائی ہوتی ہے۔۔۔۔نبی پاک یا کسی ولی یا مرشد کی قبر پر حاضری ہو تو ڈائریکٹ رسول کریم یا ولی یا مرشد سے نہ مانگا جائے کہ آپ بارش دے دیں ، اولاد دے دیں، شفاء دے دیں
بلکہ
انہیں وسیلہ بنا کر اللہ سے مانگا جائے یا رسول کریم اولیاء مرشد سے بعد از وفات عرض کی جائے کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ میرا فلاں کام ہو جائے کیونکہ وفات شدگان سنتے ہیں جیسا کہ اوپر دلائل کے ساتھ ثابت کیا جا چکا
.
الحاصل:
①مردے سنتے ہی بولتے ہیں پہچانتے ہیں محسوس کرتے ہیں انہیں عذاب قبر ہوتا ہے یا پھر انہیں جنت کی نعمتیں ملتی ہیں لیکن ان سب کا ہمیں شعور نہیں ہوتا
②وقتا فوقتا قبروں پہ جانا چاہیے،روزے نوافل تلاوت قرآن ذکر درود وغیرہ پڑھ کر یا پڑھوا کر یا خیرات کر کے یا مختلف نیکیاں عبادات کرکے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔۔۔قبر والے قبر پر آنے والے کو پہچانتے ہیں خوش ہوتے ہیں ایصال ثواب سے مسلمان مردے کو فائدہ ہوتا ہے
③رسول کریم اولیاء کرام بعد از وصال نفع پہنچا سکتے ہیں انہیں وسیلہ بنا کر دعا مانگی جائے یا ان سے التجا کی جائے کہ آپ اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ میرا فلاں کام ہو جائے یا اولاد مل جائے
④عذاب قبر حق ہے شفاعت بھی حق ہے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی عذاب قبر سے پناہ طلب کرے تو اس میں ہمارے لئے ہدایت ہے کہ ہم بھی عذاب قبر سے پناہ مانگیں...برے اعمال سے بچیں
.
الحدیث:
النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سمجھدار تو وہ ہے جو اپنے آپ کا محاس
(مرقاۃ شرح مشکاۃ جلد8 ص11بحوالہ تبیآن القرآن)
.
سوال:
کی مردے جلائے جاتے ہیں کئی مردے جانور کھا جاتے ہیں تو ان کو تو قبر میں دفنایا نہیں جاتا تو ان کو قبر میں کیسے عذاب ہوگا یا کیسے نعمتیں ملیں گی۔۔۔۔۔۔؟
جواب:
وإنما أضيف عذاب البرزخ ونعيمه إلى القبر لكون معظمه يقع فيه، ولكون الغالب على الموتى أن يقبروا، وإلا فالكافر ومن شاء الله عذابه من العصاة يعذب بعد موته ولو لم يدفن، ولكن ذلك محجوب عن الخلق إلا من شاءالله
برزخ کا عذاب اور نعمتوں کو قبر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس لیے کہ اکثر لوگوں کو دفنایا جاتا ہے ورنہ جنہیں دفنایا نا جائے تو ان کو بھی عذاب ہوتا ہے یا نعمتیں ملتی ہیں لیکن یہ سب کچھ اللہ کی قدرت سے مخلوق سے پوشیدہ ہوتا ہے(ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔۔۔شعور کیوں نہیں ہوتا اس کا جواب اوپر بیان ہو چکا ہے)
[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,1/217]
۔
سوال:
کیا مردوں کو ایصال ثواب پہنچتا ہے۔۔۔۔۔؟؟
جواب:
کفار و مشرکین کے بارے میں اللہ نے فرما دیا ہے واضح فرما دیا ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے انہیں کچھ بھی چیز فائدہ نہ پہنچ جائے گی لہذا انہیں ایصال ثواب نہیں پہنچ سکتا بلکہ انہیں ایصال ثواب کرنا علماء کرام نے کفر تک لکھا ہے
البتہ
نیک جنتی مسلمان کو ایصال ثواب کی وجہ سے درجات میں بلندی ہوتی ہے اور گناہ گار مسلمان کو ایصال ثواب کی برکت سے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور کیا پتا ایصال ثواب کی برکت سے عذاب مکمل ہی ختم ہو جائے
ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ وفات پا گئیں صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سوال کیا
فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»
اگر میں اپنی وفات شدہ والدہ کی طرف سے صدقہ( ایصال ثواب )کروں تو کیا اس کو اجر.و.ثواب ملے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں
(بخاري حدیث1388)
.
سوال:
کیا وفات شدگان سے مانگنا جائز ہے....؟ کیا وفات شدگان خاص کر اولیاء کرام و مرشد بعد از وفات نفع پہنچا سکتے ہیں.....؟؟
جواب:
امام بخاری کے استاد لکھتے ہیں
أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ: " ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں قحط ہوا تو ایک شخص(زرقانی وغیرہ میں لکھا ہے کہ وہ شخص حضرت بلال بن حارث المزنی تھے)رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش طلب کیجئے قحط سالی کی وجہ سے امت ہلاک ہوا جاتی ہے۔ ۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ اور اسے میرا سلام کہو اور اسے خبر دو کے تم عنقریب بارش دیے جاؤ گے
[مصنف ابن أبي شيبة ,6/356 روایت32002]
۔
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر کچھ عرض کرنا اسی طرح اولیاءکرام وغیرہ کی قبروں پہ حاضر ہو کر کچھ عرض کرنا برحق ہے اس سے نفع حاصل ہوتا ہے حاجت روائی ہوتی ہے۔۔۔۔نبی پاک یا کسی ولی یا مرشد کی قبر پر حاضری ہو تو ڈائریکٹ رسول کریم یا ولی یا مرشد سے نہ مانگا جائے کہ آپ بارش دے دیں ، اولاد دے دیں، شفاء دے دیں
بلکہ
انہیں وسیلہ بنا کر اللہ سے مانگا جائے یا رسول کریم اولیاء مرشد سے بعد از وفات عرض کی جائے کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ میرا فلاں کام ہو جائے کیونکہ وفات شدگان سنتے ہیں جیسا کہ اوپر دلائل کے ساتھ ثابت کیا جا چکا
.
الحاصل:
①مردے سنتے ہی بولتے ہیں پہچانتے ہیں محسوس کرتے ہیں انہیں عذاب قبر ہوتا ہے یا پھر انہیں جنت کی نعمتیں ملتی ہیں لیکن ان سب کا ہمیں شعور نہیں ہوتا
②وقتا فوقتا قبروں پہ جانا چاہیے،روزے نوافل تلاوت قرآن ذکر درود وغیرہ پڑھ کر یا پڑھوا کر یا خیرات کر کے یا مختلف نیکیاں عبادات کرکے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔۔۔قبر والے قبر پر آنے والے کو پہچانتے ہیں خوش ہوتے ہیں ایصال ثواب سے مسلمان مردے کو فائدہ ہوتا ہے
③رسول کریم اولیاء کرام بعد از وصال نفع پہنچا سکتے ہیں انہیں وسیلہ بنا کر دعا مانگی جائے یا ان سے التجا کی جائے کہ آپ اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ میرا فلاں کام ہو جائے یا اولاد مل جائے
④عذاب قبر حق ہے شفاعت بھی حق ہے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی عذاب قبر سے پناہ طلب کرے تو اس میں ہمارے لئے ہدایت ہے کہ ہم بھی عذاب قبر سے پناہ مانگیں...برے اعمال سے بچیں
.
الحدیث:
النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سمجھدار تو وہ ہے جو اپنے آپ کا محاس
"فیس بک یا فیس لاک"
سوشل میڈیا پر فیس بک کی کرم نوازیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں...
پچھلے دنوں ایک من گھڑت بات کو حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا تو بہت دکھ ہوا...اس سے بڑھ کر یہ کہ پڑھے لکھے مسلمان بھی اس کو حدیث سمجھ کر بے دھڑک شیئر کیے جارہے تھے...(معاذاللہ)...بظاہر ایسا لگتا ہے عمل سے زیادہ اب فارورڈ کرنے کو ثواب سمجھا جانے لگا ہے...آج کل سیلفی کے چکر میں بہت سے مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی جو سازشیں کی جا رہی ہیں اسے روکنے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ علمائے کرام کا سوشل میڈیا سے دور ہونا نظر آتا ہے...جب عوام سڑک پر ہو او رہنمائی کرنے والا کوئی نہ ہو تو وہاں من مانیاں ہی کی جاتی ہیں...کچھ لوگوں کو ٹاسک اور مشن دیا گیا ہے اور وہ کسی بھی بات کو انبیاء کرام علیھم السلام و صحابہ اکرام علیھم الرضوان کی طرف منسوب کرکے پھیلانا شروع کر دیتے ہیں...اور بھولی بھالی عوام کو فارورڈنگ اور علمائے کرام کے قیمتی وقت کو تصدیق و جانچ میں لگا دیا جاتا ہے...علمائے کرام تصدیق بھی فرما دیتے ہیں مگر سوال یہ کہ کیا کبھی کسی مسلمان نے یہ سب شیئر کرنے والے سے بھی سوال کیا کہ بھائی آخر یہ حدیث کس کتاب کے کون سے باب یا صفحہ پر موجود ہے...؟؟؟ کیا ہماری ذمہ داری صرف یہی رہ گئی...کیا کبھی کسی گرجے والے مندر والے پوجا پاٹ والے نے اپنے مند گرجے ٹمپل وغیرہ کی مذاح والی یا دیگر حرکات والی تصاویر شیئر کیں....؟؟؟ تو پھر مساجد کی کیوں...؟؟؟ کیا کبھی کسی مندر گرجا وغیرہ والے نے اپنی بہن ماں بیوی کی تصویر فیس بک پر لگا کر بھیک مانگی یا اپنی غریبی و مفلسی کا رونا رویا...؟؟؟ تو پھر مسلمانوں کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں ہی کیوں...؟؟؟ کیا کسی نے مندر صلیب پوجا گھات کی تصاویر لگا کر تصاویر لگا کر ان پر کلمات و تاثرات کا لکھنے کا بولا گیا...؟؟؟ پھر مسلمانوں کو مساجد سے نکال کر فیس بک پر کون لایا...؟؟؟ کیا کبھی حضرت عیسیٰ یا حضرت موسیٰ یا کسی اور نبی علیھم السلام کے بارے میں اس کثرت سے کلمات لکھ کر رائے مانگی گئی....؟؟؟ تو پھر محبت دلوں سے نکال کر فیس بک کی کاغذی تصاویروں پر کون لایا...؟؟؟ مساجد کو ویران کرنے کا ذمہ دار کون ہے...؟؟؟ قرآن مجید میں اللہ نے کتنی مرتبہ فرمایا: اے ایمان والوں سنو..!!! دنیا بھر کی خبریں، ناول اور اخبار تو شاید ہی کوئی چھوڑا ہو...کیا کبھی قرآن کھول کر سنا بھی کہ اللہ تعالی نے ہم سے کیا کلام فرمایا...
"یاد رکھیے اللہ تعالی اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا..."
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر...اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر...عقلمند کیلئے اشارہ کافی...اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے ھم سب کا خاتمہ با لخیر فرمائے...آمین
✍ محمد سرمد لطیف
سوشل میڈیا پر فیس بک کی کرم نوازیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں...
پچھلے دنوں ایک من گھڑت بات کو حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا تو بہت دکھ ہوا...اس سے بڑھ کر یہ کہ پڑھے لکھے مسلمان بھی اس کو حدیث سمجھ کر بے دھڑک شیئر کیے جارہے تھے...(معاذاللہ)...بظاہر ایسا لگتا ہے عمل سے زیادہ اب فارورڈ کرنے کو ثواب سمجھا جانے لگا ہے...آج کل سیلفی کے چکر میں بہت سے مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی جو سازشیں کی جا رہی ہیں اسے روکنے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ علمائے کرام کا سوشل میڈیا سے دور ہونا نظر آتا ہے...جب عوام سڑک پر ہو او رہنمائی کرنے والا کوئی نہ ہو تو وہاں من مانیاں ہی کی جاتی ہیں...کچھ لوگوں کو ٹاسک اور مشن دیا گیا ہے اور وہ کسی بھی بات کو انبیاء کرام علیھم السلام و صحابہ اکرام علیھم الرضوان کی طرف منسوب کرکے پھیلانا شروع کر دیتے ہیں...اور بھولی بھالی عوام کو فارورڈنگ اور علمائے کرام کے قیمتی وقت کو تصدیق و جانچ میں لگا دیا جاتا ہے...علمائے کرام تصدیق بھی فرما دیتے ہیں مگر سوال یہ کہ کیا کبھی کسی مسلمان نے یہ سب شیئر کرنے والے سے بھی سوال کیا کہ بھائی آخر یہ حدیث کس کتاب کے کون سے باب یا صفحہ پر موجود ہے...؟؟؟ کیا ہماری ذمہ داری صرف یہی رہ گئی...کیا کبھی کسی گرجے والے مندر والے پوجا پاٹ والے نے اپنے مند گرجے ٹمپل وغیرہ کی مذاح والی یا دیگر حرکات والی تصاویر شیئر کیں....؟؟؟ تو پھر مساجد کی کیوں...؟؟؟ کیا کبھی کسی مندر گرجا وغیرہ والے نے اپنی بہن ماں بیوی کی تصویر فیس بک پر لگا کر بھیک مانگی یا اپنی غریبی و مفلسی کا رونا رویا...؟؟؟ تو پھر مسلمانوں کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں ہی کیوں...؟؟؟ کیا کسی نے مندر صلیب پوجا گھات کی تصاویر لگا کر تصاویر لگا کر ان پر کلمات و تاثرات کا لکھنے کا بولا گیا...؟؟؟ پھر مسلمانوں کو مساجد سے نکال کر فیس بک پر کون لایا...؟؟؟ کیا کبھی حضرت عیسیٰ یا حضرت موسیٰ یا کسی اور نبی علیھم السلام کے بارے میں اس کثرت سے کلمات لکھ کر رائے مانگی گئی....؟؟؟ تو پھر محبت دلوں سے نکال کر فیس بک کی کاغذی تصاویروں پر کون لایا...؟؟؟ مساجد کو ویران کرنے کا ذمہ دار کون ہے...؟؟؟ قرآن مجید میں اللہ نے کتنی مرتبہ فرمایا: اے ایمان والوں سنو..!!! دنیا بھر کی خبریں، ناول اور اخبار تو شاید ہی کوئی چھوڑا ہو...کیا کبھی قرآن کھول کر سنا بھی کہ اللہ تعالی نے ہم سے کیا کلام فرمایا...
"یاد رکھیے اللہ تعالی اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا..."
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر...اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر...عقلمند کیلئے اشارہ کافی...اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے ھم سب کا خاتمہ با لخیر فرمائے...آمین
✍ محمد سرمد لطیف
Forwarded from ✺ Best Telegram Links ✺
✍️ 📑 ٹیلی گرام پر چلنے والے چند مفید چینلز کے لنکس پیش خدمت ہیں
آپ اپنے پسندیدہ گروپ و چینل کا انتخاب کرکے ہرے رنگ سے لکھی ہوئی عبارت پر کلک کریں اور جوائن ہوجائیں خود بھی استفادہ کریں اور شئیر کرکے صدقہ جاریہ کا ثواب بھی پائیں
سلسلہ فہرست: ①
🔵━═━═━🔵
① " اسلام "
یہ چینل علمائے اہلسنت کے سبق آموز اصلاحی بیانات کا مرکز ہے
🔵━═━═━🔵
② ✍ " حکایات و واقعات "
یہ چینل دلچسپ ویڈیو، آڈیو اور تحریری حکایات و واقعات پر مشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
③ ✍ " القرآن الکریم "
یہ چینل خوبصورت آوازوں میں تلاوت قرآن پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
④ ✍ " فرامینِ مصطفٰی ﷺ "
یہ چینل تحریری احادیثِ مبارکہ کے بیان پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
⑤ ✍ " محمد رضا ثاقب مصطفائی "
یہ چینل علامہ محمد رضا ثاقب مصطفائی صاحب کے آڈیو ویڈیو بیانات پر مشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑥ ✍ " ہماری اردو پیاری اردو "
یہ چینل مختلف دلچسپ علمی و تحقیقی تحریروں پر مشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑦ ✍ " انٹرنیشنل فقہی مرکز "
یہ چینل آڈیو ،ویڈیو بےشمار فقہی سوالات کےجوابات کا خزانہ ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑧ ✍ " مرکز اہلسنت لائبریری "
یہ چینل علمائے اہلِ سنت کی کتب کا عظیم مرکز ہے
🔵━═━═━🔵
⑨ ✍ " سوشل میڈیا دعوت اسلامی "
یہ چینل دعوت اسلامی کےجاری کردہ اسلامک سوشل میڈیا پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
⑩ ✍ " حق پر کون؟ "
یہ چینل حقائق سے پردہ اٹھانے اورحق کی جانب رہنمائی پرمشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑪ ✍ " حمد و نعت گروپ "
یہ گروپ خوبصورت اور بہترین انداز میں حمد و نعت پرمشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑫ ✍ " ہفتہ وار بیانات و رسائل "
یہ چینل دعوت اسلامی کے جاری کردہ ہفتہ وار رسائل بیانات و خطبات پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
⑬ ✍ " فتاوی اہلِ سنت "
یہ چینل دارالافتاء اہلسنت سے جاری کردہ تحریری فتاوی پرمشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
⑭ ✍ " اہلسنت مطالعہ مرکز "
یہ گروپ علمائے اہلسنت کی مستند و تحقیقی کتب کا ذخیرہ ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑮ ✍ " بہترین ٹیلی گرام گروپ/چینل لنکس "
یہ چینل نیو ٹیلی گرام گروپ اور چینل لنکس کی تشہیر کیلئے ہے
⚪️━═━═━⚪️
👈 آپ بھی ٹیلی گرام پر اپنے چینلز/گروپس کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں تو بذریعہ بوٹ ہم سے رابطہ کیجئے ⬇️
@RabtaAdmin_Bot
https://tttttt.me/BestGroupsChannels
🔵━═━═━🔵
آپ اپنے پسندیدہ گروپ و چینل کا انتخاب کرکے ہرے رنگ سے لکھی ہوئی عبارت پر کلک کریں اور جوائن ہوجائیں خود بھی استفادہ کریں اور شئیر کرکے صدقہ جاریہ کا ثواب بھی پائیں
سلسلہ فہرست: ①
🔵━═━═━🔵
① " اسلام "
یہ چینل علمائے اہلسنت کے سبق آموز اصلاحی بیانات کا مرکز ہے
🔵━═━═━🔵
② ✍ " حکایات و واقعات "
یہ چینل دلچسپ ویڈیو، آڈیو اور تحریری حکایات و واقعات پر مشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
③ ✍ " القرآن الکریم "
یہ چینل خوبصورت آوازوں میں تلاوت قرآن پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
④ ✍ " فرامینِ مصطفٰی ﷺ "
یہ چینل تحریری احادیثِ مبارکہ کے بیان پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
⑤ ✍ " محمد رضا ثاقب مصطفائی "
یہ چینل علامہ محمد رضا ثاقب مصطفائی صاحب کے آڈیو ویڈیو بیانات پر مشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑥ ✍ " ہماری اردو پیاری اردو "
یہ چینل مختلف دلچسپ علمی و تحقیقی تحریروں پر مشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑦ ✍ " انٹرنیشنل فقہی مرکز "
یہ چینل آڈیو ،ویڈیو بےشمار فقہی سوالات کےجوابات کا خزانہ ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑧ ✍ " مرکز اہلسنت لائبریری "
یہ چینل علمائے اہلِ سنت کی کتب کا عظیم مرکز ہے
🔵━═━═━🔵
⑨ ✍ " سوشل میڈیا دعوت اسلامی "
یہ چینل دعوت اسلامی کےجاری کردہ اسلامک سوشل میڈیا پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
⑩ ✍ " حق پر کون؟ "
یہ چینل حقائق سے پردہ اٹھانے اورحق کی جانب رہنمائی پرمشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑪ ✍ " حمد و نعت گروپ "
یہ گروپ خوبصورت اور بہترین انداز میں حمد و نعت پرمشتمل ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑫ ✍ " ہفتہ وار بیانات و رسائل "
یہ چینل دعوت اسلامی کے جاری کردہ ہفتہ وار رسائل بیانات و خطبات پر مشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
⑬ ✍ " فتاوی اہلِ سنت "
یہ چینل دارالافتاء اہلسنت سے جاری کردہ تحریری فتاوی پرمشتمل ہے
🔵━═━═━🔵
⑭ ✍ " اہلسنت مطالعہ مرکز "
یہ گروپ علمائے اہلسنت کی مستند و تحقیقی کتب کا ذخیرہ ہے
⚪️━═━═━⚪️
⑮ ✍ " بہترین ٹیلی گرام گروپ/چینل لنکس "
یہ چینل نیو ٹیلی گرام گروپ اور چینل لنکس کی تشہیر کیلئے ہے
⚪️━═━═━⚪️
👈 آپ بھی ٹیلی گرام پر اپنے چینلز/گروپس کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں تو بذریعہ بوٹ ہم سے رابطہ کیجئے ⬇️
@RabtaAdmin_Bot
https://tttttt.me/BestGroupsChannels
🔵━═━═━🔵
*نئے چاند کا چھوٹا بڑا ہونا*
*از مفتی منیب الرحمن صاحب*
نئی قمری تاریخ کے تعیّن کامدارشرعاً اورسائنسی طورپر ہلال کے چھوٹا بڑا ہونے یا غروب آفتاب کے بعد مطلع پر اس کے موجود ہونے کی مقدار وقت سے نہیں ہوتا، جیساکہ ہمارے ہاں بعض اوقات اہلِ علم بھی کہہ دیتے ہیں کہ چاند کافی بڑا ہے اور کافی دیر تک مطلع پرموجود رہا ، لگتا ہے کہ ایک دن پہلے کا ہے۔یہ سوچ اور طرزِ فکر غیر شرعی اور غیر سائنسی ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ہم عمرے کے لیے گئے، جب ہم وادیِ نخلہ میں پہنچے تو ہم نے چاند دیکھنا شروع کیا، بعض لوگوں نے کہا: ’’یہ تیسری تاریخ کا چاند لگتا ہے‘‘ اور بعض نے کہا :’’یہ دوسری تاریخ کا چاند لگتا ہے‘‘۔ راوی بیان کرتے ہیں: پھر ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہوئی، تو ہم نے(قیاس کی بنیاد پر اختلاف کی ) یہ صورتِ حال ان سے بیان کی ، تو انہوں نے فرمایا : ’’تم نے چاند کس رات کو دیکھاتھا‘‘؟،ہم نے کہا:’’فلاں رات کو‘‘، انہوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے دیکھنے کے لیے اسے بڑھا دیا، در حقیقت یہ اسی رات کا چاند ہے، جس رات کو تم نے اسے دیکھا ہے(صحیح مسلم، رقم الحدیث:1088)‘‘۔
یہ حدیث اس مسئلے میں شریعت کی اصل ہے کہ نئے چاند کا مدار رویت پر ہے ، اس امر پر نہیں ہے کہ اس کا سائز چھوٹا ہے یا بڑایا مطلع پر اس کے نظر آنے کا دورانیہ کم ہے یازیادہ۔اس لیے کسی عالم یا تعلیم یافتہ شخص کا نیا چاند دیکھ کریہ کہناکہ یہ دو یا تین تاریخ کا لگتاہے،یہ غیر شرعی اور غیر عالمانہ ہے۔ اسی طرح سائنسی حقیقت بھی یہی ہے، مثلاً کسی قمری مہینے کے 29تاریخ گزرنے کے بعد شام کو نئے چاند کا غروبِ آفتاب کے فوراً بعد مطلع پر ظہورتو ہے مگر اس کا درجہ چار یاپانچ ہے، اس کی عمر 18گھنٹے ہے اور مطلع پراس کا ظہور پندرہ بیس منٹ ہے۔ تو اس صورت میں چاند مطلع پر تو موجود ہے لیکن اس کی رویت کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے، لہٰذا یہ قمری مہینہ 30دن کا قرار پائے گا۔اب اگلی شام کواس چاند کی عمر 42گھنٹے ہوجائے گی،مطلع پر اس کا درجہ 12یا اس سے اوپر ہوجائے گا اورمطلع پر اس کا استقراربھی نسبتاً زیادہ وقت کے لئے ہوگا ، مثلاً پچاس منٹ اور اس کا حجم (Size)بھی بڑا ہوگا،لیکن یہ قطعیّت کے ساتھ چاند کی پہلی تاریخ ہوگی۔ لہٰذا میری اہلِ علم اور اہلِ وطن سے اپیل ہے کہ توہّمات کے حصار سے نکلیں اور حقیقت پسند بنیں۔
(کتاب ’’رویتِ ہلال ‘‘ ،مصنف مفتی منیب الرحمٰن ، صفحہ 29)
*از مفتی منیب الرحمن صاحب*
نئی قمری تاریخ کے تعیّن کامدارشرعاً اورسائنسی طورپر ہلال کے چھوٹا بڑا ہونے یا غروب آفتاب کے بعد مطلع پر اس کے موجود ہونے کی مقدار وقت سے نہیں ہوتا، جیساکہ ہمارے ہاں بعض اوقات اہلِ علم بھی کہہ دیتے ہیں کہ چاند کافی بڑا ہے اور کافی دیر تک مطلع پرموجود رہا ، لگتا ہے کہ ایک دن پہلے کا ہے۔یہ سوچ اور طرزِ فکر غیر شرعی اور غیر سائنسی ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ہم عمرے کے لیے گئے، جب ہم وادیِ نخلہ میں پہنچے تو ہم نے چاند دیکھنا شروع کیا، بعض لوگوں نے کہا: ’’یہ تیسری تاریخ کا چاند لگتا ہے‘‘ اور بعض نے کہا :’’یہ دوسری تاریخ کا چاند لگتا ہے‘‘۔ راوی بیان کرتے ہیں: پھر ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہوئی، تو ہم نے(قیاس کی بنیاد پر اختلاف کی ) یہ صورتِ حال ان سے بیان کی ، تو انہوں نے فرمایا : ’’تم نے چاند کس رات کو دیکھاتھا‘‘؟،ہم نے کہا:’’فلاں رات کو‘‘، انہوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے دیکھنے کے لیے اسے بڑھا دیا، در حقیقت یہ اسی رات کا چاند ہے، جس رات کو تم نے اسے دیکھا ہے(صحیح مسلم، رقم الحدیث:1088)‘‘۔
یہ حدیث اس مسئلے میں شریعت کی اصل ہے کہ نئے چاند کا مدار رویت پر ہے ، اس امر پر نہیں ہے کہ اس کا سائز چھوٹا ہے یا بڑایا مطلع پر اس کے نظر آنے کا دورانیہ کم ہے یازیادہ۔اس لیے کسی عالم یا تعلیم یافتہ شخص کا نیا چاند دیکھ کریہ کہناکہ یہ دو یا تین تاریخ کا لگتاہے،یہ غیر شرعی اور غیر عالمانہ ہے۔ اسی طرح سائنسی حقیقت بھی یہی ہے، مثلاً کسی قمری مہینے کے 29تاریخ گزرنے کے بعد شام کو نئے چاند کا غروبِ آفتاب کے فوراً بعد مطلع پر ظہورتو ہے مگر اس کا درجہ چار یاپانچ ہے، اس کی عمر 18گھنٹے ہے اور مطلع پراس کا ظہور پندرہ بیس منٹ ہے۔ تو اس صورت میں چاند مطلع پر تو موجود ہے لیکن اس کی رویت کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے، لہٰذا یہ قمری مہینہ 30دن کا قرار پائے گا۔اب اگلی شام کواس چاند کی عمر 42گھنٹے ہوجائے گی،مطلع پر اس کا درجہ 12یا اس سے اوپر ہوجائے گا اورمطلع پر اس کا استقراربھی نسبتاً زیادہ وقت کے لئے ہوگا ، مثلاً پچاس منٹ اور اس کا حجم (Size)بھی بڑا ہوگا،لیکن یہ قطعیّت کے ساتھ چاند کی پہلی تاریخ ہوگی۔ لہٰذا میری اہلِ علم اور اہلِ وطن سے اپیل ہے کہ توہّمات کے حصار سے نکلیں اور حقیقت پسند بنیں۔
(کتاب ’’رویتِ ہلال ‘‘ ،مصنف مفتی منیب الرحمٰن ، صفحہ 29)
نبی کی طرف بددعا کی نسبت
حضور اکرم ﷺ کی طرف بددعا کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے۔
اگر آپ نے کسی کے خلاف دعا کی ہے تو بھی اسے بددعا کہنا بے ادبی ہے۔
آپ کا کوئی فعل بد نہیں ہے۔
بخاری شریف کی ایک روایت کی شرح میں دیوبندیوں نے صراحت کے ساتھ بددعا کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کی ہے، یہ ہرگز درست نہیں.
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالى نے بخاری شریف کی شرح کرتے ہوئے کئی جگہ اس پر بحث کی ہے۔
پہلی جلد، صفحہ 705 پر اور اس سے پہلے بھی پھر جلد 13، صفحہ 806 اور چند مقامات پر لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کا کوئی عمل بد نہیں بلکہ ہر عمل حسن ہے لہذا حضور ﷺ نے جو دعاے ضرر فرمائی اسے بددعا کہنا ناجائز ہے۔
(انظر: نعم الباری)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر ایسی روایات ملتی ہیں جن میں آقاے کریم نے گستاخوں کے لیے بددعا فرمائی تو اسے بددعا نہیں کہیں گے بلکہ اس طرح کہیں گے کہ ان کے خلاف دعا کی ہے یا دعاے ضرر فرمائی۔
عبد مصطفیٰ
حضور اکرم ﷺ کی طرف بددعا کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے۔
اگر آپ نے کسی کے خلاف دعا کی ہے تو بھی اسے بددعا کہنا بے ادبی ہے۔
آپ کا کوئی فعل بد نہیں ہے۔
بخاری شریف کی ایک روایت کی شرح میں دیوبندیوں نے صراحت کے ساتھ بددعا کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کی ہے، یہ ہرگز درست نہیں.
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالى نے بخاری شریف کی شرح کرتے ہوئے کئی جگہ اس پر بحث کی ہے۔
پہلی جلد، صفحہ 705 پر اور اس سے پہلے بھی پھر جلد 13، صفحہ 806 اور چند مقامات پر لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کا کوئی عمل بد نہیں بلکہ ہر عمل حسن ہے لہذا حضور ﷺ نے جو دعاے ضرر فرمائی اسے بددعا کہنا ناجائز ہے۔
(انظر: نعم الباری)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر ایسی روایات ملتی ہیں جن میں آقاے کریم نے گستاخوں کے لیے بددعا فرمائی تو اسے بددعا نہیں کہیں گے بلکہ اس طرح کہیں گے کہ ان کے خلاف دعا کی ہے یا دعاے ضرر فرمائی۔
عبد مصطفیٰ
بھلائی والے
✍🏻تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
بیٹا ! یہ کھانا بڑی تائی کے دے آؤ !
ماما نے کچن سے آواز دی
ارے میں ابھی نہیں جا رہا میں گیم کھیل رہاہوں اجمل نے بدستور گیم کھیلتے ہوئے کہا
یہ گیم میں ساری زندگی گزار دینا اٹھو جلدی اور دے کر آؤ ۔
آپ بھی نا ماما ! اجمل نے زچ ہوتے ہوئے کہا
بیٹا ! دے آؤ ! کوئی کھانے کے انتظار میں ہو گا ماما نے پیار سے کہا
یہ آپ نے بھی ہر جمعے کا لگا لیا ہے لوگوں کے گھر کھانا بھیجنا ۔۔۔بھئی اب ابو بھی ریٹائر ہو چکے ہیں پیسوں کو جمع کرکے رکھیں برے وقت میں کام آ ئیں گے ۔اجمل نے اپنے تئیں بہت سمجھداری سے کہا تو ماما ہنس پڑیں اور اجمل سے پوچھا: بیٹا تمہیں معلوم ہے پیسے بچائے کیسے جاتے ہیں ؟
ماما اب اتنا بھی بے وقوف نہیں ہو ں میں جتنا آپ سمجھ رہی ہیں اجمل نے موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے کہا اور کچن میں پہنچ گیا جہاں اس کی ماما نے ٹرے میں تائی کے لیے بریانی نکال کر رکھی تھی ۔
تمہیں معلوم ہے انسان پیسے کیسے کماتا ہے ؟
بہت محنت سے ماما !اجمل نے کہا
اور پھر بہت مشقت سے اس کی حفاظت کرتا ہے اس کو سوچ سمجھ کر خرچ کرتا جمع بھی کرتا ہے ۔
اس کا ایک اور حل ہے میرے پاس ۔اجمل نے ماما کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا
وہ کیا ۔ماما مسکراتے ہوئے بولیں
وہ یہ کہ جو رقم انسان بچائے اس کو ایسی جگہ انویسٹ کردے جہاں سے ہر ماہ منافع آتا رہے ۔
مثلا ً وہ ایک گھر بنائے اسے کرائے پر دے دے ۔۔۔ایک بس لے اور اسے کرائے پر چلانا شروع کر دے ۔۔۔اس طرح اس کا سرمایہ بھی محفوظ ہو جائے گا اور اس کی حفاظت کے لیے زیادہ مشقت بھی نہیں کرنا پڑے گی ۔اجمل نے ایک مرتبہ پھر اپنا مفید مشورہ دے کرماما کو ہنسنے پر مجبور کردیا
اور اگر بس خراب ہو گئی یاایکسیڈنٹ ہو گیا ۔۔۔کرائے داروں نے کرایہ نہیں دیا تو پھر یا انہوں نے ہمارے مکان پر قبضہ کر لیا تو ؟؟؟
ایک اور آئیڈیا ۔۔۔اجمل نے کہا
وہ کیا بھئی ؟ ماما نے مسکراتے ہوئے پوچھا
ہم پلاٹ بھی خرید سکتے ہیں کچھ ہی سالوں میں اس کی قیمت ڈبل ہو جائے گی۔اجمل نے اپنی دانست میں بہترین مشورہ دیا
مشورہ اچھا ہے لیکن ضروری نہیں کہ پلاٹ کی قیمت بڑھے ہمارے بابا نے گلشن شہباز میں ایک پلاٹ لیا تھا ابھی تک اس کی وہی قیمت ہے ۔اور بعض اوقات تو اصل رقم سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں ۔ماما نے سنک کا نل بند کرتے ہوئے کہا ۔
ہاں ! یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ۔اجمل نے صاف گوئی سے کہا ۔
بابا جو بہت دیر سے ماما اور اور بیٹے کا مباحثہ سُن رہے بالآخر بول ہی پڑے ۔
بیٹا ! انسان جس پیسے کو بہت محنت سے کماتا ہے۔۔۔ بہت مشقت سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور موت کے وقت حسرت کے ساتھ چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔
اجمل کچھ دیر تک تو اپنے بابا کی بات پر غور کرتا رہا اور پھر کہنے لگا :ہاں یہ توہے بابا !
بس بیٹا ! تواس پیسے کو اس مال کو ایسی جگہ انویسٹ کیوں نہ کر دیا جائے جہاں نقصان نہ ہو اور نفع بھی بہت زیادہ ہو اس کی حفاظت بھی نہ کرنا پڑی اور نفع بھی ہمیشہ بغیر کسی تقاضے اور مشقت کے بغیر ملتا رہے ۔
یہ تو سب سے بہترین بزنس ہے ۔۔۔اجمل نے کہا ۔
بیٹا ! بس اس بزنس میں تمہاری ماں اور میں پارٹنر ہیں اور ہم دونوں اپنا سرمایہ اسی بزنس میں انویسٹ کررہے ہیں پھر اس انویسٹمنٹ کا ایک فائدہ اور بھی ہے ۔بابا نے تجسس پیدا کرتے ہوئے کہا ۔
وہ کیا ؟ اجمل نے حیرت سے پوچھا ۔
وہ یہ بیٹا ! اللہ تعالیٰ ہمیں پسند کرے ہم سے محبت کرے ۔۔۔ماما نے کہا تو بابا بھی مسکرا دئیے
وہ کیسے ؟اجمل نے پوچھا
وہ ایسے کہ
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِۚۖۛ وَاَحْسِنُوۡاۚۛ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیۡنَ﴿۱۹۵﴾بقرۃ
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالواور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔
بس تو تمہاری ماما اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کررہی ہیں اس طرح وہ خود بھی ہلاکت سے بچ رہی ہیں اور ہمیں بھی بچا رہی ہیں اور پھر اس خرچ کے سبب اللہ تعالی ٰ بھی ہم سے محبت کرتا ہے۔
ئم ئم ۔۔۔اجمل نے تائید کرتے ہوئے کہا
اور یہ جو میں پہنچا کر آؤں گا تو کیا مجھے بھی اس کا اجر ملے گا ؟اجمل نے سوال کیا
بالکل ملے گا ماما بابا کا کہنا ماننا اس کا ثواب۔۔۔ نیکی کے کام میں مامابابا کے ساتھ تعاون کرنا اس کاثواب
بس پھر لائیے میں ابھی دے کر ابھی آ تا ہوں اور بتائیے کہاں کہاں دینا ہے ؟
ماما اور بابا اجمل کی بات پر مسکر ادئیے ۔
✍🏻تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
بیٹا ! یہ کھانا بڑی تائی کے دے آؤ !
ماما نے کچن سے آواز دی
ارے میں ابھی نہیں جا رہا میں گیم کھیل رہاہوں اجمل نے بدستور گیم کھیلتے ہوئے کہا
یہ گیم میں ساری زندگی گزار دینا اٹھو جلدی اور دے کر آؤ ۔
آپ بھی نا ماما ! اجمل نے زچ ہوتے ہوئے کہا
بیٹا ! دے آؤ ! کوئی کھانے کے انتظار میں ہو گا ماما نے پیار سے کہا
یہ آپ نے بھی ہر جمعے کا لگا لیا ہے لوگوں کے گھر کھانا بھیجنا ۔۔۔بھئی اب ابو بھی ریٹائر ہو چکے ہیں پیسوں کو جمع کرکے رکھیں برے وقت میں کام آ ئیں گے ۔اجمل نے اپنے تئیں بہت سمجھداری سے کہا تو ماما ہنس پڑیں اور اجمل سے پوچھا: بیٹا تمہیں معلوم ہے پیسے بچائے کیسے جاتے ہیں ؟
ماما اب اتنا بھی بے وقوف نہیں ہو ں میں جتنا آپ سمجھ رہی ہیں اجمل نے موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے کہا اور کچن میں پہنچ گیا جہاں اس کی ماما نے ٹرے میں تائی کے لیے بریانی نکال کر رکھی تھی ۔
تمہیں معلوم ہے انسان پیسے کیسے کماتا ہے ؟
بہت محنت سے ماما !اجمل نے کہا
اور پھر بہت مشقت سے اس کی حفاظت کرتا ہے اس کو سوچ سمجھ کر خرچ کرتا جمع بھی کرتا ہے ۔
اس کا ایک اور حل ہے میرے پاس ۔اجمل نے ماما کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا
وہ کیا ۔ماما مسکراتے ہوئے بولیں
وہ یہ کہ جو رقم انسان بچائے اس کو ایسی جگہ انویسٹ کردے جہاں سے ہر ماہ منافع آتا رہے ۔
مثلا ً وہ ایک گھر بنائے اسے کرائے پر دے دے ۔۔۔ایک بس لے اور اسے کرائے پر چلانا شروع کر دے ۔۔۔اس طرح اس کا سرمایہ بھی محفوظ ہو جائے گا اور اس کی حفاظت کے لیے زیادہ مشقت بھی نہیں کرنا پڑے گی ۔اجمل نے ایک مرتبہ پھر اپنا مفید مشورہ دے کرماما کو ہنسنے پر مجبور کردیا
اور اگر بس خراب ہو گئی یاایکسیڈنٹ ہو گیا ۔۔۔کرائے داروں نے کرایہ نہیں دیا تو پھر یا انہوں نے ہمارے مکان پر قبضہ کر لیا تو ؟؟؟
ایک اور آئیڈیا ۔۔۔اجمل نے کہا
وہ کیا بھئی ؟ ماما نے مسکراتے ہوئے پوچھا
ہم پلاٹ بھی خرید سکتے ہیں کچھ ہی سالوں میں اس کی قیمت ڈبل ہو جائے گی۔اجمل نے اپنی دانست میں بہترین مشورہ دیا
مشورہ اچھا ہے لیکن ضروری نہیں کہ پلاٹ کی قیمت بڑھے ہمارے بابا نے گلشن شہباز میں ایک پلاٹ لیا تھا ابھی تک اس کی وہی قیمت ہے ۔اور بعض اوقات تو اصل رقم سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں ۔ماما نے سنک کا نل بند کرتے ہوئے کہا ۔
ہاں ! یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ۔اجمل نے صاف گوئی سے کہا ۔
بابا جو بہت دیر سے ماما اور اور بیٹے کا مباحثہ سُن رہے بالآخر بول ہی پڑے ۔
بیٹا ! انسان جس پیسے کو بہت محنت سے کماتا ہے۔۔۔ بہت مشقت سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور موت کے وقت حسرت کے ساتھ چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔
اجمل کچھ دیر تک تو اپنے بابا کی بات پر غور کرتا رہا اور پھر کہنے لگا :ہاں یہ توہے بابا !
بس بیٹا ! تواس پیسے کو اس مال کو ایسی جگہ انویسٹ کیوں نہ کر دیا جائے جہاں نقصان نہ ہو اور نفع بھی بہت زیادہ ہو اس کی حفاظت بھی نہ کرنا پڑی اور نفع بھی ہمیشہ بغیر کسی تقاضے اور مشقت کے بغیر ملتا رہے ۔
یہ تو سب سے بہترین بزنس ہے ۔۔۔اجمل نے کہا ۔
بیٹا ! بس اس بزنس میں تمہاری ماں اور میں پارٹنر ہیں اور ہم دونوں اپنا سرمایہ اسی بزنس میں انویسٹ کررہے ہیں پھر اس انویسٹمنٹ کا ایک فائدہ اور بھی ہے ۔بابا نے تجسس پیدا کرتے ہوئے کہا ۔
وہ کیا ؟ اجمل نے حیرت سے پوچھا ۔
وہ یہ بیٹا ! اللہ تعالیٰ ہمیں پسند کرے ہم سے محبت کرے ۔۔۔ماما نے کہا تو بابا بھی مسکرا دئیے
وہ کیسے ؟اجمل نے پوچھا
وہ ایسے کہ
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِۚۖۛ وَاَحْسِنُوۡاۚۛ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیۡنَ﴿۱۹۵﴾بقرۃ
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالواور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔
بس تو تمہاری ماما اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کررہی ہیں اس طرح وہ خود بھی ہلاکت سے بچ رہی ہیں اور ہمیں بھی بچا رہی ہیں اور پھر اس خرچ کے سبب اللہ تعالی ٰ بھی ہم سے محبت کرتا ہے۔
ئم ئم ۔۔۔اجمل نے تائید کرتے ہوئے کہا
اور یہ جو میں پہنچا کر آؤں گا تو کیا مجھے بھی اس کا اجر ملے گا ؟اجمل نے سوال کیا
بالکل ملے گا ماما بابا کا کہنا ماننا اس کا ثواب۔۔۔ نیکی کے کام میں مامابابا کے ساتھ تعاون کرنا اس کاثواب
بس پھر لائیے میں ابھی دے کر ابھی آ تا ہوں اور بتائیے کہاں کہاں دینا ہے ؟
ماما اور بابا اجمل کی بات پر مسکر ادئیے ۔
*غدار چکور*
سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاؤں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔ سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پاؤں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتارہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔ اس کی آوازیں سن کر بہت سے چکور آجاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔
سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیا۔ اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟
سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے:
*"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"*
سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاؤں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔ سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پاؤں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتارہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔ اس کی آوازیں سن کر بہت سے چکور آجاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔
سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیا۔ اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟
سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے:
*"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"*
*دین حسن اور حبّ نبوی*
باسمہ تعالی وبحمدہ والصلوات والتسلیمات علی حبیبہ المصطفے والہ
علامہ کافی مراد ابادی علیہ الرحمہ کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
بس رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
سوال ہے کہ جب تمام بلبل اڑ جائے تو دین حسن کہاں رہ جائے گا؟
کیا چمن کے درختوں پر رہ جائے گا،
یا فضاوں میں؟ پہاڑوں پر رہ جائے گا، یا سمندروں میں؟
او،تلاش کریں کہ دین حسن رہتا کہاں ہے؟ جب چمن اباد تھا تو دین حسن کا محل و مستقر کیا تھا؟
در اصل دین ان عقائد حقہ اور احکام الہیہ کا مجموعہ ہے جو اللہ تعالی کی بارگاہ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو عطا ہوئے۔پھر اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے امت کو ملے۔اس کا محل و مستقر مومن کا قلب ہے تو مومن خواہ چمن میں رہے یا بحکم الہی چمن سے رخصت ہو کر عالم برزخ میں چلا جائے۔دین نبوی مومن کے قلب میں بہر صورت موجود و محفوظ رہتا ہے اور اخروی نعمتیں دائمی اور نوعیت کے اعتبارسے عظیم اور تعداد کے اعتبارسے کثیر ہیں۔اس لئے اپنے دلوں میں موجود دین حسن کا تحفظ کرو۔کیوں کہ اخروی نعمتوں کا مدار اسی دین حسن پر ہے۔
چمن کے بلبلوں کا رنگ بدلتا دیکھ کر تم اپنا رنگ نہ بدلنے لگو۔یہ بلبلیں اج ہیں اور کل نہیں۔خود جب تم چمن سے رخصت ہو جاو گے تو محض تمہارا دین حسن اور تمہارا عمل تمہارے ساتھ جائے گا۔اس لئے کسی کی محبت میں اپنے دین و ایمان کو باطل عقائد اور فاسد اعمال سے مخلوط نہ کرو۔ احباب و متعلقین،استاذ و پیر،یا جو کوئی تم کو دین حسن سے دور کرنا چاہے،تم اس سے دور ہو جاو۔تعلقات بنتے اور بگڑتے ہیں۔یہ فانی تعلقات ہیں۔اپنے دلوں میں اپنے دین کو مستحکم رکھو۔
اپنے دلوں میں دین کو مستحکم رکھنے کے واسطے سب سے اہم نسخہ یہی ہے کہ اس ذات اقدس سے اپنے روابط محبت کو قوی سے قوی تر کرو،جن کے طفیل وہ دین حسن میسر ہوا،جو اخروی نعمتوں کا سرچشمہ ہے۔جب ان کی محبت مستحکم ہو جائے گی تو کسی کے بہکاوے کا اثر نہیں ہو گا۔کیوں کہ کسی کے بہکاوے میں ادمی اسی وقت مبتلا ہوتا ہے جب کوئی غرض دنیاوی ہو،تو حق کو حق جان کر بھی غرض دنیاوی کے سبب باطل کو اختیار کر لیتا ہے۔لیکن جب اپ نے اس دنیا کو ایک سونا چمن اور فانی وطن تسلیم کر لیا ہے تو فانی نعمتوں کے حصول کے لئے دائمی نعمتوں کو ترک کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکو گے اور اپنے ایمان و عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہو گے۔
اسی طرح انسان اپنے اس پاس کے احباب و متعلقین یا پیر و استاذ کی محبت میں ایسا مستغرق ہو جاتا ہے کہ اس کی ہر بات پر امنا و صدقنا کہتا ہے۔جب اپ نے اپنی محبتوں کا عظیم حصہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے منسلک کر دیا ہے تو نہ کسی سے اپ کو اندھی عقیدت ہے۔نہ اپ اس کی ہر بات پر انکھیں موند کر امنا و صدقنا کہیں گے۔پس حب مصطفوی اور تصور نبوی اپ کی دستگیری کرے گی اور اپ کسی کے بہکاوے میں مبتلا نہیں ہو سکیں گے۔
ہماری تحریر کا وہی مقصد ہے جو اپ سمجھ رہے ہیں یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے بے انتہا محبت کی جائے اور دوسروں سے اس ذات پاک سے کم محبت یعنی محدود محبت کی جائے۔میں تو اسی طرف بلا رہا ہوں جس کا بیان حدیث نبوی میں ایا کہ سب سے زیادہ محبت اس ذات اقدس سے کی جائے جن کے طفیل ہمیں وہ دین حسن نصیب ہوا،جو اخروی نعمتوں،بلکہ دنیاوی نعمتوں سے بھی سرفرازی کا سرچشمہ اور سبب ہے۔
اب اگر کوئی پیر و استاذ یا دوست و رشتہ دار خود سے بے انتہا محبت کی دعوت دیتا ہے یا ایسی خواہش رکھتا ہے تو اس سے حدیث مصطفوی کا معنی دریافت کرو،جس میں سب سے زیادہ محبت حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے کرنے کا حکم ایا۔
اپنی محبت میں فنا ہونے کی دعوت دینے والا پیر ہو یا استاذ،اس کی نیت صحیح معلوم نہیں ہوتی۔اس مادی دنیا میں پیر خود ہی اپنے ارباب ثروت اور اصحاب دولت مریدوں کا بظاہر پیر اور باطن میں مرید ہوتا ہے۔یہ فیض دیتے نہیں،بلکہ مریدوں سے فیض لیتے ہیں۔ایسے پیروں اور استاذوں کی محبت میں فنا ہونا یقینا نقصان دہ ہے۔یہ لوگ ما و شما کو منہ بھی نہیں لگاتے۔بادل ناخواستہ قدم بوسی کی اجازت دیتے ہیں۔
اجاو اسی حبیب اعظم کی طرف جن کے توسل سے سب کچھ ملا اور ان شاء اللہ تعالی سب کچھ ملے گا۔
قبر میں بھی انہیں کی جلوہ گری۔حشر میں ان کی شفاعت عظمی۔حوض کوثر پر وہی ہوں گے۔باب جنت وہی کھلوائیں گے۔ہر جگہ انہیں کے جلوے ہیں۔
اگر کوئی پیر و استاذ اسی ذات اقدس کی طرف تمہیں لے جائے تو اس کے پیچھے جاو۔اگر راستہ بدل دے تو رک جاو اور ادھر کا رخ کر لو جہاں دین حسن میں استحکام فراہم ہو،اور حب مصطفوی کی دولت لازوال سے سرفرازی ہو۔جہاں محبت الہی اور حب مصطفوی کے جام پلائے جائیں۔واللہ الموفق والہادی
طارق انور مصباحی
مدیر۔ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
جاری کردہ۔30جولائی2020
باسمہ تعالی وبحمدہ والصلوات والتسلیمات علی حبیبہ المصطفے والہ
علامہ کافی مراد ابادی علیہ الرحمہ کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
بس رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
سوال ہے کہ جب تمام بلبل اڑ جائے تو دین حسن کہاں رہ جائے گا؟
کیا چمن کے درختوں پر رہ جائے گا،
یا فضاوں میں؟ پہاڑوں پر رہ جائے گا، یا سمندروں میں؟
او،تلاش کریں کہ دین حسن رہتا کہاں ہے؟ جب چمن اباد تھا تو دین حسن کا محل و مستقر کیا تھا؟
در اصل دین ان عقائد حقہ اور احکام الہیہ کا مجموعہ ہے جو اللہ تعالی کی بارگاہ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو عطا ہوئے۔پھر اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے امت کو ملے۔اس کا محل و مستقر مومن کا قلب ہے تو مومن خواہ چمن میں رہے یا بحکم الہی چمن سے رخصت ہو کر عالم برزخ میں چلا جائے۔دین نبوی مومن کے قلب میں بہر صورت موجود و محفوظ رہتا ہے اور اخروی نعمتیں دائمی اور نوعیت کے اعتبارسے عظیم اور تعداد کے اعتبارسے کثیر ہیں۔اس لئے اپنے دلوں میں موجود دین حسن کا تحفظ کرو۔کیوں کہ اخروی نعمتوں کا مدار اسی دین حسن پر ہے۔
چمن کے بلبلوں کا رنگ بدلتا دیکھ کر تم اپنا رنگ نہ بدلنے لگو۔یہ بلبلیں اج ہیں اور کل نہیں۔خود جب تم چمن سے رخصت ہو جاو گے تو محض تمہارا دین حسن اور تمہارا عمل تمہارے ساتھ جائے گا۔اس لئے کسی کی محبت میں اپنے دین و ایمان کو باطل عقائد اور فاسد اعمال سے مخلوط نہ کرو۔ احباب و متعلقین،استاذ و پیر،یا جو کوئی تم کو دین حسن سے دور کرنا چاہے،تم اس سے دور ہو جاو۔تعلقات بنتے اور بگڑتے ہیں۔یہ فانی تعلقات ہیں۔اپنے دلوں میں اپنے دین کو مستحکم رکھو۔
اپنے دلوں میں دین کو مستحکم رکھنے کے واسطے سب سے اہم نسخہ یہی ہے کہ اس ذات اقدس سے اپنے روابط محبت کو قوی سے قوی تر کرو،جن کے طفیل وہ دین حسن میسر ہوا،جو اخروی نعمتوں کا سرچشمہ ہے۔جب ان کی محبت مستحکم ہو جائے گی تو کسی کے بہکاوے کا اثر نہیں ہو گا۔کیوں کہ کسی کے بہکاوے میں ادمی اسی وقت مبتلا ہوتا ہے جب کوئی غرض دنیاوی ہو،تو حق کو حق جان کر بھی غرض دنیاوی کے سبب باطل کو اختیار کر لیتا ہے۔لیکن جب اپ نے اس دنیا کو ایک سونا چمن اور فانی وطن تسلیم کر لیا ہے تو فانی نعمتوں کے حصول کے لئے دائمی نعمتوں کو ترک کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکو گے اور اپنے ایمان و عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہو گے۔
اسی طرح انسان اپنے اس پاس کے احباب و متعلقین یا پیر و استاذ کی محبت میں ایسا مستغرق ہو جاتا ہے کہ اس کی ہر بات پر امنا و صدقنا کہتا ہے۔جب اپ نے اپنی محبتوں کا عظیم حصہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے منسلک کر دیا ہے تو نہ کسی سے اپ کو اندھی عقیدت ہے۔نہ اپ اس کی ہر بات پر انکھیں موند کر امنا و صدقنا کہیں گے۔پس حب مصطفوی اور تصور نبوی اپ کی دستگیری کرے گی اور اپ کسی کے بہکاوے میں مبتلا نہیں ہو سکیں گے۔
ہماری تحریر کا وہی مقصد ہے جو اپ سمجھ رہے ہیں یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے بے انتہا محبت کی جائے اور دوسروں سے اس ذات پاک سے کم محبت یعنی محدود محبت کی جائے۔میں تو اسی طرف بلا رہا ہوں جس کا بیان حدیث نبوی میں ایا کہ سب سے زیادہ محبت اس ذات اقدس سے کی جائے جن کے طفیل ہمیں وہ دین حسن نصیب ہوا،جو اخروی نعمتوں،بلکہ دنیاوی نعمتوں سے بھی سرفرازی کا سرچشمہ اور سبب ہے۔
اب اگر کوئی پیر و استاذ یا دوست و رشتہ دار خود سے بے انتہا محبت کی دعوت دیتا ہے یا ایسی خواہش رکھتا ہے تو اس سے حدیث مصطفوی کا معنی دریافت کرو،جس میں سب سے زیادہ محبت حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے کرنے کا حکم ایا۔
اپنی محبت میں فنا ہونے کی دعوت دینے والا پیر ہو یا استاذ،اس کی نیت صحیح معلوم نہیں ہوتی۔اس مادی دنیا میں پیر خود ہی اپنے ارباب ثروت اور اصحاب دولت مریدوں کا بظاہر پیر اور باطن میں مرید ہوتا ہے۔یہ فیض دیتے نہیں،بلکہ مریدوں سے فیض لیتے ہیں۔ایسے پیروں اور استاذوں کی محبت میں فنا ہونا یقینا نقصان دہ ہے۔یہ لوگ ما و شما کو منہ بھی نہیں لگاتے۔بادل ناخواستہ قدم بوسی کی اجازت دیتے ہیں۔
اجاو اسی حبیب اعظم کی طرف جن کے توسل سے سب کچھ ملا اور ان شاء اللہ تعالی سب کچھ ملے گا۔
قبر میں بھی انہیں کی جلوہ گری۔حشر میں ان کی شفاعت عظمی۔حوض کوثر پر وہی ہوں گے۔باب جنت وہی کھلوائیں گے۔ہر جگہ انہیں کے جلوے ہیں۔
اگر کوئی پیر و استاذ اسی ذات اقدس کی طرف تمہیں لے جائے تو اس کے پیچھے جاو۔اگر راستہ بدل دے تو رک جاو اور ادھر کا رخ کر لو جہاں دین حسن میں استحکام فراہم ہو،اور حب مصطفوی کی دولت لازوال سے سرفرازی ہو۔جہاں محبت الہی اور حب مصطفوی کے جام پلائے جائیں۔واللہ الموفق والہادی
طارق انور مصباحی
مدیر۔ماہنامہ پیغام شریعت دہلی
جاری کردہ۔30جولائی2020
📱 *بچوں کے موبائل کی نگرانی کیجیے* 👀
*موبائل فون کے غلط استعمال سے اپنے بچوں کو بچائیں---*
*(ایک تدبیر ...... ایک ٹیکنیک)*
*اس مضمون میں راقم ایک ٹیکنک سے قارئین کو آگاہ کرنا چاہتا ہے۔جس کے ذریعہ آپ اپنے بچوں کی موبائل (اسمارٹ فون) نیز انٹرنیٹ کی سرگرمیوں کی نگرانی کر سکتے ہیں۔*
*یقیناً آپ کے گھر میں سات سے چودہ سال تک کے بچے ہوں گے۔یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اہل ایماں کی اکثریت نے اپنے بچوں کی ضد پر یا کسی اور مجبوری کے تحت اپنے بچوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون پکڑا دیا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور موبائل (اسمارٹ فون) سے دور بھی نہیں رکھ سکتے اس لیے کے عام حالات میں عموماً اور وبائی دور میں توخصوصاً آن لائن کلاسیس بچوں کے لیے منعقد ہو رہی ہیں۔ غرض تعلیمی سرگرمیوں کی بات کی جائے تو موبائل (اسمارٹ فون)، انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کا استعمال نا گزیر ہے۔*
*یاد رہے کہ بچوں میں تجسس بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے نفع نقصان سے بیگانہ ہوکر نیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔نیز اسکول کے بچوں میں کچھ بچے پراگندہ ذہنی کا شکار ہوتے ہیں وہ ہر کسی بچے کو دعوت گناہ دیتے رہتے ہیں جو ہو سکتاہے آپ کے بچے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے۔صحبت غلط کے علاوہ اور بھی بہت سے عوامل ہیں جو آپ کے بچے کا مستقبل تباہ کرسکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ کو شرمندگی اٹھانا پڑے، راقم کی تجویز پر غور کریں:*
▪️ *پلےاسٹور سے Google Family Link for parents نامی اپپ کو ڈاؤنلوڈ کریں۔ من و عن ایپ اپنے بچے کے موبائل میں بھی ڈاؤنلوڈ کریں۔ دونوں ایپ کو ایک ساتھ اوپن کریں۔ اپنے موبائل کو نگران (سپروائزر) قرار دیں۔ پھر جو ہدایات ملیں ان کو مرحلہ وار فالو کریں۔ اس ایپ کا فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کی موبائل سرگرمیوں سے متعلق حسب ذیل باتوں سے کسی بھی وقت آگاہ ہو سکتے ہیں:*
1۔ اس نے کس ویب سائٹ کو اوپن کیا۔
2۔ کس ویڈیو کو دیکھا۔
3- دن بھر کتنی دیر وہ موبائل کے ساتھ چمٹا رہا۔
*نیز ایک اور فائدہ اس ایپ کا یہ ہے کہ جب کبھی آپکا بیٹا کوئی گیم / ایپ ڈاؤنلوڈ کرنے لگے گا یا کسی بھی ویب سائٹ کو دیکھنے (access) کرنے کی کوشش کرے گا تو براؤزر پہلے آپ سے اجازت مانگے گا۔ غرض آپ جن ویڈیوز اور گیمز کی اجازت دیں گے آپ کا بچہ وہی ویڈیو یا گیم یا ویب سائٹ access کر سکتا ہے.*
*نیز آپ جب چاہے،کسی گیم یا ایپ کو جو آپ کے بچے کے موبائل میں ہے، بلاک کر سکتے ہیں۔ جو آپکے بچے کے موبائل سے غائب ہو جائے گا۔ جب تک آپ کی اجازت نہیں ہو گی وہ نہیں کھول سکے گا۔*
▪️ *اسی طرح اپنے کروم براؤزر میں جاکر setting میں جائیں اور safe search filter میں جائیں اور Filter exlicit results کو select کریں۔ اسی طرح ویڈیو میں Do not Autoplay کو select کریں۔*
▪️ *اسی طرح پلے اسٹور میں جائیں، setting میں جائیں اور parental controls کو آن کریں۔*
امید ہے اتنا کرنے سے آپ اور آپ کے بچے کا موبائل نامناسب مواد سے پاک ہو جائے گا۔ لیکن اس سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جائے کہ وہی مومن کے لیے ہتھیار ہے۔ نیز دشمن جب کسی پر قابو پاتا ہے تو سب سے پہلے اس سے ہتھیار نیچے رکھنے کو یا چھوڑنے کو کہتا ہے یا اسے حاصل کر لیتا ہے۔شیطان کا جب کسی پر زور چلتا ہے تو وہ اسے اللہ کے ذکر سے غافل کرتا ہے جیسا کہ *اِسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰھُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُوْلٰئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ [المجادلہ:19]* سے ثابت ہے۔
*آج سارے عالم میں والدین کے لیے یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کی موبائل سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ مخرب اخلاق اور حیاسوز ویڈیوز اور گیمز سے بچوں کو کس طرح بچائیں؟ ان کے اوقات کی کس طرح حفاظت کریں؟ اس وقت سارے عالم میں عریانیت کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ آئے دن اخبارات میں اسکول کے بچوں کی حیاسوز خبریں آتی رہتی ہیں۔ بچے تو کیا بڑے لوگ، عزیمت سے پہلو تہی کا شکار ہیں.*
*اللہ پاک راقم کو اور قارئین کو بھی اپنے نیک بندوں کے گروہ میں شامل فرمائے۔ شیطان کے مکر و فریب کو سمجھنے نیز اس سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے، ہمارے بچوں کے مستقبل کی حفاظت فرمائے اور ان میں آخرت کا شعور بیدار فرمائے۔* آمین۔
◦•●◉✿ حرفےچند ✿◉●•◦
@HamariUrduPiyariUrdu
*موبائل فون کے غلط استعمال سے اپنے بچوں کو بچائیں---*
*(ایک تدبیر ...... ایک ٹیکنیک)*
*اس مضمون میں راقم ایک ٹیکنک سے قارئین کو آگاہ کرنا چاہتا ہے۔جس کے ذریعہ آپ اپنے بچوں کی موبائل (اسمارٹ فون) نیز انٹرنیٹ کی سرگرمیوں کی نگرانی کر سکتے ہیں۔*
*یقیناً آپ کے گھر میں سات سے چودہ سال تک کے بچے ہوں گے۔یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اہل ایماں کی اکثریت نے اپنے بچوں کی ضد پر یا کسی اور مجبوری کے تحت اپنے بچوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون پکڑا دیا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور موبائل (اسمارٹ فون) سے دور بھی نہیں رکھ سکتے اس لیے کے عام حالات میں عموماً اور وبائی دور میں توخصوصاً آن لائن کلاسیس بچوں کے لیے منعقد ہو رہی ہیں۔ غرض تعلیمی سرگرمیوں کی بات کی جائے تو موبائل (اسمارٹ فون)، انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کا استعمال نا گزیر ہے۔*
*یاد رہے کہ بچوں میں تجسس بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے نفع نقصان سے بیگانہ ہوکر نیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔نیز اسکول کے بچوں میں کچھ بچے پراگندہ ذہنی کا شکار ہوتے ہیں وہ ہر کسی بچے کو دعوت گناہ دیتے رہتے ہیں جو ہو سکتاہے آپ کے بچے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے۔صحبت غلط کے علاوہ اور بھی بہت سے عوامل ہیں جو آپ کے بچے کا مستقبل تباہ کرسکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ کو شرمندگی اٹھانا پڑے، راقم کی تجویز پر غور کریں:*
▪️ *پلےاسٹور سے Google Family Link for parents نامی اپپ کو ڈاؤنلوڈ کریں۔ من و عن ایپ اپنے بچے کے موبائل میں بھی ڈاؤنلوڈ کریں۔ دونوں ایپ کو ایک ساتھ اوپن کریں۔ اپنے موبائل کو نگران (سپروائزر) قرار دیں۔ پھر جو ہدایات ملیں ان کو مرحلہ وار فالو کریں۔ اس ایپ کا فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کی موبائل سرگرمیوں سے متعلق حسب ذیل باتوں سے کسی بھی وقت آگاہ ہو سکتے ہیں:*
1۔ اس نے کس ویب سائٹ کو اوپن کیا۔
2۔ کس ویڈیو کو دیکھا۔
3- دن بھر کتنی دیر وہ موبائل کے ساتھ چمٹا رہا۔
*نیز ایک اور فائدہ اس ایپ کا یہ ہے کہ جب کبھی آپکا بیٹا کوئی گیم / ایپ ڈاؤنلوڈ کرنے لگے گا یا کسی بھی ویب سائٹ کو دیکھنے (access) کرنے کی کوشش کرے گا تو براؤزر پہلے آپ سے اجازت مانگے گا۔ غرض آپ جن ویڈیوز اور گیمز کی اجازت دیں گے آپ کا بچہ وہی ویڈیو یا گیم یا ویب سائٹ access کر سکتا ہے.*
*نیز آپ جب چاہے،کسی گیم یا ایپ کو جو آپ کے بچے کے موبائل میں ہے، بلاک کر سکتے ہیں۔ جو آپکے بچے کے موبائل سے غائب ہو جائے گا۔ جب تک آپ کی اجازت نہیں ہو گی وہ نہیں کھول سکے گا۔*
▪️ *اسی طرح اپنے کروم براؤزر میں جاکر setting میں جائیں اور safe search filter میں جائیں اور Filter exlicit results کو select کریں۔ اسی طرح ویڈیو میں Do not Autoplay کو select کریں۔*
▪️ *اسی طرح پلے اسٹور میں جائیں، setting میں جائیں اور parental controls کو آن کریں۔*
امید ہے اتنا کرنے سے آپ اور آپ کے بچے کا موبائل نامناسب مواد سے پاک ہو جائے گا۔ لیکن اس سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جائے کہ وہی مومن کے لیے ہتھیار ہے۔ نیز دشمن جب کسی پر قابو پاتا ہے تو سب سے پہلے اس سے ہتھیار نیچے رکھنے کو یا چھوڑنے کو کہتا ہے یا اسے حاصل کر لیتا ہے۔شیطان کا جب کسی پر زور چلتا ہے تو وہ اسے اللہ کے ذکر سے غافل کرتا ہے جیسا کہ *اِسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰھُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُوْلٰئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ [المجادلہ:19]* سے ثابت ہے۔
*آج سارے عالم میں والدین کے لیے یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کی موبائل سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ مخرب اخلاق اور حیاسوز ویڈیوز اور گیمز سے بچوں کو کس طرح بچائیں؟ ان کے اوقات کی کس طرح حفاظت کریں؟ اس وقت سارے عالم میں عریانیت کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ آئے دن اخبارات میں اسکول کے بچوں کی حیاسوز خبریں آتی رہتی ہیں۔ بچے تو کیا بڑے لوگ، عزیمت سے پہلو تہی کا شکار ہیں.*
*اللہ پاک راقم کو اور قارئین کو بھی اپنے نیک بندوں کے گروہ میں شامل فرمائے۔ شیطان کے مکر و فریب کو سمجھنے نیز اس سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے، ہمارے بچوں کے مستقبل کی حفاظت فرمائے اور ان میں آخرت کا شعور بیدار فرمائے۔* آمین۔
◦•●◉✿ حرفےچند ✿◉●•◦
@HamariUrduPiyariUrdu
ایک بینک ڈکیتی کے دوران ڈکیت نے چیخ کر سب سے کہا ‘کوئی بھی نہ ہلے، سب چپ چاپ زمین پر لیٹ جائیں، رقم لوگوں کی ہے اور جان آپ کی اپنی ہے۔’
سب چپ چاپ زمین پر لیٹ گئے۔ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اسے کہتے ہیں مائند چینج کانسیپٹ (سوچ بدلنے کا تصور)۔
ڈکیتی کے بعد گھر واپس آئے تو ایم بی اے پاس نوجوان ڈکیت نے پرائمری پاس بوڑھے ڈکیٹ سے کہا ‘چلو رقم گنتے ہیں۔
بوڑھے ڈکیت نے کہا تم پاگل ہو گئے ہو اتنے زیادہ نوٹ کون گنے، رات کو خبروں میں سن لینا کہ ہم کتنا مال لوٹ کر لائے ہیں۔ اسے کہتے ہیں تجربہ جو کہ آج کل ڈگریوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
دوسری جانب جب ڈاکو بینک سے چلے گئے تو منیجر نے سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو فون کرو۔ سپروائز نے جواب دیا ‘رک جائیں سر ! پہلے بینک سے ہم دونوں اپنے لیے دس لاکھ ڈالرز نکال لیتے ہیں اور ہاں وہ چالیس لاکھ ڈالرز کا گھپلہ جو ہم نے حالیہ دنوں میں کیا ہے وہ بھی ڈاکوؤں پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوٹ کر لے گئے۔’ اسے کہتے ہیں وقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا، اور مشکل حالات کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرنا۔
منیجر ہنس کر بولا ‘ہر مہینے ایک ڈکیتی ہونی چاہیے۔ اسے کہتے ہیں بوریت ختم کرنا، کیونکہ ذاتی مفاد اور خوشی جاب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
اگلے دن اخبارات اور ٹی وی پر خبریں تھیں کہ ڈاکو بینک سے سو ملین ڈالرز لوٹ کر فرار۔ ڈاکوؤں نے بار بار رقم گنی لیکن وہ پچاس ملین ڈالرز سے زیادہ نہ نکلی۔
بوڑھا ڈاکو غصے میں آ گیا اور چیخا ‘ہم نے اسلحہ اٹھایا۔اپنی جانیں رسک پر لگائیں اور پچاس ملین ڈالرز لوٹ سکے، جبکہ بینک منیجر نے بیٹھے بیٹھے چند انگلیاں ہلا کر پچاس ملین ڈالرز لوٹ لیا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ ہم چور نہیں پڑھے لکھے ہونا چاہیے تھا۔
اسی لئے کہتے ہیں علم کی قیمت سونے کے برابر ہوتی ہے
سب چپ چاپ زمین پر لیٹ گئے۔ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اسے کہتے ہیں مائند چینج کانسیپٹ (سوچ بدلنے کا تصور)۔
ڈکیتی کے بعد گھر واپس آئے تو ایم بی اے پاس نوجوان ڈکیت نے پرائمری پاس بوڑھے ڈکیٹ سے کہا ‘چلو رقم گنتے ہیں۔
بوڑھے ڈکیت نے کہا تم پاگل ہو گئے ہو اتنے زیادہ نوٹ کون گنے، رات کو خبروں میں سن لینا کہ ہم کتنا مال لوٹ کر لائے ہیں۔ اسے کہتے ہیں تجربہ جو کہ آج کل ڈگریوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
دوسری جانب جب ڈاکو بینک سے چلے گئے تو منیجر نے سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو فون کرو۔ سپروائز نے جواب دیا ‘رک جائیں سر ! پہلے بینک سے ہم دونوں اپنے لیے دس لاکھ ڈالرز نکال لیتے ہیں اور ہاں وہ چالیس لاکھ ڈالرز کا گھپلہ جو ہم نے حالیہ دنوں میں کیا ہے وہ بھی ڈاکوؤں پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوٹ کر لے گئے۔’ اسے کہتے ہیں وقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا، اور مشکل حالات کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرنا۔
منیجر ہنس کر بولا ‘ہر مہینے ایک ڈکیتی ہونی چاہیے۔ اسے کہتے ہیں بوریت ختم کرنا، کیونکہ ذاتی مفاد اور خوشی جاب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
اگلے دن اخبارات اور ٹی وی پر خبریں تھیں کہ ڈاکو بینک سے سو ملین ڈالرز لوٹ کر فرار۔ ڈاکوؤں نے بار بار رقم گنی لیکن وہ پچاس ملین ڈالرز سے زیادہ نہ نکلی۔
بوڑھا ڈاکو غصے میں آ گیا اور چیخا ‘ہم نے اسلحہ اٹھایا۔اپنی جانیں رسک پر لگائیں اور پچاس ملین ڈالرز لوٹ سکے، جبکہ بینک منیجر نے بیٹھے بیٹھے چند انگلیاں ہلا کر پچاس ملین ڈالرز لوٹ لیا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ ہم چور نہیں پڑھے لکھے ہونا چاہیے تھا۔
اسی لئے کہتے ہیں علم کی قیمت سونے کے برابر ہوتی ہے
فرض کیجئے آپ چائے کا کپ ہاتھ میں لئے کھڑے ہیں اور کوئی آپ کو دھکا دے دیتا ہے، تو کیا ہوتا ہے؟ آپ کے کپ سے چائے چھلک جاتی ہے۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کے کپ سے چائے کیوں چھلکی؟ تو آپ کا جواب ہوگا : کیونکہ فلاں نے مجھے دھکا دیا۔
غلط جواب۔
درست جواب یہ ہے کہ آپ کے کپ میں چائے تھی اسی لئے چھلکی۔ آپ کے کپ سے وہی چھلکے گا جو اس میں ہے۔
۔
اسی طرح جب زندگی میں ہمیں دھکے لگتے ہیں لوگوں کے رویوں سے، تو اس وقت ہماری اصلیت ہی چھلکتی ہے۔ آپ کا اصل اس وقت تک سامنے نہیں آتا جب تک آپ کو دھکا نہ لگے۔
تو دیکھنا یہ ہے کہ جب آپ کو دھکا لگا تو کیا چھلکا؟
صبر، خاموشی، شکرگزاری، رواداری، سکون، انسانیت، وقار۔
یا
غصہ، کڑواہٹ، جنون، حسد، نفرت، حقارت۔
چن لیجئے کہ ہمیں اپنے کردار کو کس چیز سے بھرنا ہے۔
فیصلہ ہمارے اختیار میں ہے..!!
غلط جواب۔
درست جواب یہ ہے کہ آپ کے کپ میں چائے تھی اسی لئے چھلکی۔ آپ کے کپ سے وہی چھلکے گا جو اس میں ہے۔
۔
اسی طرح جب زندگی میں ہمیں دھکے لگتے ہیں لوگوں کے رویوں سے، تو اس وقت ہماری اصلیت ہی چھلکتی ہے۔ آپ کا اصل اس وقت تک سامنے نہیں آتا جب تک آپ کو دھکا نہ لگے۔
تو دیکھنا یہ ہے کہ جب آپ کو دھکا لگا تو کیا چھلکا؟
صبر، خاموشی، شکرگزاری، رواداری، سکون، انسانیت، وقار۔
یا
غصہ، کڑواہٹ، جنون، حسد، نفرت، حقارت۔
چن لیجئے کہ ہمیں اپنے کردار کو کس چیز سے بھرنا ہے۔
فیصلہ ہمارے اختیار میں ہے..!!
فرینڈز... وقت قریب آگیا. آپ لوگ ریڈی ہوجائیے. رات گیارہ بجے چیٹنگ کا وقت ہے.. عنوان ہے
*ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیکر روکا اور نخوت سے پوچھا: اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟*
*عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔*
*اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟*
*گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیض پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیض* *خراب کر دی ہے تو نے؟ میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے نا لے لوں، تجھے تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔*
*عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔*
*اس آدمی نے کہا؛ جب تک تجھ سے دام نا لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔*
*عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟*
*اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔*
*عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟*
*اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔*
*عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔* *ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔*
*نوجوان نے اس آدمی سے کہا؛ جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دیدیئے۔*
*یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: جاتا کدھر ہے؟*
*آدمی نے پوچھا: تو تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟*
*نوجوان نے کہا: تو نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟*
*آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لیئے ہیں۔*
*نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کدھر ہے؟*
*آدمی نے کہا: وہ کس لیئے؟*
*نوجوان نے کہا: ہم نے تجھے تیری قمیض کے پیسے دیدیئے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے اور جا۔*
*آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟*
*نوجوان نے کہا: ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔*
*آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیض نا دوں تو؟*
*نوجوان نے کہا: تو پھر ہمیں اس کی قیمت دیدے۔*
*اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟*
*نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو ہم مانگیں گے۔*
*اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟*
*نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم آدمی نے کہا؛ تو نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔*
*نوجوان نے کہا: تیرا اس سے کوئی مطلب نہیں۔*
*آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔*
*نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دے۔*
*اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟*
*نوجوان نے کہا: اور جب تو اس مسکین عورت کو رسوا کر رہا تھا تو!!*
*آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔*
*نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ تجھے ظلم لگ رہا ہے۔*
*اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دیدیئے۔*
*اور نوجوان نے مجمعے میں* *اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کیلئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔*
*ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حا ل ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی*مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔ اگر وقت ملے تو سوچئے گا۔*
*ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیکر روکا اور نخوت سے پوچھا: اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟*
*عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔*
*اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟*
*گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیض پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیض* *خراب کر دی ہے تو نے؟ میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے نا لے لوں، تجھے تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔*
*عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔*
*اس آدمی نے کہا؛ جب تک تجھ سے دام نا لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔*
*عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟*
*اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔*
*عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟*
*اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔*
*عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔* *ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔*
*نوجوان نے اس آدمی سے کہا؛ جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دیدیئے۔*
*یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: جاتا کدھر ہے؟*
*آدمی نے پوچھا: تو تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟*
*نوجوان نے کہا: تو نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟*
*آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لیئے ہیں۔*
*نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کدھر ہے؟*
*آدمی نے کہا: وہ کس لیئے؟*
*نوجوان نے کہا: ہم نے تجھے تیری قمیض کے پیسے دیدیئے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے اور جا۔*
*آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟*
*نوجوان نے کہا: ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔*
*آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیض نا دوں تو؟*
*نوجوان نے کہا: تو پھر ہمیں اس کی قیمت دیدے۔*
*اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟*
*نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو ہم مانگیں گے۔*
*اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟*
*نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم آدمی نے کہا؛ تو نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔*
*نوجوان نے کہا: تیرا اس سے کوئی مطلب نہیں۔*
*آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔*
*نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دے۔*
*اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟*
*نوجوان نے کہا: اور جب تو اس مسکین عورت کو رسوا کر رہا تھا تو!!*
*آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔*
*نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ تجھے ظلم لگ رہا ہے۔*
*اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دیدیئے۔*
*اور نوجوان نے مجمعے میں* *اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کیلئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔*
*ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حا ل ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی*مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔ اگر وقت ملے تو سوچئے گا۔*
*اسلام کےمجرم*
تحریر: *محمداسمٰعیل بدایونی*
بستی میں جس نے بھی سُنا اس نے انگلیاں دانتوں میں دبالیں ۔
کیا دور آ گیا ہے ؟چمن بھائی نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔
ہوا کیا ہے ۔ببن بھیا نے پوچھا ۔
ہوا کیاہے ارے یہ پوچھو کیا نہیں ہوا ؟ چمن بھائی نے پریشانی کے ساتھ کہا ۔
اچھا چلو یہ بتا دو کیا نہیں ہوا ؟۔ببن بھیا نے بھولپن سے کہا ۔
چمن بھائی نے گھور کر ببن بھیا کو دیکھا اور کہا : مقدمہ ہو گیا ہے مقدمہ ۔
ارے کس پر مقدمہ ہو گیا ہے؟ کس نے کر دیاہے ؟ کیوں کر دیا ہے ؟ کیوں مستقل پہلیاں بھجوائے جا رہے ہو۔ ببن بھیا نے زچ ہو تے ہوئے کہا ۔
ارے ایک انگریز نے مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کر دیا ہے ۔۔۔چمن بھائی نے بتایا ۔
ارے یہ تو تب کی بات ہو گی جب انگریز بر صغیر میں حکومت کیا کرتاتھا ۔ببن بھیا نے اپنی سائیکل پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
چمن بھائی نے ببن بھیا کی ذہنی حالت کو شکی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا : جی نہیں ابھی ابھی کی خبر ہے ۔
کیا کہہ رہے ہیں چمن بھائی! کیا سورج آج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلا ہے ؟
ہمارے ملک میں رہتے ہیں اور ہم پر ہی مقدمہ ؟ یعنی ہماری بلی اور ہم ہی کو میاؤں ۔ببن بھیا نے جذباتی ہو تے ہوئے کہا ۔
لیکن سُنا ہے ساری دنیا کا میڈیا اس مقدمے کو خصوصی اہمیت دے رہاہے سارے اخبارات اور چینل والے کل صبح سویرے ہی عدالت پہنچ جائیں گے ۔چمن بھائی نے بتایا ۔
ارے یہ میڈیا بھی اور سب ، مسلمانوں اور اسلام کے دشمن جو ہیں ۔ببن بھیا کی جذباتیت قائم تھی پھر ببن بھیا کو خیال آ یا کہ وہ یہ تو پوچھیں کہ آخر اس نے مقدمہ کیا کیا ہے اور پھر انہوں نے چمن بھائی سے پوچھا
لیکن چمن بھائی ! مقدمہ ہے کیا آ خر ؟ببن بھیا نے پوچھا ۔
مقدمہ بڑا عجیب ہے اس کا کہنا ہے’’ بستی کے مسلمان اسلام کے مجرم ہیں ‘‘چمن بھائی نے بتایا تو ببن بھیا کے ماتھے پر مزید بل پڑگئے ۔
ارے اس انگریز کے کے بھیجے میں بھیجہ بھی ہے کہ نہیں بھلا مسلمان اسلام کے مجرم کیسے ہو سکتے ہیں ؟ مسلمان اسلام کو مانتے ہیں ۔۔۔اسلام سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔اسلام کو چاہتے ہیں ۔۔۔اسلام کی ترویج و اشاعت میں دن رات لگے رہتے ہیں بھلا مسلمان بھی اسلام کے مجرم ہو سکتے ہیں ۔۔۔ ببن بھیا نے جذباتی انداز میں کہا ۔
اب یہ تو کل ہی پتہ چلے گا ۔چمن بھائی نے کہا ۔
دوسرے دن بستی کے تمام لوگ کچہری کے باہر جمع تھے سارا میڈیا بھی آیا ہوا تھا ۔
عدالت میں بیٹھے قاضی نے انگریز سے پوچھا ۔
مقدمہ کیاہے اور آپ کا وکیل کہاں ہے ؟
انگریز : میں اپنا مقدمہ خود لڑوں گا اور میرا مقدمہ یہ ہے کہ میں بستی کے تمام مسلمانوں کو اسلام کا مجرم سمجھتا ہوں انہیں سزا دی جائے ۔
جج : بھئی بستی کے مسلمان اسلام کے مجرم مگر کیسے ؟
ببن بھیا :ارے اس انگریز کا دماغ خراب ہو گیا کہ جو یہ کہے گا وہ مان لیا جائے اور مسلمانوں کو سزا دے دی جائے ۔
چمن بھائی : ارے ببن بھیا ! تم چھری تلے دم تو لینے دو مقدمہ تو دیکھو کیا چل رہاہے ۔
آرڈر آرڈر ۔۔۔عدالت میں ہوتے شور کو دیکھ کر جج نے اپنا لکڑی کا ہتھوڑا میز پر مارا ۔
جج : تو آپ نے بتایا نہیں کہ کس جرم میں مسلمانوں کو سزا دی جائے ۔
انگریز : بستی کے مسلمان اسلام کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔یہ جرم ہے بستی کے مسلمانوں کا ۔
ببن بھیا : ارے چمن بھائی یہ تو بالکل ہی سٹھیایاہوا لگ رہا ہے مجھے، بھلا مسلمان بھی اسلام کی تبلیغ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے ۔
یہ تو بالکل عجیب ہی بات کررہاہے ۔چمن بھائی نے اپنی رائے دی ۔۔۔
عدالت میں اور بھی لوگ موجود تھے چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ ایک مرتبہ پھر جج نے اپنا لکڑی کا ہتھوڑا میز پر مارا اور زورسے کہا : آرڈر آرڈر آرڈر
سب خاموش ہو گئے ۔
جج : مسلمان بھلا کس طرح اسلام کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ ہو سکتے ہیں ؟
انگریز :جج صاحب ! میں نے اسلام کا بغور مطالعہ کیا میں نے اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کیا میں نے اسلام کو سچا دین پایا اور کچھ عرصے کے بعد اسلام قبول کر لیا ۔
جج : سبحان اللہ
ارے چمن بھائی ! یہ گورا تو مسلمان ہے ۔ببن بھیا نے حیرت سے کہا ۔
ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں ۔۔۔چمن بھائی نے گورے کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
پھر اس نے یہ عجیب و غریب مقدمہ کیوں دائر کر دیا ہے ؟ عدالت میں موجود لوگ اس بات پر خوش بھی تھے کہ گورا مسلمان ہے اور اس بات پر حیران و پریشان بھی کہ اس نے بستی کے مسلمانوں پر یہ عجیب و غریب مقدمہ کیوں کر دیاہے؟
جج: بستی کے مسلمان کس طرح اسلام کے مجرم ہیں ؟
انگریز : جنابِ والا ! جب میں نے اسلام قبول کرلیا تومیں نے چاہا کہ میری بیوی اور بچے بھی اسلام قبول کر لیں اس کے لیے میں نے انہیں اسلام کی دعوت پیش کی ۔
جج : یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن اس میں بستی کے مسلمان کیسے مجرم ہو گئے ؟
انگریز : اسی جانب آ رہاہوں تو جب میں نے بیوی بچوں کو اسلام کی دعوت دی تو میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ میں پہلے اس مذہب کے ماننے
تحریر: *محمداسمٰعیل بدایونی*
بستی میں جس نے بھی سُنا اس نے انگلیاں دانتوں میں دبالیں ۔
کیا دور آ گیا ہے ؟چمن بھائی نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔
ہوا کیا ہے ۔ببن بھیا نے پوچھا ۔
ہوا کیاہے ارے یہ پوچھو کیا نہیں ہوا ؟ چمن بھائی نے پریشانی کے ساتھ کہا ۔
اچھا چلو یہ بتا دو کیا نہیں ہوا ؟۔ببن بھیا نے بھولپن سے کہا ۔
چمن بھائی نے گھور کر ببن بھیا کو دیکھا اور کہا : مقدمہ ہو گیا ہے مقدمہ ۔
ارے کس پر مقدمہ ہو گیا ہے؟ کس نے کر دیاہے ؟ کیوں کر دیا ہے ؟ کیوں مستقل پہلیاں بھجوائے جا رہے ہو۔ ببن بھیا نے زچ ہو تے ہوئے کہا ۔
ارے ایک انگریز نے مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کر دیا ہے ۔۔۔چمن بھائی نے بتایا ۔
ارے یہ تو تب کی بات ہو گی جب انگریز بر صغیر میں حکومت کیا کرتاتھا ۔ببن بھیا نے اپنی سائیکل پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
چمن بھائی نے ببن بھیا کی ذہنی حالت کو شکی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا : جی نہیں ابھی ابھی کی خبر ہے ۔
کیا کہہ رہے ہیں چمن بھائی! کیا سورج آج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلا ہے ؟
ہمارے ملک میں رہتے ہیں اور ہم پر ہی مقدمہ ؟ یعنی ہماری بلی اور ہم ہی کو میاؤں ۔ببن بھیا نے جذباتی ہو تے ہوئے کہا ۔
لیکن سُنا ہے ساری دنیا کا میڈیا اس مقدمے کو خصوصی اہمیت دے رہاہے سارے اخبارات اور چینل والے کل صبح سویرے ہی عدالت پہنچ جائیں گے ۔چمن بھائی نے بتایا ۔
ارے یہ میڈیا بھی اور سب ، مسلمانوں اور اسلام کے دشمن جو ہیں ۔ببن بھیا کی جذباتیت قائم تھی پھر ببن بھیا کو خیال آ یا کہ وہ یہ تو پوچھیں کہ آخر اس نے مقدمہ کیا کیا ہے اور پھر انہوں نے چمن بھائی سے پوچھا
لیکن چمن بھائی ! مقدمہ ہے کیا آ خر ؟ببن بھیا نے پوچھا ۔
مقدمہ بڑا عجیب ہے اس کا کہنا ہے’’ بستی کے مسلمان اسلام کے مجرم ہیں ‘‘چمن بھائی نے بتایا تو ببن بھیا کے ماتھے پر مزید بل پڑگئے ۔
ارے اس انگریز کے کے بھیجے میں بھیجہ بھی ہے کہ نہیں بھلا مسلمان اسلام کے مجرم کیسے ہو سکتے ہیں ؟ مسلمان اسلام کو مانتے ہیں ۔۔۔اسلام سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔اسلام کو چاہتے ہیں ۔۔۔اسلام کی ترویج و اشاعت میں دن رات لگے رہتے ہیں بھلا مسلمان بھی اسلام کے مجرم ہو سکتے ہیں ۔۔۔ ببن بھیا نے جذباتی انداز میں کہا ۔
اب یہ تو کل ہی پتہ چلے گا ۔چمن بھائی نے کہا ۔
دوسرے دن بستی کے تمام لوگ کچہری کے باہر جمع تھے سارا میڈیا بھی آیا ہوا تھا ۔
عدالت میں بیٹھے قاضی نے انگریز سے پوچھا ۔
مقدمہ کیاہے اور آپ کا وکیل کہاں ہے ؟
انگریز : میں اپنا مقدمہ خود لڑوں گا اور میرا مقدمہ یہ ہے کہ میں بستی کے تمام مسلمانوں کو اسلام کا مجرم سمجھتا ہوں انہیں سزا دی جائے ۔
جج : بھئی بستی کے مسلمان اسلام کے مجرم مگر کیسے ؟
ببن بھیا :ارے اس انگریز کا دماغ خراب ہو گیا کہ جو یہ کہے گا وہ مان لیا جائے اور مسلمانوں کو سزا دے دی جائے ۔
چمن بھائی : ارے ببن بھیا ! تم چھری تلے دم تو لینے دو مقدمہ تو دیکھو کیا چل رہاہے ۔
آرڈر آرڈر ۔۔۔عدالت میں ہوتے شور کو دیکھ کر جج نے اپنا لکڑی کا ہتھوڑا میز پر مارا ۔
جج : تو آپ نے بتایا نہیں کہ کس جرم میں مسلمانوں کو سزا دی جائے ۔
انگریز : بستی کے مسلمان اسلام کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔یہ جرم ہے بستی کے مسلمانوں کا ۔
ببن بھیا : ارے چمن بھائی یہ تو بالکل ہی سٹھیایاہوا لگ رہا ہے مجھے، بھلا مسلمان بھی اسلام کی تبلیغ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے ۔
یہ تو بالکل عجیب ہی بات کررہاہے ۔چمن بھائی نے اپنی رائے دی ۔۔۔
عدالت میں اور بھی لوگ موجود تھے چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ ایک مرتبہ پھر جج نے اپنا لکڑی کا ہتھوڑا میز پر مارا اور زورسے کہا : آرڈر آرڈر آرڈر
سب خاموش ہو گئے ۔
جج : مسلمان بھلا کس طرح اسلام کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ ہو سکتے ہیں ؟
انگریز :جج صاحب ! میں نے اسلام کا بغور مطالعہ کیا میں نے اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کیا میں نے اسلام کو سچا دین پایا اور کچھ عرصے کے بعد اسلام قبول کر لیا ۔
جج : سبحان اللہ
ارے چمن بھائی ! یہ گورا تو مسلمان ہے ۔ببن بھیا نے حیرت سے کہا ۔
ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں ۔۔۔چمن بھائی نے گورے کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
پھر اس نے یہ عجیب و غریب مقدمہ کیوں دائر کر دیا ہے ؟ عدالت میں موجود لوگ اس بات پر خوش بھی تھے کہ گورا مسلمان ہے اور اس بات پر حیران و پریشان بھی کہ اس نے بستی کے مسلمانوں پر یہ عجیب و غریب مقدمہ کیوں کر دیاہے؟
جج: بستی کے مسلمان کس طرح اسلام کے مجرم ہیں ؟
انگریز : جنابِ والا ! جب میں نے اسلام قبول کرلیا تومیں نے چاہا کہ میری بیوی اور بچے بھی اسلام قبول کر لیں اس کے لیے میں نے انہیں اسلام کی دعوت پیش کی ۔
جج : یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن اس میں بستی کے مسلمان کیسے مجرم ہو گئے ؟
انگریز : اسی جانب آ رہاہوں تو جب میں نے بیوی بچوں کو اسلام کی دعوت دی تو میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ میں پہلے اس مذہب کے ماننے
والوں کی معاشرتی زندگی دیکھنا چاہتی ہوں کیونکہ مذہب معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔
میں نے بیوی کی بات سنی اور کہا ٹھیک ہے تم میرے ساتھ مسلمانوں کی بستی میں چلو وہاں ہم کچھ دن گزارتے ہیں ۔
میں انہیں اس بستی میں لے آ یا اتفاق سے عید الاضحیٰ کے دن تھے لوگ اپنا اپنا جانور لا رہے تھے گلیاں بند کر دی گئیں مجھے میری اہلیہ اور بچوں کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔
میری اہلیہ نے مجھ سے کہا: کیا یہ مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے ؟
میں نے کہا : بالکل مسلمان اس روز سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیں ۔۔۔غریبوں میں گوشت تقسیم کرتے ہیں ۔۔۔آپس میں صلہ رحمی کرتے ہوئے رشتے داروں کے ہاں جاتے ہیں انہیں اپنے ہاں بلاتے ہیں ۔
میری اہلیہ نے کہا یہ تو بہت زبردست تہوار ہے ،لیکن کیا راستے بند کر دینا جانوروں کو گلیوں میں اس طرح باندھنا کیا یہ بھی اسی تہوار کا حصہ ہے ؟
میں نے کہا : نہیں بلکہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق راستے بند کرنا لوگوں کی حق تلفی ہے یہ بستی کے مسلمانوں کی غلطی ہے وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔
تو انہوں نے کیوں باندھے ہیں ؟کیا یہ مذہبی تہوار اس طرح مناتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو تنگ کرکے اللہ کا حکم مانیں؟میری بیوی نے تلخی سے کہا ۔
جنابِ والا ! میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ اسلام تو حسن سلوک کا حکم دیتا ہے ۔
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوۡا بِہٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوٰلِدَیۡنِ اِحْسٰنًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنۡۢبِ وَابْنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتْ اَیۡمٰنُکُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوۡرَۨا ﴿ۙ۳۶﴾ نساء
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔
میری اہلیہ نے کہا آپ درست کہہ رہے ہیں اسلام کی تعلیمات اچھی ہیں ، شاندار ہیں ، درست ہیں ، عمدہ ہیں لیکن ان مسلمانوں کے طرزِ معاشرت میں یہ تعلیمات نظر کیوں نہیں آ رہی ہیں ؟
جناب والا ! میں خاموش ہو گیا ۔
جج: لیکن اس میں بستی کے مسلمان اسلام کے مجرم کیسے ثابت ہوں گے ؟
انگریز: میں وہی عرض کررہاہوں بات مکمل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں ۔
جج: اجازت ہے ۔
غرض عید کے تین دن بستی میں قربانی ہو تی رہی اور عید کے تینوں دن گزر گئے لیکن اس کے بعد میرےگھر میں جانوروں کے خون ، گوبر اور آلائشوں کی بد بو آ نے لگی ہمارا کھانا پینا دشوار ہو گیا میری اہلیہ نے مجھ سے پوچھا : یہ مذہبی تہوار میں صفائی و ستھرائی کا خیال نہیں رکھتے ؟اسلام انہیں یہ نہیں سکھاتا؟
میں نے اپنی اہلیہ سے کہا : اسلام تو کہتا ہے صفائی نصف ایمان ہے لیکن یہ مسلمانوں کی غلطی ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔
میری اہلیہ نے کہا : جب یہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے اور اللہ و رسول کے احکامات بھی نہیں مانتے تو یہ کیسے مسلمان ہیں ؟
جنابِ والا ! میں خا موش ہو گیا ۔
جج :میں آپ کی بات سمجھ رہاہوں لیکن آج عدالت کا وقت ختم ہو چکا ہم کل یہیں سے مقدمہ شروع کریں گے ۔
ببن بھیا ! کچھ سمجھ میں آ ئی ؟ چمن بھائی ! نےپوچھا
ہاں سمجھ آ ئی کہ ہمارا مذہبی تہوار تو بہت شاندار ہے لیکن اس تہوار کو مناتے ہوئے ہم لوگوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے ۔۔۔ہم بہت سارے معاملات میں اللہ و رسول ﷺ کے احکام پر عمل نہیں کرتے ۔ببن بھیا نے بڑی سمجھداری سے تسلیم کیا ۔۔
ببن بھیا ! کل دیکھتے ہیں جج صاحب کیا فیصلہ سُناتے ہیں ۔
2
دوسرا روز
دوسرے دن عدالت کچھا کھچ بھری ہو ئی تھی جیسے جیسے یہ خبر بستی میں عام ہو ئی لوگ عدالتی کاروائی دیکھنے اور سننے کے عدالت کے باہر جمع ہو نے لگے دیکھیں کہ عدالت اس عجیب و غریب مقدمے کا کیا فیصلہ سُناتی ہے ؟
جج نے انگریز سے کہا جی ! تو آپ کا کہنا کہ بستی کے مسلمان اسلام کے مجرم ہیں ؟
انگریز ! جی جج صاحب ۔
ہم مسلمانوں کی بستی میں رہتے رہے میرے بچے اور اہلیہ نے مسلمانوں کے طرزِ معاشرت کو ان میں رہ کر دیکھتے رہے میری اہلیہ ایک دن پڑوس میں گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ پڑوسن رو رہی ہے ۔
میری اہلیہ نے اس عورت سے پوچھا کیوں رو رہی ہو؟
تو اس عورت نے بتایا کہ عنقریب اس کی بیٹی کی شادی ہے اور جہیز دینے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے لڑکے والوں نے لڑکی کی غربت دیکھ کر اور کچھ نہ ملنے کی وجہ سے شادی کرنے سے ہی انکار کر دیاہے ۔
میری اہلیہ واپس گھر آ ئیں اور پوچھا کیا جہیز کا تعلق بھی دین ِ اسلام سے ہے ؟
میں عجبب تذبذب میں پڑ گیا کیا کہوں اور کیا نہ کہوں ؟ میں
میں نے بیوی کی بات سنی اور کہا ٹھیک ہے تم میرے ساتھ مسلمانوں کی بستی میں چلو وہاں ہم کچھ دن گزارتے ہیں ۔
میں انہیں اس بستی میں لے آ یا اتفاق سے عید الاضحیٰ کے دن تھے لوگ اپنا اپنا جانور لا رہے تھے گلیاں بند کر دی گئیں مجھے میری اہلیہ اور بچوں کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔
میری اہلیہ نے مجھ سے کہا: کیا یہ مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے ؟
میں نے کہا : بالکل مسلمان اس روز سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیں ۔۔۔غریبوں میں گوشت تقسیم کرتے ہیں ۔۔۔آپس میں صلہ رحمی کرتے ہوئے رشتے داروں کے ہاں جاتے ہیں انہیں اپنے ہاں بلاتے ہیں ۔
میری اہلیہ نے کہا یہ تو بہت زبردست تہوار ہے ،لیکن کیا راستے بند کر دینا جانوروں کو گلیوں میں اس طرح باندھنا کیا یہ بھی اسی تہوار کا حصہ ہے ؟
میں نے کہا : نہیں بلکہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق راستے بند کرنا لوگوں کی حق تلفی ہے یہ بستی کے مسلمانوں کی غلطی ہے وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔
تو انہوں نے کیوں باندھے ہیں ؟کیا یہ مذہبی تہوار اس طرح مناتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو تنگ کرکے اللہ کا حکم مانیں؟میری بیوی نے تلخی سے کہا ۔
جنابِ والا ! میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ اسلام تو حسن سلوک کا حکم دیتا ہے ۔
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوۡا بِہٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوٰلِدَیۡنِ اِحْسٰنًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنۡۢبِ وَابْنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتْ اَیۡمٰنُکُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوۡرَۨا ﴿ۙ۳۶﴾ نساء
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔
میری اہلیہ نے کہا آپ درست کہہ رہے ہیں اسلام کی تعلیمات اچھی ہیں ، شاندار ہیں ، درست ہیں ، عمدہ ہیں لیکن ان مسلمانوں کے طرزِ معاشرت میں یہ تعلیمات نظر کیوں نہیں آ رہی ہیں ؟
جناب والا ! میں خاموش ہو گیا ۔
جج: لیکن اس میں بستی کے مسلمان اسلام کے مجرم کیسے ثابت ہوں گے ؟
انگریز: میں وہی عرض کررہاہوں بات مکمل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں ۔
جج: اجازت ہے ۔
غرض عید کے تین دن بستی میں قربانی ہو تی رہی اور عید کے تینوں دن گزر گئے لیکن اس کے بعد میرےگھر میں جانوروں کے خون ، گوبر اور آلائشوں کی بد بو آ نے لگی ہمارا کھانا پینا دشوار ہو گیا میری اہلیہ نے مجھ سے پوچھا : یہ مذہبی تہوار میں صفائی و ستھرائی کا خیال نہیں رکھتے ؟اسلام انہیں یہ نہیں سکھاتا؟
میں نے اپنی اہلیہ سے کہا : اسلام تو کہتا ہے صفائی نصف ایمان ہے لیکن یہ مسلمانوں کی غلطی ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔
میری اہلیہ نے کہا : جب یہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے اور اللہ و رسول کے احکامات بھی نہیں مانتے تو یہ کیسے مسلمان ہیں ؟
جنابِ والا ! میں خا موش ہو گیا ۔
جج :میں آپ کی بات سمجھ رہاہوں لیکن آج عدالت کا وقت ختم ہو چکا ہم کل یہیں سے مقدمہ شروع کریں گے ۔
ببن بھیا ! کچھ سمجھ میں آ ئی ؟ چمن بھائی ! نےپوچھا
ہاں سمجھ آ ئی کہ ہمارا مذہبی تہوار تو بہت شاندار ہے لیکن اس تہوار کو مناتے ہوئے ہم لوگوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے ۔۔۔ہم بہت سارے معاملات میں اللہ و رسول ﷺ کے احکام پر عمل نہیں کرتے ۔ببن بھیا نے بڑی سمجھداری سے تسلیم کیا ۔۔
ببن بھیا ! کل دیکھتے ہیں جج صاحب کیا فیصلہ سُناتے ہیں ۔
2
دوسرا روز
دوسرے دن عدالت کچھا کھچ بھری ہو ئی تھی جیسے جیسے یہ خبر بستی میں عام ہو ئی لوگ عدالتی کاروائی دیکھنے اور سننے کے عدالت کے باہر جمع ہو نے لگے دیکھیں کہ عدالت اس عجیب و غریب مقدمے کا کیا فیصلہ سُناتی ہے ؟
جج نے انگریز سے کہا جی ! تو آپ کا کہنا کہ بستی کے مسلمان اسلام کے مجرم ہیں ؟
انگریز ! جی جج صاحب ۔
ہم مسلمانوں کی بستی میں رہتے رہے میرے بچے اور اہلیہ نے مسلمانوں کے طرزِ معاشرت کو ان میں رہ کر دیکھتے رہے میری اہلیہ ایک دن پڑوس میں گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ پڑوسن رو رہی ہے ۔
میری اہلیہ نے اس عورت سے پوچھا کیوں رو رہی ہو؟
تو اس عورت نے بتایا کہ عنقریب اس کی بیٹی کی شادی ہے اور جہیز دینے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے لڑکے والوں نے لڑکی کی غربت دیکھ کر اور کچھ نہ ملنے کی وجہ سے شادی کرنے سے ہی انکار کر دیاہے ۔
میری اہلیہ واپس گھر آ ئیں اور پوچھا کیا جہیز کا تعلق بھی دین ِ اسلام سے ہے ؟
میں عجبب تذبذب میں پڑ گیا کیا کہوں اور کیا نہ کہوں ؟ میں
نے کہا کہ کوئی اپنی اولاد کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے اسلام میں یہ مباح ہے ۔
میری اہلیہ نے مجھ سے کہا :یہ مسلمان اپنے آپ پر ہی کیوں ظلم کررہاہے ؟یہ اسلامی تعلیمات میں پناہ کیوں نہیں لیتا ؟ جو چیز اسلام نے اس پر فرض و واجب نہیں کی یہ اسے اپنے اوپر فرض قرار دے چکاہے ۔
جج : پھر کیا ہوا؟
انگریز : میں نے اپنی اہلیہ کو قرآن کی یہ آیت سُنائی ۔
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوۡا بِہٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوٰلِدَیۡنِ اِحْسٰنًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنۡۢبِ وَابْنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتْ اَیۡمٰنُکُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوۡرَۨا ﴿ۙ۳۶﴾ نساء
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔
اسلام تو حسن سلوک کاحکم دے رہاہے ۔۔۔اسلام کی تعلیمات تو بہت شاندارہیں۔میری اہلیہ نے کہا : پھر ان مسلمانوں کا یہ حال کیوں ہے ؟ میں خا موش ہو گیا ۔
جج : لیکن یہ تو بتائیے آ خر بستی کے مسلمان کیسے اسلام کے مجرم ہوگئے ؟
انگریز : جج صاحب ! میری بیوی جو اسلام قبول کرنے سے قبل اسلام کے طرزِ معاشرت کو دیکھنے مسلمانوں میں آ ئی تھی اس نے اس کے علاوہ بھی مسلمانوں کے طرز معاشرت کو دیکھا ۔۔۔گندگی کے ڈھیر ۔۔۔ دھوکہ دہی ۔۔۔ملاوٹ ۔۔۔غیبت ۔۔۔چغلی ۔۔ حسد ۔۔۔انتقامی کاروائی ۔۔۔۔گالی گلوچ ۔۔۔تعلیم کی کمی ۔۔۔بے مقصد جذباتیت ۔۔۔ صحت کے مسائل ۔۔۔انصاف کے مسائل اور بہت ساری باتیں جو اس ایک مقدمے میں ممکن نہیں ۔
جج : لیکن یہ تو بتائیے آ خر بستی کے مسلمان کیسے اسلام کے مجرم ہوگئے ؟
انگریز : جج صاحب میں نے آپ کو اس مقدمے کی ابتداء ہی میں بتایا تھا کہ میں نے اپنی اہلیہ کو اسلام کی دعوت دی تو میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ میں پہلے اس دین کے ماننے والوں کی معاشرتی زندگی دیکھنا چاہتی ہوں کیونکہ دین معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔
میں اسے مسلمانوں کی اس بستی میں لے آ یا یہاں آ کر اس نے جب یہ ما حول دیکھا تو اس نے کہا : ان مسلمانوں کا طرزِ معاشرت اسے پسند نہیں آ یا اور وہ اسلام قبول نہیں کرے گی ۔
جج صاحب ! میرا مقدمہ یہ ہے کہ بستی کہ مسلمان اسلام پسند ہیں اسلام پابند نہیں ہیں ۔۔۔اس بستی کے مسلمانوں کاطرزِ معاشرت اسلام کے عین مطابق نہیں ہے ۔جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ متا ثر ہو رہی ہے لوگ اسلام کی جانب آ نے سے کترارہے ہیں ۔ بستی کے مسلمانوں کا طرزِ عمل اسلام کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔
جج کی آنکھوں میں آنسو تھے اور جج نے بستی کے مسلمانوں سے کہا اس مقدمے کا فیصلہ بستی والے خود کریں ۔۔۔ ببن بھیا اور چمن بھائی سمیت بستی کے تمام مسلمانوں کے سر شرم سے جھکے ہوئے تھے ۔
پیارے دوستو!
اگر آپ چاہتے ہیں آپ اسلام کے مجرم نہ بنیں تو اسلام کو عملی طور پر اپنائیں آپ کا طرزِ زندگی اسلام کے مطابق ہو گا تو اسلام کا پیغام ساری دنیا میں خود بخود پھیلتا چلا جائے گا لوگ اسلام میں داخل ہوتے چلے جائیں گے آج بھی اسلام جہاں جہاں پہنچا اس میں ہمارے اسلاف کے کردار کا بڑا حصہ ہے ۔۔۔۔اسلام تبلیغ سے زیادہ کردار سےپھیلتا ہے اپنے کردار میں اسلام کو لے آ ئیے اسلام پھیلتا چلا جائے گا ۔
میری اہلیہ نے مجھ سے کہا :یہ مسلمان اپنے آپ پر ہی کیوں ظلم کررہاہے ؟یہ اسلامی تعلیمات میں پناہ کیوں نہیں لیتا ؟ جو چیز اسلام نے اس پر فرض و واجب نہیں کی یہ اسے اپنے اوپر فرض قرار دے چکاہے ۔
جج : پھر کیا ہوا؟
انگریز : میں نے اپنی اہلیہ کو قرآن کی یہ آیت سُنائی ۔
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِکُوۡا بِہٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوٰلِدَیۡنِ اِحْسٰنًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنۡۢبِ وَابْنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتْ اَیۡمٰنُکُمْ ؕ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوۡرَۨا ﴿ۙ۳۶﴾ نساء
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) بیشک اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخرکرنے والا ہو۔
اسلام تو حسن سلوک کاحکم دے رہاہے ۔۔۔اسلام کی تعلیمات تو بہت شاندارہیں۔میری اہلیہ نے کہا : پھر ان مسلمانوں کا یہ حال کیوں ہے ؟ میں خا موش ہو گیا ۔
جج : لیکن یہ تو بتائیے آ خر بستی کے مسلمان کیسے اسلام کے مجرم ہوگئے ؟
انگریز : جج صاحب ! میری بیوی جو اسلام قبول کرنے سے قبل اسلام کے طرزِ معاشرت کو دیکھنے مسلمانوں میں آ ئی تھی اس نے اس کے علاوہ بھی مسلمانوں کے طرز معاشرت کو دیکھا ۔۔۔گندگی کے ڈھیر ۔۔۔ دھوکہ دہی ۔۔۔ملاوٹ ۔۔۔غیبت ۔۔۔چغلی ۔۔ حسد ۔۔۔انتقامی کاروائی ۔۔۔۔گالی گلوچ ۔۔۔تعلیم کی کمی ۔۔۔بے مقصد جذباتیت ۔۔۔ صحت کے مسائل ۔۔۔انصاف کے مسائل اور بہت ساری باتیں جو اس ایک مقدمے میں ممکن نہیں ۔
جج : لیکن یہ تو بتائیے آ خر بستی کے مسلمان کیسے اسلام کے مجرم ہوگئے ؟
انگریز : جج صاحب میں نے آپ کو اس مقدمے کی ابتداء ہی میں بتایا تھا کہ میں نے اپنی اہلیہ کو اسلام کی دعوت دی تو میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ میں پہلے اس دین کے ماننے والوں کی معاشرتی زندگی دیکھنا چاہتی ہوں کیونکہ دین معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔
میں اسے مسلمانوں کی اس بستی میں لے آ یا یہاں آ کر اس نے جب یہ ما حول دیکھا تو اس نے کہا : ان مسلمانوں کا طرزِ معاشرت اسے پسند نہیں آ یا اور وہ اسلام قبول نہیں کرے گی ۔
جج صاحب ! میرا مقدمہ یہ ہے کہ بستی کہ مسلمان اسلام پسند ہیں اسلام پابند نہیں ہیں ۔۔۔اس بستی کے مسلمانوں کاطرزِ معاشرت اسلام کے عین مطابق نہیں ہے ۔جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ متا ثر ہو رہی ہے لوگ اسلام کی جانب آ نے سے کترارہے ہیں ۔ بستی کے مسلمانوں کا طرزِ عمل اسلام کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔
جج کی آنکھوں میں آنسو تھے اور جج نے بستی کے مسلمانوں سے کہا اس مقدمے کا فیصلہ بستی والے خود کریں ۔۔۔ ببن بھیا اور چمن بھائی سمیت بستی کے تمام مسلمانوں کے سر شرم سے جھکے ہوئے تھے ۔
پیارے دوستو!
اگر آپ چاہتے ہیں آپ اسلام کے مجرم نہ بنیں تو اسلام کو عملی طور پر اپنائیں آپ کا طرزِ زندگی اسلام کے مطابق ہو گا تو اسلام کا پیغام ساری دنیا میں خود بخود پھیلتا چلا جائے گا لوگ اسلام میں داخل ہوتے چلے جائیں گے آج بھی اسلام جہاں جہاں پہنچا اس میں ہمارے اسلاف کے کردار کا بڑا حصہ ہے ۔۔۔۔اسلام تبلیغ سے زیادہ کردار سےپھیلتا ہے اپنے کردار میں اسلام کو لے آ ئیے اسلام پھیلتا چلا جائے گا ۔
استقامت حاصل کرنے کا پہلا ذریعہ اور یہ ذریعہ سب سے زیادہ قوی اور مضبوط ذریعہ ہے وہ ہے صاحب استقامت لوگوں کی صحبت میں رہنا،جن لوگوں کو دین پر استقامت حاصل ہے، نیکیوں پر، اعمال صالحہ پر، خوف خدا پر، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر، زہد پر، تقوے پر، صبرپہ، شکر پہ، حلم پہ ،اخلاق پہ، بردباری پہ، نیک اعمال پہ، ملنساری پہ، جن لوگوں کو ان چیزوں پر استقامت حاصل ہے ان کی صحبت میں بیٹھا جائے،ان کے پاس بیٹھنے کی برکت سے آدمی کو یہ چیزیں استقامت نصیب ہو جاتی ہیں، یہ سب سے قوی ترین ذریعہ ہے اسی لیے جو استقامت صحابہ کرام کو نصیب ہوئی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی کیونکہ صحابہ کرام کو صحبت ملی سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی، تو جتنی عظیم ترین صحبت تھی اتنا ہی ایمان اور اعمال صالحہ پر پختگی عظیم ہو گئی، اور جن صحابہ کو جتنی قربت اور جتنی صحبت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نصیب ہوئی ان کے اندر استقامت اتنی ہی زیادہ تھی۔