استقامت حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کے احوال کا مطالعہ کیا جائے، مثال کے طور پہ سب سے پہلے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں جیسے سیرت مصطفی ،سیرت رسول عربی ،یہ کتابیں موجود ہیں تو ان کتابوں کا مطالعہ کریں پھر اس کے بعد صحابہ کرام کی سیرتوں کا مطالعہ کریں، پھر اس کے بعد اولیاء کرام کی سیرتوں کا مطالعہ کریں، پھر اس کے بعد جو علماء کبار،علماء عظام گزرے ہیں ان کی سیرتوں کا مطالعہ کریں، تو نیک لوگوں کی اور صالحین کی جب ہم زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب اسے پڑھتے ہیں تو ہمارے دل کے اندر استقامت پیدا ہوتی ہے اور یہ مطالعہ یوں نہ ہو کہ دو دن مطالعہ کیا اور دو دن میں پوری کتاب پڑھ ڈالی اور اس کے بعد فارغ ، بزرگان دین کی زندگی کا مطالعہ ایسے سمجھا جائے کہ یہ ہماری زندگی کے معمولات میں داخل ہو جائے تو اب اگر ہر ہفتے ایک دو اولیاء کرام کے حالات پڑھتے ہیں سیرت کو پڑھتے ہیں صحابہ کرام کے حالات کو پڑھتے ہیں تو ہمارے دل کو استقامت مسلسل ملتی رہے گی، استقامت مضبوط ہوتی رہے گی تو یوں صالحین کے احوال کا مطالعہ کرنا یہ استقامت حاصل کرنے کا بہت عمدہ ذریعہ ہے۔
مفید تحریر۔۔۔۔
(کاپی پیسٹ)
ایک دفعہ ایک گدھا ایک گہرے کنویں میں جا گرا اور زور زور سے ہانکنے لگا،گدھے کا مالک کسان تھا جو کنویں کے کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا،جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گدھا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں، اور کنویں کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا، اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں،یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور کنواں پاٹنا شروع کر دیا، سب کے ہاتھ میں ایک ایک پھاوڑا تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ کنویں میں ڈال رہے تھے..
گدھا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی، کچھ ہی لمحے بعد گدھا بالکل خاموش سا ہو گیا، جب کسان نے کنویں میں جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گدھے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے،یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا،کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گدھا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے کنویں کے منڈیر تک پہنچ گیا اور باہر نکل پڑا،یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آگئے، ان کی حیرانی قابل دید تھی۔
(عربی تحریر کا خلاصہ)
سبق:
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے، ہماری کردار کشی کی جائے، ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے، ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے، لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں، بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کو شانہ اچک کر نیچے گراتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے، زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں...خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں اور بھونکنے والے بھونکتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا۔۔۔۔
(کاپی پیسٹ)
ایک دفعہ ایک گدھا ایک گہرے کنویں میں جا گرا اور زور زور سے ہانکنے لگا،گدھے کا مالک کسان تھا جو کنویں کے کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا،جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گدھا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں، اور کنویں کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا، اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں،یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور کنواں پاٹنا شروع کر دیا، سب کے ہاتھ میں ایک ایک پھاوڑا تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ کنویں میں ڈال رہے تھے..
گدھا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی، کچھ ہی لمحے بعد گدھا بالکل خاموش سا ہو گیا، جب کسان نے کنویں میں جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گدھے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے،یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا،کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گدھا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے کنویں کے منڈیر تک پہنچ گیا اور باہر نکل پڑا،یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آگئے، ان کی حیرانی قابل دید تھی۔
(عربی تحریر کا خلاصہ)
سبق:
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے، ہماری کردار کشی کی جائے، ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے، ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے، لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں، بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کو شانہ اچک کر نیچے گراتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے، زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں...خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں اور بھونکنے والے بھونکتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا۔۔۔۔
*اُردو سے متعلق اہم معلومات*
1- اردو زبان کےتقریبا 54009 الفاظ ہیں۔
2- ریختہ کا لفظ اردو زبان کے لئے بادشاہ اکبر اعظم کےعہد میں استعمال ہوا۔
3- ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے۔
4- افسانہ ہمارے ہاں انگریزی زبان کےادب سے آیا ہے۔
5- کہہ مکرنی اردو نثر میں سب سے قدیم صنف ہے۔
6- ترقی پسند تحریک کےحوالے سے افسانوی کے پہلے مجموعے کا نام انگارے ہے۔
7- اردو ڈرامے کاآغاز لکھنؤ سے انیسویں صدی میں ہوا۔
8- جدید اردو نظم کا آغاز انجمن پنجاب لاہور سے ہوا۔
9- علامہ اقبال کا سب سے پہلا شعری مجموعہ اسرارخودی ہے۔
10- علامہ راشدالخیری کو طبقہ نسواں کا محسن قرار دیا گیا۔
11- جس شاعری میں نقطہ نہ آئے اسے بے نقط شاعری کہتے ہیں۔
12- فارسی ایران کی زبان ہے۔
13- مغلوں کے زمانے میں عربی اور فارسی سرکاری زبانیں تھیں۔
14- اردو کو 1832 میں برصغیر میں سرکاری زبان کا درجہ ملا۔
15- اردو کی پہلی منظوم کتاب کدم راو پدم راو ہے۔
16- مولانا حالی نے ""مسدس حالی"" سر سید کےکہنے پر لکھی۔
17- الطاف حسین حالی مرزا غالب کے شاگرد ہے۔
18- مخزن رسالہ شیخ عبدالقادر نے اپریل 1901ء میں شائع کیا۔
19- اردو کا پہلا سفر نامہ عجائبات فرہنگ یوسف خان کمبل پوس ہے۔
20- اسماعیل میرٹھی بچوں کے شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔
21- دارالمصفین اعظم گڑھ کے بانی مولانا شبلی نعمانی تھے۔
22- فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔
23- علامہ اقبال کی پہلی نثری کتاب ""علم الاقتصاد ""اقتصادیات کے موضوع پر ہے۔
24- فیض احمد فیض واحد پاکستانی شاعر ہیں جہنیں روسی ایوارڈ لنین پرائز ملا۔
25- پاکستان کا قومی ترانہ حفیظ جالندھری کی کتاب چراغ سحر میں ہے۔
26- شکوہ جواب شکوہ علامہ اقبال کی کتاب بانگ دار میں ہے۔
27- مسدسِ حالی کا دوسرا نام مدوجزر اسلام ہے۔
28- زمیندار اخبار مولانا ظفر علی خان نےجاری کیا۔
29- اردوکا ہمدرد اور انگریزی کا ""کا مریڈ""مولانا محمد علی جوہر نےجاری کیا۔
30- اردو کا پہلا ڈرامہ اندر سبھا امانت لکھنوی کا ہے۔
31- آغاحشر کاشمیری کو اردو ڈرامے کا شیکسپیر کہاجاتا ہے۔
32- غزل کا پہلا شعر مطلع اور آخری شعر مقطع کہلاتا ہے۔
33- علامہ اقبال کے خطوط ""اقبال نامہ""" کےنام سے شائع ہوئے۔
34- قراۃالعین حیدر اردو کے افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی تھی۔
35- تہزیب الاخلاق رسالہ سر سید احمد خاں نے 1871ً میں شائع کیا۔
36- اردو کا پہلا اخبار ""جام جہاں"" کلکتہ سے 1822ء میں شائع ہوا۔
37- اردوکی نظم ""آدمی نامہ"" نظیر آکبر آبادی کی ہے۔
38- بابائے اردو، مولوی عبدالحق کو کہا جاتا ہے۔
39- اردو غزل کا باقاعدہ آغاز ولی دکنی نے کیا تھا۔
40- غزل کے لغوی معنی ہے، عورتوں سے باتیں کرنا۔
41- اکیلے شعر کو فرد کہاجاتا ہے۔
42- شعر کےآخر میں تکرار لفظی کو ردیف کہتے ہیں۔
43- پیام مشرق علامہ اقبال کی فارسی کتاب ہے جس کا دیپاچہ اردو میں ہے۔
44- ایم اے او کالج علی گڑھ 1920 میں یونیورسٹی کا درجہ ملا۔
45- اردو کی پہلی خاتون ناول نگار رشیدہ النساء بیگم ہیں۔
46- ترقی پسد تحریک کے پہلے صدر منشی پریم چند ہیں۔
47- اردو کےپہلے ناول نگار ڈپٹی نزیر احمد ہیں۔
48- چوھدری فضل الحق نےاپنی کتاب ""زندگی"" گورکھپوری جیل میں لکھی۔
49- علامہ اقبال کی پہلی نظم ہمالہ ہے۔
50- اردو ہندی تنازعہ 1967ء کو بنارس سے شروع ہوا۔
51- ریختہ کے لفظی معنی ایجاد کرنا ہے۔
52- رابندر ناتھ ٹیگور پہلے ایشائی ہیں جن کو 1913ء میں نوبل انعام ملا۔
53- یادوں کی بارات جوش میلح آبادی کی آپ بیتی ہے۔
54- آواز دوست کے مصنف مختار مسعود ہیں۔
55- جہان دانش احسان دانش کی آپ بیتی ہے۔
56- اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کے مصنف ڈاکٹر سلیم اختر ہیں۔
57- اپنا گریبان چاک ڈاکٹر جاوید اقبال کی آپ بیتی ہے۔
58- کاغزی گھاٹ خالدہ حسین کا ناول ہے۔
59- آب حیات کے مصنف مولانا محمد حسین آزاد ہیں۔
60- راجہ گدھ ناول بانو قدسیہ کا ہے۔
61- اردو شعر اء کا پہلا تزکرہ نکات الشعراء میر تقی میر ہے۔
62- اردو کی پہلی تنقیدی کتاب مقدمہ شعروشاعری مولاناحالی نے لکھی۔
63- یاد گار غالب اور حیات جاوید کے مصنف مولاناحالی ہیں۔
64- سحرالبیان کےخالق میر حسن ہیں۔
65- ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں ابن انشاء کا سفر نامہ ہے۔
66- تزکرہ اور غبار خاطر مولانا ابوالکلام کی تصانیف ہیں۔
67- رسالہ اسباب بغاوت ہند کے مصنف سرسید احمد خان ہیں۔
68- بلھے شاہ کا اصل نام سید عبدللہ ہے۔
69- اردو کےپہلے مورخ کا نام رام بابو سکسینہ ہے۔
70- اردو کی پہلی گرائمر انشاءاللہ خان نے لکھی۔
71- خطوط نگاری کے بانی رجب علی بیگ ہیں۔
72- اردو کی طویل ترین نظم مہا بھارت ہے۔
73- آزاد نظم کے بانی ن-م راشد ہیں۔
74- سید احرار لقب حسرت موہانی کو ملا۔
75- حفیظ جالندھری کوشاعر اسلام کہا جاتا ہیے۔
76- پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ ہے۔
77- اہل لاہور کو زندہ دلان لاہور کا لقب سر سید احمد خان نے دیا۔
1- اردو زبان کےتقریبا 54009 الفاظ ہیں۔
2- ریختہ کا لفظ اردو زبان کے لئے بادشاہ اکبر اعظم کےعہد میں استعمال ہوا۔
3- ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے۔
4- افسانہ ہمارے ہاں انگریزی زبان کےادب سے آیا ہے۔
5- کہہ مکرنی اردو نثر میں سب سے قدیم صنف ہے۔
6- ترقی پسند تحریک کےحوالے سے افسانوی کے پہلے مجموعے کا نام انگارے ہے۔
7- اردو ڈرامے کاآغاز لکھنؤ سے انیسویں صدی میں ہوا۔
8- جدید اردو نظم کا آغاز انجمن پنجاب لاہور سے ہوا۔
9- علامہ اقبال کا سب سے پہلا شعری مجموعہ اسرارخودی ہے۔
10- علامہ راشدالخیری کو طبقہ نسواں کا محسن قرار دیا گیا۔
11- جس شاعری میں نقطہ نہ آئے اسے بے نقط شاعری کہتے ہیں۔
12- فارسی ایران کی زبان ہے۔
13- مغلوں کے زمانے میں عربی اور فارسی سرکاری زبانیں تھیں۔
14- اردو کو 1832 میں برصغیر میں سرکاری زبان کا درجہ ملا۔
15- اردو کی پہلی منظوم کتاب کدم راو پدم راو ہے۔
16- مولانا حالی نے ""مسدس حالی"" سر سید کےکہنے پر لکھی۔
17- الطاف حسین حالی مرزا غالب کے شاگرد ہے۔
18- مخزن رسالہ شیخ عبدالقادر نے اپریل 1901ء میں شائع کیا۔
19- اردو کا پہلا سفر نامہ عجائبات فرہنگ یوسف خان کمبل پوس ہے۔
20- اسماعیل میرٹھی بچوں کے شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔
21- دارالمصفین اعظم گڑھ کے بانی مولانا شبلی نعمانی تھے۔
22- فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔
23- علامہ اقبال کی پہلی نثری کتاب ""علم الاقتصاد ""اقتصادیات کے موضوع پر ہے۔
24- فیض احمد فیض واحد پاکستانی شاعر ہیں جہنیں روسی ایوارڈ لنین پرائز ملا۔
25- پاکستان کا قومی ترانہ حفیظ جالندھری کی کتاب چراغ سحر میں ہے۔
26- شکوہ جواب شکوہ علامہ اقبال کی کتاب بانگ دار میں ہے۔
27- مسدسِ حالی کا دوسرا نام مدوجزر اسلام ہے۔
28- زمیندار اخبار مولانا ظفر علی خان نےجاری کیا۔
29- اردوکا ہمدرد اور انگریزی کا ""کا مریڈ""مولانا محمد علی جوہر نےجاری کیا۔
30- اردو کا پہلا ڈرامہ اندر سبھا امانت لکھنوی کا ہے۔
31- آغاحشر کاشمیری کو اردو ڈرامے کا شیکسپیر کہاجاتا ہے۔
32- غزل کا پہلا شعر مطلع اور آخری شعر مقطع کہلاتا ہے۔
33- علامہ اقبال کے خطوط ""اقبال نامہ""" کےنام سے شائع ہوئے۔
34- قراۃالعین حیدر اردو کے افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم کی بیٹی تھی۔
35- تہزیب الاخلاق رسالہ سر سید احمد خاں نے 1871ً میں شائع کیا۔
36- اردو کا پہلا اخبار ""جام جہاں"" کلکتہ سے 1822ء میں شائع ہوا۔
37- اردوکی نظم ""آدمی نامہ"" نظیر آکبر آبادی کی ہے۔
38- بابائے اردو، مولوی عبدالحق کو کہا جاتا ہے۔
39- اردو غزل کا باقاعدہ آغاز ولی دکنی نے کیا تھا۔
40- غزل کے لغوی معنی ہے، عورتوں سے باتیں کرنا۔
41- اکیلے شعر کو فرد کہاجاتا ہے۔
42- شعر کےآخر میں تکرار لفظی کو ردیف کہتے ہیں۔
43- پیام مشرق علامہ اقبال کی فارسی کتاب ہے جس کا دیپاچہ اردو میں ہے۔
44- ایم اے او کالج علی گڑھ 1920 میں یونیورسٹی کا درجہ ملا۔
45- اردو کی پہلی خاتون ناول نگار رشیدہ النساء بیگم ہیں۔
46- ترقی پسد تحریک کے پہلے صدر منشی پریم چند ہیں۔
47- اردو کےپہلے ناول نگار ڈپٹی نزیر احمد ہیں۔
48- چوھدری فضل الحق نےاپنی کتاب ""زندگی"" گورکھپوری جیل میں لکھی۔
49- علامہ اقبال کی پہلی نظم ہمالہ ہے۔
50- اردو ہندی تنازعہ 1967ء کو بنارس سے شروع ہوا۔
51- ریختہ کے لفظی معنی ایجاد کرنا ہے۔
52- رابندر ناتھ ٹیگور پہلے ایشائی ہیں جن کو 1913ء میں نوبل انعام ملا۔
53- یادوں کی بارات جوش میلح آبادی کی آپ بیتی ہے۔
54- آواز دوست کے مصنف مختار مسعود ہیں۔
55- جہان دانش احسان دانش کی آپ بیتی ہے۔
56- اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کے مصنف ڈاکٹر سلیم اختر ہیں۔
57- اپنا گریبان چاک ڈاکٹر جاوید اقبال کی آپ بیتی ہے۔
58- کاغزی گھاٹ خالدہ حسین کا ناول ہے۔
59- آب حیات کے مصنف مولانا محمد حسین آزاد ہیں۔
60- راجہ گدھ ناول بانو قدسیہ کا ہے۔
61- اردو شعر اء کا پہلا تزکرہ نکات الشعراء میر تقی میر ہے۔
62- اردو کی پہلی تنقیدی کتاب مقدمہ شعروشاعری مولاناحالی نے لکھی۔
63- یاد گار غالب اور حیات جاوید کے مصنف مولاناحالی ہیں۔
64- سحرالبیان کےخالق میر حسن ہیں۔
65- ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں ابن انشاء کا سفر نامہ ہے۔
66- تزکرہ اور غبار خاطر مولانا ابوالکلام کی تصانیف ہیں۔
67- رسالہ اسباب بغاوت ہند کے مصنف سرسید احمد خان ہیں۔
68- بلھے شاہ کا اصل نام سید عبدللہ ہے۔
69- اردو کےپہلے مورخ کا نام رام بابو سکسینہ ہے۔
70- اردو کی پہلی گرائمر انشاءاللہ خان نے لکھی۔
71- خطوط نگاری کے بانی رجب علی بیگ ہیں۔
72- اردو کی طویل ترین نظم مہا بھارت ہے۔
73- آزاد نظم کے بانی ن-م راشد ہیں۔
74- سید احرار لقب حسرت موہانی کو ملا۔
75- حفیظ جالندھری کوشاعر اسلام کہا جاتا ہیے۔
76- پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ ہے۔
77- اہل لاہور کو زندہ دلان لاہور کا لقب سر سید احمد خان نے دیا۔
78- علامہ اقبال اپنے آپ کو مولانا روم کاشاگرد کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
79- سنسکرت اور فارسی ایشیاء براعظم کی زبانیں ہیں۔
80- سنسکرت برصغیر میں مختلف وقتوں میں دو مرتبہ درباری زبان بنی۔
81- اردو آج دو رسم الخطوط میں لکھی جاتی تھی۔
82- برج بھاشا بین الصوبائی لہجہ تھا۔
83- پنجابی ،دکنی، سندھی، اور برج بھاشا کا اصل مخرج ہراکرت تھا۔
84- جب سندھ کو اسلامی لشکر نے فتح کیا اس میں عربی اور فارسی زبان بولنے والے لوگ شامل تھے۔
85- اردو کی پہلی تحریک حضرت گیسو دراز قرار دیا جاتا ہے۔
86- سب سے پہلےغزل گو شاعر
ولی دکنی ہے۔
87- قران مجید کا اردو میں پہلا لفظی ترجمہ شاہ رفیع الدین نے کیا ( 1786ء)۔
88- سر سید نے خطبات احمدیہ انگلستان میں کتاب لکھی تھی۔
89- روسو کی اس آواز کو رومانوی تحریک کا مطلع کہا جاتا ہے۔ انسان آزاد پیدا ہو مگر جہان دیکھو وہ پایہ زنجیر ہے۔
90- دس کتابیں یہ مرکب عددی ہے۔
91- فعل اور مصدر میں باہمی فرق فعل میں ہمیشہ زمانہ پایا جاتا ہے مصدر میں نہیں۔
92- مہر نیمروز غالب کی تصنیف ہے۔
93- شاہنامہ اسلام حفیظ جالندھری کی تصنیف ہے۔
94- مصحفی کے آٹھ دیوان ہے۔
95- دہلی مرحوم حالی کا مرثیہ ہے۔
96- جدید اردو بثر سب سے پہلے سرسید نے لکھی۔
97- زندہ رود کے مصنف جاویداقبال ہیں۔
98- اردو میں مثنوی نگاری فارسی کے توسط سے زیر اثر آئی۔
99- قصیدے کے پانچ اجزائے ہیں نشیب، گریز، مدح، عرض مطلب، مدعا۔
*نقل وچسپاں*
79- سنسکرت اور فارسی ایشیاء براعظم کی زبانیں ہیں۔
80- سنسکرت برصغیر میں مختلف وقتوں میں دو مرتبہ درباری زبان بنی۔
81- اردو آج دو رسم الخطوط میں لکھی جاتی تھی۔
82- برج بھاشا بین الصوبائی لہجہ تھا۔
83- پنجابی ،دکنی، سندھی، اور برج بھاشا کا اصل مخرج ہراکرت تھا۔
84- جب سندھ کو اسلامی لشکر نے فتح کیا اس میں عربی اور فارسی زبان بولنے والے لوگ شامل تھے۔
85- اردو کی پہلی تحریک حضرت گیسو دراز قرار دیا جاتا ہے۔
86- سب سے پہلےغزل گو شاعر
ولی دکنی ہے۔
87- قران مجید کا اردو میں پہلا لفظی ترجمہ شاہ رفیع الدین نے کیا ( 1786ء)۔
88- سر سید نے خطبات احمدیہ انگلستان میں کتاب لکھی تھی۔
89- روسو کی اس آواز کو رومانوی تحریک کا مطلع کہا جاتا ہے۔ انسان آزاد پیدا ہو مگر جہان دیکھو وہ پایہ زنجیر ہے۔
90- دس کتابیں یہ مرکب عددی ہے۔
91- فعل اور مصدر میں باہمی فرق فعل میں ہمیشہ زمانہ پایا جاتا ہے مصدر میں نہیں۔
92- مہر نیمروز غالب کی تصنیف ہے۔
93- شاہنامہ اسلام حفیظ جالندھری کی تصنیف ہے۔
94- مصحفی کے آٹھ دیوان ہے۔
95- دہلی مرحوم حالی کا مرثیہ ہے۔
96- جدید اردو بثر سب سے پہلے سرسید نے لکھی۔
97- زندہ رود کے مصنف جاویداقبال ہیں۔
98- اردو میں مثنوی نگاری فارسی کے توسط سے زیر اثر آئی۔
99- قصیدے کے پانچ اجزائے ہیں نشیب، گریز، مدح، عرض مطلب، مدعا۔
*نقل وچسپاں*
کامیابی کا آسان طریقہ اور دوسروں کا اعتماد حاصل کرنے کا موثر ترین ذریعہ مسکراہٹ ہے، یہ ڈپریشن کا بھی فعال علاج ہے
* * * ڈاکٹرمحمد لئیق اللہ خان ۔ جدہ* * *
کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کے پاس جاکر جس سے آپ ناراض ہوں اور وہ آپ کو دیکھ کر مسکرادیا ہو ،سکون اور آرام محسوس کیا؟۔
کیا آپ اپنے بھائیوں اور دوستوں کے سامنے مسکراکر قلبی اطمینان محسوس کرتے ہیں؟۔
اگر آپ بیمار ہوں اور معائنے کیلئے ڈاکٹر کے پاس پہنچے ہوں اورمعالج نے آپ کو مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا ہوتو کیااس کی مسکراہٹ کی بدولت آپ نے اپنے جسم میں صحت کی لہر دوڑ تے ہوئے محسو س کی؟۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ مسکراہٹ انسانی ذہن اور دماغ پر جادو جیسا اثر کرتی ہے؟۔
کیا آپ نے کبھی کسی ایسے شخص کیلئے اپنے اندر کوئی کشش محسوس کی جو آپ کو دیکھتے ہی مسکرانے لگتا ہو؟۔
کیا آپ کو معلو م ہے کہ مسکراہٹ نے اب ایک علم اور فن کا مقام حاصل کرلیا ہے؟سماجی تعلقات کو بہتر بنانے اور اقتصادی و سفارتی امور کو اجاگر کرنے کیلئے مسکراہٹ کی باقاعدہ تعلیم و تلقین کی جاتی ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ بیسویں صدی کے شروع میں مسکراہٹ کو باقاعدہ علم کا درجہ دیدیا گیا اور اسے مسکراہٹ کے ذہنی علم کا نام دیا گیا ہے؟۔
یقین کیجئے کہ پیار بھری مسکراہٹ انمول ہوتی ہے۔ یہ کشش کا راز ہے، یہ دلوں کو جوڑنے والا مختصرترین راستہ ہے۔مسکراہٹ صالح صحت کی علامت ہے۔
نبی کریم مسلمانوں کو خندہ پیشانی اورمسکراہٹ کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ اسی ضمن میں نبی کریم کا وہ ارشاد انمول ملفوظات میں شمار ہوتا ہے جس میں آپ نے فرمایا:
"کسی بھی بھلائی کو حقیر ہرگز نہ جانو، اگرچہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔"(مسلم )۔
نبی کریم نے یہ بھی فرمایا کہ اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا صدقہ ہے (ترمذی)۔
نبی کریم کا ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ تم لوگوں کے دل اپنی دولت سے ہرگز نہیں جیت سکتے، تمہیں لوگوں کے دل جیتنے کیلئے خندہ پیشانی اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے (بیہقی) ۔
نبی کریم کا معمول تھا کہ آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔عبداللہ الحارث بن حزمؓروایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا(ترمذی)۔
کسی سے ملتے وقت چہرے پر مسکراہٹ یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ شخص بااخلاق ہے ، اس خوبی کا حامل انسان اپنے دوسرے بھائی کے دل میں خوشی کی لہر پیدا کرتا ہے۔
رسول اللہ کے مذکورہ ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں مسکراہٹ کے ساتھ ملنا پسندیدہ عمل ہے۔ اگرچہ لوگوں کی نظر میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہ ہومگر اخلاقی اعتبار سے باہمی محبت کا مظہر عمل ہے۔
چینی کہاوت ہے: جو شخص عمدہ طریقے سے مسکرانا نہیں جانتا اسے دکان نہیں کھولنی چاہئے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ سچی مسکراہٹ دل کی گہرائی سے اٹھتی ہے ، یہ مسکراہٹ جادو جیسا اثر کرتی ہے اور ملنے والے کو اپنی طرف مقناطیس کی طرح کھینچ لیتی ہے۔ سچی مسکراہٹ چہرے کو رونق اور چمک دمک دیتی ہے ۔ مصنوعی مسکراہٹ کے پیچھے مکروفریب کی ظلمتیں چھائی ہوتی ہیں۔
علماء کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر انسان کے اندر کچھ کیمیکل مواد ایسے ہیں جنہیں ہمارے جسم کے اعضاء خوف یا غمی یا بے چینی یا پریشانی کے وقت خارج کرتے ہیں۔ اگر ملنے والا شخص آپ کی طرف مسکراکر دیکھ رہا ہو تو ایسی صورت میں کیمیکل مادے بہت معمولی مقدار میں خارج ہوتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایساکیوں ہے؟۔
جواب یہ ہے کہ مسکراہٹ آپ کے ذہن پر طاری کسی بھی خوف یا آنے والے شخص کے حوالے سے جنم لینے والے خدشات کو ختم کردیتی ہے۔ نتیجے کے طور پر آپ کے ذہن میں یہ بات از خود پیوست و جاگزیں ہوجاتی ہے کہ آنیوالا شخص خطرے سے خالی ہے، اس سے پتہ چلا کہ زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے مسکراہٹ از بس ضروری ہے۔
ہمیں یہ جان لینا کافی ہے کہ جب انسان مسکراتا ہے تو اس کے چہرے کے 5تا13عضلات حرکت میں آتے ہیں اور جب انسان غصے یا کبیدگی یا پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کے چہرے کے 47عضلات متحرک ہوتے ہیں۔
مسکراہٹ اور ہنسی میں فرق:
مسکراہٹ دائمی کیفیت کا نام ہے، (اسے ہلکی پھلکی ہنسی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے)جبکہ ہنسی عارضی حالت ہوتی ہے۔
مسکراہٹ ، خوشی پر فطری ردعمل کا دوسرا نام ہے جبکہ ہنسی بسا اوقات دردناک حادثے پر رد عمل کا بھی نتیجہ ہوتی ہے۔
مسکراہٹ اندرونی خوشی اور سکون کی علامت ہوتی ہے جبکہ ہنسی کسی ہنگامی ناگہانی حالت کا نتیجہ ہوتی ہے۔
مسکراہٹ کا اثر دیر تک باقی رہتا ہے جبکہ ہنسی کا اثر جلد زائل ہوجاتا ہے۔
مسکراہٹ تواضع و انکساری کی دلیل ہے جبکہ ہنسی اگر قہقہے کے ساتھ ہو تو غرور کی نشانی مانی جاتی ہے۔
مسکراہٹ ہنسی سے زیادہ مشکل کام ہے۔مسکراہٹ مختلف قسم کے لوگوں ،مختلف طبیعتوں اور مختلف المزاج افراد سے میل ملاپ کے وقت آتی ہے۔ جبکہ ہنسی انتہائی بے تکلف قسم کے لوگ
* * * ڈاکٹرمحمد لئیق اللہ خان ۔ جدہ* * *
کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کے پاس جاکر جس سے آپ ناراض ہوں اور وہ آپ کو دیکھ کر مسکرادیا ہو ،سکون اور آرام محسوس کیا؟۔
کیا آپ اپنے بھائیوں اور دوستوں کے سامنے مسکراکر قلبی اطمینان محسوس کرتے ہیں؟۔
اگر آپ بیمار ہوں اور معائنے کیلئے ڈاکٹر کے پاس پہنچے ہوں اورمعالج نے آپ کو مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا ہوتو کیااس کی مسکراہٹ کی بدولت آپ نے اپنے جسم میں صحت کی لہر دوڑ تے ہوئے محسو س کی؟۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ مسکراہٹ انسانی ذہن اور دماغ پر جادو جیسا اثر کرتی ہے؟۔
کیا آپ نے کبھی کسی ایسے شخص کیلئے اپنے اندر کوئی کشش محسوس کی جو آپ کو دیکھتے ہی مسکرانے لگتا ہو؟۔
کیا آپ کو معلو م ہے کہ مسکراہٹ نے اب ایک علم اور فن کا مقام حاصل کرلیا ہے؟سماجی تعلقات کو بہتر بنانے اور اقتصادی و سفارتی امور کو اجاگر کرنے کیلئے مسکراہٹ کی باقاعدہ تعلیم و تلقین کی جاتی ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ بیسویں صدی کے شروع میں مسکراہٹ کو باقاعدہ علم کا درجہ دیدیا گیا اور اسے مسکراہٹ کے ذہنی علم کا نام دیا گیا ہے؟۔
یقین کیجئے کہ پیار بھری مسکراہٹ انمول ہوتی ہے۔ یہ کشش کا راز ہے، یہ دلوں کو جوڑنے والا مختصرترین راستہ ہے۔مسکراہٹ صالح صحت کی علامت ہے۔
نبی کریم مسلمانوں کو خندہ پیشانی اورمسکراہٹ کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ اسی ضمن میں نبی کریم کا وہ ارشاد انمول ملفوظات میں شمار ہوتا ہے جس میں آپ نے فرمایا:
"کسی بھی بھلائی کو حقیر ہرگز نہ جانو، اگرچہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔"(مسلم )۔
نبی کریم نے یہ بھی فرمایا کہ اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا صدقہ ہے (ترمذی)۔
نبی کریم کا ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ تم لوگوں کے دل اپنی دولت سے ہرگز نہیں جیت سکتے، تمہیں لوگوں کے دل جیتنے کیلئے خندہ پیشانی اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے (بیہقی) ۔
نبی کریم کا معمول تھا کہ آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔عبداللہ الحارث بن حزمؓروایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا(ترمذی)۔
کسی سے ملتے وقت چہرے پر مسکراہٹ یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ شخص بااخلاق ہے ، اس خوبی کا حامل انسان اپنے دوسرے بھائی کے دل میں خوشی کی لہر پیدا کرتا ہے۔
رسول اللہ کے مذکورہ ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں مسکراہٹ کے ساتھ ملنا پسندیدہ عمل ہے۔ اگرچہ لوگوں کی نظر میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہ ہومگر اخلاقی اعتبار سے باہمی محبت کا مظہر عمل ہے۔
چینی کہاوت ہے: جو شخص عمدہ طریقے سے مسکرانا نہیں جانتا اسے دکان نہیں کھولنی چاہئے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ سچی مسکراہٹ دل کی گہرائی سے اٹھتی ہے ، یہ مسکراہٹ جادو جیسا اثر کرتی ہے اور ملنے والے کو اپنی طرف مقناطیس کی طرح کھینچ لیتی ہے۔ سچی مسکراہٹ چہرے کو رونق اور چمک دمک دیتی ہے ۔ مصنوعی مسکراہٹ کے پیچھے مکروفریب کی ظلمتیں چھائی ہوتی ہیں۔
علماء کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر انسان کے اندر کچھ کیمیکل مواد ایسے ہیں جنہیں ہمارے جسم کے اعضاء خوف یا غمی یا بے چینی یا پریشانی کے وقت خارج کرتے ہیں۔ اگر ملنے والا شخص آپ کی طرف مسکراکر دیکھ رہا ہو تو ایسی صورت میں کیمیکل مادے بہت معمولی مقدار میں خارج ہوتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایساکیوں ہے؟۔
جواب یہ ہے کہ مسکراہٹ آپ کے ذہن پر طاری کسی بھی خوف یا آنے والے شخص کے حوالے سے جنم لینے والے خدشات کو ختم کردیتی ہے۔ نتیجے کے طور پر آپ کے ذہن میں یہ بات از خود پیوست و جاگزیں ہوجاتی ہے کہ آنیوالا شخص خطرے سے خالی ہے، اس سے پتہ چلا کہ زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے مسکراہٹ از بس ضروری ہے۔
ہمیں یہ جان لینا کافی ہے کہ جب انسان مسکراتا ہے تو اس کے چہرے کے 5تا13عضلات حرکت میں آتے ہیں اور جب انسان غصے یا کبیدگی یا پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کے چہرے کے 47عضلات متحرک ہوتے ہیں۔
مسکراہٹ اور ہنسی میں فرق:
مسکراہٹ دائمی کیفیت کا نام ہے، (اسے ہلکی پھلکی ہنسی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے)جبکہ ہنسی عارضی حالت ہوتی ہے۔
مسکراہٹ ، خوشی پر فطری ردعمل کا دوسرا نام ہے جبکہ ہنسی بسا اوقات دردناک حادثے پر رد عمل کا بھی نتیجہ ہوتی ہے۔
مسکراہٹ اندرونی خوشی اور سکون کی علامت ہوتی ہے جبکہ ہنسی کسی ہنگامی ناگہانی حالت کا نتیجہ ہوتی ہے۔
مسکراہٹ کا اثر دیر تک باقی رہتا ہے جبکہ ہنسی کا اثر جلد زائل ہوجاتا ہے۔
مسکراہٹ تواضع و انکساری کی دلیل ہے جبکہ ہنسی اگر قہقہے کے ساتھ ہو تو غرور کی نشانی مانی جاتی ہے۔
مسکراہٹ ہنسی سے زیادہ مشکل کام ہے۔مسکراہٹ مختلف قسم کے لوگوں ،مختلف طبیعتوں اور مختلف المزاج افراد سے میل ملاپ کے وقت آتی ہے۔ جبکہ ہنسی انتہائی بے تکلف قسم کے لوگ
ور کبھی کبھی اس قسم کی مسکراہٹ روزی کا سرچشمہ بھی بن جاتی ہے۔
مسکرانے کیلئے رسول اللہ بھی کہہ رہے ہیں اور مسکرانے کی ہدایت ماہرین سماجیات بھی کررہے ہیں لیکن ان دونوں نصیحتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ماہرین سماجیات محض دنیوی مصلحت کی خاطر مسکراہٹ کا سبق سکھا رہے ہیں ۔یہ مصلحت ، شہرت کے حوالے سے بھی ہوسکتی ہے اور دولت کمانے کیلئے بھی ہوسکتی ہے۔ جہاں تک نبی کریم کا تعلق ہے تو آپ نے ہمارے لئے مسکراہٹ کا اصل ہدف تقرب الی اللہ مقرر کیا ہے۔ یہ ہدف دنیاوی اہداف سے مختلف ہے۔ اس کے نتائج پائدارقسم کے ہیں۔
رسول اللہ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ اپنے بھائی یا دوست کو دیکھ کر مسکراہٹ سے پیش آئیں گے تو ایسا کرنے سے تمہیں صدقے جیسا ثواب ملے گا۔ یہ صدقہ ایسا ہے جس میں آپ کا نہ کوئی دینار خرچ ہورہا ہے اور نہ آپ کی جیب سے کوئی درہم جارہا ہے اگر آپ اسے استعمال کرنے کا طریقہ جان لیں ، سمجھ لیں تو دنیا بھر کے لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں اور پھر دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیکر کائنات کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔
مسکراہٹ، جادو جیسی ہوتی ہے۔ اس سے انسان کے دل میں امید کے دیئے روشن ہوتے ہیں۔ دماغ سے وحشت دور ہوتی ہے۔ دل کو نئی زندگی مل جاتی ہے، مسکراہٹ کے اتنے ڈھیر سارے فائدے معلوم ہوجانے کے باوجود ہم نہ جانے کیوں اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ مرتسم کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔
مسکراہٹ کا فن :
مسکراہٹ بند دلوں کی پہلی کلید ہے۔ مسکراہٹ ، روحانی روشنی ہے، یہ دل کے بند دریچوں کو کھولنے والا طبعی آلہ ہے۔
مسکراہٹ ،درد میں مبتلا انسان کے زخم پر مرہم اور غم زدہ انسان کیلئے موثر دوا ہے۔
مسکراہٹ دلوں کو قابو کرنے والاہتھیار ہے۔
خوبصورت مسکراہٹ ، دل ، دماغ اور روح کو اپنے قبضے میں کرنیوالا طاقتور ترین قانون ہے۔
مسکراہٹ سے انسانوں کے دل آپ اپنی مٹھی میں کرسکتے ہیں ، ذہنوں پر قبضہ کرسکتے ہیں ۔ مسکرانے والے لوگ سب سے زیادہ خوش مزاج اور سب سے زیادہ پاکیزہ طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ اپنی زندگی میں سب سے زیادہ سکون سے رہتے ہیں۔
حقیقی مسکراہٹ میں کوئی ملاوٹ نہیں کی جاسکتی ۔جس طرح خالص سونے میں ملاوٹ فوری طور پر سامنے آ جاتی ہے اسی طرح حقیقی مسکراہٹ اور مصنوعی مسکراہٹ کا فرق لمحوں میں سامنے آجاتا ہے۔
ہم مسکراتے کیوں نہیں؟
ہمیں اپنے آپ اور اپنے اطراف موجود لوگوں کو خوشیاں دینے کیلئے مسکرانا چاہیئے۔
ہمیں ذیابیطس ، بلڈ پریشر، تناؤ، بے چینی اور بحران پیدا کرنیوالے یومیہ مسائل پر قابو پانے کیلئے مسکرانا چاہیئے۔
مسکرانے کیلئے رسول اللہ بھی کہہ رہے ہیں اور مسکرانے کی ہدایت ماہرین سماجیات بھی کررہے ہیں لیکن ان دونوں نصیحتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ماہرین سماجیات محض دنیوی مصلحت کی خاطر مسکراہٹ کا سبق سکھا رہے ہیں ۔یہ مصلحت ، شہرت کے حوالے سے بھی ہوسکتی ہے اور دولت کمانے کیلئے بھی ہوسکتی ہے۔ جہاں تک نبی کریم کا تعلق ہے تو آپ نے ہمارے لئے مسکراہٹ کا اصل ہدف تقرب الی اللہ مقرر کیا ہے۔ یہ ہدف دنیاوی اہداف سے مختلف ہے۔ اس کے نتائج پائدارقسم کے ہیں۔
رسول اللہ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ اپنے بھائی یا دوست کو دیکھ کر مسکراہٹ سے پیش آئیں گے تو ایسا کرنے سے تمہیں صدقے جیسا ثواب ملے گا۔ یہ صدقہ ایسا ہے جس میں آپ کا نہ کوئی دینار خرچ ہورہا ہے اور نہ آپ کی جیب سے کوئی درہم جارہا ہے اگر آپ اسے استعمال کرنے کا طریقہ جان لیں ، سمجھ لیں تو دنیا بھر کے لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں اور پھر دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیکر کائنات کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔
مسکراہٹ، جادو جیسی ہوتی ہے۔ اس سے انسان کے دل میں امید کے دیئے روشن ہوتے ہیں۔ دماغ سے وحشت دور ہوتی ہے۔ دل کو نئی زندگی مل جاتی ہے، مسکراہٹ کے اتنے ڈھیر سارے فائدے معلوم ہوجانے کے باوجود ہم نہ جانے کیوں اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ مرتسم کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔
مسکراہٹ کا فن :
مسکراہٹ بند دلوں کی پہلی کلید ہے۔ مسکراہٹ ، روحانی روشنی ہے، یہ دل کے بند دریچوں کو کھولنے والا طبعی آلہ ہے۔
مسکراہٹ ،درد میں مبتلا انسان کے زخم پر مرہم اور غم زدہ انسان کیلئے موثر دوا ہے۔
مسکراہٹ دلوں کو قابو کرنے والاہتھیار ہے۔
خوبصورت مسکراہٹ ، دل ، دماغ اور روح کو اپنے قبضے میں کرنیوالا طاقتور ترین قانون ہے۔
مسکراہٹ سے انسانوں کے دل آپ اپنی مٹھی میں کرسکتے ہیں ، ذہنوں پر قبضہ کرسکتے ہیں ۔ مسکرانے والے لوگ سب سے زیادہ خوش مزاج اور سب سے زیادہ پاکیزہ طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ اپنی زندگی میں سب سے زیادہ سکون سے رہتے ہیں۔
حقیقی مسکراہٹ میں کوئی ملاوٹ نہیں کی جاسکتی ۔جس طرح خالص سونے میں ملاوٹ فوری طور پر سامنے آ جاتی ہے اسی طرح حقیقی مسکراہٹ اور مصنوعی مسکراہٹ کا فرق لمحوں میں سامنے آجاتا ہے۔
ہم مسکراتے کیوں نہیں؟
ہمیں اپنے آپ اور اپنے اطراف موجود لوگوں کو خوشیاں دینے کیلئے مسکرانا چاہیئے۔
ہمیں ذیابیطس ، بلڈ پریشر، تناؤ، بے چینی اور بحران پیدا کرنیوالے یومیہ مسائل پر قابو پانے کیلئے مسکرانا چاہیئے۔
وں کے ساتھ ہی نمودار ہوتی ہے۔
مسکراہٹ میں ایک ادب شامل ہوتا ہے جبکہ ہنسی ادب کے دائرے سے خارج بھی ہوجاتی ہے۔
تازہ ترین جائزے میں بتایا گیا ہے کہ خوشی کا احساس انسان کو دل کے دورے، دل کے امراض ،ہارٹ اٹیک اور ذیابیطس کی تکلیف سے بچاتا ہے۔ خوشی کا احساس ، مٹاپے اور عقل کے مختلف امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ خوشی کا احساس عام طور پر عمر میں اضافہ کردیتا ہے۔ اس کا سبب معمولی ہے ، سبب یہ ہے کہ خوش رہنے والے لوگ 2اہم ہارمونز کم مقدار میں خارج کرتے ہیں ۔
اچھی مسکراہٹ کے فائد ے:
اچھی مسکراہٹ صحت بخش ہوتی ہے۔ یہ انسان کی ذہنی، جسمانی اوراعصابی صحت کی حفاظت کرتی ہے۔
صحت بخش مسکراہٹ ، بلڈ پریشر کم کرنے میں معاون بنتی ہے۔
مسکراہٹ دوران خون تیز کرتی ہے۔
مسکراہٹ ،ذہنی و سماجی دباؤ کیخلاف جسم میں مدافعتی نظام کو تقویت پہنچاتی ہے۔
مسکراہٹ کی بدولت دل ، دماغ اور جسم کی کارکردگی پر خوشگوار اثر پڑتے ہیں۔
مسکرانے والے انسان کی نبض متوازن شکل میں چلتی ہے۔
مسکراہٹ ، انسان کے لاشعور تک سکون اور اطمینان کی لہر پہنچا دیتی ہے۔
مسکراہٹ ، چہرے کو خوبصورت اور پررونق بنا دیتی ہے۔
مسکراہٹ ایک طرح سے عصری امراض سے بچاؤ کا بہترین علاج ہے۔
مسکراہٹ، بے چینی اور ڈپریشن سے تحفظ دیتی ہے۔
مسکراہٹ، مختلف قسم کے درد کا علاج ہے۔
مسکراہٹ، بے خوابی اور بے چینی پر قابوپالیتی ہے۔
اطباء کہتے ہیں کہ مسکراہٹ اور ہلکی پھلکی ہنسی ،صنفی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے۔ شریانوں کے تناؤ کو ہلکا کرتی ہے، نبض کی رفتار کودرست کردیتی ہے۔ عضلات کو آرام دہ حالت میں لے آتی ہے۔
مسکراہٹ اور جھریاں :
مصر میں تازہ ترین علمی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ چہرے پر خفگی اور غصہ طاری کرنے سے جھریاں موثر شکل میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ آنکھوں کے اطراف حلقے پڑجاتے ہیں ۔ تجربات نے ثابت کیا ہے مسکراہٹ جھریوں پر قابو پانے کا موثر ہتھیار ہے۔ مسکراہٹ سے جھریاں جلد نہیں ظاہر ہوتیں، مسکراہٹ کی وجہ سے جھریوں کے ظہور کا عمل کمزور پڑجاتا ہے۔ اسی وجہ اطباء مردوں خصوصاً خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مسکراہٹ کو اپنی پہچان بنائیں۔مستقل مسکرانے والی خواتین ذہنی سکون میں رہتی ہیں۔
علمی معجزہ :
علمی اعجاز کے اسکالر انجینیئر عبدالدائم الکحیل کہتے ہیں :
ہم میں سے کون شخص ہے جو یہ آرزو نہ کرتاہوکہ وہ کچھ دیئے بغیر ہر روز مالی صدقے کا ثواب حاصل کرلے؟پیغمبر اسلام محمد مصطفی نے ہمیں جیب سے کچھ خرچ کئے بغیر مالی صدقے کے ثواب کا طریقہ سکھایا ہے۔ اطباء کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی کا آسان طریقہ اور دوسروں کا اعتماد حاصل کرنے کا موثر ترین ذریعہ ہے بلکہ یہ ڈپریشن کا بھی فعال علاج ہے۔
بہت سارے تجربات عصر حاضر میں انسان پر مسکراہٹ کے ذہنی اثرات کو سمجھنے کیلئے کئے گئے۔ جائزہ نگاروں پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انسان کے چہرے میں تقریباً80عضلات ہوتے ہیں جب وہ ناراض ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر ناراضگی کی علامتیں خود بخود مرتسم ہوجاتی ہیں ، چہرے کے اکثر عضلات غصے کی کیفیت سے متاثر ہوتے ہیں۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ جب انسان مسکراتا ہے تو اس کے چہرے کے عضلات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا، اس کے چہرے کے عضلات کسی زحمت یا مشقت میں نہیں پڑتے کیونکہ مسکراہٹ کے دوران بہت کم عضلات کو محنت کرنا پڑتی ہے۔
اطباء نے اس مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بار بار مسکرانے سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اس کو ذہنی قرار حاصل ہوتا ہے۔بعض اطباء تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مسکراہٹ سے انسان کو بسا اوقات ڈپریشن سے بھی نجات ملتی ہے۔
عصبی ، لسانی پروگرامنگ کے ماہرین کہتے ہیں کہ کامیابی کا انتہائی سستا طریقہ مسکراہٹ ہے ، جو انسان اپنے اطراف موجود لوگوں کے ساتھ میل جول میں مسکراتا رہتا ہے، اس سے اس کے احباب اور ملنے جلنے والے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
مسکرانے والے شخص اور اس کے اطراف موجود لوگوں کے درمیان ذہنی دیواریں زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ بار بار مسکراہٹ اعتماد پیدا کرتی ہے۔
اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے :
سبحان اللہ، اپنے بھائی کے ساتھ محض مسکراکر پیش آنا دولت خرچ کئے بغیر مالی صدقے کے ثواب کا ضامن بن جاتا ہے۔ یہ نبی کریم کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔ آنجناب نے یہ طریقہ ثواب کمانے کیلئے ناداروں کو سکھایا تھا۔
نبی کریم کے اس ارشاد نے ہمیں ایک اور ہنر سکھایا ہے۔ یہ مسکراہٹ کا ہنر ہے۔ آپ کا درس یہ ہے کہ جب آپ اپنے کسی عزیز یا اپنے کسی دوست کیلئے مسکرارہے ہوں تو آپ کی نظر اس کے چہرے پر ہونی چاہئے۔ جو لوگ مسکراتے ہوئے چہرے پر نظر ڈالتے ہیں وہ اپنے عزیز یا دوست پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اطباء بتاتے ہیں کہ مسکراہٹ مخصوص قسم کی ہونی چاہئے۔ مسکراہٹ کا مثالی طریقہ یہ ہے کہ آپ جس کیلئے مسکرارہے ہیں اسے دیکھ بھی رہے ہوں۔ ایسا کرنے سے فوری اطمینان نصیب ہوتا ہے ا
مسکراہٹ میں ایک ادب شامل ہوتا ہے جبکہ ہنسی ادب کے دائرے سے خارج بھی ہوجاتی ہے۔
تازہ ترین جائزے میں بتایا گیا ہے کہ خوشی کا احساس انسان کو دل کے دورے، دل کے امراض ،ہارٹ اٹیک اور ذیابیطس کی تکلیف سے بچاتا ہے۔ خوشی کا احساس ، مٹاپے اور عقل کے مختلف امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ خوشی کا احساس عام طور پر عمر میں اضافہ کردیتا ہے۔ اس کا سبب معمولی ہے ، سبب یہ ہے کہ خوش رہنے والے لوگ 2اہم ہارمونز کم مقدار میں خارج کرتے ہیں ۔
اچھی مسکراہٹ کے فائد ے:
اچھی مسکراہٹ صحت بخش ہوتی ہے۔ یہ انسان کی ذہنی، جسمانی اوراعصابی صحت کی حفاظت کرتی ہے۔
صحت بخش مسکراہٹ ، بلڈ پریشر کم کرنے میں معاون بنتی ہے۔
مسکراہٹ دوران خون تیز کرتی ہے۔
مسکراہٹ ،ذہنی و سماجی دباؤ کیخلاف جسم میں مدافعتی نظام کو تقویت پہنچاتی ہے۔
مسکراہٹ کی بدولت دل ، دماغ اور جسم کی کارکردگی پر خوشگوار اثر پڑتے ہیں۔
مسکرانے والے انسان کی نبض متوازن شکل میں چلتی ہے۔
مسکراہٹ ، انسان کے لاشعور تک سکون اور اطمینان کی لہر پہنچا دیتی ہے۔
مسکراہٹ ، چہرے کو خوبصورت اور پررونق بنا دیتی ہے۔
مسکراہٹ ایک طرح سے عصری امراض سے بچاؤ کا بہترین علاج ہے۔
مسکراہٹ، بے چینی اور ڈپریشن سے تحفظ دیتی ہے۔
مسکراہٹ، مختلف قسم کے درد کا علاج ہے۔
مسکراہٹ، بے خوابی اور بے چینی پر قابوپالیتی ہے۔
اطباء کہتے ہیں کہ مسکراہٹ اور ہلکی پھلکی ہنسی ،صنفی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے۔ شریانوں کے تناؤ کو ہلکا کرتی ہے، نبض کی رفتار کودرست کردیتی ہے۔ عضلات کو آرام دہ حالت میں لے آتی ہے۔
مسکراہٹ اور جھریاں :
مصر میں تازہ ترین علمی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ چہرے پر خفگی اور غصہ طاری کرنے سے جھریاں موثر شکل میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ آنکھوں کے اطراف حلقے پڑجاتے ہیں ۔ تجربات نے ثابت کیا ہے مسکراہٹ جھریوں پر قابو پانے کا موثر ہتھیار ہے۔ مسکراہٹ سے جھریاں جلد نہیں ظاہر ہوتیں، مسکراہٹ کی وجہ سے جھریوں کے ظہور کا عمل کمزور پڑجاتا ہے۔ اسی وجہ اطباء مردوں خصوصاً خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مسکراہٹ کو اپنی پہچان بنائیں۔مستقل مسکرانے والی خواتین ذہنی سکون میں رہتی ہیں۔
علمی معجزہ :
علمی اعجاز کے اسکالر انجینیئر عبدالدائم الکحیل کہتے ہیں :
ہم میں سے کون شخص ہے جو یہ آرزو نہ کرتاہوکہ وہ کچھ دیئے بغیر ہر روز مالی صدقے کا ثواب حاصل کرلے؟پیغمبر اسلام محمد مصطفی نے ہمیں جیب سے کچھ خرچ کئے بغیر مالی صدقے کے ثواب کا طریقہ سکھایا ہے۔ اطباء کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی کا آسان طریقہ اور دوسروں کا اعتماد حاصل کرنے کا موثر ترین ذریعہ ہے بلکہ یہ ڈپریشن کا بھی فعال علاج ہے۔
بہت سارے تجربات عصر حاضر میں انسان پر مسکراہٹ کے ذہنی اثرات کو سمجھنے کیلئے کئے گئے۔ جائزہ نگاروں پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انسان کے چہرے میں تقریباً80عضلات ہوتے ہیں جب وہ ناراض ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر ناراضگی کی علامتیں خود بخود مرتسم ہوجاتی ہیں ، چہرے کے اکثر عضلات غصے کی کیفیت سے متاثر ہوتے ہیں۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ جب انسان مسکراتا ہے تو اس کے چہرے کے عضلات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا، اس کے چہرے کے عضلات کسی زحمت یا مشقت میں نہیں پڑتے کیونکہ مسکراہٹ کے دوران بہت کم عضلات کو محنت کرنا پڑتی ہے۔
اطباء نے اس مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بار بار مسکرانے سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اس کو ذہنی قرار حاصل ہوتا ہے۔بعض اطباء تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مسکراہٹ سے انسان کو بسا اوقات ڈپریشن سے بھی نجات ملتی ہے۔
عصبی ، لسانی پروگرامنگ کے ماہرین کہتے ہیں کہ کامیابی کا انتہائی سستا طریقہ مسکراہٹ ہے ، جو انسان اپنے اطراف موجود لوگوں کے ساتھ میل جول میں مسکراتا رہتا ہے، اس سے اس کے احباب اور ملنے جلنے والے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
مسکرانے والے شخص اور اس کے اطراف موجود لوگوں کے درمیان ذہنی دیواریں زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ بار بار مسکراہٹ اعتماد پیدا کرتی ہے۔
اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے :
سبحان اللہ، اپنے بھائی کے ساتھ محض مسکراکر پیش آنا دولت خرچ کئے بغیر مالی صدقے کے ثواب کا ضامن بن جاتا ہے۔ یہ نبی کریم کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔ آنجناب نے یہ طریقہ ثواب کمانے کیلئے ناداروں کو سکھایا تھا۔
نبی کریم کے اس ارشاد نے ہمیں ایک اور ہنر سکھایا ہے۔ یہ مسکراہٹ کا ہنر ہے۔ آپ کا درس یہ ہے کہ جب آپ اپنے کسی عزیز یا اپنے کسی دوست کیلئے مسکرارہے ہوں تو آپ کی نظر اس کے چہرے پر ہونی چاہئے۔ جو لوگ مسکراتے ہوئے چہرے پر نظر ڈالتے ہیں وہ اپنے عزیز یا دوست پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اطباء بتاتے ہیں کہ مسکراہٹ مخصوص قسم کی ہونی چاہئے۔ مسکراہٹ کا مثالی طریقہ یہ ہے کہ آپ جس کیلئے مسکرارہے ہیں اسے دیکھ بھی رہے ہوں۔ ایسا کرنے سے فوری اطمینان نصیب ہوتا ہے ا
مبسملا و حامدا::ومصلیا و مسلما
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے؟
(قسط اول)
دو سال قبل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق اختلاف شروع ہوا تو ہم نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا،کیوں کہ اس بارے میں اسلاف کرام کے صریح اقوال موجود تھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ صحابی ہیں،اس لئے ان کی شان میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا جو صحابہ کرام کی شان کے لائق نہ ہو۔
اہل فضل کے لئے لفظ خطا کے استعمال پر اختلاف شروع ہوا تو ہم اس امید میں تھے کہ جلد ہی یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔
جب یہ معلوم ہوا کہ متکلم کو اہل سنت و جماعت سے خارج بتایا جانے لگا ہے تو ہم نے 18:جولائی2020کو ایک مختصر سی تحریر جاری کی کہ ان شاء اللہ تعالی اس بارے میں کچھ تحریر کروں گا۔
مذکورہ خبر سن کر یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اسلامی اصول وضوابط کا غیر مناسب استعمال کیا جا رہا ہے،اور لفظ خطا کا حکم بیان کرنے میں خطا ہو رہی ہے،کیوں کہ اس لفظ کا حکم کہیں مذکور نہیں تو ہر ایک محقق اپنی تحقیق کے مطابق حکم بیان کر رہے ہیں۔ان متخالف اقوال میں تمام اقوال حق نہیں ہو سکتے۔
متکلم کے بیان اول میں لفظ خطا کا مطلق استعمال اور پھر خطائے اجتہادی سے اپنی مراد بیان کر دینے کے بعد مسئلہ اس منزل میں باقی نہیں رہتا کہ متکلم کو اہل سنت و جماعت سے خارج کر دیا جائے۔
20:جولائی 2020 کو متکلم موصوف کو گرفتار کر لیا گیا۔جس کا ہمیں بہت افسوس ہے۔
اس حادثے سے بالکل واضح ہو گیا کہ اسلامی اصول و قوانین کا غیر محل میں استعمال کیا جا رہا ہے اور غیر مجرم کو مجرم ثابت کیا جا رہا ہے۔
خواہ یہ امر شعوری طور پر ہو،یا لا شعوری طور پر۔
میری تحریروں سے مقصود متکلم کا دفاع نہیں،بلکہ مذہب اسلام اور مسلک اہل سنت و جماعت کا تحفظ ہے۔
26:جولائی 2020 کو "ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال"کے عنوان سے ہم نے اپنا مضمون سوشل میڈیا پر جاری کیا۔
قسط دوم میں امکان ذاتی اور امکان وقوعی کی توضیح سے متعلق ہم نے متکلم کی توضیح کو تسلیم نہ کیا اور متکلم سے اس پر نظر ثانی کی درخواست کی۔
اسی طرح قسط اول میں اغاز بحث سے قبل ہی متکلم سے مشروط توبہ ورجوع کی گزارش کی۔قسط سوم میں بھی اس کا اعادہ کیا۔
بیان اول کے بعد متکلم نے توضیح و تشریح کے طور پر متعدد بیانات جاری کئے۔ان توضیحی بیانات میں بعض باتیں تشریح طلب ہیں۔
اسی طرح فریق دوم کی تحقیق و تحریر میں بھی بعض امور تشریح طلب ہیں۔
اگر خود میری تحریر میں بھی کوئی بات تشریح طلب ہو تو ان شاء اللہ تعالی ضرور توضیح پیش کروں گا۔اللہ تعالی ہم سب کو توفیق صالح عطا فرمائے۔امین
چوں کہ اہل فضل کے لئے لفظ خطا کے استعمال کا حکم اسلامی کتابوں میں صریح طور پر مذکور نہیں تو ہر فریق اصول و ضوابط کی روشنی میں جواب تلاش کرے گا،اس لئے سوالوں کے ذریعہ اسلامی اصول وضوابط کے محل استعمال کی جانب متوجہ کرنا مقصود ہے۔
مستقبل میں بھی اس طرح کے مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔
جن جدید امور کا صریح حکم اسلامی کتابوں میں مذکور نہ ہو تو شرعی اصول و قوانین کی روشنی میں ان مسائل کو حل کرنا ہو گا۔
اس طریق کار میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اصول کا استعمال برمحل ہے،یا بے محل؟
مسئلہ حاضرہ کی مناسبت سے چند سوالات مندرجہ ذیل ہیں؛
سوال اول؛
حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کو چادر تطہیر حاصل ہے۔دونوں شہزادگان عالی مرتبت پنجتن پاک کے زمرہ میں شامل ہیں۔دونوں شہزادگان کرام کا شمار صحابہ کرام میں ہے۔حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دونوں شہزادگان گرامی کی محبت کو اپنی محبت،اور ان دونوں سے دشمنی کو اپنی ذات مبارک سے دشمنی قرار دیا۔ان دونوں بلند مرتبہ شہزادگان کرام کو اپنا بیٹا قرار دیا اور ارشاد فرمایا کہ میری نسل ان دونوں سے جاری ہو گی۔
دونوں شہزادگان عظام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ان کے علاوہ بہت سے فضائل و مناقب احادیث طیبہ میں موجود ہیں۔
دونوں شہزادگان والا درجات اپنے اپنے عہد میں قطب اکبر کی منزل میں فائز ہیں۔
سب وشتم،طعن وتشنیع،زد وکوب،تذلیل وتحقیر وغیرہ سے پڑھ کر بے ادبی قتل کا جرم ہے۔
سید الشہدا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے میدان کربلا میں اتمام حجت فرما دیا تھا۔یہاں تک کہ یزیدی لشکر کے اولین سپہ سالار حر بن یزید تمیمی یزیدی فوج سے الگ ہو کر حسینی جماعت میں شریک ہو گئے تھے۔حق اور باطل بالکل واضح ہو چکا تھا۔
ان سب حقائق کے باوجود محض دولت و حکومت کے لالچ میں یزیدیوں نے ظلم کے طور پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا۔
سوال ہے کہ مذکورہ بالا حقائق کے مد نظر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بد کردار قاتلین مثلا شمر بن ذی الجوشن،خولی بن یزید اصبحی،سپہ سالار عمرو بن سعد٬حاکم کوفہ عبید اللہ بن زیاد وغیرہم اہل سنت سے خارج ہیں یا نہیں؟
یا صرف فاسق و فاجر اور گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں؟
میدان کربلا میں اتمام حجت کے سبب حق و باطل واضح تھا اور سید مظلوم حضرت ام
اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے؟
(قسط اول)
دو سال قبل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق اختلاف شروع ہوا تو ہم نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا،کیوں کہ اس بارے میں اسلاف کرام کے صریح اقوال موجود تھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ صحابی ہیں،اس لئے ان کی شان میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا جو صحابہ کرام کی شان کے لائق نہ ہو۔
اہل فضل کے لئے لفظ خطا کے استعمال پر اختلاف شروع ہوا تو ہم اس امید میں تھے کہ جلد ہی یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔
جب یہ معلوم ہوا کہ متکلم کو اہل سنت و جماعت سے خارج بتایا جانے لگا ہے تو ہم نے 18:جولائی2020کو ایک مختصر سی تحریر جاری کی کہ ان شاء اللہ تعالی اس بارے میں کچھ تحریر کروں گا۔
مذکورہ خبر سن کر یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اسلامی اصول وضوابط کا غیر مناسب استعمال کیا جا رہا ہے،اور لفظ خطا کا حکم بیان کرنے میں خطا ہو رہی ہے،کیوں کہ اس لفظ کا حکم کہیں مذکور نہیں تو ہر ایک محقق اپنی تحقیق کے مطابق حکم بیان کر رہے ہیں۔ان متخالف اقوال میں تمام اقوال حق نہیں ہو سکتے۔
متکلم کے بیان اول میں لفظ خطا کا مطلق استعمال اور پھر خطائے اجتہادی سے اپنی مراد بیان کر دینے کے بعد مسئلہ اس منزل میں باقی نہیں رہتا کہ متکلم کو اہل سنت و جماعت سے خارج کر دیا جائے۔
20:جولائی 2020 کو متکلم موصوف کو گرفتار کر لیا گیا۔جس کا ہمیں بہت افسوس ہے۔
اس حادثے سے بالکل واضح ہو گیا کہ اسلامی اصول و قوانین کا غیر محل میں استعمال کیا جا رہا ہے اور غیر مجرم کو مجرم ثابت کیا جا رہا ہے۔
خواہ یہ امر شعوری طور پر ہو،یا لا شعوری طور پر۔
میری تحریروں سے مقصود متکلم کا دفاع نہیں،بلکہ مذہب اسلام اور مسلک اہل سنت و جماعت کا تحفظ ہے۔
26:جولائی 2020 کو "ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جلال وکمال"کے عنوان سے ہم نے اپنا مضمون سوشل میڈیا پر جاری کیا۔
قسط دوم میں امکان ذاتی اور امکان وقوعی کی توضیح سے متعلق ہم نے متکلم کی توضیح کو تسلیم نہ کیا اور متکلم سے اس پر نظر ثانی کی درخواست کی۔
اسی طرح قسط اول میں اغاز بحث سے قبل ہی متکلم سے مشروط توبہ ورجوع کی گزارش کی۔قسط سوم میں بھی اس کا اعادہ کیا۔
بیان اول کے بعد متکلم نے توضیح و تشریح کے طور پر متعدد بیانات جاری کئے۔ان توضیحی بیانات میں بعض باتیں تشریح طلب ہیں۔
اسی طرح فریق دوم کی تحقیق و تحریر میں بھی بعض امور تشریح طلب ہیں۔
اگر خود میری تحریر میں بھی کوئی بات تشریح طلب ہو تو ان شاء اللہ تعالی ضرور توضیح پیش کروں گا۔اللہ تعالی ہم سب کو توفیق صالح عطا فرمائے۔امین
چوں کہ اہل فضل کے لئے لفظ خطا کے استعمال کا حکم اسلامی کتابوں میں صریح طور پر مذکور نہیں تو ہر فریق اصول و ضوابط کی روشنی میں جواب تلاش کرے گا،اس لئے سوالوں کے ذریعہ اسلامی اصول وضوابط کے محل استعمال کی جانب متوجہ کرنا مقصود ہے۔
مستقبل میں بھی اس طرح کے مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔
جن جدید امور کا صریح حکم اسلامی کتابوں میں مذکور نہ ہو تو شرعی اصول و قوانین کی روشنی میں ان مسائل کو حل کرنا ہو گا۔
اس طریق کار میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اصول کا استعمال برمحل ہے،یا بے محل؟
مسئلہ حاضرہ کی مناسبت سے چند سوالات مندرجہ ذیل ہیں؛
سوال اول؛
حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کو چادر تطہیر حاصل ہے۔دونوں شہزادگان عالی مرتبت پنجتن پاک کے زمرہ میں شامل ہیں۔دونوں شہزادگان کرام کا شمار صحابہ کرام میں ہے۔حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دونوں شہزادگان گرامی کی محبت کو اپنی محبت،اور ان دونوں سے دشمنی کو اپنی ذات مبارک سے دشمنی قرار دیا۔ان دونوں بلند مرتبہ شہزادگان کرام کو اپنا بیٹا قرار دیا اور ارشاد فرمایا کہ میری نسل ان دونوں سے جاری ہو گی۔
دونوں شہزادگان عظام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ان کے علاوہ بہت سے فضائل و مناقب احادیث طیبہ میں موجود ہیں۔
دونوں شہزادگان والا درجات اپنے اپنے عہد میں قطب اکبر کی منزل میں فائز ہیں۔
سب وشتم،طعن وتشنیع،زد وکوب،تذلیل وتحقیر وغیرہ سے پڑھ کر بے ادبی قتل کا جرم ہے۔
سید الشہدا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے میدان کربلا میں اتمام حجت فرما دیا تھا۔یہاں تک کہ یزیدی لشکر کے اولین سپہ سالار حر بن یزید تمیمی یزیدی فوج سے الگ ہو کر حسینی جماعت میں شریک ہو گئے تھے۔حق اور باطل بالکل واضح ہو چکا تھا۔
ان سب حقائق کے باوجود محض دولت و حکومت کے لالچ میں یزیدیوں نے ظلم کے طور پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا۔
سوال ہے کہ مذکورہ بالا حقائق کے مد نظر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بد کردار قاتلین مثلا شمر بن ذی الجوشن،خولی بن یزید اصبحی،سپہ سالار عمرو بن سعد٬حاکم کوفہ عبید اللہ بن زیاد وغیرہم اہل سنت سے خارج ہیں یا نہیں؟
یا صرف فاسق و فاجر اور گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں؟
میدان کربلا میں اتمام حجت کے سبب حق و باطل واضح تھا اور سید مظلوم حضرت ام
ام حسین رضی اللہ تعالی عنہ صحابی ہیں اور صحابی کی بے ادبی کا حکم عام مومنین کی بے ادبی کے حکم سے زیادہ سخت ہے۔
قتل سے بڑھ بے ادبی کیا ہو سکتی ہے،پھر اس قتل کا کیا حکم ہے؟
چوں کہ یہ معاملہ صدی اول کا ہے۔حادثہ کربلا 10؛محرم الحرام 61 سال ہجری کو پیش ایا،اس لئے اسلاف کرام کی تحریروں سے جواب دیا جائے۔
اہل سنت و جماعت کا متفق علیہ قول بیان کیا جائے۔
اگر اختلاف ہو تو راجح قول بیان کیا جائے۔
خود سے اصول و قوانین کو منطبق کر کے جواب نہ دیں۔
خیال رہے کہ یزید پلید کے بارے میں سوال نہیں ہے،بلکہ میدان کربلا میں جو قاتلین تھے،ان اشقیا و ظالمین سے متعلق سوال ہے۔
سوال دوم:
محتمل لفظ اور صریح لفظ کے احکام الگ ہیں یا ایک ہی ہیں؟
کیا صریح لفظ کے احکام کو محتمل لفظ پر منطبق کیا جا سکتا ہے؟
مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کے کلام کفری معنی میں صریح متعین ہیں۔لفظ خطا محتمل ہے تو متعین کلام کے احکام محتمل لفظ پر کیسے منطبق ہو سکتے ہیں؟
سوال سوم؛
لفظ خطا محتمل ہے یا صریح؟
طارق انور مصباحی
جاری کردہ؛
14:اگست2020
قتل سے بڑھ بے ادبی کیا ہو سکتی ہے،پھر اس قتل کا کیا حکم ہے؟
چوں کہ یہ معاملہ صدی اول کا ہے۔حادثہ کربلا 10؛محرم الحرام 61 سال ہجری کو پیش ایا،اس لئے اسلاف کرام کی تحریروں سے جواب دیا جائے۔
اہل سنت و جماعت کا متفق علیہ قول بیان کیا جائے۔
اگر اختلاف ہو تو راجح قول بیان کیا جائے۔
خود سے اصول و قوانین کو منطبق کر کے جواب نہ دیں۔
خیال رہے کہ یزید پلید کے بارے میں سوال نہیں ہے،بلکہ میدان کربلا میں جو قاتلین تھے،ان اشقیا و ظالمین سے متعلق سوال ہے۔
سوال دوم:
محتمل لفظ اور صریح لفظ کے احکام الگ ہیں یا ایک ہی ہیں؟
کیا صریح لفظ کے احکام کو محتمل لفظ پر منطبق کیا جا سکتا ہے؟
مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کے کلام کفری معنی میں صریح متعین ہیں۔لفظ خطا محتمل ہے تو متعین کلام کے احکام محتمل لفظ پر کیسے منطبق ہو سکتے ہیں؟
سوال سوم؛
لفظ خطا محتمل ہے یا صریح؟
طارق انور مصباحی
جاری کردہ؛
14:اگست2020
مبسملا و حامدا::ومصلیا و مسلما
جشن ازادی مبارک ہو
جہاں سب لوگ خوشی کا اظہار کر رہے ہوں تو ہمیں بھی وہاں خوشی کا اظہار کرنا چاہئے،تاکہ خوشی میں اضافہ ہو جائے اور جشن منانے والے جشن سے بھر پور لطف اندوز ہو سکیں۔
15،:اگست 1947کو ہمارا وطن انگریزوں کی غلامی سے ازاد ہوا تھا۔ایک طرف ملک بھر میں جشن کا ماحول تھا تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت ملک بھر میں ڈری سہمی نظر ا رہی تھی۔
ملک کے مختلف علاقوں سے مسلمان ملک چھوڑ کر بھاگے چلے جا رہے تھے۔ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
تحریک ازادی کا ہیرو ملک کی راجدھانی دلی میں نہیں تھا۔نہ ہی وہ جشن ازادی میں شریک تھا۔وہ ملک کے مختلف علاقوں میں بھاگ دوڑ کر فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کی کوشش میں سرگرداں تھا۔
وہ موہن داس کرم چند گاندھی جسے سار ملک فادر اف نیشن کہتا ہے،وہ نہ حکومت و دولت کا طلب گار تھا۔نہ عیش و عشرت کا دلدادہ اور نہ جاہ و حشمت کا متوالا۔
وہ امن عامہ کے قیام کے لئے تڑپ رہا تھا۔کبھی یہاں جاتا،کبھی وہاں جاتا۔
اس نے اپنے خوابوں میں جس چمن کا تصور کیا تھا،وہ اسے مل چکا تھا،لیکن جا بجا خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔
ملک میں ایک طبقہ تھا جو بھارت کی ازادی کو صرف اپنے لوگوں تک محدود رکھنا چاہتا تھا۔ملک انگریزوں کی حکومت سے ازاد ہوتے ہی غلط افکار و نظریات کا غلام بن چکا تھا۔فادر اف نیشن بھی جسے کنٹرول کرنے میں ناکام رہا،بلکہ چھ ماہ کے بعد ہی 30:جنوری1948کو اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ ہے بھارت کی ازادی کا مختصر سا خاکہ۔
73: سالوں میں اسی خاکہ کی تفصیل ہمیں نظر اتی ہے۔مجھے سمجھ میں نہیں اتا کہ ہم ازاد ہوئے یا نہیں؟
ہاں،اس ازادی کی خوشی کو ہم بھنگ نہیں کرنا چاہتے۔اپنا درد و کرب گرچہ ہم بیان کر رہے ہیں،لیکن جشن ازادی میں ہم شریک ہیں۔
دس دنوں قبل ہی ہماری مسجد کی جگہ مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے،جس کا ہمیں بہت افسوس ہے اور ہم اپنے پروردگار کی رحمتوں کے امید وار ہیں۔
اس ازاد ملک میں اب سی اے اے،این ار سی اور این پی ار کی مصیبتوں سے ہمیں دو چار ہونے کا خدشہ ہے۔ابھی تو کرونا ہے کہ جس نے اہل حکومت کو سب کچھ کرنے سے روک دیا ہے۔
فروری 2020 میں ملک کی راجدھانی دلی میں ہمارا قتل عام ہوا،ہماری جائیدادیں لٹ گئیں اور پھر کورٹ میں مجرم بھی ہم ہی ثابت ہوئے۔جیل بھی ہمیں جانا پڑا۔سمجھ میں نہیں اتا کہ ہم ازاد ہو گئے اور سب کے لئے مساوی حقوق اور یکساں انصاف ہے۔
کل ہمیں یہ بھی دیکھ لینا ہے کہ بھارت کا وزیر اعظم اپنے خطاب میں کیا کہتا ہے۔کیا ہمارے لئے نیک جذبات کے دو جملے بھی بولتا ہے یا ہمیں بھول جاتا ہے۔
اب اس ملک میں باوقار وجود کے لئے ہمیں بہت کچھ سوچنا ہو گا۔اپنی اجتماعی اور قومی بھلائیوں کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ازادی سے پہلے اور ازادی کے بعد بھی یہاں وہاں ہمیں گاجر مولی کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے۔ہماری نسلیں تباہ اور ہماری جائیدادیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ہماری بہن بیٹیوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔
کہیں سے ہمیں انصاف ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ہمیں غلط فہمی ہو گئی تھی کہ ہم ازاد ہو گئے۔شاید ملک انگریزوں کی حکومت سے ازاد ہو گیا اور ہم ازاد نہ ہو سکے۔اب ہمیں ازادی کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔
اگر ہم سوچتے رہ گئے تو عملی اقدام مشکل ہو جائے گا۔ساری دنیا جانتی ہے کہ جمہوری ملک میں وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جس کے ہاتھوں میں حکومت و سیاست ہو یا جو حکومت و سیاست میں اپنی مضبوط حصہ داری رکھتی ہو۔
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ حکومت و سیاست میں مضبوط حصہ داری نہیں کرتے۔اپنے درمیان سیاسی بیداری نہیں لاتے اور امید لگائے رکھتے ہیں کہ شاید فلاں پارٹی جیت جائے تو ہمارے ساتھ کچھ بھلائی کرے۔
ذرا اپ سوچیں کہ ایک اپاہج ہے جو اپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکتا۔اب اپ کی مرضی ہے کہ چاہیں تو اس کے ساتھ انسانیت کے نام پر حسن سلوک کریں یا اپ اس سے منہ پھیر لیں۔وہ اپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
اسی طرح بھارتی مسلمانوں نے سیاسی میدان میں خود کو اپاہج بنا لیا ہے۔کوئی سیاسی پارٹی اپ کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اس کی انسانیت نوازی ہے،ورنہ وہ اپ سے منہ پھیر لے تو بھی اپ اس کا کچھ نقصان نہیں کر سکتے۔
سیاسی پارٹیاں ہم سے بے خوف ہو چکی ہیں۔وہ ہمیں محض ایک بیل کی طرح سمجھتی ہیں کہ جب اسے اپنے قریب کرنا چاہو تو ہاتھ میں کچھ ہرے پتے لے کر چمکارو تو وہ دوڑا چلا اتا ہے۔
مسلمانو! اپنے اندر سیاسی بیداری پیدا کرو۔ہم نہیں رہیں گے۔اپ نہیں رہیں گے،لیکن ہماری اور اپ کی ال و اولاد رہے گی۔تم اپنی انے والی نسل کو کیسا بھارت سپرد کرنا چاہتے ہو؟
کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری ائندہ نسلیں بھی اسی طرح ماب لنچنگ اور فرقہ وارانہ فسادات میں تباہ و برباد ہوتی رہیں۔جس طرح اج ہم مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔سوچو اور اگے بڑھو۔
خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
جسے نہ ہو خیال خود ہی اپنی حالت بدلنے کا
پہلی
جشن ازادی مبارک ہو
جہاں سب لوگ خوشی کا اظہار کر رہے ہوں تو ہمیں بھی وہاں خوشی کا اظہار کرنا چاہئے،تاکہ خوشی میں اضافہ ہو جائے اور جشن منانے والے جشن سے بھر پور لطف اندوز ہو سکیں۔
15،:اگست 1947کو ہمارا وطن انگریزوں کی غلامی سے ازاد ہوا تھا۔ایک طرف ملک بھر میں جشن کا ماحول تھا تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت ملک بھر میں ڈری سہمی نظر ا رہی تھی۔
ملک کے مختلف علاقوں سے مسلمان ملک چھوڑ کر بھاگے چلے جا رہے تھے۔ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
تحریک ازادی کا ہیرو ملک کی راجدھانی دلی میں نہیں تھا۔نہ ہی وہ جشن ازادی میں شریک تھا۔وہ ملک کے مختلف علاقوں میں بھاگ دوڑ کر فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کی کوشش میں سرگرداں تھا۔
وہ موہن داس کرم چند گاندھی جسے سار ملک فادر اف نیشن کہتا ہے،وہ نہ حکومت و دولت کا طلب گار تھا۔نہ عیش و عشرت کا دلدادہ اور نہ جاہ و حشمت کا متوالا۔
وہ امن عامہ کے قیام کے لئے تڑپ رہا تھا۔کبھی یہاں جاتا،کبھی وہاں جاتا۔
اس نے اپنے خوابوں میں جس چمن کا تصور کیا تھا،وہ اسے مل چکا تھا،لیکن جا بجا خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔
ملک میں ایک طبقہ تھا جو بھارت کی ازادی کو صرف اپنے لوگوں تک محدود رکھنا چاہتا تھا۔ملک انگریزوں کی حکومت سے ازاد ہوتے ہی غلط افکار و نظریات کا غلام بن چکا تھا۔فادر اف نیشن بھی جسے کنٹرول کرنے میں ناکام رہا،بلکہ چھ ماہ کے بعد ہی 30:جنوری1948کو اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ ہے بھارت کی ازادی کا مختصر سا خاکہ۔
73: سالوں میں اسی خاکہ کی تفصیل ہمیں نظر اتی ہے۔مجھے سمجھ میں نہیں اتا کہ ہم ازاد ہوئے یا نہیں؟
ہاں،اس ازادی کی خوشی کو ہم بھنگ نہیں کرنا چاہتے۔اپنا درد و کرب گرچہ ہم بیان کر رہے ہیں،لیکن جشن ازادی میں ہم شریک ہیں۔
دس دنوں قبل ہی ہماری مسجد کی جگہ مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے،جس کا ہمیں بہت افسوس ہے اور ہم اپنے پروردگار کی رحمتوں کے امید وار ہیں۔
اس ازاد ملک میں اب سی اے اے،این ار سی اور این پی ار کی مصیبتوں سے ہمیں دو چار ہونے کا خدشہ ہے۔ابھی تو کرونا ہے کہ جس نے اہل حکومت کو سب کچھ کرنے سے روک دیا ہے۔
فروری 2020 میں ملک کی راجدھانی دلی میں ہمارا قتل عام ہوا،ہماری جائیدادیں لٹ گئیں اور پھر کورٹ میں مجرم بھی ہم ہی ثابت ہوئے۔جیل بھی ہمیں جانا پڑا۔سمجھ میں نہیں اتا کہ ہم ازاد ہو گئے اور سب کے لئے مساوی حقوق اور یکساں انصاف ہے۔
کل ہمیں یہ بھی دیکھ لینا ہے کہ بھارت کا وزیر اعظم اپنے خطاب میں کیا کہتا ہے۔کیا ہمارے لئے نیک جذبات کے دو جملے بھی بولتا ہے یا ہمیں بھول جاتا ہے۔
اب اس ملک میں باوقار وجود کے لئے ہمیں بہت کچھ سوچنا ہو گا۔اپنی اجتماعی اور قومی بھلائیوں کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ازادی سے پہلے اور ازادی کے بعد بھی یہاں وہاں ہمیں گاجر مولی کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے۔ہماری نسلیں تباہ اور ہماری جائیدادیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ہماری بہن بیٹیوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔
کہیں سے ہمیں انصاف ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ہمیں غلط فہمی ہو گئی تھی کہ ہم ازاد ہو گئے۔شاید ملک انگریزوں کی حکومت سے ازاد ہو گیا اور ہم ازاد نہ ہو سکے۔اب ہمیں ازادی کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔
اگر ہم سوچتے رہ گئے تو عملی اقدام مشکل ہو جائے گا۔ساری دنیا جانتی ہے کہ جمہوری ملک میں وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جس کے ہاتھوں میں حکومت و سیاست ہو یا جو حکومت و سیاست میں اپنی مضبوط حصہ داری رکھتی ہو۔
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ حکومت و سیاست میں مضبوط حصہ داری نہیں کرتے۔اپنے درمیان سیاسی بیداری نہیں لاتے اور امید لگائے رکھتے ہیں کہ شاید فلاں پارٹی جیت جائے تو ہمارے ساتھ کچھ بھلائی کرے۔
ذرا اپ سوچیں کہ ایک اپاہج ہے جو اپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکتا۔اب اپ کی مرضی ہے کہ چاہیں تو اس کے ساتھ انسانیت کے نام پر حسن سلوک کریں یا اپ اس سے منہ پھیر لیں۔وہ اپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
اسی طرح بھارتی مسلمانوں نے سیاسی میدان میں خود کو اپاہج بنا لیا ہے۔کوئی سیاسی پارٹی اپ کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اس کی انسانیت نوازی ہے،ورنہ وہ اپ سے منہ پھیر لے تو بھی اپ اس کا کچھ نقصان نہیں کر سکتے۔
سیاسی پارٹیاں ہم سے بے خوف ہو چکی ہیں۔وہ ہمیں محض ایک بیل کی طرح سمجھتی ہیں کہ جب اسے اپنے قریب کرنا چاہو تو ہاتھ میں کچھ ہرے پتے لے کر چمکارو تو وہ دوڑا چلا اتا ہے۔
مسلمانو! اپنے اندر سیاسی بیداری پیدا کرو۔ہم نہیں رہیں گے۔اپ نہیں رہیں گے،لیکن ہماری اور اپ کی ال و اولاد رہے گی۔تم اپنی انے والی نسل کو کیسا بھارت سپرد کرنا چاہتے ہو؟
کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری ائندہ نسلیں بھی اسی طرح ماب لنچنگ اور فرقہ وارانہ فسادات میں تباہ و برباد ہوتی رہیں۔جس طرح اج ہم مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔سوچو اور اگے بڑھو۔
خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
جسے نہ ہو خیال خود ہی اپنی حالت بدلنے کا
پہلی
جنگ ازادی:1857 میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس جنگ میں مسلم و ہندو دونوں قومیں شریک تھیں۔جب انگریز جیت گئے تو مسلمانوں کا جینا مشکل کر دیا،کیوں کہ قوم مسلم اس جنگ میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھی۔
اہل ہند کی شکست کے سبب بھارت سے سلطنت مغلیہ کا نام و نشان مٹ گیا۔کئی ہزار علما و مشائخ کو پھانسی کی سزا دی گئی۔مسلمانوں کو تعلیمی و معاشی ہر اعتبار سے مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی۔
انگریزوں نے قوم ہنود کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا۔دونوں قوموں کے درمیان عداوت و اختلاف ڈالنے کی مضبوط کوششیں انگریزوں نے کیں۔اسی اختلافی کیفیت اور دلوں میں ڈالی ہوئی عداوت کا نتیجہ تھا کہ ازادی ہند کے وقت کانگریس اور مسلم لیگ میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
بھارت کا برہمنی تھنک ٹینک جو مسلم دشمنی میں انگریزوں سے بھی اگے بڑھ چکا تھا۔وہ قوم مسلم کو حکومت میں حصہ دینے کے لئے راضی نہ ہو سکا اور ملک تقسیم ہو گیا۔
وہی لوگ جن کی محدود فکر کے سبب ملک کو تقسیم کی اذیت میں مبتلا ہونا پڑا،وہ لوگ انگریزوں کے جانے کے بعد ملک کو اپنی جاگیر سمجھنے لگے۔
وہ مسلمانوں کو پستی کی طرف بھی لے جاتے اور اپنا عیب چھپانے کے واسطے کچھ مولوی نما چہروں کو بھی اپنا حامی و طرفدار بنا کر رکھتے،تاکہ ان کے ذریعہ مسلمانوں کے ووٹ بھی بٹور سکیں۔
در اصل ان مولوی نما چہروں کو دیکھ کر مسلم قوم دھوکہ کھا گئی،اور قوم اس دلدل میں جا پھنسی کہ وہاں سے واپسی بہت اسان نہیں۔
اب بھارت میں سیاسی سطح پر مسلمانوں کے ابھرنے کا راستہ یہی ہے کہ مسلم لیڈران بہوجن سماج کی سیاست کو اپنائیں،جس کی وضاحت میں نے اپنے متعدد حالیہ مضامین میں کر دی ہے۔اگر اپنی سیاست کا دائرہ مسلمانوں تک محدود رکھیں گے تو مسلم قوم کا خاطر خواہ فائدہ مشکل ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر ریاست کے ستر فی صد مسلمانوں نے کسی مسلم سیاسی پارٹی کی حمایت کردی تو ہر انتخابی حلقے میں دیگر قومیں بھی ہیں۔وہ کسی اور طرف چلی گئیں تو مسلم پارٹی کے امید واروں کا جیت جانا مشکل ہے۔
اگر چند سیٹوں پر مسلم پارٹی کے امید وار جیت بھی گئے تو چند ممبران اسمبلی کے ذریعہ نہ حکومت سازی کی جا سکتی ہے، نہ ہی قلت تعداد کے سب حکومت میں مضبوط حصہ داری ہو سکتی ہے۔
مجھے مسلم پارٹی پر اعتراض نہیں،بلکہ مسلم سیاست پر اعتراض ہے۔مسلم پارٹی بہوجن سماج(غیر ارین طبقات)کی سیاست کرے تو مستقبل میں حکومت سازی کی امید ہے۔
بہوجن سماج بھارت کی تمام غیر ارین اقوام کو شامل ہے۔جن کی تعداد پچاسی فی صد ہے۔یہ بھارت کی مول نواسی(اصل باشندہ)اقوام ہیں۔مسلم،سکھ،بودھ،جینی،ایس سی،ایس ٹی،اوبی سی: سب اس میں شریک ہیں۔
اس کے بالمقابل اریہ سماج ہے۔جس میں برہمن،راجپوت اور بنیا شامل ہیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ؛
14:اگست 2020
اہل ہند کی شکست کے سبب بھارت سے سلطنت مغلیہ کا نام و نشان مٹ گیا۔کئی ہزار علما و مشائخ کو پھانسی کی سزا دی گئی۔مسلمانوں کو تعلیمی و معاشی ہر اعتبار سے مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی۔
انگریزوں نے قوم ہنود کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا۔دونوں قوموں کے درمیان عداوت و اختلاف ڈالنے کی مضبوط کوششیں انگریزوں نے کیں۔اسی اختلافی کیفیت اور دلوں میں ڈالی ہوئی عداوت کا نتیجہ تھا کہ ازادی ہند کے وقت کانگریس اور مسلم لیگ میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
بھارت کا برہمنی تھنک ٹینک جو مسلم دشمنی میں انگریزوں سے بھی اگے بڑھ چکا تھا۔وہ قوم مسلم کو حکومت میں حصہ دینے کے لئے راضی نہ ہو سکا اور ملک تقسیم ہو گیا۔
وہی لوگ جن کی محدود فکر کے سبب ملک کو تقسیم کی اذیت میں مبتلا ہونا پڑا،وہ لوگ انگریزوں کے جانے کے بعد ملک کو اپنی جاگیر سمجھنے لگے۔
وہ مسلمانوں کو پستی کی طرف بھی لے جاتے اور اپنا عیب چھپانے کے واسطے کچھ مولوی نما چہروں کو بھی اپنا حامی و طرفدار بنا کر رکھتے،تاکہ ان کے ذریعہ مسلمانوں کے ووٹ بھی بٹور سکیں۔
در اصل ان مولوی نما چہروں کو دیکھ کر مسلم قوم دھوکہ کھا گئی،اور قوم اس دلدل میں جا پھنسی کہ وہاں سے واپسی بہت اسان نہیں۔
اب بھارت میں سیاسی سطح پر مسلمانوں کے ابھرنے کا راستہ یہی ہے کہ مسلم لیڈران بہوجن سماج کی سیاست کو اپنائیں،جس کی وضاحت میں نے اپنے متعدد حالیہ مضامین میں کر دی ہے۔اگر اپنی سیاست کا دائرہ مسلمانوں تک محدود رکھیں گے تو مسلم قوم کا خاطر خواہ فائدہ مشکل ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر ریاست کے ستر فی صد مسلمانوں نے کسی مسلم سیاسی پارٹی کی حمایت کردی تو ہر انتخابی حلقے میں دیگر قومیں بھی ہیں۔وہ کسی اور طرف چلی گئیں تو مسلم پارٹی کے امید واروں کا جیت جانا مشکل ہے۔
اگر چند سیٹوں پر مسلم پارٹی کے امید وار جیت بھی گئے تو چند ممبران اسمبلی کے ذریعہ نہ حکومت سازی کی جا سکتی ہے، نہ ہی قلت تعداد کے سب حکومت میں مضبوط حصہ داری ہو سکتی ہے۔
مجھے مسلم پارٹی پر اعتراض نہیں،بلکہ مسلم سیاست پر اعتراض ہے۔مسلم پارٹی بہوجن سماج(غیر ارین طبقات)کی سیاست کرے تو مستقبل میں حکومت سازی کی امید ہے۔
بہوجن سماج بھارت کی تمام غیر ارین اقوام کو شامل ہے۔جن کی تعداد پچاسی فی صد ہے۔یہ بھارت کی مول نواسی(اصل باشندہ)اقوام ہیں۔مسلم،سکھ،بودھ،جینی،ایس سی،ایس ٹی،اوبی سی: سب اس میں شریک ہیں۔
اس کے بالمقابل اریہ سماج ہے۔جس میں برہمن،راجپوت اور بنیا شامل ہیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ؛
14:اگست 2020
https://www.facebook.com/112314857131436/posts/159026079126980/
*وقت کی پکار*
ایسی پریشانی اور بے بسی کے عالم میں بھی روز بروز جس طرح سے ہمارے یہاں تقریبات کی کثرت ہوتی جارہی ہے وہ تشویش ناک ہے۔
اب ہر شخصیت کے یوم وصال کے ساتھ ساتھ یوم پیدائش بھی منایا جارہا ہے۔ اور اگر اس ممدوح کی زندگی میں کوئی خاص دن تھا تو اسے بھی سلیبریٹ کیا جارہا ہے۔
ہماری ان رسومات اور ان میں در آئی خرافات کو دیکھ کر ہی پڑھے لکھے دانشور لوگ ہمارے قریب نہیں آتے اور سنیوں کو جاہلوں کی جماعت کہا جاتا ہے۔
جبکہ اب تک اہل سنت کا طریقہ یہی رہا ہے کہ یوم پیدائش صرف آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منایا جاتا رہا ہے, بقیہ سب کے یوم وصال منائے جاتے رہے ہیں۔ اور اب بھی یہی کرنے کی ضرورت ہے۔
*ورنہ جس تیزی کے ساتھ یوم پیدائش, یوم وصال اور ایام مخصوصہ کی تقریبات منائی جارہی ہیں, کچھ ہی دنوں میں کوئی دن باقی نہ رہے گا جس دن مسلمانوں کا اچھا خاصا پیسہ ان میں خرچ نہ ہو۔*
وہیں تعمیری کام اپنی باری کا انتظار ہی کرتے رہیں گے۔
آج امت مسلمہ کو ضرورت ہے اپنے کالجوں، اسپتالوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی۔
اگر اس پر وقت رہتے توجہ نہ دی گئی تو پھر زندگی کی تمنا محض خواب ہوگی۔
*کرنا تو یہ چاہیے! کہ اپنے اپنے ممدوح کے نام پر جلسہ، جلوس اور قوالی وغیرہ میں لاکھوں خرچ کرنے کے بجائے اسی ممدوح کے نام سے؛ اسی پیسے سے ان کے ایصال ثواب کے لیے ایک اسکول قائم کردیں، ہر سال اس میں اضافہ کرتے جائیں۔*
کچھ میڈیکل اور قانون کے طلبہ کو اسکالر شپ کا انتظام کردیں۔
اگر مریدین و متوسلین صاحبِ حیثیت ہیں تو میڈیکل کالج اور لاء کالج بنوائیں یا مختلف شہروں میں اچھے اسکول قائم کرتے جائیں۔
اگر یہ کام ہوگیا تو وہ ایصال ثواب جو ایک بار میں ختم ہوجاتا تھا، اب وہ صدقۂ جاریہ بن جائے گا۔
اس سے آپ کے ممدوح کو زیادہ خوشی ہوگی۔ اور امت کی مشکلات بھی حل ہوں گی۔
*محمد شاہد علی مصباحی*
روشن مستقبل دہلی
تحریک علمائے بندیل کھنڈ
*وقت کی پکار*
ایسی پریشانی اور بے بسی کے عالم میں بھی روز بروز جس طرح سے ہمارے یہاں تقریبات کی کثرت ہوتی جارہی ہے وہ تشویش ناک ہے۔
اب ہر شخصیت کے یوم وصال کے ساتھ ساتھ یوم پیدائش بھی منایا جارہا ہے۔ اور اگر اس ممدوح کی زندگی میں کوئی خاص دن تھا تو اسے بھی سلیبریٹ کیا جارہا ہے۔
ہماری ان رسومات اور ان میں در آئی خرافات کو دیکھ کر ہی پڑھے لکھے دانشور لوگ ہمارے قریب نہیں آتے اور سنیوں کو جاہلوں کی جماعت کہا جاتا ہے۔
جبکہ اب تک اہل سنت کا طریقہ یہی رہا ہے کہ یوم پیدائش صرف آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منایا جاتا رہا ہے, بقیہ سب کے یوم وصال منائے جاتے رہے ہیں۔ اور اب بھی یہی کرنے کی ضرورت ہے۔
*ورنہ جس تیزی کے ساتھ یوم پیدائش, یوم وصال اور ایام مخصوصہ کی تقریبات منائی جارہی ہیں, کچھ ہی دنوں میں کوئی دن باقی نہ رہے گا جس دن مسلمانوں کا اچھا خاصا پیسہ ان میں خرچ نہ ہو۔*
وہیں تعمیری کام اپنی باری کا انتظار ہی کرتے رہیں گے۔
آج امت مسلمہ کو ضرورت ہے اپنے کالجوں، اسپتالوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی۔
اگر اس پر وقت رہتے توجہ نہ دی گئی تو پھر زندگی کی تمنا محض خواب ہوگی۔
*کرنا تو یہ چاہیے! کہ اپنے اپنے ممدوح کے نام پر جلسہ، جلوس اور قوالی وغیرہ میں لاکھوں خرچ کرنے کے بجائے اسی ممدوح کے نام سے؛ اسی پیسے سے ان کے ایصال ثواب کے لیے ایک اسکول قائم کردیں، ہر سال اس میں اضافہ کرتے جائیں۔*
کچھ میڈیکل اور قانون کے طلبہ کو اسکالر شپ کا انتظام کردیں۔
اگر مریدین و متوسلین صاحبِ حیثیت ہیں تو میڈیکل کالج اور لاء کالج بنوائیں یا مختلف شہروں میں اچھے اسکول قائم کرتے جائیں۔
اگر یہ کام ہوگیا تو وہ ایصال ثواب جو ایک بار میں ختم ہوجاتا تھا، اب وہ صدقۂ جاریہ بن جائے گا۔
اس سے آپ کے ممدوح کو زیادہ خوشی ہوگی۔ اور امت کی مشکلات بھی حل ہوں گی۔
*محمد شاہد علی مصباحی*
روشن مستقبل دہلی
تحریک علمائے بندیل کھنڈ
🌸🌸🌸🌹🌹🌹❤️
گمراہ فرقوں کے نام
❶ معتزلہ (قدریہ )
معتزلہ کے کل بیس فرقے ہیں ۔
❶ واصلیہ ❷ عمریہ
❸ ہذیلیہ ❹ نظامیہ
❺ اسواریہ ❻ اِ سکافیہ
❼ جعفریہ ❽ بِشریہ
❾ مُزداریہ ❿ ہشامیہ
❶ ❶ صالحیہ ❷ ❶ حابطیہ
❸ ❶ حدبیہ ❹❶ مَعمریہ
❺ ❶ ثمامیہ ❻ ❶ خیّاطیّہ
❼ ❶ جاحظیہ ❽ ❶کعبیہ
❾ ❶ جبائیہ ⑳ بہشمیہ
❷ شیعہ (فتنوں کاظہور ص ۳۶ )
ان میں بنیادی فرقے تین ہیں ۔
❶ غلاۃ ❷ زیدیہ ❸ امامیہ
غلاۃ سے اٹھارہ فرقے پیدا ہوئے ۔
❶ سبائیہ ❷ کاملیہ نم
❸ بنانیہ یابیانیہ ن ❹ مغیریہ
❺ جناحیہ ❻ منصوریہ
❼ خطابیہ ❽ غرابیہ اورذبابیہ
❾ ذمّیہ ❿ ہشامیہ
❶ ❶ زُراریہ ❷ ❶ یونسیہ
❸ ❶ شیطانیہ ❹ ❶ رزامیہ
❺ ❶ مفوّضہ ❻ ❶ بدئیہ
❼ ❶ نُصیریہ اوراسحاقیہ ❽ ❶ اِ سماعلیہ
اسماعلیہ کے سات القاب ہیں ۔
❶ باطنیہ ❷ قرامطہ
❸ حِرمیہ ❹ سبعیہ
❺ بابکیہ ❻ مُحمرہ
❼ اسماعلیہ
اسماعلیہ کے چند فرقے ہیں ۔
❶ مبارکیہ ❷ میمونیہ
❸ شمیطیہ ❹ برقیہ
❺ جنابیہ ❻ مہدویہ
❼ مستعلیہ ❽ نزاریہ
زیدیہ کے تین فرقے ہیں ۔
❶ جارودیہ ❷ سلیمانیہ ❸ تبیریہ
فرقہ امامیہ
امامیہ کی بہت شاخیں ہیں ۔
❶ افطحیہ ❷ مفضلیہ
❸ ممطوریہ ❹ موسویہ
❺ رجعیہ ❻ احمدیہ
❼ اثناعشریہ ❽ جعفریہ
❸ خوارج
خارجیوں کےسات فرقے ہیں ۔
❶ محکمہ ❷ بیہسیہ
❸ ازارقہ ❹نجدات
❺ صُفریہ یااصفریہ ❻ اباضیہ
❼ عجاردہ
عجاردہ کےدس فرقے ہیں ۔
❶ میمونیہ ❷ حمزیہ
❸ شعیبیہ ❹ حازمیہ
❺ خلفیہ ❻ اطرافیہ
❼ معلومیہ ❽ مجہولیہ
❾ صلتیہ ❿ ثعالبہ
ثعالبہ کے چار فرقے ہوگئے
❶ اخنسیہ ❷ معبدیہ
❸ شیبانیہ ❹ مکرّمیہ
خوارج میں سےچندفرقوں کےنام مندرجہ ذیل ہیں ۔
❶ ضحاکیہ ❷ شبیبیہ
❸ کوزیہ ❹ کنزیہ
❺ شمراخیہ ❻ بدعیہ
❼ اصومیہ ❽ یعقوبیہ
❾ فضلیہ
❹ مرجئہ
مرجئہ کےپانچ فرقے ہیں ۔
❶ یونسیہ ❷ عبیدیہ
❸ غسّانیہ ❹ ثوبانیہ
❺ ثومنیہ
❺ نجاریہ
نجاریہ کے تین فرقے ہیں ۔
❶ بُرغوثیہ ❷ زعفرانیہ
❸ مستدرکیہ
❻ جبریہ
جبریہ کی دو قسمیں ہیں ۔
❶ متوسطہ ❷ خالصہ
❼ مشبہہ
❶ مشبہہ غلاۃ شیعہ مثلا سبائیہ بیانیہ اور مغیریہ وغیرہ کی طرح ہیں ۔
❷ مشبہہ حشویہ جیسے مضر ۔کہمش اور ہجیمی
❸ مشبہہ کرامیہ
وہ فرقے جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔
❶ قادیانی
❷ نیچریہ
❸ اہلِ قرآن یا چکڑالوی
❹ وہابیہ یا نجدیہ
ہندوستان کے وہابی دو فرقوں میں بٹ گئے ۔
❶ اہلِ حدیث
❷ دیوبندی
فتنوں کاظہور اور اہلِ حق کا جہاد ص ۲۱ تا ۹۵
🌸🌸🌸🌹🌹🌹
گمراہ فرقوں کے نام
❶ معتزلہ (قدریہ )
معتزلہ کے کل بیس فرقے ہیں ۔
❶ واصلیہ ❷ عمریہ
❸ ہذیلیہ ❹ نظامیہ
❺ اسواریہ ❻ اِ سکافیہ
❼ جعفریہ ❽ بِشریہ
❾ مُزداریہ ❿ ہشامیہ
❶ ❶ صالحیہ ❷ ❶ حابطیہ
❸ ❶ حدبیہ ❹❶ مَعمریہ
❺ ❶ ثمامیہ ❻ ❶ خیّاطیّہ
❼ ❶ جاحظیہ ❽ ❶کعبیہ
❾ ❶ جبائیہ ⑳ بہشمیہ
❷ شیعہ (فتنوں کاظہور ص ۳۶ )
ان میں بنیادی فرقے تین ہیں ۔
❶ غلاۃ ❷ زیدیہ ❸ امامیہ
غلاۃ سے اٹھارہ فرقے پیدا ہوئے ۔
❶ سبائیہ ❷ کاملیہ نم
❸ بنانیہ یابیانیہ ن ❹ مغیریہ
❺ جناحیہ ❻ منصوریہ
❼ خطابیہ ❽ غرابیہ اورذبابیہ
❾ ذمّیہ ❿ ہشامیہ
❶ ❶ زُراریہ ❷ ❶ یونسیہ
❸ ❶ شیطانیہ ❹ ❶ رزامیہ
❺ ❶ مفوّضہ ❻ ❶ بدئیہ
❼ ❶ نُصیریہ اوراسحاقیہ ❽ ❶ اِ سماعلیہ
اسماعلیہ کے سات القاب ہیں ۔
❶ باطنیہ ❷ قرامطہ
❸ حِرمیہ ❹ سبعیہ
❺ بابکیہ ❻ مُحمرہ
❼ اسماعلیہ
اسماعلیہ کے چند فرقے ہیں ۔
❶ مبارکیہ ❷ میمونیہ
❸ شمیطیہ ❹ برقیہ
❺ جنابیہ ❻ مہدویہ
❼ مستعلیہ ❽ نزاریہ
زیدیہ کے تین فرقے ہیں ۔
❶ جارودیہ ❷ سلیمانیہ ❸ تبیریہ
فرقہ امامیہ
امامیہ کی بہت شاخیں ہیں ۔
❶ افطحیہ ❷ مفضلیہ
❸ ممطوریہ ❹ موسویہ
❺ رجعیہ ❻ احمدیہ
❼ اثناعشریہ ❽ جعفریہ
❸ خوارج
خارجیوں کےسات فرقے ہیں ۔
❶ محکمہ ❷ بیہسیہ
❸ ازارقہ ❹نجدات
❺ صُفریہ یااصفریہ ❻ اباضیہ
❼ عجاردہ
عجاردہ کےدس فرقے ہیں ۔
❶ میمونیہ ❷ حمزیہ
❸ شعیبیہ ❹ حازمیہ
❺ خلفیہ ❻ اطرافیہ
❼ معلومیہ ❽ مجہولیہ
❾ صلتیہ ❿ ثعالبہ
ثعالبہ کے چار فرقے ہوگئے
❶ اخنسیہ ❷ معبدیہ
❸ شیبانیہ ❹ مکرّمیہ
خوارج میں سےچندفرقوں کےنام مندرجہ ذیل ہیں ۔
❶ ضحاکیہ ❷ شبیبیہ
❸ کوزیہ ❹ کنزیہ
❺ شمراخیہ ❻ بدعیہ
❼ اصومیہ ❽ یعقوبیہ
❾ فضلیہ
❹ مرجئہ
مرجئہ کےپانچ فرقے ہیں ۔
❶ یونسیہ ❷ عبیدیہ
❸ غسّانیہ ❹ ثوبانیہ
❺ ثومنیہ
❺ نجاریہ
نجاریہ کے تین فرقے ہیں ۔
❶ بُرغوثیہ ❷ زعفرانیہ
❸ مستدرکیہ
❻ جبریہ
جبریہ کی دو قسمیں ہیں ۔
❶ متوسطہ ❷ خالصہ
❼ مشبہہ
❶ مشبہہ غلاۃ شیعہ مثلا سبائیہ بیانیہ اور مغیریہ وغیرہ کی طرح ہیں ۔
❷ مشبہہ حشویہ جیسے مضر ۔کہمش اور ہجیمی
❸ مشبہہ کرامیہ
وہ فرقے جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔
❶ قادیانی
❷ نیچریہ
❸ اہلِ قرآن یا چکڑالوی
❹ وہابیہ یا نجدیہ
ہندوستان کے وہابی دو فرقوں میں بٹ گئے ۔
❶ اہلِ حدیث
❷ دیوبندی
فتنوں کاظہور اور اہلِ حق کا جہاد ص ۲۱ تا ۹۵
🌸🌸🌸🌹🌹🌹
○محرم الحرام اورنظریات اہل سنت○
محرم کےپہلےدس دنوں میں سیاہ، سبزاورسرخ رنگ کےکپڑےپہننےسےبچناچاہیے
(فتاوی رضویہ،ج24ص496)
اس مہینےمیں تعزیہ بنانا،ماتم کرنا،گھوڑانکالنا،
سینہ پیٹنا،آہ وزاری کرناحرام ہے.نوحہ سننااورپڑھناحرام ہے.
حضورعلیہ السلام نےاس سےسختی سےمنع فرمایاہے
(ابوداود،ح3127)
ماتم سوگ اورنوحےکی حرمت
¤فرامین محبوب علیہ السلام¤
جس نےرخسارپیٹے کپڑےپھاڑے اورجاہلانہ چینخ وپکارکی وہ ہم میں سےنہیں
(بخاری حدیث1297)
نوحہ کرنےاورسننےوالی عورت پرلعنت ہے
(ابوداودحدیث3128)
کسی میت پرتین دنوںسےذیادہ سوگ کرناجائزنہیں سواۓبیوہ عورت کےوہ شوہرکی وفات پر4ماہ 10سوگ کرے
(مسلم حدیث3729)
¤اس مہینےمیں شہداءکربلاکا سوگ مناناحرام ہے
¤اس میں نکاح کرنا جائزہے
¤یہ عوامی بات کہ عاشورہ کےدن پانی کم استعمال کریں.
نہایانہ جاۓیہ بات غلط ہے.
¤شیعہ کی مجالس محرم اورماتم پربغرض ثواب یاصرف ان کاتماشا دیکھنےکےلیے
جاناحرام ہےکیونکہ:
جوکام ناجائزہے اسےتماشےکے طورپردیکھنے جانابھی گناہ ہے
(فتاوی رضویہ ج24ص499)
محرم کےپہلےدس دنوں میں سیاہ، سبزاورسرخ رنگ کےکپڑےپہننےسےبچناچاہیے
(فتاوی رضویہ،ج24ص496)
اس مہینےمیں تعزیہ بنانا،ماتم کرنا،گھوڑانکالنا،
سینہ پیٹنا،آہ وزاری کرناحرام ہے.نوحہ سننااورپڑھناحرام ہے.
حضورعلیہ السلام نےاس سےسختی سےمنع فرمایاہے
(ابوداود،ح3127)
ماتم سوگ اورنوحےکی حرمت
¤فرامین محبوب علیہ السلام¤
جس نےرخسارپیٹے کپڑےپھاڑے اورجاہلانہ چینخ وپکارکی وہ ہم میں سےنہیں
(بخاری حدیث1297)
نوحہ کرنےاورسننےوالی عورت پرلعنت ہے
(ابوداودحدیث3128)
کسی میت پرتین دنوںسےذیادہ سوگ کرناجائزنہیں سواۓبیوہ عورت کےوہ شوہرکی وفات پر4ماہ 10سوگ کرے
(مسلم حدیث3729)
¤اس مہینےمیں شہداءکربلاکا سوگ مناناحرام ہے
¤اس میں نکاح کرنا جائزہے
¤یہ عوامی بات کہ عاشورہ کےدن پانی کم استعمال کریں.
نہایانہ جاۓیہ بات غلط ہے.
¤شیعہ کی مجالس محرم اورماتم پربغرض ثواب یاصرف ان کاتماشا دیکھنےکےلیے
جاناحرام ہےکیونکہ:
جوکام ناجائزہے اسےتماشےکے طورپردیکھنے جانابھی گناہ ہے
(فتاوی رضویہ ج24ص499)
#غازی_ارطغرل کون تھا
ارتغل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہے , آپکی پیدائش 1191 عیسوی میں ہوئی اور وفات 1280 عیسوی میں کچھ کتابیں 1281 بتاتے ہیں, آپ ہی کے تین بیٹے تھے گندوز, ساؤچی اور عثمان اور آپکے تیسرے بیٹے عثمان نے 1291 یعنی اپنے والد ارتغل کی وفات کے 10 سال بعد خلافت بنائی اور ارتغل کے اسی بیٹے عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا لیکن خلافت کی بنیاد ارتغل غازی رح رکھ کر گئے تھے ….
اسکے بعد اسی خلافت نے 1291 عیسوی سے لیکے 1924 تک , 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا...
اس کے ساتھ مسجد نبوی. گنبد خضریٰ اور مسجد حرام کی جدید تعمیر . سیدنا امیر حمزہ کا مزار . مکہ مکرمہ تک ایک عظیم الشان نہر . آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پرانوار کے گرد سیسہ پلائی دیوار . مکہ مکرمہ تک ٹرین منصوبہ جیسے عظیم کارنامے سرانجام دیے...
ارتغل غازی کا خاندان وسطہ ایشیا سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوغوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک یہ قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارتغل غازی تعلق رکھتا تھا آپکے والد کا نام سلیمان شاہ تھا, ارتغل غازی کے تین اور بھائی تھے, صارم, ذوالجان اور گلدارو ,آپکی والدہ کا نام حائمہ تھا…
آپکا قبیلہ سب س پہلے وسطہ ایشیا Central asia سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آئے تھے منگولوں کی یلغار سے نمٹنے کےلئے..... جہاں سلطان علاو الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Sultan Alap Arslan نے قائم کی تھی 1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین بنے تھے…..
اسی سلطان علاوالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان Oghuz khan رہتے تھے, اور اس قائی قبیلے کے چیف ارتغل بنے اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعد, سب سے پہلے اہلت Ahlat آئے تھے پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے تھے 1232 جہاں *سلطان صلاح الدین ایوبی* کے پوتے الغزیز کی حکومت تھی, سب سے پہلے ارتغل نے العزیز کو اس کے محل میں موجود غداروں سے نجات دلائی پھر اس سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے شادی کی.... جس سے آپکو تین بیٹے ہوئے اوپر جو میں نے نام دیے ہیں, ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی, صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا, اسکے بعد ارتغل سلطان علاو الدین کے بہت قریب ہوگیا….
اس کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارتغل غازی نے منگول کے ایک ایم لیڈر نویان کو شکست دی ,نویان منگول بادشاہ اوکتائی خان کا Right hand تھا ,اوکتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوکتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد کو اس قدر روندا تھا کہ بغداد کی گلیاں خون سے بھر گئی تھیں دریائے فرات سرخ ہو گیا تھا…
اسی نویان کو شکست ارتغل نے دی تھی…
اور پھر ارتغل غازی اپنے قبیلے کو لیکے سوغت Sogut آئے بلکل قسطنطنیہ Contantinople کے قریب, اور پہلے وہاں بازنطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہیں تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا اور سلطان علاو الدین کے بعد آپ کے بیٹے غیاث الدین سلطان بن گئے انکی بیٹی کے ساتھ ہی عثمان کی شادی ہوئی ایک جنگ میں سلطان غیاث الدین شہید ہو گئے تو عثمان غازی سلطان بن گئے اور انکی نسل سے جاکے *سلطان محمد فاتح رح* تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پے حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی غیبی خبر پوری ہوئی……
تاریخ میں ارتغل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن ہماری نسل انکو جانتی نہیں بہت بہادر جنگجو تھے آپ…
ہر واریئر جنگجو اسلام میں گذرا اس پہ جس نے کچھ نہ کچھہ اسلام کے لیئے کیا اس کا ایک روحانی پہلو ضرور ہے, اسکے پیچھے ایک روحانی شخصت ضرور ہوتی ہے جسکی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے تاریخ اٹھا لیں بھلے اسلام کے آغاز سے لیکے اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام کے لیئے امت مسلمان کے لیئے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو اسکا روحانی پہلو بھی ضرور ہوگا….
اس جنگجو ارتغل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے جسکی ڈیوٹی لگائی تھی وہ *شیخ محی الدین ابن العربی رح* تھے ( آپ درجنوں کتب کے مصنف ہیں اس کے ساتھ آپ نے قرآن پاک کی مایہ ناز تفسیر بھی لکھی علم کی دنیا کے بادشاہ جانے جاتے تھے اور تصوف میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے) جو اندلس سے ارتغل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے…
امام ابن العربی نے ارتغل غازی کو دو مرتبہ موت کے منہ سے نکالا اور ہروقت ارتغل کی روحانی مدد کرتے رہتے تھے
اللہ پاک ارتغل غازی Ertugrul Ghazi کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمتیں ہوں ان پے…
آمین
ارتغل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہے , آپکی پیدائش 1191 عیسوی میں ہوئی اور وفات 1280 عیسوی میں کچھ کتابیں 1281 بتاتے ہیں, آپ ہی کے تین بیٹے تھے گندوز, ساؤچی اور عثمان اور آپکے تیسرے بیٹے عثمان نے 1291 یعنی اپنے والد ارتغل کی وفات کے 10 سال بعد خلافت بنائی اور ارتغل کے اسی بیٹے عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا لیکن خلافت کی بنیاد ارتغل غازی رح رکھ کر گئے تھے ….
اسکے بعد اسی خلافت نے 1291 عیسوی سے لیکے 1924 تک , 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا...
اس کے ساتھ مسجد نبوی. گنبد خضریٰ اور مسجد حرام کی جدید تعمیر . سیدنا امیر حمزہ کا مزار . مکہ مکرمہ تک ایک عظیم الشان نہر . آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پرانوار کے گرد سیسہ پلائی دیوار . مکہ مکرمہ تک ٹرین منصوبہ جیسے عظیم کارنامے سرانجام دیے...
ارتغل غازی کا خاندان وسطہ ایشیا سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوغوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک یہ قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارتغل غازی تعلق رکھتا تھا آپکے والد کا نام سلیمان شاہ تھا, ارتغل غازی کے تین اور بھائی تھے, صارم, ذوالجان اور گلدارو ,آپکی والدہ کا نام حائمہ تھا…
آپکا قبیلہ سب س پہلے وسطہ ایشیا Central asia سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آئے تھے منگولوں کی یلغار سے نمٹنے کےلئے..... جہاں سلطان علاو الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Sultan Alap Arslan نے قائم کی تھی 1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین بنے تھے…..
اسی سلطان علاوالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان Oghuz khan رہتے تھے, اور اس قائی قبیلے کے چیف ارتغل بنے اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعد, سب سے پہلے اہلت Ahlat آئے تھے پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے تھے 1232 جہاں *سلطان صلاح الدین ایوبی* کے پوتے الغزیز کی حکومت تھی, سب سے پہلے ارتغل نے العزیز کو اس کے محل میں موجود غداروں سے نجات دلائی پھر اس سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے شادی کی.... جس سے آپکو تین بیٹے ہوئے اوپر جو میں نے نام دیے ہیں, ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی, صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا, اسکے بعد ارتغل سلطان علاو الدین کے بہت قریب ہوگیا….
اس کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارتغل غازی نے منگول کے ایک ایم لیڈر نویان کو شکست دی ,نویان منگول بادشاہ اوکتائی خان کا Right hand تھا ,اوکتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوکتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد کو اس قدر روندا تھا کہ بغداد کی گلیاں خون سے بھر گئی تھیں دریائے فرات سرخ ہو گیا تھا…
اسی نویان کو شکست ارتغل نے دی تھی…
اور پھر ارتغل غازی اپنے قبیلے کو لیکے سوغت Sogut آئے بلکل قسطنطنیہ Contantinople کے قریب, اور پہلے وہاں بازنطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہیں تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا اور سلطان علاو الدین کے بعد آپ کے بیٹے غیاث الدین سلطان بن گئے انکی بیٹی کے ساتھ ہی عثمان کی شادی ہوئی ایک جنگ میں سلطان غیاث الدین شہید ہو گئے تو عثمان غازی سلطان بن گئے اور انکی نسل سے جاکے *سلطان محمد فاتح رح* تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پے حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی غیبی خبر پوری ہوئی……
تاریخ میں ارتغل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن ہماری نسل انکو جانتی نہیں بہت بہادر جنگجو تھے آپ…
ہر واریئر جنگجو اسلام میں گذرا اس پہ جس نے کچھ نہ کچھہ اسلام کے لیئے کیا اس کا ایک روحانی پہلو ضرور ہے, اسکے پیچھے ایک روحانی شخصت ضرور ہوتی ہے جسکی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے تاریخ اٹھا لیں بھلے اسلام کے آغاز سے لیکے اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام کے لیئے امت مسلمان کے لیئے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو اسکا روحانی پہلو بھی ضرور ہوگا….
اس جنگجو ارتغل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے جسکی ڈیوٹی لگائی تھی وہ *شیخ محی الدین ابن العربی رح* تھے ( آپ درجنوں کتب کے مصنف ہیں اس کے ساتھ آپ نے قرآن پاک کی مایہ ناز تفسیر بھی لکھی علم کی دنیا کے بادشاہ جانے جاتے تھے اور تصوف میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے) جو اندلس سے ارتغل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے…
امام ابن العربی نے ارتغل غازی کو دو مرتبہ موت کے منہ سے نکالا اور ہروقت ارتغل کی روحانی مدد کرتے رہتے تھے
اللہ پاک ارتغل غازی Ertugrul Ghazi کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمتیں ہوں ان پے…
آمین
الله : ترجمہ مومن کی فراصت سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ” ..
یہ کوئی جذباتی یا مبالغہ آرائیاں نہیں ہیں یہ سب وہی سمجھ سکتا جو روحانیت پے یقین رکھتا ہو, جسکو یہ نور نہیں حاصل وہ اندھا ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آئے جیسے کہ لبرل سیکیولر برگیڈ…
اللہ پاک ارتغل غازی Ertugrul Ghazi کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمتیں ہوں ان کی قبر پر ❣
آمین
یہ کوئی جذباتی یا مبالغہ آرائیاں نہیں ہیں یہ سب وہی سمجھ سکتا جو روحانیت پے یقین رکھتا ہو, جسکو یہ نور نہیں حاصل وہ اندھا ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آئے جیسے کہ لبرل سیکیولر برگیڈ…
اللہ پاک ارتغل غازی Ertugrul Ghazi کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمتیں ہوں ان کی قبر پر ❣
آمین
*غازی ارطغرل کون تھا*
یہ سب بھائی غور سے پڑھیں اور اپنی دوستوں کو شئیر کریں.
ارتغل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہے , آپکی پیدائش 1191 عیسوی میں ہوئی اور وفات 1280 عیسوی میں کچھ کتابیں 1281 بتاتے ہیں, آپ ہی کے تین بیٹے تھے گندوز, ساؤچی اور عثمان اور آپکے تیسرے بیٹے عثمان نے 1291 یعنی اپنے والد ارتغل کی وفات کے 10 سال بعد خلافت بنائی اور ارتغل کے اسی بیٹے عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا لیکن خلافت کی بنیاد ارتغل غازی رح رکھ کر گئے تھے ….
اسکے بعد اسی خلافت نے 1291 عیسوی سے لیکے 1924 تک , 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا...
اس کے ساتھ مسجد نبوی. گنبد خضریٰ اور مسجد حرام کی جدید تعمیر . سیدنا امیر حمزہ کا مزار . مکہ مکرمہ تک ایک عظیم الشان نہر . آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پرانوار کے گرد سیسہ پلائی دیوار . مکہ مکرمہ تک ٹرین منصوبہ جیسے عظیم کارنامے سرانجام دیے...
ارتغل غازی کا خاندان وسطہ ایشیا سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوغوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک یہ قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارتغل غازی تعلق رکھتا تھا آپکے والد کا نام سلیمان شاہ تھا, ارتغل غازی کے تین اور بھائی تھے, صارم, ذوالجان اور گلدارو ,آپکی والدہ کا نام حائمہ تھا…
آپکا قبیلہ سب س پہلے وسطہ ایشیا Central asia سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آئے تھے منگولوں کی یلغار سے نمٹنے کےلئے..... جہاں سلطان علاو الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Sultan Alap Arslan نے قائم کی تھی 1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین بنے تھے…..
اسی سلطان علاوالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان Oghuz khan رہتے تھے, اور اس قائی قبیلے کے چیف ارتغل بنے اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعد, سب سے پہلے اہلت Ahlat آئے تھے پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے تھے 1232 جہاں *سلطان صلاح الدین ایوبی* کے پوتے الغزیز کی حکومت تھی, سب سے پہلے ارتغل نے العزیز کو اس کے محل میں موجود غداروں سے نجات دلائی پھر اس سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے شادی کی.... جس سے آپکو تین بیٹے ہوئے اوپر جو میں نے نام دیے ہیں, ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی, صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا, اسکے بعد ارتغل سلطان علاو الدین کے بہت قریب ہوگیا….
اس کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارتغل غازی نے منگول کے ایک ایم لیڈر نویان کو شکست دی ,نویان منگول بادشاہ اوکتائی خان کا Right hand تھا ,اوکتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوکتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد کو اس قدر روندا تھا کہ بغداد کی گلیاں خون سے بھر گئی تھیں دریائے فرات سرخ ہو گیا تھا…
اسی نویان کو شکست ارتغل نے دی تھی…
اور پھر ارتغل غازی اپنے قبیلے کو لیکے سوغت Sogut آئے بلکل قسطنطنیہ Contantinople کے قریب, اور پہلے وہاں بازنطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہیں تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا اور سلطان علاو الدین کے بعد آپ کے بیٹے غیاث الدین سلطان بن گئے انکی بیٹی کے ساتھ ہی عثمان کی شادی ہوئی ایک جنگ میں سلطان غیاث الدین شہید ہو گئے تو عثمان غازی سلطان بن گئے اور انکی نسل سے جاکے *سلطان محمد فاتح رح* تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پے حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی غیبی خبر پوری ہوئی……
تاریخ میں ارتغل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن ہماری نسل انکو جانتی نہیں بہت بہادر جنگجو تھے آپ…
ہر واریئر جنگجو اسلام میں گذرا اس پہ جس نے کچھ نہ کچھہ اسلام کے لیئے کیا اس کا ایک روحانی پہلو ضرور ہے, اسکے پیچھے ایک روحانی شخصت ضرور ہوتی ہے جسکی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے تاریخ اٹھا لیں بھلے اسلام کے آغاز سے لیکے اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام کے لیئے امت مسلمان کے لیئے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو اسکا روحانی پہلو بھی ضرور ہوگا….
اس جنگجو ارطغرل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے جسکی ڈیوٹی لگائی تھی وہ ”شیخ محی الدین ابن العربی رح“ تھے، ( آپ درجنوں کتب کے مصنف ہیں اس کے ساتھ آپ نے قرآن پاک کی مایہ ناز تفسیر بھی لکھی علم کی دنیا کے بادشاہ جانے جاتے تھے اور تصوف میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے) جو اندلس سے ارتغل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے…
امام ابن العربی نے ارتغل غازی کو دو مرتبہ موت کے منہ سے نکالا اور ہروقت ارتغل کی روحانی مدد کرتے رہتے تھے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت حدیث شریف ہے نہ کہ
” اتقوا فراسة المؤمن؛ فإنه ينظر بنور
یہ سب بھائی غور سے پڑھیں اور اپنی دوستوں کو شئیر کریں.
ارتغل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہے , آپکی پیدائش 1191 عیسوی میں ہوئی اور وفات 1280 عیسوی میں کچھ کتابیں 1281 بتاتے ہیں, آپ ہی کے تین بیٹے تھے گندوز, ساؤچی اور عثمان اور آپکے تیسرے بیٹے عثمان نے 1291 یعنی اپنے والد ارتغل کی وفات کے 10 سال بعد خلافت بنائی اور ارتغل کے اسی بیٹے عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا لیکن خلافت کی بنیاد ارتغل غازی رح رکھ کر گئے تھے ….
اسکے بعد اسی خلافت نے 1291 عیسوی سے لیکے 1924 تک , 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا...
اس کے ساتھ مسجد نبوی. گنبد خضریٰ اور مسجد حرام کی جدید تعمیر . سیدنا امیر حمزہ کا مزار . مکہ مکرمہ تک ایک عظیم الشان نہر . آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پرانوار کے گرد سیسہ پلائی دیوار . مکہ مکرمہ تک ٹرین منصوبہ جیسے عظیم کارنامے سرانجام دیے...
ارتغل غازی کا خاندان وسطہ ایشیا سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوغوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک یہ قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارتغل غازی تعلق رکھتا تھا آپکے والد کا نام سلیمان شاہ تھا, ارتغل غازی کے تین اور بھائی تھے, صارم, ذوالجان اور گلدارو ,آپکی والدہ کا نام حائمہ تھا…
آپکا قبیلہ سب س پہلے وسطہ ایشیا Central asia سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آئے تھے منگولوں کی یلغار سے نمٹنے کےلئے..... جہاں سلطان علاو الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Sultan Alap Arslan نے قائم کی تھی 1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین بنے تھے…..
اسی سلطان علاوالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان Oghuz khan رہتے تھے, اور اس قائی قبیلے کے چیف ارتغل بنے اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعد, سب سے پہلے اہلت Ahlat آئے تھے پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے تھے 1232 جہاں *سلطان صلاح الدین ایوبی* کے پوتے الغزیز کی حکومت تھی, سب سے پہلے ارتغل نے العزیز کو اس کے محل میں موجود غداروں سے نجات دلائی پھر اس سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے شادی کی.... جس سے آپکو تین بیٹے ہوئے اوپر جو میں نے نام دیے ہیں, ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی, صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا, اسکے بعد ارتغل سلطان علاو الدین کے بہت قریب ہوگیا….
اس کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارتغل غازی نے منگول کے ایک ایم لیڈر نویان کو شکست دی ,نویان منگول بادشاہ اوکتائی خان کا Right hand تھا ,اوکتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوکتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد کو اس قدر روندا تھا کہ بغداد کی گلیاں خون سے بھر گئی تھیں دریائے فرات سرخ ہو گیا تھا…
اسی نویان کو شکست ارتغل نے دی تھی…
اور پھر ارتغل غازی اپنے قبیلے کو لیکے سوغت Sogut آئے بلکل قسطنطنیہ Contantinople کے قریب, اور پہلے وہاں بازنطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہیں تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا اور سلطان علاو الدین کے بعد آپ کے بیٹے غیاث الدین سلطان بن گئے انکی بیٹی کے ساتھ ہی عثمان کی شادی ہوئی ایک جنگ میں سلطان غیاث الدین شہید ہو گئے تو عثمان غازی سلطان بن گئے اور انکی نسل سے جاکے *سلطان محمد فاتح رح* تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پے حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی غیبی خبر پوری ہوئی……
تاریخ میں ارتغل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن ہماری نسل انکو جانتی نہیں بہت بہادر جنگجو تھے آپ…
ہر واریئر جنگجو اسلام میں گذرا اس پہ جس نے کچھ نہ کچھہ اسلام کے لیئے کیا اس کا ایک روحانی پہلو ضرور ہے, اسکے پیچھے ایک روحانی شخصت ضرور ہوتی ہے جسکی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے تاریخ اٹھا لیں بھلے اسلام کے آغاز سے لیکے اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام کے لیئے امت مسلمان کے لیئے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو اسکا روحانی پہلو بھی ضرور ہوگا….
اس جنگجو ارطغرل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے جسکی ڈیوٹی لگائی تھی وہ ”شیخ محی الدین ابن العربی رح“ تھے، ( آپ درجنوں کتب کے مصنف ہیں اس کے ساتھ آپ نے قرآن پاک کی مایہ ناز تفسیر بھی لکھی علم کی دنیا کے بادشاہ جانے جاتے تھے اور تصوف میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے) جو اندلس سے ارتغل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے…
امام ابن العربی نے ارتغل غازی کو دو مرتبہ موت کے منہ سے نکالا اور ہروقت ارتغل کی روحانی مدد کرتے رہتے تھے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت حدیث شریف ہے نہ کہ
” اتقوا فراسة المؤمن؛ فإنه ينظر بنور
*Aj kl k muashry m aik lrki ko kesy rehna chahiye....*
Kaha jata h Lrkiyan buhht nazuk hoti hain lekin lrkiyan buhhht mazboot b hoti hain
Or aik lrki utni e mazboot ho gi jitni us ki trbiyat or us ko milny wala mahol mazboot ho ga
Hm lrkiyon ko chahiye k hmesha prdy ka ehtemam kr k ghr sy bahir niklyn ku k beprdgi sab sy pehla qadam h hmyn kmzor krny ki traf....
Is ki aik example;;;;;;;;;
Ap sweets ki 2 plates Len un m sy aik ko cover kr k rkhyn or doosri ko Bina cover kiye rakh den.....
Ap dekhyn gi k Jo plate covered ni thi us pr makhiyan bythi gi or Jo covered thi wo mehfooz rhy gi.....
Aisa e aik lrki ka Hal h agr wo ghr sy beprda ho kr nikly gi to hr tarah k logon ki nzryn us pr pryn gi
Lekin.....
Agr baaprda ho kr nikly gi to mehfooz rhy gi...
Hm musalman hain hmyn chahiye k hm apna waqar apna mayar itna buland rkhyn k koi hmari traf nigah utha k dykh na sky....
Ek Muslim girl ko Chand ki tarah ni hona chahiye jis ko hr koi dykhta h
Bl'k,,,,,,,
Aik sooraj ki tarah hona chahiye k koi Nazar utha k na dykh sky......
....Allah hmyn kirdaar ki mazbooti or shariyat pr Amal ki tofeeq ataa frmaye aameen....
Kaha jata h Lrkiyan buhht nazuk hoti hain lekin lrkiyan buhhht mazboot b hoti hain
Or aik lrki utni e mazboot ho gi jitni us ki trbiyat or us ko milny wala mahol mazboot ho ga
Hm lrkiyon ko chahiye k hmesha prdy ka ehtemam kr k ghr sy bahir niklyn ku k beprdgi sab sy pehla qadam h hmyn kmzor krny ki traf....
Is ki aik example;;;;;;;;;
Ap sweets ki 2 plates Len un m sy aik ko cover kr k rkhyn or doosri ko Bina cover kiye rakh den.....
Ap dekhyn gi k Jo plate covered ni thi us pr makhiyan bythi gi or Jo covered thi wo mehfooz rhy gi.....
Aisa e aik lrki ka Hal h agr wo ghr sy beprda ho kr nikly gi to hr tarah k logon ki nzryn us pr pryn gi
Lekin.....
Agr baaprda ho kr nikly gi to mehfooz rhy gi...
Hm musalman hain hmyn chahiye k hm apna waqar apna mayar itna buland rkhyn k koi hmari traf nigah utha k dykh na sky....
Ek Muslim girl ko Chand ki tarah ni hona chahiye jis ko hr koi dykhta h
Bl'k,,,,,,,
Aik sooraj ki tarah hona chahiye k koi Nazar utha k na dykh sky......
....Allah hmyn kirdaar ki mazbooti or shariyat pr Amal ki tofeeq ataa frmaye aameen....
ر بالخصوص جب اہلبیت کے نام سے لکھا ہوا ہو تو اب ڈبل لازم ہے کہ اسکی تصدیق کرائیے پھر بےشک پھیلائیے
کیونکہ
امام جعفر صادق نے صدیوں پہلے متنبہ کر دیا تھا کہ نام نہاد جھوٹے محبانِ اہلبیت نے اہلبیت کی طرف ایسی باتیں منسوب کر رکھی ہیں جو اہلبیت نے ہرگز نہیں کہیں...
.
.
②وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سے سب سے زیادہ جھوٹے شیعہ ہیں......بالکل سچ کہتے ہیں، جس کی تائید امام جعفر صادق کے قول سے بھی ہوتی ہے
.
.
③امام جعفر صادق کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ شیعوں کی باتیں جو اہلبیت کی طرف ہوں بالخصوص حضرت علی، بی بی فاطمہ، امام جعفر صادق، حسن حسین وغیرہ کی طرف منسوب باتیں اگر قرآن و سنت کے متصادم ہوں تو سمجھ لو کہ یہ انکا قول ہی نہیں بلکہ شیعہ وغیرہ نے اپنی طرف سے جھوٹ بول کر انکی طرف منسوب کر دیا ہے
لیھذا
کسی بھی عالم مفتی صوفی پیر فقیر ذاکر ماکر کسی کی بھی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو ہرگز معتبر نہیں......!!
.
.
④فقہ اہلسنت ہی دراصل قران و سنت فقہ صحابہ فقہ اہلبیت کا نچوڑ ہے...فقہ اہلسنت ہی دراصل فقہ جعفریہ ہے.... باقی جو شیعہ والی فقہ جعفریہ ہے وہ شیعوں کا جھوٹ ہے جو امام جعفر صادق کی طرف منسوب کیا گیا ہے اوپر جو ہم نے امام جعفر صادق کا قول لکھا ہے، اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ نام نہاد محبان یعنی شیعہ کی فقہ جعفریہ جھوٹ ہے.....جسکا اعلان خود امام جعفر صادق کر رہے ہیں
.
⑤ہم نے شیعہ کے حوالہ جات دیے تو یہ چونکہ قرآن سنت کے موافق تھے اس لیے مقبول....باقی جو ماتم نوحے تعزیے قصدا غم سوگ وغیرہ کے متعلق شیعوں کے ٹوٹے پھوٹے جھوٹے دلائل و قصے ہیں تو وہ جھوٹ یا مردود ناقابل حجت ہیں...کئ جھوٹے ٹوٹے پھوٹےدلائل و قصے شیعوں نے خود سے گھڑ لیے اور اہلبیت کا نام ڈال دیا....فلعنة اللہ علی الکاذبین الماکرین
۔
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
کیونکہ
امام جعفر صادق نے صدیوں پہلے متنبہ کر دیا تھا کہ نام نہاد جھوٹے محبانِ اہلبیت نے اہلبیت کی طرف ایسی باتیں منسوب کر رکھی ہیں جو اہلبیت نے ہرگز نہیں کہیں...
.
.
②وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سے سب سے زیادہ جھوٹے شیعہ ہیں......بالکل سچ کہتے ہیں، جس کی تائید امام جعفر صادق کے قول سے بھی ہوتی ہے
.
.
③امام جعفر صادق کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ شیعوں کی باتیں جو اہلبیت کی طرف ہوں بالخصوص حضرت علی، بی بی فاطمہ، امام جعفر صادق، حسن حسین وغیرہ کی طرف منسوب باتیں اگر قرآن و سنت کے متصادم ہوں تو سمجھ لو کہ یہ انکا قول ہی نہیں بلکہ شیعہ وغیرہ نے اپنی طرف سے جھوٹ بول کر انکی طرف منسوب کر دیا ہے
لیھذا
کسی بھی عالم مفتی صوفی پیر فقیر ذاکر ماکر کسی کی بھی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو ہرگز معتبر نہیں......!!
.
.
④فقہ اہلسنت ہی دراصل قران و سنت فقہ صحابہ فقہ اہلبیت کا نچوڑ ہے...فقہ اہلسنت ہی دراصل فقہ جعفریہ ہے.... باقی جو شیعہ والی فقہ جعفریہ ہے وہ شیعوں کا جھوٹ ہے جو امام جعفر صادق کی طرف منسوب کیا گیا ہے اوپر جو ہم نے امام جعفر صادق کا قول لکھا ہے، اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ نام نہاد محبان یعنی شیعہ کی فقہ جعفریہ جھوٹ ہے.....جسکا اعلان خود امام جعفر صادق کر رہے ہیں
.
⑤ہم نے شیعہ کے حوالہ جات دیے تو یہ چونکہ قرآن سنت کے موافق تھے اس لیے مقبول....باقی جو ماتم نوحے تعزیے قصدا غم سوگ وغیرہ کے متعلق شیعوں کے ٹوٹے پھوٹے جھوٹے دلائل و قصے ہیں تو وہ جھوٹ یا مردود ناقابل حجت ہیں...کئ جھوٹے ٹوٹے پھوٹےدلائل و قصے شیعوں نے خود سے گھڑ لیے اور اہلبیت کا نام ڈال دیا....فلعنة اللہ علی الکاذبین الماکرین
۔
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
چائے
لمس کی آنچ پہ جذبوں نے اُبالی چائے
عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے
کیتلی ہجر کی تھی، غم کی بنالی چائے
وصل کی پی نہ سکے ایک پیالی چائے
میرے دالان کا منظر کبھی دیکھو آکر
درد میں ڈوبی ہوئی شام، سوالی چائے
ہم نے مشروب سبھی مضر صحت ترک کیے
ایک چھوڑی نہ گئی ہم سے یہ سالی، چائے
یہ پہیلی کوئی بوجھے تو کہ اس نے کیونکر
اپنے کپ سے مرے کپ میں بھلا ڈالی چائے
میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں
اس نے پھر اپنے ملازم سے منگالی چائے
اس سے ملتا ہے محبت کے ملنگوں کو سکوں
دل کے دربار پہ چلتی ہے دھمالی چائے
رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں
اپنے ہاتھوں سے پلا خیر سگالی چائے
عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جان جاناں
ٹھنڈی ہو جائے تو پڑ جاتی ہے کالی چائے
لمس کی آنچ پہ جذبوں نے اُبالی چائے
عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے
کیتلی ہجر کی تھی، غم کی بنالی چائے
وصل کی پی نہ سکے ایک پیالی چائے
میرے دالان کا منظر کبھی دیکھو آکر
درد میں ڈوبی ہوئی شام، سوالی چائے
ہم نے مشروب سبھی مضر صحت ترک کیے
ایک چھوڑی نہ گئی ہم سے یہ سالی، چائے
یہ پہیلی کوئی بوجھے تو کہ اس نے کیونکر
اپنے کپ سے مرے کپ میں بھلا ڈالی چائے
میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں
اس نے پھر اپنے ملازم سے منگالی چائے
اس سے ملتا ہے محبت کے ملنگوں کو سکوں
دل کے دربار پہ چلتی ہے دھمالی چائے
رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں
اپنے ہاتھوں سے پلا خیر سگالی چائے
عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جان جاناں
ٹھنڈی ہو جائے تو پڑ جاتی ہے کالی چائے