✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
*مثبت سوچ کیسے پیدا ھوتی ھے؟*

میاں کمرے میں ہیں۔
سامنے بچے کھیل رہے ہیں خاتون گھر میں پوچھا لگا رہی ہیں
کہ کچن میں دودھ جلنے کی بو آتی ہے۔
خاتون دوڑ کر کچن کی طرف جاتی ہے۔
اسی لمحے مین گیٹ پر کوئی بیل بجاتا ہے۔
میاں مین گیٹ کی طرف جانے کیلئے نکلتے ہیں اور
سامنے رکھی پوچھے کی بالٹی سے انہیں ٹھوکر لگتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
*دو ردعمل ممکن ہیں*۔

*مثبت رد عمل:*
خاتون جلدی سے آکر پوچھتی ہے: ’’آپ کو چوٹ تو نہیں لگی، میں نے جلدی میں بالٹی راستے سے ہٹائی بھول گئی؟‘‘
میاں نے کہا: ’’نہیں، آپ کی غلطی نہیں ہے۔ مجھے ہی دیکھ کر چلنا چاہئے تھا۔ میں نے ہی جلد بازی میں دھیان نہیں دیا۔‘‘

*منفی رد عمل:*
میاں نے چیخ کر کہا: ’’یہ کوئی بالٹی رکھنے کی جگہ ہے۔ تمہیں کوئی عقل نہیں؟‘‘
بیگم بھی چیخ کر کہتی ہے: ’’یہاں کچن بھی دیکھوں، پوچھا بھی لگاؤں، بچے بھی سنبھالوں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ اور جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں جگہ بچے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ایک جگہ وہ مسکرا دیں گے، دوسری جگہ وہ سہم جائیں گے۔
ایک جگہ انہوں نے سیکھا غلطی مان لو تا کہ دوہرائی نہ جائے۔
دوسری جگہ بچوں نے سیکھا اگرغلطی ہوگئی تو ہماری شامت آجانی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسے چھوٹے بڑے واقعات ہمارے گھروں میں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں روزانہ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں مثبت انداز میں ہینڈل کریں یا منفی انداز میں۔ ہمارا مثبت رویہ خوشگوار ماحول اور امن و سکون فراہم کرتا ہے جب کہ ہمارا منفی رویہ جھگڑا برپا کرکے ماحول کی خرابی اور امن و سکون کو غارت کرنے کا باعث بنتا ہے اور ہماری زندگی کو پریشان کن بناتا ہے۔ ہم اپنی سوچ اور رویے سے اپنے ماحول کو خوشگوار یا ناگوار بناتے ہیں۔

’’اپنی غلطی کو مان لینا یا دوسروں کی غلطی سے درگزر کرنا‘‘، دونوں ہی مثبت رویہ اور مومن کی صفات ہیں۔

جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

’’۔ ۔ ۔ جو غصہ کو پی لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔

لہٰذا ہمیں دین کی ان باتوں کو سیکھنا، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے تب ہی ہم مثبت سوچ اور مثبت رویے کے حامل ہوسکتے ہیں۔
منقول
*گھاٹے کا سودا*

امریکہ کے ایک ریٹائر سرکاری افسر کو وائٹ ہاؤس سے فون آیا کہ فلاں دن صدر آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘ اس افسر نے فوراً معذرت کر لی۔

فون کرنے والے نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا۔۔۔۔۔ ’’میں اس دن اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہوں‘‘

یہ جواب سن کر فون کرنے والے نے ترش لہجے میں کہا۔۔

’’آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں۔‘‘

ریٹائر افسر نے نرمی سے جواب دیا۔۔۔۔۔

’’نہیں میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں۔۔۔

‘‘ فون کرنے والے نے وضاحت چاہی تو ریٹائر افسر نے کہا۔۔۔۔۔۔

’’مجھے یقین ہے میں جوں ہی وہائٹ ہاؤس سے باہر نکلوں گا تو صدر میرا نام اور میری شکل تک بھول جائے گا۔۔۔۔

جبکہ میری پوتی اس سیر کو پوری زندگی یاد رکھے گی۔
۔۔۔۔۔میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں۔۔۔۔۔

میں یہ وقت اس پوتی کو کیوں نہ دوں جو اس دن‘ اس وقت میری شکل اور میرے نام کو پوری زندگی یاد رکھے گی‘ جو مجھ سے محبت کرتی ہے‘ جو اس دن کیلئے گھڑیاں گن رہی ہے۔۔۔۔۔۔

‘‘ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے دیر تک سوچتا رہا ٗ ہم میں سے 99 فیصد لوگ زندگی بھر گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

ہم لوگ ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات دے دیتے ہیں جن کی نظر میں ہماری کوئی اوقات ٗ ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘ جن کیلئے ہم ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ‘جو ہماری غیر موجودگی میں ہمارے جیسے کسی دوسرے شخص سے کام چلا لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے سوچا ہم اپنے سنگدل ساتھیوں کو ہمیشہ اپنی اس بیوی پر فوقیت دیتے ہیں جو ہمارے لئے دروازہ کھولنے ٗہمیں گرم کھانا کھلانے کے لئے دو ٗ دو بجے تک جاگتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔

ہم اپنے بے وفا پیشے کو اپنے ان بچوں پر فوقیت دیتے ہیں جو مہینہ مہینہ ہمارے لمس ٗ ہماری شفقت اور ہماری آواز کو ترستے ہیں ٗ جو ہمیں صرف البموں اور تصویروں میں دیکھتے ہیں ٗ جو ہمیں یاد کرتے کرتے بڑے ہوجاتے ہیں اور جو ہمارا انتظار کر تے کرتے جوان ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ہمارا قرب نصیب نہیں ہوتا‘ ہم انہیں ان کا جائز وقت نہیں دیتے۔۔۔۔۔

میں نے سوچا!!!

*یقینا ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں*


منقول
عشق کے معنی اور لفظ عشق کو گھٹیا کہنے والوں کو جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بعض حضرات عشق کے معنی زورِ گندم بتائے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں بتائے ۔ لغت کی کسی کتاب میں لفظ عشق کے یہ معنی کوئی نہ دکھا سکے گا البتہ اس معنی پر ان لوگوں نے مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے اس شعر سے ضرور استدلال فرمایا ہے جو ان حضرات کے حواس باختہ ہونے کی دلیل ہے ۔ مولانا رومی تو اس شعر میں یہ فرما رہے ہیں کہ لوگوں میں جو خواہش نفسانی پائی جاتی ہے وہ عشق نہیں وہ تو محض گندم کھانے کا خمار ہے ان حضرات نے اسی خمارِ گندم کو عشق قرار دے دیا جس کے عشق ہونے کی مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نفی فرما رہے ہیں ۔

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے

عشق مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کی نظر میں

مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اس شعر میں خمارِ گندم کی مذمت کی ہے مگر حسب ذیل اشعار میں عشق کی مدح فرمائی ہے ۔

ہر کرا جامہ ز عشق چاک شد
اوز حرص و عیب کلی پاک شد
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علتہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
جسم خاک از عشق برافلاک شد
کوہ در رقص آمدو چالاک شد

یعنی جس کے وجود نفسانی کا جامہ عشق سے چاک ہوگیا ۔ وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوگیا۔ اے ہمارے عشق خوش سوداء اور ہماری تمام بیماریوں کے طبیب تو خوش رہ۔ اے ہماری نخوت و غرور کی دوا۔ اے ہمارے عشق تو ہی ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے جسم خاکی عشق سے افلاک پر پہنچا‘ پہاڑ رقص میں آکر چست و چالاک ہوگیا ۔

ان اشعار میں مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے عشق وخوش سودا کو تمام بیماریوں کا طبیب اور اسی عشق کو اپنی نخوت و ناموس کی دوا اور اسی عشق کو اپنا افلاطون اور جالینوس فرماکر اس کی مدح فرمائی ہے ۔ پہلے شعر کے ساتھ ان اشعار کو ملا کر پڑھیئے ۔ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کا مفہوم آپ پر واضح ہوجائے گا کہ زورِ گندم عشق نہیں کیونکہ وہ انسانی خواہشات کو ابھارتا اور انسان کو بیشمار امراض قلبیہ میں مبتلا کردیتا ہے عشق تو ان کے نزدیک ایک ایسا جوہر لطیف ہے کہ اگر وہ کسی کے وجود نفسانی کا جامہ چاک کردے تو وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوجائے وہ فرماتے ہیں۔ عشق ہی ہماری تمام بیماریوں کا طبیب اور نخوت و ناموس کی دوا ہے ۔ اسی عشق نے جسد خاکی کو افلاک پر پہنچایا اور اسی عشق سے پہاڑ رقص میں آیا ۔

خلاصہ یہ ہے کہ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک زور گندم عشق نہیں کیونکہ وہ امراض قلبیہ کا سبب ہے اور عشق ان کے نزدیک تمام امراض قلبیہ کا طبیب ہے ۔

ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا

محبت : اس ضمن میں بعض حضرات نے ایک لطیف میلان قلب کا نام محبت رکھا ہے گویا ان کے نزدیک محبت میں نفسانی خواہش‘ زورِ گندم اور حسن و شباب سے تعلق کا شائبہ ممکن ہی نہیں حالانکہ اہل عرب کے کلام اور محاورات میں محبت کا لفظ حسن و شباب کے تعلق ‘ نفسانی خواہش اور زورِ گندم کے معنی میں بھی بکثرت مستعمل ہے ۔ حدیث میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں مثلاً بخاری شریف میں ہے : اِنَّھَا کاَنَتْ لِیْ بِنْتُ عِمِّ اَحْبَبْتُھَا کَاَ شَۃِ مَایُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَآ ئَ فَطَلَبْتُ مِنْھَا فَاَ یَتُ ۔
ترجمہ: غار میں پھنسے ہوئے تین آدمیوں میں سے ایک نے کہا میری چچا کی بیٹی تھی جس سے میں ایسی محبت کرتا تھا جیسی شدید ترین محبت مردوں کو عورتوں سے ہوتی ہے لہٰذا میں نے اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہی تو اس نے انکار کردیا ۔ (بخاری ج۱ ص۳۱۴)

الفاظ حدیث کی روشنی میں ان حضرات کے اپنے من گھڑت عشق کے معنی اور محبت میں کیا فرق رہا ؟ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے اشعار میں تو عارفین کا عشق مذکور تھا جو رَاحَۃ العاشقین کے الفاظ سے مراد ہے ۔ اب اہل لغت کی طرف آیئے تمام اہل لغت نے لفظ عشق پر کلام کرتے ہوئے اسکے معنی ’’فرط محبت‘‘ کے لکھے ہیں ۔

مختار الصحاح ص۳۷۴ میں ہے۔ اَلْعِشْقُ فَرْطُ ا لْحُبِّ اسیطرح لسان العرب ج۱۰ص۲۵‘ تاج العروس ج۷ص۱۳ اور قاموس ج۳ص۲۶۵ میں ہے ۔

جس طرح محبت پاکیزہ بھی ہوتی ہے اور خبیث بھی ۔ اسی طرح عشق بھی پاکیزگی اور خبث دونوں میں پایا جاتا ہے ملاحظہ ہو قاموس میں ہے اَلْیِشْقُ ۔۔۔۔ اِفْرَاطُ الْہُبِّ ویَکُوْنُ فِیْ عَفَافٍ وفِیْ دَعَارَۃٍ (ص۲۶۵ج۳) یعنی عشق کا معنی افراط محبت ہے جو پاک دامنی میں ہوتا ہے اور خبث میں بھی معلم ہوا کہ عشق اور محبت میں شدت اور افراط کے سوا کوئی فرق نہیں ۔

لفظ عشق کا ثبوت

لفظ عشق پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ ’’لفظ عشق اتنا گرا ہوا‘ گھٹیا اور سخیف لفظ ہے کہ قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس لفظ کے استعمال سے مکمل احتراز کیا ہے ۔

قرآن و حدیث میں لفظ’’عشق‘‘ سے مکمل احتراز کا دعوی محل نظر ہے ۔ قرآن میں نہ سہی مگر حدیث میں ’’عَشِقَ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں ۔ بروایت خطیب بغدادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ شَھِیْدًا ۔
ترجمہ : جس
کو کسی سے عشق ہوا پھر وہ پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے۔

اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی بروایت خطیب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : مَنْ عَشِقَ فَکَتَمَ وَعَفَّ فَمَاتَ فَھُوَ شَھِیْدٌ ۔
ترجمہ : جس کو کسی سے عشق ہوا پھر اس نے چھپایا اور پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے ۔ (الجامع الصغیر ج۲ ص ۱۷۵ طبع مصر)

اگر چہ ان دونوں حدیثوں میں ضعف کا قول کیا گیا ہے لیکن اس حدیث کو امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے مقاصد حسنہ میں اسانید متعددہ سے وارد کیا بعض میں کلام کیا اور بعض کو برقرار رکھا جن اسانید کو برقرار رکھا وہ ضعیف نہیں چنانچہ امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کی اسانید میں سے ایک سند کے متعلق فرمایا وَھُوَ سَنَدٌ صَحِیْحٌ (مقاصدِ حسنہ ص ۴۲۰)

امام سخاوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام خرائطی رحمتہ اللہ علیہ اور ویلمی رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کیا ۔ بعض محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں : مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ فَکَتَمَ فَصَبَرَ فَھُوَ شَھِیْدٌ ۔
ترجمہ : جس کو کسی سے عشق ہوگیا پھر وہ پاک دامن رہا اور اسے چھپایا اور صبر کیا تو وہ شہید ہے ۔
اور امام بیہقی نے اسے طرقِ متعددہ سے روایت کیا(مقاصدِ حسنہ ص۴۱۹‘۴۲۰ طبع مصر)

اہل علم جانتے ہیں کہ طرقِ متعددہ سے سند ضعیف کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے ۔ مختصر یہ کہ لفظ عشق حدیث میں وارد ہے ۔ قرآن و حدیث میں ا س سے مکمل احتراز کا جو دعوی کیا گیا ہے صحیح نہیں ۔

(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نکاح کیسی عورت سے کرنا چاہئے؟:
نکاح کے لئے عورت کے انتخاب کے وقت اس کی دینداری دیکھ لی جائے اور دین والی ہی کو ترجیح دی جائے ۔ جو لوگ عورت کا صرف حسن یامالداری یا عزت و منصب پیش نظر رکھتے ہیں وہ اس حدیث پر غور کر لیں ، حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی عورت سے اس کی عزت کے سبب نکاح کرے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی ذلت میں زیادتی کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو اس کے حسب (خاندانی مرتبے) کے سبب نکاح کرے گا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے کمینہ پن میں زیادتی کرے گا۔ (معجم الاوسط حدیث نمبر2342)
آپ نے کبھی وہ پوسٹ پڑھی ہے جس میں ایک شادی شدہ دو بچوں کی ماں کو انجانے نمبر سے ایس ایم ایس ملتا ہے i miss u کا،اور وہ ڈر کے مارے اسے ڈیلیٹ کر دیتی ہے تاکہ کوئی دیکھ کر اس پر شک نہ کرنے لگے،اور پھر ایسے میسجز تواتر سے انے لگ جاتے ہیں ۔اس عورت کی ساس ایک بار ان میسجز میں سے کچھ پڑھ لیتی ہیے اور اپنے بیٹے کو بتا دیتی ہے،جس کی وجہ سے بیٹا گھر میں مار دھاڑ کر کے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔اور جب اس عورت کے بھائیوں کو پتہ چلتا ہے تو فوراً اس کے گھر جا کر جوش میں آکر اسے مار مار ہلاک کر دیتے ہیں 😓
پھر بعد میں جب اس نمبر کی کھوج نکالی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس عورت نے تو کبھی رپلائی تک نہیں دیا ہوتا اور وہ رانگ نمبر ہوتا ہے ۔۔۔
*** * /******
رانگ نمبر کا سلسلہ کوئی نیا نہیں،لیکن جب سے یہ فری کال پیکجز عام ہوتے گئے،اس تفریح کو بھی دوام ملتا گیا،

میاں بیوی بیٹھے ہوئے ہیں کہ اتنے میں انجانے نمبر سے کال آئی۔شوہر نے بیوی کا فون لے کر ریسیو کیا،سامنے مردانہ آواز سنتے ہی ایک دم غصہ آیا موبائل کو زور سے پٹخا،موبائل دو ٹکڑے ،سم نکالی،سم کے دو ٹکڑے کیے اور طویل بحث اور جھگڑے کا اغاز۔۔۔۔(پتہ نہیں کون ہوگا 🤔 😠)
**** **** *
ماں اپنے بچوں کو اسکول کا ہوم ورک کروا رہی ہے ۔مما کا فون بجا،بچے نے ریسیو کیا۔۔۔مما کوئی انکل ہیں۔۔
ماں نے کہا بیٹا کہہ دو رونگ نمبر ہے۔۔
بڑا بچہ جو ابھی سن شعور میں داخل رہاکئی ماہ تک سوچتا رہا (پتہ نہیں کون ہوگا🤔😐)
**** * **
بھابھی برتن دھو رہی ،فون بجا۔
نند سے ریکویسٹ کی کہ ریسیو کر لے،
"بھابھی کوئی جینٹس ہے"
کہہ دو رونگ نمبر ۔۔
نند گھنٹوں تک سوچتی رہی ۔بھابھی کے موبائل پر(پتہ نہیں کون ہوگا 🤔😒)
**** * ***
یہ رانگ نمبر پر محض تفریح کے نام پر کال کرنے والے صاحبان ہمارے اردگرد ہمارے گھروں میں ہی پائے جاتے ہیں
کہیں ہمارا اپنا بھائی،بیٹا یا کوئی رشتہ دار ان کاموں میں تو نہیں؟؟؟؟
اگر آپ کسی ایسے کو جانتے ہیں تو اسے سمجھا کر اپنے حصے کا فرض ضرور ادا کیجئے

کہیں ذرا سی تفریح کسی کے گھر اجڑنے اور سکھ ختم ہونے کا ذریعہ نہ بن جائے
ذرا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔پورا سوچیے..!!

عاصی 💥💢
*ایماں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہنا کفرکے ساتھ محل میں رہنے سے بہتر ہے.....!!!!*

*اپنے بچوں کا رونا دل میں درد پیدا کرتا ہے جب کہ دوسروں کے بچوں کا رونا سر میں درد پیدا کرتا ہے....!!!!*

*تمہاری نیت کی آزمائش اس وقت ہوتی ہے جب تم کسی ایسے انسان کی مدد کرو جس سے تمہیں کوئی چیز کی امید نہ ہو....!!!!*


*انسان بھی عجیب ہے ہے دعا کے وقت سمجھتا ہے کہ اللہ بہت قریب ہے اور گناہ کے وقت سمجھتا ہے کہ اللہ بہت دور ہے...!!!!*
۔
امام سیوطی اور علم حدیث
دسویں صدی کے مجدّد،ایک ہزار سے زائد کتب کی تصنیفات کا شرف پانے والے، دو لاکھ احادیث کے حافظ، امام جلال الدین عبدالرحمٰن بن ابو بکر سیوطی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے اپنی تمام تَر زندگی تحصیل علم اور اشاعتِ علم میں صرف کی، جس میں علمِ حدیث بھی شامل ہے۔
علمائے کرام نے خدمت ِ علمِ حدیث کے تین طریقے بیان کئے ہیں:
(1)اِملاء (2)تدریس (3) تصنیف۔
امام جلال الدین سیوطی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے تینوں طریقوں سے خدمت کا شرف پایا چنانچہ اِملاءِ حدیث آپ نے اوّلاً 872ھ میں مصر میں املاء ِ حدیث کروانا شروع کیا، املاءکی یہ مجلس ہر جمعہ کو نمازِ جمعہ کے بعد ہوتی جس میں ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت تھی اور یہ اِملاء کی مجلس مصر میں حافظ ابنِ حجر عسقلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے بعد 20 سال سے موقوف تھی، جسے امام سیوطی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے اسے دوبارہ شروع کیا۔
تدریس ِ احادیث آپ نے 877ھ میں مسند شافعی پر درسِ حدیث دینا شروع کیا، کیونکہ آپ حضرت سیدنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کے مُقلِّد تھے ۔آخر میں آپ نے ان دُروس کو کتاب بنام ”اَلشَّافِی الْعَیّ عَلٰی مُسْنَدِ الشَّافِعِی“میں جمع کیا۔
(الامام الحافظ جلال الدین السیوطی وجھودہ فی علم الحدیث وعلومہ ،ص229)
تصنیفِ حدیث آپ نے حدیث کے تقریبا تمام فنون میں کتابیں لکھیں ، جن کا مجموعہ تین سو سے زائد بنتا ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں:اَسْبَابُ الْحَدِ یْث ، اَلْفِیَّۃٌ فِیْ مُصْطَلَحِ الْحَدِیْث، تَدْرِیْبُ الرَّاوِیْ شَرْحُ تَقْرِیْبِ النَّوَوِی۔ (ایضاً،ص239)
🍁 *انوکھا کوڑھی* 🍁

حضرتِ سیِّدُنا *ابو الحُسین دَرَّاج* علیہ رَحمَۃُ اللہ الوہاب فرماتے ہیں: ایک سال میں اکیلا *حج* پر روانہ ہوا اورتیزی سے منزِلیں طے کرتا ہوا *’’قادِسِیہ‘‘* جاپہنچا ۔ وہاں کسی *مسجد* میںگیا تومیری نظر ایک *مَجْذُوم* یعنی *کوڑھی* شخص پر پڑ ی ۔اُس نے مجھے سلام کیا اور کہا: *’’اے ابو الْحُسین!* کیا حج کا ارادہ ہے؟‘‘ اسے دیکھ کر مجھے بَہُت زیادہ *کراہَت* (یعنی گِھن)محسوس ہو رہی تھی لہٰذا میں نے بڑی *بے رُخی* سے کہا:’’ ہاں۔ ‘‘ وہ کہنے لگا: ’’ پھر مجھے بھی ساتھ لے چلئے۔ ‘‘میں نے دل میں کہا: ’’یہ ایک نئی *مصیبت* آن پڑی! میں تو *تندُرُست* لوگو ں کی رَفاقت (یعنی ہمراہی) سے بھی بھاگتا ہوں اور ایک کوڑھی مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی فرمائش کررہا ہے ! ‘‘میں نے صاف انکار کر دیا ۔ وہ *لَجاجت* سے بولا: *’’آپ کی بڑی مِہربانی ہوگی،* مجھے ساتھ لے لیجئے۔ ‘‘مگر میں نے *قسم* کھالی: *’’خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!* میں ہرگز تمھیں اپنا *رفیق* (ساتھی) نہ بناؤں گا۔‘‘ اُس نے کہا: ’’ ابو الحُسین! *اللہ* عَزَّ وَجَلَّ *کمزوروں* کو ایسا *نوازتا* ہے کہ *طاقتور* بھی *حیران* رہ جاتے ہیں!‘‘ میں نے کہا:’’ تم ٹھیک کہتے ہو مگر میں تمہیں ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ *‘‘عَصْر* کی *نَماز* پڑھ کر میں نے دوبارہ سفر شُروع کیا اور *صُبْح* کے وقت ایک *بستی*میں پہنچا تو حیرت انگیز طور پر اُسی کوڑھی شخص سے ملاقات ہوئی، اُس نے مجھے دیکھتے ہی سلام کیا اوربولا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کمزوروںکو ایسا نواز تا ہے کہ طاقتور بھی حیران رہ جاتے ہیں! اس کی یہ بات سن کر مجھے اس کے بارے میں *عجیب وغریب* خیالات آنے لگے ۔ بَہَرحال میں وہاں سے روانہ ہوا، جب *مقامِ ’’قَرْعَاء ‘*‘ پَہُنچ کر نَماز پڑھنے مسجِد میں داخِل ہواتو اُسے بھی وہاں بیٹھے دیکھا ، اُس نے کہا: ’’ اے ابو الحسین ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کمزوروں کو ایسا نواز تا ہے کہ طاقتور بھی حیران رہ جاتے ہیں! ‘‘ یہ سن کر مجھ پر *رقّت* طاری ہوگئی اور میں نے بڑے *ادب* سے عَرْض کی: *’’ حُضُور!* میں *اللہ غفّار* عَزَّ وَجَلَّ سے *مُعافی* کا طلبگارہوں اور آپ سے بھی *در گزر* کا خواستگار ہوں،مجھے *مُعاف* فرمادیجئے۔‘‘فرمانے لگے : ’’یہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں؟ ‘‘ میں نے عَرض کی: جھ سے بَہُت بڑی *غَلَطی* ہوگئی کہ آپ کے ساتھ سفر نہ کیا ، براہِ کرم! مجھے مُعافی سے نواز تے ہوئے شریکِ سفر کر لیجئے۔ فرمایا: ’’آپ مجھے ساتھ نہ رکھنے کی قسم کھاچکے ہیں اور میں آپ کی قسم نہیں تُڑواناچاہتا۔‘‘میں نے کہا: اچھا! پھر اِتنا کرم فرمادیجئے کہ ہر منزِل (پڑاؤ) پر اپنی *زیارت* کی ترکیب فرماد یجئے۔ فرمایا: ’ *اِنْ شَآءَاللہ* عَزَّ وَجَلَّ۔‘‘ پھر وہ میری نگاہوں سے اَوجھل ہوگئے اور میں بھی آگے بڑھ گیا ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اس *نیک بندے* کی *بَرَکت* سے باقی سفر میں مجھے بھوک وپیاس اور تھکاوٹ کا اِحساس تک نہ ہوا۔ *اَلْحَمْدُلِلّٰہ* عَزَّ وَجَلَّ مجھے ہر منزِل پر اس *بُزُرْگ* کی زیارت ہوتی رہی یہاں تک کہ میں *مدینۃُ المنوَّرہ* زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی *مُشکبار فَضاؤں* سے فیضیاب ہونے کے بعد *مکّۂ معظمہ* زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پَہُنچ گیا۔وہاں پر حضرتِ *سیِّدُنا ابو بَکْر کَتَّانی* اور حضرتِ *سیِّدُنا ابو الحسن مُزَیِّن* رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِماسے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب میں نے انہیں یہ *حیرت انگیز واقِعہ* سنایا تو اُنہوں نے فرمایا: *’’ارے نادان !* جانتے ہو، وہ کون تھے؟وہ حضرتِ *سیِّدُنا ابوجَعْفَر مَجذوم* عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَیُّوم تھے، ہم تو دعائیں مانگتے ہیں کہ *کاش!*اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیںاپنے اِس *وَلی* کا *دیدار نصیب* فرمائے۔سنو!اب جب بھی تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ہمیں ضَرور بتانا۔ *دسویں ذُوالْحِجَّۃُ الْحَرَام* کو جب میں نے *جَمْرَۃُالْعَقَبہ* یعنی بڑے شیطان کو رَمی کی (یعنی کنکریاں ماریں ) تو کسی شخص نے مجھے اپنی طرف کھینچا اور کہا:’’ اے ابوالحُسین! السَّلامُ علیکم۔‘‘ جیسے ہی میں نے پیچھے مُڑکر دیکھا تو میرے سامنے وُہی بُزُرْگ یعنی حضرت سیِّدُنا ابو جَعْفَر مجذُوم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَیُّوم موجود تھے۔ انہیں دیکھتے ہی مجھ پر *رِقَّت* طاری ہوگئی اورمیں روتے روتے بے سُدھ ہوکر گر پڑا! جب میرے حواس بحال ہوئے تو وہ تشریف لے جا چکے تھے ۔ پھرآخِری دن *طوافِ رخصت* کر کے *’’مقامِ ابراہیم‘‘* پر دو رَکْعَت نَماز پڑھنے کے بعد میں نے جیسے ہی *دُعا* کے لئے ہاتھ اُٹھائے اچانک کسی نے مجھے اپنی طرف کھینچا ، دیکھا تو حضرت سیِّدُنا ابوجَعْفَر مجذوم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَیُّوم تھے، فرمانے لگے :’’ابو الحسین! گھبرانے یا شور مچانے کی ضَرورت نہیں!بے فکر رہئے۔‘‘ میں خاموش رہا اورمیں نے بارگاہِ خدا وندی عَزَّ وَجَلَّ میں *تین دعائیں* کیں،اُنہوں نے میری ہر د
ُعا پر *’’ آمین‘‘* کہا ۔ اس کے بعد وہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے اور دوبارہ نظر نہیں آئے ۔میری تین دعائیں یہ تھیں،

*(۱)* اے میرے *پاک پَرْوَرْدَگار* عَزَّ وَجَلَّ! میرے نزدیک *’’فَقْر‘‘* ایسا محبوب بنادے کہ دنیا میں اِس سے زیادہ کوئی شے مجھے پیاری نہ ہو

*(۲)* مجھے ایسا نہ بنانا کہ میری کوئی رات اِس حالت میں گزرے کہ میں نے *صُبْح* کے لئے کوئی چیز *ذَخیرہ* کر کے رکھی ہو۔ پھر ایسا ہی ہوا کئی سال گزر گئے لیکن میں نے کوئی چیز اپنے پاس ذَخیر ہ کر کے نہ رکھی اور تیسری دعا یہ تھی:

*(۳)* ’’اے میرے *پاک پَرورْدَگار* عَزَّ وَجَلَّ! جب تُو اپنے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کو اپنے دیدار کی *دولتِ عُظْمیٰ* سے مشرَّف فرمائے تو مجھے بھی اُن میں شامل فرما لینا ۔‘‘مجھے اپنے *ربِّ مجید* عَزَّ وَجَلَّ سے پوری اُمّید ہے کہ میری ان دعاؤں کو ضَرور پورا فرمائے گا کیونکہ ان پر ایک *ولیِّ کامِل* نے’’آمین ‘‘ کی مُہر لگائی تھی ۔


*(عیون الحکایات ص۲۹۱) *

*اللہ* عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر *رَحمت* ہو اور ان کے *صَدقے* ہماری بے حساب *مغفِرت* ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم


*ضُعف مانا مگر یہ ظالم دل*

*اُن کے رستے میں تَو تھکا نہ کرے*

🌸 *(حدائقِ بخشش شریف)*
🤕غلط فہمی کا شکار🤔​​​​​​​​



اﯾﮏ ﺳﻨﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻻﻟﮯ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﻧﯿﻠﻢ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ کہا کہ "ﺑﯿﭩﺎ، ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﭽﺎ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ" ﮐﮩﻨﺎ ﯾﮧ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ۔ ﺑﯿﭩﺎ ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﭽﺎ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ، ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﮨﺎﺭ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﯾﮑﮫ ﭘﺮﮐﮭﻨﮯ کے بعد ﮐﮩﺎ ﺑﯿﭩﺎ! ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﺑﮩﺖ ﻣﻨﺪﺍ ﮨﮯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺭﮎ ﮐﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﺍﻡ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ اور ﺍﺳﮯ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﻞ ﺳﮯ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ۔ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺭﻭﺯ ﻣﺮﮦ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ہیروں ﻭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﭘﺮﮐﮫ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ، پھر جب ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﻣﺎﮨﺮ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ اور ﻟﻮﮒ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯿﺮﮮ ﮐﯽ ﭘﺮﮐﮫ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﮯ تو پھر ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺗﯿﺰﯼ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﺍﻡ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺮﮐﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺟﻌﻠﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﮐﺎﻥ ﻟﻮﭦ ﺁﯾﺎ۔
ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ: ﮨﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﺋﮯ .. ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ﻭﮦ ﺗﻮ ﺟﻌﻠﯽ ﺗﮭﺎ ...
ﺗﺐ ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﺐ ﺗﻢ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﺳﻮﻗﺖ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﻌﻠﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮐﮧ ﺁﺝ ﮨﻢ ﭘﺮ ﺑﺮﺍ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﭼﭽﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﻌﻠﯽ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ، ﺁﺝ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﻋﻠﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮨﺎﺭ ﻧﻘﻠﯽ ﮨﮯ۔

حاصل کلام: ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﭼﺘﮯ، ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺳﺐ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﺷﺘﮯ ﺑﮕﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ..

ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺭﻧﺠﺶ ﭘﺮ، ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ۔۔۔
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ۔۔
#حیا کیا ہوتی ہے اور #پردے کا #حکم۔۔🌹

🌺گھر میں بیٹھی موبائل کے ساتھ مصروف تھی کہ مغرب کی اذان ہونے لگی. امی جان مجھے دیکھ کر زور سے بولیں ثانو تجھے موت آجائے، سر پر دوپٹہ لو. اذان کی آواز نہیں سن رہی ہو۔
میں نے سر پر دوپٹے کو سیدھا کیا، چونکہ ہمارے گھر میں غیر مرد تو آتا نہیں، اس لیے سر سے اکثر دوپٹہ اتار کر رکھ دیتی ہوں۔
میں نے امی جان سے پوچھا کہ امی یہ کیا جب اذان ہوتی ہے آپ ہمیں دوپٹہ لینے کا حکم سنا دیتی ہو. اس کی کوئی خاص وجہ؟ کیا اسلام میں اس کا کوئی خاص حکم ہے؟
امی جان دھیرے سے مسکرائیں اور میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر بولیں:
پتر شریعت کے حکم کا تو مجھے علم نہیں لیکن جب موذن اللہ اکبر کی صدا لگاتا ہے تو عورت کا فطری حیا اپنے رب کے نام پر بھی حیا کرتا ہے۔
پتر اذان میں اس سوہنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام بھی آتا ہے جس کی محفل میں ایک نابینا صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زوجہ کو حکم دیا کہ پردے میں چلی جاؤ۔
تو زوجہ نے عرض کی یا رسول اللہ یہ شخص تو نابینا ہے. تو اللہ کے سوہنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا وہ نابینا ہے، تم تو نابینا نہیں ہو۔
پتر اِک بات یاد رکھنا، وہ بی بی رضی اللہ عنہما تو من کی بھی پاک تھیں اور تن کی بھی پاکیزہ تھیں پھر بھی شوہر کی عزت نے گوارہ نہیں کیا۔
پتر عورت کا سب سے قیمتی زیور سرمایہ حیا ہی ہوتا ہے ۔پتر گھر میں کوئی غیر مرد ہو یا نا ہو میری بچی عورت کو اپنے اعضا کو چھپانا پڑتا ہے. گھر میں بھائی باپ اور ماں سے بھی حیا کرنا چاہیے۔
ثانو میری بچی جو چیز چھپی ہو اسے ہی عورت بولتے ہیں اور جو چھپی ہوئی نا ہو وہ عورت کے علاوہ سب کچھ ہوتی ہے۔“👍

#Copy
اوصافِ حضورﷺ ..... عیبِ تناہی سے دور

سیدنا امام حجّۃ الانام ، عارفِ باللہ قسطلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مواہبِ لدنیہ میں فرماتے ہیں :

{ اجتمع فیہ صلی اللہ علیہ وسلم من صفات الکمال ما لایحیط بہ حد ولا یحصرہ عد }
ترجمہ : حضورِ اقدسﷺ میں اتنے صفات کمال جمع ہیں کہ نہ حد اُن کا احاطہ کر سکتی ہے اور نہ شمار اُن کو گھیر سکتا ہے ( بے حد و بے شمار ہیں ــ غیر متناہی ہیں )

علامہ زرقانی مالکی رحمہ اللہ تعالیٰ نبی پاک ﷺ کے اسمِ مبارک " واصل " کی تشریح کرتے ہوئے ،،، زرقانی علی المواہب میں فرماتے ہیں :

[ الواصل ] البالغ فی النھایۃ والشرف ما لا یعلمہ الا اللہ یعنی : واصل آپﷺ کا نام اس لیے ہے کہ شرفِ فضیلت میں آپﷺ اس درجے کو پہنچے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو کوئی نہیں جانتا ـ

کیا خوب فرمایا ......... عاشقِ رسول ، بحرالعلوم ، شیخ الاسلام ، مجددِ اعظم الشاہ امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے :

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں ، کیا کیا کہوں تجھے

حسن رضا قادری عفی عنہ
18 ذوالقعدۃ الحرام ، 1441 ھ
عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ اگر ترک عثمانی فوج اس ستون سے آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئے، تو ان کی مدد کے لئے فرشتہ آسمان سے نازل ہوگا اور رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوجائے گی۔
لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور ترک عثمانی فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئے۔ کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالآخر 1453ء سلطان محمد فاتح اندر داخل ہوگئے،
فتح کے دن فجر کی نماز کے بعد سلطان محمد فاتح نے یہ اعلان کیا تھا کہ "ان شاءاللہ ہم ظہر کی نماز ایا صوفیہ میں ادا کریں گے"۔ چنانچہ اسی دن فتح ہوا اور اس سر زمین پر پہلی نماز ظہر ادا کی گئی، اس کے بعد پہلا جمعہ بھی اسی میں پڑھا گیا۔
ایا صوفیہ مسجد
قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لیے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے، اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔ اس لیے سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اسے مال کے ذریعہ خریدا گیا، اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد "جامع ایا صوفیہ" کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنجوقتہ نماز ہوتی رہی۔مزید تفصیل اس کالم میں

قسطنطنیہ جسے آج کی دنیا استنبول کے نام سے جانتی ہے۔ سید الانبیائ ﷺ کی زبانِ مبارک سے اس شہر کا ذکر کئی حوالوں سے ہوا ہے اور یہ آپ ﷺ کی پیش گوئیوں کی حقانیت کا امین ہے۔ یہ شہر آپ کی پیش گوئیوں کے مطابق 1453ء میں فتح ہوا۔ لیکن اس عظیم شہر کے بارے میں باقی تمام احادیث اس بڑی جنگ ’’ملحمتہ الکبریٰ‘‘ سے متعلق ہیں جس میں یہ شہرـ ایک بار پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیگا اور سیدنا امام مہدی کی فتوحات میں فتح ہونے والا آخری شہر یہی ہو گا۔ یہ قسطنطنیہ جو اس وقت استنبول کہلاتا ہے اس کی ایک عمارت آیا صوفیہ گذشتہ دو ہزار سال سے تاریخ کے لاتعداد مناظر دیکھ چکی ہے۔ آیا صوفیہ 481 سال تک مسلمانوں کے سجدوں سے آباد رہی، لیکن 1931ء میں اتا ترک نے اپنی اسلام دشمنی میں پہلے اس پر تالے لگائے اور پھر 1935ء میں اسے ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ اب دوبارہ اس کے میناروں سے اذان کی صدا بلند ہونیوالی ہے۔ قسطنطنیہ کا شہر اور یہ عمارت ’’آیا صوفیہ‘‘ مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی تو سناتی ہے لیکن ساتھ ساتھ عظیم بازنطینی رومی شہنشایت کے زوال کی بھی داستان بیان کرتی ہے۔ یہ شہر ایشیا اور یورپ کے سنگھم اور آبنائے باسفورس کے کنارے آباد کیا گیا۔ اس جگہ کا انتخاب رومن بادشاہ قسطنطین نے کیا تھا۔ قسطنطین جب قدیم رومن شہنشائیت کے تخت پر بیٹھا تو پورے ملک میں خانہ جنگی عروج پر تھی اور بادشاہت بکھر چکی تھی۔ اسی دور میں عیسائی راھب رومی بادشاہوں کی عیاشی، اخلاق باختگی اور معاشرتی فحاشی سے تنگ آئے ہوئے عوام میں دن بدن مقبول ہوتے جارہے تھے۔ اس دور کے عیسائی راھب صلیب نہیں اٹھاتے تھے، بلکہ ان کے جھنڈوں پر سواستیکا کی طرح ایک ستارہ ہوتاتھا۔ قسطنطین کی افواج اس خانہ جنگی میں پے درپے شکست کھا رہی تھیں کہ میلان کے مقام پر اس نے ایکدم یہ اعلان کیا کہ اس نے رات کو خواب میں آسمان پر عیسائیت کا نشان چمکتا ہوا دیکھا ہے، جس کی تعبیر کے نتیجے میں اس نے عیسائیت قبول کر لی اور ہتھیاروں پر برکت کے طور پر عیسائیت کا نشان بھی کندہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد جب وہ مقابل فوج پر میلوین پل (Melvin Bridge) کے مقام پر حملہ آور ہوا تو فتح یاب ہو گیا۔ اسی فتح کے بعد ہی وہ 312عیسوی میں متحدہ روم کے تخت پر جلوہ گر ہوسکا۔ اس نے آتے ہی عیسائی راہبوں کے قتلِ عام کا حکم منسوخ کردیا اور عیسائیت کی ترویج، بائیبل کی تدوین اور مذہب کی بنیاد پر قانون سازی شروع کر دی۔ اس کی والدہ ہیلن (St. Helen) نے ایک راھبہ کی حیثیت سے خود کو عیسائیت کے لئے وقف کر دیا، لیکن رومی سیاست کی وجہ سے اعلان نہ کرپائی تو قسطنطین نے اسے بہت سا سرمایہ اور سپاہی دے کر فلسطین بھیج دیا تاکہ وہ وہاں جا کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش پر ایک گرجا گھر (Basilica Of The Nativity) تعمیر کرے۔ یہ گرجا گھر بیت اللحم فلسطین میں آج بھی تمام عیسائی گروہوں کا مقدس ترین مقام تصور ہوتا ہے۔ قسطنطین نے قدیم روم کی بجائے آبنائے باسفورس کے کنارے اس علاقے کو 324عیسوی میں اپنے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا۔ یہ دراصل یونانیوں کا آباد کیا ہوا شہر، بازنطینم (Bazantium) تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر سے حکمرانی کرنے والے رومن بادشاہوں کو بازنطینی حکمران کہا جاتا ہے۔ رومن بادشاہت اب دوحصوں میں تقسیم ہو گئی اور اس کے ساتھ عیسائت بھی دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک بازنطینی جن ک
ا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا اور ان کا مذہب آرتھوڈوکس عیسائیت تھی، جبکہ دوسری بادشاہت کا مرکز روم تھا جب کا مذہب کیتھولک عیسائیت تھی۔ بازنطینی بادشاہت کا پہلا اہم ترین بادشاہ جسٹینین اوّل تھا۔ اس نے 532عیسوی میں آرتھوڈوکس چرچ کے مرکز کے طور پر یہ عمارت ’’آیا صوفیہ‘‘ تعمیر کرنے کا حکم دیا جو 537عیسوی میں مکمل ہوئی۔ جسٹینین جب تکمیل کے بعد اسے دیکھنے کے لئے اندر داخل ہوا تو اس کی شان و شوکت دیکھ کر حیران رہ گیا، جس پر اس نے غرور سے کہا ’’سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا‘‘۔ اس کا اشارہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف تھا جنہوں نے بیت المقدس تعمیر کیا تھا۔ آرتھوڈوکس عیسائیت کے مرکز کے طور پر یہ عمارت تقریباً نو سو سال رہی۔ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا تو شہر کی عیسائی آبادی اس عمارت میں گھس گئی۔ ان کا ایمان تھا کہ اس کے گنبد سے ایک فرشتہ اس وقت تلوار لے کر آسمان سے اترے گا جب ترک دشمن قسطنطین کے ستون تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن سلطان محمد فاتح اس ستون سے گذرتا ہوا اس مسجد کے گنبد والے ہال میں داخل ہوا اور اس نے وہاں کھڑے ہو کر رسولِ اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے، گنبد والے فرشتے کے منتظر عیسائیوں کے لئے ویسے ہی فقرے بولے جو رسولِ اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے وقت بولے تھے کہ ’’آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں، تم سب امان میں ہو‘‘۔ آیا صوفیہ میں موجود عیسائی خاندان جو اپنی موت اپنے سامنے دیکھ رہے تھے، سلطان کے اس اعلان پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ قسطنطنیہ جو کبھی عیسائی تہذیب کامرکز تھا آج وہاں صرف 0.2فیصد عیسائی ہیں اور وہ بھی باہر سے آئے ہوئے آرمینائی آبادکار۔ سلطان محمد فاتح جمعہ کے دن فجر کے وقت آیا صوفیہ میں داخل ہوا تھا، اس نے کہا کہ چونکہ یہ شہر ہم نے حضرت عمرؓ کے عیسائیوں سے معاہدے کے تحت بیت المقدس حاصل کرنے کی طرح حاصل نہیں کیا بلکہ، لڑکر فتح کیا ہے اس لئے ہم عبادت گاہوں کے ضامن ہیں، ہم جمعہ کی نماز یہاں ادا کریں گے۔ اس دن سے ساڑھے چار سو سال تک یہ جگہ اذانوں سے گونجتی اور سجدوں سے مزین رہی۔ مصطفیٰ کمال اتا ترک نے 1931ء صرف اسلام دشمنی میں اسے بند کیا۔ وہ اسے واپس گرجا گھر بنانا چاہتا تھا، لیکن ایک تو وہاں عیسائی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی اور دوسرا مسلمانوں کا دباؤ۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد آبادی کا بہت بڑا ایک تبادلہ ہو چکا تھا جس کے تحت دس لاکھ عیسائی یونان چلے گئے تھے اور تین لاکھ مسلمانوں کو ترکی بلالیا گیا تھا۔ عیسائیوں کی غیر موجودگی میں آیاصوفیہ ایک بے آباد گرجا گھر ہی رہتا۔ اتاترک کی اسلام دشمنی اسقدر تھی کہ اس نے گرجا بنانے میں ناکامی کے بعد اسے مسجد کی بجائے ایک عجائب گھر بنا دیا۔ آج طیب اردگان کی حکومت 85سال بعد دوبارہ اس ساڑھے چار سوسالہ مسلم تاریخ کو زندہ کرنے جارہی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہاتھا دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں بہت سے سیکولر لبرل تلملائیں گے۔ شور مچے گا، لیکن آثار قدیمہ کے عالمی اصولوں کے مطابق تمام قدیمی عمارتیں اور نوادرات اس ملک کی ملکیت ہوتے ہیںجہاں وہ پائے جاتے ہیں اس لئے آیا صوفیہ بھی مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ آج کے دور میں ملکیت ہی عمارت کا مصرف بتاتی ہے۔ یورپ کے صرف ایک شہر لندن کے پانچ سو بند گرجا گھروں میں 423کو مسلمانوں نے خرید کر مسجد بنایا اور آج ان میں نمازیں ادا ہو رہی ہیں۔ یہ تو باہم رضامندی سے ہوا، لیکن سپین سے جب مسلمانوں کو زبردستی نکالا گیا تو وہاں کی تین ہزار مساجد کو گرجا گھر بنا دیا گیا۔ ان کی تفصیل جسٹن کروسین (Justin Kroesen) نے اپنی کتاب (Mosques To Cathedral) میں دی ہے۔ کیا یہ سیکولر اور لبرل مافیا سپین کی تین ہزار مساجد کو مسلمانوں کے اختیار میں دینے کے لئے آواز بلند کرے گا۔ بابری مسجد میں اذان کی آواز کے لئے جلوس نکالے گا۔ ہرگزنہیں۔ اس لئے کہ دنیا ہر سیکولر، لبرل اور لادین اصل میں مذہب دشمن نہیں ہے بلکہ اسلام دشمن ہے۔ اسے کرسمس کی رونق، ہولی کے رنگ اور دیوالی کے دیپ اچھے لگتے ہیں لیکن اسے مسلمانوں کی اذان سے لے کر بکروں کی قربانی تک ہر چیز سے نفرت ہے۔ آیا صوفیہ میں پچانوے سال بعد بلند ہونے والی اذان ایک ایسے شہر سے اللہ کی بڑائی کا اعلان ہے جو ایک ہزار سال تک یورپی تہذیب کا مرکز رہا تھا۔
کالم نگار اوریا مقبول جان
میڈیکل کے کچھ اسٹوڈنٹس کالج کے باہر خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ اچانک ایک گاڑی بڑی تیزی سے آئی اس نے درمیان میں کھڑے لڑکے کو ٹکر مار دی. باقی لڑکے بال بال بچ گئے. جس لڑکے کو چوٹ لگی تھی اسے فوری هسپتال منتقل کر دیا گیا.
چونکه وه میڈیکل کا اسٹوڈنٹ تھا اسلیے اس کے باقی ساتھی بھی پہنچ گئے ِفوری طور پر خون کے نمونے لیے گئے علاج شروع هوگیا - ایکسرے روپورٹ آگئی - ڈاکٹر نے اس کو بتایا که اس کے گردے کو سخت چوٹ لگی هے - اس میں سے خون رِس رها هے - اگر فوری نه نکالا گیا تو موت واقع هو سکتی هے -میں آپ سے یه فیصله لینے آیا هوں - وقت کم هے آپ کو فوراً فیصله کرنا هوگا - اس اسٹوڈنٹ کے پاس مواقفت کے سوا کوئی چاره نهیں تها - فوری طور پر آپریشن هوا اور گردے کو نکال کر لیباٹری میں ٹیسٹ کے لیے بهیجوا دیا گیا-

2 ،3 دن گزرے- سٹوڈنٹ ابهی تک اپنے بیڈ پر هی تها که وه ڈاکٹر جس نے لڑکے کا آپریشن کیا تها ، مسکراتا هوا اس کے پاس آیا - ڈاکٹر نے کہا که کیا کبھی تم نے قضا و قدر کے بارے میں سنا هے؟ اسٹوڈنٹ نے کها یه تو درست هے هم قضا و قدر پر یقین رکهتے هیں لیکن میرا نقصان کچھ زیاده هوچکا هے- ڈاکٹر کهنے لگا میں نے بهی تمهاری طرح قضاو قدر کو سن رکها تها مگر جب هم نے تمهارا معامله دیکها تو مجهے قضا و قدر پر اور زیاده یقین هو گیا هے -پهر اس نے بتایا که جب هم نے تمهارا گرده نکالا تو لیباٹری میں اسے ٹیسٹ کے لیے بهیجوایا-

جب اسے ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم هوا که گردے میں کینسر کا آغاز هو چکا هے- میڈیکل میں اس قسم کے کینسر کا علم کافی عرصے بعد هوتا هے اس وقت علاج نا ممکن هوتا هے - اور مریض کی موت واقع هو جاتی هے- تم بہت خوش قسمت هو که گردے کے کینسر کا بالکل ابتدائی اسٹیج پر علم هو گیا- اور تمهیں کینسر زده گردے سے نجات مل گئی

- دیکهو بیٹا! گاڑی نے تمهیں اسی جگه ٹکر ماری جہاں پر کینسر تها - الله تعالی تمهیں دوباره زندگی دینا چاهتا تها- بلا شبه یه قضا و قدر تهی که تم اس بلڈنگ کے نیچے کهڑے هوئے اور پهر گاڑی نے اتنے سارے لڑکوں میں صرف تم هی ٹکر ماری-

یاد رکهو..! الله تعالی اپنے بندوں کے ساتھ ماں باپ سے بهی کہیں زیاده مهربان هے- اور ہمارے ساتھ جو بھی معاملات ہوتے ہیں وہ اللہ کی مرضی سے ہوتے ہیں اس لیے انسان کو اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ جو بھی کرتا ہے ہمارے بھلے کے لیے کرتا ہے...!!!

الحمدلله على كل حال
👈 *استاد اور شہد کی مکھی* 👉
میں نوکر اپنے اساتذہ کا
عرفان حسین شاہ

ایک طالبِ علم نے اپنے استاد صاحب سے عرض کی :
استاد محترم، آپ کے پیریڈ میں ہم بات اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں، آپ کی باتوں کا لطف بھی اٹھاتے ہیں اور اس لیے آپ کے پیریڈ کا انتظار بھی رہتا ہے۔
لیکن
جب ہم کتاب پڑھتے ہیں تو ہمیں وہ لطف حاصل نہیں ہوتا جو آپ کے پیریڈ میں حاصل ہوتا ہے۔
استاد صاحب نے فرمایا: شہد کی مکھی شہد کیسے بناتی ہے؟
ایک طالب علم نے جواب دیا : پھولوں کے رس سے۔۔۔
استاد صاحب نے پوچھا : اگر تم پھولوں کو یونہی کھا لو تو ان کا ذائقہ کیسا ہو گا؟
طالب علم نے جواب دیا : کڑوا ہوگا۔۔۔
استاد صاحب نے فرمایا : اے میرے بیٹے۔۔۔ درس وتدریس کا شعبہ بھی شہد کے مکھی کے کام کی طرح ہے۔ استاد شہد کی مکھی کی طرح لاکھوں پھولوں (کتب، تجربات، مشاہدات) کا دورہ کرتا ہے اور پھر اپنے طلبہ کے سامنے ان پھولوں کے رس کا نچوڑ میٹھے شہد (خلاصے) کی صورت میں لا کر رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی حفاظت فرمائے جو انبیاء کے اس کام سے تعلق رکھتا ہے۔
ہمارے ہر استاد اور استانی کے لیے سلامتی ہو۔

-------------
اس حکایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کسی استاد کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے درس میں شہد کے جیسی چاشنی نہیں، یعنی طلبہ دلچسپی نہیں لیتے تو دو وجوہات ہو سکتی ہے :
پہلی وجہ یہ کہ اس استاد نے شہد کی مکھی کی طرح پھول پھول کا دورہ نہیں کیا۔ یعنی تیاری کے لیے صرف ایک کتاب پر تکیہ کر لیا۔
دوسرا یہ کہ شہد کی مکھی کی طرح اس استاد نے پھولوں کا رس نکال کر شہد بنانے کے بجائے طلبہ کے سامنے کڑوے پھول لا کر رکھ دیے۔ یعنی جیسا کتاب میں پڑھا تھا ویسا کا ویسا طلبہ کو سنا دیا۔
اگر اس میں طلبہ کے ذہنوں کے مطابق مثالیں شامل ہوتی، تختہ سیاہ یا دیگر تعلیمی آلات سے مدد لی جاتی، مناسب سرگرمیوں کا انتخاب کیا جاتا تو اس محنت کا نتیجہ میٹھے شہد کی صورت میں نکلتا۔
استاد کا کام شہد کی مکھی کے کام کی طرح سخت اور تھکا دینے والا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ بھی شہد جیسا لذیذ وشیریں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🔘
لوگ سمجهتے ہیں۔ بادشاہ کامیاب ہوگئے, دولت والے کامیاب ہو گئے, اعلیٰ عہدوں والے کامیاب ہو گئے*
*قرآن کہتا ھــے*
*قد افلح المومنون○*
*کامیاب ہوگئے ایمان والے*
*طعنے*
_

سنو رابعہ- تم نے کرن کو دیکھا؟ عبایہ پہننا شروع کردیا ہے حجاب کے ساتھ.
ہاں یار دیکھا تو تھا، اللہ جب ہدایت عطا فرمادے.
رابعہ نے بدستور موبائل میں مصروف رہتے ہوئے جواب دیا، مگر کرن کی شاید تسلی و تشفی نہیں ہوئی تھی، شاید بھرپور غیبت کا ارادہ تھا اس لیے بات بڑھاتے ہوئے مزید کہا: یار اب کیا فائدہ اس حجاب کا، اس عبائے کا جب پوری اکیڈمی نے اسے اس کی واہیات ڈریسنگ میں دیکھ لیا ۔ نو سو چوہےکھاکر بلی حج کو چلی.
ہاں یہ تو ہے. رابعہ نے بھی تائید کی، مگر شاید موبائل میں شاید زیادہ دلچسپی کا سامان تھا ۔اس لیے بھرپور غیبت و تبصرے کا ارادہ پایہ تکمیل نہ پہنچ سکا .

لیکن ایک سیکنڈ رکیں، یہ مکالمہ پڑھ کر تائید کرکے گزر نہیں جائیں. یہ ہم سب کا معاملہ ہے، صرف کرن و رابعہ کا نہیں. ہم اتنے کم ظرف لوگ ہیں کہ کسی کے نیک ارادے کو اپنی باتوں سے، اپنے طنز و طعن سے ریزہ ریزہ کرسکتے ہیں. یہ معاملہ صرف عبایا حجاب کا نہیں بلکہ ہر توبہ کے بعد بندے ہی اس کمزور انسان کو اپنی باتوں سے، اپنے چبھتے سوالات و تبصروں سے چھلنی چھلنی کردیتے ہیں.

پچھلے دنوں ایک کلاس فیلو سے ملاقات ہوئی، باتوں باتوں میں حجاب زیر موضوع آگیا. کہنے لگیں دل تو چاہتا ہے کہ اب حجاب لیا کروں مگر میری نندوں نے کہا، بھابھی اب کیا فائدہ، ایک عمر گذاردی بنا پردے کے، اب کیوں شوق چڑھ گیا آپ کو؟
تو پھر میں نے بھی سوچا کہہ تو ٹھیک ہی رہی ہیں اس لیے رہنے دیا.

ایسے ہی ایک رشتے دار ہیں ان کے بھائی کی عمر چالیس بیالیس سال ہوگئی مگر شادی نہیں ہوسکی. ذکر زیر موضوع آیا تو سننے کو ملا اتنی گزر گئی باقی بھی گزر جائے گی۔

(واہ کیا کہنے یعنی اب اگر ان انکل کی بالفرض مزید چالیس سال کی کے عمر باقی ہے تو ان کی سزا ہے، باقی بھی آپ ایسے ہی گذاریں کیونکہ آپ نے یہ کام وقت پر نہیں کیا )

ایک اور جاننے والی ہیں ساس سے نہیں بنتی تھی، شوہر کو لےکر الگ دنیا بسالی. بعد ازاں احساس بیدار ہوا معافی وغیرہ مانگ کر ساتھ رکھ لیا. خدمت کرنے لگیں تو ان کے محلے کی خواتین کے لبوں پر اب یہ جملے رہتے ہیں، پتا نہیں کیا لالچ کھینچ لایا پہلے تو الگ ہوگئی تھی.

(یعنی یہاں یہ مراد لے لیا جائے بہو اگر ایک وقت میں غلط کر بھی گئی تو وہ اب زندگی بھر غلط بنی رہے، غلطی نہ سدھارے کیونکہ وہ جس محلے میں رہتی ہے انھیں یہ معلوم تھا کہ یہ پہلے غلط کرچکی ہے)

ایسے ہی ایک پرانے محلے کی جاننے والی تھیں گھر کی ضروریات مکمل کرنے کے لیے گمراہی کے راستے پر چل پڑی، چند سال بعد عمرے پر گئیں، دامنِ ہدایات تھام کر آئیں مگر آج تک انھیں ان کی سابقہ زندگی کے تناظر میں ذلیل کیا جاتا ہے، طعنے دیے جاتے ہیں.

ایسی أن گنت مثالیں ہیں ہمارے درمیان جو ہم خود پیدا کرتے ہیں، جن کی وجہ ہم خود بنتے ہیں اور انجانے میں اپنا اور کسی دوسرے کا کتنا نقصان کر جاتے ہیں ہمیں اندازہ تک نہیں ہو پاتا.
آخر کیوں معاف نہیں کرتے ہم لوگ ایسے لوگوں کو جو اپنا آپ سدھارنا چاہتے ہیں، سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمت دکھاتے ہیں، ہمت کرتے ہیں، ہم سے اچھے ہوتے ہیں جو اپنی کوتاہیوں غلطیوں کا ادراک کرکے انھیں درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم اپنی زبانوں سے صرف ان کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہیں ۔

خدارا رحم کریں خود پر اپنے حالوں پر اور صرف ایک بار سوچیں... حضورﷺ نے جب اسلام کی تبلیغ شروع کی تھی تو چار افراد سے شروع ہوئی تھی وہ دعوت. اس سے قبل سب غیر مذہب پر تھے، تو ذرا سوچیں آج جن جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم کا نام ہم عزت و احترام سے لیتے ہیں، وہ بعد میں کلمہ گو ہوئے تھے. کیا ہم انھیں طعنے دینے کا سوچ سکتے ہیں؟ کیا ہماری روح نہیں کانپ جاتی اس خیال سے بھی؟ کیا اس زمانے میں کسی نے انھیں ان کی سابقہ زندگی کا جتایا تھا؟ انھیں کیا فائدہ؟ کیا فائدہ یا پہلے تو یہ کیا تھا، پہلے تو وہ کیا تھا، کہہ کر حوصلہ شکنی کی تھی؟؟؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ کھلے دل سے دائرہ اسلام میں خوش آمدید کہا تھا... ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ اعلیٰ ہستیاں خود اپنے سابقہ اعمال کے لیے غمزدہ رہتی تھیں مگر ان کے حوصلے پست نہیں کیے جاتے بلکہ انھیں نوید دی جاتی تھی. انھیں قرآنی آیتوں کی صورت میں بشارتیں دی جاتی تھیں. بہشت کی، خلد کے انعامات کی.....
تو ہم ایک عام انسان ہوکر ہوتے کون ہیں کسی کے لیے فیصلے کرنے والے؟ اندازے لگانے والے؟ کسی کی نیتوں کے نیک و بد ہونے کا بتانے والے؟ کیا حق پہنچتا ہے ہمیں؟ تو جان لیں کوئی حق نہیں پہنچتا.... کوئی بھی حق کسی بھی طرح کا نہیں......
کاش یہ بات ہمیں سمجھ آجائے اور ہم دوسروں کے اعمال کے بجائے اپنے اعمال کی فکر میں لگ جائیں۔
①مردہ سنتا ہے..بولتا ہے..دیکھتا ہے..پہچانتا ہےمحسوس کرتا ہےمگر ہمیں اسکا شعور نہیں،کیوں نہیں...؟؟
②ہم مردوں کی بات کیوں نہیں سنتے......؟؟
③ہمیں مُردوں کے لیے کیا کرنا چاہیے...........؟؟
④قرآن میں ہےآپ مُردوں کو نہیں سناسکتے...؟؟
⑤کیا وفات شدہ اولیاءسےکچھ مانگ سکتے.......؟؟
.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے..ترجمہ:
اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نا کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں مگر تمھیں اسکا شعور نہیں.(سورہ بقرہ آیت154)
.
حدیث پاک میں ہے کہ:
حتى إنه ليسمع قرع نعالهم
ترجمہ:حتی کہ مردہ لوگوں کے جوتوں کی ہلکی سی آہٹ تک سنتا ہے...(بخاری حدیث1338)
.
ایک اور حدیث پاک ملاحظہ کیجیے
إذا وضعت الجنازة، فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت: قدموني، وإن كانت غير صالحة قالت لأهلها: يا ويلها أين يذهبون بها، يسمع صوتها كل شيء إلا الانسان
ترجمہ:
جب جنازہ رکھا جاتا ہے تو اسے لوگ اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر مردہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے جلدی لے جاؤ.. اور مردہ نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے ہائے ہلاکت مجھے کہاں لے جا رہے ہو.. مردے کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے
(بخاری حدیث1316)
مذکورہ آیت اور دو احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد سب مُردوں کو برزخی حیات مل جاتی ہے وہ بولتے ہیں سنتے ہیں محسوس کرتے ہیں
مگر
ہمیں اسکا شعور نہیں ہوتا
.
كان النبي صلى الله عليه وسلم" إذا فرغ من دفن الميت، وقف عليه، فقال: استغفروا لاخيكم، وسلوا له بالتثبيت، فإنه الآن يسال"
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا(منکر نکیر فرشتے سوال کریں گے)
(ابوداؤد حدیث3221)
حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ منکر نکیر فرشتوں کا سوال جواب برحق ہے۔۔۔اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمیں دفن کرنے کے بعد فورا گھر نہیں جانا چاہیے بلکہ دفنانے کے بعد کچھ دیر وہاں پر ذکر اذکار دعا استغفار کرنا چاہیے
۔

قبر میں سوال جواب کا انکار کسی مسلمان کے لیے ممکن نہیں.. اسی طرح قبرستان میں مردوں کو سلام کرنا بھی سنت ہے جسکا حکم کئ احادیث میں ہے..قبر کی عذاب و نعمت کی احادیث متواتر ہیں اس سے بھی مردوں کا سننا بولنا سمجھنا محسوس کرنا جواب دینا بہت کچھ ثابت ہوتا ہے... بس ہمیں اس کا شعور نہیں
.
عذاب قبر کی احادیث صحیح بلکہ متواتر ہیں اور متواتر کا انکار کفر ہوتا ہے....بعض آیات سے بظاہر ثابت ہوتا ہے کہ مردے نہیں سنتے نہیں بولتے لیھذا عذاب قبر کی ایات حدیث متواتر اور نفی والی آیات میں تطبیق لازم ہے،اس لیے وہ معنی لینا لازم جو علامہ قاری کے حوالے سےآگے سوال جواب کی صورت میں آ رہا ہے۔۔۔یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ عذاب قبر آیات اور احادیث سے ثابت ہے اور عذاب قبر سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے سنتے ہیں بولتے ہیں محسوس کرتے ہیں لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔۔۔ شعور کیوں نہیں ہوتا اس کا بھی جواب آگے سوال جواب کی صورت میں آ رہا ہے
وَإِذا ثَبت التعذيب ثَبت الْإِحْيَاء والمساءلة، لِأَن كل من قَالَ بِعَذَاب الْقَبْر قَالَ بهما.وَلنَا أَيْضا أَحَادِيث صَحِيحَة وأخبار متواترة
عذاب قبر کی احادیث مبارکہ متواترہ ہیں اور عذاب قبر سے ثابت ہوتا ہے کہ مردے حیات برزخی کے ساتھ زندہ ہوجاتے ہیں(سنتے ہیں بولتے ہیں محسوس کرتے ہیں جواب دیتے ہیں لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا )
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,8/146]
.

وقد كثرت الأحاديث في عذاب القبر، حتى قال غير واحد: إنها متواترة
اور بے شک عذاب قبر کی احادیث بہت زیادہ ہیں یہاں تک کہ علماء نے فرمایا ہے کہ یہ احادیث متواترہ ہیں
[شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري ,2/460]
.
عذاب قبر کے متعلق دو آیات:
①اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِىۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَالۡمَلٰٓئِكَةُ بَاسِطُوۡۤا اَيۡدِيۡهِمۡ‌ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَكُمُ‌ؕ اَلۡيَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡهُوۡنِ بِمَا كُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ غَيۡرَ الۡحَـقِّ وَكُنۡتُمۡ عَنۡ اٰيٰتِهٖ تَسۡتَكۡبِرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
جب یہ ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں گے اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں گے (اور کہیں گے) نکالو اپنی جانوں کو آج تمہیں(مرنے کے فورا بعد ہی سے) ذلت والے عذاب کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم اللہ پر ناحق بہتان تراشتے تھے اور تم اس کی آیتوں (پر ایمان لانے) سے تکبر کرتے تھے۔(سورہ انعام آیت93)
اس آیت مبارکہ میں بالکل واضح ہے کہ جب ظالم مرنے کے قریب ہوتے ہیں تو فرشتے انہیں فورا عذاب دینے کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔یہ عذاب آخرت کے عذاب سے پہلے ہے اسی کو تو عذاب قبر کہتے ہیں

.
②القرآن
اَلنَّارُ يُعۡرَضُوۡنَ عَلَيۡهَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا ۚ وَيَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَةُ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ ۞
ترجمہ:
صبح اور شام ان کو دوزخ کی آگ پ