گھڑی میں تین سوئیاں ہوتی ہیں جن میں ایک سوئی سیکنڈ والی سوئی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سیکنڈ والی سوئی اپنا وجود تو رکھتی ہے، پر اسکا ذکر نہیں کیا جاتا - سب یہی کہتے ہیں دس بج کر پندرہ منٹ ہوگئے ہیں - کبھی کسی نے یوں نہیں کہا: دس بج کر پندرہ منٹ اور چار سیکنڈ ہوئے ہیں - جبکہ
یہ سیکنڈ والی سوئی دونوں سے زیادہ محنت ومشقت کرتی ہے اور اٌن دونوں کو بھی آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے -
ہماری زندگی میں بھی بہت سے لوگ اسی سیکنڈ والی سوئی کی مانند ہوتے ہیں - جن کا ذکر تو کہیں نہیں ہوتا لیکن ہمارے آگے بڑھنے میں اٌنکا کردار ضرور ہوتا ہے
منقول
@HamariUrduPiyariUrdu
یہ سیکنڈ والی سوئی دونوں سے زیادہ محنت ومشقت کرتی ہے اور اٌن دونوں کو بھی آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے -
ہماری زندگی میں بھی بہت سے لوگ اسی سیکنڈ والی سوئی کی مانند ہوتے ہیں - جن کا ذکر تو کہیں نہیں ہوتا لیکن ہمارے آگے بڑھنے میں اٌنکا کردار ضرور ہوتا ہے
منقول
@HamariUrduPiyariUrdu
ایک حکیم سے پوچھا گیا کہ زندگی میں کامیابی کیسے حاصل ہوتی ہے؟
حکیم نے کہا:
اس کا جواب لینے کے لیے آپ کو آج رات کا کھانا میرے پاس کھانا ہوگا
سب دوست رات کو جمع ہو گئے
اس نے سوپ کا ایک بڑا برتن سب کے سامنے لا کر رکھ دیا
مگر سوپ پینے کے لیے سب کو ایک ایک میٹر لمبا چمچ دے دیا
اور سب سے کہا
کہ آپ سب کو اپنے اپنے لمبے چمچ سے سوپ پینا ہے
ہر شخص نے کوشش کی، مگر ظاہر ہے ایسا ناممکن تھا
کوئی بھی شخص چمچ سے سوپ نہیں پی سکا۔
سب بھوکے ہی رہے۔
سب ناکام ہو گئے تو حکیم نے کہا:
میری طرف دیکھو۔
اس نے ایک چمچ پکڑا،
سوپ لیا اور چمچ اپنے سامنے والے شخص کے منہ سے لگا دیا۔
اب ہر شخص نے اپنا اپنا چمچ پکڑا اور دوسرے کو سوپ پلانے لگا۔
سب کے سب بہت خوش ہوئے۔
سوپ پینے کے بعد حکیم کھڑا ہوا اور بولا:
جو شخص زندگی کے دسترخوان پر اپنا ہی پیٹ بھرنے کا فیصلہ کرتا ہے،
وہ بھوکا ہی رہے گا۔
اور جو شخص دوسروں کو کھلانے کی فکر کرے گا،
وہ خود کبھی بھوکا نہیں رہے گا۔
دینے والا ہمیشہ فائدہ میں رہتا ہے، لینے والے سے۔
ہم سب کی کامیابی کا راستہ دوسروں کی کامیابی سے ہوکر گزرتا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
@HamariUrduPiyariUrdu
حکیم نے کہا:
اس کا جواب لینے کے لیے آپ کو آج رات کا کھانا میرے پاس کھانا ہوگا
سب دوست رات کو جمع ہو گئے
اس نے سوپ کا ایک بڑا برتن سب کے سامنے لا کر رکھ دیا
مگر سوپ پینے کے لیے سب کو ایک ایک میٹر لمبا چمچ دے دیا
اور سب سے کہا
کہ آپ سب کو اپنے اپنے لمبے چمچ سے سوپ پینا ہے
ہر شخص نے کوشش کی، مگر ظاہر ہے ایسا ناممکن تھا
کوئی بھی شخص چمچ سے سوپ نہیں پی سکا۔
سب بھوکے ہی رہے۔
سب ناکام ہو گئے تو حکیم نے کہا:
میری طرف دیکھو۔
اس نے ایک چمچ پکڑا،
سوپ لیا اور چمچ اپنے سامنے والے شخص کے منہ سے لگا دیا۔
اب ہر شخص نے اپنا اپنا چمچ پکڑا اور دوسرے کو سوپ پلانے لگا۔
سب کے سب بہت خوش ہوئے۔
سوپ پینے کے بعد حکیم کھڑا ہوا اور بولا:
جو شخص زندگی کے دسترخوان پر اپنا ہی پیٹ بھرنے کا فیصلہ کرتا ہے،
وہ بھوکا ہی رہے گا۔
اور جو شخص دوسروں کو کھلانے کی فکر کرے گا،
وہ خود کبھی بھوکا نہیں رہے گا۔
دینے والا ہمیشہ فائدہ میں رہتا ہے، لینے والے سے۔
ہم سب کی کامیابی کا راستہ دوسروں کی کامیابی سے ہوکر گزرتا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
@HamariUrduPiyariUrdu
*ایک بوڑھے آدمی کو اسکی اولاد ہر روز یہ طعنہ دیتی کہ آپ نے ہمارے لئے کیا بنایا ہے*
*بابا جی یہ سن کر خاموش ہو جاتے*
*اگلی صبح پھر اسی بحث کو لیکر بچے اپنے بوڑھے باپ کا جینا حرام کرتے اور بیچارہ بوڑھا صبر کے ساتھ اپنی اولاد کے اس طعنے کو سہتا بھی اور سنتا بھی لیکن خاموش رہتا*
*جب موت کا وقت قریب آیا اور بوڑھا بستر مرگ پر لیٹ گیا تو جاتے جاتے اپنے بچوں کو ایک کاغذ دے گیا جس پر لکھا تھا*
*اس گھر کے نیچے میری عمر بھر کی جمع پونجی ہے بھاری خزانہ ہے کھود کر نکال لینا*
*یہ پڑھنا تھا کہ بچوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا* *بڑے احترام سے باپ کی میت کو دفنایا پھر اگلے ہی دن پورے گھر کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا اور کھدائی شروع کر دی*
*کھدائی کرتے انکی نظر ایک چھوٹے سے صندوق پر پڑی۔* *جسے کھولا گیا تو اس میں ایک پرچی پڑی تھی جس پر لکھا تھا*
*اگر تم سب اتنے ہی مرد ہو تو اسی گھر کو دوبارہ بناٶ جسے میں نے اپنا خون پسینہ بہا کر تعمیر کیا تھا ۔ تمہارے سوال کا جواب بھی مل جائیگا*
*بچے رہی سہی چھت بھی گنوا بیٹھے*
*آج کا نوجوان ماں باپ کا خدمت گزار ہو یا نا ہو لیکن یہ سوال ضرور پوچھتا ہے*
@HamariUrduPiyariUrdu
*بابا جی یہ سن کر خاموش ہو جاتے*
*اگلی صبح پھر اسی بحث کو لیکر بچے اپنے بوڑھے باپ کا جینا حرام کرتے اور بیچارہ بوڑھا صبر کے ساتھ اپنی اولاد کے اس طعنے کو سہتا بھی اور سنتا بھی لیکن خاموش رہتا*
*جب موت کا وقت قریب آیا اور بوڑھا بستر مرگ پر لیٹ گیا تو جاتے جاتے اپنے بچوں کو ایک کاغذ دے گیا جس پر لکھا تھا*
*اس گھر کے نیچے میری عمر بھر کی جمع پونجی ہے بھاری خزانہ ہے کھود کر نکال لینا*
*یہ پڑھنا تھا کہ بچوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا* *بڑے احترام سے باپ کی میت کو دفنایا پھر اگلے ہی دن پورے گھر کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا اور کھدائی شروع کر دی*
*کھدائی کرتے انکی نظر ایک چھوٹے سے صندوق پر پڑی۔* *جسے کھولا گیا تو اس میں ایک پرچی پڑی تھی جس پر لکھا تھا*
*اگر تم سب اتنے ہی مرد ہو تو اسی گھر کو دوبارہ بناٶ جسے میں نے اپنا خون پسینہ بہا کر تعمیر کیا تھا ۔ تمہارے سوال کا جواب بھی مل جائیگا*
*بچے رہی سہی چھت بھی گنوا بیٹھے*
*آج کا نوجوان ماں باپ کا خدمت گزار ہو یا نا ہو لیکن یہ سوال ضرور پوچھتا ہے*
@HamariUrduPiyariUrdu
مولانا سیف خالد اشرفی صاحب کے وال سے کاپی
سلطان محمد الفاتح کو ان کی والدہ ان کے بچپن میں قسطنطنیہ کی فصیل دکھانے لے جاتی تھیں اور کہتیں
“ اے محمد! تیرا نام محمد ہے اور تو ہی بہت جلد ان فصیلوں کو فتح کریگا “
صلاح الدین ایوبی کو ان کے والد نے بچپن کے زمانہ میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو ان کے بیچ سے لیا اور اور ہاتھ سے پکڑ کر اونچا اٹھا لیا۔ ان کے والد لمبے قد و قامت کے انسان تھے ،
ان سے کہا۔
“ میں نے تیری ماں سے اس لئے نکاح نہیں کیا اور تجھے اس لئے جنم نہیں دیا کہ تو لڑکوں کے ساتھ کھیلے گا میں نے تو اس لئے تیری ماں سے نکاح کیا اور تجھے جنم دیا کہ تو مسجدِ اقصی کو آزاد کرائیگا۔ “
لمبے قد کے انسان اور بیٹے کو ہاتھ سے اوپر اٹھائے ہوئے، اوپر ہی سے چھوڑ دیا ، بچہ صلاح الدین زمین پر گرگیا۔
باپ نے بچے کی طرف نگاہ ڈالی تو درد کے آثار بچے کے چہرے پر عیاں دیکھا۔ کہا۔
“ گرنے پر تجھے درد ہو رہا ہے؟”
صلاح الدین نے کہا۔
“ درد تو ہو رہا ہے۔ “
باپ نے کہا۔
“تو درد سے کیوں نہیں چیخا۔ “
بچے نے (یہ تاریخی جملہ) کہا۔
“ مسجدِ اقصی کو آزادی دلانے والے کیلئے مناسب نہیں کہ درد پر روئے چلائے۔ ؟
سیدہ صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنھا اپنے بیٹے زبیر (رضی اللہ عنہ) کے گھوڑے کی پیٹھ سے گر جانے کی کوئی پرواہ نہیں کرتی تھیں
عرب اپنے بچوں کو مہینوں سالوں جنگلوں کی طرف بھیج دیتے تھے اور ان کے دلوں کو اندیشہ و خوف نہیں کھاتا تھا۔
مکہ کی وادیوں میں بچے بکریوں کے ساتھ تنہا راتیں گزار دیتے تھے ان کے باپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔
عرب کے بانکے جوان جیسے حمزہ بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہ) تجارت کیلئے، شکار کیلئے، اونچے اونچے پہاڑوں پر چڑھنے کیلئے ، شیروں کے شکار کیلئے نکلتے تھے مگر ان کی مائیں دہشت سے مرتی نہیں تھیں
یہی سبب ہے کہ جب اسلام آیا تو عرب کی جسمانی قوت کے ساتھ روحانی قوت مل گئی اور خالد ابن ولید ، زبیر بن العوام ، سعد بن ابی وقاص ، براء ابن مالک ، مثنی ، قعقاع ، عمرو بن معدی کرب ( رضی اللہ عنھم اجمعین)جیسے بہادر اور مردانِ کارزار عرب کے ریگزار پر ظاہر ہوئے۔
اللہ کا نام لے کر نکلے اور قیصر و کسری کی عظیم سلطنتیں لے کر ہی واپس آئے۔
قوم کو صفیہ جیسی ماں کی ضرورت ہے جو زبیر جیسے بچے کی پرورش کرے۔
نجم الدین جیسے باپ کی حاجت ہے جو صلاح الدین جیسے شیر کو پال کر جوان کرے
امت تاریخ کے ایسے مرحلے میں داخل ہورہی ہے جہاں مذکر و مونث نام والے کا کوئی فائدہ نہیں
قوموں کا مستقبل اس کے بچوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
اپنے بچوں کو دور حاضر کے گندے حقائق کا شکار بننے کیلئے آزاد نہ چھوڑو
فلموں نے نسلوں کو برباد کرڈالا، گندے مناظر کے سوا کیا ہے وہاں دین اور اچھی تربیت سے دوری ہی دوری
ہر شخص رعیت والا( ذمہ دار ) ہے اور اپنی رعایا (ماتحت)کے متعلق پوچھا جائیگا۔
(عربی سے ترجمہ)
ابھی اور اسی وقت ہر طرح کی فلم ، ڈرامے اور بے حیائی اور مخربِ اخلاق مناظر کی طرف نگاہ ڈالنے سے ہم توبہ کریں اور اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کریں ۔
پڑھو پڑھو اپنے ہیروز کی تاریخ پڑھو ۔ یہ فلموں میں ناچنے والے ہیرو نہیں زیرو ہیں۔ یہ تمہارے اعمال ہی کو خراب نہیں کرتے تمہارے ایمان کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں فلم اور سیریل کی کوئی ایکٹنگ جو اس کے باہر شرک و کفر پر مشتمل ہو اس کے اندر بھی شرک و کفر ہے
نکاح و طلاق و ایمان و کفر ایسی چیزیں ہیں جو مذاق و اداکاری میں بھی موثر ہوجاتی ہیں حکم کے معاملے میں۔
سلطان محمد الفاتح کو ان کی والدہ ان کے بچپن میں قسطنطنیہ کی فصیل دکھانے لے جاتی تھیں اور کہتیں
“ اے محمد! تیرا نام محمد ہے اور تو ہی بہت جلد ان فصیلوں کو فتح کریگا “
صلاح الدین ایوبی کو ان کے والد نے بچپن کے زمانہ میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو ان کے بیچ سے لیا اور اور ہاتھ سے پکڑ کر اونچا اٹھا لیا۔ ان کے والد لمبے قد و قامت کے انسان تھے ،
ان سے کہا۔
“ میں نے تیری ماں سے اس لئے نکاح نہیں کیا اور تجھے اس لئے جنم نہیں دیا کہ تو لڑکوں کے ساتھ کھیلے گا میں نے تو اس لئے تیری ماں سے نکاح کیا اور تجھے جنم دیا کہ تو مسجدِ اقصی کو آزاد کرائیگا۔ “
لمبے قد کے انسان اور بیٹے کو ہاتھ سے اوپر اٹھائے ہوئے، اوپر ہی سے چھوڑ دیا ، بچہ صلاح الدین زمین پر گرگیا۔
باپ نے بچے کی طرف نگاہ ڈالی تو درد کے آثار بچے کے چہرے پر عیاں دیکھا۔ کہا۔
“ گرنے پر تجھے درد ہو رہا ہے؟”
صلاح الدین نے کہا۔
“ درد تو ہو رہا ہے۔ “
باپ نے کہا۔
“تو درد سے کیوں نہیں چیخا۔ “
بچے نے (یہ تاریخی جملہ) کہا۔
“ مسجدِ اقصی کو آزادی دلانے والے کیلئے مناسب نہیں کہ درد پر روئے چلائے۔ ؟
سیدہ صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنھا اپنے بیٹے زبیر (رضی اللہ عنہ) کے گھوڑے کی پیٹھ سے گر جانے کی کوئی پرواہ نہیں کرتی تھیں
عرب اپنے بچوں کو مہینوں سالوں جنگلوں کی طرف بھیج دیتے تھے اور ان کے دلوں کو اندیشہ و خوف نہیں کھاتا تھا۔
مکہ کی وادیوں میں بچے بکریوں کے ساتھ تنہا راتیں گزار دیتے تھے ان کے باپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔
عرب کے بانکے جوان جیسے حمزہ بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہ) تجارت کیلئے، شکار کیلئے، اونچے اونچے پہاڑوں پر چڑھنے کیلئے ، شیروں کے شکار کیلئے نکلتے تھے مگر ان کی مائیں دہشت سے مرتی نہیں تھیں
یہی سبب ہے کہ جب اسلام آیا تو عرب کی جسمانی قوت کے ساتھ روحانی قوت مل گئی اور خالد ابن ولید ، زبیر بن العوام ، سعد بن ابی وقاص ، براء ابن مالک ، مثنی ، قعقاع ، عمرو بن معدی کرب ( رضی اللہ عنھم اجمعین)جیسے بہادر اور مردانِ کارزار عرب کے ریگزار پر ظاہر ہوئے۔
اللہ کا نام لے کر نکلے اور قیصر و کسری کی عظیم سلطنتیں لے کر ہی واپس آئے۔
قوم کو صفیہ جیسی ماں کی ضرورت ہے جو زبیر جیسے بچے کی پرورش کرے۔
نجم الدین جیسے باپ کی حاجت ہے جو صلاح الدین جیسے شیر کو پال کر جوان کرے
امت تاریخ کے ایسے مرحلے میں داخل ہورہی ہے جہاں مذکر و مونث نام والے کا کوئی فائدہ نہیں
قوموں کا مستقبل اس کے بچوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
اپنے بچوں کو دور حاضر کے گندے حقائق کا شکار بننے کیلئے آزاد نہ چھوڑو
فلموں نے نسلوں کو برباد کرڈالا، گندے مناظر کے سوا کیا ہے وہاں دین اور اچھی تربیت سے دوری ہی دوری
ہر شخص رعیت والا( ذمہ دار ) ہے اور اپنی رعایا (ماتحت)کے متعلق پوچھا جائیگا۔
(عربی سے ترجمہ)
ابھی اور اسی وقت ہر طرح کی فلم ، ڈرامے اور بے حیائی اور مخربِ اخلاق مناظر کی طرف نگاہ ڈالنے سے ہم توبہ کریں اور اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کریں ۔
پڑھو پڑھو اپنے ہیروز کی تاریخ پڑھو ۔ یہ فلموں میں ناچنے والے ہیرو نہیں زیرو ہیں۔ یہ تمہارے اعمال ہی کو خراب نہیں کرتے تمہارے ایمان کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں فلم اور سیریل کی کوئی ایکٹنگ جو اس کے باہر شرک و کفر پر مشتمل ہو اس کے اندر بھی شرک و کفر ہے
نکاح و طلاق و ایمان و کفر ایسی چیزیں ہیں جو مذاق و اداکاری میں بھی موثر ہوجاتی ہیں حکم کے معاملے میں۔
۲۹مئی: #یومِ_فتحِ_قسطنطنیہ
" وہ تاریخی دن جس سے یوروپ آج بھی کراہ رہاہے "
آج سے ۵ سو سال قبل یہی وہ گھڑی تھی یوروپ میں جس کی صبح, عیسائیوں کی استعماری بزنطینی سلطنت کے غروب سے طلوع ہوئی تھی، یہی وہ تاریخی گھڑی تھی جب عظیم اسلامی سپہ سالار، سلطنت عثمانیہ کے نامور خلیفۃ المسلمین، سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ پر ہلالی پرچم لہرایا تھا، یہی وہ عہد ساز لمحات تھے جب صلیبیوں کے مقدسات میں سے ایک، آرتھوڈکس عیسائیوں کا قلعہ اور صلیبیوں کی بزنطینی بادشاہت کے بے مثال دارالحکومت کو اسلامی افواج نے عثمانی خلافت کا غلام کرلیا تھا، قسطنطنیہ کا نام پہلے " باز نطین " تھا سلطان محمد الفاتح نے اسے فتح کرکے اس کا نام " اسلام بول " رکھ دیا، اور اب یہ شہر " استنبول کے نام سے جانا جاتاہے_
عظیم عثمانی ترکوں نے قسطنطنیہ کو فتح کرکے نا صرف اسلام کی جھولی میں ڈال دیا بلکہ اسے تا قیامت یوروپ کی مسیحی دنیا کے لیے کچوکے لگانے کا سامان کردیاہے، استنبول یوروپ کے ان شہروں میں سے ایک ہے جو قدرتی ذخائر اور خزانوں سے لبالب ہیں، قسطنطنیہ یعنی کہ استنبول یوروپ کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہے جسے کبھی شہروں کی ملکہ بھی کہا جاتاتھا، یہ فتح کوئی معمولی فتح نہیں تھی بلکہ اس فتح کے لیے محمدﷺ نے بشارتیں بھی دیں تھیں، میزبان رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ اسی سلسلے کے غزوہ میں وفات پاکر شہید ہوئے، آج بھی ان کی مزار اور یادگاریں ترکی میں موجود ہیں، یہی وجہ ہیکہ بازنطینی سلطنت اور عیسائی دنیا کے لیے یہ فتح ایک سوگوار تاریخ چھوڑ گئی ہے، یوروپ کی دین بیزار اور اسلام دشمن دنیا جس قسطنطنیہ یا بازنطین پر مغرور تھی اور جس خطے کو مسلمانوں سے چھینے رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہی اسے ترکی نسل کے عظیم عثمانی سلطان، سلطان محمد الفاتح نے اپنی عمر کے عہد شباب میں ہی زیر کرلیاتھا، دجال کی مسیحی دنیا، یوروپ پر اس شکست کا ایسا زبردست اثر ہے کہ اس سلسلے میں ماتمی محافل، اور انتقامی کتب و لٹریچر ہر دور میں تیار کیا جاتاہے، عثمانی ترکوں کے خلاف اشتعال انگیز نظمیں پڑھی جاتی ہیں، تحقیر آمیز پینٹنگز بنائی جاتی ہیں، حتیٰ کہ یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ ۲۹ مئی 1453 کو جس دن قسطنطنیہ کو مسلمانوں نے فتح کرکے " استنبول " بنایا وہ دن جمعرات کا ہی دن تھا، یہی وجہ ہیکہ موجودہ ترکی سے پورا عالم کفر انتقامی جذبہ رکھتاہے اور اس کی ترقیاتی راہ میں روڑے ڈالتا ہے_
*امت اسلامیہ کے غیور نوجوانوں کے لیے اس تاریخ میں عظیم سبق ہے، ایک ۲۰ سے ۲۵ سالہ عثمانی سلطان کا یہ کارنامہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، دشمنوں کے قلب و جگر سے ایک خطۂ زمین کو الله کی کبریائی کے خاطر اس طرح حاصل کرلینا کہ رہتی دنیا تک وہ عظیم اسلامی ایمپائر دشمنوں کی آنکھوں کے لیے ہمیشہ سوزش کا سامان بن جائے یہ غیر معمولی تاریخ ساز کارنامہ ہے، امت کے نوجوانوں کو اس تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، کروڑوں رحمتوں کی سوغات نازل ہو سلطان محمد الفاتح پر، عظیم ترکوں پر، اس لشکر کے ہر سپاہی اور ہر غیور عثمانی لشکری پر، آج بھی عظیم ترکی یوروپ کے لیے بھرپور انداز میں سوزش و جلن کا سامان پیدا کررہاہے، ترکوں کی عظمت کو سلام، سنہری تاریخ کے عہد ساز عثمانی سلاطین کو بھی بار بار سلامِ شوق، تم ہماری تاریخ کا اٹوٹ حصہ اور عظمت اسلامی کا بحر بیکراں ہو، پوری امت اس عہد ساز تاریخ اور ایمان افروز لمحاتِ آفرینش پر فدا ہے_*
*کاپی
" وہ تاریخی دن جس سے یوروپ آج بھی کراہ رہاہے "
آج سے ۵ سو سال قبل یہی وہ گھڑی تھی یوروپ میں جس کی صبح, عیسائیوں کی استعماری بزنطینی سلطنت کے غروب سے طلوع ہوئی تھی، یہی وہ تاریخی گھڑی تھی جب عظیم اسلامی سپہ سالار، سلطنت عثمانیہ کے نامور خلیفۃ المسلمین، سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ پر ہلالی پرچم لہرایا تھا، یہی وہ عہد ساز لمحات تھے جب صلیبیوں کے مقدسات میں سے ایک، آرتھوڈکس عیسائیوں کا قلعہ اور صلیبیوں کی بزنطینی بادشاہت کے بے مثال دارالحکومت کو اسلامی افواج نے عثمانی خلافت کا غلام کرلیا تھا، قسطنطنیہ کا نام پہلے " باز نطین " تھا سلطان محمد الفاتح نے اسے فتح کرکے اس کا نام " اسلام بول " رکھ دیا، اور اب یہ شہر " استنبول کے نام سے جانا جاتاہے_
عظیم عثمانی ترکوں نے قسطنطنیہ کو فتح کرکے نا صرف اسلام کی جھولی میں ڈال دیا بلکہ اسے تا قیامت یوروپ کی مسیحی دنیا کے لیے کچوکے لگانے کا سامان کردیاہے، استنبول یوروپ کے ان شہروں میں سے ایک ہے جو قدرتی ذخائر اور خزانوں سے لبالب ہیں، قسطنطنیہ یعنی کہ استنبول یوروپ کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہے جسے کبھی شہروں کی ملکہ بھی کہا جاتاتھا، یہ فتح کوئی معمولی فتح نہیں تھی بلکہ اس فتح کے لیے محمدﷺ نے بشارتیں بھی دیں تھیں، میزبان رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ اسی سلسلے کے غزوہ میں وفات پاکر شہید ہوئے، آج بھی ان کی مزار اور یادگاریں ترکی میں موجود ہیں، یہی وجہ ہیکہ بازنطینی سلطنت اور عیسائی دنیا کے لیے یہ فتح ایک سوگوار تاریخ چھوڑ گئی ہے، یوروپ کی دین بیزار اور اسلام دشمن دنیا جس قسطنطنیہ یا بازنطین پر مغرور تھی اور جس خطے کو مسلمانوں سے چھینے رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہی اسے ترکی نسل کے عظیم عثمانی سلطان، سلطان محمد الفاتح نے اپنی عمر کے عہد شباب میں ہی زیر کرلیاتھا، دجال کی مسیحی دنیا، یوروپ پر اس شکست کا ایسا زبردست اثر ہے کہ اس سلسلے میں ماتمی محافل، اور انتقامی کتب و لٹریچر ہر دور میں تیار کیا جاتاہے، عثمانی ترکوں کے خلاف اشتعال انگیز نظمیں پڑھی جاتی ہیں، تحقیر آمیز پینٹنگز بنائی جاتی ہیں، حتیٰ کہ یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ ۲۹ مئی 1453 کو جس دن قسطنطنیہ کو مسلمانوں نے فتح کرکے " استنبول " بنایا وہ دن جمعرات کا ہی دن تھا، یہی وجہ ہیکہ موجودہ ترکی سے پورا عالم کفر انتقامی جذبہ رکھتاہے اور اس کی ترقیاتی راہ میں روڑے ڈالتا ہے_
*امت اسلامیہ کے غیور نوجوانوں کے لیے اس تاریخ میں عظیم سبق ہے، ایک ۲۰ سے ۲۵ سالہ عثمانی سلطان کا یہ کارنامہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، دشمنوں کے قلب و جگر سے ایک خطۂ زمین کو الله کی کبریائی کے خاطر اس طرح حاصل کرلینا کہ رہتی دنیا تک وہ عظیم اسلامی ایمپائر دشمنوں کی آنکھوں کے لیے ہمیشہ سوزش کا سامان بن جائے یہ غیر معمولی تاریخ ساز کارنامہ ہے، امت کے نوجوانوں کو اس تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، کروڑوں رحمتوں کی سوغات نازل ہو سلطان محمد الفاتح پر، عظیم ترکوں پر، اس لشکر کے ہر سپاہی اور ہر غیور عثمانی لشکری پر، آج بھی عظیم ترکی یوروپ کے لیے بھرپور انداز میں سوزش و جلن کا سامان پیدا کررہاہے، ترکوں کی عظمت کو سلام، سنہری تاریخ کے عہد ساز عثمانی سلاطین کو بھی بار بار سلامِ شوق، تم ہماری تاریخ کا اٹوٹ حصہ اور عظمت اسلامی کا بحر بیکراں ہو، پوری امت اس عہد ساز تاریخ اور ایمان افروز لمحاتِ آفرینش پر فدا ہے_*
*کاپی
" حکمت سے بلائیے دین کی طرف "
ہمیں اب یہ سمجھنا ہوگا کہ لوگوں کے جدید ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال کا ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے اور اسلام دشمن قوتوں کی مکاریوں کا ہر فورم پر جا کر مقابلہ کرنا چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی زیادہ سے زیادہ دین کا کام کیا جائے اس کے لیے ہر ایک کو ترغیب دی جائے اور مسلمانوں تک بہترین اور مستند دینی مواد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے یہی وقت کی ضرورت ہے
✍ محمد سرمد لطیف
ہمیں اب یہ سمجھنا ہوگا کہ لوگوں کے جدید ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال کا ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے اور اسلام دشمن قوتوں کی مکاریوں کا ہر فورم پر جا کر مقابلہ کرنا چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی زیادہ سے زیادہ دین کا کام کیا جائے اس کے لیے ہر ایک کو ترغیب دی جائے اور مسلمانوں تک بہترین اور مستند دینی مواد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے یہی وقت کی ضرورت ہے
✍ محمد سرمد لطیف
جاگنے سے بہتر تو سویا رہتا!
حضرت شیخ سعدی خود گلستان میں لکھتے ہیں کہ مجھے بچپن میں عبادت کا خوب شوق تھا۔
ایک مرتبہ پوری رات میں نے قرآن پاک کی تلاوت میں گزار دی۔ ہمارے آس پاس کچھ لوگ سوئے ہوئے تھے۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ یہ لوگ ایسے سوئے ہوئے ہیں جیسے مر گئے ہوں، ان میں سے کسی نے کم از کم دو رکعت نماز تک نہیں پڑھی۔
والد صاحب نے فرمایا کہ بیٹا اس غیبت سے بہتر تھا کہ تو بھی سویا رہتا۔
حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ بچپن میں اپنے والد کی تاکید میں ہی میری عظمت کا راز چھپا ہوا ہے۔ بچپن میں بڑوں کی مرمت کو ہم نے برداشت کیا تو اللہ تعالی نے دل کی صفائی عطا فرما دی۔
(ملخصاً: عظمتوں کے پاسبان، ص11)
عبد مصطفی
حضرت شیخ سعدی خود گلستان میں لکھتے ہیں کہ مجھے بچپن میں عبادت کا خوب شوق تھا۔
ایک مرتبہ پوری رات میں نے قرآن پاک کی تلاوت میں گزار دی۔ ہمارے آس پاس کچھ لوگ سوئے ہوئے تھے۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ یہ لوگ ایسے سوئے ہوئے ہیں جیسے مر گئے ہوں، ان میں سے کسی نے کم از کم دو رکعت نماز تک نہیں پڑھی۔
والد صاحب نے فرمایا کہ بیٹا اس غیبت سے بہتر تھا کہ تو بھی سویا رہتا۔
حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ بچپن میں اپنے والد کی تاکید میں ہی میری عظمت کا راز چھپا ہوا ہے۔ بچپن میں بڑوں کی مرمت کو ہم نے برداشت کیا تو اللہ تعالی نے دل کی صفائی عطا فرما دی۔
(ملخصاً: عظمتوں کے پاسبان، ص11)
عبد مصطفی
*خوبصورت اقوال*
*شیر اور شارک دونوں پیشہ ور شکاری ہیں لیکن شیر سمندر میں شکار نہیں کرسکتا اور شارک خشکی پر شکار نہیں کر سکتی۔ شیر کو سمندر میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جا سکتا اور شارک کو جنگل میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جا سکتا۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں جہاں وہ بہترین ہیں۔*
*اگر گلاب کی خوشبو ٹماٹر سے اچھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کھانا تیار کرنے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے*۔
*ایک کا موازنہ دوسرے کے ساتھ نہ کریں*۔
*آپ کی اپنی ایک طاقت ہے اسے تلاش کریں اور اس کے مطابق خود کو تیار کریں*۔
*کہتے ہیں ہر وہ جاندار جو آج دنیا میں موجود ہے حضرت نوح کی کشتی میں موجود تھا جس میں گھونگا بھی شامل ہے*۔
*اگر اللہ ایک گھونگے کا نوحؑ کی کشتی تک پہنچنے کا انتظار کر سکتا ہے تو وہ اللہ آپ مجھ پر بھی اپنے فضل کا دروازہ اُس وقت تک بند نہیں کرے گا جب تک کہ آپ زندگی میں اپنے متوقع مقام تک نہیں پہنچ جاتے*۔
*کبھی خود کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ ہمیشہ خود سے اچھی اُمیدیں وابستہ رکھیں*۔
*یاد رکھیں ٹوٹا ہوا رنگین قلم بھی رنگ بھرنے کے قابل ہوتا ہے*۔
*اپنے اختتام تک پہنچنے سے پہلے خود کو بہتر کاموں کے استعمال میں لے آئیں*۔
*وقت کا بدترین استعمال اسے خود کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے میں ضائع کرنا ہے*۔
*مویشی گھاس کھانے سے موٹے تازے ہو جاتے ہیں جبکہ یہی گھاس اگر درندے کھانے لگ جائیں تو وہ اسکی وجہ سے مر سکتے ہیں*۔
*کبھی بھی اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ نہ کریں اپنی دوڑ اپنی رفتار سے مکمل کریں جو طریقہ کسی اور کی کامیابی کی وجہ بنا۔ ضروری نہیں کہ آپ کیلئے بھی سازگر ہو*۔
*اللہ کے عطاء کردہ تحفوں نعمتوں اور صلاحیتوں پر نظر رکھیں اور اُن تحفوں سے حسد کرنے سے باز رہیں جو اللہ نے دوسروں کو دیے ہیں*۔
*خوش رہیں سلامت رہیں.*
پیش کش: زبیر قادری
*شیر اور شارک دونوں پیشہ ور شکاری ہیں لیکن شیر سمندر میں شکار نہیں کرسکتا اور شارک خشکی پر شکار نہیں کر سکتی۔ شیر کو سمندر میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جا سکتا اور شارک کو جنگل میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جا سکتا۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں جہاں وہ بہترین ہیں۔*
*اگر گلاب کی خوشبو ٹماٹر سے اچھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کھانا تیار کرنے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے*۔
*ایک کا موازنہ دوسرے کے ساتھ نہ کریں*۔
*آپ کی اپنی ایک طاقت ہے اسے تلاش کریں اور اس کے مطابق خود کو تیار کریں*۔
*کہتے ہیں ہر وہ جاندار جو آج دنیا میں موجود ہے حضرت نوح کی کشتی میں موجود تھا جس میں گھونگا بھی شامل ہے*۔
*اگر اللہ ایک گھونگے کا نوحؑ کی کشتی تک پہنچنے کا انتظار کر سکتا ہے تو وہ اللہ آپ مجھ پر بھی اپنے فضل کا دروازہ اُس وقت تک بند نہیں کرے گا جب تک کہ آپ زندگی میں اپنے متوقع مقام تک نہیں پہنچ جاتے*۔
*کبھی خود کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ ہمیشہ خود سے اچھی اُمیدیں وابستہ رکھیں*۔
*یاد رکھیں ٹوٹا ہوا رنگین قلم بھی رنگ بھرنے کے قابل ہوتا ہے*۔
*اپنے اختتام تک پہنچنے سے پہلے خود کو بہتر کاموں کے استعمال میں لے آئیں*۔
*وقت کا بدترین استعمال اسے خود کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے میں ضائع کرنا ہے*۔
*مویشی گھاس کھانے سے موٹے تازے ہو جاتے ہیں جبکہ یہی گھاس اگر درندے کھانے لگ جائیں تو وہ اسکی وجہ سے مر سکتے ہیں*۔
*کبھی بھی اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ نہ کریں اپنی دوڑ اپنی رفتار سے مکمل کریں جو طریقہ کسی اور کی کامیابی کی وجہ بنا۔ ضروری نہیں کہ آپ کیلئے بھی سازگر ہو*۔
*اللہ کے عطاء کردہ تحفوں نعمتوں اور صلاحیتوں پر نظر رکھیں اور اُن تحفوں سے حسد کرنے سے باز رہیں جو اللہ نے دوسروں کو دیے ہیں*۔
*خوش رہیں سلامت رہیں.*
پیش کش: زبیر قادری
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=701043863799468&id=388280455075812
اپنے اِیمان کی حفاظت کرو
تحریر : نثار مصباحی
رکن : روشن مستقبل
اے مسلمان !!
دینِ اسلام کے بنیادی اور ضروری عقیدوں میں سے ہے کہ جو کافر و مشرک مرے وہ عذابِ جہنم کا حق دار ہے. مرنے کے بعد اس کے لیے عذاب ہے, امن و آرام نہیں ہے.
کم سے کم اپنا عقیدہ تو نہ بھولو.
کوئی کافر و مشرک دنیا میں کتنا ہی مقبول اور ہر دل عزیز کیوں نہ ہو, اللہ عزوجل کے یہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں, جب تک وہ اِیمان نہ لائے. اور اگر وہ کفر پر مرا تو وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب میں رہے گا.
یہ دنیا اور جنت و جہنم بنانے والے تمھارے رب کا اٹل فیصلہ ہے. تمھارا رب عزوجل قرآن کریم میں فرماتا ہے :
إِنَّ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ وَمَاتُوا۟ وَهُمۡ كُفَّارٌ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ عَلَیۡهِمۡ لَعۡنَةُ ٱللَّهِ وَٱلۡمَلَـٰۤىِٕكَةِ وَٱلنَّاسِ أَجۡمَعِینَ ¤ خَـٰلِدِینَ فِیهَا لَا یُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ یُنظَرُونَ [سورۃ البقرۃ : 161, 162]
ترجمہ : بےشک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور کافر ہی مَرے, اُن پر اللہ اور فرشتوں اور انسانوں کی, سب کی لعنت ہے. وہ ہمیشہ اُس میں رہیں گے. اُن پر سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور نہ اُنھیں مہلت دی جائے گی.
تمھارا رب عزوجل قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے:
إِنَّ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ وَمَاتُوا۟ وَهُمۡ كُفَّارࣱ فَلَن یُقۡبَلَ مِنۡ أَحَدِهِم مِّلۡءُ ٱلۡأَرۡضِ ذَهَبࣰا وَلَوِ ٱفۡتَدَىٰ بِهِۦۤۗ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ لَهُمۡ عَذَابٌ أَلِیمࣱ وَمَا لَهُم مِّن نَّـٰصِرِینَ
[سورۃ آل عمران : 91]
ترجمہ : بےشک وہ لوگ جو کافر ہوئے اور کافر ہی مرگئے ان میں سے کوئی اگرچہ اپنی جان چھڑانے کے بدلے میں پوری زمین کے برابر سونا بھی دے تو ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا ۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہے. اور ان کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا.
بتوں کی پوجا کرنے والے لوگ شرک کرنے والے کافر ہیں. اور کافر و مشرک کے لیے جنت حرام ہے, اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے.
اللہ عزوجل قرآن میں فرماتا ہے :
إِنَّهُۥ مَن یُشۡرِكۡ بِٱللَّهِ فَقَدۡ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَیۡهِ ٱلۡجَنَّةَ وَمَأۡوَىٰهُ ٱلنَّارُۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِینَ مِنۡ أَنصَارࣲ [سورۃ المائدۃ : 72]
ترجمہ : بےشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں.
اس طرح کی اور بھی کئی آیتیں قرآن کریم میں ہیں.
ان آیتوں کو دیکھو. اِن میں صاف فرما دیا گیا ہے کہ:
جو شرک و کفر کرے اور کافر و مشرک رہتے ہوئے ہی مرے تو:
- اس پر اللہ عزوجل کی, اور فرشتوں اور انسانوں کی, سب کی لعنت ہے.
- اس پر جنت حرام ہے.
- اس کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے.
- (مرنے کے بعد) اس کا کوئی مددگار نہیں.
- اس کے لیے دردناک عذاب ہے.
- اگر وہ اپنے کو عذاب سے بچانے کے لیے زمین بھر مقدار میں سونا بھی دے تو قبول نہیں کیا جائے گا. (حال آں کہ وہاں کچھ وہ دے بھی نہیں سکتا)
- اس کا عذاب کبھی نہ تو ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی اسے کوئی چھوٹ دی جائے گی.
شاید آپ کو یہ اچھی طرح سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ مرنے والے کافر و مشرک کے لیے مرنے کے بعد نہ تو کوئی Rest (آرام) ہے, اور نہ ہی کوئی Peace (امن و چین). اس لیے خدا را اپنے اِیمان کی فکر کرو اور کسی مرنے والے کافر و مشرک کے لیے Rest in Peace (RIP) لکھ کر اپنا اِیمان برباد نہ کرو. چاہے وہ کتنا ہی مقبول و ہر دل عزیز سیاسی لیڈر, یا ایکٹر کیوں نہ ہو.
#نثارمصباحی
21 شوال 1441ھ
14 جون 2020ء
*ہمارے فیس بک پیج Roshan Mustaqbil کو ضرور لائک کریں تاکہ ایسے مضامین آپ تک پہنچتے رہیں.*
اپنے اِیمان کی حفاظت کرو
تحریر : نثار مصباحی
رکن : روشن مستقبل
اے مسلمان !!
دینِ اسلام کے بنیادی اور ضروری عقیدوں میں سے ہے کہ جو کافر و مشرک مرے وہ عذابِ جہنم کا حق دار ہے. مرنے کے بعد اس کے لیے عذاب ہے, امن و آرام نہیں ہے.
کم سے کم اپنا عقیدہ تو نہ بھولو.
کوئی کافر و مشرک دنیا میں کتنا ہی مقبول اور ہر دل عزیز کیوں نہ ہو, اللہ عزوجل کے یہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں, جب تک وہ اِیمان نہ لائے. اور اگر وہ کفر پر مرا تو وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب میں رہے گا.
یہ دنیا اور جنت و جہنم بنانے والے تمھارے رب کا اٹل فیصلہ ہے. تمھارا رب عزوجل قرآن کریم میں فرماتا ہے :
إِنَّ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ وَمَاتُوا۟ وَهُمۡ كُفَّارٌ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ عَلَیۡهِمۡ لَعۡنَةُ ٱللَّهِ وَٱلۡمَلَـٰۤىِٕكَةِ وَٱلنَّاسِ أَجۡمَعِینَ ¤ خَـٰلِدِینَ فِیهَا لَا یُخَفَّفُ عَنۡهُمُ ٱلۡعَذَابُ وَلَا هُمۡ یُنظَرُونَ [سورۃ البقرۃ : 161, 162]
ترجمہ : بےشک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور کافر ہی مَرے, اُن پر اللہ اور فرشتوں اور انسانوں کی, سب کی لعنت ہے. وہ ہمیشہ اُس میں رہیں گے. اُن پر سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور نہ اُنھیں مہلت دی جائے گی.
تمھارا رب عزوجل قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے:
إِنَّ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ وَمَاتُوا۟ وَهُمۡ كُفَّارࣱ فَلَن یُقۡبَلَ مِنۡ أَحَدِهِم مِّلۡءُ ٱلۡأَرۡضِ ذَهَبࣰا وَلَوِ ٱفۡتَدَىٰ بِهِۦۤۗ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ لَهُمۡ عَذَابٌ أَلِیمࣱ وَمَا لَهُم مِّن نَّـٰصِرِینَ
[سورۃ آل عمران : 91]
ترجمہ : بےشک وہ لوگ جو کافر ہوئے اور کافر ہی مرگئے ان میں سے کوئی اگرچہ اپنی جان چھڑانے کے بدلے میں پوری زمین کے برابر سونا بھی دے تو ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا ۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہے. اور ان کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا.
بتوں کی پوجا کرنے والے لوگ شرک کرنے والے کافر ہیں. اور کافر و مشرک کے لیے جنت حرام ہے, اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے.
اللہ عزوجل قرآن میں فرماتا ہے :
إِنَّهُۥ مَن یُشۡرِكۡ بِٱللَّهِ فَقَدۡ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَیۡهِ ٱلۡجَنَّةَ وَمَأۡوَىٰهُ ٱلنَّارُۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِینَ مِنۡ أَنصَارࣲ [سورۃ المائدۃ : 72]
ترجمہ : بےشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں.
اس طرح کی اور بھی کئی آیتیں قرآن کریم میں ہیں.
ان آیتوں کو دیکھو. اِن میں صاف فرما دیا گیا ہے کہ:
جو شرک و کفر کرے اور کافر و مشرک رہتے ہوئے ہی مرے تو:
- اس پر اللہ عزوجل کی, اور فرشتوں اور انسانوں کی, سب کی لعنت ہے.
- اس پر جنت حرام ہے.
- اس کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے.
- (مرنے کے بعد) اس کا کوئی مددگار نہیں.
- اس کے لیے دردناک عذاب ہے.
- اگر وہ اپنے کو عذاب سے بچانے کے لیے زمین بھر مقدار میں سونا بھی دے تو قبول نہیں کیا جائے گا. (حال آں کہ وہاں کچھ وہ دے بھی نہیں سکتا)
- اس کا عذاب کبھی نہ تو ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی اسے کوئی چھوٹ دی جائے گی.
شاید آپ کو یہ اچھی طرح سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ مرنے والے کافر و مشرک کے لیے مرنے کے بعد نہ تو کوئی Rest (آرام) ہے, اور نہ ہی کوئی Peace (امن و چین). اس لیے خدا را اپنے اِیمان کی فکر کرو اور کسی مرنے والے کافر و مشرک کے لیے Rest in Peace (RIP) لکھ کر اپنا اِیمان برباد نہ کرو. چاہے وہ کتنا ہی مقبول و ہر دل عزیز سیاسی لیڈر, یا ایکٹر کیوں نہ ہو.
#نثارمصباحی
21 شوال 1441ھ
14 جون 2020ء
*ہمارے فیس بک پیج Roshan Mustaqbil کو ضرور لائک کریں تاکہ ایسے مضامین آپ تک پہنچتے رہیں.*
Forwarded from ✺ ISLAM In EnGliSH ✺
" Islam In English "
#NewChannel
Islamic Speeches & Much More about Islam in English. Please Join & Share,
Thanks.
https://tttttt.me/IslamicVideosClips
#NewChannel
Islamic Speeches & Much More about Islam in English. Please Join & Share,
Thanks.
https://tttttt.me/IslamicVideosClips
Telegram
✺ ISLAM In EnGliSH ✺
The channel is for those who can read and understand English only.
Islamic Teachings & Much More about Islam.
(Only Admins Posting)
Please Join & Share.
Thanks
Islamic Teachings & Much More about Islam.
(Only Admins Posting)
Please Join & Share.
Thanks
*کامیابی کا راز*
تحریر: *محمد اسمٰعیل بدایونی*
ابرار خان کی نوکری کو ختم ہوئے دو ماہ سے زیادہ ہو چکے تھے ابرار خان کو نوکری جانے کا شدید صدمہ تھا اور کیوں نہ ہوتا اس نے اس کمپنی کو دن رات محنت کرکے دنیا کی بہترین کمپنی بنایا تھا اور آج ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دے کر اسے نوکری سے نکال دیا گیا تھا ۔۔۔
دو ماہ تک توابرار خان کی بیوی علینہ اسے تسلی دیتی رہی حوصلہ بڑھاتی رہی لیکن آج اس کا صبر بھی جواب دے گیا اور اس نے دبے لفظوں کے ساتھ کہا :اگر قارون کا خزانہ بھی ہو تو ایک دن ختم ہو جاتا ہے ،آپ کوئی اور نوکری کیوں نہیں ڈھونڈ لیتے ؟
کہاں ڈھونڈو نوکری جس کمپنی کومیں نے بحیثیت ملازم، زمین سے آسمان پر پہنچایا تھا اب اس کمپنی کو میری ضرورت نہیں رہی اور انہوں نے مجھے نکال کر با ہر کھڑا کر دیا ۔۔۔ابرار خان نے غمزدہ لہجے میں کہا ۔
تو کہیں اور نوکری کر لو ۔۔۔علینہ نے مشورہ دیا تو ابرارخان نے علینہ کی جانب دیکھا اور کہا اس تنخواہ میں اول تو کوئی نوکری دے گا نہیں اور بالفرض مل بھی جائے تو کچھ دنوں کے بعد وہ مجھے نکال دے گا ۔
پھر کیا ہم جمع پونجی کھا کر ختم کر دیں گے پھر کیا کریں گے ؟علینہ نے کہا ۔
بات تو تمہاری بھی درست ہے لیکن ۔۔۔ابرار خان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
لیکن کیا ؟ علینہ ابرار خان کو مزید رعائیت دینے کے لیے تیار نہیں تھی ۔
لیکن میں اب نوکری نہیں کروں گا ۔ ابرارخان نے دو ٹوک لہجے میں کہا ۔
کیا مقصد؟ پھر کیا کریں گے ؟ علینہ کی آنکھیں تعجب اور حیرت سے پھیل گئیں ۔
میں بزنس کروں گا میں اپنے کاروبار کو عروج پہنچاؤں گا تو میری اولاد وہیں سے بزنس شروع کرے گی جہاں سے میں نے چھوڑا ہو گا اور نوکری میں ،میں اپنا خون پسینہ بھی ایک کر دوں گا تب بھی ثمرات میری اولاد کو نہیں مل سکیں گے ۔ابرار خان نے ایک عزم سے کہا ۔
یعنی آپ اب اپنا بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں ؟ علینہ نے ابرار خان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں بالکل ۔۔۔ابرار خان نے علینہ کیجانب دیکھتےہوئے کہا۔
یہ تو بہت اچھا ہو جائے گا میری ایم بی اے کی ڈگری بھی کام آ جائے گی اور میں بھی اس بزنس میں تمہارا ہاتھ بٹاؤں گی ۔علینہ نے کہا
لیکن سرمایہ کہاں سے آ ئے گا؟ابرار خان نے تشویش کے ساتھ کہا ۔
میرا کچھ زیور رکھا ہوا ہے اور کچھ رقم بھی ہے جو مجھے والد صاحب کے انتقال کے بعد مالِ وراثت کےطور پر ملی تھی تو اس میں میرا شئیر بھی شامل ہو جائیں گے اور ایک طریقے سے آپ کی بزنس پارٹنر بھی بن جاؤں گی ۔علینہ نے راہ سجھاتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے میں آج سے ہی اس پر کام شروع کر دیتا ہوں ۔
ابرار خان نے اپنا اور اپنی بیوی علینہ کا سرمایہ لیا اور بزنس کرنا شروع کر دیا ۔
اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں بڑی برکت رکھی ہے چند ہی دنوں میں کاروبار نےد ن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر لی ۔
اب تو ماشا ء اللہ آپ کا کاروبار بہت عروج پر جا رہاہے میں چاہتی ہوں کچھ وقت آفس میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں اور میں نے جو ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی ہے اس کو بھی استعمال میں لاؤں ۔علینہ نے ناشتے کی ٹیبل پر چائے رکھتے ہوئے کہا ۔
ویسے میرا مشورہ ہے کہ گھر کو سنبھالو یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے تمہیں تمہارے حصے کا منافع تو مل ہی جاتا ہے ۔۔۔بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماں کا کردار بہت اہم ہوتاہے ۔ابرار خان نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
آپ بے فکر رہیے میں دونوں جگہ manageکرلوں گی ۔علینہ نے کہا ۔
ابرار خان جانتا تھا کہ علینہ ایک مرتبہ جس بات کی ضد پکڑ لے تو پھر وہ کرکے رہتی ہے بادل نخواستہ اس نے علینہ کو آفس جوائن کرنے کی اجازت دے دی ۔
پہلے ہی دن علینہ نے آفس میں چائے بند کر دی ۔۔۔
کمپنی کے اسٹاف کو یہ بات بری لگی منیجر نے علینہ سے کہا : بھابھی ! اس طرح کمپنی کااسٹاف بد ظن ہو جائے گا اور ہماری کمپنی ابھی چلنا شروع ہوئی ہے نیا اسٹاف ہے ۔
بھابھی کس کو کہا؟ میڈم کہیے ! علینہ نے تلخ اور ترش لہجے میں عامر کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
ابرار خان عامر صاحب کا بڑا لحاظ کرتے تھے جب کہ علینہ کی گفتگو میں تکبر ، فخر اور رعونت موجود تھی ۔
عامر صاحب واپس اپنے کیبن میں آ گئے لیکن ذہنی طور پر وہ بڑی اذیت محسوس کررہے تھے ۔
کچھ ہی دنوں میں علینہ نے آفس کے ماحول کو مکمل تبدیل کر دیا۔۔۔ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کو ڈانٹنا ۔۔۔ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا علینہ کا معمول بن گیا ۔
ابرار خان نے سمجھایا بھی کہ علینہ ملازمین کے ساتھ یہ رویہ درست نہیں جواب میں علینہ نے کہا : ملازمین کو اگر ٹائیٹ کرکے نہ رکھا جائے تو یہ سر پر بیٹھ جاتے ہیں اس لیے ان کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ یہ ہمارے ملازم ہیں ۔
مجھے اس کاانجام اچھا نظر نہیں آرہا ۔۔۔ابرار خان کو اپنا ماضی یاد آگیا جب وہ ایک کمپنی میں ملازم تھا ۔
آخر ایک دن منیجر عامر نے علینہ کے ترش روئیے کی وجہ سے اپنا استعفیٰ ابرار صاحب کو دے دیا ۔علینہ وہیں آفس میں موجود تھی اس نے اسی ترشی سے کہا :ل
تحریر: *محمد اسمٰعیل بدایونی*
ابرار خان کی نوکری کو ختم ہوئے دو ماہ سے زیادہ ہو چکے تھے ابرار خان کو نوکری جانے کا شدید صدمہ تھا اور کیوں نہ ہوتا اس نے اس کمپنی کو دن رات محنت کرکے دنیا کی بہترین کمپنی بنایا تھا اور آج ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دے کر اسے نوکری سے نکال دیا گیا تھا ۔۔۔
دو ماہ تک توابرار خان کی بیوی علینہ اسے تسلی دیتی رہی حوصلہ بڑھاتی رہی لیکن آج اس کا صبر بھی جواب دے گیا اور اس نے دبے لفظوں کے ساتھ کہا :اگر قارون کا خزانہ بھی ہو تو ایک دن ختم ہو جاتا ہے ،آپ کوئی اور نوکری کیوں نہیں ڈھونڈ لیتے ؟
کہاں ڈھونڈو نوکری جس کمپنی کومیں نے بحیثیت ملازم، زمین سے آسمان پر پہنچایا تھا اب اس کمپنی کو میری ضرورت نہیں رہی اور انہوں نے مجھے نکال کر با ہر کھڑا کر دیا ۔۔۔ابرار خان نے غمزدہ لہجے میں کہا ۔
تو کہیں اور نوکری کر لو ۔۔۔علینہ نے مشورہ دیا تو ابرارخان نے علینہ کی جانب دیکھا اور کہا اس تنخواہ میں اول تو کوئی نوکری دے گا نہیں اور بالفرض مل بھی جائے تو کچھ دنوں کے بعد وہ مجھے نکال دے گا ۔
پھر کیا ہم جمع پونجی کھا کر ختم کر دیں گے پھر کیا کریں گے ؟علینہ نے کہا ۔
بات تو تمہاری بھی درست ہے لیکن ۔۔۔ابرار خان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
لیکن کیا ؟ علینہ ابرار خان کو مزید رعائیت دینے کے لیے تیار نہیں تھی ۔
لیکن میں اب نوکری نہیں کروں گا ۔ ابرارخان نے دو ٹوک لہجے میں کہا ۔
کیا مقصد؟ پھر کیا کریں گے ؟ علینہ کی آنکھیں تعجب اور حیرت سے پھیل گئیں ۔
میں بزنس کروں گا میں اپنے کاروبار کو عروج پہنچاؤں گا تو میری اولاد وہیں سے بزنس شروع کرے گی جہاں سے میں نے چھوڑا ہو گا اور نوکری میں ،میں اپنا خون پسینہ بھی ایک کر دوں گا تب بھی ثمرات میری اولاد کو نہیں مل سکیں گے ۔ابرار خان نے ایک عزم سے کہا ۔
یعنی آپ اب اپنا بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں ؟ علینہ نے ابرار خان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں بالکل ۔۔۔ابرار خان نے علینہ کیجانب دیکھتےہوئے کہا۔
یہ تو بہت اچھا ہو جائے گا میری ایم بی اے کی ڈگری بھی کام آ جائے گی اور میں بھی اس بزنس میں تمہارا ہاتھ بٹاؤں گی ۔علینہ نے کہا
لیکن سرمایہ کہاں سے آ ئے گا؟ابرار خان نے تشویش کے ساتھ کہا ۔
میرا کچھ زیور رکھا ہوا ہے اور کچھ رقم بھی ہے جو مجھے والد صاحب کے انتقال کے بعد مالِ وراثت کےطور پر ملی تھی تو اس میں میرا شئیر بھی شامل ہو جائیں گے اور ایک طریقے سے آپ کی بزنس پارٹنر بھی بن جاؤں گی ۔علینہ نے راہ سجھاتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے میں آج سے ہی اس پر کام شروع کر دیتا ہوں ۔
ابرار خان نے اپنا اور اپنی بیوی علینہ کا سرمایہ لیا اور بزنس کرنا شروع کر دیا ۔
اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں بڑی برکت رکھی ہے چند ہی دنوں میں کاروبار نےد ن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر لی ۔
اب تو ماشا ء اللہ آپ کا کاروبار بہت عروج پر جا رہاہے میں چاہتی ہوں کچھ وقت آفس میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں اور میں نے جو ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی ہے اس کو بھی استعمال میں لاؤں ۔علینہ نے ناشتے کی ٹیبل پر چائے رکھتے ہوئے کہا ۔
ویسے میرا مشورہ ہے کہ گھر کو سنبھالو یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے تمہیں تمہارے حصے کا منافع تو مل ہی جاتا ہے ۔۔۔بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماں کا کردار بہت اہم ہوتاہے ۔ابرار خان نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
آپ بے فکر رہیے میں دونوں جگہ manageکرلوں گی ۔علینہ نے کہا ۔
ابرار خان جانتا تھا کہ علینہ ایک مرتبہ جس بات کی ضد پکڑ لے تو پھر وہ کرکے رہتی ہے بادل نخواستہ اس نے علینہ کو آفس جوائن کرنے کی اجازت دے دی ۔
پہلے ہی دن علینہ نے آفس میں چائے بند کر دی ۔۔۔
کمپنی کے اسٹاف کو یہ بات بری لگی منیجر نے علینہ سے کہا : بھابھی ! اس طرح کمپنی کااسٹاف بد ظن ہو جائے گا اور ہماری کمپنی ابھی چلنا شروع ہوئی ہے نیا اسٹاف ہے ۔
بھابھی کس کو کہا؟ میڈم کہیے ! علینہ نے تلخ اور ترش لہجے میں عامر کو ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
ابرار خان عامر صاحب کا بڑا لحاظ کرتے تھے جب کہ علینہ کی گفتگو میں تکبر ، فخر اور رعونت موجود تھی ۔
عامر صاحب واپس اپنے کیبن میں آ گئے لیکن ذہنی طور پر وہ بڑی اذیت محسوس کررہے تھے ۔
کچھ ہی دنوں میں علینہ نے آفس کے ماحول کو مکمل تبدیل کر دیا۔۔۔ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کو ڈانٹنا ۔۔۔ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا علینہ کا معمول بن گیا ۔
ابرار خان نے سمجھایا بھی کہ علینہ ملازمین کے ساتھ یہ رویہ درست نہیں جواب میں علینہ نے کہا : ملازمین کو اگر ٹائیٹ کرکے نہ رکھا جائے تو یہ سر پر بیٹھ جاتے ہیں اس لیے ان کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ یہ ہمارے ملازم ہیں ۔
مجھے اس کاانجام اچھا نظر نہیں آرہا ۔۔۔ابرار خان کو اپنا ماضی یاد آگیا جب وہ ایک کمپنی میں ملازم تھا ۔
آخر ایک دن منیجر عامر نے علینہ کے ترش روئیے کی وجہ سے اپنا استعفیٰ ابرار صاحب کو دے دیا ۔علینہ وہیں آفس میں موجود تھی اس نے اسی ترشی سے کہا :ل
ائیے عامر صاحب اپنا استعفیٰ دیجیے آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کے بغیر کمپنی چل نہیں سکتی کیا ؟
نہیں میڈم ! میرے بغیر بھی کمپنی چل سکتی ہے مگر آپ کے ترش اور تلخ روئیے کے سبب کمپنی بالکل نہیں چل سکتی ۔
علینہ کے لیے تو یہ الفاظ ایٹم بم سے کم نہیں تھے ۔
عامر صاحب آپ ایک مرتبہ پھر اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کر لیجیے ۔۔ابرار خان نے عامر صاحب سے کہا ۔
نہیں سر ! آپ جانتے ہیں نوکری میں اذیت ہی ہے لیکن اس کے ساتھ عزتِ نفس بھی مجروح ہو۔ میں یہ دوہری اذیت برداشت نہیں کر سکتا ۔
ہاں ہاں تو جائیے کون روک رہاہے آپ کو ؟ علینہ نے بد اخلاقی سے کہا ۔
علینہ ! ابرار خان نے تنبیہ کی ۔
ایک ملازم کی وجہ سے آپ مجھے جھڑک رہے ہیں میں اس کمپنی میں برابر کے شئیر کی مالک ہوں ۔علینہ نے ابرار سے کہا ۔
ابھی ان کی گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ کمپنی کے دس بارہ ملازمین تو ہی تھے تمام ملازمین آفس میں آ گئے ۔
ارے تم سب یہاں کیوں آ گئے ؟ کیا کمپنی میں کام ختم ہو گیا ہے ؟علینہ نے باقی ملازمین کو تلخ اور ترش انداز میں ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
ہم سب ریزائن کر نے ہی آ ئے ہیں اور یہ کہہ کر تمام ملازمین نے اپنے استعفے ابرار خان کی ٹیبل پر رکھ دئیے ۔
ارے یہ سب مل کر سازش کررہے تھے ۔۔۔علینہ ابھی بھی سمجھنے کو تیا رنہیں تھی ۔
ابرار خان نے حالات کو بھانپتے ہوئے کہا کل بات کرتے ہیں اس موضوع پر ۔۔۔علینہ بھی غصے میں اٹھ کر گھر چلی گئی ۔
علینہ اور اسٹاف کے جانے کے بعد ابرار خان دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے پریشان تھے کہ اب کیاکریں یہ سار ے ملازمین اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر تھے ان ہیروں کو ابرار خان نے بڑی مشکل سے جمع کیا تھا جو علینہ کی بد زبانی کے سبب استعفیٰ دے کر جا رہے تھے اور یہ ہی لب و لہجہ رہا تو کوئی بھی شخص ا س جگہ کام نہیں کر سکے گا ۔
کیا کروں میں ؟ ابرار خان نے خودکلامی کرتے ہوئے کہا
ابرار خان کو لگ رہاتھا کہ اب کمپنی کو وہ نہیں بچا سکیں گے کہ اسی دوران انہیں جمعے کی اذان کی آواز سُنائی دی اور ابرار خان کے قدم مسجد کی جانب بڑ ھنے لگے ۔
آج جمعہ میں خطاب کرتے ہوئے علامہ صاحب نے یہ آیت تلاوت کی
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنۡتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الْقَلْبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنْ حَوْلِکَ ۪ فَاعْفُ عَنْہُمْ (۱۵۹) آل عمران
تو اے حبیب! اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے توآپ ان کو معاف فرماتے رہو
محترم دوستو!
یہ آیت پورے معاشرتی حسن کو بیان کررہی ہے ۔۔۔معاشرے کو سنوارنےکا کلیہ بتا رہی ہے ۔۔۔
آپ کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو
آپ گھر میں ہوں یا دفتر میں ۔۔۔آپ سیٹھ ہیں یا ملازم ۔۔۔آپ طبیب ہیں یا مریض۔۔۔آپ استادہیں یا شاگرد اگر آپ نرم دل ہیں۔۔۔
ترش مزاج اور سخت دل نہیں ہیں تو لوگ آپ کے پاس سے کہیں نہیں جائیں گے۔
آپ نے در گزر سے کام لینا ہے ۔
ابرار خان کو اس ایک آیت میں اپنے تمام مسائل کا حل مل چکاتھا نماز سے فارغ ہو کر ابرار خان نے گھر کا رخ کیا اور علینہ سے کہا : علینہ ! تم کیا کہتی ہو کیا ہماری کمپنی کے ملازمین کو ہماری بات ماننی چاہیے ؟
ہاں بالکل ! ہر کمپنی کا مالک ایسا ہی چاہتا ہے ۔
اور انہیں اس پر عمل بھی کرنا چاہیے ؟ ابرار خان نے سوال کرتے ہوئے پوچھا ۔
لازمی سی بات ہے ۔علینہ نے حیرت سے اپنے شوہر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
آج میں نے اپنے مالک کاایک پیغام سُنا ، کیا مجھے اس پر عمل کرناچا ہیے ؟
آپ کا مالک ؟آپ کا مالک کون ہے ؟علینہ نے حیرت سے پوچھا
اللہ ۔۔۔اس نے قرآن میں بیان کیا ۔۔۔
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنۡتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الْقَلْبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنْ حَوْلِکَ ۪ فَاعْفُ عَنْہُمْ (۱۵۹) آل عمران
تو اے حبیب! اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے توآپ ان کو معاف فرماتے رہو
علینہ اس پر عمل کریں تو ہم اپنی کمپنی کو بھی بچا لیں اور اسے اپنے عروج پر بھی لے جائیں گے ۔
بے شک قرآن پر عمل کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے ۔علینہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ۔
اگلے دن ابرار خان نے کمپنی کے تمام ملازمین سے اپنی اہلیہ کے ترش روئیے کی معافی مانگی ۔
ملازمین نے اپنے استعفے واپس لے لیے اور پھر ابرار خان کے بہترین روئیے کے سبب کمپنی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی چلی گئی ۔۔۔
آپ بھی ترقی اور کامیابی چاہتے ہیں تو ترش اور تلخ رویوں کو خیر باد کہہ دیجیے ۔
نہیں میڈم ! میرے بغیر بھی کمپنی چل سکتی ہے مگر آپ کے ترش اور تلخ روئیے کے سبب کمپنی بالکل نہیں چل سکتی ۔
علینہ کے لیے تو یہ الفاظ ایٹم بم سے کم نہیں تھے ۔
عامر صاحب آپ ایک مرتبہ پھر اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کر لیجیے ۔۔ابرار خان نے عامر صاحب سے کہا ۔
نہیں سر ! آپ جانتے ہیں نوکری میں اذیت ہی ہے لیکن اس کے ساتھ عزتِ نفس بھی مجروح ہو۔ میں یہ دوہری اذیت برداشت نہیں کر سکتا ۔
ہاں ہاں تو جائیے کون روک رہاہے آپ کو ؟ علینہ نے بد اخلاقی سے کہا ۔
علینہ ! ابرار خان نے تنبیہ کی ۔
ایک ملازم کی وجہ سے آپ مجھے جھڑک رہے ہیں میں اس کمپنی میں برابر کے شئیر کی مالک ہوں ۔علینہ نے ابرار سے کہا ۔
ابھی ان کی گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ کمپنی کے دس بارہ ملازمین تو ہی تھے تمام ملازمین آفس میں آ گئے ۔
ارے تم سب یہاں کیوں آ گئے ؟ کیا کمپنی میں کام ختم ہو گیا ہے ؟علینہ نے باقی ملازمین کو تلخ اور ترش انداز میں ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
ہم سب ریزائن کر نے ہی آ ئے ہیں اور یہ کہہ کر تمام ملازمین نے اپنے استعفے ابرار خان کی ٹیبل پر رکھ دئیے ۔
ارے یہ سب مل کر سازش کررہے تھے ۔۔۔علینہ ابھی بھی سمجھنے کو تیا رنہیں تھی ۔
ابرار خان نے حالات کو بھانپتے ہوئے کہا کل بات کرتے ہیں اس موضوع پر ۔۔۔علینہ بھی غصے میں اٹھ کر گھر چلی گئی ۔
علینہ اور اسٹاف کے جانے کے بعد ابرار خان دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے پریشان تھے کہ اب کیاکریں یہ سار ے ملازمین اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر تھے ان ہیروں کو ابرار خان نے بڑی مشکل سے جمع کیا تھا جو علینہ کی بد زبانی کے سبب استعفیٰ دے کر جا رہے تھے اور یہ ہی لب و لہجہ رہا تو کوئی بھی شخص ا س جگہ کام نہیں کر سکے گا ۔
کیا کروں میں ؟ ابرار خان نے خودکلامی کرتے ہوئے کہا
ابرار خان کو لگ رہاتھا کہ اب کمپنی کو وہ نہیں بچا سکیں گے کہ اسی دوران انہیں جمعے کی اذان کی آواز سُنائی دی اور ابرار خان کے قدم مسجد کی جانب بڑ ھنے لگے ۔
آج جمعہ میں خطاب کرتے ہوئے علامہ صاحب نے یہ آیت تلاوت کی
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنۡتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الْقَلْبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنْ حَوْلِکَ ۪ فَاعْفُ عَنْہُمْ (۱۵۹) آل عمران
تو اے حبیب! اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے توآپ ان کو معاف فرماتے رہو
محترم دوستو!
یہ آیت پورے معاشرتی حسن کو بیان کررہی ہے ۔۔۔معاشرے کو سنوارنےکا کلیہ بتا رہی ہے ۔۔۔
آپ کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو
آپ گھر میں ہوں یا دفتر میں ۔۔۔آپ سیٹھ ہیں یا ملازم ۔۔۔آپ طبیب ہیں یا مریض۔۔۔آپ استادہیں یا شاگرد اگر آپ نرم دل ہیں۔۔۔
ترش مزاج اور سخت دل نہیں ہیں تو لوگ آپ کے پاس سے کہیں نہیں جائیں گے۔
آپ نے در گزر سے کام لینا ہے ۔
ابرار خان کو اس ایک آیت میں اپنے تمام مسائل کا حل مل چکاتھا نماز سے فارغ ہو کر ابرار خان نے گھر کا رخ کیا اور علینہ سے کہا : علینہ ! تم کیا کہتی ہو کیا ہماری کمپنی کے ملازمین کو ہماری بات ماننی چاہیے ؟
ہاں بالکل ! ہر کمپنی کا مالک ایسا ہی چاہتا ہے ۔
اور انہیں اس پر عمل بھی کرنا چاہیے ؟ ابرار خان نے سوال کرتے ہوئے پوچھا ۔
لازمی سی بات ہے ۔علینہ نے حیرت سے اپنے شوہر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
آج میں نے اپنے مالک کاایک پیغام سُنا ، کیا مجھے اس پر عمل کرناچا ہیے ؟
آپ کا مالک ؟آپ کا مالک کون ہے ؟علینہ نے حیرت سے پوچھا
اللہ ۔۔۔اس نے قرآن میں بیان کیا ۔۔۔
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنۡتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الْقَلْبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنْ حَوْلِکَ ۪ فَاعْفُ عَنْہُمْ (۱۵۹) آل عمران
تو اے حبیب! اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے توآپ ان کو معاف فرماتے رہو
علینہ اس پر عمل کریں تو ہم اپنی کمپنی کو بھی بچا لیں اور اسے اپنے عروج پر بھی لے جائیں گے ۔
بے شک قرآن پر عمل کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے ۔علینہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ۔
اگلے دن ابرار خان نے کمپنی کے تمام ملازمین سے اپنی اہلیہ کے ترش روئیے کی معافی مانگی ۔
ملازمین نے اپنے استعفے واپس لے لیے اور پھر ابرار خان کے بہترین روئیے کے سبب کمپنی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی چلی گئی ۔۔۔
آپ بھی ترقی اور کامیابی چاہتے ہیں تو ترش اور تلخ رویوں کو خیر باد کہہ دیجیے ۔
ڈاکٹر محمد عمارہ کہتے ہیں کہ ایک تقریب میں ایک سیکولر صاحب نے مجھ پر طنز کرتے ہوئے کہا:
"آپ کی کتابیں اور آپ کی تحریرں موجودہ زمانے میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ ہمیں پچھلے زمانے کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔"
میں نے ان سے کہا:
پچھلے زمانے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا پچھلے زمانے سے آپ کی مراد آج سے سو سال پہلے کا زمانہ ہے جب سلطان عبد الحمید آدھے کرہءِ ارضی پر حکمران تھے؟ یا جب یورپ کے حکمران عثمانی خلیفہ کی اجازت اور تعیناتی کے بعد حکومت سنبھالتے تھے۔
یا اس سے بھی پہلے جب سلاطین ممالیک نے دنیا کو تاتاریوں اور منگولوں کے حملوں سے نجات دلائی؟
یا اس سے بھی پہلے جب عباسی آدھی دنیا کے حکمران تھے؟
یا اس سے بھی پہلے امویوں کا زمانہ۔۔۔یا سیدنا عمر کا زمانہ جب آپ نے دنیا کے اکثر و بیشتر حصے پر حکمرانی کی؟
کہیں پچھلے زمانے سے تمہاری مراد وہ زمانہ تو نہیں جب ہارون الرشید نے روم کے شہنشاہ نقفور کی طرف ان الفاظ میں خط لکھا:
"امیر المومنین ہارون الرشید کی طرف سے روم کے کتے نقفور کے نام"
یا تمہاری مراد عبد الرحمن داخل کا زمانہ ہے جس نے حبشہ، اٹلی اور فرانس کو اپنے حصار میں لے لیا؟
یہ تو رہی پچھلے زمانے کی سیاسی صورت حآل
کہیں آپ پچھلے زمانے کی علمی صورت حال کی طرف اشارہ تو نہیں کر رہے ہیں؟ جب ابن سینا، الفارابی، ابن جبیر، الخوازمی، ابن رشد، ابن خلدون وغیرہ جیسے علماء اور سائنس دان دنیا کو طب، انجینئرنگ، میڈیسن، فلکیات اور شاعری کی تعلیم دے رہے تھے۔
یا تمہاری مراد پچھلے زمانے کی غیرت و حمیت ہے۔ جب ایک مظلوم عورت نے وا معتصماہ کے لفظوں سے خلیفہء وقت کو پکارا تو معتصم نے اتنا بڑا لشکر بھیجا جس نے تمام یہودیوں کو سلطنت کی حدود سے باہر جا پھینکا۔ جب کہ آج ہماری بیٹیوں کی عصمت و کرامت کا تیا پانچہ کیا جا رہا ہے جب کہ حکمران مزے اور نشے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
یا تمہاری مراد وہ زمانہ ہے جب مسلمانوں نے اسپین میں یورپ کی سرزمین پر پہلی یونیورسٹی بنائی۔
جب عربی لباس اور عباء دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں فضلاء کا لباس ہوتا تھا اور آج تک ایسا ہی ہے۔
یا تمہاری مراد وہ زمانہ ہے جب قاہرہ دنیا کا خؤبصورت ترین شہر تھا۔
یا جب عراقی دینار 483 ڈالروں کا تھا۔
یا جب پسماندہ یورپ سے ہجرت کرنے والے اسکندریہ (مصر) میں آکر پناہ لیتے تھے۔
یا جب امریکا نے مصر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یورپ کو قحط سے بچائے۔
بتائیے تو سہی پچھلے زمانے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آپ کتنا پیچھے جانا چاہتے ہیں؟
پیشکش: زبیر قادری
"آپ کی کتابیں اور آپ کی تحریرں موجودہ زمانے میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ ہمیں پچھلے زمانے کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔"
میں نے ان سے کہا:
پچھلے زمانے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا پچھلے زمانے سے آپ کی مراد آج سے سو سال پہلے کا زمانہ ہے جب سلطان عبد الحمید آدھے کرہءِ ارضی پر حکمران تھے؟ یا جب یورپ کے حکمران عثمانی خلیفہ کی اجازت اور تعیناتی کے بعد حکومت سنبھالتے تھے۔
یا اس سے بھی پہلے جب سلاطین ممالیک نے دنیا کو تاتاریوں اور منگولوں کے حملوں سے نجات دلائی؟
یا اس سے بھی پہلے جب عباسی آدھی دنیا کے حکمران تھے؟
یا اس سے بھی پہلے امویوں کا زمانہ۔۔۔یا سیدنا عمر کا زمانہ جب آپ نے دنیا کے اکثر و بیشتر حصے پر حکمرانی کی؟
کہیں پچھلے زمانے سے تمہاری مراد وہ زمانہ تو نہیں جب ہارون الرشید نے روم کے شہنشاہ نقفور کی طرف ان الفاظ میں خط لکھا:
"امیر المومنین ہارون الرشید کی طرف سے روم کے کتے نقفور کے نام"
یا تمہاری مراد عبد الرحمن داخل کا زمانہ ہے جس نے حبشہ، اٹلی اور فرانس کو اپنے حصار میں لے لیا؟
یہ تو رہی پچھلے زمانے کی سیاسی صورت حآل
کہیں آپ پچھلے زمانے کی علمی صورت حال کی طرف اشارہ تو نہیں کر رہے ہیں؟ جب ابن سینا، الفارابی، ابن جبیر، الخوازمی، ابن رشد، ابن خلدون وغیرہ جیسے علماء اور سائنس دان دنیا کو طب، انجینئرنگ، میڈیسن، فلکیات اور شاعری کی تعلیم دے رہے تھے۔
یا تمہاری مراد پچھلے زمانے کی غیرت و حمیت ہے۔ جب ایک مظلوم عورت نے وا معتصماہ کے لفظوں سے خلیفہء وقت کو پکارا تو معتصم نے اتنا بڑا لشکر بھیجا جس نے تمام یہودیوں کو سلطنت کی حدود سے باہر جا پھینکا۔ جب کہ آج ہماری بیٹیوں کی عصمت و کرامت کا تیا پانچہ کیا جا رہا ہے جب کہ حکمران مزے اور نشے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
یا تمہاری مراد وہ زمانہ ہے جب مسلمانوں نے اسپین میں یورپ کی سرزمین پر پہلی یونیورسٹی بنائی۔
جب عربی لباس اور عباء دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں فضلاء کا لباس ہوتا تھا اور آج تک ایسا ہی ہے۔
یا تمہاری مراد وہ زمانہ ہے جب قاہرہ دنیا کا خؤبصورت ترین شہر تھا۔
یا جب عراقی دینار 483 ڈالروں کا تھا۔
یا جب پسماندہ یورپ سے ہجرت کرنے والے اسکندریہ (مصر) میں آکر پناہ لیتے تھے۔
یا جب امریکا نے مصر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یورپ کو قحط سے بچائے۔
بتائیے تو سہی پچھلے زمانے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آپ کتنا پیچھے جانا چاہتے ہیں؟
پیشکش: زبیر قادری
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=3975359639205143&id=100001934398471
*بڑھتا ہوا الحاد: مسلم دنیا کا سب سے بڑا چیلنج*
تحریر:۔ *خالد ایوب مصباحی شیرانی*
چیرمین: *تحریک علمائے ہند،* جے پور
آج سے ٹھیک ایک ماہ پہلے 4/ جون 2020 کو سہ پہر 3/ بجے *تحریک علمائے ہند* اور *ادارہ قرآن* کے مشترکہ بینر تلے *"مسلم دنیا میں طوفانی رفتار سے بڑھ رہا الحاد: اسباب اور علاج"* کے عنوان پر زوم ایپ کے ذریعے آن لائن ویبنار کیا گیا۔
غیرت مندانہ اسلامی مزاج رکھنے والے اس عنوان ہی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ موضوع کتنا حساس رہا ہوگا۔ فقیر ذاتی طور پر اسے اپنی عملی زندگی کا سب سے زیادہ زیادہ حساس اور اہم ترین موضوع گردانتا ہے۔ موضوع پر گفتگو کرنے والے ریسرچر *ایڈووکیٹ فیض قادری،* اتر پردیش کے *کان پور* کے رہنے والے نو جوان تھے، جنھیں غیر پیشہ ورانہ طور پر اس موضوع سے لگاؤ ہے اور انھوں نے دوران گفتگو اپنے اس غیرت مندانہ لگاؤ اور موضوع کا حق بھی ادا کیا۔ اس مضمون میں درج مواد کا بیشتر حصہ فیض قادری کی اسی گفتگو سے مستفاد و ماخوذ ہے۔ یہ مواد مضمون کی شکل میں اس لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ مذہبی طبقے کو کرنٹ ایشوز پر کام کرنے کی ایک بہت معقول اور ضروری جہت ملے اور کار دعوت جو پچھلی ایک مدت سے ہماری بے اعتنائی کا شکار ہے، حیات نو پائے۔
*الحاد کا مطلب:-* الحاد کو ہندی میں (नास्तिकता) اور انگریزی میں (Atheism) کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر یہ لفظ لامذہبیت، یا دہریت، یا اصول اسلام سے دوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عرفا اگرچہ الحاد کو لامذہبیت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے اگر کسی سابق الاسلام محروم القسمت کو ملحد کہا جاتا ہے تو اسلامی اور اصولی نقطہ نظر سے یہ *ارتداد* کے مترادف ہے کیوں کہ اسلام اور کفر کے درمیان کوئی واسطہ، یا تیسرا درجہ نہیں ہوتا بلکہ اسلام کو نہ ماننا ہی کفر اور بسا اوقات یہی ارتداد ہوا کرتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر سیاسی دنیا میں مذہبی خانہ پری کے ساتھ الحاد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں عموم ہوا کرتا ہے اور یہ لفظ ان تمام لوگوں کے لیے استعمال ہوسکتا ہے جو اسلام سے برگشتہ ہوئے ہوں، یا دنیا کے کسی بھی مذہب کی زنجیروں سے آزاد ہوئے ہوں۔
*الحاد کے اسباب:-* دوسرے مذہبوں کی پابندیوں سے آزاد ہونے والے کیوں کر مذہب بیزار ہو رہے ہیں؟ نہ ہمیں اس سے کوئی سروکار ہے اور نہ زیادہ ہونا چاہیے، البتہ اسلام سے برگشتگی کے عوامل کیا کچھ ہیں؟ اس پر غور کرنا، اس کی روک تھام کی کوشش کرنا اور اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوشی کی فکر کرنا نہ صرف ہمارا دعوتی اور قرآنی فریضہ ہے بلکہ اخلاقی فرض بھی ہے۔
*فیض قادری* کی ریسرچ کے مطابق اس کے کچھ اسباب و عوامل درج ذیل قسم کے ہیں:
*(الف) غلامی کا وجود:-* ملحدین کا موٹا اعتراض ہے کہ اسلام نے اپنی دینی تکمیل اور غیر معمولی اشاعت کے باوجود دنیا میں پہلے سے پائی جا رہی غلامی پر بند نہیں باندھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اس غیر انسانی روش سے راضی ہے۔ یہ اعتراض کچھ نیا نہیں البتہ من جملہ اعتراضوں میں سے ایک ہے۔
چوں کہ اس مضمون میں ہمارا مقصد ملحدوں کے اعتراضات کے جواب دینا نہیں بلکہ مسئلے کی حساسیت سامنے رکھنا ہے، اس لیے جوابات سے بحث کیے بنا آگے بڑھیں گے، امید ہے جنھیں جواب نہیں معلوم وہ غیرت مند اپنے لیے بھی جواب تلاش کریں گے اور دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے بھی جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور یہی ہمارا مدعا ہے۔
*(ب) قرآن غیر منطقی/ غیر سائنسی ہے:-* ملحدین کا ماننا ہے کہ قرآن مجید غیر منطقی اور غیر سائنسی کتاب ہے یعنی اس میں معقولیت نہیں جبکہ ہمارا عہد ہر چیز کو منطقی نظر سے دیکھتا ہے اور ہر سوال کا سائنٹفک جواب طلب کرتا ہے اور ہمیں زندگی جینے کے لیے مذہب سے کہیں زیادہ سائنس کی ضرورت ہے۔ اس لیے جہاں مذہب اور سائنس میں تضاد نظر آتا ہے، ایسے لوگوں کے لیے اول مرحلے میں مذہب پیچھے رہ جا تا ہے اور سائنس امام ہو جاتی ہے۔
*(ج) شکوک کا ازالہ نہ ہونا:-* ماضی قریب میں الحاد کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ ملحدین کے بجا بے جا شکوک و شبہات کا ازالہ نہ کیا جانا رہا ہے کیوں کہ اس عہد میں میڈیا، فلم انڈسٹری، سیاست، حقوق انسانی اور آزادی رائے جیسے سنہرے بہانوں سے مذہب و مذہبیات کے تئیں تشکیک کا ماحول بنایا گیا لیکن مذہبی دنیا کی طرف سے ان تشکیکات کا جتنے اطمینان بخش انداز سے ازالہ ہونا چاہیے تھا، نہ ہو سکا اور بایں وجہ گزرتے وقت کے ساتھ مذہب بیزار نظریات ذہنوں میں اپنی جگہ پختہ کرتے رہے۔
ایک شخص نے حدیث رسول کا ایک اقتباس سنا: عورتیں مردوں کے مقابل جہنم میں زیادہ تعداد میں جائیں گی۔ اس نے اپنے ذہن سے اسے صنف نازک کے خلاف گردانا اوراسلام کو غیر انسانی مذہب سمجھتے ہوئے، اسلام سے پھر گیا۔
ایک شخص نے اپنے ارتداد کی وجہ یہ بیان کی:
*میری خالہ کو طلاق ہوئی اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر سکی،
*بڑھتا ہوا الحاد: مسلم دنیا کا سب سے بڑا چیلنج*
تحریر:۔ *خالد ایوب مصباحی شیرانی*
چیرمین: *تحریک علمائے ہند،* جے پور
آج سے ٹھیک ایک ماہ پہلے 4/ جون 2020 کو سہ پہر 3/ بجے *تحریک علمائے ہند* اور *ادارہ قرآن* کے مشترکہ بینر تلے *"مسلم دنیا میں طوفانی رفتار سے بڑھ رہا الحاد: اسباب اور علاج"* کے عنوان پر زوم ایپ کے ذریعے آن لائن ویبنار کیا گیا۔
غیرت مندانہ اسلامی مزاج رکھنے والے اس عنوان ہی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ موضوع کتنا حساس رہا ہوگا۔ فقیر ذاتی طور پر اسے اپنی عملی زندگی کا سب سے زیادہ زیادہ حساس اور اہم ترین موضوع گردانتا ہے۔ موضوع پر گفتگو کرنے والے ریسرچر *ایڈووکیٹ فیض قادری،* اتر پردیش کے *کان پور* کے رہنے والے نو جوان تھے، جنھیں غیر پیشہ ورانہ طور پر اس موضوع سے لگاؤ ہے اور انھوں نے دوران گفتگو اپنے اس غیرت مندانہ لگاؤ اور موضوع کا حق بھی ادا کیا۔ اس مضمون میں درج مواد کا بیشتر حصہ فیض قادری کی اسی گفتگو سے مستفاد و ماخوذ ہے۔ یہ مواد مضمون کی شکل میں اس لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ مذہبی طبقے کو کرنٹ ایشوز پر کام کرنے کی ایک بہت معقول اور ضروری جہت ملے اور کار دعوت جو پچھلی ایک مدت سے ہماری بے اعتنائی کا شکار ہے، حیات نو پائے۔
*الحاد کا مطلب:-* الحاد کو ہندی میں (नास्तिकता) اور انگریزی میں (Atheism) کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر یہ لفظ لامذہبیت، یا دہریت، یا اصول اسلام سے دوری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عرفا اگرچہ الحاد کو لامذہبیت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے اگر کسی سابق الاسلام محروم القسمت کو ملحد کہا جاتا ہے تو اسلامی اور اصولی نقطہ نظر سے یہ *ارتداد* کے مترادف ہے کیوں کہ اسلام اور کفر کے درمیان کوئی واسطہ، یا تیسرا درجہ نہیں ہوتا بلکہ اسلام کو نہ ماننا ہی کفر اور بسا اوقات یہی ارتداد ہوا کرتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر سیاسی دنیا میں مذہبی خانہ پری کے ساتھ الحاد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں عموم ہوا کرتا ہے اور یہ لفظ ان تمام لوگوں کے لیے استعمال ہوسکتا ہے جو اسلام سے برگشتہ ہوئے ہوں، یا دنیا کے کسی بھی مذہب کی زنجیروں سے آزاد ہوئے ہوں۔
*الحاد کے اسباب:-* دوسرے مذہبوں کی پابندیوں سے آزاد ہونے والے کیوں کر مذہب بیزار ہو رہے ہیں؟ نہ ہمیں اس سے کوئی سروکار ہے اور نہ زیادہ ہونا چاہیے، البتہ اسلام سے برگشتگی کے عوامل کیا کچھ ہیں؟ اس پر غور کرنا، اس کی روک تھام کی کوشش کرنا اور اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوشی کی فکر کرنا نہ صرف ہمارا دعوتی اور قرآنی فریضہ ہے بلکہ اخلاقی فرض بھی ہے۔
*فیض قادری* کی ریسرچ کے مطابق اس کے کچھ اسباب و عوامل درج ذیل قسم کے ہیں:
*(الف) غلامی کا وجود:-* ملحدین کا موٹا اعتراض ہے کہ اسلام نے اپنی دینی تکمیل اور غیر معمولی اشاعت کے باوجود دنیا میں پہلے سے پائی جا رہی غلامی پر بند نہیں باندھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اس غیر انسانی روش سے راضی ہے۔ یہ اعتراض کچھ نیا نہیں البتہ من جملہ اعتراضوں میں سے ایک ہے۔
چوں کہ اس مضمون میں ہمارا مقصد ملحدوں کے اعتراضات کے جواب دینا نہیں بلکہ مسئلے کی حساسیت سامنے رکھنا ہے، اس لیے جوابات سے بحث کیے بنا آگے بڑھیں گے، امید ہے جنھیں جواب نہیں معلوم وہ غیرت مند اپنے لیے بھی جواب تلاش کریں گے اور دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے بھی جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور یہی ہمارا مدعا ہے۔
*(ب) قرآن غیر منطقی/ غیر سائنسی ہے:-* ملحدین کا ماننا ہے کہ قرآن مجید غیر منطقی اور غیر سائنسی کتاب ہے یعنی اس میں معقولیت نہیں جبکہ ہمارا عہد ہر چیز کو منطقی نظر سے دیکھتا ہے اور ہر سوال کا سائنٹفک جواب طلب کرتا ہے اور ہمیں زندگی جینے کے لیے مذہب سے کہیں زیادہ سائنس کی ضرورت ہے۔ اس لیے جہاں مذہب اور سائنس میں تضاد نظر آتا ہے، ایسے لوگوں کے لیے اول مرحلے میں مذہب پیچھے رہ جا تا ہے اور سائنس امام ہو جاتی ہے۔
*(ج) شکوک کا ازالہ نہ ہونا:-* ماضی قریب میں الحاد کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ ملحدین کے بجا بے جا شکوک و شبہات کا ازالہ نہ کیا جانا رہا ہے کیوں کہ اس عہد میں میڈیا، فلم انڈسٹری، سیاست، حقوق انسانی اور آزادی رائے جیسے سنہرے بہانوں سے مذہب و مذہبیات کے تئیں تشکیک کا ماحول بنایا گیا لیکن مذہبی دنیا کی طرف سے ان تشکیکات کا جتنے اطمینان بخش انداز سے ازالہ ہونا چاہیے تھا، نہ ہو سکا اور بایں وجہ گزرتے وقت کے ساتھ مذہب بیزار نظریات ذہنوں میں اپنی جگہ پختہ کرتے رہے۔
ایک شخص نے حدیث رسول کا ایک اقتباس سنا: عورتیں مردوں کے مقابل جہنم میں زیادہ تعداد میں جائیں گی۔ اس نے اپنے ذہن سے اسے صنف نازک کے خلاف گردانا اوراسلام کو غیر انسانی مذہب سمجھتے ہوئے، اسلام سے پھر گیا۔
ایک شخص نے اپنے ارتداد کی وجہ یہ بیان کی:
*میری خالہ کو طلاق ہوئی اور وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر سکی،
مجھے اسلام کا یہ طلاق سسٹم پسند نہ آیا، اس لیے میں نے اسلام ترک کر دیا۔
ایک خاتون نے محض اس لیے اسلام سے منہ پھیر لیا کہ اسے حجاب میں معقولیت نظر نہیں آئی اور اسے کسی نے جدید سائنس کی روشنی میں اس کی معقولیت سمجھائی بھی نہیں۔ *
تبلیغ اسلام میں جتنا زور اسلامی تعلیمات و روایات کی ترسیل پر دیا جاتا ہے، اگر اتنا ہی زور اسلامی تعلیمات کا فلسفہ عام کرنے پر دیا جائے تو شاید آج بھی خاصی تعداد اپنا ایمان بچا سکتی ہے۔
*(د) سوالوں کا جواب نہ ملنا:-* الحاد کے راستے میں ایک بہت معاون طریقہ یہ رہا کہ مذہبی طبقے کی طرف سے اس کے سوالوں کے کبھی تو سرے سے جواب ہی نہیں دیے گئے اور کبھی اس نوعیت کے نہیں دیے گئے، جس نوعیت کے سوال تھے۔ بالخصوص مذہبی تعلیمات پر وارد اعتراضات کے منطقی اور سائنٹفک جوابات نہ ملنا، الحاد کا سب سے بڑا سبب رہا۔
*ایک مولانا سے کسی نے پوچھا: جہاں سورج نہیں ڈوبتا، وہاں روزہ کیسے کھولتے ہیں؟ مولانا نے اخلاقی اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے جواباً کہا: تم شیطان کی اولاد ہو۔ اس بندے نے اسی دن اسلام چھوڑ دیا۔*
*(ھ) اسلام میں تحمل اور انسانیت نہیں:-* ملحدین کا کہنا ہے کہ اسلام میں تحمل، رواداری اور معاشرتی مزاج نہیں۔ مختلف مذہبوں کے ماننے والوں کے ساتھ کس طرح گزر بسر کرنا ہے؟ اسلام اس سلسلے میں قدامت پسند واقع ہوا ہے اور اس کے نظریات قابل عمل نہیں بلکہ تشدد پر مبنی ہیں جیسے ایک شخص نے کسی سے بنا تشریح و تفصیل کے سنا: غیر مسلموں سے محبت آمیز تعلقات نہیں رکھنے چاہیے۔ اسے یہ مسئلہ فرسودہ معلوم ہوا اور اس نے اسلام چھوڑ دیا۔
ایک شخص کے ذہن میں ایک اعتراض نے جگہ بنائی:
*جب میرے غیر مسلم دوست جہنم میں جائیں گے تو میں اکیلا جنت میں جا کر کیا کروں گا،* میں بھی مسلم کیوں رہوں؟ اور اس اعتراض کا معقول جواب نہ پا کر اس نے اسلام سے برگشتگی اختیار کر لی۔
ملحدین کی طرف سے خاندانی اور قدامت پسند مسلمانوں پر ایک بہت بڑا الزام یہ بھی ہے کہ مسلمان قریب کرنے اور سمجھانے کی بجائے تشدد پر یقین رکھتے ہیں ۔ چناں چہ ایک بہت بڑی تعداد محض اس لیے اسلام سے محروم ہو چکی ہے کہ انھوں نے مسلمانوں سے سوال کیا تو مسلمانوں نے انھیں اطمینان بخش انداز میں جواب دینے کی بجائے مارا، یا ان پر سختیاں کیں، یا ان کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک روا رکھا۔
*(و) وہابی اسلام کے تشدد سے بد گمانی:-* الحاد کی بہت بڑی وجہ وہابی نظریات رہے ہیں، جن میں بلا کا تشدد پایا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بنام اسلام الحاد کی چپیٹ میں آنے والوں میں لگ بھگ وہ لوگ شامل رہے ہیں، جو وہابی آئیڈیالوجی کے فولوور تھے۔ چناں چہ عرب جسے اسلام کی جنم بھومی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، *ایک سروے کے مطابق وہاں کا ہر چھٹا انسان الحاد کی زد میں ہے اور ملحدین کا سب سے زیادہ لٹریچر وہیں کھپتا ہے۔*
اسلام پسندوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ماضی قریب میں اسلام پر لکھے گئے لٹریچر کی طرح اسلام کے خلاف لکھے گئے لٹریچر کو غیر معمولی پذیرائی ملی اور ہر جدید پلیٹ فارم پر اسلام مخالف مواد بہ آسانی اور بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔
*(ز) سیاسی و میڈیائی امیج:-* الحاد کی من جملہ وجوہ میں ایک اہم وجہ اسلام کی وہ فرسودہ تصویر بھی ہے جو سیاست اور میڈیا نے دنیا کے سامنے پیش کی اور جس کا کما حقہ دفاع کرنے سے مسلمان قاصر رہے۔
ایک شخص کے ذہن میں مضبوطی سے بات بٹھا دی گئی کہ جتنے دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں، ان کے پیچھے کہیں نہ کہیں کوئی مسلم چہرہ ہے، وہ اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھا اور آج ایکس مسلم ہے۔
قرآن اورجہاد کی غلط اور من مانی تشریحات نے بھی ایک بڑے طبقے کے ایمان کو متزلزل کیا۔ چناں چہ نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والوں میں بھی ایک بڑی تعداد یہ تصور رکھتی ہے: قرآن سے کچھ آیتیں نکال دینی چاہیے۔
*(ح) اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح:-* بارہا لوگ اس لیے بھی الحاد کی ڈگر پر چلے جاتے ہیں کہ ان تک جس انداز میں اسلامی تعلیمات پہنچائی جاتی ہیں، وہ انداز ترسیل یا پیغام دعوت بہت بھونڈا ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے تئیں یہ بھونڈا انداز نہ صرف ان غیر مسلموں کا ہوتا ہے جو اسلام کی تشریح ہی اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں اسلام کی ساکھ متاثر کرنی ہے بلکہ یہ غیر معقول انداز ان اسلامی مبلغین کا بھی ہوتا ہے جو کم علمی کے باوجود اسلامی تعلیمات پر لکچر دیتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے غیر سنجیدہ اسلوب بیان، غیر معقول طرز تعبیر ، متشددانہ نظریات اور غیر نفسیاتی طریق تبلیغ کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ و ترسیل تو کیا کر پاتے ہیں، بارہا انھیں احساس بھی نہیں ہوتا اور ان کی ذاتی کوتاہیوں کی وجہ سے ایک طبقہ اسلام بیزار ہوتا جاتا ہے۔
ایسے اسلامک اسکالرز کے غیر معقول اور غیر نفسیاتی بیانات کی وجہ سے مرتد ہونے کی چند مثالیں دیکھیے:
ایک شخص نے شریعت اسلامیہ کا یہ مسئلہ سنا کہ *گھر میں کتا پالنا نا جائز ہے جبکہ اس شخص کو کتا بہت پیارا تھا، وہ مذہب بیزار ہ
ایک خاتون نے محض اس لیے اسلام سے منہ پھیر لیا کہ اسے حجاب میں معقولیت نظر نہیں آئی اور اسے کسی نے جدید سائنس کی روشنی میں اس کی معقولیت سمجھائی بھی نہیں۔ *
تبلیغ اسلام میں جتنا زور اسلامی تعلیمات و روایات کی ترسیل پر دیا جاتا ہے، اگر اتنا ہی زور اسلامی تعلیمات کا فلسفہ عام کرنے پر دیا جائے تو شاید آج بھی خاصی تعداد اپنا ایمان بچا سکتی ہے۔
*(د) سوالوں کا جواب نہ ملنا:-* الحاد کے راستے میں ایک بہت معاون طریقہ یہ رہا کہ مذہبی طبقے کی طرف سے اس کے سوالوں کے کبھی تو سرے سے جواب ہی نہیں دیے گئے اور کبھی اس نوعیت کے نہیں دیے گئے، جس نوعیت کے سوال تھے۔ بالخصوص مذہبی تعلیمات پر وارد اعتراضات کے منطقی اور سائنٹفک جوابات نہ ملنا، الحاد کا سب سے بڑا سبب رہا۔
*ایک مولانا سے کسی نے پوچھا: جہاں سورج نہیں ڈوبتا، وہاں روزہ کیسے کھولتے ہیں؟ مولانا نے اخلاقی اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے جواباً کہا: تم شیطان کی اولاد ہو۔ اس بندے نے اسی دن اسلام چھوڑ دیا۔*
*(ھ) اسلام میں تحمل اور انسانیت نہیں:-* ملحدین کا کہنا ہے کہ اسلام میں تحمل، رواداری اور معاشرتی مزاج نہیں۔ مختلف مذہبوں کے ماننے والوں کے ساتھ کس طرح گزر بسر کرنا ہے؟ اسلام اس سلسلے میں قدامت پسند واقع ہوا ہے اور اس کے نظریات قابل عمل نہیں بلکہ تشدد پر مبنی ہیں جیسے ایک شخص نے کسی سے بنا تشریح و تفصیل کے سنا: غیر مسلموں سے محبت آمیز تعلقات نہیں رکھنے چاہیے۔ اسے یہ مسئلہ فرسودہ معلوم ہوا اور اس نے اسلام چھوڑ دیا۔
ایک شخص کے ذہن میں ایک اعتراض نے جگہ بنائی:
*جب میرے غیر مسلم دوست جہنم میں جائیں گے تو میں اکیلا جنت میں جا کر کیا کروں گا،* میں بھی مسلم کیوں رہوں؟ اور اس اعتراض کا معقول جواب نہ پا کر اس نے اسلام سے برگشتگی اختیار کر لی۔
ملحدین کی طرف سے خاندانی اور قدامت پسند مسلمانوں پر ایک بہت بڑا الزام یہ بھی ہے کہ مسلمان قریب کرنے اور سمجھانے کی بجائے تشدد پر یقین رکھتے ہیں ۔ چناں چہ ایک بہت بڑی تعداد محض اس لیے اسلام سے محروم ہو چکی ہے کہ انھوں نے مسلمانوں سے سوال کیا تو مسلمانوں نے انھیں اطمینان بخش انداز میں جواب دینے کی بجائے مارا، یا ان پر سختیاں کیں، یا ان کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک روا رکھا۔
*(و) وہابی اسلام کے تشدد سے بد گمانی:-* الحاد کی بہت بڑی وجہ وہابی نظریات رہے ہیں، جن میں بلا کا تشدد پایا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بنام اسلام الحاد کی چپیٹ میں آنے والوں میں لگ بھگ وہ لوگ شامل رہے ہیں، جو وہابی آئیڈیالوجی کے فولوور تھے۔ چناں چہ عرب جسے اسلام کی جنم بھومی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، *ایک سروے کے مطابق وہاں کا ہر چھٹا انسان الحاد کی زد میں ہے اور ملحدین کا سب سے زیادہ لٹریچر وہیں کھپتا ہے۔*
اسلام پسندوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ماضی قریب میں اسلام پر لکھے گئے لٹریچر کی طرح اسلام کے خلاف لکھے گئے لٹریچر کو غیر معمولی پذیرائی ملی اور ہر جدید پلیٹ فارم پر اسلام مخالف مواد بہ آسانی اور بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔
*(ز) سیاسی و میڈیائی امیج:-* الحاد کی من جملہ وجوہ میں ایک اہم وجہ اسلام کی وہ فرسودہ تصویر بھی ہے جو سیاست اور میڈیا نے دنیا کے سامنے پیش کی اور جس کا کما حقہ دفاع کرنے سے مسلمان قاصر رہے۔
ایک شخص کے ذہن میں مضبوطی سے بات بٹھا دی گئی کہ جتنے دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں، ان کے پیچھے کہیں نہ کہیں کوئی مسلم چہرہ ہے، وہ اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھا اور آج ایکس مسلم ہے۔
قرآن اورجہاد کی غلط اور من مانی تشریحات نے بھی ایک بڑے طبقے کے ایمان کو متزلزل کیا۔ چناں چہ نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والوں میں بھی ایک بڑی تعداد یہ تصور رکھتی ہے: قرآن سے کچھ آیتیں نکال دینی چاہیے۔
*(ح) اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح:-* بارہا لوگ اس لیے بھی الحاد کی ڈگر پر چلے جاتے ہیں کہ ان تک جس انداز میں اسلامی تعلیمات پہنچائی جاتی ہیں، وہ انداز ترسیل یا پیغام دعوت بہت بھونڈا ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے تئیں یہ بھونڈا انداز نہ صرف ان غیر مسلموں کا ہوتا ہے جو اسلام کی تشریح ہی اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں اسلام کی ساکھ متاثر کرنی ہے بلکہ یہ غیر معقول انداز ان اسلامی مبلغین کا بھی ہوتا ہے جو کم علمی کے باوجود اسلامی تعلیمات پر لکچر دیتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے غیر سنجیدہ اسلوب بیان، غیر معقول طرز تعبیر ، متشددانہ نظریات اور غیر نفسیاتی طریق تبلیغ کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ و ترسیل تو کیا کر پاتے ہیں، بارہا انھیں احساس بھی نہیں ہوتا اور ان کی ذاتی کوتاہیوں کی وجہ سے ایک طبقہ اسلام بیزار ہوتا جاتا ہے۔
ایسے اسلامک اسکالرز کے غیر معقول اور غیر نفسیاتی بیانات کی وجہ سے مرتد ہونے کی چند مثالیں دیکھیے:
ایک شخص نے شریعت اسلامیہ کا یہ مسئلہ سنا کہ *گھر میں کتا پالنا نا جائز ہے جبکہ اس شخص کو کتا بہت پیارا تھا، وہ مذہب بیزار ہ
و گیا۔*
ایک شخص نے حدیث پاک کا ایک حصہ سنا: مدینہ منورہ میں عرینہ نامی قبیلہ کے کچھ لوگ آئے، انھیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دوا کے طور پر ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا، جس سے انہیں شفا ملی۔ سننے والے کو یہ حدیث گراں گزری اور غیر اخلاقی محسوس ہوئی، اس نے اسلام چھوڑ دیا۔
خیال رہے یہاں قصور ان اسلامی روایات کا نہیں، ان پہنچانے والوں کا ہے، جنھوں نے نخواندہ طبقے تک شریعت کا ایک حصہ تو پہنچایا لیکن وہ کار ترسیل و تبلیغ میں عصر جدید کا پاس نہ رکھ سکے، ان کی معقول توجیہ نہ کر سکے اور اَن کہی نفسیات کا لحاظ نہ کر سکے۔
*(ط) اسلام میں بھی دیگر مذاہب والی کم زوریاں ہیں:۔* پختہ کار ملحدین اسلام پر مسلسل حملہ آور رہتے ہیں اور ان کا ماننا یہ ہے کہ مسلمان اسلام کو جتنا پاکیزہ بنا کر پیش کرتے ہیں، در حقیقت اسلام اتنا شفاف نہیں بلکہ اس کے اندر بھی وہ تمام کم زوریاں ہیں، جو دیگر مذاہب میں بیان کی جاتی ہیں جیسے مسلمان بڑے شد و مد کے ساتھ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام مساوات کا پیغام بر ہے اور یہاں ذات پات کا کوئی تصور نہیں جبکہ یہ جھوٹ ہے اور *یہاں بھی اولاد رسول یعنی سیادت کے نام پر پروہت واد/ کاسٹ سسٹم/ ذات پات کے تمام تصورات موجود ہیں۔* یہی حال ان دیگر دعووں کا ہے، جنھیں لے کر مسلمانوں میں بہت زیادہ زعم پایا جاتا ہے۔
*الحاد کی روک تھام:-*
یہ وہ چند نمایاں اسباب و عوامل اور موٹے موٹے مسائل ہیں جن کا نتیجہ مسلم دنیا الحاد کی شکل میں بھگت رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اور اسی قسم کے ملحدین کے دیگر بیشتر اعتراضات سطحی، جھوٹ پر مبنی، غلط فہمی کا نتیجہ، مذہبی تعصب کی دین اور حقیقی اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ اب یہی چھوٹے چھوٹے عوارض ایمان لے ڈوبنے کے لیے بہت کافی ثابت ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ اس وقت الحاد پوری دنیا میں اسلام کے سامنے سب سے بڑے چیلنج کی شکل میں ہے اور *آج تک کسی بھی فرقے، نظریہ یا مذہب نے اسلام کو اس قدر گزند نہیں پہنچایا ہوگا، جتنا گزشتہ تھوڑے عرصے میں الحاد پہنچا چکا ہے۔*
الحاد کی اس بڑھوتری کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ملحدین ترک مذہب کے علاوہ کسی نئے مذہب کے داعی نہیں ہوتے، اس لیے انھیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ بندہ پہلے جس مذہب سے وابستہ ہے، محض اس سے بد گمان کرنا ہی ان کے لیے کافی ہوتا ہے اور یہ کام آج کے دور میں بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
البتہ اس پوری فتنہ انگیزی کے عہد میں اسلامیان ہند کے لیے من جانب اللہ ایک زریں موقع یہ ہے کہ *بھارت کے ملحد ہنوز سوشل میڈیائی گروپس کے علاوہ کہیں منظم نہیں اور یہاں کی حکومتیں اپنے مذہبی تعصب کی وجہ سے ابھی انھیں دیدہ و دانستہ نظر انداز بھی کر رہی ہیں، اس لیے ان کی واپسی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں* جبکہ دیگر ممالک میں یہ طبقہ منظم بھی ہے اور حکومتوں کا منظور نظر بھی۔
لیکن بھارت میں بھی غیر منظم ہونے کا وہ مطلب ہرگز نہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے تئیں تصور کیا جاتا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پوری خاموشی کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہے اور الگ الگ پلیٹ فارمز پر *ایکس مسلمز* کے نام سے بہت متحرک گروپس چلا رہا ہے۔ یہ غیر منظم رفتار بھی اتنی تیز ہے کہ دیدہ بینا نہ رکھنے والے عام اور رسمی مسلمانوں کے لیے اس کی طوفانی رفتار کا صحیح اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔
اس رفتار اور طرز عمل کا ہلکا سا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور مذہبی تنظیم *"دعوت اسلامی"* سے وابستہ ایک شخص جو کبھی راجستھان کے شہر سیکر میں اس تنظیم کا رضا کارانہ مبلغ ہوا کرتا تھا، ابھی الحاد کے راستے پر ہے۔
امید ہے حساس مزاج اور اسلام کے تئیں درد مند دل رکھنے والوں نے موضوع کی نزاکت محسوس کر لی ہوگی اور دنیا جہان کی ضروری / غیر ضروری مصروفیات و مباحث کے بیچ اس چیلنجنگ موضوع پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ یہ بھی امید وابستہ کی جا سکتی ہے کہ مذہبی تقریریں اور تحریریں پیش کرنے والے جہاں اپنے لیے اجرو ثواب کے متمنی رہتے ہیں، وہیں ذہن کے ایک گوشے میں یہ بھی خیال رکھیں گے : *کہیں ہمارے غیر علمی، غیر معقول، تشدد آمیز، فرسودہ، غیر نفسیاتی، غلط طرز تعبیر، یا برے کردار و عمل کی وجہ سے دنیا ہمارے مذہب سے برگشتہ تو نہیں ہو رہی ہے؟؟؟*
خدا نخواستہ، صد بار نخواستہ اگر کہیں ایسا ہوا، یا خاموشی سے ہو رہا ہے تو اس احکم الحاکمین کی بارگاہ میں جواب دہی کے لیے تیار رہیے جس نے خاتم الانبیا ﷺ کے واسطے سے پوری دنیا کو اکمل مذہب دیا، لیکن اس کی تبلیغ کے دعوے دار ہی کسی کے لیے اس سے برگشتگی کا سبب بن گئے۔
ایک شخص نے حدیث پاک کا ایک حصہ سنا: مدینہ منورہ میں عرینہ نامی قبیلہ کے کچھ لوگ آئے، انھیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دوا کے طور پر ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا، جس سے انہیں شفا ملی۔ سننے والے کو یہ حدیث گراں گزری اور غیر اخلاقی محسوس ہوئی، اس نے اسلام چھوڑ دیا۔
خیال رہے یہاں قصور ان اسلامی روایات کا نہیں، ان پہنچانے والوں کا ہے، جنھوں نے نخواندہ طبقے تک شریعت کا ایک حصہ تو پہنچایا لیکن وہ کار ترسیل و تبلیغ میں عصر جدید کا پاس نہ رکھ سکے، ان کی معقول توجیہ نہ کر سکے اور اَن کہی نفسیات کا لحاظ نہ کر سکے۔
*(ط) اسلام میں بھی دیگر مذاہب والی کم زوریاں ہیں:۔* پختہ کار ملحدین اسلام پر مسلسل حملہ آور رہتے ہیں اور ان کا ماننا یہ ہے کہ مسلمان اسلام کو جتنا پاکیزہ بنا کر پیش کرتے ہیں، در حقیقت اسلام اتنا شفاف نہیں بلکہ اس کے اندر بھی وہ تمام کم زوریاں ہیں، جو دیگر مذاہب میں بیان کی جاتی ہیں جیسے مسلمان بڑے شد و مد کے ساتھ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام مساوات کا پیغام بر ہے اور یہاں ذات پات کا کوئی تصور نہیں جبکہ یہ جھوٹ ہے اور *یہاں بھی اولاد رسول یعنی سیادت کے نام پر پروہت واد/ کاسٹ سسٹم/ ذات پات کے تمام تصورات موجود ہیں۔* یہی حال ان دیگر دعووں کا ہے، جنھیں لے کر مسلمانوں میں بہت زیادہ زعم پایا جاتا ہے۔
*الحاد کی روک تھام:-*
یہ وہ چند نمایاں اسباب و عوامل اور موٹے موٹے مسائل ہیں جن کا نتیجہ مسلم دنیا الحاد کی شکل میں بھگت رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اور اسی قسم کے ملحدین کے دیگر بیشتر اعتراضات سطحی، جھوٹ پر مبنی، غلط فہمی کا نتیجہ، مذہبی تعصب کی دین اور حقیقی اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ اب یہی چھوٹے چھوٹے عوارض ایمان لے ڈوبنے کے لیے بہت کافی ثابت ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ اس وقت الحاد پوری دنیا میں اسلام کے سامنے سب سے بڑے چیلنج کی شکل میں ہے اور *آج تک کسی بھی فرقے، نظریہ یا مذہب نے اسلام کو اس قدر گزند نہیں پہنچایا ہوگا، جتنا گزشتہ تھوڑے عرصے میں الحاد پہنچا چکا ہے۔*
الحاد کی اس بڑھوتری کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ملحدین ترک مذہب کے علاوہ کسی نئے مذہب کے داعی نہیں ہوتے، اس لیے انھیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ بندہ پہلے جس مذہب سے وابستہ ہے، محض اس سے بد گمان کرنا ہی ان کے لیے کافی ہوتا ہے اور یہ کام آج کے دور میں بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
البتہ اس پوری فتنہ انگیزی کے عہد میں اسلامیان ہند کے لیے من جانب اللہ ایک زریں موقع یہ ہے کہ *بھارت کے ملحد ہنوز سوشل میڈیائی گروپس کے علاوہ کہیں منظم نہیں اور یہاں کی حکومتیں اپنے مذہبی تعصب کی وجہ سے ابھی انھیں دیدہ و دانستہ نظر انداز بھی کر رہی ہیں، اس لیے ان کی واپسی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں* جبکہ دیگر ممالک میں یہ طبقہ منظم بھی ہے اور حکومتوں کا منظور نظر بھی۔
لیکن بھارت میں بھی غیر منظم ہونے کا وہ مطلب ہرگز نہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے تئیں تصور کیا جاتا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پوری خاموشی کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہے اور الگ الگ پلیٹ فارمز پر *ایکس مسلمز* کے نام سے بہت متحرک گروپس چلا رہا ہے۔ یہ غیر منظم رفتار بھی اتنی تیز ہے کہ دیدہ بینا نہ رکھنے والے عام اور رسمی مسلمانوں کے لیے اس کی طوفانی رفتار کا صحیح اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔
اس رفتار اور طرز عمل کا ہلکا سا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور مذہبی تنظیم *"دعوت اسلامی"* سے وابستہ ایک شخص جو کبھی راجستھان کے شہر سیکر میں اس تنظیم کا رضا کارانہ مبلغ ہوا کرتا تھا، ابھی الحاد کے راستے پر ہے۔
امید ہے حساس مزاج اور اسلام کے تئیں درد مند دل رکھنے والوں نے موضوع کی نزاکت محسوس کر لی ہوگی اور دنیا جہان کی ضروری / غیر ضروری مصروفیات و مباحث کے بیچ اس چیلنجنگ موضوع پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ یہ بھی امید وابستہ کی جا سکتی ہے کہ مذہبی تقریریں اور تحریریں پیش کرنے والے جہاں اپنے لیے اجرو ثواب کے متمنی رہتے ہیں، وہیں ذہن کے ایک گوشے میں یہ بھی خیال رکھیں گے : *کہیں ہمارے غیر علمی، غیر معقول، تشدد آمیز، فرسودہ، غیر نفسیاتی، غلط طرز تعبیر، یا برے کردار و عمل کی وجہ سے دنیا ہمارے مذہب سے برگشتہ تو نہیں ہو رہی ہے؟؟؟*
خدا نخواستہ، صد بار نخواستہ اگر کہیں ایسا ہوا، یا خاموشی سے ہو رہا ہے تو اس احکم الحاکمین کی بارگاہ میں جواب دہی کے لیے تیار رہیے جس نے خاتم الانبیا ﷺ کے واسطے سے پوری دنیا کو اکمل مذہب دیا، لیکن اس کی تبلیغ کے دعوے دار ہی کسی کے لیے اس سے برگشتگی کا سبب بن گئے۔