ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک شاہراہ بنوائی اور اِس کے افتتاح کے لئے ایک ریس کا اعلان کیا اور کہا کہ" اس ریس میں تمام شہری حصہ لیں اور اِس کے اختتام پر شاہراہ کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار بھی کریں اور جس کا نقطۂ نظر بادشاہ کو پسند آئے گا اُسے انعام سے نوازا جائے گا...
سب نے بڑے جوش و خروش سے ریس میں حصہ لیا...
شاہراہ کے دوسرے سِرے پر بادشاہ ریس کے شرکاء کے تاثرات پُوچھتا رہا...
کسی نے شاہراہ کی تھوڑی، کسی نے زیادہ تعریف کی، مگر سب نے بتایا کہ " *شاہراہ پر ایک جگہ بجری پڑی ہے*
اگر اُسے اُٹھوا دیا جائے تو راہ چلنے اور دوڑنے والوں کے لیے بہت اچھا ہوگا...
شام تک سب لوگ چلے گئے تو بادشاہ اُٹھ کر جانے لگا...
ایک سپاہی نے خبر دی کہ " ریس میں حصہ لینے والوں میں سے ایک آدمی جو شاہراہ میں صبح سویرے داخل ہوا تھا ابھی آنا باقی ہے۔"
کچھ دیر بعد ایک درمیانی عمر کا شخص دھُول میں لت پت تھکا ہارا ہاتھ میں ایک تھیلی پکڑے پہنچا اور ہانپتے ہوئے بادشاہ سے مخاطب ہوا :
جناب عالی !
میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو انتظار کرنا پڑا...
دراصل راستے میں کچھ بجری پڑی تھی، میں نے سوچا اِس کی وجہ سے گزرنے والے لوگوں کو تکلیف ہوگی، لہٰذا اُسے ہٹانے میں کافی وقت لگ گیا...
لیکن حضور !
بجری کے نیچے سے یہ تھیلی ملی ہے، اس میں شاید کچھ سکے ہیں...
ہو سکتا ہے سڑک بنانے والے مزدوروں میں سے کسی کے ہوں گے، اُسے دے دیجئے گا...
وہ شخص اپنی بات ختم کر کے چلنے لگا تو بادشاہ نے کہا " بوڑھے میاں ! یہ تھیلی اب آپ کی ہے...
کیونکہ یہ میں نے ہی وہاں رکھوائی تھی اور یہ تمہارا انعام ہے... !
پھر بادشاہ دوسرے حاضرین کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے بولا : بہترین شخص وہ ہوتا ہے، جو گلے شکوئے کرنے کی بجائے اپنے عمل سے کچھ کر کے دکھائے....
اگر دیکھا جائے تو ہم سب بھی مجموعی طور پر راستے کی اِس "بجری" پر تو نالاں رہتے ہیں جو ہمارے راستے میں حائل ہے مگر اس کو ہٹانے کی کوشش نہیں کرتے...
ہم میں سے ہر کوئی گفتار کا غازی تو بن جاتا ہے،
مگر کوئی بھی کردار کا غازی بننے کو تیار نہیں ہے...
الله کرے اب ہم لوگ بھی صرف باتیں بنانے کے بجائے اردگردموجودچھوٹی موٹی "بجریاں" بھی ہٹانا شروع کر دیں...
ایساکرنےپر مجھےیقین ہے کہ ایک دِن ہم اُس حقیقی بادشاہ کی بارگاہ سے دنیا و آخرت میں انعام ضرور پائیں گے...!!
*ان شاء اللہ*
یاد رکھیں بے لوث خدمت خلق اللہ تک پہنچنے کا شارٹ کٹ ہے
T.me/HamariUrduPiyariUrdu
سب نے بڑے جوش و خروش سے ریس میں حصہ لیا...
شاہراہ کے دوسرے سِرے پر بادشاہ ریس کے شرکاء کے تاثرات پُوچھتا رہا...
کسی نے شاہراہ کی تھوڑی، کسی نے زیادہ تعریف کی، مگر سب نے بتایا کہ " *شاہراہ پر ایک جگہ بجری پڑی ہے*
اگر اُسے اُٹھوا دیا جائے تو راہ چلنے اور دوڑنے والوں کے لیے بہت اچھا ہوگا...
شام تک سب لوگ چلے گئے تو بادشاہ اُٹھ کر جانے لگا...
ایک سپاہی نے خبر دی کہ " ریس میں حصہ لینے والوں میں سے ایک آدمی جو شاہراہ میں صبح سویرے داخل ہوا تھا ابھی آنا باقی ہے۔"
کچھ دیر بعد ایک درمیانی عمر کا شخص دھُول میں لت پت تھکا ہارا ہاتھ میں ایک تھیلی پکڑے پہنچا اور ہانپتے ہوئے بادشاہ سے مخاطب ہوا :
جناب عالی !
میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو انتظار کرنا پڑا...
دراصل راستے میں کچھ بجری پڑی تھی، میں نے سوچا اِس کی وجہ سے گزرنے والے لوگوں کو تکلیف ہوگی، لہٰذا اُسے ہٹانے میں کافی وقت لگ گیا...
لیکن حضور !
بجری کے نیچے سے یہ تھیلی ملی ہے، اس میں شاید کچھ سکے ہیں...
ہو سکتا ہے سڑک بنانے والے مزدوروں میں سے کسی کے ہوں گے، اُسے دے دیجئے گا...
وہ شخص اپنی بات ختم کر کے چلنے لگا تو بادشاہ نے کہا " بوڑھے میاں ! یہ تھیلی اب آپ کی ہے...
کیونکہ یہ میں نے ہی وہاں رکھوائی تھی اور یہ تمہارا انعام ہے... !
پھر بادشاہ دوسرے حاضرین کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے بولا : بہترین شخص وہ ہوتا ہے، جو گلے شکوئے کرنے کی بجائے اپنے عمل سے کچھ کر کے دکھائے....
اگر دیکھا جائے تو ہم سب بھی مجموعی طور پر راستے کی اِس "بجری" پر تو نالاں رہتے ہیں جو ہمارے راستے میں حائل ہے مگر اس کو ہٹانے کی کوشش نہیں کرتے...
ہم میں سے ہر کوئی گفتار کا غازی تو بن جاتا ہے،
مگر کوئی بھی کردار کا غازی بننے کو تیار نہیں ہے...
الله کرے اب ہم لوگ بھی صرف باتیں بنانے کے بجائے اردگردموجودچھوٹی موٹی "بجریاں" بھی ہٹانا شروع کر دیں...
ایساکرنےپر مجھےیقین ہے کہ ایک دِن ہم اُس حقیقی بادشاہ کی بارگاہ سے دنیا و آخرت میں انعام ضرور پائیں گے...!!
*ان شاء اللہ*
یاد رکھیں بے لوث خدمت خلق اللہ تک پہنچنے کا شارٹ کٹ ہے
T.me/HamariUrduPiyariUrdu
” ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک شاہراہ بنوائی...“
T.me/HamariUrduPiyariUrdu
T.me/HamariUrduPiyariUrdu
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
راہِ خدا میں جہاد کرنے اور تکالیف برداشت کرنے کے فضائل:
مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ لَا یُصِیْبُهُمْ ظَمَاٌ وَّ لَا نَصَبٌ وَّ لَا مَخْمَصَةٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَطَـٴُـوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْكُفَّارَ وَ لَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَۙ(۱۲۰)
ترجمہ
اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں کے لئے مناسب نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں ۔ یہ اس لئے ہے کہ اللہ کے راستے میں انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک پہنچتی ہے اور جہاں کفار کو غصہ دلانے والی جگہ پرقدم رکھتے ہیں اور جو کچھ دشمن سے حاصل کرتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ۔بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کوضائع نہیں فرماتا۔
تفسیر
*{مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ:اہلِ مدینہ کیلئے مناسب نہیں تھا ۔}* یہاں اہلِ مدینہ سے مدینہ طیبہ میں سکونت رکھنے والے مراد ہیں خواہ وہ مہاجرین ہوں یا اَنصار اور اَعراب سے قرب و جوار کے تمام دیہاتی مراد ہیں۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بذاتِ خود جہاد کے لئے تشریف لے جائیں تو اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں میں کسی کے لئے جائز نہ تھا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پیچھے بیٹھے رہیں اور جہاد میں حاضر نہ ہوں اور نہ یہ جائز تھا کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں بلکہ انہیں حکم تھا کہ شدت و تکلیف میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ساتھ نہ چھوڑیں اور سختی کے موقع پر اپنی جانیں آپ پر فدا کریں۔ یہ مُمانَعت اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک پہنچتی ہے اور جہاں کفار کو غصہ دلانے والی جگہ پرقدم رکھتے ہیں اور کفار کی زمین کو اپنے گھوڑوں کے سموں سے روندتے ہیں اور جو کچھ دشمن کوقید کرکے یا قتل کر کے یا زخمی کرکے یا ہزیمت دے کر حاصل کرتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ۔(صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۳ / ۸۴۷-۸۴۸، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۲۹۳-۲۹۴، ملتقطاً)
*{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ:بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کوضائع نہیں فرماتا۔}* یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کے اجر ضائع نہیں فرماتا جنہوں نے اچھے عمل کئے ، جس چیز کااللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا اور جس چیز سے منع کیا اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کی جزا انہیں عطا فرماتا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس شخص نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کا قصد کیا تو اس مقصد کیلئے اس کا اُٹھنا بیٹھنا ،چلنا، حرکت کرنا سب نیکیاں ہیں ، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہاں لکھی جاتی ہیں اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کا ارادہ کیا تو اس کااس مقصد کیلئے اُٹھنا بیٹھنا ،چلنا، حرکت کرنا سب گناہ ہیں ، ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو اپنے فضل وکرم سے سب معاف فرما دے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۲۹۴)
*راہِ خدا میں جہاد کرنے اور تکالیف برداشت کرنے کے فضائل:*
اس آیت میں راہِ خدا میں نکل کر جہاد کرنے اور راہِ خدا میں تکالیف برداشت کرنے کاذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں راہِ خدا میں جہاد کیلئے نکلنے اور اِس راہ میں تکالیف برداشت کرنے کے فضائل پر مشتمل 5 اَحادیث ذکر کی جاتی ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی راہ میں نکلنے والوں کو ضمانت دیتاہے کہ جس بندے کو صرف میری راہ میں جذبۂ جہاد ،ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق نے گھر سے نکالا ہے تو اب وہ میری کفا لت میں ہے میں اسے جنت میں داخل کروں یا اسے ثواب اور غنیمت عطافرمانے کے بعد اسے واپس اس کے گھر تک پہنچاؤں۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))
(2)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، ’’راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں زخمی ہونے والا قیامت کے دن آئے گا تو اس کے زخموں سے سرخ خون بہہ رہا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔(بخاری، کتاب الذبائح والصید والتسمیۃ علی الصید، ۳ / ۵۶۶، الحدیث: ۵۵۳۳)
(
راہِ خدا میں جہاد کرنے اور تکالیف برداشت کرنے کے فضائل:
مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ لَا یُصِیْبُهُمْ ظَمَاٌ وَّ لَا نَصَبٌ وَّ لَا مَخْمَصَةٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَطَـٴُـوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْكُفَّارَ وَ لَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَۙ(۱۲۰)
ترجمہ
اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں کے لئے مناسب نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں ۔ یہ اس لئے ہے کہ اللہ کے راستے میں انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک پہنچتی ہے اور جہاں کفار کو غصہ دلانے والی جگہ پرقدم رکھتے ہیں اور جو کچھ دشمن سے حاصل کرتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ۔بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کوضائع نہیں فرماتا۔
تفسیر
*{مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ:اہلِ مدینہ کیلئے مناسب نہیں تھا ۔}* یہاں اہلِ مدینہ سے مدینہ طیبہ میں سکونت رکھنے والے مراد ہیں خواہ وہ مہاجرین ہوں یا اَنصار اور اَعراب سے قرب و جوار کے تمام دیہاتی مراد ہیں۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بذاتِ خود جہاد کے لئے تشریف لے جائیں تو اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں میں کسی کے لئے جائز نہ تھا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پیچھے بیٹھے رہیں اور جہاد میں حاضر نہ ہوں اور نہ یہ جائز تھا کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں بلکہ انہیں حکم تھا کہ شدت و تکلیف میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ساتھ نہ چھوڑیں اور سختی کے موقع پر اپنی جانیں آپ پر فدا کریں۔ یہ مُمانَعت اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک پہنچتی ہے اور جہاں کفار کو غصہ دلانے والی جگہ پرقدم رکھتے ہیں اور کفار کی زمین کو اپنے گھوڑوں کے سموں سے روندتے ہیں اور جو کچھ دشمن کوقید کرکے یا قتل کر کے یا زخمی کرکے یا ہزیمت دے کر حاصل کرتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ۔(صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۳ / ۸۴۷-۸۴۸، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۲۹۳-۲۹۴، ملتقطاً)
*{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ:بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کوضائع نہیں فرماتا۔}* یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کے اجر ضائع نہیں فرماتا جنہوں نے اچھے عمل کئے ، جس چیز کااللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا اور جس چیز سے منع کیا اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کی جزا انہیں عطا فرماتا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس شخص نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کا قصد کیا تو اس مقصد کیلئے اس کا اُٹھنا بیٹھنا ،چلنا، حرکت کرنا سب نیکیاں ہیں ، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہاں لکھی جاتی ہیں اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کا ارادہ کیا تو اس کااس مقصد کیلئے اُٹھنا بیٹھنا ،چلنا، حرکت کرنا سب گناہ ہیں ، ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو اپنے فضل وکرم سے سب معاف فرما دے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۲۹۴)
*راہِ خدا میں جہاد کرنے اور تکالیف برداشت کرنے کے فضائل:*
اس آیت میں راہِ خدا میں نکل کر جہاد کرنے اور راہِ خدا میں تکالیف برداشت کرنے کاذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں راہِ خدا میں جہاد کیلئے نکلنے اور اِس راہ میں تکالیف برداشت کرنے کے فضائل پر مشتمل 5 اَحادیث ذکر کی جاتی ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی راہ میں نکلنے والوں کو ضمانت دیتاہے کہ جس بندے کو صرف میری راہ میں جذبۂ جہاد ،ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق نے گھر سے نکالا ہے تو اب وہ میری کفا لت میں ہے میں اسے جنت میں داخل کروں یا اسے ثواب اور غنیمت عطافرمانے کے بعد اسے واپس اس کے گھر تک پہنچاؤں۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))
(2)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، ’’راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں زخمی ہونے والا قیامت کے دن آئے گا تو اس کے زخموں سے سرخ خون بہہ رہا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔(بخاری، کتاب الذبائح والصید والتسمیۃ علی الصید، ۳ / ۵۶۶، الحدیث: ۵۵۳۳)
(
3)…حضرت ابودَرْدَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، ’’ جسے راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں ایک زخم لگے گا اس پر شہداء کی مہر لگادی جائے گی جو قیامت کے دن اس کے لئے نور ہوگی، اس کا رنگ زعفران کی طرح اور خوشبو مشک کی طرح ہوگی، اسے اس مہر کی وجہ سے اَوّلین وآخرین پہچان لیں گے اور کہیں گے فلاں پر شہیدوں کی مہر لگی ہوئی ہے ۔ (مسند احمد، من مسند القبائل، ومن حدیث ابی الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ،۱۰ / ۴۲۰، الحدیث: ۲۷۵۷۳)
(4)… حضرت عبدالرحمٰن بن جَبْررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس بندے کے پاؤں راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں گرد آلود ہوئے انہیں جہنم کی آگ نہ چھوئے گی ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من اغبرّت قدماہ فی سبیل اللہ، ۲ / ۲۵۷، الحدیث: ۲۸۱۱)
(5)…اور ایک روایت میں ہے ’’ جو پاؤں راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں گرد آلود ہوجائیں وہ جہنم کی آگ پر حرام ہیں۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل من اغتبرّت قدماہ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۵، الحدیث: ۱۶۳۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور اپنی راہ میں آنے والی تکالیف برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق نصیب فرمائے،اٰمین۔
*طالبِ دعاابوعمر*
(4)… حضرت عبدالرحمٰن بن جَبْررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس بندے کے پاؤں راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں گرد آلود ہوئے انہیں جہنم کی آگ نہ چھوئے گی ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من اغبرّت قدماہ فی سبیل اللہ، ۲ / ۲۵۷، الحدیث: ۲۸۱۱)
(5)…اور ایک روایت میں ہے ’’ جو پاؤں راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں گرد آلود ہوجائیں وہ جہنم کی آگ پر حرام ہیں۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل من اغتبرّت قدماہ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۵، الحدیث: ۱۶۳۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور اپنی راہ میں آنے والی تکالیف برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق نصیب فرمائے،اٰمین۔
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷
جو پاؤں راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں گرد آلود ہوجائیں وہ جہنم کی آگ پر حرام ہیں۔
(ترمذی،، الحدیث: ۱۶۳۸)
جو پاؤں راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں گرد آلود ہوجائیں وہ جہنم کی آگ پر حرام ہیں۔
(ترمذی،، الحدیث: ۱۶۳۸)
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وبارک وسلم 💚
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وبارک وسلم 💚
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
راہِ خدا میں جہاد کرنے اور مال خرچ کرنے کے فضائل:
وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً وَّ لَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۱)
ترجمہ
اور جو کچھ تھوڑا اور زیادہ وہ خرچ کرتے ہیں اور جو وادی وہ طے کرتے ہیں سب ان کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کے بہتر کاموں کا انہیں بدلہ عطا فرمائے۔
تفسیر
*{وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً:اور جو کچھ تھوڑا اور زیادہ وہ خرچ کرتے ہیں۔}* آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ تھوڑا مثلاً ایک کھجور یا زیادہ وہ خرچ کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غزوۂ تبوک میں خرچ کیا اور اپنے سفر میں آنے اور جانے کے دوران جو وادی وہ طے کرتے ہیں تو ان کا راہِ خدا میں خرچ کرنا اور وادیاں عبور کرنا سب ان کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے کاموں کا انہیں بدلہ عطا فرمائے۔ اس آیت سے جہاد کی فضیلت اور اس کابہترین عمل ہونا ثابت ہوا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۲ / ۲۹۴، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ص۴۵۹، ملتقطاً)
*راہِ خدا میں جہاد کرنے اور مال خرچ کرنے کے فضائل*
جہاد میں مال خرچ کرنے اور جہاد میں شریک ہونے کے فضائل بکثرت اَحادیث میں مذکور ہیں ، ان میں سے 5 اَحادیث یہاں بیان کی جاتی ہیں۔
(1)…حضرت خریم بن فاتک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں کچھ خرچ کرے تو اس کیلئے سات سو گنا لکھا جاتا ہے۔(ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل النفقۃ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۳، الحدیث: ۱۶۳۱)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں صبح کو جانا یا شام کو جانا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۱، الحدیث: ۲۷۹۲)
(3)… حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہیں : (1 ) وہ شخص جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے حتّٰی کہ اسے موت آجائے تو جنت میں داخل فرمادے یا اَجر اور غنیمت کا مال لے کر واپس کرے۔ (2 ) وہ شخص جو مسجد کی طرف چلے وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ دار ی میں ہے۔ (3) وہ شخص جو ا پنے گھر میں سلام کر کے داخل ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے۔(ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فضل الغزو فی البحر، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۲۴۹۴)
(4)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس کی سی ہے جو دن کا روزہ داراور رات کو آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرنے والا ہو، نہ روزے سے تھکے نہ نماز سے ، حتّٰی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ کا مجاہد لوٹ آئے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالٰی، ص۱۰۴۴، الحدیث: ۱۱۰( ۱۸۷۸))
(5)… حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں گھر سے نکلا پھر قتل کیا گیا یااسے اس کے گھوڑے یا اونٹ نے کچل دیا یا اسے زہریلے جانور نے ڈس لیا یا اپنے بستر پر کسی سبب سے مر گیا جیسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے چاہا تو وہ شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فیمن مات غازیاً، ۳ / ۱۴، الحدیث: ۲۴۹۹)
*طالبِ دعا ابوعمر*
راہِ خدا میں جہاد کرنے اور مال خرچ کرنے کے فضائل:
وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً وَّ لَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۱)
ترجمہ
اور جو کچھ تھوڑا اور زیادہ وہ خرچ کرتے ہیں اور جو وادی وہ طے کرتے ہیں سب ان کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کے بہتر کاموں کا انہیں بدلہ عطا فرمائے۔
تفسیر
*{وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً:اور جو کچھ تھوڑا اور زیادہ وہ خرچ کرتے ہیں۔}* آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ تھوڑا مثلاً ایک کھجور یا زیادہ وہ خرچ کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غزوۂ تبوک میں خرچ کیا اور اپنے سفر میں آنے اور جانے کے دوران جو وادی وہ طے کرتے ہیں تو ان کا راہِ خدا میں خرچ کرنا اور وادیاں عبور کرنا سب ان کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے کاموں کا انہیں بدلہ عطا فرمائے۔ اس آیت سے جہاد کی فضیلت اور اس کابہترین عمل ہونا ثابت ہوا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۲ / ۲۹۴، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ص۴۵۹، ملتقطاً)
*راہِ خدا میں جہاد کرنے اور مال خرچ کرنے کے فضائل*
جہاد میں مال خرچ کرنے اور جہاد میں شریک ہونے کے فضائل بکثرت اَحادیث میں مذکور ہیں ، ان میں سے 5 اَحادیث یہاں بیان کی جاتی ہیں۔
(1)…حضرت خریم بن فاتک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں کچھ خرچ کرے تو اس کیلئے سات سو گنا لکھا جاتا ہے۔(ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل النفقۃ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۳، الحدیث: ۱۶۳۱)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں صبح کو جانا یا شام کو جانا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۱، الحدیث: ۲۷۹۲)
(3)… حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہیں : (1 ) وہ شخص جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے حتّٰی کہ اسے موت آجائے تو جنت میں داخل فرمادے یا اَجر اور غنیمت کا مال لے کر واپس کرے۔ (2 ) وہ شخص جو مسجد کی طرف چلے وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ دار ی میں ہے۔ (3) وہ شخص جو ا پنے گھر میں سلام کر کے داخل ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے۔(ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فضل الغزو فی البحر، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۲۴۹۴)
(4)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس کی سی ہے جو دن کا روزہ داراور رات کو آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرنے والا ہو، نہ روزے سے تھکے نہ نماز سے ، حتّٰی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ کا مجاہد لوٹ آئے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالٰی، ص۱۰۴۴، الحدیث: ۱۱۰( ۱۸۷۸))
(5)… حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں گھر سے نکلا پھر قتل کیا گیا یااسے اس کے گھوڑے یا اونٹ نے کچل دیا یا اسے زہریلے جانور نے ڈس لیا یا اپنے بستر پر کسی سبب سے مر گیا جیسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے چاہا تو وہ شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فیمن مات غازیاً، ۳ / ۱۴، الحدیث: ۲۴۹۹)
*طالبِ دعا ابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
جب جمعرات کا دن آتا ہے، اللہ عزوجل فرشتوں کو بھیجتا ہے، جن کے پاس چاندی کے کاغذ اور سونے کے قلم ہوتے ہیں، وہ لکھتے ہیں، کون یومِ جمعرات اور شبِ جمعہ مجھ پر کثرت سے درودِ پاک پڑھتا ہے.
( فردوس الاخبار حدیث 688 )
جب جمعرات کا دن آتا ہے، اللہ عزوجل فرشتوں کو بھیجتا ہے، جن کے پاس چاندی کے کاغذ اور سونے کے قلم ہوتے ہیں، وہ لکھتے ہیں، کون یومِ جمعرات اور شبِ جمعہ مجھ پر کثرت سے درودِ پاک پڑھتا ہے.
( فردوس الاخبار حدیث 688 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
آیت’’وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠(۱۲۲)
ترجمہ
اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکل جائیں تو ان میں ہر گروہ میں سے ایک جماعت کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اورجب اِن کی طرف واپس آئیں تووہ اِنہیں ڈرائیں تاکہ یہ ڈر جائیں ۔
تفسیر
{وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا۔} یعنی علم حاصل کرنے کے لئے سب مسلمانوں کا اپنے وطن سے نکل جانا درست نہیں کہ اس طرح شدید حَرج ہوگا توجب سارے نہیں جاسکتے تو ہر بڑی جماعت سے ایک چھوٹی جماعت جس کا نکلنا انہیں کافی ہو کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کریں اورا س کے حصول میں مشقتیں جھیلیں اور اس سے ان کا مقصود واپس آ کر اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کرنا ہو تاکہ ان کی قوم کے لوگ اس چیز سے بچیں جس سے بچنا انہیں ضروری ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ص۴۵۹)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ قبائلِ عرب میں سے ہر ہر قبیلہ سے جماعتیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں اور وہ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دین کے مسائل سیکھتے اور فقاہت حاصل کرتے اور اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے احکام دریافت کرتے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرماں برداری کا حکم دیتے اور نماز زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم کے لئے انہیں اُن کی قوم پر مامور فرماتے۔ جب وہ لوگ اپنی قوم میں پہنچتے تو اعلان کردیتے کہ جو اسلام لائے وہ ہم میں سے ہے اور لوگوں کو خدا عَزَّوَجَلَّ کا خوف دلاتے اور دین کی مخالفت سے ڈراتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۲۹۵)یہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزۂ عظیمہ ہے کہ بالکل بے پڑھے لوگوں کو بہت تھوڑے عرصے میں دین کے اَحکام کا عالم اور قوم کا ہادی بنادیا ۔
*آیت’’وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:*
*اس آیت سے 3مسائل معلوم ہوئے:*
(1)… علمِ دین حاصل کرنا فرض ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو چیزیں بندے پر فرض و واجب ہیں اور جو اس کے لئے ممنوع و حرام ہیں اور اسے درپیش ہیں ان کا سیکھنا فرضِ عین ہے اور اس سے زائدعلم حاصل کرنا فرضِ کفایہ۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا: ’’ علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔( ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فضل العلماء والحثّ علی طلب العلم، ۱ / ۱۴۶، الحدیث: ۲۲۴)
امام شافعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ علم سیکھنا نفل نماز سے افضل ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۲۹۷)
(2)… علم حاصل کرنے کے لئے سفر کی ضرورت پڑے تو سفر کیا جائے۔ طلبِ علم کے لئے سفر کا حکم حدیث شریف میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا’’ جو شخص طلبِ علم کے لئے را ہ چلے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لئے جنت کی راہ آسان کرتا ہے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، ۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۲۶۵۵)
(3)…فقہ افضل ترین علوم میں سے ہے ۔حدیث شریف میں ہے، حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے لئے بہتری چاہتا ہے اس کو دین میں فقیہ بناتا ہے۔ میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ دینے والا ہے۔(بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرًا یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب النہی عن المسألۃ، ص۵۱۷، الحدیث: ۱۰۰(۱۰۳۷))
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴ / ۳۱۱، الحدیث: ۲۶۹۰)
فقہ اَحکامِ دین کے علم کو کہتے ہیں اور اِصطلاحی فقہ بھی اس کا عظیم مِصداق ہے۔
*طالبِ دعاابوعمر*
آیت’’وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠(۱۲۲)
ترجمہ
اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکل جائیں تو ان میں ہر گروہ میں سے ایک جماعت کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اورجب اِن کی طرف واپس آئیں تووہ اِنہیں ڈرائیں تاکہ یہ ڈر جائیں ۔
تفسیر
{وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا۔} یعنی علم حاصل کرنے کے لئے سب مسلمانوں کا اپنے وطن سے نکل جانا درست نہیں کہ اس طرح شدید حَرج ہوگا توجب سارے نہیں جاسکتے تو ہر بڑی جماعت سے ایک چھوٹی جماعت جس کا نکلنا انہیں کافی ہو کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کریں اورا س کے حصول میں مشقتیں جھیلیں اور اس سے ان کا مقصود واپس آ کر اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کرنا ہو تاکہ ان کی قوم کے لوگ اس چیز سے بچیں جس سے بچنا انہیں ضروری ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ص۴۵۹)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ قبائلِ عرب میں سے ہر ہر قبیلہ سے جماعتیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں اور وہ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دین کے مسائل سیکھتے اور فقاہت حاصل کرتے اور اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے احکام دریافت کرتے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرماں برداری کا حکم دیتے اور نماز زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم کے لئے انہیں اُن کی قوم پر مامور فرماتے۔ جب وہ لوگ اپنی قوم میں پہنچتے تو اعلان کردیتے کہ جو اسلام لائے وہ ہم میں سے ہے اور لوگوں کو خدا عَزَّوَجَلَّ کا خوف دلاتے اور دین کی مخالفت سے ڈراتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۲۹۵)یہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزۂ عظیمہ ہے کہ بالکل بے پڑھے لوگوں کو بہت تھوڑے عرصے میں دین کے اَحکام کا عالم اور قوم کا ہادی بنادیا ۔
*آیت’’وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:*
*اس آیت سے 3مسائل معلوم ہوئے:*
(1)… علمِ دین حاصل کرنا فرض ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو چیزیں بندے پر فرض و واجب ہیں اور جو اس کے لئے ممنوع و حرام ہیں اور اسے درپیش ہیں ان کا سیکھنا فرضِ عین ہے اور اس سے زائدعلم حاصل کرنا فرضِ کفایہ۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا: ’’ علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔( ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فضل العلماء والحثّ علی طلب العلم، ۱ / ۱۴۶، الحدیث: ۲۲۴)
امام شافعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ علم سیکھنا نفل نماز سے افضل ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۲۹۷)
(2)… علم حاصل کرنے کے لئے سفر کی ضرورت پڑے تو سفر کیا جائے۔ طلبِ علم کے لئے سفر کا حکم حدیث شریف میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا’’ جو شخص طلبِ علم کے لئے را ہ چلے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لئے جنت کی راہ آسان کرتا ہے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، ۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۲۶۵۵)
(3)…فقہ افضل ترین علوم میں سے ہے ۔حدیث شریف میں ہے، حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے لئے بہتری چاہتا ہے اس کو دین میں فقیہ بناتا ہے۔ میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ دینے والا ہے۔(بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرًا یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب النہی عن المسألۃ، ص۵۱۷، الحدیث: ۱۰۰(۱۰۳۷))
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴ / ۳۱۱، الحدیث: ۲۶۹۰)
فقہ اَحکامِ دین کے علم کو کہتے ہیں اور اِصطلاحی فقہ بھی اس کا عظیم مِصداق ہے۔
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷
جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے
(جمع الجوامع للسیوطی جلد 4حدیث۔11108)
جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے
(جمع الجوامع للسیوطی جلد 4حدیث۔11108)
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
کفار سے جنگ کرنے کے آداب
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۱۲۳)
ترجمہ
اے ایما ن والو! ان کافروں سے جہاد کرو جو تمہارے قریب ہیں اور وہ تم میں سختی پائیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
تفسیرصراط الجنان
*{قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ:ان کافروں سے جہاد کرو جو تمہارے قریب ہیں۔}* جہاد تمام کافروں سے واجب ہے قریب کے ہوں یا دُور کے لیکن قریب والے مُقَدَّم ہیں پھر جواُن سے مُتّصل ہوں ایسے ہی درجہ بدرجہ ۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۴۶۰)
*کفار سے جنگ کرنے کے آداب*
اس آیت میں کفار سے جنگ کے آداب سکھائے گئے ہیں کہ جنگ کی شرعی اجازت جب متحقق ہوجائے تو اس کی ابتدا قریب میں رہنے والے کفار سے کی جائے پھر ان کے بعد جو قریب ہوں حتّٰی کہ مسلمان مجاہدین دور کی آبادیوں میں رہنے والے کفار تک پہنچ جائیں۔ اسی طریقے سے تمام کفار سے جہاد ممکن ہے ورنہ ایک ہی بار سب سے جنگ کرنا مُتَصَوَّر نہیں ،یہی وجہ ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہلے اپنی قوم سے جہاد فرمایا ،پھر پورے عرب سے ، پھر اہلِ کتاب سے اور ان کے بعد روم اور شام والوں سے جنگ کی۔ پھر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عراق اور پھر تمام شہروں تک جنگ کا دائرہ وسیع کیا۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۳ / ۸۴۹)
*{وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً:اور وہ تم میں سختی پائیں۔}* اس سختی میں جرأت و بہادری، قتال پر صبر اور قتل یا قید کرنے میں شدت وغیرہ ہر قسم کی مضبوطی و سختی داخل ہے۔ (روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۶ / ۶۸) جو کفار اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں ان سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا حکم ہے ، یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہر وقت سختی ہی کرتے رہیں کیونکہ ہمیں تو دورانِ جہاد بھی عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور پادریوں وغیرہ کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
*{وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ:اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔}* اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کا جہاد اور کفار کو قتل کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کی وجہ سے ہو نہ کہ مال و دولت یا منصب ومرتبے کے حصول کی غرض سے ہو۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۶ / ۱۷۴)
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًاۚ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۱۲۴)
ترجمہ
اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو ان (منافقین) میں سے کوئی کہنے لگتا ہے کہ اس سورت نے تم میں کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟ تو جو ایمان والے ہیں ان کے ایمان میں تو اس نے اضافہ کیا اور وہ خوشیاں منارہے ہیں ۔
تفسیر
*{وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ:اور جب کوئی سورت اترتی ہے۔}* یعنی جب قرآنِ پاک کی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو منافقین آپس میں مذاق اڑانے کے طور پرکہتے ہیں ’’ اس سورت نے تم میں کس کے ایمان یعنی تصدیق ا ور یقین میں اضافہ کیا ہے؟ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو ایمان والے ہیں ان کی تصدیق، یقین اور اللہ تعالیٰ سے قربت میں اس نے اضافہ کیا اور جب قرآن میں سے ایک کے بعد کوئی دوسری چیز اترتی ہے تو مومنین خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے آخرت میں ان کا ثواب اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۲ / ۲۹۷)
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا مذاق اڑانا منافقین کا کام ہے لہٰذا جو قرآن کی ایک آیت کا بھی مذاق اڑائے وہ کافر ہے
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۱۲۵)
ترجمہ
اور جن کے دلوں میں مرض ہے تو ان کی ناپاکی پر مزید ناپاکی کا اضافہ کردیا اوروہ کفر کی حالت میں مرگئے۔
تفسیر
*{وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ:اور جن کے دلوں میں مرض ہے۔}* یعنی جن کے دلوں میں شک اور نفاق کا مرض ہے تو قرآن کی سورت کے نزول سے ان کے کفر پر مزید کفر چڑھ گیا کہ انہوں نے جب کبھی کسی سورت کے نزول کا انکار کیا یا اس کا مذاق اڑایا تو ان کے پہلے کفر کے ساتھ مزید کفر بڑھ گیا ، وہ منافقین اپنے کفر پر قائم رہے یہاں تک کہ حالتِ کفر میں مر گئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۲۹۸، بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۳ / ۱۸۱، ملتقطاً)
*طالبِ دعاابوعمر*
کفار سے جنگ کرنے کے آداب
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۱۲۳)
ترجمہ
اے ایما ن والو! ان کافروں سے جہاد کرو جو تمہارے قریب ہیں اور وہ تم میں سختی پائیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
تفسیرصراط الجنان
*{قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ:ان کافروں سے جہاد کرو جو تمہارے قریب ہیں۔}* جہاد تمام کافروں سے واجب ہے قریب کے ہوں یا دُور کے لیکن قریب والے مُقَدَّم ہیں پھر جواُن سے مُتّصل ہوں ایسے ہی درجہ بدرجہ ۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ص۴۶۰)
*کفار سے جنگ کرنے کے آداب*
اس آیت میں کفار سے جنگ کے آداب سکھائے گئے ہیں کہ جنگ کی شرعی اجازت جب متحقق ہوجائے تو اس کی ابتدا قریب میں رہنے والے کفار سے کی جائے پھر ان کے بعد جو قریب ہوں حتّٰی کہ مسلمان مجاہدین دور کی آبادیوں میں رہنے والے کفار تک پہنچ جائیں۔ اسی طریقے سے تمام کفار سے جہاد ممکن ہے ورنہ ایک ہی بار سب سے جنگ کرنا مُتَصَوَّر نہیں ،یہی وجہ ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہلے اپنی قوم سے جہاد فرمایا ،پھر پورے عرب سے ، پھر اہلِ کتاب سے اور ان کے بعد روم اور شام والوں سے جنگ کی۔ پھر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عراق اور پھر تمام شہروں تک جنگ کا دائرہ وسیع کیا۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۳ / ۸۴۹)
*{وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً:اور وہ تم میں سختی پائیں۔}* اس سختی میں جرأت و بہادری، قتال پر صبر اور قتل یا قید کرنے میں شدت وغیرہ ہر قسم کی مضبوطی و سختی داخل ہے۔ (روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۶ / ۶۸) جو کفار اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں ان سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا حکم ہے ، یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہر وقت سختی ہی کرتے رہیں کیونکہ ہمیں تو دورانِ جہاد بھی عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور پادریوں وغیرہ کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
*{وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ:اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔}* اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کا جہاد اور کفار کو قتل کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کی وجہ سے ہو نہ کہ مال و دولت یا منصب ومرتبے کے حصول کی غرض سے ہو۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۶ / ۱۷۴)
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًاۚ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۱۲۴)
ترجمہ
اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو ان (منافقین) میں سے کوئی کہنے لگتا ہے کہ اس سورت نے تم میں کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟ تو جو ایمان والے ہیں ان کے ایمان میں تو اس نے اضافہ کیا اور وہ خوشیاں منارہے ہیں ۔
تفسیر
*{وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ:اور جب کوئی سورت اترتی ہے۔}* یعنی جب قرآنِ پاک کی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو منافقین آپس میں مذاق اڑانے کے طور پرکہتے ہیں ’’ اس سورت نے تم میں کس کے ایمان یعنی تصدیق ا ور یقین میں اضافہ کیا ہے؟ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو ایمان والے ہیں ان کی تصدیق، یقین اور اللہ تعالیٰ سے قربت میں اس نے اضافہ کیا اور جب قرآن میں سے ایک کے بعد کوئی دوسری چیز اترتی ہے تو مومنین خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے آخرت میں ان کا ثواب اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۲ / ۲۹۷)
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا مذاق اڑانا منافقین کا کام ہے لہٰذا جو قرآن کی ایک آیت کا بھی مذاق اڑائے وہ کافر ہے
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۱۲۵)
ترجمہ
اور جن کے دلوں میں مرض ہے تو ان کی ناپاکی پر مزید ناپاکی کا اضافہ کردیا اوروہ کفر کی حالت میں مرگئے۔
تفسیر
*{وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ:اور جن کے دلوں میں مرض ہے۔}* یعنی جن کے دلوں میں شک اور نفاق کا مرض ہے تو قرآن کی سورت کے نزول سے ان کے کفر پر مزید کفر چڑھ گیا کہ انہوں نے جب کبھی کسی سورت کے نزول کا انکار کیا یا اس کا مذاق اڑایا تو ان کے پہلے کفر کے ساتھ مزید کفر بڑھ گیا ، وہ منافقین اپنے کفر پر قائم رہے یہاں تک کہ حالتِ کفر میں مر گئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۲۹۸، بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۳ / ۱۸۱، ملتقطاً)
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جو اللہ پاک کی رضا کے لئے سورہ یس پڑھے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے لہذا تم اسے مرنے والوں کے پاس پڑھا کرو
( شعب الایمان الحدیث:2458 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جو اللہ پاک کی رضا کے لئے سورہ یس پڑھے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے لہذا تم اسے مرنے والوں کے پاس پڑھا کرو
( شعب الایمان الحدیث:2458 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
مومن ہر مصیبت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے:
اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(۱۲۶)
ترجمہ
کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمایا جاتا ہے پھر (بھی)نہ وہ توبہ کرتے ہیں اورنہ ہی نصیحت مانتے ہیں ۔
تفسیر
{اَوَ لَا یَرَوْنَ:کیا وہ یہ نہیں دیکھتے۔} ارشاد فرمایا کہ کیا منافقین دیکھتے نہیں کہ ہر سال انہیں ایک یا دو مرتبہ بیماریوں ، مصیبتوں اور قحط سالیوں وغیرہ سے آزمایا جاتا ہے پھر بھی وہ اپنے نفاق اور عہد شکنی سے توبہ کرتے ہیں نہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی سچائی دیکھ کر نصیحت مانتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ۲ / ۲۹۸)
*مومن ہر مصیبت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے:*
اس سے معلوم ہوا کہ مومن ہر مصیبت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے اپنے گناہ کا نتیجہ یا آزمائش سمجھتا ہے جبکہ کافر کی نگاہ صرف موسم کی خرابیوں اور دنیاوی اَسباب پر ہوتی ہے اور یہ منافقین والا حال آج کی بہت بڑی تعداد کا ہے کہ سیلاب، زلزلہ اور اس طرح کی کسی بھی آفت و مصیبت کو عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ سائنسی تَوجیہات میں تولنا شروع کردیتے ہیں۔
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍؕ-هَلْ یَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْاؕ-صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ(۱۲۷)
ترجمہ
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ تمہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر پلٹ جاتے ہیں تواللہ نے ان کے دل پلٹ دیئے ہیں کیونکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ۔
تفسیر
{وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ:اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی ایسی سورت نازل کی جاتی ہے کہ جس میں منافقین کو زَجر وتَوبیخ اور ان کے نفاق کا بیان ہو تو وہ وہاں سے بھاگنے کیلئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور آنکھوں سے نکل بھاگنے کے اشارے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تم اپنی نشست گاہ سے اٹھو تو اس وقت مومنوں میں سے کوئی تمہیں دیکھ تو نہیں رہا ،اگر دیکھ رہا ہو تو بیٹھ گئے ورنہ نکل جاتے ہیں۔ پھر اس نازل ہونے والی سورت کے سبب ایمان سے اپنے کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے دل ایمان سے پلٹ دیئے ہیں کیونکہ یہ قوم سمجھتی ہی نہیں اور اپنے نفع و نقصان کو نہیں سوچتی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۲۹۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ص۴۶۰، ملتقطاً
*طالبِ دعاابوعمر*
مومن ہر مصیبت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے:
اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(۱۲۶)
ترجمہ
کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمایا جاتا ہے پھر (بھی)نہ وہ توبہ کرتے ہیں اورنہ ہی نصیحت مانتے ہیں ۔
تفسیر
{اَوَ لَا یَرَوْنَ:کیا وہ یہ نہیں دیکھتے۔} ارشاد فرمایا کہ کیا منافقین دیکھتے نہیں کہ ہر سال انہیں ایک یا دو مرتبہ بیماریوں ، مصیبتوں اور قحط سالیوں وغیرہ سے آزمایا جاتا ہے پھر بھی وہ اپنے نفاق اور عہد شکنی سے توبہ کرتے ہیں نہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی سچائی دیکھ کر نصیحت مانتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ۲ / ۲۹۸)
*مومن ہر مصیبت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے:*
اس سے معلوم ہوا کہ مومن ہر مصیبت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے اپنے گناہ کا نتیجہ یا آزمائش سمجھتا ہے جبکہ کافر کی نگاہ صرف موسم کی خرابیوں اور دنیاوی اَسباب پر ہوتی ہے اور یہ منافقین والا حال آج کی بہت بڑی تعداد کا ہے کہ سیلاب، زلزلہ اور اس طرح کی کسی بھی آفت و مصیبت کو عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ سائنسی تَوجیہات میں تولنا شروع کردیتے ہیں۔
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍؕ-هَلْ یَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْاؕ-صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ(۱۲۷)
ترجمہ
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ تمہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر پلٹ جاتے ہیں تواللہ نے ان کے دل پلٹ دیئے ہیں کیونکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ۔
تفسیر
{وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ:اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی ایسی سورت نازل کی جاتی ہے کہ جس میں منافقین کو زَجر وتَوبیخ اور ان کے نفاق کا بیان ہو تو وہ وہاں سے بھاگنے کیلئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور آنکھوں سے نکل بھاگنے کے اشارے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تم اپنی نشست گاہ سے اٹھو تو اس وقت مومنوں میں سے کوئی تمہیں دیکھ تو نہیں رہا ،اگر دیکھ رہا ہو تو بیٹھ گئے ورنہ نکل جاتے ہیں۔ پھر اس نازل ہونے والی سورت کے سبب ایمان سے اپنے کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے دل ایمان سے پلٹ دیئے ہیں کیونکہ یہ قوم سمجھتی ہی نہیں اور اپنے نفع و نقصان کو نہیں سوچتی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۲۹۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ص۴۶۰، ملتقطاً
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
عمامہ کے ساتھ نماز دس ہزار (10،000) نیکیوں کے برابر ہے.
( مسند الفردوس حدیث 3805 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
عمامہ کے ساتھ نماز دس ہزار (10،000) نیکیوں کے برابر ہے.
( مسند الفردوس حدیث 3805 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
میلادِ مصطفٰی کا بیان:
امت کے دکھ درد سے خبردار:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)
ترجمہ
:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
تفسیر
*{لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے۔}* یعنی اے اہلِ عرب! بیشک تمہارے پاس تم میں سے عظیم رسول، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے جو کہ عربی، قرشی ہیں۔ جن کے حسب ونسب کو تم خوب پہچانتے ہو کہ تم میں سب سے عالی نسب ہیں اور تم اُن کے صدق و امانت، زہد و تقویٰ، طہارت وتَقَدُّس اور اَخلا قِ حمیدہ کو بھی خوب جانتے ہو۔ یہاں ایک قراء ۃ میں اَنْفُسِكُمْ‘‘فا پر زبر کے ساتھ آیا ہے، اس کا معنی ہے کہ تم میں سب سے نفیس تر اور اشرف و افضل ہیں ‘‘(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۲ / ۲۹۸)
*حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فضل و شرف:*
اس آیت میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف اور فضیلت و شرف کا ذکر ہوا، اس مناسبت سے ہم یہاں آپ کے فضائل اور اَخلاقِ حمیدہ کے بیان پر مشتمل دو روایات ذکر کرتے ہیں۔
(1)…حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان میں سے بہترین رکھا، پھر ان کے دو گروہ بنائے تو مجھے اچھے گروہ میں رکھا۔ پھر قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلے میں رکھا۔ پھر ان کے خاندان بنائے تو مجھے ان میں سے اچھے خاندان میں رکھا اور سب سے اچھی شخصیت بنایا۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۰، الحدیث: ۳۶۲۷)
(2)…حضرت جعفر بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نجاشی کے دربار میں فرمایا ’’اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے، بتوں کی عبادت کرتے ، مردار کھاتے، بے حیائی کے کام کرتے ، رشتے داریاں توڑتے اور پڑوسیوں سے بد سلوکی کیا کرتے تھے اور ہم میں سے جو طاقتور ہوتا وہ کمزور کا مال کھا جا یا کرتا تھا۔ ہمارا یہی حال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ایک رسول ہماری طرف بھیج دیا جن کے نسب،صداقت، امانت اور پاک دامنی کو ہم پہچانتے تھے، انہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ایک مانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں اور ہم اور ہمارے آباء و اَجداد جن پتھروں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے، امانت داری اور پاکیزگی اختیار کرنے، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنے، پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے، حرام کام اور خون ریزیاں چھوڑ دینے کا حکم دیا، ہمیں بے حیائی کے کام کرنے ، جھوٹ بولنے ، یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں حکم دیاکہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، نماز پڑھیں ، روزہ رکھیں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر ایمان لے آئے اور جو دین وہ لے کر آئے ہم نے ا س کی پیروی کی۔ (مسند امام احمد، حدیث جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۷۴۰)
*میلادِ مصطفٰی کا بیان:*
اس آیتِ کریمہ میں سیِّد عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری یعنی آپ کے میلادِ مبارک کا بیان ہے۔ ترمذی کی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی پیدائش کا بیان قیام کرکے فرمایا۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۶-باب، ۵ / ۳۱۴، الحدیث: ۳۵۴۳) اس سے معلوم ہوا کہ محفلِ میلاد مبارک کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
*حضرت شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا مقام:*
حضرت ابو بکر بن محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکر بن مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابو بکر شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ تشریف لائے، حضرت ابو بکر بن مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کھڑے ہوئے، ان سے معانقہ کیا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ میں نے عرض کی :یا سیّدی! آپ حضرت شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس قدر تعظیم کر رہے ہیں حالانکہ ان کے بارے میں آپ کی اور تمام ا ہلِ بغداد کی رائے یہ ہے کہ یہ دیوانہ ہے! حضرت ابو بکر بن مجاہدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: میں نے ان کے ساتھ اسی طرح کیا ہے جس طرح میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو
میلادِ مصطفٰی کا بیان:
امت کے دکھ درد سے خبردار:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)
ترجمہ
:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
تفسیر
*{لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے۔}* یعنی اے اہلِ عرب! بیشک تمہارے پاس تم میں سے عظیم رسول، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے جو کہ عربی، قرشی ہیں۔ جن کے حسب ونسب کو تم خوب پہچانتے ہو کہ تم میں سب سے عالی نسب ہیں اور تم اُن کے صدق و امانت، زہد و تقویٰ، طہارت وتَقَدُّس اور اَخلا قِ حمیدہ کو بھی خوب جانتے ہو۔ یہاں ایک قراء ۃ میں اَنْفُسِكُمْ‘‘فا پر زبر کے ساتھ آیا ہے، اس کا معنی ہے کہ تم میں سب سے نفیس تر اور اشرف و افضل ہیں ‘‘(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۲ / ۲۹۸)
*حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فضل و شرف:*
اس آیت میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف اور فضیلت و شرف کا ذکر ہوا، اس مناسبت سے ہم یہاں آپ کے فضائل اور اَخلاقِ حمیدہ کے بیان پر مشتمل دو روایات ذکر کرتے ہیں۔
(1)…حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان میں سے بہترین رکھا، پھر ان کے دو گروہ بنائے تو مجھے اچھے گروہ میں رکھا۔ پھر قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلے میں رکھا۔ پھر ان کے خاندان بنائے تو مجھے ان میں سے اچھے خاندان میں رکھا اور سب سے اچھی شخصیت بنایا۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۰، الحدیث: ۳۶۲۷)
(2)…حضرت جعفر بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نجاشی کے دربار میں فرمایا ’’اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے، بتوں کی عبادت کرتے ، مردار کھاتے، بے حیائی کے کام کرتے ، رشتے داریاں توڑتے اور پڑوسیوں سے بد سلوکی کیا کرتے تھے اور ہم میں سے جو طاقتور ہوتا وہ کمزور کا مال کھا جا یا کرتا تھا۔ ہمارا یہی حال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ایک رسول ہماری طرف بھیج دیا جن کے نسب،صداقت، امانت اور پاک دامنی کو ہم پہچانتے تھے، انہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ایک مانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں اور ہم اور ہمارے آباء و اَجداد جن پتھروں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے، امانت داری اور پاکیزگی اختیار کرنے، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنے، پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے، حرام کام اور خون ریزیاں چھوڑ دینے کا حکم دیا، ہمیں بے حیائی کے کام کرنے ، جھوٹ بولنے ، یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں حکم دیاکہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، نماز پڑھیں ، روزہ رکھیں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر ایمان لے آئے اور جو دین وہ لے کر آئے ہم نے ا س کی پیروی کی۔ (مسند امام احمد، حدیث جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۷۴۰)
*میلادِ مصطفٰی کا بیان:*
اس آیتِ کریمہ میں سیِّد عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری یعنی آپ کے میلادِ مبارک کا بیان ہے۔ ترمذی کی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی پیدائش کا بیان قیام کرکے فرمایا۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۶-باب، ۵ / ۳۱۴، الحدیث: ۳۵۴۳) اس سے معلوم ہوا کہ محفلِ میلاد مبارک کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
*حضرت شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا مقام:*
حضرت ابو بکر بن محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکر بن مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابو بکر شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ تشریف لائے، حضرت ابو بکر بن مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کھڑے ہوئے، ان سے معانقہ کیا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ میں نے عرض کی :یا سیّدی! آپ حضرت شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس قدر تعظیم کر رہے ہیں حالانکہ ان کے بارے میں آپ کی اور تمام ا ہلِ بغداد کی رائے یہ ہے کہ یہ دیوانہ ہے! حضرت ابو بکر بن مجاہدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: میں نے ان کے ساتھ اسی طرح کیا ہے جس طرح میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو
اس کے ساتھ کرتے ہوئے دیکھا ہے ، میں نے خواب میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی، پھر دیکھا کہ حضرت شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ آ رہے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیلئے کھڑے ہوئے اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ شبلی کو اس قدر عزت دے رہے ہیں ،ارشاد فرمایا: یہ نماز کے بعد پڑھتا ہے ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ‘‘الآیہ۔ اورا س کے بعد مجھ پر درود پڑھتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ یہ ہر فرض کے بعد یہ دو آیتیں پڑھتا ہے اس کے بعدمجھ پر درود پڑھتا ہے اور تین مرتبہ اس طرح پڑھتا ہے’’صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدْ‘‘۔(جلاء الافہام، الباب الرابع فی مواطن الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، فصل الموطن الرابع والثلاثون۔۔۔ الخ، ص۲۴۱)
*{عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ:جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے۔}* یعنی تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر بہت بھاری گزرتا ہے اور مشقتوں کو دور کرنے میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مشقت کو دور کرنا ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی مشقت کو دور کر نے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ اور فرمایا ’’ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ‘‘ یعنی وہ دنیا و آخرت میں تمہیں بھلائیاں پہنچانے پر حریص ہیں۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۶ / ۱۷۸)
*امت کی بھلائی پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حرص کی جھلک:*
اس سے معلوم ہوا کہ اور لوگ تو اپنی اور اپنی اولاد کی بھلائی کے حریص ہوتے ہیں مگر یہ رسولِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی پر حریص ہیں۔اب اُمت پر ان کی حرص اور شفقت کی جھلک ملاحظہ ہو
حضرت زید بن خالد جُہنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کر دیتا۔ (ترمذی، ابواب الطہارۃ، باب ما جاء فی السواک، ۱ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۳)
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا۔اس پر ایک شخص نے کہا، کیا ہر سال فرض ہے؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سکوت فرمایا۔ سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ’’جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا اور تم نہ کرسکتے۔(مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحجّ مرّۃ فی العمر، ص۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷))
صحیح مسلم میں ہی حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے مجھے تین سوال عطا فرمائے، میں نے دو بار ( تو دنیامیں ) عرض کرلی ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ‘‘اے اللہ !میری اُمت کی مغفرت فرما، اے اللہ ! میری اُمت کی مغفرت فرما۔ ’’وَاَخَّرْتُ الثَّالِثَۃَ لِیَوْمٍ یَرْغَبُ اِلَیَّ الْخَلْقُ کُلُّہُمْ حَتّٰی اِبْرَاہِیمُ‘‘ اور تیسری عرض اس دن کے لیے اٹھا رکھی جس میں مخلوقِ الہٰی میری طرف نیاز مند ہوگی یہاں تک کہ (اللہ تعالیٰ کے خلیل) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی میرے نیاز مند ہوں گے۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب بیان انّ القرآن علی سبعۃ احرف وبیان معناہ، ص۴۰۹، الحدیث: ۲۷۳ (۸۲۰))
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اے گنہگار انِ امت! کیا تم نے اپنے مالک و مولیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی یہ کمال رأفت و رحمت اپنے حال پر نہ دیکھی کہ بارگاہِ الہٰی عزجلالہ سے تین سوال حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو ملے کہ جو چاہو مانگ لو عطا ہوگا۔ حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے ان میں کوئی سوال اپنی ذات پاک کے لیے نہ رکھا، سب تمہارے ہی کام میں صَرف فرما دیئے ،دو سوال دنیا میں کیے وہ بھی تمہارے ہی واسطے، تیسرا آخرت کو اٹھا رکھا، وہ تمہاری اس عظیم حاجت کے واسطے جب اس مہربان مولیٰ رؤف و رحیم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سوا کوئی کام آنے والا، بگڑی بنانے والا نہ ہوگا۔۔۔وَاﷲِ الْعَظِیمْ ! قسم اس کی جس نے انہیں آپ پر مہربان کیا !ہر گز ہر گز کوئی ماں اپنے عزیز پیارے اکلوتے بیٹے پر زنہار(
*{عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ:جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے۔}* یعنی تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر بہت بھاری گزرتا ہے اور مشقتوں کو دور کرنے میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مشقت کو دور کرنا ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی مشقت کو دور کر نے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ اور فرمایا ’’ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ‘‘ یعنی وہ دنیا و آخرت میں تمہیں بھلائیاں پہنچانے پر حریص ہیں۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۶ / ۱۷۸)
*امت کی بھلائی پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حرص کی جھلک:*
اس سے معلوم ہوا کہ اور لوگ تو اپنی اور اپنی اولاد کی بھلائی کے حریص ہوتے ہیں مگر یہ رسولِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی پر حریص ہیں۔اب اُمت پر ان کی حرص اور شفقت کی جھلک ملاحظہ ہو
حضرت زید بن خالد جُہنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کر دیتا۔ (ترمذی، ابواب الطہارۃ، باب ما جاء فی السواک، ۱ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۳)
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا۔اس پر ایک شخص نے کہا، کیا ہر سال فرض ہے؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سکوت فرمایا۔ سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ’’جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا اور تم نہ کرسکتے۔(مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحجّ مرّۃ فی العمر، ص۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷))
صحیح مسلم میں ہی حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے مجھے تین سوال عطا فرمائے، میں نے دو بار ( تو دنیامیں ) عرض کرلی ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ‘‘اے اللہ !میری اُمت کی مغفرت فرما، اے اللہ ! میری اُمت کی مغفرت فرما۔ ’’وَاَخَّرْتُ الثَّالِثَۃَ لِیَوْمٍ یَرْغَبُ اِلَیَّ الْخَلْقُ کُلُّہُمْ حَتّٰی اِبْرَاہِیمُ‘‘ اور تیسری عرض اس دن کے لیے اٹھا رکھی جس میں مخلوقِ الہٰی میری طرف نیاز مند ہوگی یہاں تک کہ (اللہ تعالیٰ کے خلیل) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی میرے نیاز مند ہوں گے۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب بیان انّ القرآن علی سبعۃ احرف وبیان معناہ، ص۴۰۹، الحدیث: ۲۷۳ (۸۲۰))
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اے گنہگار انِ امت! کیا تم نے اپنے مالک و مولیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی یہ کمال رأفت و رحمت اپنے حال پر نہ دیکھی کہ بارگاہِ الہٰی عزجلالہ سے تین سوال حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو ملے کہ جو چاہو مانگ لو عطا ہوگا۔ حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے ان میں کوئی سوال اپنی ذات پاک کے لیے نہ رکھا، سب تمہارے ہی کام میں صَرف فرما دیئے ،دو سوال دنیا میں کیے وہ بھی تمہارے ہی واسطے، تیسرا آخرت کو اٹھا رکھا، وہ تمہاری اس عظیم حاجت کے واسطے جب اس مہربان مولیٰ رؤف و رحیم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سوا کوئی کام آنے والا، بگڑی بنانے والا نہ ہوگا۔۔۔وَاﷲِ الْعَظِیمْ ! قسم اس کی جس نے انہیں آپ پر مہربان کیا !ہر گز ہر گز کوئی ماں اپنے عزیز پیارے اکلوتے بیٹے پر زنہار(
یعنی کبھی بھی) اتنی مہربان نہیں جس قدر وہ اپنے ایک امتی پر مہربان ہیں۔ (فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۵۸۳)
*امت کے دکھ درد سے خبردار:*
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت کے دکھ درد سے خبردار ہیں کیونکہ ہماری تکلیف کی خبر کے بغیر قلب مبارک پر گرانی نہیں آسکتی، نیز جیسے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت ہر وقت ہے ایسے ہی آپ کی خبرداری بھی ہر ساعت ہے۔
*{بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ:مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے دو ناموں سے مشرف فرمایا ۔یہ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کمالِ تکریم ہے۔ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا میں بھی رؤف و رحیم ہیں اور آخرت میں بھی۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت سے متعلق دو اَحادیث:
سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت و رافَت کے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرآنِ پاک میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی:
’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(ابراہیم:۳۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! بیشک بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا تو جو میرے پیچھے چلے تو بیشک وہ مجھ سے (تعلق رکھنے والا) ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے۔
اور وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ قول ہے
’’اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ‘‘(المائدہ:۱۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا، حکمت والا ہے۔
تو حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر گریہ طاری ہو گیا اور اپنے دست ِاقدس اٹھا کر دعا کی ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری امت ،میری امت۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا ’’ اے جبریل ! عَلَیْہِ السَّلَام، میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں جاؤ اور ان سے پوچھو حالانکہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے مگر ان سے پوچھو کہ انہیں کیا چیز رُلا رہی ہے ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پوچھا تو انہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی عرض معروض کی خبر دی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل سے فرمایا :تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ’’اِنَّا سَنُرْضِیْکَ فِیْ اُمَّتِکَ وَلَا نَسُوْ ئُکَ‘‘ آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو غمگین نہ کریں گے ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب دعوۃ النبیّ لامّتہ وبکائہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قیامت کے دن اپنی شفاعت کا سوال کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں کروں گا۔ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آپ کو کہاں تلاش کروں ؟ ارشاد فرمایا ’’سب سے پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا۔ میں نے عرض کی: اگر پل صراط پر نہ پاؤں (تو کہاں تلاش کروں ) ؟ ارشاد فرمایا: ’’پھر مجھے میزان کے پاس تلاش کر نا۔ میں نے عرض کی: اگر میزان کے پاس نہ پاؤں (تو کس جگہ تلاش کروں )؟ ارشاد فرمایا: ’’پھر مجھے حوضِ کوثر کے پاس ڈھونڈنا کیونکہ میں ان تین مقامات سے اِدھر اُدھر نہ ہوں گا۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ما جاء فی شأن الصراط، ۴ / ۱۹۵، الحدیث: ۲۴۴۱)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
دنیا مزار حشر جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے
اور فرماتے ہیں :
مومن ہوں مومنوں پہ رؤف رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ ﱙ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْ
*امت کے دکھ درد سے خبردار:*
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت کے دکھ درد سے خبردار ہیں کیونکہ ہماری تکلیف کی خبر کے بغیر قلب مبارک پر گرانی نہیں آسکتی، نیز جیسے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت ہر وقت ہے ایسے ہی آپ کی خبرداری بھی ہر ساعت ہے۔
*{بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ:مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے دو ناموں سے مشرف فرمایا ۔یہ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کمالِ تکریم ہے۔ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا میں بھی رؤف و رحیم ہیں اور آخرت میں بھی۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت سے متعلق دو اَحادیث:
سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت و رافَت کے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرآنِ پاک میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی:
’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(ابراہیم:۳۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! بیشک بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا تو جو میرے پیچھے چلے تو بیشک وہ مجھ سے (تعلق رکھنے والا) ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے۔
اور وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ قول ہے
’’اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ‘‘(المائدہ:۱۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا، حکمت والا ہے۔
تو حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر گریہ طاری ہو گیا اور اپنے دست ِاقدس اٹھا کر دعا کی ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری امت ،میری امت۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا ’’ اے جبریل ! عَلَیْہِ السَّلَام، میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں جاؤ اور ان سے پوچھو حالانکہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے مگر ان سے پوچھو کہ انہیں کیا چیز رُلا رہی ہے ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پوچھا تو انہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی عرض معروض کی خبر دی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل سے فرمایا :تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ’’اِنَّا سَنُرْضِیْکَ فِیْ اُمَّتِکَ وَلَا نَسُوْ ئُکَ‘‘ آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو غمگین نہ کریں گے ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب دعوۃ النبیّ لامّتہ وبکائہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قیامت کے دن اپنی شفاعت کا سوال کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں کروں گا۔ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آپ کو کہاں تلاش کروں ؟ ارشاد فرمایا ’’سب سے پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا۔ میں نے عرض کی: اگر پل صراط پر نہ پاؤں (تو کہاں تلاش کروں ) ؟ ارشاد فرمایا: ’’پھر مجھے میزان کے پاس تلاش کر نا۔ میں نے عرض کی: اگر میزان کے پاس نہ پاؤں (تو کس جگہ تلاش کروں )؟ ارشاد فرمایا: ’’پھر مجھے حوضِ کوثر کے پاس ڈھونڈنا کیونکہ میں ان تین مقامات سے اِدھر اُدھر نہ ہوں گا۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ما جاء فی شأن الصراط، ۴ / ۱۹۵، الحدیث: ۲۴۴۱)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
دنیا مزار حشر جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے
اور فرماتے ہیں :
مومن ہوں مومنوں پہ رؤف رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ ﱙ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْ
تُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۠(۱۲۹)
ترجمہ
پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرمادو کہ مجھے اللہ کافی ہے اس کے سواکوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔
تفسیر
{فَاِنْ تَوَلَّوْا:پھر اگر وہ منہ پھیریں۔} یعنی پھر اگر منافقین و کفار اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے سے اِعراض کریں اور آپ سے جنگ کا اعلان کریں تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرما دو کہ مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کافی ہے اور وہ تمہارے خلاف میری مدد فرمائے گا۔ اس کے سواکوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۲ / ۲۹۹)
*اہم کاموں سے متعلق ایک وظیفہ:*
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے صبح اور شام سات مرتبہ یہ پڑھا’’حَسْبِیَ اللّٰهُ ﱙ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ تواللہ تعالیٰ اس کے اہم کاموں میں اسے کافی ہو گا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب ما یقول اذا اصبح، ۴ / ۴۱۶، الحدیث: ۵۰۸۱)
*طالبِ دعاابوعمر*
ترجمہ
پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرمادو کہ مجھے اللہ کافی ہے اس کے سواکوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔
تفسیر
{فَاِنْ تَوَلَّوْا:پھر اگر وہ منہ پھیریں۔} یعنی پھر اگر منافقین و کفار اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے سے اِعراض کریں اور آپ سے جنگ کا اعلان کریں تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرما دو کہ مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کافی ہے اور وہ تمہارے خلاف میری مدد فرمائے گا۔ اس کے سواکوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۲ / ۲۹۹)
*اہم کاموں سے متعلق ایک وظیفہ:*
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے صبح اور شام سات مرتبہ یہ پڑھا’’حَسْبِیَ اللّٰهُ ﱙ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ تواللہ تعالیٰ اس کے اہم کاموں میں اسے کافی ہو گا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب ما یقول اذا اصبح، ۴ / ۴۱۶، الحدیث: ۵۰۸۱)
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو
( ابی داؤد حدیث 495 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو
( ابی داؤد حدیث 495 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
سورۂ یونس کا تعارف؛ مضامین؛اورسورہ توبہ کے ساتھ مبسبت:
*مقامِ نزول:*
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’سورۂ یونس مکیہ ہے، البتہ اس کی تین آیتیں ’’فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ‘‘ سے لے کر’’ لَا یُؤْمِنُوْنَ ‘‘ تک مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ (البحر المحیط، یونس، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۲۵)
*رکوع اور آیات کی تعداد:*
اس سورت میں 11رکوع اور 109 آیتیں ہیں۔
’’یونس ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
اس سورت کی آیت نمبر 98 میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا واقعہ بیان کیاگیا ہے کہ جب انہیں حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عذاب کی وعید سنائی اور خود وہاں سے تشریف لے گئے تو ان کے جانے کے بعد عذاب کے آثار دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے سچے دل سے توبہ کی تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔ اس واقعے کی مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ یونس‘‘ رکھا گیا۔
*سورۂ یونس کے بارے میں حدیث:*
حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی:یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ ارشاد فرمایا ’’الٓرٰ(سے شروع ہونے) والی تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے عرض کی: میری عمر بہت ہوچکی ہے، میرا دل سخت ہو گیا اور زبان موٹی ہو گئی ہے۔ ارشاد فرمایا ’’توحم(سے شروع ہونے) والی تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے پھر وہی عرض کی تو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مُسَبَّحات(یعنی تسبیح سے شروع ہونے والی سورتوں ) میں سے تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے پھر وہی عذر پیش کیا اور عرض کی:یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے کوئی جامع سورت سکھا دیجئے۔
رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے ’’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ‘‘ والی سورت سکھا دی۔ اِس سے فارغ ہونے کے بعد اُس شخص نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا، میں کبھی اس پر اضافہ نہیں کروں گا۔ اس کے چلے جانے کے بعد حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا’’یہ چھوٹا سا آدمی نجات پاگیا۔ (ابوداؤد، کتاب شہر رمضان، باب تحزیب القرآن، ۲ / ۸۱، الحدیث: ۱۳۹۹)
*سورۂ یونس کے مضامین:*
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت ، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء و سزا ملنے کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا اور قرآنِ مجید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …مشرکین کے عقائد بیان کئے گئے اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے والوں کے 5 شُبہات ذکر کر کے ان کا رد کیا گیاہے۔
(2) …اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرنے والے ا س کی قدرت کے آثار ذکر کئے گئے ہیں۔
(3) …دُنْیَوی زندگی کی مثال بیان کر کے اس میں غور کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
(4) …کفار کو قرآنِ پاک جیسی ایک سورت بنا کر دکھانے کا چیلنج کیا گیا ۔
(5) …کفار کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے۔
(6) …قرآنِ پاک کی صداقت کو ثابت کرنے اور عبر ت و نصیحت کے لئے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیاگیا ہے۔
(7) …اس سورت کے آخر میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور قرآن کے احکام پر عمل کرنے میں انسانوں کی اپنی ہی بہتری ہے
*سورۂ توبہ کے ساتھ مناسبت:*
سورۂ یونس کی اپنے سے ماقبل سورت ’’توبہ ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ توبہ کا اختتام نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کے بیان پر ہوا اور سورۂ یونس کی ابتداء میں رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کی جانے والی وحی پر ہونے والے شکوک و شُبہات کا رد کیا گیا ہے۔ نیز سورۂ توبہ میں زیادہ تر منافقین کے احوال اور قرآنِ پاک کے بارے میں ان کا مَوقف بیان کیاگیا جبکہ سورۂ یونس میں کفار اور مشرکین کے اَحوال اور قرآنِ پاک کے بارے میں ان کے اَقوال بیان کئے گئے ہیں۔
*طالبِ دعاابوعمر*
سورۂ یونس کا تعارف؛ مضامین؛اورسورہ توبہ کے ساتھ مبسبت:
*مقامِ نزول:*
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’سورۂ یونس مکیہ ہے، البتہ اس کی تین آیتیں ’’فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ‘‘ سے لے کر’’ لَا یُؤْمِنُوْنَ ‘‘ تک مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ (البحر المحیط، یونس، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۲۵)
*رکوع اور آیات کی تعداد:*
اس سورت میں 11رکوع اور 109 آیتیں ہیں۔
’’یونس ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
اس سورت کی آیت نمبر 98 میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا واقعہ بیان کیاگیا ہے کہ جب انہیں حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عذاب کی وعید سنائی اور خود وہاں سے تشریف لے گئے تو ان کے جانے کے بعد عذاب کے آثار دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے سچے دل سے توبہ کی تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔ اس واقعے کی مناسبت سے اس سورت کا نام’’سورۂ یونس‘‘ رکھا گیا۔
*سورۂ یونس کے بارے میں حدیث:*
حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی:یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ ارشاد فرمایا ’’الٓرٰ(سے شروع ہونے) والی تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے عرض کی: میری عمر بہت ہوچکی ہے، میرا دل سخت ہو گیا اور زبان موٹی ہو گئی ہے۔ ارشاد فرمایا ’’توحم(سے شروع ہونے) والی تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے پھر وہی عرض کی تو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مُسَبَّحات(یعنی تسبیح سے شروع ہونے والی سورتوں ) میں سے تین سورتیں پڑھ لو۔ اس نے پھر وہی عذر پیش کیا اور عرض کی:یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے کوئی جامع سورت سکھا دیجئے۔
رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے ’’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ‘‘ والی سورت سکھا دی۔ اِس سے فارغ ہونے کے بعد اُس شخص نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا، میں کبھی اس پر اضافہ نہیں کروں گا۔ اس کے چلے جانے کے بعد حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا’’یہ چھوٹا سا آدمی نجات پاگیا۔ (ابوداؤد، کتاب شہر رمضان، باب تحزیب القرآن، ۲ / ۸۱، الحدیث: ۱۳۹۹)
*سورۂ یونس کے مضامین:*
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت ، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء و سزا ملنے کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا اور قرآنِ مجید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …مشرکین کے عقائد بیان کئے گئے اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا انکار کرنے والوں کے 5 شُبہات ذکر کر کے ان کا رد کیا گیاہے۔
(2) …اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرنے والے ا س کی قدرت کے آثار ذکر کئے گئے ہیں۔
(3) …دُنْیَوی زندگی کی مثال بیان کر کے اس میں غور کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
(4) …کفار کو قرآنِ پاک جیسی ایک سورت بنا کر دکھانے کا چیلنج کیا گیا ۔
(5) …کفار کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے۔
(6) …قرآنِ پاک کی صداقت کو ثابت کرنے اور عبر ت و نصیحت کے لئے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ اور حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیاگیا ہے۔
(7) …اس سورت کے آخر میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت اور قرآن کے احکام پر عمل کرنے میں انسانوں کی اپنی ہی بہتری ہے
*سورۂ توبہ کے ساتھ مناسبت:*
سورۂ یونس کی اپنے سے ماقبل سورت ’’توبہ ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ توبہ کا اختتام نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کے بیان پر ہوا اور سورۂ یونس کی ابتداء میں رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کی جانے والی وحی پر ہونے والے شکوک و شُبہات کا رد کیا گیا ہے۔ نیز سورۂ توبہ میں زیادہ تر منافقین کے احوال اور قرآنِ پاک کے بارے میں ان کا مَوقف بیان کیاگیا جبکہ سورۂ یونس میں کفار اور مشرکین کے اَحوال اور قرآنِ پاک کے بارے میں ان کے اَقوال بیان کئے گئے ہیں۔
*طالبِ دعاابوعمر*