✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷

فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم

اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرلو.

( ابنِ ماجہ حدیث 1081 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت:

الٓرٰ- تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ(۱)

ترجمہ

’’الر‘‘، یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں ۔

تفسیر


{الٓرٰ:} یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ہے، اس کی مراد اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ (جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۶۹)

{تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِ:یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو اس سورت میں موجود ہیں ، معنی یہ ہیں کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ آیات قرآن ہی کی آیات ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے قرآنِ پاک کی ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو اس سورت سے پہلے ذکر ہوئیں اور معنی یہ ہیں کہ وہ آیات حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱، ۲ / ۲۹۹)

اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ﳳ-قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ(۲)

ترجمہ

کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہم نے ان میں سے ایک مرد کی طرف یہ وحی بھیجی کہ لوگوں کو ڈر سناؤاور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچ کا مقام ہے۔ کافروں نے کہا: بیشک یہ تو کھلا جادوگر ہے۔

تفسیر

{اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا:کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے۔} شانِ نزول : حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ جب اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رسالت سے مشرف فرمایا اور آپ نے اس کا اظہار کیا تو عرب میں رہنے والے لوگ منکر ہوگئے اور ان میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے برتر ہے کہ کسی بشر کو رسول بنائے، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۳۰۰)

*{قَدَمَ صِدْقٍ:سچ کا مقام ۔}* قدم سے اس کی جگہ یعنی مقام مراد ہے اور مفسرین نے قَدَمَ صِدْقٍ کے معنی بیان فرمائے ہیں ، بہترین مقام، جنت میں بلند مرتبہ، نیک اعمال، نیک اعمال کا اَجر اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۳۰۰، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۳ / ۸۵۳، ملتقطاً) گویا فرمایا گیا کہ مومنین کیلئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بہترین مقام ہے یا جنت میں بلند مرتبہ ہے یادنیا میں نیک اعمال کی توفیق ہے یا آخرت میں نیکیوں کا اجر ہے یا سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت ہے۔

*{قَالَ الْكٰفِرُوْنَ:کافروں نے کہا۔}* کفار نے پہلے تو بشر کا رسول ہونا قابلِ تعجب و انکار قرار دیا اور پھر جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات دیکھے اور یقین ہوا کہ یہ بشر کی قدرت سے بالا تر ہیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ساحر بتایا۔ اُن کا یہ دعویٰ تو کِذب و باطل ہے مگر اس میں بھی حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کمال اور اپنے عِجز کا اِعتراف پایا جاتا ہے۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ۶ / ۱۸۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۲، ص۴۶۲، ملتقطاً)

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَؕ-مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(۳)

ترجمہ

بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے، وہ کام کی تدبیر فرما تا ہے ، اس کی اجازت کے بعد ہی کوئی سفارشی ہوسکتا ہے۔ یہ اللہ تمہارا رب ہے تو تم اس کی عبادت کرو تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟

تفسیر


*{اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ:بیشک تمہارا رب اللہ ہے۔}* اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وحی، بعثت اور رسالت پر کفار کے تعجب کو بیان فرمایا اورا س آیت میں ان کے اُس تعجب کو اس طرح زائل فرمایا کہ ساری مخلوق کو پیدا فرمانے والی ذات کا ان کی طرف ایک رسول بھیجنا کہ جوانہیں نیک اعمال پر ثواب کی بشارت دے اور برے اعمال پر عذاب سے ڈرائے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ اس جہاں کو پیدا کرنے والا ایک ہے ، وہ ہر چیز پر قادر اور اس کے احکام نافذ ہیں۔ا س کی دلیل یہ ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور وہی اس کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے ،نیز وہی ثواب اور عذاب دینے والا ہے کیونکہ اس دنیا کی زندگی کے بعد سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ،اس لئے تمام مخلوق کو اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۳،۶ / ۱۸۸، ملخصاً)

نوٹ:آسمانوں اور زمینوں کو چ
ھ دن میں پیدا کرنے اور عرش پر اِستوا فرمانے کی تفسیر سورۂ اَعراف آیت نمبر 54 میں گزر چکی ہے۔

*{مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ:اس کی اجازت کے بعد ہی کوئی سفارشی ہوسکتا ہے۔}* اس میں بت پرستوں کے اس قول کا رد ہے کہ بت اُن کی شفاعت کریں گے انہیں بتایا گیا کہ شفاعت اجازت یافْتْگان کے سوا کوئی نہیں کرے گا اور اجازت یافتہ صرف اس کے مقبول بندے ہوں گے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۳۰۱)

*اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت:*
قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اولیاء و صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور دیگر جنتی شفاعت فرمائیں گے اور اِن شفاعت کرنے والوں کے سردار اور آقا و مولیٰ حضور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہوں گے۔ چنانچہ

حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں قیامت کے دن انبیاءِ کرام. عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا امام، خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر (مجھے) فخر نہیں۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۳، الحدیث: ۳۶۳۳)

حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ شہید کی شفاعت اس کے ستر قریبی رشتہ داروں کے بارے میں مقبول ہوگی۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الشہید یشفع،۳ / ۲۲، الحدیث: ۲۵۲۲)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن لوگ صفیں باندھے ہوں گے ،اس وقت ایک جہنمی ایک جنتی کے پاس سے گزرے گا تو اس سے کہے گا: کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے ایک دن مجھ سے پانی پینے کو مانگا تو میں نے آپ کو پانی پلایا تھا؟ اتنی سی بات پر وہ جنتی اس جہنمی کی شفاعت کرے گا۔ ایک (جہنمی) دوسرے (جنتی) کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا: آپ کو یاد نہیں کہ ایک دن میں نے آپ کو وضو کرنے کے لئے پانی دیا تھا؟ اتنے ہی پروہ اس کا شفیع ہوجائے گا ،ایک کہے گا: آپ کو یاد نہیں کہ فلاں دن آپ نے مجھے فلاں کام کے لئے بھیجا تو میں چلا گیا تھا؟ اس قدر پریہ اس کی شفاعت کرے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل صدقۃ المائ، ۴ / ۱۹۶، الحدیث: ۳۶۸۵)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ. نے ارشاد فرمایا ’’ایک جنتی شخص جھانک کر جہنمیوں کی طرف دیکھے گا تو ایک جہنمی اس سے کہے گا: آپ مجھے نہیں جانتے؟ وہ کہے گا ’’وَاللہ! میں تو تجھے نہیں پہچانتا، تم پر افسوس ہے، تو کون ہے؟ وہ کہے گا: میں وہ ہوں کہ آپ ایک دن میری طرف سے ہو کر گزرے اور مجھ سے پانی مانگا اور میں نے پلا دیا تھا ، اس کے صِلہ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے حضور میری شفاعت کیجئے۔ وہ جنتی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے زائروں میں اس کے حضور حاضر ہو کر یہ حال بیان کر کے عرض کرے گا: اے میرے رب !عَزَّوَجَلَّ، تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ تو اللہ تعالیٰ اُس کے حق میں اِس کی شفاعت قبول فرمائے گا۔(مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ ثابت البنانی عن انس، ۳ / ۲۳۷، الحدیث: ۳۴۷۷)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقبول بندوں کی شفاعت سے حصہ عطا فرمائے،اٰمین۔

*طالبِ دعاابوعمر*
🌷فیضانِ حدیث 🌷

فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم

اللہ کریم باجماعت نماز ادا کرنے والوں سے خوش ہوتا ہے.

( مسند امام احمد حدیث 5112 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

دنیا اور آخرت سے متعلق مسلمانوں کا حال :

اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ(۶)یونس

ترجمہ

بیشک رات اور دن کی تبدیلی میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ان میں ڈرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔

تفسیر


*{اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ:بیشک رات اور دن کی تبدیلی میں۔}* اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور وحدانیت پر زمین وآسمان کی تخلیق ،سورج اور چاند کے اَحوال سے دلائل قائم فرمائے اور اس آیت میں دن اور رات کے اختلاف سے حاصل ہونے والے فَوائد سے وحدانیت پر دلیل قائم فرمائی۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک دن اور رات کے آنے جانے،کم اور زیادہ ہونے میں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں پیدا فرمایا جیسے فرشتے،سورج ، چاند، ستارے وغیرہ اور جو کچھ زمین میں پیدا فرمایا جیسے حیوان ،پہاڑ ،دریا،نہریں اور درخت وغیرہ ان سب میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت پر نشانیاں موجود ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۶، ۶ / ۲۱۰، جلالین، یونس، تحت الآیۃ: ۶، ص۱۷۰، ملتقطاً)ان چیزوں کا نشانیاں ہونا بالکل واضح ہے کہ یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّکی تخلیق اور قدرت کی دلیلیں ہیں کہ وہ کتنی عظیم قدرت و عظمت والا ہے جس نے ان سب چیزوں کو وجود بخشا۔

نوٹ:اس سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے سورۂ بقرہ آیت164کے تحت مذکور تفسیر ملاحظہ کیجئے۔

آیت کے آخر میں فرمایا کہ متقیوں کیلئے ان چیزوں میں نشانیاں ہیں۔چونکہ ا ن چیزوں میں غور کرکے ایما ن و عِرفان صرف خوفِ خدارکھنے والوں کو مُیَسَّر ہوتا ہے اس لئے انہی کا ذکر فرمایا۔ بہت سے کافر یہ چیزیں دیکھ کر سرکش ہوجاتے ہیں جیسے آج اکثرسائنس دانوں نے سائنس میں ترقی کرکے خداعَزَّوَجَلَّ کا انکار کردیا۔


اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ(۷) اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۸)

ترجمہ

بیشک وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے ہیں اور اس پر مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ جو ہماری آیتوں سے غافل ہیں ۔ ان لوگوں کا ٹھکانہ ان کے اعمال کے بدلے میں دوزخ ہے۔

تفسیر


*{اِنَّ الَّذِیْنَ:بیشک وہ لوگ۔}* ان آیات میں پہلے ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو حشر یعنی مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے بعد حشر پر ایمان لانے والوں کا ذکر ہے۔(تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۶ / ۲۱۰، ملخصاً)اس آیت میں حشر پر ایمان نہ لانے والوں کی چار صِفات بیان فرمائی گئی ہیں :

(1)… وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ مفسرین نے اس آیت میں ’’امید‘‘ کے دومعنی بیان کئے ہیں۔ (۱) خوف۔ اس سورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو قیامت کے دن ہم سے ملنے کاخوف نہیں رکھتے تو وہ ثواب اور عذاب کو جھٹلا رہے ہیں۔ (۲) طمع۔ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ دنیا پر مطمئن ہو بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کی طمع نہیں رکھتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۰۲)

(2)… دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے ہیں۔ یعنی انہوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا، اس تھوڑی سی اور فانی کو بہت زیادہ اور باقی رہنے والی پر ترجیح دی۔(مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۶۴)

(3)… اس پر مطمئن ہوگئے ہیں۔ کفار کا یہ قلبی اطمینان دنیا اور اس کی لذتوں کی طرف میلان کی وجہ سے ہے، اسی لئے ان کے دلوں سے ڈر اور خوف نکل گیا اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے اور اس کے عذاب کا خوف دلانے والی باتیں سنتے ہیں تو ان کے دل اس طرف مائل ہی نہیں ہوتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۳۰۲)

(4)… وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے غافل ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ یہاں آیات سے تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ پاک اور قرآن شریف مراد ہے اور غفلت کرنے سے مراد اُن سے اِعراض کرنا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۲۹۱)

*دنیا اور آخرت سے متعلق مسلمانوں کا حال :*

یہاں آیتِ مبارکہ میں کفار کے اعتقاد کے اعتبار سے یہ احوال بیان فرمائے گئے ہیں لیکن عملی طور پر مسلمان بھی ان میں سے بہت سی چیزوں میں مُلَوّث ہیں جیسے دلوں سے قیامت کے حساب کتاب اورعذاب ِ الہٰی کا خوف نکل جانا، دنیا کی زندگی کو ہی پسند کرنا اور اسی کیلئے کوشش کرنا اور اسی پر مطمئن ہوکر بیٹھ جانا، قرآن اور احکاماتِ الہٰیہ سے غفلت، دلوں کا سخت ہونا، شدید وعیدیں سن کر بھی گناہوں سے باز نہ آنا یہ سب چیزیں ہمارے اندر اِس آیت کی روشنی میں افعالِ کفار کا عکس نہیں دِکھا رہیں تو اور کیا ہے؟
*{اُولٰٓىٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ:ان لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔}* یعنی ان لوگوں کے کفر، تکذیب اور خبیث اعمال کے بدلے میں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۳۰۲)


*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷



جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے


(جمع الجوامع للسیوطی جلد 4حدیث۔11108)
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

اہلِ جنت کو تسبیح اور حمد کااِ لہام ہو گا:
نماز اور دعا قبول ہونے کا وظیفہ:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْۚ-تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۹)

ترجمہ

بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ (وہ) نعمتوں کے باغوں میں ہوں گے۔

تفسیر

*{یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْ:ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا۔}* حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مومن جب اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کا عمل خوب صورت شکل میں اس کے سامنے آئے گا یہ شخص کہے گا تو کون ہے ؟وہ کہے گا :میں تیرا عمل ہوں۔ اور اس کے لئے نور ہوگا اور جنت تک پہنچائے گا اور کافر کا معاملہ برعکس ہوگا کہ اس کا عمل بری شکل میں نمودار ہو کر اسے جہنم میں پہنچائے گا۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۳۰۲-۳۰۳)

سُبْحَانَ اللہ، کتنی پیاری فضیلت ہے کہ مومنین کی جنت کی طرف رہنمائی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی جانب سے ہوگی ۔ وہ جنت میں جائیں گے اور ہمیشہ کیلئے رہیں گے اور ان کے محلات کے نیچے دودھ ، شہد، شرابِ طہور اور خالص پانی کی نہریں جاری ہوں گی۔

دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌۚ-وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠(۱۰)

ترجمہ

ان کی دعا اس میں یہ ہوگی کہ اے اللہ ! تو پاک ہے اورجنت میں ان کی ملاقات کا پہلا بول ’’سلام‘‘ ہوگا اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

تفسیر

*{دَعْوٰىهُمْ فِیْهَا:ان کی دعا اس میں یہ ہوگی ۔}* یعنی اہلِ جنت اللہ تعالیٰ کی تسبیح ، تحمید، تقدیس میں مشغول رہیں گے اور اس کے ذکر سے انہیں فرحت و سُرور اور اِنتہا درجہ کی لذت حاصل ہوگی ۔ سُبْحَانَ اللہ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۳۰۳)

*اہلِ جنت کو تسبیح اور حمد کااِ لہام ہو گا:*

حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جنتی لوگ جنت میں کھائیں اور پئیں گے، اس میں تھوکیں گے نہ پیشاب کریں گے، رفعِ حاجت کریں گے اور نہ ناک صاف کریں گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰٰ عَنْہُمْ نے عرض کی: پھر ان کا کھانا کہاں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: ایک ڈکار (آئے گی) اور پسینہ مشک کی طرح ہو گا۔ انہیں تسبیح اور حمد کا اس طرح اِلہام ہو گا جیسے سانس آتا جاتا ہے۔( مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب فی صفات الجنۃ واہلہا۔۔۔ الخ، ص۱۵۲۰، الحدیث: ۱۸(۲۸۳۵))

*{وَ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ:اور جنت میں ان کی ملاقات کا پہلا بول ’’سلام‘‘ہوگا۔}* یعنی اہلِ جنت آپس میں ایک دوسرے کی تحیت یعنی تعظیم و تکریم سلام سے کریں گے یا ملائکہ انہیں بطورِ تحیت سلام عرض کریں گے یا ملائکہ رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ان کے پاس سلام لائیں گے۔ (بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۲۹۲) معلوم ہوا کہ بوقتِ ملاقات سلام کرنا اور بوقتِ رخصت حمدِ الٰہی کرنا جنتی لوگوں کا مشغلہ ہے۔

*{وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ:اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہے۔}* اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے کلام کی ابتدا ء اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تعظیم و تَنزیْہ سے ہوگی اور کلام کا اختتام اس کی حمد و ثناپر ہوگا اور اس کے دوران جو چاہیں گے آپس میں کلام کریں گے۔ (مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۴۶۴) اس سے معلوم ہوا کہ حمدِ الٰہی جنت میں بھی ہوگی۔ حمد کی فضیلت کے بارے میں حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) الْحَمْدُ لِلہِ کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)

*نماز اور دعا قبول ہونے کا وظیفہ:*

حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو رات کو اٹھے اور یہ کہے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیرٌ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ‘‘ پھر کہے ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ‘‘ یا کوئی اور دعا کرے تو قبول کی جائے گی اور اگر وضو کرے (اور نماز پڑھے) تو ا س کی نماز قبول کی جائے گی۔(
بخاری، کتاب التہجّد، باب فضل من تعارّ من اللیل فصلّی، ۱ / ۳۹۱، الحدیث: ۱۱۵۴)

*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷


حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے ارشاد فرمایا: ’’سچا اور امانت دار تاجر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔
 (ترمذی،، الحدیث: ۱۲۱۲)
درسِ حدیث

💐 حضرت جابر بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جب شیطان نماز کے لیے اذان سنتا ہے تو وہ مقام روحاء تک بھاگ جاتا ہے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، روحاء مدینہ سے چھتیس میل کی مسافت پر ہے ۔💐 رواہ مسلم ۔

مشکوة المصابیح
کتاب الصلٰوة
حدیث نمبر 674
👈مشائخ کرام کے نزدیک تصوف کے چار ارکان ہیں:
(۱) شریعت
(۲) طریقت
(۳) حقیقت
(۴) معرفت
٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭
قرآن و سنت کے ظاہری احکام کو ’’شریعت‘‘ کہا جاتا ہے۔
٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭
👈اور ’’طریقت‘‘ ان کے باطن کا نام ہے۔ مثال کے طور پر طہارتِ شرعی یہ ہے کہ بدن کو پاک کرلیا جائے لیکن ’’ طریقت‘‘کی طہارت یہ ہے کہ دل کو تمام برائیوں سے پاک کیا جائے۔
٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭
👈’’شریعت‘‘ کے احکام پر عمل کرنے سے جو اثرات ذہن و قلب پر مکمل طور پر چھا جائیں اور یقین کی دولت حاصل ہو جائے تو اِسے ’’حقیقت‘‘ کہا جاتا ہے۔
٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭
👈’’ معرفت ‘‘سے مراد ہے:اللہ تعالیٰ کی پہچان۔اس کا دوسرا نام ’’عرفان‘‘ ہے۔ جب صوفی پر حقائق کھلتے ہیں تو وہ حق الیقین کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔یہی عرفان ہے اور یہی معرفت ہے۔
٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭--٭
👈حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہ فرماتے ہیں کہ
جب سالک سے کوئی غلَطی ہو جاتی ہے تو ’’معرفت‘‘ سے ’’حقیقت‘‘ کی منزل پر آجاتا ہے۔جب حقیقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے وہ ’’طریقت‘‘ کی منزل پر آجاتا ہے۔ جب طریقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے تو’’شریعت‘‘ کی منزل پر آجاتا ہے۔اس لئے ’’شریعت‘‘ کی پابندی ضروری ہے۔
=========
👈نکات واحد:
اگر یہ سوال کیا جائے : ’’صوفی‘‘ کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔
تو اس کا مختصر جواب یہ ہے:
پاکیزہ خیال ، خیر اندیش ، نیک نیت ، اہل دل ، اہل ذوق ، فائدہ بخش اور دعا گو۔۔۔۔۔۔
-------------------
صوفی انسانیت کا دشمن نہیں بلکہ دوست ہوتا ہے صوفی کو نفرت برے سے نہیں بلکہ برائی سے ہوتی ہے ۔ اگر صوفیا بروں سے نفرت کریں تو کون ہو گا جو بروں کو منزل کی راہنمائی کرےگا-
---------------------
حاشا نہ شریعت و طریقت دو راہیں ہیں نہ اولیاء کبھی غیر علماء ہو سکتے ہیں
👈امام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
علم باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علم ظاہر جانتا ہے ،
👈امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اسکے بعد ولی کیا۔
--------------------
👈شریعت ، طریقت ، حقیقت معرفت میں باہم اصلا کوئی اختلاف نہیں📷 اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ ، بد دین۔
شریعت، حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال ہیں،
اور طریقت ، حضور کے افعال،
اور حقیقت، حضور کے احوال،
اور معرفت ، حضور کے علوم بے مثال.📷
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷

فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم

صبر کے ساتھ آسانی کا انتظار کرنا عبادت ہے.

( شعب الایمان حدیث 10003 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹


خود کو اوراپنے بچوں وغیرہ کو کوسنے سے بچیں:

وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْؕ-فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۱۱)

ترجمہ

اور اگر اللہ لوگوں پرعذاب اسی طرح جلدی بھیج دیتا جس طرح وہ بھلائی جلدی طلب کرتے ہیں تو ان کی مدت ان کی طرف پوری کردی جاتی تو جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتے ۔

تفسیر

*{لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ:تو ان کی مدت ان کی طرف پوری کردی جاتی ۔}* یعنی اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی بددعائیں جیسے کہ وہ غصے کے وقت اپنے لئے اور اپنے اہل واولاد و مال کے لئے کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں ہم ہلاک ہوجائیں ، خدا ہمیں غارت کرے ، برباد کرے اور ایسے کلمے ہی اپنی اولاد اور رشتہ داروں کے لئے کہہ گزرتے ہیں جسے اردو میں کوسنا کہتے ہیں اگر وہ دعا ایسی جلدی قبول کرلی جاتی جیسی جلدی وہ دعائے خیر کے قبول ہونے میں چاہتے ہیں تو ان لوگوں کا خاتمہ ہوچکا ہوتا اور وہ کب کے ہلاک ہوگئے ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے دعا ئے خیر قبول فرمانے میں جلدی کرتا ہے اور دعائے بد کے قبول میں نہیں ، یہ اس کی رحمت ہے۔ شانِ نزول: نضر بن حارث نے کہا تھا: یارب !یہ دینِ اسلام اگر تیرے نزدیک حق ہے تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے عذاب میں جلدی فرماتا جیسا کہ اُن کیلئے مال و اولاد وغیرہ دنیا کی بھلائی دینے میں جلدی فرمائی تو وہ سب ہلاک ہوچکے ہوتے۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۳۰۳، ملخصاً)

*خود کو اوراپنے بچوں وغیرہ کو کوسنے سے بچیں :*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہماری تمام دعائیں قبول نہ ہونا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہے کہ ہم کبھی برائی کو بھلائی سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غصہ میں اپنے کو یاا پنے بال بچوں کو کوسنا نہیں چاہیے ہر وقت رب تعالیٰ سے خیر ہی مانگنی چاہئے نہ معلوم کو ن سی گھڑی قبولیت کی ہو اور بعض اوقات ایسے ہو بھی جاتا ہے کہ اولاد کیلئے بددعا کی اور وہ قبولیت کی گھڑی تھی جس کے نتیجے میں اولاد پر واقعی وہ مصیبت و آفت آجاتی ہے جس کی بددعا کی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس طرح کی چیزوں سے اِحتراز ہی کرنا چاہیے۔ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بواط کی جنگ میں گئے ، آپ مَجدِی بن عمرو جُہَنی کو تلاش کر رہے تھے ، ایک اونٹ پر ہم پانچ، چھ اورسات آدمی باری باری سوار ہوتے تھے، ایک انصاری اونٹ پر بیٹھنے لگا تو اس نے اونٹ کو بٹھایا، پھر اس پر سوار ہو کر اسے چلانے لگا۔ اونٹ نے اس کے ساتھ کچھ سرکشی کی تو اس نے اونٹ کو کہا: شَاْ، اللہ تم پر لعنت کرے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت فرمایا کہ اونٹ پر لعنت کرنے والا شخص کون ہے؟ اس نے کہا:یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ میں ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’اس اونٹ سے اتر جاؤ اور ہمارے ساتھ ملعون جانور کو نہ رکھو، تم اپنے آپ کو بد دعا دو، نہ اپنی اولاد کو بد دعا دو اور نہ اپنے اَموال کو بد دعا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وہ گھڑی ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے کسی عطا کاسوال کیا جائے تو وہ دعا قبول ہوتی ہو۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب حدیث جابر الطویل وقصۃ ابی الیسر، ص۱۶۰۴، الحدیث: ۳۰۰۹)


*طالبِ دعاابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

اسلام کی کسی قطعی چیز پر کفار سے معاہدہ نہیں ہو سکتا

وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍۙ-قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُؕ-قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْۚ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۵)

ترجمہ

اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ہم سے ملاقات کی امید نہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے کر آؤ یا اسے تبدیل کردو ۔ تم فرماؤ: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے تبدیل کردوں ۔ میں تو اسی کا تابع ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے ۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

تفسیر

*{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ:اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے۔}* شانِ نزول : کفار کی ایک جماعت نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں تو آپ اس قرآن کے سوا دوسرا قرآن لائیے جس میں لات،عُزّیٰ، مَنات وغیرہ بتوں کی برائی اور ان کی عبادت چھوڑنے کا حکم نہ ہو اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسا قرآن نازل نہ کرے تو آپ اپنی طرف سے بنالیجئے یا اسی قرآن کو بدل کر ہماری مرضی کے مطابق کردیجئے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ ان کا یہ کلام یا تو تمسخر واِستہزاء کے طور پرتھا یا انہوں نے تجربہ و امتحان کے لئے ایسا کہا تھا کہ اگر یہ دوسرا قرآن بنا لائیں یا اس کو بدل دیں تو ثابت ہوجائے گا کہ قرآن کلامِ ربّانی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ میرے لئے حلال نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی کروں۔ میں تو کمی زیادتی اور تبدیلی کے بغیر صرف اسی کا تابع ہوں جو اللہ تعالیٰ میری طرف وحی فرماتا ہے اور یہ میرا کلام نہیں کہ میں اس میں تبدیلی کر سکوں بلکہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے اگر میں نے اپنی طرف سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کلام میں کوئی تبدیلی کر کے اس کی نافرمانی کی تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے اور ویسے بھی دوسرا قرآن بنانا انسان کے بس کی بات ہی نہیں کیونکہ انسا ن کااس سے عاجز ہونا تو اچھی طرح ظاہر ہو چکا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۲۹۳، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۸۵۹، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۶۶، ملتقطاً)

*اسلام کی کسی قطعی چیز پر کفار سے معاہدہ نہیں ہو سکتا:*

اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کفار کے ساتھ اسلام کے قَطْعِیّات میں سے کسی چیز پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کی خوشنودی کیلئے اسلام کی کوئی قطعی چیز چھوڑ دیں جیسے ان کی خوشی کیلئے سود کی اجازت دیں ، یا پردے کو ختم کردیں ،یا نمازوں میں کمی کرلیں یا گائے کی قربانی بند کردیں۔

قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ ﳲ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۱۶)

ترجمہ

تم فرماؤ: اگر اللہ چاہتا تو میں تمہارے سامنے اس کی تلاوت نہ کرتا اور نہ وہ تمہیں اس سے خبردار کرتا تو بیشک میں اس سے پہلے تم میں اپنی ایک عمر گزار چکا ہوں تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟

تفسیر


*{قُلْ:تم فرماؤ۔}* اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں جنہوں نے قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو مجھ پر نہ تویہ قرآن نازل کیا جاتا اور نہ میں تمہارے سامنے اس کی تلاوت کرتا اور نہ تمہیں خبردار کیا جاتا لہٰذا اس کی تلاوت محض اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے، نیز میں اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تم میں چالیس سال کا عرصہ گزار چکا ہوں اور اس زمانے میں تمہارے پاس کوئی کتاب نہیں لایا اور نہ تمہیں پہلے ایسی کوئی چیز سنائی ہے ، تم نے میرے اَحوال کا خوب مُشاہدہ کیا ہے، میں نے کسی سے ایک حرف نہیں پڑھا۔ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ، اس کے بعد یہ عظیم کتاب لایا ہوں جس کے سامنے ہر ایک فصیح کلام پَست اور بے حقیقت ہوگیا، اس کتاب میں نفیس عُلوم ہیں ، اُصول و فُروع کا بیان ہے، اَحکام و آداب میں مکارمِ اَخلاق کی تعلیم ہے، غیبی خبریں ہیں ،اس کی فصاحت و بلاغت نے ملک بھر کے فصیح و بلیغ افراد کو عاجز کردیا ہے، ہر عقلِ سلیم رکھنے والے کے لئے یہبات سورج سے زیادہ روشن ہوگئی ہے کہ ایسا کلام اللہ تعالیٰ کی وحی کے بغیر ممکن ہی نہیں تو کیا تمہیں عقل نہیں کہ اتنا سمجھ سکو کہ یہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے مخلوق کی قدرت می
ں نہیں کہ اس کی مثل بنا سکے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۶، ۲ / ۳۰۵-۳۰۶)

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ(۱۷)

ترجمہ

تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے؟ بیشک مجرم فلاح نہیں پائیں گے۔

تفسیر

*{فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا:تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔}* مشرکین نے یہ کہا تھا کہ قرآن نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھا ہے ، ان کے رد میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے یعنی بفرضِ محال اگر میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے کلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہوتا تو آپ سب سے بڑے ظالم قرار پاتے لیکن جب دلائل سے ثابت ہو چکا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام اوراس کی وحی ہے تو اب جو مشرکین اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام نہیں مانتے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات کو جھٹلانے والے اور لوگوں میں سب سے بڑے ظالم ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۲۲۶)

*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷

فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم

اللہ پاک کا کثرت سے ذکر کرنے اور پوشیدہ اور ظاہری طور پر کثرت سے صدقہ دینے کے ذریعے اللہ پاک سے اپنا رابطہ جوڑ لو تو تمہیں رزق دیا جائے گا.

( ابنِ ماجہ حدیث 1081 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

اسلام کی کسی قطعی چیز پر کفار سے معاہدہ نہیں ہو سکتا

وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍۙ-قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُؕ-قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْۚ-اِنْ اَتَّبِـعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۵)

ترجمہ

اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ہم سے ملاقات کی امید نہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے کر آؤ یا اسے تبدیل کردو ۔ تم فرماؤ: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے تبدیل کردوں ۔ میں تو اسی کا تابع ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے ۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

تفسیر

*{وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ:اور جب ان کے سامنے ہماری روشن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے۔}* شانِ نزول : کفار کی ایک جماعت نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں تو آپ اس قرآن کے سوا دوسرا قرآن لائیے جس میں لات،عُزّیٰ، مَنات وغیرہ بتوں کی برائی اور ان کی عبادت چھوڑنے کا حکم نہ ہو اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسا قرآن نازل نہ کرے تو آپ اپنی طرف سے بنالیجئے یا اسی قرآن کو بدل کر ہماری مرضی کے مطابق کردیجئے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ ان کا یہ کلام یا تو تمسخر واِستہزاء کے طور پرتھا یا انہوں نے تجربہ و امتحان کے لئے ایسا کہا تھا کہ اگر یہ دوسرا قرآن بنا لائیں یا اس کو بدل دیں تو ثابت ہوجائے گا کہ قرآن کلامِ ربّانی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ میرے لئے حلال نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی کروں۔ میں تو کمی زیادتی اور تبدیلی کے بغیر صرف اسی کا تابع ہوں جو اللہ تعالیٰ میری طرف وحی فرماتا ہے اور یہ میرا کلام نہیں کہ میں اس میں تبدیلی کر سکوں بلکہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ہے اگر میں نے اپنی طرف سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کلام میں کوئی تبدیلی کر کے اس کی نافرمانی کی تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے اور ویسے بھی دوسرا قرآن بنانا انسان کے بس کی بات ہی نہیں کیونکہ انسا ن کااس سے عاجز ہونا تو اچھی طرح ظاہر ہو چکا ہے۔(بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۲ / ۲۹۳، صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۸۵۹، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۶۶، ملتقطاً)

*اسلام کی کسی قطعی چیز پر کفار سے معاہدہ نہیں ہو سکتا:*

اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کفار کے ساتھ اسلام کے قَطْعِیّات میں سے کسی چیز پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کی خوشنودی کیلئے اسلام کی کوئی قطعی چیز چھوڑ دیں جیسے ان کی خوشی کیلئے سود کی اجازت دیں ، یا پردے کو ختم کردیں ،یا نمازوں میں کمی کرلیں یا گائے کی قربانی بند کردیں۔

قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ ﳲ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۱۶)

ترجمہ

تم فرماؤ: اگر اللہ چاہتا تو میں تمہارے سامنے اس کی تلاوت نہ کرتا اور نہ وہ تمہیں اس سے خبردار کرتا تو بیشک میں اس سے پہلے تم میں اپنی ایک عمر گزار چکا ہوں تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟

تفسیر


*{قُلْ:تم فرماؤ۔}* اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان مشرکین سے فرما دیں جنہوں نے قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو مجھ پر نہ تویہ قرآن نازل کیا جاتا اور نہ میں تمہارے سامنے اس کی تلاوت کرتا اور نہ تمہیں خبردار کیا جاتا لہٰذا اس کی تلاوت محض اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے، نیز میں اس قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تم میں چالیس سال کا عرصہ گزار چکا ہوں اور اس زمانے میں تمہارے پاس کوئی کتاب نہیں لایا اور نہ تمہیں پہلے ایسی کوئی چیز سنائی ہے ، تم نے میرے اَحوال کا خوب مُشاہدہ کیا ہے، میں نے کسی سے ایک حرف نہیں پڑھا۔ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ، اس کے بعد یہ عظیم کتاب لایا ہوں جس کے سامنے ہر ایک فصیح کلام پَست اور بے حقیقت ہوگیا، اس کتاب میں نفیس عُلوم ہیں ، اُصول و فُروع کا بیان ہے، اَحکام و آداب میں مکارمِ اَخلاق کی تعلیم ہے، غیبی خبریں ہیں ،اس کی فصاحت و بلاغت نے ملک بھر کے فصیح و بلیغ افراد کو عاجز کردیا ہے، ہر عقلِ سلیم رکھنے والے کے لئے یہبات سورج سے زیادہ روشن ہوگئی ہے کہ ایسا کلام اللہ تعالیٰ کی وحی کے بغیر ممکن ہی نہیں تو کیا تمہیں عقل نہیں کہ اتنا سمجھ سکو کہ یہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے مخلوق کی قدرت می
ں نہیں کہ اس کی مثل بنا سکے۔ (خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۶، ۲ / ۳۰۵-۳۰۶)

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ(۱۷)

ترجمہ

تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے؟ بیشک مجرم فلاح نہیں پائیں گے۔

تفسیر

*{فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا:تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔}* مشرکین نے یہ کہا تھا کہ قرآن نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھا ہے ، ان کے رد میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے یعنی بفرضِ محال اگر میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے کلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہوتا تو آپ سب سے بڑے ظالم قرار پاتے لیکن جب دلائل سے ثابت ہو چکا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ قرآن اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام اوراس کی وحی ہے تو اب جو مشرکین اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام نہیں مانتے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات کو جھٹلانے والے اور لوگوں میں سب سے بڑے ظالم ہیں۔ (تفسیرکبیر، یونس، تحت الآیۃ: ۱۷، ۶ / ۲۲۶)

*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷

فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم

اللہ پاک کا کثرت سے ذکر کرنے اور پوشیدہ اور ظاہری طور پر کثرت سے صدقہ دینے کے ذریعے اللہ پاک سے اپنا رابطہ جوڑ لو تو تمہیں رزق دیا جائے گا.

( ابنِ ماجہ حدیث 1081 )