العمال، حرف الطاء، کتاب الطہارۃ، قسم الاقوال، الباب الاول فی فضل الطہارۃ مطلقاً، ۵ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۵۹۹۶، الجزء التاسع )
ایک روایت میں ہے کہ جو چیز تمہیں مُیَسّر ہو اس سے نظافت حاصل کرو، اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں صاف ستھرے رہنے والے ہی داخل ہوں گے۔ (جمع الجوامع، حرف التائ، التاء مع النون، ۴ / ۱۱۵، الحدیث: ۱۰۶۲۴)
حضرت سہل بن حنظلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری ہیئت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔ (جامع صغیر، حرف الہمزۃ،ص۲۲، الحدیث: ۲۵۷)
حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حُکّام اور علماء کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔(فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۱ / ۲۴۹، تحت الحدیث: ۲۵۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ’’ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے یہاں تشریف لائے، ایک شخص کو پَراگندہ سر دیکھا، جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں ، فرمایا: ’’کیا اس کو ایسی چیز نہیں ملتی جس سے بالوں کو اکٹھا کرلے اور دوسرے شخص کو میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا اسے ایسی چیز نہیں ملتی، جس سے کپڑے دھولے۔(ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی غسل الثوب وفی الخلقان، ۴ / ۷۲، الحدیث: ۴۰۶۲)
حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف اشارہ کیا، گویا بالوں کے درست کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ شخص درست کرکے واپس آیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ کوئی شخص بالوں کو اس طرح بکھیر کر آتا ہے گویا وہ شیطان ہے۔ (مؤطا امام مالک، کتاب الشعر، باب اصلاح الشعر، ۲ / ۴۳۵، الحدیث: ۱۸۱۹)
حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ طیِّب ہے۔ طِیْب یعنی خوشبو کو دوست رکھتا ہے، ستھرا ہے ستھرائی کو دوست رکھتا ہے، کریم ہے کرم کو دوست رکھتا ہے، جواد ہے جودو سخاوت کو دوست رکھتا ہے۔ لہٰذا اپنے صحن کو ستھرا رکھو، یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی النظافۃ، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۲۸۰۸)
اسلا م میں صفائی کی اہمیت کے حوالے سے سرِ دست یہ چند روایتیں ذکر کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
*طالبِ دعاابوعمر*
ایک روایت میں ہے کہ جو چیز تمہیں مُیَسّر ہو اس سے نظافت حاصل کرو، اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں صاف ستھرے رہنے والے ہی داخل ہوں گے۔ (جمع الجوامع، حرف التائ، التاء مع النون، ۴ / ۱۱۵، الحدیث: ۱۰۶۲۴)
حضرت سہل بن حنظلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری ہیئت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔ (جامع صغیر، حرف الہمزۃ،ص۲۲، الحدیث: ۲۵۷)
حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حُکّام اور علماء کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔(فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۱ / ۲۴۹، تحت الحدیث: ۲۵۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ’’ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے یہاں تشریف لائے، ایک شخص کو پَراگندہ سر دیکھا، جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں ، فرمایا: ’’کیا اس کو ایسی چیز نہیں ملتی جس سے بالوں کو اکٹھا کرلے اور دوسرے شخص کو میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا اسے ایسی چیز نہیں ملتی، جس سے کپڑے دھولے۔(ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی غسل الثوب وفی الخلقان، ۴ / ۷۲، الحدیث: ۴۰۶۲)
حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف اشارہ کیا، گویا بالوں کے درست کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ شخص درست کرکے واپس آیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ کوئی شخص بالوں کو اس طرح بکھیر کر آتا ہے گویا وہ شیطان ہے۔ (مؤطا امام مالک، کتاب الشعر، باب اصلاح الشعر، ۲ / ۴۳۵، الحدیث: ۱۸۱۹)
حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ طیِّب ہے۔ طِیْب یعنی خوشبو کو دوست رکھتا ہے، ستھرا ہے ستھرائی کو دوست رکھتا ہے، کریم ہے کرم کو دوست رکھتا ہے، جواد ہے جودو سخاوت کو دوست رکھتا ہے۔ لہٰذا اپنے صحن کو ستھرا رکھو، یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی النظافۃ، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۲۸۰۸)
اسلا م میں صفائی کی اہمیت کے حوالے سے سرِ دست یہ چند روایتیں ذکر کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
’’ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو گیا تو واپس ہونے تک ہمیشہ جنت کے پھل چننے میں رہا۔‘‘
(صحیح مسلم الحدیث: 41۔(2546)
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
’’ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو گیا تو واپس ہونے تک ہمیشہ جنت کے پھل چننے میں رہا۔‘‘
(صحیح مسلم الحدیث: 41۔(2546)
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
اعمال کے معاملے میں عقائد کی حیثیت :
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٍ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۱۰۹)
ترجمہ
تو کیا جس نے اپنی عمارت کی بنیاداللہ سے ڈرنے اور اس کی رضا پررکھی وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے کنارے پر رکھی جو گرنے والی ہے پھر وہ عمارت اس (اپنے بانی) کو لے کر جہنم کی آگ میں گر پڑے اور اللہ ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔
تفسیر
*{اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ:تو کیا جس نے اپنی بنیاد رکھی۔}* آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دین کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی کی مضبوط سطح پر رکھی وہ بہتر ہے نہ کہ وہ جس نے اپنے دین کی بنیاد باطل و نفاق کے ٹوٹے ہوئے کناروں والے گڑھے پر رکھی۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۴۵۵)
*ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی:*
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! کیسی پیاری تشبیہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مسجدِ ضِرار اور منافقین کے سارے اعمال اس عمارت کی طرح ہیں جو دریا کے نیچے سے کاٹی یا گلی ہوئی زمین پر بنادی جائے اور پھر وہ زمین مع اس عمارت کے دریا میں گر جائے۔ ایسے ہی منافقین کی مسجدیں ہیں کہ ان کی مسجد بھی دوزخ میں ہے، اور وہ خود بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کی میٹھی باتوں اور ظاہری نیکیوں کو دیکھ کر اس کے نیک ہونے کا یقین نہ کرلینا چاہیے، ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی۔ یہ آیت ِ مبارکہ اس بات کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ مسجدوں کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی پر ہونی چاہیے ۔ لہٰذا صرف اپنی برادری کا علم بلند کرنے کیلئے یا اس طرح کی کوئی دوسری فخریہ چیز کیلئے مسجدیں نہیں ہونی چاہئیں ، ہاں ان کی نیک نامی اور مسلمانوں کی ان کیلئے دعائیں مطلوب ہوں تو درست ہے۔ اسی طرح مختلف ناموں پر مسجدوں کے نام رکھنے کا معاملہ ہے کہ اگر اس سے ریا کاری اور فخرو تکبر کا اِظہار مقصود ہے تو حرام ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ اس سے لوگوں کو مسجدیں بنانے کی ترغیب ملے یا جو اس کا نام پڑھے وہ اس کے لئے دعائے خیر کر ے تو یہ جائز ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے نام لکھنے کے معاملے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ’’ریاء کو حرام مگر بلاوجہِ شرعی مسلمان پر قصد ِریا کی بدگمانی بھی حرام، اور بنظرِ دعا ہے تو حرج نہیں۔ (فتاوی رضویہ، ۱۶ / ۴۹۹)
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠(۱۱۰)
ترجمہ
اُن کی تعمیر شدہ عمارت ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور اللہ علم والا ، حکمت والا ہے۔
تفسیر
*{لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ: اُن کی تعمیر شدہ عمارت ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی۔}* آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان منافقوں نے جو عمارت تعمیر کی تھی وہ ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی اور اس کے گرائے جانے کا صدمہ باقی رہے گا یہاں تک کہ قتل ہو کر یا مر کر یا قبر میں یا جہنم میں ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کے دلوں کا غم و غصہ مرتے دم تک باقی رہے گا اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جب تک اُن کے دل اپنے قصور کی ندامت اور افسوس سے پارہ پارہ نہ ہوں اور وہ اخلاص سے تائب نہ ہوں اس وقت تک وہ اسی رنج و غم میں رہیں گے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۴۵۶)
*اعمال کے معاملے میں عقائد کی حیثیت :*
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اعمال کے معاملے میں عقائد کا درست ہونا اور باطن کا صاف ہو نابنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور جس طرح پانی پر کوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی بلکہ عمارت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے سخت زمین پر بنایا جائے اسی طرح اعمال کے قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی بنیاد درست عقائد اور تکبر،ریا وغیرہ سے صاف باطن پر رکھی جائے ،اگرعقائد درست نہ ہوں یا عقائدمیں پلپلہ پن ہو اور باطن بھی صاف نہ ہو تو ان پر اعمال کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی اس لئے ہر عقلمند انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دین اور اعمال کی بنیاد درست عقائد ،اخلاص اور تقویٰ و پرہیز گاری پر رکھے تاکہ اس کے اعمال سے اسے نفع حاصل ہو۔
*طالبِ دعاابوعمر*
اعمال کے معاملے میں عقائد کی حیثیت :
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٍ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۱۰۹)
ترجمہ
تو کیا جس نے اپنی عمارت کی بنیاداللہ سے ڈرنے اور اس کی رضا پررکھی وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے کنارے پر رکھی جو گرنے والی ہے پھر وہ عمارت اس (اپنے بانی) کو لے کر جہنم کی آگ میں گر پڑے اور اللہ ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔
تفسیر
*{اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ:تو کیا جس نے اپنی بنیاد رکھی۔}* آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دین کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی کی مضبوط سطح پر رکھی وہ بہتر ہے نہ کہ وہ جس نے اپنے دین کی بنیاد باطل و نفاق کے ٹوٹے ہوئے کناروں والے گڑھے پر رکھی۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۴۵۵)
*ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی:*
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! کیسی پیاری تشبیہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مسجدِ ضِرار اور منافقین کے سارے اعمال اس عمارت کی طرح ہیں جو دریا کے نیچے سے کاٹی یا گلی ہوئی زمین پر بنادی جائے اور پھر وہ زمین مع اس عمارت کے دریا میں گر جائے۔ ایسے ہی منافقین کی مسجدیں ہیں کہ ان کی مسجد بھی دوزخ میں ہے، اور وہ خود بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کی میٹھی باتوں اور ظاہری نیکیوں کو دیکھ کر اس کے نیک ہونے کا یقین نہ کرلینا چاہیے، ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی۔ یہ آیت ِ مبارکہ اس بات کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ مسجدوں کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی پر ہونی چاہیے ۔ لہٰذا صرف اپنی برادری کا علم بلند کرنے کیلئے یا اس طرح کی کوئی دوسری فخریہ چیز کیلئے مسجدیں نہیں ہونی چاہئیں ، ہاں ان کی نیک نامی اور مسلمانوں کی ان کیلئے دعائیں مطلوب ہوں تو درست ہے۔ اسی طرح مختلف ناموں پر مسجدوں کے نام رکھنے کا معاملہ ہے کہ اگر اس سے ریا کاری اور فخرو تکبر کا اِظہار مقصود ہے تو حرام ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ اس سے لوگوں کو مسجدیں بنانے کی ترغیب ملے یا جو اس کا نام پڑھے وہ اس کے لئے دعائے خیر کر ے تو یہ جائز ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے نام لکھنے کے معاملے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ’’ریاء کو حرام مگر بلاوجہِ شرعی مسلمان پر قصد ِریا کی بدگمانی بھی حرام، اور بنظرِ دعا ہے تو حرج نہیں۔ (فتاوی رضویہ، ۱۶ / ۴۹۹)
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠(۱۱۰)
ترجمہ
اُن کی تعمیر شدہ عمارت ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور اللہ علم والا ، حکمت والا ہے۔
تفسیر
*{لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ: اُن کی تعمیر شدہ عمارت ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی۔}* آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان منافقوں نے جو عمارت تعمیر کی تھی وہ ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی اور اس کے گرائے جانے کا صدمہ باقی رہے گا یہاں تک کہ قتل ہو کر یا مر کر یا قبر میں یا جہنم میں ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کے دلوں کا غم و غصہ مرتے دم تک باقی رہے گا اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جب تک اُن کے دل اپنے قصور کی ندامت اور افسوس سے پارہ پارہ نہ ہوں اور وہ اخلاص سے تائب نہ ہوں اس وقت تک وہ اسی رنج و غم میں رہیں گے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۴۵۶)
*اعمال کے معاملے میں عقائد کی حیثیت :*
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اعمال کے معاملے میں عقائد کا درست ہونا اور باطن کا صاف ہو نابنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور جس طرح پانی پر کوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی بلکہ عمارت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے سخت زمین پر بنایا جائے اسی طرح اعمال کے قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی بنیاد درست عقائد اور تکبر،ریا وغیرہ سے صاف باطن پر رکھی جائے ،اگرعقائد درست نہ ہوں یا عقائدمیں پلپلہ پن ہو اور باطن بھی صاف نہ ہو تو ان پر اعمال کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی اس لئے ہر عقلمند انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دین اور اعمال کی بنیاد درست عقائد ،اخلاص اور تقویٰ و پرہیز گاری پر رکھے تاکہ اس کے اعمال سے اسے نفع حاصل ہو۔
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر درود شریف پڑھے گا تو بروزِ قیامت اس کی شفاعت میرے ذمہ کرم پر ہوگی.
( کنزالعمال حدیث 2236 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر درود شریف پڑھے گا تو بروزِ قیامت اس کی شفاعت میرے ذمہ کرم پر ہوگی.
( کنزالعمال حدیث 2236 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
جنت اور اس کے لئے جان قربان کرنے والوں کی عظمت:
نعمت ملنے پرخوشی کا اظہار کرنا اچھا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ- وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِؕ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖؕ-وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۱۱)
ترجمہ
بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے ، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں تو قتل کرتے ہیں اور شہید ہوتے ہیں ۔ یہ اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ ہے، توریت اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوشیاں مناؤ جو سودا تم نے اللہ کے ساتھ کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
تفسیر
*{اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى:بیشک اللہ نے خرید لئے۔}* اس آیت میں راہ ِخدا میں جان و مال خرچ کرکے جنت پانے والے ایمان داروں کی ایک مثال بیان کی گئی ہے جس سے کمال لطف و کرم کا اظہار ہوتا ہے کہ پروردگار ِعالَم عَزَّوَجَلَّ نے انہیں جنت عطا فرمانا اُن کے جان و مال کا عوض قرار دیا اور اپنے آپ کو خریدار فرمایا یہ کمال عزت افزائی ہے کہ و ہ ہمارا خریدار بنے اور ہم سے خریدے ۔کس چیز کو؟ وہ جو نہ ہماری بنائی ہوئی ہے اور نہ ہماری پیدا کی ہوئی۔ جان ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی اور مال ہے تو اس کا عطا فرمایا ہوا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶، ملخصاً)
شانِ نزول: جب انصار نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے شبِ عَقبہ، بیعت کی تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لئے اور اپنے لئے کچھ شرط فرما لیجئے جو آپ چاہیں۔ ارشاد فرمایا ’’ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو یہ شرط کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور اپنے لئے یہ کہ جن چیزوں سے تم اپنے جان و مال کو بچاتے اور محفوظ رکھتے ہو اس کو میرے لئے بھی گوارا نہ کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ’’ ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ ارشاد فرمایا ’’ جنت۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۲۸۴)
*{وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ:یہ اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ ہے توریت اور انجیل اور قرآن میں۔}* یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں سے جو وعدہ فرمایا ہے وہ جس طرح قرآن میں موجود ہے اسی طرح تورات اور انجیل میں بھی تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۲۸۴)
*انجیل میں بھی مجاہدین کی جزاء کا بیان ہے:*
عیسائی شور مچاتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں تو ایسا کوئی وعدہ نہیں ہے، یہ ان کی انجیل سے بھی جہالت کی علامت ہے کہ اولاً تو آج کی انجیل تحریف شدہ ہے ۔ اب اگر ایسی آیت نہ بھی ہو تو کیا اعتراض کہ جب قرآن نے یہ فرمایا تھا اس وقت یقینا موجود تھی ورنہ اس وقت بھی نجران وغیرہ بلکہ خود مدینہ طیبہ کے قرب و جوار میں عیسائی موجود تھے اور قرآن کی آیت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے اور ثانیاً یہ کہ آج کی انجیل میں بغور دیکھیں تو اس مفہوم کی آیات موجود ہیں۔
*{وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ:اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟}* کیونکہ وعدہ خلافی کرنا معیوب ہے،ہم میں سے کوئی سخی وعدہ خلافی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ جوکہ سب سے بڑا کریم ہے وہ اپنے وعدے کے خلاف کیسے کر سکتا ہے۔ جہاد سے متعلق یہ سب سے بہترین ترغیب ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
*{فَاسْتَبْشِرُوْا:خوشیاں مناؤ ۔}* یعنی تم بے حد خوشیاں مناؤ کیونکہ تم نے فنا ہو جانے والی چیزکو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز کے بدلے میں بیچ دیا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
*جنت اور اس کے لئے جان قربان کرنے والوں کی عظمت:*
اس آیتِ مبارکہ میں جنت کی عظمت کا بھی بیان ہے اور جنت کیلئے جان قربان کردینے والوں کی بھی عظمت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تمہارے جسموں کی قیمت جنت کے سوا اور کوئی نہیں تو تم اپنے جسموں کو جنت کے بدلے ہی بیچو۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
یہاں جنت کی طلب سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت حکم بن عبدالسلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے (کہ جنگِ موتہ میں ) جب حضرت جعفر بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید کر دیئے گئے تو لوگو ں نے بلند آواز سے حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
جنت اور اس کے لئے جان قربان کرنے والوں کی عظمت:
نعمت ملنے پرخوشی کا اظہار کرنا اچھا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ- وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِؕ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖؕ-وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۱۱)
ترجمہ
بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے ، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں تو قتل کرتے ہیں اور شہید ہوتے ہیں ۔ یہ اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ ہے، توریت اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوشیاں مناؤ جو سودا تم نے اللہ کے ساتھ کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
تفسیر
*{اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى:بیشک اللہ نے خرید لئے۔}* اس آیت میں راہ ِخدا میں جان و مال خرچ کرکے جنت پانے والے ایمان داروں کی ایک مثال بیان کی گئی ہے جس سے کمال لطف و کرم کا اظہار ہوتا ہے کہ پروردگار ِعالَم عَزَّوَجَلَّ نے انہیں جنت عطا فرمانا اُن کے جان و مال کا عوض قرار دیا اور اپنے آپ کو خریدار فرمایا یہ کمال عزت افزائی ہے کہ و ہ ہمارا خریدار بنے اور ہم سے خریدے ۔کس چیز کو؟ وہ جو نہ ہماری بنائی ہوئی ہے اور نہ ہماری پیدا کی ہوئی۔ جان ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی اور مال ہے تو اس کا عطا فرمایا ہوا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶، ملخصاً)
شانِ نزول: جب انصار نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے شبِ عَقبہ، بیعت کی تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لئے اور اپنے لئے کچھ شرط فرما لیجئے جو آپ چاہیں۔ ارشاد فرمایا ’’ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو یہ شرط کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور اپنے لئے یہ کہ جن چیزوں سے تم اپنے جان و مال کو بچاتے اور محفوظ رکھتے ہو اس کو میرے لئے بھی گوارا نہ کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ’’ ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ ارشاد فرمایا ’’ جنت۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۲۸۴)
*{وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ:یہ اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ ہے توریت اور انجیل اور قرآن میں۔}* یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں سے جو وعدہ فرمایا ہے وہ جس طرح قرآن میں موجود ہے اسی طرح تورات اور انجیل میں بھی تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۲۸۴)
*انجیل میں بھی مجاہدین کی جزاء کا بیان ہے:*
عیسائی شور مچاتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں تو ایسا کوئی وعدہ نہیں ہے، یہ ان کی انجیل سے بھی جہالت کی علامت ہے کہ اولاً تو آج کی انجیل تحریف شدہ ہے ۔ اب اگر ایسی آیت نہ بھی ہو تو کیا اعتراض کہ جب قرآن نے یہ فرمایا تھا اس وقت یقینا موجود تھی ورنہ اس وقت بھی نجران وغیرہ بلکہ خود مدینہ طیبہ کے قرب و جوار میں عیسائی موجود تھے اور قرآن کی آیت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے اور ثانیاً یہ کہ آج کی انجیل میں بغور دیکھیں تو اس مفہوم کی آیات موجود ہیں۔
*{وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ:اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟}* کیونکہ وعدہ خلافی کرنا معیوب ہے،ہم میں سے کوئی سخی وعدہ خلافی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ جوکہ سب سے بڑا کریم ہے وہ اپنے وعدے کے خلاف کیسے کر سکتا ہے۔ جہاد سے متعلق یہ سب سے بہترین ترغیب ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
*{فَاسْتَبْشِرُوْا:خوشیاں مناؤ ۔}* یعنی تم بے حد خوشیاں مناؤ کیونکہ تم نے فنا ہو جانے والی چیزکو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز کے بدلے میں بیچ دیا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
*جنت اور اس کے لئے جان قربان کرنے والوں کی عظمت:*
اس آیتِ مبارکہ میں جنت کی عظمت کا بھی بیان ہے اور جنت کیلئے جان قربان کردینے والوں کی بھی عظمت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تمہارے جسموں کی قیمت جنت کے سوا اور کوئی نہیں تو تم اپنے جسموں کو جنت کے بدلے ہی بیچو۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
یہاں جنت کی طلب سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت حکم بن عبدالسلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے (کہ جنگِ موتہ میں ) جب حضرت جعفر بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید کر دیئے گئے تو لوگو ں نے بلند آواز سے حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کو پکارا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس وقت لشکر کی ایک طرف موجود تھے اور تین دن سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کچھ بھی نہ کھایا تھا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی جسے بھوک کی وجہ سے چو س رہے تھے ۔ (جب حضرت جعفربن ابوطالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کی خبر سنی) تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بے تاب ہو کر ہڈی پھینک دی اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے: اے عبداللہ! ابھی تک تیرے پاس دُنْیَوی چیز موجود ہے ! پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بڑی بے جگری سے دشمن پر ٹوٹ پڑے ،اس دوران تلوار کے وار سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی انگلی کٹ گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ اشعار پڑھے:
تو نے صرف یہ انگلی کٹوائی ہے اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ اے نفس! شہید ہوجا ورنہ موت کا فیصلہ تجھے قتل کرڈالے گا اور تجھے ضرور موت دی جائے گی ۔ تو نے جس چیز کی تمنا کی تجھے وہ چیز دی گئی ۔ اب اگر تو بھی ان دونوں ( یعنی حضرت زید بن حارث اور حضرت جعفر بن ابوطالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)کی طرح شہید ہو گیا تو کامیاب ہے اور اگر تو نے تاخیر کی تو تحقیق بد بختی تیرا مقدر ہوگی ۔
پھر اپنے نفس کو مُخاطَب کر کے فرمانے لگے: ’’اے نفس !تجھے کس چیز کی تمنا ہے؟ کیا فلاں کی ؟ تو سن! اسے تین طلاق۔ کیا تجھے فلاں فلاں لونڈی وغلام اور فلاں باغ سے محبت ہے؟ تو سن ! اپنی یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے چھوڑ دے ۔ اے نفس! تجھے کیا ہوگیا کہ تو جنت کو ناپسند کررہا ہے ؟ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ تجھے اس میں ضرور جانا پڑے گا، اب تیری مرضی چاہے خوش ہوکر جایا مجبور ہو کر ۔جا! خوش ہو کر جا! بے شک تو وہاں مطمئن رہے گا، تو پانی کا ایک قطرہ ہی تو ہے ،( پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بالآخر لڑتے لڑتےجامِ شہادت نوش فرماگئے ۔ )( عیون الحکایات، الحکایۃ السادسۃ والسبعون بعد الثلاث مائۃ، ص۳۲۸-۳۲۹)
*نعمت ملنے پرخوشی کا اظہار کرنا اچھا ہے:*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ملنے پر خوشی منانا اچھا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت یا کوئی دوسری بشارت ملے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے جیسے اس آیت میں اس چیز کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے۔
*طالبِ دعا ابوعمر*
تو نے صرف یہ انگلی کٹوائی ہے اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ اے نفس! شہید ہوجا ورنہ موت کا فیصلہ تجھے قتل کرڈالے گا اور تجھے ضرور موت دی جائے گی ۔ تو نے جس چیز کی تمنا کی تجھے وہ چیز دی گئی ۔ اب اگر تو بھی ان دونوں ( یعنی حضرت زید بن حارث اور حضرت جعفر بن ابوطالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)کی طرح شہید ہو گیا تو کامیاب ہے اور اگر تو نے تاخیر کی تو تحقیق بد بختی تیرا مقدر ہوگی ۔
پھر اپنے نفس کو مُخاطَب کر کے فرمانے لگے: ’’اے نفس !تجھے کس چیز کی تمنا ہے؟ کیا فلاں کی ؟ تو سن! اسے تین طلاق۔ کیا تجھے فلاں فلاں لونڈی وغلام اور فلاں باغ سے محبت ہے؟ تو سن ! اپنی یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے چھوڑ دے ۔ اے نفس! تجھے کیا ہوگیا کہ تو جنت کو ناپسند کررہا ہے ؟ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ تجھے اس میں ضرور جانا پڑے گا، اب تیری مرضی چاہے خوش ہوکر جایا مجبور ہو کر ۔جا! خوش ہو کر جا! بے شک تو وہاں مطمئن رہے گا، تو پانی کا ایک قطرہ ہی تو ہے ،( پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بالآخر لڑتے لڑتےجامِ شہادت نوش فرماگئے ۔ )( عیون الحکایات، الحکایۃ السادسۃ والسبعون بعد الثلاث مائۃ، ص۳۲۸-۳۲۹)
*نعمت ملنے پرخوشی کا اظہار کرنا اچھا ہے:*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ملنے پر خوشی منانا اچھا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت یا کوئی دوسری بشارت ملے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے جیسے اس آیت میں اس چیز کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے۔
*طالبِ دعا ابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
اللہ تعالٰی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے.
(صحیح بخاری حدیث 5646 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
اللہ تعالٰی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے.
(صحیح بخاری حدیث 5646 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۲)
ترجمہ
توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے،حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور مسلمانوں کو (جنت کی) خوشخبری سنا دو۔
تفسیر
*{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔}* بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ان مومنین کے ساتھ ہے جن کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوا، اس صورت میں اوپر والی آیت میں دیا گیا جنت کا وعدہ ان مجاہدین کے ساتھ خاص ہو گا جن میں اس آیت میں مذکور اوصاف پائے جائیں۔ امام زجاج کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ماقبل آیت میں مذکور مومنین کے ساتھ نہیں بلکہ یہ جدا طور پر بیان کئے گئے ہیں ، ’’اَلتَّآئِبُوۡنَ‘‘ سے لے کر آخر تک ذکر کئے گئے اوصاف جن میں پائے جائیں ان کے لئے بھی جنت ہے اگرچہ وہ (نفلی) جہاد نہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
’’وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى‘‘ (النساء:۹۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے۔
اکثر مفسرین کے نزدیک آیت کا یہ معنی بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں جنت کا وعدہ تمام مومنین کے لئے ہو گا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۲-۱۵۳، ملخصاً)
*{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔}* اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جن ایمان والوں کا اس سے پہلی آیت میں ذکر ہوا وہی کفر سے حقیقی توبہ کرنے والے ،اسلام کی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، پانچوں نمازیں پابندی سے ادا کرنے والے، ایمان معرفت اور اطاعت کا حکم دینے والے، شرک اور گناہوں سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدوں یعنی اس کے اَمر و نہی کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان صفات سے متصف ایمان والوں کو (جنت کی ) خوشخبری سنادو۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ص۴۵۶-۴۵۷)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ کرنے والے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمانبردار بندے جو اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کو اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں۔ نمازوں کے پابند اور ان کو خوبی سے ادا کرنے والے ہیں۔ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اس کے احکام بجا لانے والے یہ لوگ جنتی ہیں۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عہد و فا کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۲۸۵)
*{وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ:اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ۔}* اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جن اَحکام کا پابند کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں ، یہ تمام احکام دو قسموں میں منحصر ہیں (1) عبادات ،جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ۔ (2) معاملات، جیسے خریدو فروخت ،نکاح اور طلاق وغیرہ۔ ان دونوں قسموں میں سے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لانا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حدوں کی حفاظت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۵، قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۴ / ۱۵۵، الجزء الثامن، ملتقطاً)
اسی بات کو عام الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقوقُ اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔ یہ نہیں کہ حقوقُ اللہ میں مگن ہو کر حقوق العباد چھوڑ دیں اور حقوق العباد میں مصروف ہوکر حقوقُ اللہ سے غافل ہوجائیں۔ ہمارے ہاں یہ اِفراط و تفریط بکثرت پائی جاتی ہے اور یہ دین سے جہالت کی وجہ سے ہے۔
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(۱۱۳)
ترجمہ
نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں ۔
تفسیر
*{مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں۔}* شانِ نزول: اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا تھا کہ میں تمہارے لئے استغفار کروں گا جب تک کہ مجھے ممانعت نہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ممانعت فرمادی۔ (بخاری، کتاب التفسیر،
اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۲)
ترجمہ
توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے،حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور مسلمانوں کو (جنت کی) خوشخبری سنا دو۔
تفسیر
*{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔}* بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ان مومنین کے ساتھ ہے جن کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوا، اس صورت میں اوپر والی آیت میں دیا گیا جنت کا وعدہ ان مجاہدین کے ساتھ خاص ہو گا جن میں اس آیت میں مذکور اوصاف پائے جائیں۔ امام زجاج کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ماقبل آیت میں مذکور مومنین کے ساتھ نہیں بلکہ یہ جدا طور پر بیان کئے گئے ہیں ، ’’اَلتَّآئِبُوۡنَ‘‘ سے لے کر آخر تک ذکر کئے گئے اوصاف جن میں پائے جائیں ان کے لئے بھی جنت ہے اگرچہ وہ (نفلی) جہاد نہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
’’وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى‘‘ (النساء:۹۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے۔
اکثر مفسرین کے نزدیک آیت کا یہ معنی بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں جنت کا وعدہ تمام مومنین کے لئے ہو گا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۲-۱۵۳، ملخصاً)
*{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔}* اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جن ایمان والوں کا اس سے پہلی آیت میں ذکر ہوا وہی کفر سے حقیقی توبہ کرنے والے ،اسلام کی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، پانچوں نمازیں پابندی سے ادا کرنے والے، ایمان معرفت اور اطاعت کا حکم دینے والے، شرک اور گناہوں سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدوں یعنی اس کے اَمر و نہی کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان صفات سے متصف ایمان والوں کو (جنت کی ) خوشخبری سنادو۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ص۴۵۶-۴۵۷)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ کرنے والے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمانبردار بندے جو اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کو اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں۔ نمازوں کے پابند اور ان کو خوبی سے ادا کرنے والے ہیں۔ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اس کے احکام بجا لانے والے یہ لوگ جنتی ہیں۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عہد و فا کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۲۸۵)
*{وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ:اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ۔}* اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جن اَحکام کا پابند کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں ، یہ تمام احکام دو قسموں میں منحصر ہیں (1) عبادات ،جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ۔ (2) معاملات، جیسے خریدو فروخت ،نکاح اور طلاق وغیرہ۔ ان دونوں قسموں میں سے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لانا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حدوں کی حفاظت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۵، قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۴ / ۱۵۵، الجزء الثامن، ملتقطاً)
اسی بات کو عام الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقوقُ اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔ یہ نہیں کہ حقوقُ اللہ میں مگن ہو کر حقوق العباد چھوڑ دیں اور حقوق العباد میں مصروف ہوکر حقوقُ اللہ سے غافل ہوجائیں۔ ہمارے ہاں یہ اِفراط و تفریط بکثرت پائی جاتی ہے اور یہ دین سے جہالت کی وجہ سے ہے۔
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(۱۱۳)
ترجمہ
نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں ۔
تفسیر
*{مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں۔}* شانِ نزول: اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا تھا کہ میں تمہارے لئے استغفار کروں گا جب تک کہ مجھے ممانعت نہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ممانعت فرمادی۔ (بخاری، کتاب التفسیر،
باب ما کان للنبیّ والذین آمنوا۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۰، الحدیث: ۴۶۷۵)
بعض مفسرین نے یہ شانِ نزول بیان کیا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اپنی والدہ کی زیارت ِ قبر کی اجازت چاہی اس نے مجھے اجازت دی پھر میں نے ان کے لئے استغفار کی اجازت چاہی تو مجھے اجازت نہ دی اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ’’مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ‘‘(مستدرک، کتاب التفسیر، زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر امّہ آمنۃ، ۳ / ۷۱، الحدیث: ۳۳۴۵)
لیکن یہ ہرگز درست نہیں چنانچہ صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ شانِ نزول کی یہ وجہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث حاکم نے روایت کی اور اس کو صحیح بتایا اور ذہبی نے حاکم پر اعتماد کرکے میزان میں اس کی تصحیح کی لیکن مُخْتَصِرُ الْمُسْتَدْرَکْ میں ذہبی نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا کہ ایوب بن ہانی کو ابنِ معین نے ضعیف بتایا ہے، علاوہ بریں یہ حدیث بخاری کی حدیث کے مخالف بھی ہے جس میں اس آیت کے نزول کا سبب آپ کا والدہ کے لئے استغفار کرنا نہیں بتایا گیا بلکہ بخاری کی حدیث سے یہی ثابت ہے کہ ابو طالب کے لئے استغفار کرنے سے متعلق یہ آیت وارد ہوئی، اس کے علاوہ اور حدیثیں جو اس مضمون کی ہیں جن کو طبرانی ، ابنِ سعد اور ابنِ شاہین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم وغیرہ نے روایت کیا ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ابنِ سعد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے طبقات میں حدیث کی تخریج کے بعد اس کو غلط بتایا اور سند المحدثین امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے رسالہ ’’اَلتَّعْظِیْمُ وَالْمَنَّۃُ‘‘ میں اس مضمون کی تمام اَحادیث کو معلول بتایا ،لہٰذا یہ وجہ شانِ نزول میں صحیح نہیں اور یہ بات ثابت ہے، اس پر بہت سے دلائل قائم ہیں کہ سیّدعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی والدہ ماجدہ مُوَحِّدہ (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے والی) اور دینِ ابراہیمی پرتھیں۔
*{مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ:جبکہ ان کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔}* یعنی جب ان کیلئے ظاہر ہو چکا کہ وہ شرک پر مرے ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۴۵۷)خیال رہے کہ کسی مشرک کا مرتے وقت تک مسلمان نہ ہونا ا س بات کی علامت ہے کہ وہ کافر مرا لہٰذا اس پر اسلام کے احکام جاری نہیں ہوتے اگرچہ حقیقت حال کی خبر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ہے جیسے کسی کا مرتے وقت تک مسلمان رہنا اس کے اسلام پر مرنے کی علامت ہے اگرچہ اس کے خاتمہ کا حال ہمیں معلوم نہیں ،یہی آیتِ کریمہ کا مقصد ہے۔
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۱۱۵) اِنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یُحْیٖ وَ یُمِیْتُؕ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۱۱۶)
ترجمہ
اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد اسے گمراہ کردے جب تک انہیں صاف نہ بتادے کہ کس چیز سے انہیں بچنا ہے ۔بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ بیشک اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے ،وہ زندہ کرتا ہے اور وہ مارتا ہے اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی ہے اور نہ مددگار۔
تفسیر
*{حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ:جب تک انہیں صاف نہ بتادے۔}* آیت کا معنی یہ ہے کہ جو چیز ممنوع ہے اور اس سے اِجتناب واجب ہے اس پر اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندوں کی گرفت نہیں فرماتا جب تک کہ اس کی ممانعت کا صاف بیاناللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نہ آجائے لہٰذا مُمانَعت سے پہلے اس فعل کے کرنے میں حَرج نہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۴۵۷، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۲۸۸، ملتقطاً)شانِ نزول : جب مومنین کو مشرکین کے لئے اِستغفار کرنے سے منع فرمایا گیا تو انہیں اندیشہ ہوا کہ ہم پہلے جو استغفار کرچکے ہیں کہیں اس پر گرفت نہ ہو، اس آیت سے انہیں تسکین دی گئی اور بتایا گیا کہ ممانعت کا بیان ہونے کے بعد اس پر عمل کرنے سے مُؤاخَذہ ہوتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۲۸۸)اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کے بارے میں شریعت کی طرف سے ممانعت نہ ہو وہ جائز ہے۔
لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ(۱۱۷)
ترجمہ
بیشک اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی نبی پر اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے مشکل وقت میں نبی کی پیروی کی حالانکہ قریب تھا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے دل ٹیڑھے ہوجاتے پھر اللہ کی رحمت ان پر متوجہ ہوئی ۔ بیشک وہ ان پر نہایت مہربان، بڑا رح
بعض مفسرین نے یہ شانِ نزول بیان کیا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اپنی والدہ کی زیارت ِ قبر کی اجازت چاہی اس نے مجھے اجازت دی پھر میں نے ان کے لئے استغفار کی اجازت چاہی تو مجھے اجازت نہ دی اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ’’مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ‘‘(مستدرک، کتاب التفسیر، زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر امّہ آمنۃ، ۳ / ۷۱، الحدیث: ۳۳۴۵)
لیکن یہ ہرگز درست نہیں چنانچہ صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ شانِ نزول کی یہ وجہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث حاکم نے روایت کی اور اس کو صحیح بتایا اور ذہبی نے حاکم پر اعتماد کرکے میزان میں اس کی تصحیح کی لیکن مُخْتَصِرُ الْمُسْتَدْرَکْ میں ذہبی نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا کہ ایوب بن ہانی کو ابنِ معین نے ضعیف بتایا ہے، علاوہ بریں یہ حدیث بخاری کی حدیث کے مخالف بھی ہے جس میں اس آیت کے نزول کا سبب آپ کا والدہ کے لئے استغفار کرنا نہیں بتایا گیا بلکہ بخاری کی حدیث سے یہی ثابت ہے کہ ابو طالب کے لئے استغفار کرنے سے متعلق یہ آیت وارد ہوئی، اس کے علاوہ اور حدیثیں جو اس مضمون کی ہیں جن کو طبرانی ، ابنِ سعد اور ابنِ شاہین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم وغیرہ نے روایت کیا ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ابنِ سعد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے طبقات میں حدیث کی تخریج کے بعد اس کو غلط بتایا اور سند المحدثین امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے رسالہ ’’اَلتَّعْظِیْمُ وَالْمَنَّۃُ‘‘ میں اس مضمون کی تمام اَحادیث کو معلول بتایا ،لہٰذا یہ وجہ شانِ نزول میں صحیح نہیں اور یہ بات ثابت ہے، اس پر بہت سے دلائل قائم ہیں کہ سیّدعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی والدہ ماجدہ مُوَحِّدہ (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے والی) اور دینِ ابراہیمی پرتھیں۔
*{مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ:جبکہ ان کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔}* یعنی جب ان کیلئے ظاہر ہو چکا کہ وہ شرک پر مرے ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۴۵۷)خیال رہے کہ کسی مشرک کا مرتے وقت تک مسلمان نہ ہونا ا س بات کی علامت ہے کہ وہ کافر مرا لہٰذا اس پر اسلام کے احکام جاری نہیں ہوتے اگرچہ حقیقت حال کی خبر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ہے جیسے کسی کا مرتے وقت تک مسلمان رہنا اس کے اسلام پر مرنے کی علامت ہے اگرچہ اس کے خاتمہ کا حال ہمیں معلوم نہیں ،یہی آیتِ کریمہ کا مقصد ہے۔
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۱۱۵) اِنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یُحْیٖ وَ یُمِیْتُؕ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۱۱۶)
ترجمہ
اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد اسے گمراہ کردے جب تک انہیں صاف نہ بتادے کہ کس چیز سے انہیں بچنا ہے ۔بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ بیشک اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے ،وہ زندہ کرتا ہے اور وہ مارتا ہے اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی ہے اور نہ مددگار۔
تفسیر
*{حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ:جب تک انہیں صاف نہ بتادے۔}* آیت کا معنی یہ ہے کہ جو چیز ممنوع ہے اور اس سے اِجتناب واجب ہے اس پر اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندوں کی گرفت نہیں فرماتا جب تک کہ اس کی ممانعت کا صاف بیاناللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نہ آجائے لہٰذا مُمانَعت سے پہلے اس فعل کے کرنے میں حَرج نہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۴۵۷، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۲۸۸، ملتقطاً)شانِ نزول : جب مومنین کو مشرکین کے لئے اِستغفار کرنے سے منع فرمایا گیا تو انہیں اندیشہ ہوا کہ ہم پہلے جو استغفار کرچکے ہیں کہیں اس پر گرفت نہ ہو، اس آیت سے انہیں تسکین دی گئی اور بتایا گیا کہ ممانعت کا بیان ہونے کے بعد اس پر عمل کرنے سے مُؤاخَذہ ہوتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۲۸۸)اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کے بارے میں شریعت کی طرف سے ممانعت نہ ہو وہ جائز ہے۔
لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ(۱۱۷)
ترجمہ
بیشک اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی نبی پر اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے مشکل وقت میں نبی کی پیروی کی حالانکہ قریب تھا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے دل ٹیڑھے ہوجاتے پھر اللہ کی رحمت ان پر متوجہ ہوئی ۔ بیشک وہ ان پر نہایت مہربان، بڑا رح
م فرمانے والا ہے۔
تفسیر
*{لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ:بیشک اللہ کی رحمت نبی پر متوجہ ہوئی۔}* نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رحمۃ للعالمین ہیں اورآپ پر رحمت ِ الہٰی کا رجوع یوں ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معصوم ہونے کے باوجود بکثرت توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائی گئی جو آپ کی بلندیٔ درجات اور مسلمانوں کیلئے تعلیم کا ذریعہ تھی اور مسلمانوں کو بہت سے معاملات میں توبہ کی توفیق دی گئی اور اس توبہ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قبول بھی فرمایا۔
*{اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ:جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں ان کا ساتھ دیا۔}* مشکل گھڑی سے مراد غزوہ ٔ تبوک ہے جسے غزوۂ عسرت بھی کہتے ہیں اس غزوہ میں عسرت یعنی تنگی کا یہ حال تھا کہ دس دس آدمیوں میں سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا باری باری اسی پر سوار ہولیتے تھے اور کھانے کی قلَّت کا یہ حال تھا کہ ایک ایک کھجور پر کئی کئی آدمی اس طرح گزارہ کرتے تھے کہ ہر ایک نے تھوڑی تھوڑی چوس کر ایک گھونٹ پانی پی لیا۔ پانی کی بھی نہایت قلت تھی ، گرمی شدت کی تھی، پیاس کا غلبہ اور پانی ناپید ۔ اس حال میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اپنے صدق و یقین اور ایمان و اخلاص کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جاں نثاری میں ثابت قدم رہے ۔حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے ۔ ارشاد فرمایا: کیا تمہیں یہ خواہش ہے؟ عرض کی: جی ہاں ، تو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دستِ مبارک اُٹھا کر دعا فرمائی اور ابھی دستِ مبارک اٹھے ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بادل بھیجا ،بارش ہوئی ،لشکر سیراب ہوا اور لشکر والوں نے اپنے برتن بھر لئے، اس کے بعد جب آگے چلے تو زمین خشک تھی، بادل نے لشکر کے باہر بارش ہی نہیں کی وہ خاص اسی لشکر کو سیراب کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۲۸۹)
*{مَا كَادَ:قریب تھا۔}* یعنی قریب تھا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے دل شدت اور سختی پہنچنے کی وجہ سے حق سے اِعراض کر جاتے اور وہ اس شدت و سختی میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جدا ہونا گوارا کرلیتے لیکن انہوں نے صبر کیا اور وہ ثابت قدم رہے اور جو وسوسہ ان کے دل میں گزرا تھا اس پر نادم ہوئے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ا رشاد فرمایا ’’ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کا اخلاص اور توبہ کی سچائی جانتا ہے تو اس نے انہیں توبہ کرنے کی توفیق دی اور اس توبہ کو قبول فرمایا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۲۸۹)
*طالبِ دعاابوعمر*
تفسیر
*{لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ:بیشک اللہ کی رحمت نبی پر متوجہ ہوئی۔}* نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رحمۃ للعالمین ہیں اورآپ پر رحمت ِ الہٰی کا رجوع یوں ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معصوم ہونے کے باوجود بکثرت توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائی گئی جو آپ کی بلندیٔ درجات اور مسلمانوں کیلئے تعلیم کا ذریعہ تھی اور مسلمانوں کو بہت سے معاملات میں توبہ کی توفیق دی گئی اور اس توبہ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قبول بھی فرمایا۔
*{اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ:جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں ان کا ساتھ دیا۔}* مشکل گھڑی سے مراد غزوہ ٔ تبوک ہے جسے غزوۂ عسرت بھی کہتے ہیں اس غزوہ میں عسرت یعنی تنگی کا یہ حال تھا کہ دس دس آدمیوں میں سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا باری باری اسی پر سوار ہولیتے تھے اور کھانے کی قلَّت کا یہ حال تھا کہ ایک ایک کھجور پر کئی کئی آدمی اس طرح گزارہ کرتے تھے کہ ہر ایک نے تھوڑی تھوڑی چوس کر ایک گھونٹ پانی پی لیا۔ پانی کی بھی نہایت قلت تھی ، گرمی شدت کی تھی، پیاس کا غلبہ اور پانی ناپید ۔ اس حال میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اپنے صدق و یقین اور ایمان و اخلاص کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جاں نثاری میں ثابت قدم رہے ۔حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے ۔ ارشاد فرمایا: کیا تمہیں یہ خواہش ہے؟ عرض کی: جی ہاں ، تو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دستِ مبارک اُٹھا کر دعا فرمائی اور ابھی دستِ مبارک اٹھے ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بادل بھیجا ،بارش ہوئی ،لشکر سیراب ہوا اور لشکر والوں نے اپنے برتن بھر لئے، اس کے بعد جب آگے چلے تو زمین خشک تھی، بادل نے لشکر کے باہر بارش ہی نہیں کی وہ خاص اسی لشکر کو سیراب کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۲۸۹)
*{مَا كَادَ:قریب تھا۔}* یعنی قریب تھا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے دل شدت اور سختی پہنچنے کی وجہ سے حق سے اِعراض کر جاتے اور وہ اس شدت و سختی میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جدا ہونا گوارا کرلیتے لیکن انہوں نے صبر کیا اور وہ ثابت قدم رہے اور جو وسوسہ ان کے دل میں گزرا تھا اس پر نادم ہوئے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ا رشاد فرمایا ’’ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کا اخلاص اور توبہ کی سچائی جانتا ہے تو اس نے انہیں توبہ کرنے کی توفیق دی اور اس توبہ کو قبول فرمایا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۲۸۹)
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
اللہ (عزوجل) کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں
( مسند امام احمد حدیث 20678 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
اللہ (عزوجل) کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں
( مسند امام احمد حدیث 20678 )
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
*(نوٹ)*. یہ ایت نمبر١١۴ کل غلطی سےرہ گئ تھی
صفت ’’اواہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کے فضائل:
وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ-اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) توبہ
ترجمہ
اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے کرلیا تھا پھر جب ابراہیم کے لئے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے ۔ بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔
تفسیر
*{وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا ۔}* اس سے یا تو وہ وعدہ مراد ہے جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر سے کیا تھا کہ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے تیری مغفرت کی دعا کروں گا یا وہ وعدہ مراد ہے جو آزر نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اسلام لانے کا کیا تھا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۴۵۷) شانِ نزول: حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ‘‘ (مریم: ۴۷)(عنقریب میں تیرے لئے اپنے رب سے معافی مانگوں گا)تو میں نے سنا کہ ایک شخص اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کررہا ہے حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے تو میں نے کہا :تو مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے؟ اس نے کہا :کیا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر کے لئے دُعا نہ کی تھی؟ وہ بھی تو مشرک تھا ۔ یہ واقعہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ذکرکیا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اِستغفار اسلام قبول کرنے کی امید کے ساتھ تھا جس کا آزر آپ سے وعدہ کرچکا تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آزر سے استغفار کا وعدہ کرچکے تھے۔جب وہ اُمید مُنقطع ہوگئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے اپنا تعلق ختم کردیا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۹، الحدیث: ۳۱۱۲، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۲ / ۲۸۷، ملتقطاً)
*{اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دو صفات بیان فرمائیں اس سے مقصود یہ ہے کہ جس میں یہ صفات پائی جائیں اس کا قلبی مَیلان اپنے باپ کے لئے مغفرت کی دعا کرنے میں بہت شدید ہوتا ہے گویا کہ فرمایا گیا بے شک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عظیم مرتبے ،آہ و زاری اور برداشت کی صِفات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کافر چچا کے لئے استغفار کی دعا کرنے سے منع کر دیا تو جس میں یہ باتیں نہ ہوں اسے تو بدرجہ اَولیٰ اپنے کافر والدین کے لئے استغفار کی دعا کرنا منع ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۶ / ۱۵۸-۱۵۹)
*صفت ’’اَوّاہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کی خوبیاں :*
یہ دونوں صفات بہت عظیم ہیں اور سیدنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان صِفات کے مَظْہَرِ اَتَم تھے ،نیچے ان کے مفہوم کی وضاحت بیان کی جارہی ہے البتہ اس میں گناہوں کو یاد کرکے مغفرت طلب کرنے کی بات دوسروں کے لئے ہے ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے نہیں کیونکہ نبی گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔ ’’اَوّاہ‘‘ صفت کی خوبی یہ ہے کہ جس میں یہ صفت پائی جائے وہ بکثرت دعائیں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ذکر اور ا س کی تسبیح میں مشغول رہتا ہے، کثرت کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا ہے، اُخرَوی ہولناکیوں اور دہشت انگیزیوں کے بارے میں سن کر گریہ و زاری کرتا ہے، اپنے گناہوں کو یاد کر کے ان سے مغفرت طلب کرتا ہے، نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہر کام سے بچتا ہے ۔حلیم صفت کی خوبی یہ ہے جس میں یہ صفت پائی جائے وہ اپنے ساتھ برا سلوک کرنے والے پر بھی احسان کرتا ہے اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی بجائے بھلائی کے ساتھ دیتا ہے اور اسے اگر کسی کی طرف سے اَذِیّت اور تکلیف پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے۔ اگر کسی سے بدلہ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر لیتا ہے اور اگر کسی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہی مدد کرتا ہے۔
*صفت ’’اواہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کے فضائل:*
*ترغیب کے لئے یہاں صفت ’’اوّاہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کے چند فضائل درج ذیل ہیں ، چنانچہ*
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات
*(نوٹ)*. یہ ایت نمبر١١۴ کل غلطی سےرہ گئ تھی
صفت ’’اواہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کے فضائل:
وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ-اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) توبہ
ترجمہ
اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے کرلیا تھا پھر جب ابراہیم کے لئے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے ۔ بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔
تفسیر
*{وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا ۔}* اس سے یا تو وہ وعدہ مراد ہے جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر سے کیا تھا کہ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے تیری مغفرت کی دعا کروں گا یا وہ وعدہ مراد ہے جو آزر نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اسلام لانے کا کیا تھا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۴۵۷) شانِ نزول: حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ‘‘ (مریم: ۴۷)(عنقریب میں تیرے لئے اپنے رب سے معافی مانگوں گا)تو میں نے سنا کہ ایک شخص اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کررہا ہے حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے تو میں نے کہا :تو مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے؟ اس نے کہا :کیا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر کے لئے دُعا نہ کی تھی؟ وہ بھی تو مشرک تھا ۔ یہ واقعہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ذکرکیا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اِستغفار اسلام قبول کرنے کی امید کے ساتھ تھا جس کا آزر آپ سے وعدہ کرچکا تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آزر سے استغفار کا وعدہ کرچکے تھے۔جب وہ اُمید مُنقطع ہوگئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے اپنا تعلق ختم کردیا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۹، الحدیث: ۳۱۱۲، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۲ / ۲۸۷، ملتقطاً)
*{اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دو صفات بیان فرمائیں اس سے مقصود یہ ہے کہ جس میں یہ صفات پائی جائیں اس کا قلبی مَیلان اپنے باپ کے لئے مغفرت کی دعا کرنے میں بہت شدید ہوتا ہے گویا کہ فرمایا گیا بے شک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عظیم مرتبے ،آہ و زاری اور برداشت کی صِفات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کافر چچا کے لئے استغفار کی دعا کرنے سے منع کر دیا تو جس میں یہ باتیں نہ ہوں اسے تو بدرجہ اَولیٰ اپنے کافر والدین کے لئے استغفار کی دعا کرنا منع ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۶ / ۱۵۸-۱۵۹)
*صفت ’’اَوّاہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کی خوبیاں :*
یہ دونوں صفات بہت عظیم ہیں اور سیدنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان صِفات کے مَظْہَرِ اَتَم تھے ،نیچے ان کے مفہوم کی وضاحت بیان کی جارہی ہے البتہ اس میں گناہوں کو یاد کرکے مغفرت طلب کرنے کی بات دوسروں کے لئے ہے ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے نہیں کیونکہ نبی گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔ ’’اَوّاہ‘‘ صفت کی خوبی یہ ہے کہ جس میں یہ صفت پائی جائے وہ بکثرت دعائیں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ذکر اور ا س کی تسبیح میں مشغول رہتا ہے، کثرت کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا ہے، اُخرَوی ہولناکیوں اور دہشت انگیزیوں کے بارے میں سن کر گریہ و زاری کرتا ہے، اپنے گناہوں کو یاد کر کے ان سے مغفرت طلب کرتا ہے، نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہر کام سے بچتا ہے ۔حلیم صفت کی خوبی یہ ہے جس میں یہ صفت پائی جائے وہ اپنے ساتھ برا سلوک کرنے والے پر بھی احسان کرتا ہے اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی بجائے بھلائی کے ساتھ دیتا ہے اور اسے اگر کسی کی طرف سے اَذِیّت اور تکلیف پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے۔ اگر کسی سے بدلہ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر لیتا ہے اور اگر کسی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہی مدد کرتا ہے۔
*صفت ’’اواہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کے فضائل:*
*ترغیب کے لئے یہاں صفت ’’اوّاہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کے چند فضائل درج ذیل ہیں ، چنانچہ*
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات
کے وقت (ایک صحابی کی تدفین کیلئے) ایک قبر میں داخل ہوئے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے چراغ جلایا گیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میت کو قبلہ کی طرف سے پکڑ کر فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے ، تو بہت رونے والا اور کثرت سے تلاوتِ قرآن کرنے والا تھا۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الدفن باللیل، ۲ / ۳۳۱، الحدیث: ۱۰۵۹)
حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص ذوالبجادین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ’’ اَوَّاہْ ‘‘ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قرآنِ مجید کی تلاوت اور دعا کے ذریعے کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ (معجم الکبیر، باب العین، علی بن رباح عن عقبۃ بن عامر، ۱۷ / ۲۹۵، الحدیث: ۸۱۳)
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک آدمی حِلم کے ذریعے روزہ دار عبادت گزار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۶۹، الحدیث: ۶۲۷۳)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حلیم شخص دنیا میں سردار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی سردار ہو گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحلم والانائ، ۲ / ۵۵، الحدیث: ۵۸۰۷، الجزء الثالث)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان صِفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
*طالبِ دعاابوعمر*
حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص ذوالبجادین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ’’ اَوَّاہْ ‘‘ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قرآنِ مجید کی تلاوت اور دعا کے ذریعے کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ (معجم الکبیر، باب العین، علی بن رباح عن عقبۃ بن عامر، ۱۷ / ۲۹۵، الحدیث: ۸۱۳)
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک آدمی حِلم کے ذریعے روزہ دار عبادت گزار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۶۹، الحدیث: ۶۲۷۳)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’حلیم شخص دنیا میں سردار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی سردار ہو گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحلم والانائ، ۲ / ۵۵، الحدیث: ۵۸۰۷، الجزء الثالث)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان صِفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
’’ جس کھانے پر بسم ﷲ نہ پڑھی جائے، شیطان کے لیے وہ کھانا حلال ہوجاتا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم الحدیث:102۔(2017)
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
’’ جس کھانے پر بسم ﷲ نہ پڑھی جائے، شیطان کے لیے وہ کھانا حلال ہوجاتا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم الحدیث:102۔(2017)
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
سچ کی فضیلت جھوٹ کی مذمت:
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں :
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاؕ-حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِؕ-ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠(۱۱۸)
ترجمہ
اور ان تین پر (بھی رحمت ہوئی)جن کا معاملہ موقوف کردیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور وہ اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کی ناراضگی سے (بچنے کیلئے) اس کے سوا کوئی پناہ نہیں تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی تا کہ وہ تائب رہیں ۔ بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
تفسیر
*{وَ عَلَى الثَّلٰثَةِ:اور تین پر۔}* یہ تین صحابۂ کرام حضرت کعب بن مالک، ہلال بن اُمیہ اور مرارہ بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں۔ ان کا ذکر آیت ’’وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ(توبہ:۱۰۶)(اور اللہ کے حکم کی وجہ سے کچھ دوسروں کو مؤخر کردیا گیا ہے) ‘‘ میں گزر چکا ہے ،یہ سب انصاری تھے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوۂ تبوک سے واپس ہو کر ان سے جہاد میں حاضر نہ ہونے کی وجہ دریافت فرمائی اور فرمایا: ٹھہرو، جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کوئی فیصلہ فرمائے اور مسلمانوں کو اُن لوگوں سے ملنے جلنے کلام کرنے سے ممانعت فرما دی حتّٰی کہ اُن کے رشتہ داروں اور دوستوں نے ان سے کلام ترک کردیا ،یہاں تک کہ ایسا معلو م ہوتا تھا کہ اُن کو کوئی پہچانتا ہی نہیں اور اُن کی کسی سے شناسائی ہی نہیں۔ اس حال پر انہیں پچاس روز گزرے یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور انہیں کوئی ایسی جگہ نہ مل سکی جہاں ایک لمحہ کے لئے انہیں قرار ہوتا ،ہر وقت پریشانی اور رنج وغم بے چینی و اِضطراب میں مُبتلا تھے اور وہ رنج وغم کی شدت کی وجہ سے اپنی جانوں سے تنگ آگئے ، نہ کوئی اَنیس ہے جس سے بات کریں ،نہ کوئی غم خوار جسے حالِ دل سنائیں ، وحشت و تنہائی ہے اور شب و روز کی گریہ و زاری۔ انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی سے بچنے کیلئے اس کے سوا کوئی پناہ نہیں تواللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کی توبہ قبول فرما لی تا کہ آئندہ توبہ کرنے والے ہی رہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۲ / ۲۹۰-۲۹۱، ملخصاً)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹)
ترجمہ
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
تفسیر
*{وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ:اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔}* یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَامراد ہیں۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوئہ تبو ک میں حاضر ہوئے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۲۹۳)
*سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت:*
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم ارشاد فرمایا،اس مناسبت سے یہاں ہم سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت پر دو اَحادیث ذکر کرتے ہیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک سچائی بھلائی کی طرف ہدایت دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ بدکاریوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور بدکاریاں جہنم میں پہنچاتی ہیں اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالٰی: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴)
(2)…حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے، ایسی بے پرکی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں پھیل جاتا تھا، پس قیامت تک ا س کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالٰی: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۶، الحد
سچ کی فضیلت جھوٹ کی مذمت:
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں :
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاؕ-حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِؕ-ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠(۱۱۸)
ترجمہ
اور ان تین پر (بھی رحمت ہوئی)جن کا معاملہ موقوف کردیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور وہ اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کی ناراضگی سے (بچنے کیلئے) اس کے سوا کوئی پناہ نہیں تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی تا کہ وہ تائب رہیں ۔ بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
تفسیر
*{وَ عَلَى الثَّلٰثَةِ:اور تین پر۔}* یہ تین صحابۂ کرام حضرت کعب بن مالک، ہلال بن اُمیہ اور مرارہ بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں۔ ان کا ذکر آیت ’’وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ(توبہ:۱۰۶)(اور اللہ کے حکم کی وجہ سے کچھ دوسروں کو مؤخر کردیا گیا ہے) ‘‘ میں گزر چکا ہے ،یہ سب انصاری تھے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوۂ تبوک سے واپس ہو کر ان سے جہاد میں حاضر نہ ہونے کی وجہ دریافت فرمائی اور فرمایا: ٹھہرو، جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کوئی فیصلہ فرمائے اور مسلمانوں کو اُن لوگوں سے ملنے جلنے کلام کرنے سے ممانعت فرما دی حتّٰی کہ اُن کے رشتہ داروں اور دوستوں نے ان سے کلام ترک کردیا ،یہاں تک کہ ایسا معلو م ہوتا تھا کہ اُن کو کوئی پہچانتا ہی نہیں اور اُن کی کسی سے شناسائی ہی نہیں۔ اس حال پر انہیں پچاس روز گزرے یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور انہیں کوئی ایسی جگہ نہ مل سکی جہاں ایک لمحہ کے لئے انہیں قرار ہوتا ،ہر وقت پریشانی اور رنج وغم بے چینی و اِضطراب میں مُبتلا تھے اور وہ رنج وغم کی شدت کی وجہ سے اپنی جانوں سے تنگ آگئے ، نہ کوئی اَنیس ہے جس سے بات کریں ،نہ کوئی غم خوار جسے حالِ دل سنائیں ، وحشت و تنہائی ہے اور شب و روز کی گریہ و زاری۔ انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی سے بچنے کیلئے اس کے سوا کوئی پناہ نہیں تواللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کی توبہ قبول فرما لی تا کہ آئندہ توبہ کرنے والے ہی رہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۲ / ۲۹۰-۲۹۱، ملخصاً)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹)
ترجمہ
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
تفسیر
*{وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ:اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔}* یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَامراد ہیں۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوئہ تبو ک میں حاضر ہوئے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۲۹۳)
*سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت:*
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم ارشاد فرمایا،اس مناسبت سے یہاں ہم سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت پر دو اَحادیث ذکر کرتے ہیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک سچائی بھلائی کی طرف ہدایت دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ بدکاریوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور بدکاریاں جہنم میں پہنچاتی ہیں اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالٰی: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴)
(2)…حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے، ایسی بے پرکی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں پھیل جاتا تھا، پس قیامت تک ا س کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالٰی: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۶، الحد
یث: ۶۰۹۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
*نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں :*
اِس آیت سے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ ہونے کی ایک صورت ان کی صحبت اختیار کرنا بھی ہے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی سیرت و کردار اور اچھے اعمال دیکھ کر خود کوبھی گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق مل جاتی ہے اور ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ دل کی سختی ختم ہو تی اور اس میں رِقَّت و نرمی محسوس ہوتی ہے،ایمان پر خاتمے اور قبر و حشر کے ہَولناک معاملات کی فکر نصیب ہوتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کوچاہئے کہ وہ نیک بندوں سے تَعلُّقات بنائے اور ان کی صحبت اختیار کرے اور کسی کی بھی صحبت اختیار کرنے سے پہلے غور کر لے کہ وہ کس کی صحبت اختیار کر رہا ہے ،اس کی ترغیب سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)
اور دیندار دوست تلاش کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہیں۔ اور کسی گناہگار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴)
حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ پانچ قسم کے آدمیوں کی صحبت اختیار نہ کرو: (1) بہت جھوٹ بولنے والا شخص،کیونکہ تم اس سے دھوکہ کھاؤ گے ،وہ سراب (یعنی صحراء میں پانی نظر آنے والی ریت ) کی طرح ہے،وہ دور والے کو تیرے قریب کر دے گا اور قریب والے کو دور کر دے گا۔ (2) بے وقوف آدمی، کیونکہ اس سے تمہیں کچھ بھی حاصل نہ ہو گا، وہ تمہیں نفع پہنچانا چاہے گا لیکن نقصان پہنچا بیٹھے گا۔ (3) بخیل شخص، کیونکہ جب تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ دوستی ختم کر دے گا۔ (4) بزدل شخص، کیونکہ یہ مشکل وقت میں تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ (5) فاسق شخص، کیونکہ وہ تمہیں ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا۔ کسی نے پوچھا کہ لقمے سے کم کیا ہے؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’لالچ رکھنا اور اسے نہ پانا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴-۲۱۵)
یاد رہے کہ کسی کو اپنا پیرو مرشد بنانے کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی صحبت کے ذریعے اس سے فیض حاصل کیا جاسکے ۔یونہی باعمل علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی بھی بہت فضیلت ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے:’’علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔(مسند الفردوس، باب المیم، ۴ / ۱۵۶، الحدیث: ۶۴۸۶)
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو چر لیا کرو ۔ عرض کی گئی، یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جنت کے باغ کیا چیز ہیں ؟ارشاد فرمایا: علم کی مَجالس۔(معجم الکبیر، باب العین، مجاہد عن ابن عباس، ۱۱ / ۷۸، الحدیث: ۱۱۱۵۸)
حضرت سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جو چاہتا ہے کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مجلسوں کی طرف دیکھے اسے چاہیے کہ علماء کی مجلسوں کی طرف دیکھے کہ کوئی مرد آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے فلاں (یعنی مولانا صاحب، مفتی صاحب) آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں اس اس طرح قسم کھائی، پس وہ عالم کہتا ہے کہ اس کی عورت کو طلاق ہو گئی اور ایک دوسرا شخص آتا ہے اور کہتاہے ،آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں ایسے ایسے قسم اٹھائی تو وہ کہتا ہے کہ وہ مرد اپنی اس بات کے ساتھ حانِث (قسم توڑنے والا) نہیں ہوا اور یہ بات کہنا (یعنی احکامِ شرع بیان کرنا)جائز نہیں مگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علماء کے لیے۔ پس اس بات سے علماء کی شان پہچان لو۔(الفقیہ والمتفقہ، ذکر احادیث واخبار شتی یدلّ جمیعہا علی جلالۃ الفقہ والفقہاء، ۱ / ۱۴۹، روایت نمبر: ۱۳۶)
حضرت بہزبن حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو علماء کی صحبت میں بیٹھا تحقیق وہ میری صحبت میں
اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
*نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں :*
اِس آیت سے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ ہونے کی ایک صورت ان کی صحبت اختیار کرنا بھی ہے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی سیرت و کردار اور اچھے اعمال دیکھ کر خود کوبھی گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق مل جاتی ہے اور ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ دل کی سختی ختم ہو تی اور اس میں رِقَّت و نرمی محسوس ہوتی ہے،ایمان پر خاتمے اور قبر و حشر کے ہَولناک معاملات کی فکر نصیب ہوتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کوچاہئے کہ وہ نیک بندوں سے تَعلُّقات بنائے اور ان کی صحبت اختیار کرے اور کسی کی بھی صحبت اختیار کرنے سے پہلے غور کر لے کہ وہ کس کی صحبت اختیار کر رہا ہے ،اس کی ترغیب سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)
اور دیندار دوست تلاش کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہیں۔ اور کسی گناہگار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴)
حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ پانچ قسم کے آدمیوں کی صحبت اختیار نہ کرو: (1) بہت جھوٹ بولنے والا شخص،کیونکہ تم اس سے دھوکہ کھاؤ گے ،وہ سراب (یعنی صحراء میں پانی نظر آنے والی ریت ) کی طرح ہے،وہ دور والے کو تیرے قریب کر دے گا اور قریب والے کو دور کر دے گا۔ (2) بے وقوف آدمی، کیونکہ اس سے تمہیں کچھ بھی حاصل نہ ہو گا، وہ تمہیں نفع پہنچانا چاہے گا لیکن نقصان پہنچا بیٹھے گا۔ (3) بخیل شخص، کیونکہ جب تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ دوستی ختم کر دے گا۔ (4) بزدل شخص، کیونکہ یہ مشکل وقت میں تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ (5) فاسق شخص، کیونکہ وہ تمہیں ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا۔ کسی نے پوچھا کہ لقمے سے کم کیا ہے؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’لالچ رکھنا اور اسے نہ پانا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴-۲۱۵)
یاد رہے کہ کسی کو اپنا پیرو مرشد بنانے کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی صحبت کے ذریعے اس سے فیض حاصل کیا جاسکے ۔یونہی باعمل علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی بھی بہت فضیلت ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے:’’علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔(مسند الفردوس، باب المیم، ۴ / ۱۵۶، الحدیث: ۶۴۸۶)
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو چر لیا کرو ۔ عرض کی گئی، یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جنت کے باغ کیا چیز ہیں ؟ارشاد فرمایا: علم کی مَجالس۔(معجم الکبیر، باب العین، مجاہد عن ابن عباس، ۱۱ / ۷۸، الحدیث: ۱۱۱۵۸)
حضرت سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جو چاہتا ہے کہ وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مجلسوں کی طرف دیکھے اسے چاہیے کہ علماء کی مجلسوں کی طرف دیکھے کہ کوئی مرد آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے فلاں (یعنی مولانا صاحب، مفتی صاحب) آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں اس اس طرح قسم کھائی، پس وہ عالم کہتا ہے کہ اس کی عورت کو طلاق ہو گئی اور ایک دوسرا شخص آتا ہے اور کہتاہے ،آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں ایسے ایسے قسم اٹھائی تو وہ کہتا ہے کہ وہ مرد اپنی اس بات کے ساتھ حانِث (قسم توڑنے والا) نہیں ہوا اور یہ بات کہنا (یعنی احکامِ شرع بیان کرنا)جائز نہیں مگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علماء کے لیے۔ پس اس بات سے علماء کی شان پہچان لو۔(الفقیہ والمتفقہ، ذکر احادیث واخبار شتی یدلّ جمیعہا علی جلالۃ الفقہ والفقہاء، ۱ / ۱۴۹، روایت نمبر: ۱۳۶)
حضرت بہزبن حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو علماء کی صحبت میں بیٹھا تحقیق وہ میری صحبت میں
بیٹھا اور جو میری صحبت میں بیٹھا یقینا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بیٹھا۔(کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول فی الترغیب فیہ، ۵ / ۷۴، الحدیث: ۲۸۸۷۹، الجزء العاشر)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’علماء کی مجالس سے الگ نہ رہو اس لئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے روئے زمین پر علماء کی مجالس سے مکرم کسی مٹی کوپیدا نہیں فرمایا۔(احیاء علوم الدین، کتاب ترتیب الاوراد وتفصیل احیاء اللیل، الباب الاول فی فضیلۃ الاوراد وترتیبہا واحکامہا، بیان اختلاف الاوراد باختلاف الاحوال، ۱ / ۴۶۰)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشا د ہے: ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کی صورت دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے ، جن کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے، جن کا عمل تمہیں آخرت کا شوق دلائے۔(جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع فی آداب العالم والمتعلم، ص۱۷۲) اللہ تعالیٰ ہمیں نیک لوگوں کو اپنا دوست بنانے ،علم کی مجالس اور علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
*اِجماع حجت ہے:*
علامہ عبداللہ بن احمد نسفی. رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اجماع حجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صادقین کے ساتھ رہنے کا حکم فرمایا، اس سے اُن کے قول کو قبول کرنا لازم آتا ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ص۴۵۸)
نیز اس حدیثِ پاک سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجماع حجت ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ فَاِذَا رَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ‘‘بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہو گی،تو جب تم اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
*طالبِ دعاابوعمر*
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’علماء کی مجالس سے الگ نہ رہو اس لئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے روئے زمین پر علماء کی مجالس سے مکرم کسی مٹی کوپیدا نہیں فرمایا۔(احیاء علوم الدین، کتاب ترتیب الاوراد وتفصیل احیاء اللیل، الباب الاول فی فضیلۃ الاوراد وترتیبہا واحکامہا، بیان اختلاف الاوراد باختلاف الاحوال، ۱ / ۴۶۰)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشا د ہے: ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کی صورت دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے ، جن کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے، جن کا عمل تمہیں آخرت کا شوق دلائے۔(جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع فی آداب العالم والمتعلم، ص۱۷۲) اللہ تعالیٰ ہمیں نیک لوگوں کو اپنا دوست بنانے ،علم کی مجالس اور علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
*اِجماع حجت ہے:*
علامہ عبداللہ بن احمد نسفی. رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اجماع حجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صادقین کے ساتھ رہنے کا حکم فرمایا، اس سے اُن کے قول کو قبول کرنا لازم آتا ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ص۴۵۸)
نیز اس حدیثِ پاک سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجماع حجت ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ فَاِذَا رَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ‘‘بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہو گی،تو جب تم اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
’’ جب کوئی شخص مکان میں آیا اور داخل ہوتے وقت اور کھانے کے وقت اس نے بسم اﷲ پڑھ لی تو شیطان اپنی ذریّت (اولاد) سے کہتا ہے کہ اس گھر میں نہ تمھیں رہنا ملے گا نہ کھانا اور اگر داخل ہوتے وقت بسم اﷲ نہ پڑھی تو کہتا ہے، اب تمھیں رہنے کی جگہ مل گئی اور کھانے کے وقت بھی بسم اﷲ نہ پڑھی تو کہتا ہے کہ رہنے کی جگہ بھی ملی اور کھانا بھی ملا۔‘‘
(’’صحیح مسلم ‘‘ الحدیث:103۔(2018)
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
’’ جب کوئی شخص مکان میں آیا اور داخل ہوتے وقت اور کھانے کے وقت اس نے بسم اﷲ پڑھ لی تو شیطان اپنی ذریّت (اولاد) سے کہتا ہے کہ اس گھر میں نہ تمھیں رہنا ملے گا نہ کھانا اور اگر داخل ہوتے وقت بسم اﷲ نہ پڑھی تو کہتا ہے، اب تمھیں رہنے کی جگہ مل گئی اور کھانے کے وقت بھی بسم اﷲ نہ پڑھی تو کہتا ہے کہ رہنے کی جگہ بھی ملی اور کھانا بھی ملا۔‘‘
(’’صحیح مسلم ‘‘ الحدیث:103۔(2018)
*دلچسپ انگریزی* #
1۔ انگلش زبان کے جس بھی لفظ کے شروع یا درمیان میں "q" ہوگا تو اُسکے بعد ہمیشہ "u" آئے گا۔
2۔ "Dreamt" انگلش میں وہ واحد ایسا لفظ ہے جو "mt" پر ختم ہوتا ہے
اس کے علاوہ انگلش میں کوئی ایسا لفظ نہیں.
3۔ "Underground" انگلش زبان میں واحد لفظ ہے جو "Und" سے شروع اور "Und" پر ہی ختم ہوتا ہے۔
4۔ پوری انگلش زبان میں صرف چار الفاظ ایسے ہیں جو "dous" پر ختم ہوتے ہیں
Tremendous, Horrendous, Stupendous, & Hazardous
5۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق انگلش زبان کا سب سے بڑا لفظ۔۔!
"pneumonoultramicroscopicsilicovolcanoconiosis" یہ ہے جو کہ پھیپھڑے کی ایک بیماری کا نام ہے۔
6۔ "Therein" انگلش کا ایک ایسا لفظ ہے جس سے دس الفاظ نکل سکتے ہیں۔۔!
The, There, He, In, Rein, Her, Here, Ere, Therein, Herein
7۔ Key بورڈ پر صرف بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ٹائپ ہونے والا سب سے بڑا بامعنی لفظ "Stewardesses" ہے۔
8۔ ہم اپنی روزمرہ گفتگو میں (ok) کا لفظ بہت استعمال کرتے ہیں اِس کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ایک امریکی صدر "اینڈریو جیکسن" نے all correct کے غلط ہجے یعنی oll kurrect استعمال کرتے ہوئے اس کے ابتدائی حروف o.k کو پاپولر بنا دیا۔
9۔ اگر آپ دنیا کے براعظموں کے نام انگریزی میں لکھیں تو آپ پر انکشاف ہوگا کہ ہر براعظم کا نام جس حرف سے شروع ہوتا ہے، اسی پر ختم ہوتا ہے۔ سوائے America کے North اور South کے
1۔ Asia۔۔۔2۔ Africa۔۔۔3۔ America۔۔۔4۔ Antarctica۔۔۔5۔ Europe۔۔۔6۔ Australia
10۔ "Typewriter" کا لفظ ہی وہ واحد بامعنی لفظ ہے جو آپ Key بورڈ کی صرف پہلی قطار کے حروف کے اندر اندر ٹائپ کر سکتے ہیں۔
11۔ خدا حافظ کہنے کے لیے انگریزی کا لفظ "good bye" استعمال ہوتا ہے جس کی اصل "God be with you" ہے۔
12۔ انگریزی میں "Silver" اور "Orange" ہی دو ایسے الفاظ ہیں جن کا کوئی ہم قافیہ لفظ انگریزی میں موجود نہیں۔
13۔ انگریزی زبان میں صرف تین الفاظ ایسے ہیں جن میں دو "u" ایک ساتھ آتے ہیں Vacuum, Residuum, Continuum
۔۔۔۔۔
1۔ انگلش زبان کے جس بھی لفظ کے شروع یا درمیان میں "q" ہوگا تو اُسکے بعد ہمیشہ "u" آئے گا۔
2۔ "Dreamt" انگلش میں وہ واحد ایسا لفظ ہے جو "mt" پر ختم ہوتا ہے
اس کے علاوہ انگلش میں کوئی ایسا لفظ نہیں.
3۔ "Underground" انگلش زبان میں واحد لفظ ہے جو "Und" سے شروع اور "Und" پر ہی ختم ہوتا ہے۔
4۔ پوری انگلش زبان میں صرف چار الفاظ ایسے ہیں جو "dous" پر ختم ہوتے ہیں
Tremendous, Horrendous, Stupendous, & Hazardous
5۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق انگلش زبان کا سب سے بڑا لفظ۔۔!
"pneumonoultramicroscopicsilicovolcanoconiosis" یہ ہے جو کہ پھیپھڑے کی ایک بیماری کا نام ہے۔
6۔ "Therein" انگلش کا ایک ایسا لفظ ہے جس سے دس الفاظ نکل سکتے ہیں۔۔!
The, There, He, In, Rein, Her, Here, Ere, Therein, Herein
7۔ Key بورڈ پر صرف بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ٹائپ ہونے والا سب سے بڑا بامعنی لفظ "Stewardesses" ہے۔
8۔ ہم اپنی روزمرہ گفتگو میں (ok) کا لفظ بہت استعمال کرتے ہیں اِس کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ایک امریکی صدر "اینڈریو جیکسن" نے all correct کے غلط ہجے یعنی oll kurrect استعمال کرتے ہوئے اس کے ابتدائی حروف o.k کو پاپولر بنا دیا۔
9۔ اگر آپ دنیا کے براعظموں کے نام انگریزی میں لکھیں تو آپ پر انکشاف ہوگا کہ ہر براعظم کا نام جس حرف سے شروع ہوتا ہے، اسی پر ختم ہوتا ہے۔ سوائے America کے North اور South کے
1۔ Asia۔۔۔2۔ Africa۔۔۔3۔ America۔۔۔4۔ Antarctica۔۔۔5۔ Europe۔۔۔6۔ Australia
10۔ "Typewriter" کا لفظ ہی وہ واحد بامعنی لفظ ہے جو آپ Key بورڈ کی صرف پہلی قطار کے حروف کے اندر اندر ٹائپ کر سکتے ہیں۔
11۔ خدا حافظ کہنے کے لیے انگریزی کا لفظ "good bye" استعمال ہوتا ہے جس کی اصل "God be with you" ہے۔
12۔ انگریزی میں "Silver" اور "Orange" ہی دو ایسے الفاظ ہیں جن کا کوئی ہم قافیہ لفظ انگریزی میں موجود نہیں۔
13۔ انگریزی زبان میں صرف تین الفاظ ایسے ہیں جن میں دو "u" ایک ساتھ آتے ہیں Vacuum, Residuum, Continuum
۔۔۔۔۔
*🍲🍛 پیٹ سے اُدھار*
ایک اللہ کا بندہ بازار سے گزر رہا تھا ، قصائی نے آواز دے کر کہا:
میاں جی گوشت لے جاؤ ۔
کہنے لگے: میرے پاس پیسے نہیں ۔
قصائی بولا: کوئی بات نہیں ، ادھار کرلیں ۔
انھوں نے فرمایا:
” تجھ سے ادھار کرنے سے بہتر ہے ، میں اپنے پیٹ سے ادھار کرلوں ۔ “
ایک دانا کا قول ہے:
امیر وہ نہیں ہوتا جس کی آمدن زیادہ ہو ، امیر وہ ہوتا ہے جس کے اخراجات آمدن سے کم ہوں ۔
ہم لوگ نہ پیٹ سے ادھار کرتے ہیں اور نہ اخراجات کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بس غُربت کا رونا روئے جاتے ہیں ۔
1: آمدنی بڑھانے کی کوشش ضرور کریں ، لیکن اخراجات بھی کم کریں ۔
2: ضرورتیں پوری کرنے پر توجہ دیا کریں ، خواہشیں پوری کرنے پر نہیں ۔
3: ہروقت کھاتے رہنےاور نِت نئے چَسکے لگانے سے بندہ صحت مند نہیں ہوتا ۔
وقت پر کھائیں ، سادی اور مناسب غذا استعمال کریں ۔
4: ملبوسات ( ٹوپی ، عمامہ ، رومال ، کپڑے ، جوتے وغیرہ ) قیمتی خریدنے کے بجائے ، آرام دہ اور کم قیمت خریدیں ۔
5: اللہ پاک کی رضا کے لیے کسی نہ کسی کو کھانا ضرور کھلایا کریں ، اس کی برکت سے بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہیں گے اور رزق بھی بڑھے گا ۔
ایک اللہ کا بندہ بازار سے گزر رہا تھا ، قصائی نے آواز دے کر کہا:
میاں جی گوشت لے جاؤ ۔
کہنے لگے: میرے پاس پیسے نہیں ۔
قصائی بولا: کوئی بات نہیں ، ادھار کرلیں ۔
انھوں نے فرمایا:
” تجھ سے ادھار کرنے سے بہتر ہے ، میں اپنے پیٹ سے ادھار کرلوں ۔ “
ایک دانا کا قول ہے:
امیر وہ نہیں ہوتا جس کی آمدن زیادہ ہو ، امیر وہ ہوتا ہے جس کے اخراجات آمدن سے کم ہوں ۔
ہم لوگ نہ پیٹ سے ادھار کرتے ہیں اور نہ اخراجات کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بس غُربت کا رونا روئے جاتے ہیں ۔
1: آمدنی بڑھانے کی کوشش ضرور کریں ، لیکن اخراجات بھی کم کریں ۔
2: ضرورتیں پوری کرنے پر توجہ دیا کریں ، خواہشیں پوری کرنے پر نہیں ۔
3: ہروقت کھاتے رہنےاور نِت نئے چَسکے لگانے سے بندہ صحت مند نہیں ہوتا ۔
وقت پر کھائیں ، سادی اور مناسب غذا استعمال کریں ۔
4: ملبوسات ( ٹوپی ، عمامہ ، رومال ، کپڑے ، جوتے وغیرہ ) قیمتی خریدنے کے بجائے ، آرام دہ اور کم قیمت خریدیں ۔
5: اللہ پاک کی رضا کے لیے کسی نہ کسی کو کھانا ضرور کھلایا کریں ، اس کی برکت سے بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہیں گے اور رزق بھی بڑھے گا ۔