✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
🌹🌺 *درس قرآن* 🌺🌹

📖 پارہ۔30🌠 78-سورۂ نَبا ...🍀آیت نمبر21تا26

🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔

اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا(۲۱) لِّلطَّاغِیْنَ مَاٰبًا(۲۲) لّٰبِثِیْنَ فِیْهَاۤ اَحْقَابًا(۲۳) لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا بَرْدًا وَّ لَا شَرَابًا(٢٤) اِلَّا حَمِیْمًا وَّ غَسَّاقًا(۲۵) جَزَآءً وِّفَاقًا(٢٦)

*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (21)بیشک جہنم تاک میں ہے۔ (22)سرکشوں کا ٹھکانا۔(23)اس میں قرنوں (مدتوں ) رہیں گے۔ (24)اس میں کسی طرح کی ٹھنڈک کا مزہ نہ پائیں گے اور نہ کچھ پینے کو۔ (25)مگر کھولتا پانی اور دوزخیوں کا جلتا پیپ۔ (26)جیسے کو تیسا بدلہ۔

_🍀تفسیر:🍀_

{اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا: بیشک جہنم تاک میں ہے۔} اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جہنم کافروں کی مُنتظِر اور ان کی طلَبگار ہے دوسرا معنی یہ ہے کہ جہنم کے فرشتے کفار کے انتظار میں ہیں۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ جہنم ایک گزرگاہ ہے اور کوئی بھی اس پر سے گزرے بغیر جنت تک نہیں پہنچ سکتا۔( خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴/۳۴۷، تفسیرکبیر، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۱۱/۱۴، ملتقطاً)

{لِلطَّاغِیْنَ مَاٰبًا: سرکشوں کیلئے ٹھکانا ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی3 آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جہنم کفار اور مشرکین کا ٹھکانہ ہے۔ لہٰذا وہ اس میں داخل ہوں گے اور اس میں نہ ختم ہونے والی مدت تک یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ اور جہنم میں ان کا حال یہ ہوگا کہ وہ اس میں کسی طرح کی ایسی ٹھنڈک محسوس نہ کریں گے جس سے انہیں راحت نصیب ہو۔ اور جہنم کی گرمی سے سکون ملے اور نہ جہنم کے کھولتے ہوئے پانی اور جہنمیوں کی پیپ کے علاوہ انہیں کچھ پینے کو ملے گا۔( روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۵، ۱۰/۳۰۲-۳۰۵، جلالین، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۲-۲۵، ص ۴۸۷، ملتقطاً)

یاد رہے کہ جو مسلمان اپنے گناہوں کی سزا پانے جہنم میں جائیں گے انہیں ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں رکھا جائے گا۔ بلکہ انہیں مُقَرّب بندوں اور دیگر حضرات کی شفاعت کے ذریعے یا محض فضلِ الٰہی سے یا جب ان کی سزا پوری ہوجائے گی توانہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

{جَزَآءً وِّفَاقًا: برابر بدلہ ہوگا۔} یعنی جیسے عمل ہوں گے ویسی جزا ملے گی۔ اورچونکہ کفر سے بدترین کوئی جرم نہیں ہے اس لئے سب سے سخت عذاب بھی کفار کو ہو گا۔ (جلالین، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۶، ص ۴۸۷، ملخصاً)
https://tauhidahmadjamdai.blogspot.com/2019/08/blog-post_15.html

ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء کے روزہ پر ایک نظر
کاتب:۔۔ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
🍁🥀💐🌺🌻🌼🌸🍂🌹🌿🌺🌲🍀

توطئہ:
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على اشرف الانبياء والمرسلين، وعلى آله وأصحابه إلى يوم الدين.
أما بعد،
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزہ فرض قرار دیا ہے، یہ اسلام کے پانچ بنیادی رکنوں میں سے ایک اہم رکن ہے۔

رمضان المبارک کے علاوہ بھی دیگر ایام میں روزوں کا حکم دیا گیا ہے، مگر ان کا حکم رمضان المبارک کے روزوں کی طرح نہیں ہے، لوگوں کو ان پر ابھارا گیا ہے، اور ان کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، انھیں فرض قرار نہیں دیا گیا ہے۔

فضائل صیام میں چند احادیث صحیحہ:
جیسا کہ سابق میں گزرا کہ فرض روزوں کے علاوہ دیگر روزوں کی بڑی فضیلت ہے، اس کے ثبوت میں چند احادیث مبارکہ پیش ہیں:

(1) عن أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ -رضي الله عنه-، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلا بَاعَدَ اللَّهُ، بِذَلِكَ الْيَوْمِ، وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا». [صحيح مسلم].

حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص ایک دن الله کی راہ میں روزہ رکھتا ہے، الله تعالیٰ اس دن کے سبب اس کے چہرہ کو جہنم سے ستر سال کی مسافت پر کر دیتا ہے"۔

(2) وعَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ -رضي الله عنه-، عَنْ النَّبِيِّ -صلى الله عليه وسلم-، قَالَ: «مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا، كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَاْلأرْضِ». [سنن ترمذی].

حضرت ابو امامہ باہلی رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص ایک دن راہ خدا میں روزہ رکھتا ہے، الله تعالیٰ اس کے اور جھنم کے درمیان فاصلہ فرما دیتا ہے، جیسے آسمان اور زمین کے درمیان ہے"۔

(3) وعَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ -رضي الله عنه- قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ.
قَالَ: «عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ َلا عَدْلَ لَهُ».
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِعَمَلٍ.
قَالَ: «عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ َلا عدْلَ لَهُ».

حضرت ابو امامہ باہلی -رضی الله عنہ- سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں عرض گزار ہوا: "اے الله کے رسول، مجھے کسی عمل کا حکم فرمائیں۔
آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: تم روزہ کو لازم پکڑو، بے شک اس کا کوئی بدیل نہیں"۔

ماہ محرم الحرام کے روزے:
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا ماہ ہے، اور حرمت والا بھی ہے، جس کے بارے میں قرآن پاک فرماتا ہے:

{إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ}. [التوبة36].

"بے شک الله کے نزدیک مھینوں کی گنتی بارہ ماہ ہے کتاب الله میں، اس روز آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی سیدھا دین ہے، تو ان ماہ میں خود پر ظلم نہ کرو"۔

متفق علیہ حدیث میں ہے:
«إن الزمان قد استدار كهيئتهِ يوم خلق الله السماوات والأرض، السنةُ اثنا عشر شهرًا، منها أربعةُ حُرُم، ثلاثٌ متوالياتٌ: ذو القعدة وذو الحجة والمحرم، ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان».

"بے شک زمانہ گھوم کر اپنی اصلی حالت پر آگیا، جس پر وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن تھا۔
سال بارہ ماہ پر مشتمل ہے، اس میں سے چار ماہ حرمت کے ہیں، تین ذی القعدہ ذی الحجہ اور محرم پے در پے ہیں، اور رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے"۔

اس ماہ کے روزوں کی بڑی ہی فضیلت ہے، حدیث شریف میں ہے:

«أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ. وَأَفْضَلُ الصََّلاةِ، بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صََلاةُ اللَّيْلِ». [صحيح مسلم].

"رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ خدا محرم الحرام کا ہے، اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تھجد ہے"۔

اس حدیثِ مبارکہ میں «شھر» کی اضافت «الله عزوجل» کی جانب تعظیما کی گئی ہے، جس سے اس ماہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

کیا ماہ محرم الحرام کے مکمل روزے رکھے جائیں:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں اس ماہ کے کبھی مکمل روزے نہ رکھے، حضرت عبد اللہ بن شقیق فرماتے ہیں:

"قُلْتُ لِعَائِشَةَ - رضي الله عنها: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَصُومُ شَهْرًا كُلَّهُ؟
قَالَتْ: مَا عَلِمْتُهُ صَامَ شَهْرًا كُلَّهُ إِلا رَمَضَانَ، وََلا أَفْطَرَهُ كُلَّهُ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ -صلى
الله عليه وسلم-". (صحيح مسلم).

"میں نے حضرت عائشہ -رضی الله عنھا- سے عرض کیا: کیا رسول الله -صلی الله علیہ وسلم- مکمل ایک ماہ روزے دار ہوتے تھے؟"

حضرت عائشہ -رضی الله عنھا- نے فرمایا: "رمضان کے علاوہ پورے ماہ انھوں نے روزہ نہیں رکھا، اور نہ ہی مکمل مھینہ بغیر روزہ کے گزارا، یہاں تک کہ اس میں سے چند دن روزہ رکھتے، حتی کہ آپ وصال فرما گئے"۔

عاشوراء کا روزہ:
عاشوراء عاشر سے بنا ہے، جس کا معنی دسویں کے ہے، "عاشوراء کا روزہ" یعنی "دسویں محرم الحرام کا روزہ" کو کہتے ہیں۔

"عاشوراء" کا یہ لفظ الف ممدودہ کے ساتھ ہے، "عاشورہ" پڑھنا اور لکھنا جو مروج ہے، درست نہیں ہے۔ [حاشیہ صاوی علی الشرح الھندیہ جلد آر صفحہ 691]۔

یہ روزہ عربوں میں ایام جاہلیت سے متعرف تھا، اہل مکہ اسے رکھتے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ -رضی الله تعالیٰ عنھا- فرماتی ہیں:

"كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش في الجاهلية ، وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يصومه في الجاهلية".

"جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، اور رسول الله -صلی الله علیہ وسلم- بعثت سے قبل عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے"۔

امام قرطبی -رحمه الله تعالی- لکھتے ہیں:

"لعل قريشاً كانوا يستندون في صومه إلى شرع من مضى كإبراهيم عليه السّلام".

"شاید قریش اپنے اس روزہ میں سابقہ شرع پر اعتماد کرتے تھے، جیسے (شریعت) ابرہیم علیہ السلام"۔

مدینہ منورہ میں اہل خیبر اس دن کو بطورِ عید مناتے تھے، اور اسے "عيد الفصح" اور "عيد العبور" کہتے تھے۔

اہل خیبر کی اس عید کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابو موسیٰ اشعری -رضی الله عنه- فرماتے ہیں:

"كَانَ أَهْلُ خَيْبَرَ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، يَتَّخِذُونَهُ عِيدًا٬ وَيُلْبِسُونَ نِسَاءَهُمْ فِيهِ حُلِيَّهُمْ وَشَارَتَهُمْ".

"اہل خیبر "یوم عاشوراء" کو روزہ رکھتے تھے، اس دن عید مناتے، ان کی عورتیں اس روز زیور عمدہ لباس پہنتیں"۔

جب آپ -صلی الله علیه وسلم- کی مدینہ منورہ تشریف آوری ہوئی، آپ نے یہود کو اس طرح خوشیاں مناتے اور روزہ رکھتے پایا تو آپ نے لوگوں سے اس کی اصل دریافت کی، حدیث شریف میں ہے:

"قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ، هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ٬ فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ: «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ». [صحيح بخاری]

لوگوں نے کہا: یہ خوشی کا دن ہے، اس دن الله تعالی نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی، تو موسی -علیہ السلام- نے اس روز روزہ رکھا۔
رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- نے فرمایا: میں موسی -علیہ السلام- کا تم سے زیادہ حق دار ہوں۔
تو آپ -صلی الله علیہ وسلم- نے اس روز کا روزہ رکھا، اور اس دن کے روزہ کا حکم دیا"۔
چنان چہ رسول کریم اور صحابہ کرام اس کا خوب اہتمام کیا کرتے تھے، حضرت ابن عباس -رضی الله تعالی عنھما- فرماتے ہیں:

"مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلا هَذَا الْيَوْمَ٬ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ". يَعْنِي: شَهْرَ رَمَضَانَ. (رواه بخاری).

"میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دن کے روزے کا اہتمام کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یوم عاشوراء کے، اور اس ماہ کے، یعنی ماہ رمضان کے"۔

چوں کہ بعد فرضیت رمضان المبارک رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- نے اس روز روزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں باتوں کی اجازت مرحمت فرما دی تھی، اس کے باوجود بعض صحابہ شدت سے اس پر عمل پیرا تھے، خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب -رضی الله تعالیٰ عنہ- نے حارث بن هشام کو لکھا:

"ان غدا يوم عاشوراء فصم، وأمر أهلك ان يصوموا".

"کل یوم عاشوراء ہے، تو تم روزہ رکھو، اور اپنے اہل خانہ کو حکم دو کہ وہ روزہ رکھیں"۔

اس کے برعکس بعض صحابہ ترک پر بھی عمل پیرا تھے، صحیح بخاری میں ہے:

"وَكَانَ عَبْدُ اللهِ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- لَا يَصُومُهُ، إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ صِيَامَهُ".

نویں محرم الحرام کا روزہ:
جب صحابہ کرام نے دسویں کا روزہ رکھا، اور اس میں اہل خیبر سے مشابہت پائی تو وہ بارگاہ نبوت میں عرض گزار ہوئے:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى.
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم -: «فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ».

"یا رسول الله، یہ وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودی اور عیسائی کرتے ہیں۔

رسول اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے"۔

حضرت ابن عباس -رضی الله تعالیٰ عنهما- فرماتے ہیں:

"فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-". [صحيح مسلم]

"آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- وصال فرما گئے"۔


"مسند أحمد" میں ہے کہ آپ -صلّى الله
عليه وسلّم- نے فرمایا:

«لئن سَلِمْتُ إلى قابلٍ لأصومَنَّ التاسعَ»، يعني: عاشوراءَ.

"اگر میں سال آئندہ باحیات رہا تو ضرور نویں محرم کا روزہ رکھوں گا"۔

ایک روایت میں ہے:
«لئن عشت إلى قابل لأصومن التاسع».

چوں کہ آپ نے نویں کا روزہ نہ رکھا، مگر سال آئندہ کے لیے اس کا عزم فرمایا تھا، لھذا علماء فرماتے ہیں کہ نویں کے دن بھی روزہ رکھا جائے، حَكَم بن اعرج کہتے ہیں:

"انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا-، وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ.
فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ.

فَقَالَ: "إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا".

قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَصُومُهُ؟
قَالَ: «نَعَمْ».

اس روز کے روزہ کو "صوم تاسوعاء" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
امام نووی -رحمه الله تعالیٰ- تحریر کرتے ہیں:

"عاشوراءُ وتاسوعاءُ: اسمانِ ممدودان، هذا هو المشهور في كتب اللغة.

قال أصحابنا: عاشوراء هو اليوم العاشر من المحرَّم، وتاسوعاء هو التّاسع منه". [المجموع]

"عاشوراء اور تاسوعاء الف ممدودہ سے لکھے جانے والے دو اسم ہیں، کتب لغت میں یہی مشہور ہے۔

ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ عاشوراء محرم کا دسواں دن ہے، اور تاسوعاء وہ محرم کا نواں روز ہے"۔

نویں کا روزہ رکھنے میں کئی ایک حکمتیں ہیں، امام نووی -رحمہ الله- لکھتے ہیں:

"ذكر العلماء من أصحابنا وغيرهم في حكمة استحباب صوم تاسوعاء أوجهاً:

أحدها: أن المراد منه مخالفة اليهود في اقتصارهم على العاشر.

الثاني: أن المراد به وصل يوم عاشوراء بصوم، كما نهى أن يصام يوم الجمعة وحده، ذكرهما الخطابي وآخرون.

الثالث: الاحتياط في صوم العاشر خشية نقص الهلال ووقوع غلطٍ، فيكون التّاسع في العدد هو العاشر في نفس الأمر.

"ہمارے اصحاب اور دوسرے علماء کرام نے نو محرم کے روزے کے مستحب ہونے کی حکمت میں کئی ایک وجوہات بیان کی ہیں:

پہلی: اس سے یھود کی مخالفت مراد ہے، وہ صرف دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔

دوسری: اس سے مقصود ہے کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک روز کا اور روزہ بھی ملایا جائے، جیسا کہ رسول کریم -صلی الله علیہ وسلم- نے صرف جمعہ کا روزہ رکھنے سے ممانعت فرمایا ہے۔ ان دونوں وجہوں کو خطابی اور دوسرے لوگوں نے بیان کیا ہے۔

تیسری: دسویں محرم کے روزہ میں احتیاط کے لیے کہ کہیں چاند کم دنوں کا نہ ہو، جس کی بنا پر غلطی ہوجائے اس لیے نو محرم کا روزہ رکھنا عدد میں دس محرم ہوجائے گا۔

اس دور میں یہودیوں کے یہاں قمری کیلینڈر رائج نہیں ہے، اور نہ ہی اس دن روزہ رکھنے کا کوئی اہتمام ہے، اس لیے نو تاریخ کو روزہ رکھنے کی اصل علت مفقود ہوگئی ہے، دس محرم کو روزہ رکھنا بھی کافی ہے۔

فضیلت صوم عاشوراء احادیث کی روشنی میں:
رمضان کی فرضیت سے قبل اسے واجب قرار دیا گیا تھا، پھر اسے منسوخ کر دیا گیا، اس روزہ کی فضیلت احادیث متواترہ سے ثابت ہے، چند ملاحظہ فرمائیں:

(1) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانُوا يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ، وَكَانَ يَوْمًا تُسْتَرُ فِيهِ الكَعْبَةُ.

فَلَمَّا فَرَضَ اللَّهُ رَمَضَانَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ».

(2) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ -رضي الله عنه-، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: «صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ». [صحيح مسلم].

حضرت ابو قتادہ -رضی الله عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اللہ -صلی الله علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: "مجھے الله پر یقین ہے کہ یومِ عاشوراء کا روزہ سال گزشتہ کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا"۔

(3) عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- أَنَّ رَجُلا ، سَأَلَهُ: أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟
فَقَال: مَا سَمِعْتُ أَحَدًا إِلا رَجُلا سَأَلَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-٬ وَأَنَا حَاضِرٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟

فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ : «إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَصُمِ الْمُحَرَّمَ، فَإِنَّ شَهْرَ اللَّهِ -عَزَّ وَجَلَّ- فِيهِ يَوْمَ تَابَ اللَّهُ -عَزَّ وَجَلَّ- عَلَى قَوْمٍ، وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ».

حضرت علی -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ ان سے ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ مجھے ماہ رمضان المبارک کے بعد کس ماہ کا روزہ رکھنا حکم دیتے ہیں؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس سوال کو نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- سے ایک شخص کو پوچھتے ہوئے سنا، اور میں آپ کے پاس موجود تھا، تو اس شخص
نے کہا: یا رسول الله، آپ مجھے ماہ رمضان المبارک کے بعد کس ماہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟

آپ -صلی الله علیہ وسلم- نے جواب دیا: اگر تم ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہتے ہو تو محرم کا روزہ رکھو؛ بے شک وہ ماہ خدا ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی، اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس روز قبول فرمائے گا"۔

(4) عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ: أَرْسَلَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الأَنْصَارِ: «مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا، فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا، فَليَصُمْ».

قَالَتْ: "فَكُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ، وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا، وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ العِهْنِ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الإِفْطَارِ".

ربیع بنت معوذ سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ -صلی الله علیہ وسلم- نے عاشورہ کی صبح انصار کی بستیوں میں اطلاع بھجوائی کہ جس نے کھا پیا لیا ہے اسے چاہیے کہ وہ بقیہ دن نہ کھائے پیے، اور جو روزہ دار ہیں تو انھیں چاہیے کہ روزہ دار ہی رہیں"۔

ربیع بنت معوذ کہتی ہیں: "اس کے بعد ہمارا یہ معمول تھا کہ ہم اس روز کا روزہ رکھتے تھے، اور ہم اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے، اور ان کے لیے اون سے کھلونا بنا دیتے، جب ان میں سے کوئی کھانے کے لیے روتا اسے کھانا کھلا دیتے، حتی کہ وہ افطار میں بھی ساتھ ہوتا تھا۔
(5) عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بَعَثَ رَجُلًا يُنَادِي فِي النَّاسِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ «إِنَّ مَنْ أَكَلَ فَلْيُتِمَّ أَوْ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ لَمْ يَأْكُلْ فَلاَ يَأْكُلْ».

(6) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "صَامَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عَاشُورَاءَ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِكَ". [صحیح بخاری]

حضرت ابن عمر -رضی الله عنھما- سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: "رسول الله -صلی الله علیہ وسلم- نے عاشوراء کا روزہ رکھا، اور اس روزہ کا حکم فرمایا، جب رمضان فرض کیا گیا اسے ترک کر دیا گیا"۔

فوائد صوم عاشوراء:
(1) اس روزہ کی برکت سے سال بھر کے گناہ صغیرہ مٹا دیئے جاتے ہیں٬ حدیث شریف میں ہے:

"وسُئل عن صوم يوم عاشوراء، فقال: «يُكفِّر السنة الماضية».

"اور یوم عاشوراء کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: وہ سال گزشتہ کے گناہ کا کفارہ ہے"۔

امام مسلم -رحمہ الله- کی روایت میں ہے:

"وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ".

(2) امام أحمد اپنی "مسند" میں روایت کرتے ہیں:

"وهو اليوم الذي استوت فيه السفينة على الجودي، فصامه نوح شكرا".

"اسی روز کشتی جودی پر ٹھری، تو اس روز حضرت نوح -علیہ السلام- نے شکرانہ کا روزہ رکھا"۔

اس بات کا ذکر صرف امام احمد کی روایت میں ہی ہے، الحافظ علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں: "وكأن ذكر موسى دون غيره هنا لمشاركته لنوح في النجاة، وغرق أعدائهما".

(3) بنی اسرائیل کے لیے یہ ایک تاریخی دن ہے، اس روز حضرت موسیٰ -علیہ السلام- اپنی قوم کو فرعون کے ظلم وستم سے نجات دلانے میں کامیاب ہوئے، اور شکرانے میں اس روز روزہ رکھا، حدیث شریف میں ہے:

"هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ٬ فَصَامَهُ مُوسَى".

(4) حضرت عائشه رضي الله عنها فرماتی ہیں:

"كانوا يصومون عاشوراء قبل أن يفرض رمضان، وكان يوما تُستَر فيه الكعبة. [صحیح بخاری]
لوگوں رمضان کے فرض ہونے سے قبل عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، اور وہ ایسا دن تھا کہ اس روز کعبہ پر خلاف چڑھایا جاتا"۔

(5) ازرقی کا کہنا ہے کہ:
"أن معاوية كساها الديباج والقباطي والحبرات.
فكانت تكسى الديباج يوم عاشوراء، والقباطي في آخر رمضان.
(6) اسی روز امام حسین -رضی الله تعالیٰ عنه- کربلا میں شہید ہوئے۔

خاتمہ:
الله تعالی کا شکر واحسان ہے کہ اس نے ہمیں بھت سے یادگاری ایام عطا فرمائے، یہ ایام اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان سے خوب خوب استفادہ کیا جائے، انھیں ذکر وفکر میں گزارا جائے، اور حاصل شدہ نصح وعبر سے سبھی کو مطلع کیا جائے، تاکہ مستقبل کی سھی طور پر پیش بندی کی جا سکے، اور امت مسلمہ فلاح دارین حاصل کرسکے۔

علاوہ ازیں ان دنوں میں ثابت شدہ امور کو ہی بجا لانا چاہیے، بدعات ومنکرات سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، الله تعالی فرماتا ہے:

{أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ}.
💐🌸🌷🌹
ممبیء، 15/اگست/2019
----------------------
https://tauhidahmadjamdai.blogspot.com/2019/08/blog-post_15.html
🌹 جمعہ مبارک
🌳سورۃ القدرکی فضیلت
جو کوئی جمعہ کے روز نمازِ جمعہ سے پہلے 3 بار
سورۂ قدر
(انا انزلنہ فی لیلۃ القدر)
پڑھتا ہے اللہ پاک اس روز کے تمام نماز پڑھنے والوں کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھتا ہے.

(نزہۃ المجالس،ج 1،ص،233.)
(فیضان سنت جلد اول،ص،1166)

تفسیر روح البیان میں ہے کہ جو شخص جمعہ کی نما زسے پہلے100مرتبہ’’یَا بَصِیْرُ‘‘پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی بصیرت میں اضافہ فرما دے گا اور اسے اچھی باتوں اور نیک کاموں کی توفیق نصیب فرمائے گا۔
( روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۷/۲۶۸)
@HamariUrduPiyariUrdu
🌹🌺 *درس قرآن* 🌺🌹

📖 پارہ۔30🌠 78-سورۂ نَبا ...🍀آیت نمبر27&28

🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔

اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ حِسَابًا(۲۷) وَّ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا كِذَّابًا(۲۸)

*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (27)بیشک انہیں حساب کا خوف نہ تھا۔ (28)اور (انہوں نے) ہماری آیتیں حد بھر جھٹلائیں۔

_🍀تفسیر:🍀_

{اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ حِسَابًا: بیشک وہ حساب کا خوف نہ رکھتے تھے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار اس سزا کے مستحق اس وجہ سے ہوئے ہیں کہ وہ آخرت میں اپنے اعمال کا حساب ہونے کا خوف نہ رکھتے تھے۔ کیونکہ وہ مرنے کے بعد اٹھنے کا انکار کرتے تھے اور انہوں نے ہماری وحدانیّت اور ہمارے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صداقت کے دلائل پر مشتمل آیتوں کو بہت زیادہ جھٹلایا تھا۔( روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۱۰/۳۰۶، خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۷-۲۸، ۴/۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

آیت’’ اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:


لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَ قَلَّبُوْا لَكَ الْاُمُوْرَ حَتّٰى جَآءَ الْحَقُّ وَ ظَهَرَ اَمْرُ اللّٰهِ وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ(۴۸)

ترجمہ

بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ و فساد چاہا تھا اور اے حبیب! انہوں نے پہلے بھی تمہارے لئے الٹی تدبیریں کی ہیں حتّٰی کہ حق آگیا اور اللہ کا دین غالب ہوگیا اگرچہ یہ ناپسند کرنے والے تھے۔

تفسیر


*{لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ:بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ و فساد چاہا تھا۔}* منافقین کے جنگ میں شریک نہ ہونے پراہلِ ایمان اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ منافقین غزوۂ تبوک سے پہلے ہی آپ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو دین سے روکنے، کفر کی طرف لوٹا دینے اور لوگوں کوآپ کا مخالف بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن اُبی سلول منافق نے جنگِ اُحد کے دن کیا کہ مسلمانوں میں اِنتشار پھیلانے کیلئے اپنے گروہ کو لے کر واپس ہوگیا۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انہوں نے پہلے بھی آپ کے لئے الٹی تدبیریں کی ہیں اور انہوں نے آپ کا کام بگاڑنے اور دین میں فساد ڈالنے کے لئے بہت حیلے سازیاں کی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی طرف سے تائید و نصرت آگئی اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہوگیا اگرچہ یہ لوگ اسے ناپسند کرنے والے تھے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۲ / ۲۴۷-۲۴۸)

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْؕ-اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْاؕ-وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۴۹)

ترجمہ

اور ان میں کوئی آپ سے یوں کہتا ہے کہ مجھے رخصت دیدیں اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیں ۔ سن لو! یہ فتنے ہی میں پڑے ہوئے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔

تفسیر


*{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ:اور ان میں کوئی یوں کہتا ہے۔}* شانِ نزول: یہ آیت جد بن قیس منافق کے بارے میں نازل ہوئی، جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوئہ تبوک کے لئے تیاری فرمائی تو جد بن قیس نے کہا :’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بڑا شیدائی ہوں ، مجھے اندیشہ ہے کہ میں رومی عورتوں کو دیکھوں گا تو مجھ سے صبر نہ ہوسکے گا اس لئے آپ مجھے یہیں ٹھہر جانے کی اجازت دیجئے اور ان عورتوں کے فتنہ میں نہ ڈالئے ، میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اپنے مال سے مدد کروں گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہ اس کا حیلہ تھا اور اس میں سوائے نفاق کے اور کوئی سبب نہ تھا۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اسے اجازت دے دی اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۲۴۸)

*{اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا:سن لو! یہ فتنے ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔}* اس کا معنی یہ ہے کہ منافقین فتنے میں پڑ جانے کے اندیشے کی وجہ سے جہاد سے اعراض کر رہے ہیں جیسا کہ اوپر ایک منافق کا قول گزرا ہے تو فرمایا گیا کہ یہ تواِس موجودہ وقت میں بھی فتنے میں ہی مبتلا ہیں کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرنا اور تکلیف قبول کرنے سے اِعراض کرنا تو سب سے بڑا فتنہ ہے۔ اور اس کے ساتھ اس فتنے میں بھی مبتلا ہیں کہ منافقین مسلمانوں کی مخالفت پر قائم ہیں۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۶۵)

اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْۚ-وَ اِنْ تُصِبْكَ مُصِیْبَةٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ فَرِحُوْنَ(۵۰)

ترجمہ

اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے تو انہیں برالگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں : ہم نے پہلے ہی اپنا احتیاطی معاملہ اختیار کرلیا تھا اور خوشیاں مناتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں ۔

تفسیر


*{اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ:اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے۔}* یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر تمہیں بھلائی پہنچے اور تم دشمن پر فتح یاب ہوجاؤ اور غنیمت تمہارے ہاتھ آئے تو منافقین غمزدہ ہو جاتے ہیں اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے اور کسی طرح کی شدت کا سامنا ہو تو منافقین یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چالاکی کے ذریعے جہاد میں نہ جاکر اس مصیبت سے خود کو بچالیا تو گویا ہم نے پہلے ہی اپنا احتیاطی معاملہ اختیار کرلیا تھا پھر مزید ا س بات پر وہ خوشیاں مناتے ہیں کہ ہم جہاد کی مشقت و مصیبت سے محفوظ رہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآی
ۃ: ۵۰، ۲ / ۲۴۸)

*آیت’’ اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:*

اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مصیبت پر خوش ہونا کافروں کا کام ہے، اسی طرح مسلمانوں کی خوشی پر غم کرنا منافقوں کی نشانی ہے۔

*طالبِ دعا ابوعمر*
" جھوٹ کی مذمت پر فرامینِ مصطفیٰﷺ "

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:

" تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔"

( سنن ابو داوود- جلد ٣ - ١٥٥٢)

" رسول صلی الله علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کی کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا : ہاں پھر پوچھا کیا مومن کنجوس ہو سکتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہاں پھر آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں"

( مؤطا امام مالك ٢٣٧١)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں:

" جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو،"

( سنن ابو داوود- جلد ٣ - ١٣٧٢ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا آگاہ ہو جاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی ( سب سے بڑے گناہ ہیں ) آگاہ ہو جاؤ جھوٹی بات بھی اور جھوٹی گواہی بھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے مسلسل دہراتے رہے اور میں نے سوچا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش نہیں ہوں گے۔"

(صحیح بخاری- جلد -٣ ٥٩٧٦ )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہےاور سچ بولنے کو لازم کر لو اس لیے کہ سچ بھلائی اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے ۔"

( سنن ابو داوود- جلد ٣ - ١٥٥١ )
-----------------------------------------
#البخاری #ابوداؤد
#Hadees #Bukhari #AbuDawood
💚 الحمدللہ اس ٹیلی گرام چینل میں روزانہ باحوالہ تحریری احادیث شیئر کی جاتی ہیں
💚 T.me/TahririAhadees92
🐎 مجاہد کا گھوڑا 🐎

ایک دوست پوچھ رہے تھے:
اسلامی ممالک کے پاس اتنے ٹینک ، توپیں ، میزائل ، بارود اور جہاز ہیں ؛ پھر بھی میدان جہاد کی طرف رُخ کیوں نہیں کرتے ؟؟

میں نے انھیں کہا ، غالباً حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
سلطان رکن الدین بیبرس کے زمانے میں کسی مجاہد کے پاس ایک گھوڑا تھا ، جو میدان جنگ میں خوب باگ دوڑ کرتا ۔
ایک دفعہ لڑائی کے دوران وہ سُست پڑ گیا تو مجاہد نے اسے آگےبڑھنے کے لیے مارا ، لیکن وہ آگے نہ بڑھا ، پیچھے ہی پیچھے ہٹتا گیا ۔
مجاہد کو اس کی حرکت پر بہت غصہ آیا اور حیرانگی بھی ہوئی ۔
وہ رات کو سویا تو اس نے خواب میں اپنے گھوڑے کو دیکھا اور اُسے میدان جہاد میں سستی کرنے پر ملامت کرنے لگا ۔
اِس پر گھوڑے نے کہا:
” میں دشمن پر کیسے چڑھائی کرتا ، جب کہ تم نے میرے لیےکھوٹے پیسے سے چارہ خریدا تھا ! “

مجاہد صبح اٹھ کر چارہ بیچنے والے کے پاس گیا ، تو چارہ فروش نے اسے دیکھتے ہی کہا:

کل تم مجھے کھوٹا درہم دے گئے تھے!!

اب آپ خود ہی غور کرلیں کہ:
جس گھوڑے کو ایک بار کھوٹے پیسے کا چارہ کھلایا جائے جب وہ بھی میدانِ جہاد میں آگے نہیں بڑھتا تو وہ ٹینک ، گاڑیاں ، اور جہاز کیسے آگے بڑھیں گے جن کی پرورش میں سودکا پیسہ بھی شامل ہے!

اِنھیں ” جہاد فی سبیل اللہ “ کی طرف لے جانا ہے تو اِن کی پرورش پاکیزہ مال سے کرنی ہوگی ، نیز انھیں میدان جہاد میں لے جانے والے فوجیوں کی غذا بھی سود وغیرہ سے پاک کرنی ہوگی ۔

یہ عِلم ، یہ حِکمت ، یہ تَدَبُّر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لَہو ، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات

ظاہِر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جُوَا ہے
سُود ایک کا ، لاکھوں کے لیے مرگِ مَفاجات

وہ قوم کہ فیضانِ سَماوِی سے ہو محروم
حَد اُس کے کمالات کی ہے بَرق و بخارات

لقمان شاہد
16/8/2019 ء
قابلِ تقلید حکمران

اِسی سرزمین پر سلطان علاؤالدین خلجی رحمہ اللہ کی حکومت رہی ۔
اُس وقت قومی خزانے کو پیسوں کی سخت ضرورت تھی ، اس کے باوجود سلطان نے کھانے پینے کی چیزیں سستی کردیں ، لوگوں کے ٹیکس معاف کردیے ، دلال (middle man) کا کردار ختم کر دیا اور ذخیرہ اندوزی کی سزا مقرر کردی ۔
پھر اس پر عمل درآمد کے لیے جاسوسی کا ایسا نظام مرتب کیا جو منڈی کی خبریں براہِ راست سلطان تک پہنچاتا ۔
آپ کے زمانے میں لوگ بہت خوش حال ہوگئے ، اور یہی خوش حالی کافی عرصہ بعد تک رہی ۔
آپ نے سامانِ خُورد و نوش کے جو ریٹ مقرر کیے تھے ان میں سے کچھ یہ ہیں:

گندم: دیڑھ روپے میں دس من
جو: ایک روپے میں ساڑھے بارہ من
چنا: ایک روپے میں دس من
چاول: ایک روپے میں دس من
ماش: ایک روپے میں دس من
دالیں: ایک روپے میں دس من
گڑ: ایک روپے میں 166 سیر
گھی/مکھن ایک روپے میں 125 سیر

کاش! ہمارے حکمران یورپ کو نمونہ بنانے کے بجائے سلاطینِ اسلام کی پیروی کریں ۔
یورپ تو اِنھیں سُود ، مہنگائی ، بُزدلی اور منافقت سکھائے گا ۔
لیکن سلاطین اسلام سے اِنھیں غیرت و حمیت ، خیر خواہی ملت اور مومنانہ فراست کا درس ملے گا ۔

لقمان شاہد
مُتَوَطِّن: گجرات ، پنجاب ، پاکستان
17/8/2019 ء
*📚سلسلہ فرض علوم📚*

*🔵پوسٹ نمبر 246*
*🔷موضوع :فقہ(حنفی)*
*🔹باب :* محرم الحرام کے معمولات *(کرنے کے کام)*

*سوال👇*
محرم کے دس دنوں میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟

*جواب👇*
مسلمانوں کو ان ایام میں نیک کاموں کی کثرت کرنی چاہیے، مثلاً روزوں کی کثرت کریں کہ حدیث پاک میں ہے، نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: جس نے یوم عرفہ کا روزہ رکھا یہ اس کے لیے دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے اور جس نے محرم کے ایک دن کا روزہ رکھا اس کے لیے ایک دن کے بدلے میں تیس (30) دنوں کا ثواب ہے۔ (المعجم الصغیر)۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:جس نے محرم کا ایک روزہ رکھا اس کے لیے ہر دن تیس (30) نیکیاں ہیں۔(المعجم الکبیر)

*حوالہ:*(محرم الحرام اور عقائد و نظریات)

*طالب دعا واصلاح:*
*احقر العباد فقیر قادری ترابی*
*📚 "پیکرِ شرم و حیا،جامع القرآن" 📚*
*🌹•••عثمان غنی رضی اللہ عنہ•••🌹*

*🔵سلسلہ نمبر:05*
*🔷پوسٹ نمبر:01*

*☆شجرہ نسب مبارکہ☆*

︎حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شجرہ نسب یہ ہے:

حضرت عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب القرشی الاموی۔

*حوالہ:*(تاریخ الخلفاء)

*طالب دعا واصلاح:*
*احقر العباد فقیر قادری ترابی*
💸فرنگی طبیب 💸

ہمارے علاقے میں ایک طبیب تھا ، جسے متھرا کہتے تھے ۔
نبض شناس ، مزاج شناس ، ذہین و فطین اور اپنے فن کا ماہر تھا ۔
اگر کسی کا ہاتھ ، پاؤں وغیرہ ٹَل جاتا تو بغیر تکلیف دیے باتوں باتوں میں چڑھادیتا تھا ۔

بزرگ بتاتے ہیں: راجہ رنجیت سنگھ کی بیوی کا چُوکلا ( کمر کی ہڈی سے نچلا حصہ) ٹل گیا ، بڑے بڑے طبیبوں نے علاج کیا لیکن افاقہ نہ ہو سکا ۔
راجے کو کسی نے متھرے کا بتایاتو اس نے فوراًمتھرے کی طرف قاصد روانہ کردیا ۔
قاصد نے پہنچ کر ساتھ چلنے کاتقاضاکیا تو متھرا کہنے لگا:
بیمار میں نہیں ، رانی ہے ؛ اسے میرے پاس آنا چاہیے ۔
میں اتنے سارے مریضوں کو زیرِ علاج چھوڑ کر ایک مریضہ کے لیے نہیں جاسکتا ۔
رنجیت سنگھ تک جب یہ پیغام پہنچا تو اُس نے رَختِ سفر باندھا اوراہلیہ سمیت متھرے کے گاؤں پہنچ گیا ۔

متھرے نے رانی کا علاج اس طرح کیا کہ:

راجے کی گھوڑی کو پیٹ بھر کر چنے کھلائے ، پھر اس کا منھ باندھ دیا ۔
کچھ دیر بعد اُس کی ننگی پشت پر رانی کو بٹھاکر ، نیچے سے رانی کے پاؤں باندھے ور گھوڑی کو بہتے پانی کی طرف لے جاکر اس کا منھ کھول دیا ۔
چوں کہ وہ طویل سفر سے آئی تھی اور اس نے کافی سارے چنے کھالیے تھے ، اس لیے پیاس کی شدت نے اسے نڈھال کیا ہوا تھا ؛ اس نے جیسے ہی پانی دیکھا ، بے صبری سے پینے لگی ۔
جب خوب پی چکی ، تو حسبِ عادت پُھرکڑا مارا ( زور سے سانس لیا ) ، جس سے پیٹ کچھ باہر نکلا ۔
متھرا پاس کھڑا تھا ، اس نے دیکھا کہ جیسے ہی گھوڑی کا پیٹ پھولا ، رانی کا چُوکلا چڑھ گیا ۔
متھرے نے راجے سے کہا:
اپنی بیوی کو لے جاؤ اب اس کا چُوکلا اپنی جگہ سے نہیں ہِلے گا ۔
راجہ بہت خوش ہوا ، اور کہنے لگا: مانگ ، کیامانگتا ہے ؟
متھرے نے کچھ بھی لینے سے انکار کردیا ۔
لیکن جب راجے نے بے حد اصرار کیا تو کہنے لگا:

نمک پر جو ٹیکس وصول کرتےہو وہ ختم کردو تاکہ لوگوں پر گِرانی نہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🎋🌿🎋🌾

یہ تھے پہلے زمانے کے دیسی حکیم اور سیانے ، جو بڑے بڑے مسئلے حکمت و دانائی کے ساتھ مفت میں حل کردیتے تھے ۔
ان کے دل میں مخلوق کا احساس تھا ، یہ طب کو خدمتِ شکم نہیں ، خدمتِ خَلق کاذریعہ سمجھتے تھے ۔

اور ایک آج کل کے بعض فرنگی طبیب ( ڈاکٹرز ) ہیں ۔
توبہ توبہ توبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچ سو ، ہزار فیس دے کرمریض کی ان تک رسائی ہوتی ہے ، اُوپر سے اُسے دو چار ہزار کے ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں ۔
بندہ ان سے پوچھے:
جب ٹیسٹ دیکھ کرہی تمھیں مرض کا پتا چلنا ہوتا ہے ، تو فیس ” منھ دکھائی “ کی لیتے ہو ؟؟

حکیم صابر ملتانی اگر فرنگی طِب اور اِس کے طریقہ کار کے خلاف تھا ، تو بالکل ٹھیک تھا ؛ وہ آج کل کے ان فرنگی طبیبوں ( ڈاکٹروں ) کی کارستانیاں دیکھ لیتا ، تو سرپکڑ کربیٹھ جاتا ۔

یہ مریض کو ناقص دوائیاں لکھ کردیتے ہیں ، وہ بھی مُٹھوں کے مُٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دوائیاں بھی وہ ، جن پراچھا خاصہ کمیشن وصول کرچکے ہوتے ہیں ۔

پھر طُرفہ یہ کہ سب کچھ کرنے کے باوجود خود کو قوم کا مسیحا بھی باور کرواتے ہیں!!

انا للہ وانا الیہ راجعون

لقمان شاہد
15/8/2019 ء
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

روئے زمین کا سب سے بڑ اعبادت گزار:
تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے بچیں :

قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰىنَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۵۱)

ترجمہ

تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہ ہمارا مددگار ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

تفسیر


*{ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا:تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔}* یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں سے فرما دیں جو آپ کو مصیبت و تکلیف پہنچنے پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اور ہم پر مقدر فرما دیا اور ا س نے اسے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا کیونکہ قیامت تک ہونے والا ہر اچھا برا کام لکھ کر قلم خشک ہو چکا تو اب کوئی شخص ا س بات پر قادر نہیں کہ وہ اپنی جان سے ا س مصیبت کو دور کر دے جو اس پر نازل ہونی ہے اور نہ ہی کوئی ا س بات پر قادر ہے کہ وہ خود کوایسا فائدہ پہنچا سکے جو اس کے مقدر میں نہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہمارا حافظ و ناصر ہے اور وہ ہماری زندگی اور موت ہر حال میں ہماری جانوں سے زیادہ ہمارے قریب ہے اور مسلمانوں کو اپنے تمام اُمور میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۲ / ۲۴۸)

تقدیر سے متعلق اَحادیث و آثار:
یہاں تقدیر کا مسئلہ بیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں تقدیر سے متعلق دو احادیث اور دو آثار ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ

حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے تمام باشندوں کو عذاب دینا چاہے تو وہ انہیں عذاب دے سکتا ہے اور یہ ا س کا کوئی ظلم نہ ہو گا (کیونکہ وہ سب کا مالک ہے اور مالک کو اپنی ملکیت میں تَصَرُّف کا حق حاصل ہے) اگر وہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہو گی، اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر سونا یا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ ا س وقت تک ہر گز قبول نہ ہوگا جب تک تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ، دیکھو! جو بات تم پر آنے والی ہے وہ جا نہیں سکتی اور جو نہیں آنے والی وہ آ نہیں سکتی، اگر اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہوئے تمہیں موت آ گئی تو سمجھ لو کہ جہنم میں جاؤ گے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر، ۱ / ۵۹، الحدیث: ۷۷)

حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر چیز کی ایک حقیقت ہے اور بندہ اپنے ایمان کی حقیقت تک اس وقت پہنچے گا جب وہ اس بات پر یقین کرلے کہ جو مصیبت اسے پہنچی وہ ا س سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ (مسند امام احمد، مسند القبائل، ومن حدیث ابی الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۴۱۷، الحدیث: ۲۷۵۶۰)

حضرت مسلم بن یسار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’تقدیر اور اس کے بارے میں کلام کرنا یہ دو ایسی وسیع وادیاں ہیں کہ لوگ ان میں ہلاک تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتے لہٰذا تم اس شخص کی طرح عمل کرو جسے یہ معلوم ہو کہ اس کا عمل ہی اسے نجات دے گا اور اس شخص کی طرح توکل کرو جسے یہ علم ہو کہ اسے وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۶ / ۱۸۱۱-۱۸۱۲)

حضرت مطرف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ چھت پہ چڑھ کے خود کو گرا دے اور کہنے لگے کہ میری تقدیر میں ہی یوں لکھا تھا بلکہ ہمیں ڈر اور خوف ہونا چاہئے اور جب کوئی مصیبت پہنچ جائے تو یہ ذہن بنانا چاہئے کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔ (در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۲۱۶)

*تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے بچیں :*
یاد رہے کہ تقدیر کا مسئلہ انتہائی نازک ہے اور اس مسئلے میں الجھا کر شیطان لوگوں کا ایمان برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تقدیر کے بارے میں بحث اور غورو فکر کرنے سے بچے ۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آ سکتے اور ان میں زیادہ غورو فکر کرنا ہلاکت کا سبب ہے، صدیق و فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاا س مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے تو ہم اور آپ کس گنتی میں۔۔۔! اتنا سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اسے ایک طرح کا اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ ک
رے اور ا س کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے، برے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اَسباب مہیا کر دئیے ہیں کہ بندہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اس پر مُؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہے۔ (بہار شریعت، حصہ اول، عقائد متعلقۂ ذات وصفات، ۱ / ۱۸-۱۹، ملخصاً)

*{وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ:اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔}* اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ منافقین دنیوی اسباب ،جلد ملنے والی اور فانی لذتوں پر بھروسہ کرتے ہیں ا س لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰپر ہی بھروسہ کریں اور ا س کی رضا پر راضی رہیں۔

*اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی فضیلت:*
انسان کی زندگی نشیب و فراز کا نام ہے، کبھی دکھ کبھی سکھ، کبھی رنج و غم اور کبھی راحت و آرام، کبھی عیش و عشرت سے بھرپور لمحات اور کبھی مصائب و آلام سے معمور گھڑیاں الغرض طرح طرح کے حالات کا سامنا ہر فرد ِبشر کو اپنی زندگی میں کرنا پڑتا ہے، دینِ اسلام کا پیروکار ہونے کے ناطے ہر مسلمان کو چاہئے کہ غمی خوشی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور صابر و شاکر رہے، ترغیب کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی عظمت و فضیلت پر مشتمل چند آیات اور روایات یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ(۲۲) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ(۲۳) سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ‘‘(الرعد:۲۲-۲۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں انہیں کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔ وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالحین ہوں گے (وہ بھی جنت میں داخل ہوں گے) اور ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس (یہ کہتے ہوئے) آئیں گے۔تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخرت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلائ، ۴ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۰۳۱)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے ۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۴، الحدیث: ۷۳۷)

حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو اس وقت دنیا میں عافیت کے ساتھ رہنے والے تمنا کریں گے کہ’’ کاش! (دنیا میں ) ان کے جسموں کوقینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)

*روئے زمین کا سب سے بڑ اعبادت گزار:*
حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا، میں روئے زمین کے سب سے بڑے عابد (یعنی عبادت گزار) کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک ایسے شخص کے پاس لے گئے جس کے ہاتھ پائوں جذام کی وجہ سے گل کٹ کر جدا ہو چکے تھے اور وہ زبان سے کہہ رہا تھا، ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو نے جب تک چاہا ان اَعضاء سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا لے لیا اور میری امید صرف اپنی ذات میں باقی رکھی، اے میرے پیدا کرنے والے! میرا تو مقصود بس توہی تو ہے۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، اے جبرئیل! میں نے آپ کونمازی روزہ دار (قسم کا کوئی) شخص دکھانے کاکہا تھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا، اس مصیبت میں مبتلا ہونے سے قبل
یہ ایسا ہی تھا، اب مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اس کی آنکھیں بھی لے لوں۔ چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اشارہ کیا اوراس کی آنکھیں نکل پڑیں ! مگر عابد نے زبان سے وہی بات کہی ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ ،جب تک تو نے چاہا ان آنکھوں سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا انہیں واپس لے لیا۔ اے خالق! عَزَّوَجَلَّ ،میری امید گاہ صرف اپنی ذات کو رکھا، میرا تومقصود بس توہی توہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عابد سے فرمایا، آئو ہم تم باہم ملکر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر آنکھیں اور ہاتھ پائوں لوٹا دے اور تم پہلے ہی کی طرح عبادت کرنے لگو۔ عابد نے کہا، ہرگز نہیں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا ، آخر کیوں نہیں ؟ عابد نے جواب دیا ’’ جب میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا اسی میں ہے تو مجھے صحت نہیں چاہئے ۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، واقعی میں نے کسی اور کو اس سے بڑھ کر عابد نہیں دیکھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے کہا، یہ وہ راستہ ہے کہ رضا ئے الٰہی عَزَّوَجَلَّ تک رسائی کیلئے اس سے بہتر کوئی راہ نہیں۔( روض الریاحین، الحکایۃ السادسۃ والثلاثون بعد الثلاث مائۃ، ص۲۸۱)
*طالبِ دعا ابوعمر*
🌹🌺 *درس قرآن* 🌺🌹

📖 پارہ۔30🌠 78-سورۂ نَبا ...🍀آیت نمبر29&30

🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔

وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا(۲۹) فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا(۳۰)

*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (29)اور ہم نے ہر چیز لکھ کر شمار کر رکھی ہے۔ (30)اب چکھو کہ ہم تمہیں نہ بڑھائیں گے مگر عذاب۔

_🍀تفسیر:🍀_

{وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا: اور ہم نے ہر چیز لکھ کر شمار کر رکھی ہے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے لوحِ محفوظ میں ہر چیز لکھ کر شمار کر رکھی ہے۔ اور کافروں کے تمام نیک اور برے اعمال ہمارے علم میں ہیں، ہم انہیں ان کے اعمال کے مطابق جزا دیں گے۔ اور آخرت میں جب کفار کو عذاب دیا جائے گا تواس وقت ان سے کہا جائے گا کہ اب اپنی سزا کے طور پر جہنم کا عذاب چکھو اورہم تمہارے عذاب پر عذاب ہی کو بڑھائیں گے۔( خازن، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ۴/۳۴۸، جلالین، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ص ۴۸۷، روح البیان، النّبأ، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ۱۰/۳۰۶-۳۰۷، ملتقطاً)

*اہلِ جہنم پر سب سے زیادہ سخت اور تکلیف دِہ آیت:*

حضرت حسن بن دینار رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں، میں نے حضرت ابوبرزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا: اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب میں وہ کون سی آیت ہے جو اہلِ جہنم کے لئے سب سے زیادہ سخت اور تکلیف دِہ ہے؟ حضرت ابوبرزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: وہ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ’’فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا‘‘۔(مجمع الزّوائد، کتاب التفسیر، سورۃ عمّ یتساء لون، ۷/۲۸۱، الحدیث: ۱۱۴۶۳)

حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اہلِ جہنم کے لئے اس آیت ’’فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا‘‘ سے زیادہ سخت کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ یعنی وہ اللّٰہ تعالیٰ کے مزید عذاب میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔(درمنثور، النّبأ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۸/۳۹۷)
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کے فضائل:

قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِؕ-وَ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ یُّصِیْبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِهٖۤ اَوْ بِاَیْدِیْنَا ﳲ فَتَرَبَّصُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ(۵۲)

ترجمہ

تم فرماؤ، تم ہمارے اوپر دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہو اور ہم تم پر انتظار کررہے ہیں کہ اللہ تمہیں اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سے عذاب دے توتم انتظار کرو اور ہم (بھی) منتظر ہیں ۔

تفسیر

*{اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ:دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا۔}* اس آیت میں مسلمانوں کو پہنچنے والی مصیبتوں پر منافقوں کو ہونے والی خوشی کا ایک اور جواب دیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان منافقوں سے فرما دیں کہ اے منافقو! تم ہمارے اوپر دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہو کہ ہمیں یا تو فتح و غنیمت ملے گی یا شہادت و مغفرت کیونکہ مسلمان جب جہاد میں جاتا ہے تو وہ اگر غالب ہو جب تو فتح و غنیمت او راجرِ عظیم پاتا ہے اور اگر راہِ خدا میں مارا جائے تو اس کو شہادت حاصل ہوتی ہے جو اس کی اعلیٰ مراد ہے اور ہم تم پر دو برائیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سابقہ اُمتوں کی طرح تمہیں بھی اپنی طرف سے عذاب دے کر ہلاک کر دے یا ہمیں تم پر کامیابی و غلبہ عطا کر کے ہمارے ہاتھوں سے تمہیں عذاب دے اور جب یہ بات ہے توتم ہمارے انجام کا انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے انجام کے منتظر ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۲۴۸، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۴۴۷، ملتقطاً)

*راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کے فضائل:*
اَحادیث میں راہِ خدا میں جہاد کرنے والے مسلمان کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے دو احادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے کہ جو میری راہ میں نکلے اور مجھ پر ایمان یا میرے رسولوں کی تصدیق ہی وہ سبب ہے جس نے اسے گھر سے نکالا ہو تو میں اسے غنیمت کے ساتھ واپس بھیجوں گا یا جنت میں داخل کر دوں گا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان، ۱ / ۲۵، الحدیث: ۳۶)

(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں نکلے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ضامن ہو جاتا ہے۔ (اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ) جو شخص میرے راستے میں جہاد کے لئے اور صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے نکلتا ہو تو میں اس بات کا ضامن ہوں کہ (اگر وہ شہید ہوگیا تو) اس کو جنت میں داخل کروں گا یا اس کو اجر اور غنیمت کے ساتھ اس کے گھر لوٹاؤں گا۔( مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))


*طالبِ دعاابوعمر*