🌴 بیٹی🌴
1: بیٹی کی پیدائش پر کفار و مشرکین کی طرح منھ نہیں بسورنا چاہیے ، بلکہ اللہ پاک کی رحمت سمجھ کر خوشی منانی چاہیے ۔
یہ حقیقت ہے کہ بیٹیاں ، بیٹوں کہ بہ نسبت زیادہ باوفا ہوتی ہیں ؛ پرائے گھر جاکر بھی والدین کا ساتھ نہیں چھوڑتیں ۔
2: بیٹی جب کچھ ہوش سنبھالنے لگے تو اسےدینی تعلیم دیں ، پردے کے فوائد اور احکام بتائیں ؛ تاکہ جوان ہوکر پردے کو عزت سمجھے اور دین پر چلے ۔
3: بیٹیاں ، بیٹوں کی بہ نسبت کمزور دل ہوتی ہیں ، لال بیگ کیا چیونٹیوں سے بھی ڈر جاتی ہیں ؛ انھیں مزید بلی چوہے سے ڈرانے کے بجائے ، جرات و بہادری کا سبق دیں تاکہ مضبوط دل بنیں ۔
رات کو انھیں حضرت خولہ ، اسما ، اُم عمارہ ، اُم حکیم ، ام سلیم رضی اللہ عنھن جیسی بہادر صحابیات کے واقعات سنائیں ، تاکہ ان میں دشمن سے مقابلہ کرنے کی جرات پیدا ہو سکے اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں ۔
4: بیٹی کی شادی اس کی رضا مندی کے بغیر ہر گز نہیں کرنی چاہیے ۔
ضد میں آکر بیٹی کے ارمانوں کاخون کرنا ، کوئی دانش مندی نہیں ۔
5: جہیز دینا آپ کی معاشرتی مجبوری ہوگی ، جس کے لیے آپ نے بہت جتن کیے ہوں گے ؛ لیکن بیٹی کو وراثت سے حصہ دینا حکم خداوندی ہے ، اس کے لیے بھی بھر پور کوشش کریں ؛ تاکہ بیٹی خوشی خوشی اپنا حصہ لے سکے ۔
معاف کروانے کا سوچتے رہنا بھکاری پن ہے جو خود دار کو زیب نہیں دیتا ۔
6: عمر بھر بیٹی کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھیں ۔
وہ جب بھی سسرال سے میکے آئے ، اسے خالی ہاتھ نہ لوٹائیں ۔
آپ نہیں جانتے کہ لاکھوں میں کھیلنے والی آپ کی بیٹی ، آپ کا ہزار روپیہ پاکر بھی پھولی نہیں سمائے گی ۔
اعلیٰ ترین پوشاکیں پہننے والی بیٹی ، آپ کے دیے ہوئے عام سے کپڑوں کو بھی بہت زیادہ اہمیت دے گی ۔
گاؤں دیہاتوں کے پرانے بزرگ کہتے تھے:
میکے گھر آئی بیٹی کو خالی ہاتھ بھیجیں تو چھت کے بالے کِڑ کِڑ کرتے ہیں ۔
( مطلب وہ بیٹی کے خالی ہاتھ چلے جانے کو ایک حادثہ سمجھتے تھے ۔ )
لقمان شاہد
6/8/2019 ء
1: بیٹی کی پیدائش پر کفار و مشرکین کی طرح منھ نہیں بسورنا چاہیے ، بلکہ اللہ پاک کی رحمت سمجھ کر خوشی منانی چاہیے ۔
یہ حقیقت ہے کہ بیٹیاں ، بیٹوں کہ بہ نسبت زیادہ باوفا ہوتی ہیں ؛ پرائے گھر جاکر بھی والدین کا ساتھ نہیں چھوڑتیں ۔
2: بیٹی جب کچھ ہوش سنبھالنے لگے تو اسےدینی تعلیم دیں ، پردے کے فوائد اور احکام بتائیں ؛ تاکہ جوان ہوکر پردے کو عزت سمجھے اور دین پر چلے ۔
3: بیٹیاں ، بیٹوں کی بہ نسبت کمزور دل ہوتی ہیں ، لال بیگ کیا چیونٹیوں سے بھی ڈر جاتی ہیں ؛ انھیں مزید بلی چوہے سے ڈرانے کے بجائے ، جرات و بہادری کا سبق دیں تاکہ مضبوط دل بنیں ۔
رات کو انھیں حضرت خولہ ، اسما ، اُم عمارہ ، اُم حکیم ، ام سلیم رضی اللہ عنھن جیسی بہادر صحابیات کے واقعات سنائیں ، تاکہ ان میں دشمن سے مقابلہ کرنے کی جرات پیدا ہو سکے اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں ۔
4: بیٹی کی شادی اس کی رضا مندی کے بغیر ہر گز نہیں کرنی چاہیے ۔
ضد میں آکر بیٹی کے ارمانوں کاخون کرنا ، کوئی دانش مندی نہیں ۔
5: جہیز دینا آپ کی معاشرتی مجبوری ہوگی ، جس کے لیے آپ نے بہت جتن کیے ہوں گے ؛ لیکن بیٹی کو وراثت سے حصہ دینا حکم خداوندی ہے ، اس کے لیے بھی بھر پور کوشش کریں ؛ تاکہ بیٹی خوشی خوشی اپنا حصہ لے سکے ۔
معاف کروانے کا سوچتے رہنا بھکاری پن ہے جو خود دار کو زیب نہیں دیتا ۔
6: عمر بھر بیٹی کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھیں ۔
وہ جب بھی سسرال سے میکے آئے ، اسے خالی ہاتھ نہ لوٹائیں ۔
آپ نہیں جانتے کہ لاکھوں میں کھیلنے والی آپ کی بیٹی ، آپ کا ہزار روپیہ پاکر بھی پھولی نہیں سمائے گی ۔
اعلیٰ ترین پوشاکیں پہننے والی بیٹی ، آپ کے دیے ہوئے عام سے کپڑوں کو بھی بہت زیادہ اہمیت دے گی ۔
گاؤں دیہاتوں کے پرانے بزرگ کہتے تھے:
میکے گھر آئی بیٹی کو خالی ہاتھ بھیجیں تو چھت کے بالے کِڑ کِڑ کرتے ہیں ۔
( مطلب وہ بیٹی کے خالی ہاتھ چلے جانے کو ایک حادثہ سمجھتے تھے ۔ )
لقمان شاہد
6/8/2019 ء
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
آیت’’هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(۳۲) هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳)
ترجمہ
یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہ مانے گا اگرچہ کافر ناپسند کریں ۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک ناپسند کریں ۔
تفسیر
{ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں۔} اس آیت میں نور سے مراددینِ اسلام یا سرکار ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل ہیں اور نور بجھانے سے مراد حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین مٹانا ہے یا قرآن کو شائع نہ ہونے دینا یا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر روکنا اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل سے چڑجانا ۔ تو فرما دیا کہ کفار کی حرکتوں سے نہ دین ختم ہوگا، نہ اسلام کی شوکت میں کمی آئے اور نہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں فرق آئے گا۔(بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۴۱-۱۴۲، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۱۶، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں:
مِٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
آیت’’هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… سچا دین اور ہدایت حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایسے وابستہ ہیں جیسے آفتاب کے ساتھ روشنی کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو چھوڑ کر نہ ہدایت ملتی ہے نہ سچا دین ، اگر صرف قرآن سے ہدایت مل جاتی تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کودنیا میں کیوں بھیجا جاتا۔
(2)… حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی ہدایت اور سچے دین سے الگ نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بھیجے گئے ہیں جو انہیں ایک آن کے لئے بھی ہدایت سے الگ مانے وہ بے دین ہے۔
{ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ:تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔} قرآنِ پاک میں یہ مضمون اس آیت کے علاوہ سورۂ فتح کی آیت نمبر 28 اور سورۂ صف کی آیت نمبر 9 میں بھی بیان ہوا ہے۔ آیت میں غلبے سے دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے غلبہ مراد ہے۔ دلائل کے اعتبار سے تو یوں کہ دینِ اسلام نے اپنی حقانیت پر جو دلائل پیش کئے ہیں اس سے مضبوط ترین دلائل کوئی بھی پیش نہ کر سکا اور جہاں تک قوت کے اعتبار سے غلبہ کاتعلق ہے تو اس مراد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بہت بڑا عرصہ ایسا گزرا ہے کہ د نیا میں صرف دینِ اسلام ہی غالب تھا اور اب آئندہ اس کا کامل ظہور اس وقت ہو گا جب حضرت امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
*طالبِ دعاابوعمر*
آیت’’هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(۳۲) هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳)
ترجمہ
یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہ مانے گا اگرچہ کافر ناپسند کریں ۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک ناپسند کریں ۔
تفسیر
{ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں۔} اس آیت میں نور سے مراددینِ اسلام یا سرکار ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل ہیں اور نور بجھانے سے مراد حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین مٹانا ہے یا قرآن کو شائع نہ ہونے دینا یا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر روکنا اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل سے چڑجانا ۔ تو فرما دیا کہ کفار کی حرکتوں سے نہ دین ختم ہوگا، نہ اسلام کی شوکت میں کمی آئے اور نہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں فرق آئے گا۔(بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۴۱-۱۴۲، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۱۶، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں:
مِٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
آیت’’هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… سچا دین اور ہدایت حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایسے وابستہ ہیں جیسے آفتاب کے ساتھ روشنی کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو چھوڑ کر نہ ہدایت ملتی ہے نہ سچا دین ، اگر صرف قرآن سے ہدایت مل جاتی تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کودنیا میں کیوں بھیجا جاتا۔
(2)… حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی ہدایت اور سچے دین سے الگ نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بھیجے گئے ہیں جو انہیں ایک آن کے لئے بھی ہدایت سے الگ مانے وہ بے دین ہے۔
{ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ:تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔} قرآنِ پاک میں یہ مضمون اس آیت کے علاوہ سورۂ فتح کی آیت نمبر 28 اور سورۂ صف کی آیت نمبر 9 میں بھی بیان ہوا ہے۔ آیت میں غلبے سے دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے غلبہ مراد ہے۔ دلائل کے اعتبار سے تو یوں کہ دینِ اسلام نے اپنی حقانیت پر جو دلائل پیش کئے ہیں اس سے مضبوط ترین دلائل کوئی بھی پیش نہ کر سکا اور جہاں تک قوت کے اعتبار سے غلبہ کاتعلق ہے تو اس مراد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بہت بڑا عرصہ ایسا گزرا ہے کہ د نیا میں صرف دینِ اسلام ہی غالب تھا اور اب آئندہ اس کا کامل ظہور اس وقت ہو گا جب حضرت امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
*طالبِ دعاابوعمر*
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر27
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ-بَنٰںهَاٙ(۲۷)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (27) کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارا بنانا مشکل یا آسمان کا؟ اللہ نے اسے بنایا۔
*#تفسیر:*
{ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ: کیا (تمہاری سمجھ کے مطابق) تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟} اللّٰہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں سے فرمایا کہ کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارے مرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تمہیں دوبارہ بنانا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا؟ اس کے جواب میں تم یہی کہو گے کہ آسمان جیسی بڑی اور مضبوط چیز پیدا کرنے کے مقابلے میں انسان کو پیدا کرنا زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ وہ آسمان سے بہت چھوٹا اور کمزور ہے۔ تو جب تمہاری سمجھ کے مطابق تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اللّٰہ تعالیٰ پر زیادہ آسان ہے تو پھر تم اس کا انکار کیوں کرتے ہو۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ زمین و آسمان کو اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس کا تم انکار بھی نہیں کرتے۔( خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴/۳۵۱، ملخصاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر27
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ-بَنٰںهَاٙ(۲۷)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (27) کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارا بنانا مشکل یا آسمان کا؟ اللہ نے اسے بنایا۔
*#تفسیر:*
{ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ: کیا (تمہاری سمجھ کے مطابق) تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟} اللّٰہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کرنے والوں سے فرمایا کہ کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارے مرنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تمہیں دوبارہ بنانا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا؟ اس کے جواب میں تم یہی کہو گے کہ آسمان جیسی بڑی اور مضبوط چیز پیدا کرنے کے مقابلے میں انسان کو پیدا کرنا زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ وہ آسمان سے بہت چھوٹا اور کمزور ہے۔ تو جب تمہاری سمجھ کے مطابق تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اللّٰہ تعالیٰ پر زیادہ آسان ہے تو پھر تم اس کا انکار کیوں کرتے ہو۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ زمین و آسمان کو اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اس کا تم انکار بھی نہیں کرتے۔( خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴/۳۵۱، ملخصاً)
اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوجانا ، بہت بڑا اعزاز ہے ، اللہ پاک ہمیں نصیب کرے !
رسولِ کریم ﷺ فرماتے ہیں ، شہید کو چھے خوبیاں عطا ہوتی ہیں:
1: خون کا پہلا قطرہ گرنے سے پہلے ، اس کی ساری خطائیں معاف کردی جاتی ہیں ۔
2: اسے جنت میں اپنا مقام دکھا دیا جاتا ہے ۔
3: حُورِ عِین سے اس کی شادی کردی جاتی ہے ۔
4 , 5: اسے بڑی گھبراہٹ اور عذاب قبر سے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔
6: اسے ایمان کی پوشاک پہنا دی جاتی ہے ۔
( مسند احمد ، رقم 4885 )
مسلمان کے مدِمقابل کافر آجائیں تو اِسے پوری جرات کے ساتھ ، لڑ کر شہید ہونا چاہیے ۔
کافروں کے آگے گُھٹنے ٹیک دینا یا ان سے بھیک مانگتے پھرنا ، مسلمان کے شایاں نہیں ۔
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے ، فقط عالمِ معنی کا سفر
اِن شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مردِ مسلماں ، تجھے کیا یاد نہیں ؟
حرف ” لَا تَدْع مَعَ اللہ اِلٰھاً آخَر “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لقمان شاہد
7/8/2019ء
رسولِ کریم ﷺ فرماتے ہیں ، شہید کو چھے خوبیاں عطا ہوتی ہیں:
1: خون کا پہلا قطرہ گرنے سے پہلے ، اس کی ساری خطائیں معاف کردی جاتی ہیں ۔
2: اسے جنت میں اپنا مقام دکھا دیا جاتا ہے ۔
3: حُورِ عِین سے اس کی شادی کردی جاتی ہے ۔
4 , 5: اسے بڑی گھبراہٹ اور عذاب قبر سے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔
6: اسے ایمان کی پوشاک پہنا دی جاتی ہے ۔
( مسند احمد ، رقم 4885 )
مسلمان کے مدِمقابل کافر آجائیں تو اِسے پوری جرات کے ساتھ ، لڑ کر شہید ہونا چاہیے ۔
کافروں کے آگے گُھٹنے ٹیک دینا یا ان سے بھیک مانگتے پھرنا ، مسلمان کے شایاں نہیں ۔
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے ، فقط عالمِ معنی کا سفر
اِن شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مردِ مسلماں ، تجھے کیا یاد نہیں ؟
حرف ” لَا تَدْع مَعَ اللہ اِلٰھاً آخَر “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لقمان شاہد
7/8/2019ء
Forwarded from ✺ مرکز اہلسنت لائبریری ✺
📒 تفاسیرالقرآن ، سنت ،عقائد و معمولات،حمد و نعت، فتاوی و درس نظامی، سیرت و حکایات اور وظائف وغیرہ سینکڑوں موضوعات پرمشتمل مفت کتب حاصل کرنے کیلئے بذریعہ لنک لائبریری جوائن کیجیے↕
📒 Join Books Library to get free books on hundreds of topics, including Quran, Sunnah, beliefs and practices, Praise and Naat, Fatwa and teaching, scholarship etc.
Please Join & Share
👇👇👇
https://tttttt.me/joinchat/EVSalEbTV52JWks-s9Hnxw
📒 Join Books Library to get free books on hundreds of topics, including Quran, Sunnah, beliefs and practices, Praise and Naat, Fatwa and teaching, scholarship etc.
Please Join & Share
👇👇👇
https://tttttt.me/joinchat/EVSalEbTV52JWks-s9Hnxw
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کی مذمت:
کونسا مال جمع کرنا بہتر ہے؟
مال جمع کرنے کا حکم اور مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے واقعات:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴)
ترجمہ
اے ایمان والو!بیشک بہت سے پادری اورروحانی درویش باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔
تفسیر
{لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ:باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں۔} پادری اور روحانی درویش اس طرح باطل طریقے سے مال کھاتے ہیں کہ دین کے احکام بدل کر لوگوں سے رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں مال و دولت کے لالچ میں تحریف وتبدیل کرتے ہیں اور سابقہ کتابوں کی جن آیات میں سردارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت مذکور ہے مال حاصل کرنے کے لئے ان میں فاسد تاویلیں اور تحریفیں کرتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۴)
*دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کی مذمت:*
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دین کا علم اس لئے حاصل کرنا تاکہ اس کے ذریعے دنیا کا مال، دولت، عزت، منصب اور وجاہت حاصل ہو یہ انتہائی مذموم اور اپنی آخرت تباہ کردینے والا عمل ہے۔ احادیث میں بھی اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے وہ علم حاصل کیا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے لیکن ا س نے وہ علم (اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے) دنیا حاصل کرنے کے لئے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ (ابو داؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۶۶۴)
حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو اس لیے علم طلب کرے تاکہ علماء کا مقابلہ کرے یا جُہلاء سے جھگڑے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرے تو اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ آگ میں داخل کرے گا۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فیمن یطلب بعلمہ الدنیا، ۵ / ۲۹۷، الحدیث: ۲۶۶۳)
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’علماء کے سامنے فخر کرنے، بیوقوفوں سے جھگڑنے اور مجلس آراستہ کرنے کے لئے علم نہ سیکھو کیونکہ جو ایسا کرے گا تو (اس کے لئے ) آگ ہی آگ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۵، الحدیث: ۲۵۴)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے لوگوں کے دلوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے عمدہ گفتگو سیکھی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی فرض عبادات قبول فرمائے گا نہ نفل۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی المتشدق فی الکلام، ۴ / ۳۹۱، الحدیث: ۵۰۰۶)
{وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔}اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں ، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہودی و عیسائی علماء و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۵)
*کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟*
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں (یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں ) خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔ (تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۳۵۷-۳۵۸)
*کس مال کو جمع کرنا بہتر ہے؟*
حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ و
دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کی مذمت:
کونسا مال جمع کرنا بہتر ہے؟
مال جمع کرنے کا حکم اور مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے واقعات:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴)
ترجمہ
اے ایمان والو!بیشک بہت سے پادری اورروحانی درویش باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔
تفسیر
{لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ:باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں۔} پادری اور روحانی درویش اس طرح باطل طریقے سے مال کھاتے ہیں کہ دین کے احکام بدل کر لوگوں سے رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں مال و دولت کے لالچ میں تحریف وتبدیل کرتے ہیں اور سابقہ کتابوں کی جن آیات میں سردارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت مذکور ہے مال حاصل کرنے کے لئے ان میں فاسد تاویلیں اور تحریفیں کرتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۴)
*دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کی مذمت:*
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دین کا علم اس لئے حاصل کرنا تاکہ اس کے ذریعے دنیا کا مال، دولت، عزت، منصب اور وجاہت حاصل ہو یہ انتہائی مذموم اور اپنی آخرت تباہ کردینے والا عمل ہے۔ احادیث میں بھی اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے وہ علم حاصل کیا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے لیکن ا س نے وہ علم (اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے) دنیا حاصل کرنے کے لئے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ (ابو داؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۶۶۴)
حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو اس لیے علم طلب کرے تاکہ علماء کا مقابلہ کرے یا جُہلاء سے جھگڑے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرے تو اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ آگ میں داخل کرے گا۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فیمن یطلب بعلمہ الدنیا، ۵ / ۲۹۷، الحدیث: ۲۶۶۳)
حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’علماء کے سامنے فخر کرنے، بیوقوفوں سے جھگڑنے اور مجلس آراستہ کرنے کے لئے علم نہ سیکھو کیونکہ جو ایسا کرے گا تو (اس کے لئے ) آگ ہی آگ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۵، الحدیث: ۲۵۴)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے لوگوں کے دلوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے عمدہ گفتگو سیکھی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی فرض عبادات قبول فرمائے گا نہ نفل۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی المتشدق فی الکلام، ۴ / ۳۹۱، الحدیث: ۵۰۰۶)
{وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔}اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں ، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہودی و عیسائی علماء و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۵)
*کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟*
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں (یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں ) خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔ (تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۳۵۷-۳۵۸)
*کس مال کو جمع کرنا بہتر ہے؟*
حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ و
بنی اسد بن عبد العزی بن قصی، الزبیر بن العوام، ۳ / ۸۱)
ان کے علاوہ حضرت عمرو بن العاص، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی مالدار صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ خیال رہے کہ مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم در حقیقت مالدار کی تربیت کیلئے مشعلِ راہ تھے ، وہ اپنا مال شرعی مَصارِف میں خرچ کرتے تھے اور اسی لئے مال جمع رکھتے تھے ،ان کے اَموال اظہارِ فخر کے لئے نہ تھے اور نہ ہی دنیائے فانی کے مال کی محبت میں اسے جمع کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ مالدار مسلمانوں کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
*طالبِ دعا ابوعمر*
ان کے علاوہ حضرت عمرو بن العاص، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی مالدار صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ خیال رہے کہ مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم در حقیقت مالدار کی تربیت کیلئے مشعلِ راہ تھے ، وہ اپنا مال شرعی مَصارِف میں خرچ کرتے تھے اور اسی لئے مال جمع رکھتے تھے ،ان کے اَموال اظہارِ فخر کے لئے نہ تھے اور نہ ہی دنیائے فانی کے مال کی محبت میں اسے جمع کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ مالدار مسلمانوں کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
*طالبِ دعا ابوعمر*
َسَلَّمَ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی کہ سونے چاندی کا تو یہ حال معلوم ہوا ،پھر کون سا مال بہتر ہے جس کو جمع کیا جائے ۔ارشاد فرمایا :ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل اور نیک بیوی جو ایماندار کی اس کے ایمان پر مدد کرے (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۵) یعنی پرہیزگار ہو کہ اس کی صحبت سے طاعت و عبادت کا شوق بڑھے۔
*مال جمع کرنے کا حکم اور مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے واقعات:*
یاد رہے کہ مال کا جمع کرنا مباح ہے مذموم نہیں جبکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت طلحہ وغیرہ اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم مالدار تھے ۔ اسی مناسبت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مالداری کے چند واقعات ملاحظہ ہوں۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مالداری تو ویسے ہی بہت مشہور ہے، ان کے علاوہ چند مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیہ ہیں
(1)…حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کثیر مال عطا فرمایا اور اپنی مالداری کے باوجود بکثرت صدقہ و خیرات بھی کیا کرتے تھے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں آپ نے اپنے مال میں سے پہلے چار ہزار درہم صدقہ کئے، پھر چالیس ہزار درہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کئے ،ا س کے بعد چالیس ہزار دینار صدقہ کئے، پھر پانچ سو گھوڑے اورا س کے بعد پانچ سو اونٹ راہِ خدا میں صدقہ کئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ آیا، ا س قافلے میں گندم، آٹے اور کھانے سے لدے ہوئے سات سو اونٹ تھے، حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے شور سنا تو اس بارے دریافت فرمایا تو انہیں بتایا گیا کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ واپس آیا ہے جس میں گندم، آٹے اور طعام سے لدے ہوئے سات سو اونٹ ہیں۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت میں گھسٹتے ہوئے داخل ہوں گے۔ جب یہ بات حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی آپ نے کہا: اے میری ماں ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے یہ تمام اونٹ اپنے سازو سامان کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں صدقہ کر دیئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)
جب حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کاا نتقال ہوا تو آپ کے ترکہ میں حاصل ہونے والے سونے کو کلہاڑوں سے کاٹا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے، اس کے علاوہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ترکے میں ایک ہزار اونٹ، تین ہزار بکریاں اور ایک سو گھوڑے شامل تھے جو بقیع کی چراگاہ میں چرتے تھے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۵۰۰)
(2)…حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عراقی زمینوں سے ہونے والی آمدنی چار سے پانچ لاکھ درہم تک تھی اور سُرَّاۃ کی زمینوں سے ہونے والی آمدنی دس ہزار دینار کے لگ بھگ تھی یونہی اعراض سے بھی آمدنی ہوتی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بنو تمیم کے ہر ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرتے ، ان کی مدد کرتے ، ان کی بیواؤں اور غیر شادی شدہ افراد کی شادیاں کراتے اور ان کے قرض اتارا کرتے تھے نیز ہر سال زمین کی پیداوار کی آمدنی سے دس ہزار درہم حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو بھجوایا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، طلحۃ بن عبید اللہ، ۳ / ۱۶۶)
(3)…حضرت زبیر بن العوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت ہشام بن عروہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ترکے کی قیمت پانچ کروڑ دس لاکھ یا پانچ کروڑ بیس لاکھ درہم تھی، مصر، اسکندریہ اور کوفہ میں آپ کی رہائشگاہیں تھیں ، بصرہ میں آپ کی حویلیاں تھیں ، مدینہ منورہ کی زمینوں سے آپ کے پاس غلے کی پیداوار سے آمدنی آتی تھی۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے چار بیویاں چھوڑیں جن میں سے ہر ایک کو گیارہ گیارہ لاکھ ملے۔ (الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، ومن
*مال جمع کرنے کا حکم اور مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے واقعات:*
یاد رہے کہ مال کا جمع کرنا مباح ہے مذموم نہیں جبکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت طلحہ وغیرہ اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم مالدار تھے ۔ اسی مناسبت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مالداری کے چند واقعات ملاحظہ ہوں۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مالداری تو ویسے ہی بہت مشہور ہے، ان کے علاوہ چند مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیہ ہیں
(1)…حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کثیر مال عطا فرمایا اور اپنی مالداری کے باوجود بکثرت صدقہ و خیرات بھی کیا کرتے تھے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں آپ نے اپنے مال میں سے پہلے چار ہزار درہم صدقہ کئے، پھر چالیس ہزار درہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کئے ،ا س کے بعد چالیس ہزار دینار صدقہ کئے، پھر پانچ سو گھوڑے اورا س کے بعد پانچ سو اونٹ راہِ خدا میں صدقہ کئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ آیا، ا س قافلے میں گندم، آٹے اور کھانے سے لدے ہوئے سات سو اونٹ تھے، حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے شور سنا تو اس بارے دریافت فرمایا تو انہیں بتایا گیا کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ واپس آیا ہے جس میں گندم، آٹے اور طعام سے لدے ہوئے سات سو اونٹ ہیں۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت میں گھسٹتے ہوئے داخل ہوں گے۔ جب یہ بات حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی آپ نے کہا: اے میری ماں ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے یہ تمام اونٹ اپنے سازو سامان کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں صدقہ کر دیئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)
جب حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کاا نتقال ہوا تو آپ کے ترکہ میں حاصل ہونے والے سونے کو کلہاڑوں سے کاٹا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے، اس کے علاوہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ترکے میں ایک ہزار اونٹ، تین ہزار بکریاں اور ایک سو گھوڑے شامل تھے جو بقیع کی چراگاہ میں چرتے تھے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۵۰۰)
(2)…حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عراقی زمینوں سے ہونے والی آمدنی چار سے پانچ لاکھ درہم تک تھی اور سُرَّاۃ کی زمینوں سے ہونے والی آمدنی دس ہزار دینار کے لگ بھگ تھی یونہی اعراض سے بھی آمدنی ہوتی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بنو تمیم کے ہر ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرتے ، ان کی مدد کرتے ، ان کی بیواؤں اور غیر شادی شدہ افراد کی شادیاں کراتے اور ان کے قرض اتارا کرتے تھے نیز ہر سال زمین کی پیداوار کی آمدنی سے دس ہزار درہم حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو بھجوایا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، طلحۃ بن عبید اللہ، ۳ / ۱۶۶)
(3)…حضرت زبیر بن العوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت ہشام بن عروہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ترکے کی قیمت پانچ کروڑ دس لاکھ یا پانچ کروڑ بیس لاکھ درہم تھی، مصر، اسکندریہ اور کوفہ میں آپ کی رہائشگاہیں تھیں ، بصرہ میں آپ کی حویلیاں تھیں ، مدینہ منورہ کی زمینوں سے آپ کے پاس غلے کی پیداوار سے آمدنی آتی تھی۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے چار بیویاں چھوڑیں جن میں سے ہر ایک کو گیارہ گیارہ لاکھ ملے۔ (الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، ومن
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر28تا33
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰںهَا(۲۸) وَ اَغْطَشَ لَیْلَهَا وَ اَخْرَ جَ ضُحٰںهَا(۲۹) وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰںهَا(۳۰) اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَ مَرْعٰںهَا(۳۱) وَ الْجِبَالَ اَرْسٰںهَا(۳۲) مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ(۳۳)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (28) اس کی چھت اونچی کی پھر اسے ٹھیک کیا۔ (29)اس کی رات اندھیری کی اور اس کی روشنی چمکائی۔ (30)اور اس کے بعد زمین پھیلائی۔ (31)اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔ (32)اور پہاڑوں کو جمایا۔ (33)تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کو۔
*#تفسیر:*
{رَفَعَ سَمْكَهَا: اس کی چھت اونچی کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات میں آسمان اور زمین کی تخلیق کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان کو بنایا اور کسی ستون کے بغیر، اس کی چھت اونچی کی۔ پھر اسے ایسا ٹھیک کیا کہ اس میں کہیں کوئی خَلَل نہیں اور اس کی رات کو تاریک کیا۔ اور سورج کے نور کو ظاہر فرما کر اس کی روشنی چمکائی اور اس کے بعد زمین پھیلائی جو پیدا تو آسمان سے پہلے فرمائی گئی تھی مگر پھیلائی نہ گئی تھی۔ اور اس میں سے چشمے جاری فرما کر اس کا پانی اور اس کاچارہ نکالا جسے جاندار کھاتے ہیں۔ اور پہاڑوں کو روئے زمین پرجمایا تاکہ اس کو سکون ہو اور جو کچھ زمین سے نکالا ہے وہ تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدے کیلئے ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۲۸-۳۳، ۴/۳۵۱-۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۱۳۱۹، جلالین، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۴۸۹، ملتقطاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر28تا33
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰںهَا(۲۸) وَ اَغْطَشَ لَیْلَهَا وَ اَخْرَ جَ ضُحٰںهَا(۲۹) وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰںهَا(۳۰) اَخْرَجَ مِنْهَا مَآءَهَا وَ مَرْعٰںهَا(۳۱) وَ الْجِبَالَ اَرْسٰںهَا(۳۲) مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ(۳۳)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (28) اس کی چھت اونچی کی پھر اسے ٹھیک کیا۔ (29)اس کی رات اندھیری کی اور اس کی روشنی چمکائی۔ (30)اور اس کے بعد زمین پھیلائی۔ (31)اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔ (32)اور پہاڑوں کو جمایا۔ (33)تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کو۔
*#تفسیر:*
{رَفَعَ سَمْكَهَا: اس کی چھت اونچی کی۔} اس آیت اور اس کے بعد والی5آیات میں آسمان اور زمین کی تخلیق کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان کو بنایا اور کسی ستون کے بغیر، اس کی چھت اونچی کی۔ پھر اسے ایسا ٹھیک کیا کہ اس میں کہیں کوئی خَلَل نہیں اور اس کی رات کو تاریک کیا۔ اور سورج کے نور کو ظاہر فرما کر اس کی روشنی چمکائی اور اس کے بعد زمین پھیلائی جو پیدا تو آسمان سے پہلے فرمائی گئی تھی مگر پھیلائی نہ گئی تھی۔ اور اس میں سے چشمے جاری فرما کر اس کا پانی اور اس کاچارہ نکالا جسے جاندار کھاتے ہیں۔ اور پہاڑوں کو روئے زمین پرجمایا تاکہ اس کو سکون ہو اور جو کچھ زمین سے نکالا ہے وہ تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدے کیلئے ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۲۸-۳۳، ۴/۳۵۱-۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۱۳۱۹، جلالین، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲۸-۳۳، ص۴۸۹، ملتقطاً)
احسان شناسى کى اميد مت رکھیے ۔۔ آپ لوگوں کے لیے ہزار جتن بھى کر لیں تو وه يہى ظاہر کریں گے کہ آپ نے ان کے لیے کچھ خاص نہیں کيا بلکہ يہ تو کوئى بھى کر سکتا تھا حالانکه حقیقت اسکے برعکس هوتى هے ۔۔ ایسے مىں دل برداشتہ هو کر نیکى اور مدد کرنا مت چھوڑيے ۔۔ رب کریم ہمیں نیکیوں پر استقامت کی توفیق عطا فرمائے ۔۔
*محمدفیصل نوید گلیانوی*
*محمدفیصل نوید گلیانوی*
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے!
ابن جوزی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :
ایک اعرابی بحرین کا والی بن گیا ۔اس کے پاس یہودی جمع ہوگئے ۔بولا تم عیسی بن مریم(علیہ السلام) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
۔بولے(نحن قتلناه وصلبناه؛)ہم نے انھیں قتل کیا اور سولی چڑہایا۔
اعرابی بولا:اللہ کی قسم دیت دیئے بغیر تم یہاں سے نہیں نکل سکتے ۔
اعرابی نے دیت لے کر ہی انہیں چھوڑا۔
أخبار الظراف والمتماجنين لابن جوزی صفحہ 116 دار ابن حزم - بيروت
کچھ سال قبل گجرات مکتبے پر ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو نئے نئے شیعہ ہونے والے نوجوان کے متعلق بتا رہا تھا ۔موصوف متعے کا قائل تھا ۔بولے ہم اس کے پیچھے پڑھ گئے تمہاری کتابوں میں لکھا ہے مٹھی بھر گندم سے متعہ کیا جاسکتا ہے ۔ہمیں نہیں پتا! ہمارے لیے کوئی بندوبست کرو۔ہر ملاقات میں یہ دیمانڈسختی سے کی جاتی اس نے تنگ آکر اعلان کردیا کہ میں شیعہ نہیں ہو۔میری جان چھوڑوں۔(مفہوماً)
ہمارے گاوں کہ ایک سید مفتی صاحب رحمہ اللہ جو قبلہ محمد علی نقشبندی صاحب رحمہ اللہ کے جگر ی دوست تھے کے متعلق مجھے کسی نے بتایا ایک گاؤں کے کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور عرض کی شاہ جی!ہمارے گاؤںمیں ایک لڑکا شیعہ ہوگیا ہے اس نے ناک میں دم کر رکھا ہے کہ متعہ حلال ہے ۔مفتی صاحب اس نوجوان سے ملے ہاں بھئی کیا کہتے ہو متعےکے متعلق ؟بولا حلال ہے ۔پوچھا والدہ گھر ہے؟ بولا ہاں ۔بولے چلو پھر ۔۔۔۔پھر نہ وہ چلا اور نہ کبھی بولا کہ متعہ حلال ہے ۔۔(مفہوما)
کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے ۔۔
فرحان رفیق قادری عفی عنہ
ابن جوزی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :
ایک اعرابی بحرین کا والی بن گیا ۔اس کے پاس یہودی جمع ہوگئے ۔بولا تم عیسی بن مریم(علیہ السلام) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
۔بولے(نحن قتلناه وصلبناه؛)ہم نے انھیں قتل کیا اور سولی چڑہایا۔
اعرابی بولا:اللہ کی قسم دیت دیئے بغیر تم یہاں سے نہیں نکل سکتے ۔
اعرابی نے دیت لے کر ہی انہیں چھوڑا۔
أخبار الظراف والمتماجنين لابن جوزی صفحہ 116 دار ابن حزم - بيروت
کچھ سال قبل گجرات مکتبے پر ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو نئے نئے شیعہ ہونے والے نوجوان کے متعلق بتا رہا تھا ۔موصوف متعے کا قائل تھا ۔بولے ہم اس کے پیچھے پڑھ گئے تمہاری کتابوں میں لکھا ہے مٹھی بھر گندم سے متعہ کیا جاسکتا ہے ۔ہمیں نہیں پتا! ہمارے لیے کوئی بندوبست کرو۔ہر ملاقات میں یہ دیمانڈسختی سے کی جاتی اس نے تنگ آکر اعلان کردیا کہ میں شیعہ نہیں ہو۔میری جان چھوڑوں۔(مفہوماً)
ہمارے گاوں کہ ایک سید مفتی صاحب رحمہ اللہ جو قبلہ محمد علی نقشبندی صاحب رحمہ اللہ کے جگر ی دوست تھے کے متعلق مجھے کسی نے بتایا ایک گاؤں کے کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور عرض کی شاہ جی!ہمارے گاؤںمیں ایک لڑکا شیعہ ہوگیا ہے اس نے ناک میں دم کر رکھا ہے کہ متعہ حلال ہے ۔مفتی صاحب اس نوجوان سے ملے ہاں بھئی کیا کہتے ہو متعےکے متعلق ؟بولا حلال ہے ۔پوچھا والدہ گھر ہے؟ بولا ہاں ۔بولے چلو پھر ۔۔۔۔پھر نہ وہ چلا اور نہ کبھی بولا کہ متعہ حلال ہے ۔۔(مفہوما)
کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے ۔۔
فرحان رفیق قادری عفی عنہ
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
زکوٰۃ نہ دینے کی وعیدیں
یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(۳۵)
ترجمہ
جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔
تفسیر
*{یَوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ:جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا۔}* یعنی وہ مال جس کی زکوٰۃ نہ دی تھی قیامت کے دن اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا یہاں تک کہ شدت ِحرارت سے سفید ہوجائے گا پھر اس کے ساتھ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو دنیا میں اپنا مال جمع کر کے رکھنے اور حق داروں کو ان کا حق ادا نہ کرنے کے عذاب کا مزہ چکھو۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۲۳۶)
*زکوٰۃ نہ دینے کی وعیدیں :*
احادیث میں زکوٰۃ نہ دینے پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں 4اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے تو جب قیامت کا دن ہوگا اس کے لیے آگ کے پتلے ٹکڑے بنائے جائیں گے ان پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور اُن سے اُس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی، جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دئیے جائیں گے۔ یہ معاملہ اس دن کا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف۔ اور اونٹ کے بارے میں فرمایا: جو اس کا حق نہیں ادا کرتا، قیامت کے دن ہموار میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ اونٹ سب کے سب نہایت فَربہ ہو کر آئیں گے، پاؤں سے اُسے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے، جب ان کی پچھلی جماعت گزر جائے گی، پہلی لوٹے گی۔ اور گائے اور بکریوں کے بارے میں فرمایا: کہ اس شخص کو ہموار میدان میں لٹائیں گے اور وہ سب کی سب آئیں گی، نہ ان میں مُڑے ہوئے سینگ کی کوئی ہوگی، نہ بے سینگ کی، نہ ٹوٹے سینگ کی اور سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے روندیں گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ص۴۹۱، الحدیث: ۲۴(۹۸۷))
(2)…حضرت بُریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔ (معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبدان، ۳ / ۲۷۵، الحدیث: ۴۵۷۷)
(3)…امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خشکی و تری میں جو مال تَلف ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الصدقات، الترہیب من منع الزکاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۶)
(4)…امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’فقیر ہرگز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر مال داروں کے ہاتھوں ، سن لو! ایسے مالداروں سے اللہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انھیں دردناک عذاب دے گا ۔(معجم الاوسط، باب الدال، من اسمہ دلیل، ۲ / ۳۷۴، الحدیث: ۳۵۷۹
*طالبِ دعاابوعمر*
زکوٰۃ نہ دینے کی وعیدیں
یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(۳۵)
ترجمہ
جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔
تفسیر
*{یَوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ:جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا۔}* یعنی وہ مال جس کی زکوٰۃ نہ دی تھی قیامت کے دن اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا یہاں تک کہ شدت ِحرارت سے سفید ہوجائے گا پھر اس کے ساتھ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو دنیا میں اپنا مال جمع کر کے رکھنے اور حق داروں کو ان کا حق ادا نہ کرنے کے عذاب کا مزہ چکھو۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۲۳۶)
*زکوٰۃ نہ دینے کی وعیدیں :*
احادیث میں زکوٰۃ نہ دینے پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں 4اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے تو جب قیامت کا دن ہوگا اس کے لیے آگ کے پتلے ٹکڑے بنائے جائیں گے ان پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور اُن سے اُس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی، جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دئیے جائیں گے۔ یہ معاملہ اس دن کا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف۔ اور اونٹ کے بارے میں فرمایا: جو اس کا حق نہیں ادا کرتا، قیامت کے دن ہموار میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ اونٹ سب کے سب نہایت فَربہ ہو کر آئیں گے، پاؤں سے اُسے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے، جب ان کی پچھلی جماعت گزر جائے گی، پہلی لوٹے گی۔ اور گائے اور بکریوں کے بارے میں فرمایا: کہ اس شخص کو ہموار میدان میں لٹائیں گے اور وہ سب کی سب آئیں گی، نہ ان میں مُڑے ہوئے سینگ کی کوئی ہوگی، نہ بے سینگ کی، نہ ٹوٹے سینگ کی اور سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے روندیں گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ص۴۹۱، الحدیث: ۲۴(۹۸۷))
(2)…حضرت بُریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔ (معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبدان، ۳ / ۲۷۵، الحدیث: ۴۵۷۷)
(3)…امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خشکی و تری میں جو مال تَلف ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الصدقات، الترہیب من منع الزکاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۶)
(4)…امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’فقیر ہرگز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر مال داروں کے ہاتھوں ، سن لو! ایسے مالداروں سے اللہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انھیں دردناک عذاب دے گا ۔(معجم الاوسط، باب الدال، من اسمہ دلیل، ۲ / ۳۷۴، الحدیث: ۳۵۷۹
*طالبِ دعاابوعمر*
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر34تا41
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘(٣٤) یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی(۳۵) وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى(٣٦) فَاَمَّا مَنْ طَغٰى(۳۷) وَ اٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا(۳۸) فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰى(۳۹) وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی(٤٠) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى(٤١)
*#ترجمہ کنز الایمان:*(34)پھر جب آئے گی وہ عام مصیبت سب سے بڑی۔ (35)اس دن آدمی یاد کرے گا جو کوشش کی تھی۔ (36)اور جہنم ہر دیکھنے والے پر ظاہر کی جائے گی۔ (37) تو وہ جس نے سرکشی کی۔ (38)اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ (39)تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ (40)اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ (41)تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
*#تفسیر:*
{فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘: پھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبت آئے گی۔} یہاں سے مخلوق کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی7آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صُور میں پھونک ماری جائے گی اور اس وقت مردے زندہ کر دئیے جائیں گے تو اس دن آدمی کو اپنے اعمال نامے دیکھ کر وہ تمام اچھے برے اعمال یاد آ جائیں گے جو اس نے دنیا میں کئے تھے۔ اور اس دن جہنم ظاہر کر دی جائے گی اورتمام مخلوق اسے دیکھے گی تو وہ شخص جس نے سرکشی کی، نافرمانی میں حد سے گزرا اور کفر اختیار کیا اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی اور اپنی نفسانی خواہشات کا تابع ہوا تو بیشک جہنم ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔ جس سے اسے نکالا نہیں جائے گا اور وہ جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور اس نے جانا کہ اسے قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حساب کے لئے حاضر ہونا ہے اور اس نے اپنے نفس کو حرام چیزوں کی خواہش سے روکا تو بیشک ثواب کا گھرجنت ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔( روح البیان ، النّازعات ، تحت الآیۃ : ۳۴- ۴۱ ، ۱۰/ ۳۲۶-۳۲۸، خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ۴/۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ص۱۳۱۹-۱۳۲۰، ملتقطاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر34تا41
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘(٣٤) یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی(۳۵) وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى(٣٦) فَاَمَّا مَنْ طَغٰى(۳۷) وَ اٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا(۳۸) فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰى(۳۹) وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی(٤٠) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى(٤١)
*#ترجمہ کنز الایمان:*(34)پھر جب آئے گی وہ عام مصیبت سب سے بڑی۔ (35)اس دن آدمی یاد کرے گا جو کوشش کی تھی۔ (36)اور جہنم ہر دیکھنے والے پر ظاہر کی جائے گی۔ (37) تو وہ جس نے سرکشی کی۔ (38)اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ (39)تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ (40)اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ (41)تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
*#تفسیر:*
{فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘: پھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبت آئے گی۔} یہاں سے مخلوق کا اُخروی حال بیان کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی7آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دوسری بار صُور میں پھونک ماری جائے گی اور اس وقت مردے زندہ کر دئیے جائیں گے تو اس دن آدمی کو اپنے اعمال نامے دیکھ کر وہ تمام اچھے برے اعمال یاد آ جائیں گے جو اس نے دنیا میں کئے تھے۔ اور اس دن جہنم ظاہر کر دی جائے گی اورتمام مخلوق اسے دیکھے گی تو وہ شخص جس نے سرکشی کی، نافرمانی میں حد سے گزرا اور کفر اختیار کیا اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی اور اپنی نفسانی خواہشات کا تابع ہوا تو بیشک جہنم ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔ جس سے اسے نکالا نہیں جائے گا اور وہ جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور اس نے جانا کہ اسے قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور حساب کے لئے حاضر ہونا ہے اور اس نے اپنے نفس کو حرام چیزوں کی خواہش سے روکا تو بیشک ثواب کا گھرجنت ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔( روح البیان ، النّازعات ، تحت الآیۃ : ۳۴- ۴۱ ، ۱۰/ ۳۲۶-۳۲۸، خازن، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ۴/۳۵۲، مدارک، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳۴-۴۱، ص۱۳۱۹-۱۳۲۰، ملتقطاً)
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
مسلمانوں کے عروج و زوال کا ایک سبب:
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﳔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۳۶)
ترجمہ
بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
تفسیر
*{اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ:بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں۔}* یہاں یہ بیان فرمایاگیا کہ بکثرت احکامِ شرع کی بنا قَمری مہینوں پر ہے جن کا حساب چاند سے ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے یا لوحِ محفوظ مراد ہے یا قرآن یا وہ حکم جو اس نے اپنے بندوں پر لازم کیا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۳۴، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶، ملتقطاً)
*{مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ:ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔}* ان حرمت والے مہینوں میں سے تین متصل ہیں ، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور ایک جدا ہے رجب۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں قِتال حرام جانتے تھے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶)
ان مہینوں میں سے رجب کی تعظیم اس لئے کہ لوگ اس میں عمرہ کرتے تھے اور بقیہ مہینوں کی اس لئے کہ یہ مہینے حج کیلئے جانے، حج کرنے اور حج سے واپسی کے مہینے تھے۔
*{ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ:یہ سیدھا دین ہے۔}* اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سال میں بارہ مہینوں کا ہونا یہ سیدھا اور صحیح حساب ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ چار مہینوں کاحرمت والا ہونا یہ وہی سیدھا دین ہے جو کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین تھا اور اہلِ عرب ان دونوں سے اس حکم کے وارث ہوئے ہیں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۴۲، بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۴۴، ملتقطاً)
*{وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً:اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو۔}* یعنی مشرکین سے مُتَّحِد ہو کر جنگ کرو جس طرح وہ متحد ہو کر تم سے جنگ کرتے ہیں۔ معنی یہ ہے کہ مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون اور مدد کرو اور ان کے خلاف جنگ میں بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ نہ کرو اور نہ ہی پَسپائی اختیار کرو اور اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! اپنے دشمن مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں متحد اور متفق ہو جاؤ۔ بیشتر مفسرین کے نزدیک اس آیت سے حرمت والے مہینوں میں کفار سے جنگ کی ممانعت منسوخ ہو گئی ہے اب چاہے حرمت والے مہینے ہوں یا ان کے علاوہ ہر مہینے میں مشرکین سے جنگ کی جائے گی ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۷)
*مسلمانوں کے عروج و زوال کا ایک سبب:*
اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف متحد ہو کر جنگ کرنے اور اس میں ایک دوسرے سے مدد و تعاون کرنے کا حکم دیا گیا اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق ان کے عروج کا سبب اور ان کی بہت بڑی قوت تھی اور اسی اتحاد کی برکت سے ان کی قلیل تعداد کافروں کی کثیر تعداد پر ہر میدان میں غالب رہی اور مسلمان ہر طرف اپنی فتح کے جھنڈے لہراتے رہے، روم اور ایران جیسی اپنے وقت کی سپر پاورز کو اپنے قدموں تلے روند کر رکھ دیا، مصر، عراق، اسپین اور افریقی ممالک میں اسلام کا پرچم بلند کر دیا ،الغرض کفار اپنے اتحاد، عددی برتری اور جنگی ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود مسلمانوں پر کسی طرح غالب نہ آ سکے اور یہ سب مسلمانوں کے ایک مرکز پر جمع ہونے اور باہمی اتحاد واتفاق کا نتیجہ تھا۔ جب کفار کسی طرح مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے تو انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے اور ان میں اِفتراق و اِنتشار پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اور ا س کے لئے انہوں نے بے تحاشا مال و زر، سونا چاندی اور ہیرے جواہرات خرچ کر کے مسلمانوں میں دین فروش گمراہ علماء اور غدار پیدا کئے ،مسلم وزراء ،مسلم حکمرانوں اورفوج کے سالاروں کو خریدا، یہاں تک کہ انہوں نے اس کام کے لئے اپنی عورتوں کے حسن و جمال اور ان کی عزت و آبرو کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، جب وہ مسلمانوں میں مال و زر کی خواہش، سلطنت و حکومت کی ہوس ، شراب، رَباب اور شباب کی طلب اور ایک دوسرے سے حسد ،بغض اور عداوت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوا، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا اور وہ لا مرکزیت کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں بٹ
مسلمانوں کے عروج و زوال کا ایک سبب:
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﳔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۳۶)
ترجمہ
بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔ یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
تفسیر
*{اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ:بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں۔}* یہاں یہ بیان فرمایاگیا کہ بکثرت احکامِ شرع کی بنا قَمری مہینوں پر ہے جن کا حساب چاند سے ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے یا لوحِ محفوظ مراد ہے یا قرآن یا وہ حکم جو اس نے اپنے بندوں پر لازم کیا۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۳۴، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶، ملتقطاً)
*{مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ:ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔}* ان حرمت والے مہینوں میں سے تین متصل ہیں ، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور ایک جدا ہے رجب۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں قِتال حرام جانتے تھے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶)
ان مہینوں میں سے رجب کی تعظیم اس لئے کہ لوگ اس میں عمرہ کرتے تھے اور بقیہ مہینوں کی اس لئے کہ یہ مہینے حج کیلئے جانے، حج کرنے اور حج سے واپسی کے مہینے تھے۔
*{ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ:یہ سیدھا دین ہے۔}* اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سال میں بارہ مہینوں کا ہونا یہ سیدھا اور صحیح حساب ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ چار مہینوں کاحرمت والا ہونا یہ وہی سیدھا دین ہے جو کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین تھا اور اہلِ عرب ان دونوں سے اس حکم کے وارث ہوئے ہیں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۴۲، بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۴۴، ملتقطاً)
*{وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً:اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو۔}* یعنی مشرکین سے مُتَّحِد ہو کر جنگ کرو جس طرح وہ متحد ہو کر تم سے جنگ کرتے ہیں۔ معنی یہ ہے کہ مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون اور مدد کرو اور ان کے خلاف جنگ میں بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ نہ کرو اور نہ ہی پَسپائی اختیار کرو اور اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! اپنے دشمن مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں متحد اور متفق ہو جاؤ۔ بیشتر مفسرین کے نزدیک اس آیت سے حرمت والے مہینوں میں کفار سے جنگ کی ممانعت منسوخ ہو گئی ہے اب چاہے حرمت والے مہینے ہوں یا ان کے علاوہ ہر مہینے میں مشرکین سے جنگ کی جائے گی ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۷)
*مسلمانوں کے عروج و زوال کا ایک سبب:*
اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف متحد ہو کر جنگ کرنے اور اس میں ایک دوسرے سے مدد و تعاون کرنے کا حکم دیا گیا اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق ان کے عروج کا سبب اور ان کی بہت بڑی قوت تھی اور اسی اتحاد کی برکت سے ان کی قلیل تعداد کافروں کی کثیر تعداد پر ہر میدان میں غالب رہی اور مسلمان ہر طرف اپنی فتح کے جھنڈے لہراتے رہے، روم اور ایران جیسی اپنے وقت کی سپر پاورز کو اپنے قدموں تلے روند کر رکھ دیا، مصر، عراق، اسپین اور افریقی ممالک میں اسلام کا پرچم بلند کر دیا ،الغرض کفار اپنے اتحاد، عددی برتری اور جنگی ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود مسلمانوں پر کسی طرح غالب نہ آ سکے اور یہ سب مسلمانوں کے ایک مرکز پر جمع ہونے اور باہمی اتحاد واتفاق کا نتیجہ تھا۔ جب کفار کسی طرح مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے تو انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے اور ان میں اِفتراق و اِنتشار پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اور ا س کے لئے انہوں نے بے تحاشا مال و زر، سونا چاندی اور ہیرے جواہرات خرچ کر کے مسلمانوں میں دین فروش گمراہ علماء اور غدار پیدا کئے ،مسلم وزراء ،مسلم حکمرانوں اورفوج کے سالاروں کو خریدا، یہاں تک کہ انہوں نے اس کام کے لئے اپنی عورتوں کے حسن و جمال اور ان کی عزت و آبرو کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، جب وہ مسلمانوں میں مال و زر کی خواہش، سلطنت و حکومت کی ہوس ، شراب، رَباب اور شباب کی طلب اور ایک دوسرے سے حسد ،بغض اور عداوت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوا، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا اور وہ لا مرکزیت کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں بٹ
گئے اور مسلمانوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کفار رفتہ رفتہ ان پر غالب آتے گئے اور پھر مسلمانوں نے اندلس، قرطبہ، غرناطہ، ترکستان، ایران ، بغداد ،فلسطین اور دیگر ملکوں میں عیسائیوں اور تاتاریوں سے ایسی عبرتناک تباہی کا سامناکیا کہ اسے سن کر ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ مسلمانوں کے گھر اور مال و اَسباب جلا دئیے گئے ،ان کی مَساجد میں کفار نے اپنے گھوڑے باندھے اور اذان و نماز پر پابندیاں لگا دیں ، ان کے اہلِ حق علماء اور اسلام کے وفاداروں کو چن چن کر قتل کردیا گیا، ان کے علمی و روحانی مراکز تباہ و برباد کر دئیے گئے، بغداد میں مسلمانوں کے علمی ورثے کو جب دریائے نیل میں غرق کیا گیا تو اس کی سیاہی سے دریا کا پانی سیاہ ہو گیا، باپوں کے سامنے بیٹیوں ، شوہروں کے سامنے بیویوں ،بھائیوں کے سامنے بہنوں اور بیٹوں کے سامنے ان کی ماؤں کی عزتوں کو تار تار کیا گیا اور مسلمان حسرت کے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ آج کے مسلمانوں کا حال دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ اپنی تاریخی اور عبرتناک غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے انہی غلطیوں کو از سرِنو دُہرا رہے ہیں اور ایک مرکز پر جمع ہو کر متحد ہونے کی بجائے مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر اور کفار کا دست نگر ہو کر زندگی گزارنے کو اپنی عظیم سعادت سمجھے بیٹھے ہیں ،اپنی حکومت اور سلطنت بچانے کی خاطر کفار کے آگے ایڑیاں رگڑتے اور ان کی ناراضی کو اپنی محتاجی کا پروانہ سمجھتے ہیں ، مسلمانوں کی اخلاقی اور ملی تباہی کے لئے کفار کی طرف سے بُنے گئے جالوں میں بری طرح پھنسنے کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں ، دین فروش علماء اور غداروں نے مسلمانوں کی ملی وحدت کو پار ہ پارہ کر کے کفار کے عَزائم کامیاب بنا دئیے ہیں ، کسی مسلم ملک پر کفار حملہ کریں تویہ اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اورعزت وآبرو کی حفاظت کرنے کی بجائے کفار سے ان کے سودے کرتے ہیں ، مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے ہر طرح سے کفار کا ساتھ دیتے ہیں اور کفار سے پٹنے والے مسلمانوں کا حال و انجام دیکھ کر یہ تَصَوُّر تک کرنا گوارا نہیں کرتے کہ کفار نے اپنے منظورِ نظر مسلمانوں کا جو حال کیا کل کو وہ یہی حال ان کا بھی کر سکتے ہیں۔اے کاش!
درسِ قرآن ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
*طالبِ دعا ابوعمر*
درسِ قرآن ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
*طالبِ دعا ابوعمر*
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر42تا46
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
یَسْـــٴـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰںهَا(٤٢) فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰںهَا (٤٣) اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰںهَا(٤٤) اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰںهَا(٤٥) كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا عَشِیَّةً اَوْ ضُحٰںهَا(٤٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (42) تم سے قیامت کو پوچھتے ہیں کہ وہ کب کے لیے ٹھہری ہوئی ہے۔ (43) تمہیں اس کے بیان سے کیا تعلق۔ (44) تمہارے رب ہی تک اس کی انتہا ہے۔ (45)تم تو فقط اسے ڈرانے والے ہو جو اس سے ڈرے۔ (46)گویا جس دن وہ اسے دیکھیں گے دنیا میں نہ رہے تھے مگر ایک شام یا اس کے دن چڑھے۔
*#تفسیر:*
{یَسْـــٴـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ: تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین قیامت اور اس کی ہَولْناکْیوں کے بارے میں آنے والی خبریں سنتے تھے۔ تو انہوں نے مذاق کے طور پر اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کہا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کفار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ”کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مکہ کے کافر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب ظاہر ہو گی؟ اور کس وقت قائم ہو گی؟ آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ آپ انہیں بتائیں کہ قیامت کب اور کس وقت واقع ہو گی۔ قیامت ایسی چیز ہے کہ اس کے واقع ہو نے کے علم کی انتہاء آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ تک ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ آپ کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو قیامت کی ہَولْناکْیوں اور سختیوں سے ڈرائیں“۔ جو ڈرانے سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور آپ کا ڈرانا اس بات پر مَوقوف نہیں کہ آپ کو قیامت واقع ہونے کا علم بھی ہو۔ کیونکہ اس کے علم کے بغیر بھی آپ کی ذمہ داری پوری ہو سکتی ہے۔ کافر جس قیامت کا انکار کر رہے ہیں عنقریب اسے دیکھ لیں گے اور گویا کہ جس دن کافر قیامت کو دیکھیں گے تو اس کی ہَولْناکی اور دہشت کی وجہ سے ان کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کی مدت بھول جائیں گے۔ اور یہ خیال کریں گے کہ وہ دنیا میں صرف ایک رات یا ایک دن چڑھے کے وقت برابر ہی رہے تھے۔( تفسیرکبیر،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶،۱۱/۵۰-۵۱، مدارک،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶، ص۱۳۲۰، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم دیا گیا ہے:
علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ اس وقت کی بات ہے جب اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت واقع ہونے کے وقت کا علم نہیں دیا تھا۔ لہٰذا یہ اس بات کے مُنافی نہیں کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دنیا سے اس وقت تک وصال ظاہری نہیں فرمایا جب تک اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا اور آخرت کے تمام غُیوب کا علم عطا نہیں فرمایا۔ (اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کچھ چیزوں کی غیبی معلومات نہ بتانا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ کو غیب کا علم نہیں تھا کیونکہ) آپ کو (علم ہونے کے باوجود) کچھ باتیں چھپانے کا حکم تھا۔( صاوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴۳، ۶/۲۳۱۲)
🍀🍀🍀🍀🍀
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کو عوام اور خواص سبھی مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند بنائے۔ اور اسے مسلمانوں کی اعتقادی، علمی اور عملی اصلاح کا بہترین ذریعہ بنائے۔ اور اس کے صدقے میری، میرے والدین، میرے عزیز رشتہ داروں، اساتذہ ِکرام، دوست اَحباب، دیگر متعلقین اور معاونین کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر42تا46
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
یَسْـــٴـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰںهَا(٤٢) فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰںهَا (٤٣) اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰںهَا(٤٤) اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰںهَا(٤٥) كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا عَشِیَّةً اَوْ ضُحٰںهَا(٤٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (42) تم سے قیامت کو پوچھتے ہیں کہ وہ کب کے لیے ٹھہری ہوئی ہے۔ (43) تمہیں اس کے بیان سے کیا تعلق۔ (44) تمہارے رب ہی تک اس کی انتہا ہے۔ (45)تم تو فقط اسے ڈرانے والے ہو جو اس سے ڈرے۔ (46)گویا جس دن وہ اسے دیکھیں گے دنیا میں نہ رہے تھے مگر ایک شام یا اس کے دن چڑھے۔
*#تفسیر:*
{یَسْـــٴـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ: تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین قیامت اور اس کی ہَولْناکْیوں کے بارے میں آنے والی خبریں سنتے تھے۔ تو انہوں نے مذاق کے طور پر اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کہا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کفار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ”کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، مکہ کے کافر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب ظاہر ہو گی؟ اور کس وقت قائم ہو گی؟ آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ آپ انہیں بتائیں کہ قیامت کب اور کس وقت واقع ہو گی۔ قیامت ایسی چیز ہے کہ اس کے واقع ہو نے کے علم کی انتہاء آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ تک ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ آپ کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو قیامت کی ہَولْناکْیوں اور سختیوں سے ڈرائیں“۔ جو ڈرانے سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور آپ کا ڈرانا اس بات پر مَوقوف نہیں کہ آپ کو قیامت واقع ہونے کا علم بھی ہو۔ کیونکہ اس کے علم کے بغیر بھی آپ کی ذمہ داری پوری ہو سکتی ہے۔ کافر جس قیامت کا انکار کر رہے ہیں عنقریب اسے دیکھ لیں گے اور گویا کہ جس دن کافر قیامت کو دیکھیں گے تو اس کی ہَولْناکی اور دہشت کی وجہ سے ان کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کی مدت بھول جائیں گے۔ اور یہ خیال کریں گے کہ وہ دنیا میں صرف ایک رات یا ایک دن چڑھے کے وقت برابر ہی رہے تھے۔( تفسیرکبیر،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶،۱۱/۵۰-۵۱، مدارک،النّازعات،تحت الآیۃ:۴۲-۴۶، ص۱۳۲۰، ملتقطاً)
نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت قائم ہونے کے وقت کا علم دیا گیا ہے:
علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ اس وقت کی بات ہے جب اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو قیامت واقع ہونے کے وقت کا علم نہیں دیا تھا۔ لہٰذا یہ اس بات کے مُنافی نہیں کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ دنیا سے اس وقت تک وصال ظاہری نہیں فرمایا جب تک اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا اور آخرت کے تمام غُیوب کا علم عطا نہیں فرمایا۔ (اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا کچھ چیزوں کی غیبی معلومات نہ بتانا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ کو غیب کا علم نہیں تھا کیونکہ) آپ کو (علم ہونے کے باوجود) کچھ باتیں چھپانے کا حکم تھا۔( صاوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴۳، ۶/۲۳۱۲)
🍀🍀🍀🍀🍀
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کو عوام اور خواص سبھی مسلمانوں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند بنائے۔ اور اسے مسلمانوں کی اعتقادی، علمی اور عملی اصلاح کا بہترین ذریعہ بنائے۔ اور اس کے صدقے میری، میرے والدین، میرے عزیز رشتہ داروں، اساتذہ ِکرام، دوست اَحباب، دیگر متعلقین اور معاونین کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
*حدیث میں یوم عرفہ کا ذکر ہے 9 ذو الحجہ کا نہیں*‼
از قلم :مفتی علی اصغر عطاری مدنی
9 ذو الحجہ شب 1438
31 اگست 2017
https://www.facebook.com/MuftiAliAsghar/
🚫ایک ڈیڑھ ہوشیار نے میسیج بنایا کنفیوزن پھیلایا اور قوم تشویش کا شکار ہو گئی اور روزے جیسی عبادت دشوار ہو گئی‼
☎لاتعداد فون ایس ایم ایس واٹس کے آتے رہے لوگ پوچھتے رہے کیا کیا جائے ❓
روزہ عرب کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہوئے جمعرات کا رکھا جائے یا پاکستان میں اس سال یعنی 1438ھ کو جو 9 ذو الحجہ جمعہ کو ہو رہی ہے اس کے حساب سےجمعہ کا رکھیں گے تب فضلیت حاصل ہوگی؟
🌴🌴
🔮دلائل اور باریکیوں پر تو اپنے فورم پر گفتگو کی جاتی ہے یہاں صرف الزامی طور پر ایک ہی دلیل پر اکتفاء کروں گا
اور اس دلیل کا تعلق اس بات سے ہے جس کو عقلی طور پر سب سے زیادہ مضبوط سمجھ کر میسج تیار کیا گیا تھا
💡یوں بھی کہہ سکتے ہیں *گردش کرنے والے میسیج کا مرکزی خیال ایک ہی بات تھی*
_اس بات پر قیاس کر کے ایک موقف اپنایا گیا کہ حدیث میں 9 ذو الحجہ نہیں بلکہ یوم عرفہ کہا گیا ہے_
🔶 باقی سارا کلام سارے جملے جو میسیج میں لکھے گئے اسی کمزور دلیل کا سہارا بنانے کے لئے لکھے گئے تھے۔جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ دیکھیں !! 9 ذو الحجہ کہا جاتا تو ضرور اپنے اپنے ملک کی رویت اور چاند سے روزہ رکھتے لیکن یوم عرفہ کہنے کا مطلب جناب یہ ہوا کہ صرف اور صرف یہ مطلب لیا جائے کہ جس دن حاجی جمع ہوتے ہیں میدان عرفات میں ہر خطے کے لوگ اسی کا اعتبار کریں گے وغیرہ ذالک۔۔۔
🌴🌴
یوم عرفہ سے نو ذو الحجہ کو مراد نہ لینے کی نفی بالکل نفی ہے جیسا کہ گردشی میسج میں یہی موقف اپنایا گیا تھا‼
آئیے اب دیکھتے ہیں اس میسیج کا جواب👇
*گردشی میسیج کے خلاف الزامی دلیل* 👇
کل بروز جمعہ 1438 یکم ستمبر 2017 سے پاکستان اور جہاں جہاں کل 9 ذو الحجہ ہے فجر کی نماز کے بعد سے تکبیرات تشریق کا آغاز ہو رہا ہے
تکبیر تشریق بلند آواز سے پڑھنا ہر اس فرض نماز کے بعد کم از کم ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے جو مستحب جماعت سے پڑھی گئی ہو
👈 تکبیر تشریق کا آغاز 9 ذو الحجہ کی فجر سے ہوتا ہے اور اختتام 13 ذو الحجہ کی عصر پر ہوتا ہے
‼ کیا کبھی کسی نے پاکستان میں رہتے ہوئے عرب کے چاند سے تکبیر تشریق کا آغاز کیا ہے ❓
ہرگز نہیں ہماری مساجد میں پاکستان کے حساب سے ہی تکبیر تشریق کا آغاز ہوتا جس دن 9 ذو الحجہ ہوتی ہے اس کی صبح سے ہی آغاز کرتے ہیں
👈کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ احادیث جو تکبیر تشریق کی اصل اور بنیاد اور دلیل ہیں ان میں 9 ذو الحجہ کا نہیں بلکہ *یوم عرفہ* سے آغاز کا *تذکرہ* ہے۔
🚫💡🚫تو اب وہ صاحب کیا کہیں گے جن کی رٹ یہ تھی کہ حدیث میں 9 ذو الحجہ نہیں بلکہ یوم عرفہ کا تذکرہ ہے لھذا روزہ اس دن رکھنا ہے جس دن عرب میں یوم عرفہ ہوتا ہے اور یوم عرفہ حاجیوں کے عرفات میں جمع ہونے کے دن کو کہتے ہیں لھذا یوں کرو۔۔۔یوں کرو۔۔۔یوں کرو
‼کیا اب اہل پاکستان جن کے یہاں چاند کی رویت میں عادتا ایک دن کا فرق ضرور آتا ہے کیا تکبیر تشریق بھی حج کے دن سے شروع کر دیں اور اپنے ملک کے چاند کا اعتبار نہ کریں ‼
🔶گردشی میسیج لکھنے والے کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ کسی چوہے کو ہلدی کیا مل گئی اس نے خود کو پنساری ہی سمجھ لیا
👈ذیل میں اصل عربی متن کے ساتھ مختلف روایتیں موجود ہیں جن میں پہلی روایت دار قطنی کی ہے جس میں درج ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم *یوم عرفہ* کی فجر پر تکبیر تشریق کا آغاز فرماتے اور ایام تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذو الحجہ کی عصر پر اس کا اختتام فرماتے
روى الدارقطني عن جابر: "كان النبي صلى الله عليه وسلم *يكبر في صلاة الفجر يوم عرفة* إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق حين يسلم من المكتوبات"،
👈یہ دوسری روایت کے الفاظ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں اس میں بھی یوم عرفہ سے آغاز کا تذکرہ ہے👇
وفي لفظ: "وكان إذا صلى الصبح *من غداة عرفة* ؛ أقبل على أصحابه فيقول: مكانكم، ويقول: الله أكبر الله أكبر لاإله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد"
🌴🌴
صحابہ کرام میں سے
👈حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
👈حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم
👈حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
👈 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ
کا عمل محدثین نے تکبیر تشریق کے حوالے سے جو نقل کیا ہے
ان تمام روایتوں میں بھی یہی بات ہے کہ *تکبیر تشریق یوم عرفہ سے شروع کی جاتی*
یہ بات ہر خاص و عام پر واضح ہے کہ احادیث و آثار میں یوم عرفہ کے دن کی ابتداء کی قید ہونے کے باوجود ہم اپنے چاند سے 9 ذو الحجہ پر ہی عمل کرتے ہیں لھذا روزہ رکھنے میں بھی یہی معاملہ ہوگاکہ فضلیت نو ذو الحجہ کی ہے جو جہاں یہ تاریخ پائے اس دن روزہ رکھے جس طرح کہ ليلة القدر،ليلة الجائزه, شب براءت اور دیگر بڑی راتوں کو ہم اپنے ملک کے چاند کے حساب سے ہی مناتے ہیں
🌴🌴
ذیل میں چاروں صحابہ کرام کے عم
از قلم :مفتی علی اصغر عطاری مدنی
9 ذو الحجہ شب 1438
31 اگست 2017
https://www.facebook.com/MuftiAliAsghar/
🚫ایک ڈیڑھ ہوشیار نے میسیج بنایا کنفیوزن پھیلایا اور قوم تشویش کا شکار ہو گئی اور روزے جیسی عبادت دشوار ہو گئی‼
☎لاتعداد فون ایس ایم ایس واٹس کے آتے رہے لوگ پوچھتے رہے کیا کیا جائے ❓
روزہ عرب کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہوئے جمعرات کا رکھا جائے یا پاکستان میں اس سال یعنی 1438ھ کو جو 9 ذو الحجہ جمعہ کو ہو رہی ہے اس کے حساب سےجمعہ کا رکھیں گے تب فضلیت حاصل ہوگی؟
🌴🌴
🔮دلائل اور باریکیوں پر تو اپنے فورم پر گفتگو کی جاتی ہے یہاں صرف الزامی طور پر ایک ہی دلیل پر اکتفاء کروں گا
اور اس دلیل کا تعلق اس بات سے ہے جس کو عقلی طور پر سب سے زیادہ مضبوط سمجھ کر میسج تیار کیا گیا تھا
💡یوں بھی کہہ سکتے ہیں *گردش کرنے والے میسیج کا مرکزی خیال ایک ہی بات تھی*
_اس بات پر قیاس کر کے ایک موقف اپنایا گیا کہ حدیث میں 9 ذو الحجہ نہیں بلکہ یوم عرفہ کہا گیا ہے_
🔶 باقی سارا کلام سارے جملے جو میسیج میں لکھے گئے اسی کمزور دلیل کا سہارا بنانے کے لئے لکھے گئے تھے۔جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ دیکھیں !! 9 ذو الحجہ کہا جاتا تو ضرور اپنے اپنے ملک کی رویت اور چاند سے روزہ رکھتے لیکن یوم عرفہ کہنے کا مطلب جناب یہ ہوا کہ صرف اور صرف یہ مطلب لیا جائے کہ جس دن حاجی جمع ہوتے ہیں میدان عرفات میں ہر خطے کے لوگ اسی کا اعتبار کریں گے وغیرہ ذالک۔۔۔
🌴🌴
یوم عرفہ سے نو ذو الحجہ کو مراد نہ لینے کی نفی بالکل نفی ہے جیسا کہ گردشی میسج میں یہی موقف اپنایا گیا تھا‼
آئیے اب دیکھتے ہیں اس میسیج کا جواب👇
*گردشی میسیج کے خلاف الزامی دلیل* 👇
کل بروز جمعہ 1438 یکم ستمبر 2017 سے پاکستان اور جہاں جہاں کل 9 ذو الحجہ ہے فجر کی نماز کے بعد سے تکبیرات تشریق کا آغاز ہو رہا ہے
تکبیر تشریق بلند آواز سے پڑھنا ہر اس فرض نماز کے بعد کم از کم ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے جو مستحب جماعت سے پڑھی گئی ہو
👈 تکبیر تشریق کا آغاز 9 ذو الحجہ کی فجر سے ہوتا ہے اور اختتام 13 ذو الحجہ کی عصر پر ہوتا ہے
‼ کیا کبھی کسی نے پاکستان میں رہتے ہوئے عرب کے چاند سے تکبیر تشریق کا آغاز کیا ہے ❓
ہرگز نہیں ہماری مساجد میں پاکستان کے حساب سے ہی تکبیر تشریق کا آغاز ہوتا جس دن 9 ذو الحجہ ہوتی ہے اس کی صبح سے ہی آغاز کرتے ہیں
👈کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ احادیث جو تکبیر تشریق کی اصل اور بنیاد اور دلیل ہیں ان میں 9 ذو الحجہ کا نہیں بلکہ *یوم عرفہ* سے آغاز کا *تذکرہ* ہے۔
🚫💡🚫تو اب وہ صاحب کیا کہیں گے جن کی رٹ یہ تھی کہ حدیث میں 9 ذو الحجہ نہیں بلکہ یوم عرفہ کا تذکرہ ہے لھذا روزہ اس دن رکھنا ہے جس دن عرب میں یوم عرفہ ہوتا ہے اور یوم عرفہ حاجیوں کے عرفات میں جمع ہونے کے دن کو کہتے ہیں لھذا یوں کرو۔۔۔یوں کرو۔۔۔یوں کرو
‼کیا اب اہل پاکستان جن کے یہاں چاند کی رویت میں عادتا ایک دن کا فرق ضرور آتا ہے کیا تکبیر تشریق بھی حج کے دن سے شروع کر دیں اور اپنے ملک کے چاند کا اعتبار نہ کریں ‼
🔶گردشی میسیج لکھنے والے کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ کسی چوہے کو ہلدی کیا مل گئی اس نے خود کو پنساری ہی سمجھ لیا
👈ذیل میں اصل عربی متن کے ساتھ مختلف روایتیں موجود ہیں جن میں پہلی روایت دار قطنی کی ہے جس میں درج ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم *یوم عرفہ* کی فجر پر تکبیر تشریق کا آغاز فرماتے اور ایام تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذو الحجہ کی عصر پر اس کا اختتام فرماتے
روى الدارقطني عن جابر: "كان النبي صلى الله عليه وسلم *يكبر في صلاة الفجر يوم عرفة* إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق حين يسلم من المكتوبات"،
👈یہ دوسری روایت کے الفاظ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں اس میں بھی یوم عرفہ سے آغاز کا تذکرہ ہے👇
وفي لفظ: "وكان إذا صلى الصبح *من غداة عرفة* ؛ أقبل على أصحابه فيقول: مكانكم، ويقول: الله أكبر الله أكبر لاإله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد"
🌴🌴
صحابہ کرام میں سے
👈حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
👈حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم
👈حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
👈 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ
کا عمل محدثین نے تکبیر تشریق کے حوالے سے جو نقل کیا ہے
ان تمام روایتوں میں بھی یہی بات ہے کہ *تکبیر تشریق یوم عرفہ سے شروع کی جاتی*
یہ بات ہر خاص و عام پر واضح ہے کہ احادیث و آثار میں یوم عرفہ کے دن کی ابتداء کی قید ہونے کے باوجود ہم اپنے چاند سے 9 ذو الحجہ پر ہی عمل کرتے ہیں لھذا روزہ رکھنے میں بھی یہی معاملہ ہوگاکہ فضلیت نو ذو الحجہ کی ہے جو جہاں یہ تاریخ پائے اس دن روزہ رکھے جس طرح کہ ليلة القدر،ليلة الجائزه, شب براءت اور دیگر بڑی راتوں کو ہم اپنے ملک کے چاند کے حساب سے ہی مناتے ہیں
🌴🌴
ذیل میں چاروں صحابہ کرام کے عم
Facebook
Log in or sign up to view
See posts, photos and more on Facebook.
ل سے متعلق منقول روایات با حوالی پیش کی جا رہی ہیں ان کا خلاصہ اوپر بیان کر دیا گیا ہے اس لئے ایک ایک کا ترجمہ نہیں کیا گیا البتہ یوم عرفہ کے الفاظ کو ہر روایت میں بولڈ کر دیا گیا ہے اور ہر روایت کے حوالہ جات بھی بیان کر دئیے گئے ہیں
اس مسیج کو اتنا عام کیجے کہ غلط فہمی میں مبتلا لوگوں کی کنفیوزن دور ہو اور خاص طور پر اس بندے تک بھی پہنچ جائے جس نے اپنا نام چھپا کر ایک بے نامی میسیج گردش کے لئے چھوڑ دیا
👈حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عمل👇
عن عُمرَ بنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عنه: (أنَّه كان *يُكبِّر دُبرَ صلاةِ الغداةِ من يومِ عَرفةَ* إلى صلاةِ العصرِ مِن آخِرِ أيَّامِ التَّشريقِ)
حوالہ جات👇
رواه ابن المنذر في ((الأوسط)) (2200)، والبيهقي (3/314) (6496)
👈حصرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل👇
عن عليٍّ رَضِيَ اللهُ عنه: (أنَّه كان *يُكبِّرُ من صلاةِ الفجرِ يومَ عَرفةَ،* إلى صَلاةِ العَصرِ مِن آخِرِ أيَّامِ التَّشريقِ)
🌹 حوالہ جات👇
رواه ابن أبي شيبة في ((المصنف)) (2/165)
👈حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل 👇
عنِ الأَسودِ، قال: (كانَ عبدُ اللهِ بنُ مَسعودٍ، *يُكبِّر من صلاةِ الفَجرِ يومَ عَرفة* َ، إلى صلاةِ العصرِ من النَّحرِ؛ يقول: اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ، لا إلهَ إلَّا الله، واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ، ولله الحمدُ)
🌹حوالہ جات👇
رواه ابنُ أبي شَيبةَ في ((المصنَّف)) (2/165)، والطبرانيُّ (9/355) (9534). جوَّد إسنادَه الزيلعيُّ في ((نصْب الرَّاية)) (2/223)، ووثَّق رجالَه الهيثميُّ في ((مجمع الزوائد)) (2/200).
👈حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل 👇
👈 عن ابنِ عبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عنهما: (أنَّه كان يُكبِّرُ *من غَداةِ عَرفة* َ إلى صَلاةِ العَصرِ من آخِرِ أيَّامِ التَّشريقِ)
🌹حوالہ جات👇
رواه الحاكم (1/440) وصحَّحه، والبيهقي (3/314) (6498)
اس مسیج کو اتنا عام کیجے کہ غلط فہمی میں مبتلا لوگوں کی کنفیوزن دور ہو اور خاص طور پر اس بندے تک بھی پہنچ جائے جس نے اپنا نام چھپا کر ایک بے نامی میسیج گردش کے لئے چھوڑ دیا
👈حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عمل👇
عن عُمرَ بنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عنه: (أنَّه كان *يُكبِّر دُبرَ صلاةِ الغداةِ من يومِ عَرفةَ* إلى صلاةِ العصرِ مِن آخِرِ أيَّامِ التَّشريقِ)
حوالہ جات👇
رواه ابن المنذر في ((الأوسط)) (2200)، والبيهقي (3/314) (6496)
👈حصرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل👇
عن عليٍّ رَضِيَ اللهُ عنه: (أنَّه كان *يُكبِّرُ من صلاةِ الفجرِ يومَ عَرفةَ،* إلى صَلاةِ العَصرِ مِن آخِرِ أيَّامِ التَّشريقِ)
🌹 حوالہ جات👇
رواه ابن أبي شيبة في ((المصنف)) (2/165)
👈حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل 👇
عنِ الأَسودِ، قال: (كانَ عبدُ اللهِ بنُ مَسعودٍ، *يُكبِّر من صلاةِ الفَجرِ يومَ عَرفة* َ، إلى صلاةِ العصرِ من النَّحرِ؛ يقول: اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ، لا إلهَ إلَّا الله، واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ، ولله الحمدُ)
🌹حوالہ جات👇
رواه ابنُ أبي شَيبةَ في ((المصنَّف)) (2/165)، والطبرانيُّ (9/355) (9534). جوَّد إسنادَه الزيلعيُّ في ((نصْب الرَّاية)) (2/223)، ووثَّق رجالَه الهيثميُّ في ((مجمع الزوائد)) (2/200).
👈حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل 👇
👈 عن ابنِ عبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عنهما: (أنَّه كان يُكبِّرُ *من غَداةِ عَرفة* َ إلى صَلاةِ العَصرِ من آخِرِ أيَّامِ التَّشريقِ)
🌹حوالہ جات👇
رواه الحاكم (1/440) وصحَّحه، والبيهقي (3/314) (6498)
کسی نے کہا تھا:
جب تمھارے پاس نصیحت کرنے کے لیے کچھ نہ ہو ، تو اپنی آپ بیتی سے کام لو ۔
( Tough Time Never Last Tough People Do )
ہر ذی شعور انسان کی آپ بیتی ، سبق آموز ہوتی ہے ۔
جہاں کتابی باتیں اثر نہیں کرتیں ، آپ بیتی کرجاتی ہے ۔
ہوسکے تو خیر کے ارادے سے ، اپنی آپ بیتی دوسروں کو سنایا کریں ؛ اِس سے کسی بھی وقت ، کسی کی سوچ تبدیل ہو سکتی ہے ۔
لقمان شاہد
9/8/2019 ء
جب تمھارے پاس نصیحت کرنے کے لیے کچھ نہ ہو ، تو اپنی آپ بیتی سے کام لو ۔
( Tough Time Never Last Tough People Do )
ہر ذی شعور انسان کی آپ بیتی ، سبق آموز ہوتی ہے ۔
جہاں کتابی باتیں اثر نہیں کرتیں ، آپ بیتی کرجاتی ہے ۔
ہوسکے تو خیر کے ارادے سے ، اپنی آپ بیتی دوسروں کو سنایا کریں ؛ اِس سے کسی بھی وقت ، کسی کی سوچ تبدیل ہو سکتی ہے ۔
لقمان شاہد
9/8/2019 ء
💫 *" قرآنی دعائیں مع اردو ترجمہ "* 💫
قرآنِ کریم میں موجود دعاؤں کو بہترین اور آسان انداز میں مع اردو ترجمہ (کنزالعرفان) پیش کیا جارہا ہے ان کو یاد کیجیے اپنی دعاؤں میں شامل کیجیے اور ثواب کی نیت سے دوسروں کو بھی بھیجیے
✍ ترتیب: محمد سرمد لطیف بن محمد لطیف
( 09 ذوالحجة الحرام، یوم عرفہ )
✅ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
" اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما ،بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔ اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔"
( البقرة: 127-128)
✅ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
" اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔"
( البقرة:201)
✅ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
" اے ہمارے رب! ہم پر صبر ڈال دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اورکافر قوم کے مقابلے میں ہماری مددفرما۔"
( البقرة: 250)
✅ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
" اے ہمارے رب! اگر ہم بھولیں یا خطا کریں تو ہماری گرفت نہ فرما ،اے ہمارے رب! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا، اے ہمارے رب!اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف فرمادے اور ہمیں بخش دے اور ہم پر مہربانی فرما، تو ہمارا مالک ہے پس کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔"
( البقرة : 286)
✅ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ
" اے ہمارے رب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔"
( اٰل عمران:08)
✅ رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
" اے ہمارے رب! بیشک تو سب لوگوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ، بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔"
( اٰل عمران:09)
✅ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
" اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے ہیں ،تو تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔"
( اٰل عمران:16)
✅ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ
" اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والاہے۔"
( اٰل عمران:38)
✅ رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
" اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اورہم نے رسول کی اِتّباع کی پس ہمیں گواہی دینے والوں میں سے لکھ دے۔"
( اٰل عمران: 53)
✅ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
" اے ہمارے رب ! ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملے میں جو ہم سے زیادتیاں ہوئیں انہیں بخش دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔"
( اٰل عمران:147)
✅ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
" اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے ، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ۔"
( اٰل عمران:191)
✅ رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ
" اے ہمارے رب ! بیشک جسے تو دوزخ میں داخل کرے گا اسے تو نے ضرور رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے ۔"
( اٰل عمران: 192)
✅ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ
" اے ہمارے رب ! بیشک ہم نے ایک ندا دینے والے کو ایمان کی ندا (یوں ) دیتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے پس اے ہمارے رب ! تو ہمارے گنا ہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں مٹادے اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما ۔"
( اٰل عمران:193)
✅ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْز
قرآنِ کریم میں موجود دعاؤں کو بہترین اور آسان انداز میں مع اردو ترجمہ (کنزالعرفان) پیش کیا جارہا ہے ان کو یاد کیجیے اپنی دعاؤں میں شامل کیجیے اور ثواب کی نیت سے دوسروں کو بھی بھیجیے
✍ ترتیب: محمد سرمد لطیف بن محمد لطیف
( 09 ذوالحجة الحرام، یوم عرفہ )
✅ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
" اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما ،بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔ اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔"
( البقرة: 127-128)
✅ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
" اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔"
( البقرة:201)
✅ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
" اے ہمارے رب! ہم پر صبر ڈال دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اورکافر قوم کے مقابلے میں ہماری مددفرما۔"
( البقرة: 250)
✅ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
" اے ہمارے رب! اگر ہم بھولیں یا خطا کریں تو ہماری گرفت نہ فرما ،اے ہمارے رب! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا، اے ہمارے رب!اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف فرمادے اور ہمیں بخش دے اور ہم پر مہربانی فرما، تو ہمارا مالک ہے پس کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔"
( البقرة : 286)
✅ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ
" اے ہمارے رب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔"
( اٰل عمران:08)
✅ رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
" اے ہمارے رب! بیشک تو سب لوگوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ، بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔"
( اٰل عمران:09)
✅ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
" اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے ہیں ،تو تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔"
( اٰل عمران:16)
✅ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ
" اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والاہے۔"
( اٰل عمران:38)
✅ رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
" اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اورہم نے رسول کی اِتّباع کی پس ہمیں گواہی دینے والوں میں سے لکھ دے۔"
( اٰل عمران: 53)
✅ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
" اے ہمارے رب ! ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملے میں جو ہم سے زیادتیاں ہوئیں انہیں بخش دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔"
( اٰل عمران:147)
✅ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
" اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے ، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ۔"
( اٰل عمران:191)
✅ رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ
" اے ہمارے رب ! بیشک جسے تو دوزخ میں داخل کرے گا اسے تو نے ضرور رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے ۔"
( اٰل عمران: 192)
✅ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ
" اے ہمارے رب ! بیشک ہم نے ایک ندا دینے والے کو ایمان کی ندا (یوں ) دیتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے پس اے ہمارے رب ! تو ہمارے گنا ہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں مٹادے اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما ۔"
( اٰل عمران:193)
✅ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْز