فرمایا کہ اس طرح پتا نہیں چلتا کہ کس نے اجازت دی اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم لوگ اپنے اپنے سرداروں کے ذریعہ مجھے خبر دو۔ چنانچہ ہر قبیلہ کے سردار نے دربارِ رسالت میں آ کر عرض کر دیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے خوش دلی کے ساتھ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دیا ہے۔ (بخاری، کتاب الہبۃ وفضلہا والتحریض علیہا، باب اذا وہب جماعۃ لقوم، ۲ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۶۰۷-۲۶۰۸، ملخصاً)
سیرت ابنِ ہشام میں ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صردچند معززین کے ساتھ بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مُؤثِّر تقریر کی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محمد! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حضرت حلیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی (رضاعی) پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقُّعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔ زہیر کی تقریر سن کر حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت زیادہ مُتَأثِّر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بڑی دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی صورت یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نمازِ ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے ۔یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیرانِ جنگ کی رہائی ہو گئی۔ (سیرت ابن ہشام، امر اموال ہوازن وسبایاہا وعطایا المؤلّفۃ قلوبہم منہا۔۔۔ الخ، ص۵۰۴-۵۰۵، ملخصاً)
نسائی شریف کی روایت میں ہے کہ جب ہوازن قبیلے کے لوگوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں عرض کی توآپ نے اپنے خاندان کے حصے میں آنے والے لونڈی غلاموں کو آزاد فرما دیا، اس کے بعد ان سے ارشاد فرمایا ’’فَاِذَا صَلَّیْتُ الظُّہْرَ فَقُوْمُوْا فَقُوْلُوْا اِنَّا نَسْتَعِیْنُ بِرَسُوْلِ اللہِ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَوِ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ نِسَائِنَا وَاَبْنَائِنَا‘‘ جب میں ظہر کی نماز پڑھوں تو تم سب کھڑے ہو کر یوں کہو: ہم اللہ کے رسول کے وسیلے سے مسلمانوں سے اپنی عورتوں اور بچوں میں مدد چاہتے ہیں۔ (نسائی، کتاب الہبۃ، ہبۃ المشاع، ص۶۰۵، الحدیث: ۳۶۸۷)
اس سے معلوم ہوا کہ اِستِعانت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص نہیں بلکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
*طالبِ دعاابوعمر*
سیرت ابنِ ہشام میں ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صردچند معززین کے ساتھ بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مُؤثِّر تقریر کی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محمد! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حضرت حلیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی (رضاعی) پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقُّعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔ زہیر کی تقریر سن کر حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت زیادہ مُتَأثِّر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بڑی دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی صورت یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نمازِ ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے ۔یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیرانِ جنگ کی رہائی ہو گئی۔ (سیرت ابن ہشام، امر اموال ہوازن وسبایاہا وعطایا المؤلّفۃ قلوبہم منہا۔۔۔ الخ، ص۵۰۴-۵۰۵، ملخصاً)
نسائی شریف کی روایت میں ہے کہ جب ہوازن قبیلے کے لوگوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں عرض کی توآپ نے اپنے خاندان کے حصے میں آنے والے لونڈی غلاموں کو آزاد فرما دیا، اس کے بعد ان سے ارشاد فرمایا ’’فَاِذَا صَلَّیْتُ الظُّہْرَ فَقُوْمُوْا فَقُوْلُوْا اِنَّا نَسْتَعِیْنُ بِرَسُوْلِ اللہِ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَوِ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ نِسَائِنَا وَاَبْنَائِنَا‘‘ جب میں ظہر کی نماز پڑھوں تو تم سب کھڑے ہو کر یوں کہو: ہم اللہ کے رسول کے وسیلے سے مسلمانوں سے اپنی عورتوں اور بچوں میں مدد چاہتے ہیں۔ (نسائی، کتاب الہبۃ، ہبۃ المشاع، ص۶۰۵، الحدیث: ۳۶۸۷)
اس سے معلوم ہوا کہ اِستِعانت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص نہیں بلکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
*طالبِ دعاابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
دنیا بھر کی مَساجِد میں مشرکوں کا داخلہ ممنوع ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَاۚ-وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۲۸)
ترجمہ
اے ایمان والو! مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ اپنے فضل سے اگر چاہے گاتوتمہیں دولت مند کردے گا بیشک اللہ علم والا حکمت والا ہے۔
تفسیر
*{اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ:مشرک بالکل ناپاک ہیں۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مشرک بالکل ناپاک ہیں یعنی ان کو باطن کے اعتبار سے ناپاک قرار دیا ہے کہ وہ کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں۔ حکم دیا گیا کہ اِس سال یعنی سَن 9ہجری کے بعد وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں نہ حج کے لئے نہ عمرہ کے لئے ۔
*دنیا بھر کی مَساجِد میں مشرکوں کا داخلہ ممنوع ہے:*
یہاں مشرکین کو منع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان مسجدِ حرام شریف میں آنے سے روکیں۔یہاں اصلِ حکم مسجد ِ حرام شریف میں آنے سے روکنے کا ہے اور بقیہ دنیا بھر کی مساجد میں آنے کے متعلق بھی حکم یہ ہے کہ کفار مسجدوں میں نہیں آسکتے ۔ خصوصاً کفار کو عزت و احترام اور استقبال کے ساتھ مسجد میں لانا شدید حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ کہنا کہ مسجدُ الحرام شریف سے کفار کا منع ایک خاص وقت کے واسطے تھا ،اگر یہ مراد کہ اب نہ رہا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر صَریح اِفتراء ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا‘‘
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔)
یونہی یہ کہنا کہ کفار کے وُفود مسجدِ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے محض جھوٹ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے مسجدِ کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا کسی کافر کی حاضری مَعَاذَاللہ بطورِاِستیلا واِستِعلاء (یعنی غلبے کے طور پر) نہ تھی بلکہ ذلیل وخوار ہوکر یا اسلام لانے کے لئے یا تبلیغِ اسلام سننے کے واسطے تھی ۔ (فتاویٰ رضویہ،کتاب السیر، ۱۴ / ۳۹۰-۳۹۱)
*{وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً:اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے۔}* ارشاد فرمایا کہ اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے کہ مشرکین کو حج سے روک دینے سے تجارتوں کو نقصان پہنچے گا اور اہلِ مکہ کو تنگی پیش آئے گی تو عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے فضل سے اگر چاہے گا تو تمہیں دولت مند کردے گا ۔ حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ نے انہیں غنی کردیا، بارشیں خوب ہوئیں اور پیداوار کثرت سے ہوئی۔ مقاتل نے کہا کہ یمن کے لوگ مسلمان ہوئے اور انہوں نے اہلِ مکہ پر اپنی کثیر دولتیں خرچ کیں۔ ’’اگرچاہے‘‘ فرمانے میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہئے کہ طلب ِخیر اور دفعِ آفات کے لئے ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ رہے اور تمام اُمور کو اسی کی مَشِیَّت سے متعلق جانے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۲ / ۲۲۹) اسی آیت پر مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یعنی یہ نہ سمجھو کہ اگر حج میں کفار شریک نہ ہوئے تو تمہاری تجارتیں نہ چلیں گی (بلکہ) اللہ (عَزَّوَجَلَّ) مسلمانوں کی جماعت میں اتنی برکت دے گا کہ مسلمان حاجیوں سے اہلِ مکہ کے تمام کاروبار چلیں گے۔ رب (عَزَّوَجَلَّ) نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا جو آج تک دیکھا جا رہا ہے۔’’ اگر چاہے‘‘ اس لئے فرمایا کہ مسلمانوں کا توکل اللہ (عَزَّوَجَلَّ) پر رہے نہ کہ آنے والے حاجیوں پر۔ (نور العرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۰۴)
*طالبِ دعاابوعمر*
دنیا بھر کی مَساجِد میں مشرکوں کا داخلہ ممنوع ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَاۚ-وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۲۸)
ترجمہ
اے ایمان والو! مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ اپنے فضل سے اگر چاہے گاتوتمہیں دولت مند کردے گا بیشک اللہ علم والا حکمت والا ہے۔
تفسیر
*{اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ:مشرک بالکل ناپاک ہیں۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مشرک بالکل ناپاک ہیں یعنی ان کو باطن کے اعتبار سے ناپاک قرار دیا ہے کہ وہ کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں۔ حکم دیا گیا کہ اِس سال یعنی سَن 9ہجری کے بعد وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں نہ حج کے لئے نہ عمرہ کے لئے ۔
*دنیا بھر کی مَساجِد میں مشرکوں کا داخلہ ممنوع ہے:*
یہاں مشرکین کو منع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان مسجدِ حرام شریف میں آنے سے روکیں۔یہاں اصلِ حکم مسجد ِ حرام شریف میں آنے سے روکنے کا ہے اور بقیہ دنیا بھر کی مساجد میں آنے کے متعلق بھی حکم یہ ہے کہ کفار مسجدوں میں نہیں آسکتے ۔ خصوصاً کفار کو عزت و احترام اور استقبال کے ساتھ مسجد میں لانا شدید حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ کہنا کہ مسجدُ الحرام شریف سے کفار کا منع ایک خاص وقت کے واسطے تھا ،اگر یہ مراد کہ اب نہ رہا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر صَریح اِفتراء ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا‘‘
(ترجمۂ کنزُالعِرفان:مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔)
یونہی یہ کہنا کہ کفار کے وُفود مسجدِ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے محض جھوٹ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے مسجدِ کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا کسی کافر کی حاضری مَعَاذَاللہ بطورِاِستیلا واِستِعلاء (یعنی غلبے کے طور پر) نہ تھی بلکہ ذلیل وخوار ہوکر یا اسلام لانے کے لئے یا تبلیغِ اسلام سننے کے واسطے تھی ۔ (فتاویٰ رضویہ،کتاب السیر، ۱۴ / ۳۹۰-۳۹۱)
*{وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً:اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے۔}* ارشاد فرمایا کہ اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے کہ مشرکین کو حج سے روک دینے سے تجارتوں کو نقصان پہنچے گا اور اہلِ مکہ کو تنگی پیش آئے گی تو عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے فضل سے اگر چاہے گا تو تمہیں دولت مند کردے گا ۔ حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ نے انہیں غنی کردیا، بارشیں خوب ہوئیں اور پیداوار کثرت سے ہوئی۔ مقاتل نے کہا کہ یمن کے لوگ مسلمان ہوئے اور انہوں نے اہلِ مکہ پر اپنی کثیر دولتیں خرچ کیں۔ ’’اگرچاہے‘‘ فرمانے میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہئے کہ طلب ِخیر اور دفعِ آفات کے لئے ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ رہے اور تمام اُمور کو اسی کی مَشِیَّت سے متعلق جانے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۲ / ۲۲۹) اسی آیت پر مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یعنی یہ نہ سمجھو کہ اگر حج میں کفار شریک نہ ہوئے تو تمہاری تجارتیں نہ چلیں گی (بلکہ) اللہ (عَزَّوَجَلَّ) مسلمانوں کی جماعت میں اتنی برکت دے گا کہ مسلمان حاجیوں سے اہلِ مکہ کے تمام کاروبار چلیں گے۔ رب (عَزَّوَجَلَّ) نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا جو آج تک دیکھا جا رہا ہے۔’’ اگر چاہے‘‘ اس لئے فرمایا کہ مسلمانوں کا توکل اللہ (عَزَّوَجَلَّ) پر رہے نہ کہ آنے والے حاجیوں پر۔ (نور العرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۰۴)
*طالبِ دعاابوعمر*
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر6&7
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ(٦) تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ(۷)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (6)کہ کافروں پر ضرور عذاب ہو گا جس دن تھرتھرائے گی تھرتھرانے والی۔ (7)اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی۔
*#تفسیر:*
{یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ: جس دن تھرتھرانے والی تھر تھرائے گی۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تم اس دن ضرور زندہ کئے جاؤ گے جس دن (ایک سینگ میں) پہلی پھونک ماری جائے گی۔ تو اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے زمین اور پہاڑ شدید حرکت کرنے لگیں گے اور انتہائی سخت زلزلہ آ جائے گا اور تمام مخلوق مرجائے گی۔ پھر اس پہلی پھونک کے بعد دوسری پھونک ماری جائے گی جس سے ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کردی جائے گی۔ ان دونوں پھونکوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا۔( روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۱۰/۳۱۶-۳۱۷، بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴/۴۱۱، ملتقطاً)
*قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو:*
حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب رات کے دو تہائی حصے گزر جاتے تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اٹھتے اور ارشادفرماتے’’ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرو، اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرو۔ (قیامت کا) پہلا نَفخہ آن پہنچا اور دوسرا نفخہ اس کے تابع ہو گا، موت آپہنچی ہے، موت اپنی ان تکالیف کے ساتھ آ پہنچی ہے جو اس میں ہیں۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۲۳-باب، ۴/۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۵) مراد یہ ہے کہ قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو اور موت تمہارے سر پہ کھڑی ہے اس لئے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر6&7
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ(٦) تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ(۷)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (6)کہ کافروں پر ضرور عذاب ہو گا جس دن تھرتھرائے گی تھرتھرانے والی۔ (7)اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی۔
*#تفسیر:*
{یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ: جس دن تھرتھرانے والی تھر تھرائے گی۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! تم اس دن ضرور زندہ کئے جاؤ گے جس دن (ایک سینگ میں) پہلی پھونک ماری جائے گی۔ تو اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے زمین اور پہاڑ شدید حرکت کرنے لگیں گے اور انتہائی سخت زلزلہ آ جائے گا اور تمام مخلوق مرجائے گی۔ پھر اس پہلی پھونک کے بعد دوسری پھونک ماری جائے گی جس سے ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کردی جائے گی۔ ان دونوں پھونکوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا۔( روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۱۰/۳۱۶-۳۱۷، بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۶-۷، ۴/۴۱۱، ملتقطاً)
*قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو:*
حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب رات کے دو تہائی حصے گزر جاتے تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اٹھتے اور ارشادفرماتے’’ اے لوگو! اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرو، اللّٰہ تعالیٰ کو یاد کرو۔ (قیامت کا) پہلا نَفخہ آن پہنچا اور دوسرا نفخہ اس کے تابع ہو گا، موت آپہنچی ہے، موت اپنی ان تکالیف کے ساتھ آ پہنچی ہے جو اس میں ہیں۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۲۳-باب، ۴/۲۰۷، الحدیث: ۲۴۶۵) مراد یہ ہے کہ قیامت قریب ہے، جو کرنا ہے کر لو اور موت تمہارے سر پہ کھڑی ہے اس لئے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷
رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی نیک عمل پر اپنی تعریف کی تو اس کا شکر ضائع ہوا اور عمل برباد ہو گیا۔
(کنز العمال، کتاب الاخلاق، الحدیث: ۷۶۷۴)
رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کسی نیک عمل پر اپنی تعریف کی تو اس کا شکر ضائع ہوا اور عمل برباد ہو گیا۔
(کنز العمال، کتاب الاخلاق، الحدیث: ۷۶۷۴)
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا، اللہ تعالٰی اس کو اپنے عرش کے سایے میں جگہ عطا فرمائے گا اس دن جب عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا.
( ترمذی حدیث 1310 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا، اللہ تعالٰی اس کو اپنے عرش کے سایے میں جگہ عطا فرمائے گا اس دن جب عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا.
( ترمذی حدیث 1310 )
اپنى کچھ محرومیوں کے ذمه دار ہم خود ہوتےہیں کیونکہ زندگى کا اکثر حصہ ہم دوسروں سے بدلہ لینے، نيچا دکھانے اور انکو مات دینے کے طريقے سوچنے میں گزار ديتے ہیں اور اپنے لیے یادگار وقت بھى نہيں نکال پاتے۔۔۔۔۔ رب کریم ہمیں اپنى اصلاح و بہتر ى کے لیے وقت نکالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
*محمد فیصل نوید گلیا نوى*
*محمد فیصل نوید گلیا نوى*
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=913843938952105&id=463816663954837
" مکھی کیوں پیدا کی گئی؟ "
خراسان کا بادشاہ شکار کھیل کر واپس آنے کے بعد تخت پر بیٹھا تھا٬ تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں٬ بادشاہ کے پاس ایک غلام ہاتھ باندھے مؤدب سے کھڑا تھا٬ بادشاہ کو سخت نیند آئی ہوئی تھی مگر جب بھی اس کی آنکھیں بند ہوتیں تو ایک مکھی آ کر اس کی ناک پر بیٹھ جاتی تھی اور نیند اور بے خیالی کی وجہ سے بادشاہ غصے سے مکھی کو مارنے کی کوشش کرتا لیکن اس کا ہاتھ اپنے ہی چہرے پر پڑتا تھا اور وہ ہڑبڑا کر جاگ جاتا تھا۔
جب دو تین دفعہ ایسا ہواتو بادشاہ نے غلام سے پوچھا‘ تمہیں پتہ ہےکہ اللہ نے مکھی کو کیوں پیدا کیا ہے‘ اس کی پیدائش میں اللہ کی کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ غلام نے بادشاہ کا یہ سوال سنا تو اس نے ایسا جواب دیا
جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے-
غلام نے جواب دیا‘بادشاہ سلامت! "اللہ نے مکھی کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ بادشاہوں اور سلطانوں کو یہ احساس ہوتا رہے کہ
" وہ خود کو کہیں خدا نہ سمجھ بیٹھیں کیوں کہ وہ خود سے ایک مکھی کو بھی قابو نہیں کرسکتے۔"
" مکھی کیوں پیدا کی گئی؟ "
خراسان کا بادشاہ شکار کھیل کر واپس آنے کے بعد تخت پر بیٹھا تھا٬ تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں٬ بادشاہ کے پاس ایک غلام ہاتھ باندھے مؤدب سے کھڑا تھا٬ بادشاہ کو سخت نیند آئی ہوئی تھی مگر جب بھی اس کی آنکھیں بند ہوتیں تو ایک مکھی آ کر اس کی ناک پر بیٹھ جاتی تھی اور نیند اور بے خیالی کی وجہ سے بادشاہ غصے سے مکھی کو مارنے کی کوشش کرتا لیکن اس کا ہاتھ اپنے ہی چہرے پر پڑتا تھا اور وہ ہڑبڑا کر جاگ جاتا تھا۔
جب دو تین دفعہ ایسا ہواتو بادشاہ نے غلام سے پوچھا‘ تمہیں پتہ ہےکہ اللہ نے مکھی کو کیوں پیدا کیا ہے‘ اس کی پیدائش میں اللہ کی کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ غلام نے بادشاہ کا یہ سوال سنا تو اس نے ایسا جواب دیا
جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے-
غلام نے جواب دیا‘بادشاہ سلامت! "اللہ نے مکھی کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ بادشاہوں اور سلطانوں کو یہ احساس ہوتا رہے کہ
" وہ خود کو کہیں خدا نہ سمجھ بیٹھیں کیوں کہ وہ خود سے ایک مکھی کو بھی قابو نہیں کرسکتے۔"
Facebook
علم نور ہے
مکھی کیوں پیدا کی گئی؟ خراسان کا بادشاہ شکار کھیل کر واپس آنے کے بعد تخت پر بیٹھا تھا٬ تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں٬ بادشاہ کے پاس ایک غلام ہاتھ باندھے مؤدب سے کھڑا تھا٬ بادشاہ کو...
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔
پر ی پیکر نگاری ، سرو قد ، لالہ رخساری
سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم
پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
رقیباں گوش بر آواز ، او در ناز من ترساں
سخن گفتن، چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد ﷺ اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔
امیر خسرو
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔
پر ی پیکر نگاری ، سرو قد ، لالہ رخساری
سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم
پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
رقیباں گوش بر آواز ، او در ناز من ترساں
سخن گفتن، چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد ﷺ اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔
امیر خسرو
🍲🍛 پیٹ سے اُدھار
ایک اللہ کا بندہ بازار سے گزر رہا تھا ، قصائی نے آواز دے کر کہا:
میاں جی گوشت لے جاؤ ۔
کہنے لگے: میرے پاس پیسے نہیں ۔
قصائی بولا: کوئی بات نہیں ، ادھار کرلیں ۔
انھوں نے فرمایا:
” تجھ سے ادھار کرنے سے بہتر ہے ، میں اپنے پیٹ سے ادھار کرلوں ۔ “
ایک دانا کا قول ہے:
امیر وہ نہیں ہوتا جس کی آمدن زیادہ ہو ، امیر وہ ہوتا ہے جس کے اخراجات آمدن سے کم ہوں ۔
ہم لوگ نہ پیٹ سے ادھار کرتے ہیں اور نہ اخراجات کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بس غُربت کا رونا روئے جاتے ہیں ۔
1: آمدنی بڑھانے کی کوشش ضرور کریں ، لیکن اخراجات بھی کم کریں ۔
2: ضرورتیں پوری کرنے پر توجہ دیا کریں ، خواہشیں پوری کرنے پر نہیں ۔
3: ہروقت کھاتے رہنےاور نِت نئے چَسکے لگانے سے بندہ صحت مند نہیں ہوتا ۔
وقت پر کھائیں ، سادی اور مناسب غذا استعمال کریں ۔
4: ملبوسات ( ٹوپی ، عمامہ ، رومال ، کپڑے ، جوتے وغیرہ ) قیمتی خریدنے کے بجائے ، آرام دہ اور کم قیمت خریدیں ۔
5: اللہ پاک کی رضا کے لیے کسی نہ کسی کو کھانا ضرور کھلایا کریں ، اس کی برکت سے بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہیں گے اور رزق بھی بڑھے گا ۔
لقمان شاہد
3/8/2019 ء
ایک اللہ کا بندہ بازار سے گزر رہا تھا ، قصائی نے آواز دے کر کہا:
میاں جی گوشت لے جاؤ ۔
کہنے لگے: میرے پاس پیسے نہیں ۔
قصائی بولا: کوئی بات نہیں ، ادھار کرلیں ۔
انھوں نے فرمایا:
” تجھ سے ادھار کرنے سے بہتر ہے ، میں اپنے پیٹ سے ادھار کرلوں ۔ “
ایک دانا کا قول ہے:
امیر وہ نہیں ہوتا جس کی آمدن زیادہ ہو ، امیر وہ ہوتا ہے جس کے اخراجات آمدن سے کم ہوں ۔
ہم لوگ نہ پیٹ سے ادھار کرتے ہیں اور نہ اخراجات کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بس غُربت کا رونا روئے جاتے ہیں ۔
1: آمدنی بڑھانے کی کوشش ضرور کریں ، لیکن اخراجات بھی کم کریں ۔
2: ضرورتیں پوری کرنے پر توجہ دیا کریں ، خواہشیں پوری کرنے پر نہیں ۔
3: ہروقت کھاتے رہنےاور نِت نئے چَسکے لگانے سے بندہ صحت مند نہیں ہوتا ۔
وقت پر کھائیں ، سادی اور مناسب غذا استعمال کریں ۔
4: ملبوسات ( ٹوپی ، عمامہ ، رومال ، کپڑے ، جوتے وغیرہ ) قیمتی خریدنے کے بجائے ، آرام دہ اور کم قیمت خریدیں ۔
5: اللہ پاک کی رضا کے لیے کسی نہ کسی کو کھانا ضرور کھلایا کریں ، اس کی برکت سے بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہیں گے اور رزق بھی بڑھے گا ۔
لقمان شاہد
3/8/2019 ء
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر8&9
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
قُلُوْبٌ یَّوْمَںِٕذٍ وَّاجِفَةٌ(۸) اَبْصَارُهَا
خَاشِعَةٌ(۹)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (8) کتنے دل اس دن دھڑکتے ہوں گے۔ (9)آنکھ اوپر نہ اٹھا سکیں گے۔
*#تفسیر:*
{قُلُوْبٌ یَّوْمَںِٕذٍ وَّاجِفَةٌ: دل اس دن خوفزدہ ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن (صُور میں) پھونک ماری جائے گی تواس دن مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کفار کا حال یہ ہو گا کہ برے اعمال اور قبیح اَفعال کی وجہ سے ان کے دل خوفزدہ ہوں گے۔ اور اس دن کی دہشت اور ہَولْناکی کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔(روح البیان،النّازعات،تحت الآیۃ:۸-۹،۱۰/۳۱۷، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۸-۹، ص ۱۳۱۷-۱۳۱۸، ملتقطاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر8&9
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
قُلُوْبٌ یَّوْمَںِٕذٍ وَّاجِفَةٌ(۸) اَبْصَارُهَا
خَاشِعَةٌ(۹)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (8) کتنے دل اس دن دھڑکتے ہوں گے۔ (9)آنکھ اوپر نہ اٹھا سکیں گے۔
*#تفسیر:*
{قُلُوْبٌ یَّوْمَںِٕذٍ وَّاجِفَةٌ: دل اس دن خوفزدہ ہوں گے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس دن (صُور میں) پھونک ماری جائے گی تواس دن مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کفار کا حال یہ ہو گا کہ برے اعمال اور قبیح اَفعال کی وجہ سے ان کے دل خوفزدہ ہوں گے۔ اور اس دن کی دہشت اور ہَولْناکی کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔(روح البیان،النّازعات،تحت الآیۃ:۸-۹،۱۰/۳۱۷، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۸-۹، ص ۱۳۱۷-۱۳۱۸، ملتقطاً)
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسرٰی
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے
جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر ، غنا بھی
اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے
ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی
دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے
عالم ہے سو بےعقل ہے، جاہل ہے سو وحشی
منعم ہے سو مغرور ہے ، مفلس سو گدا ہے
یاں راگ ہے دن رات وداں رنگِ شب وروز
یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق
بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے
شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور
زیور ہے اگر علم تو مال سے کی جلا ہے
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
جس قصر کا تھا سر بفلک گنبدِ اقبال
ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے
بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار
جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے
وہ روشنیِ بام و درِ کشورِ اسلام
یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے
روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج
بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے
عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہرسو
اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے
چاوش تھے للکارتے جن رہ گزروں میں
دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے
وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی
وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اے چشمہ رحمت بابی انت و امی
دنیا پہ تیرا لطف صدا عام رہا ہے
کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے
امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن
دل دادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے
ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے
وہ تیری محبت تری عترت کی ولا ہے
ہر چپقلش دہر مخالف میں تیرا نام
ہتھیار جوانوں کا ہے، پیروں کا عصا ہے
جو خاک تیرے در پہ ہے جاروب سے اڑتی
وہ خاک ہمارے لئے داروے شفا ہے
جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف
اب تک وہی قبلہ تری امت کا رہا ہے
جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت
کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے
کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا
اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے خواہاں
پر فکر ترے دین کی عزت کی صدا ہے
گر دین کو جوکھوں نہیں عزت سے ہماری
امت تری ہر حال میں راضی بہ رضا ہے
ہاں حالیء گستاغ نہ بڑھ حدِ ادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسرٰی
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے
جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر ، غنا بھی
اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے
ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی
دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے
عالم ہے سو بےعقل ہے، جاہل ہے سو وحشی
منعم ہے سو مغرور ہے ، مفلس سو گدا ہے
یاں راگ ہے دن رات وداں رنگِ شب وروز
یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق
بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے
شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور
زیور ہے اگر علم تو مال سے کی جلا ہے
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
جس قصر کا تھا سر بفلک گنبدِ اقبال
ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے
بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار
جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے
وہ روشنیِ بام و درِ کشورِ اسلام
یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے
روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج
بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے
عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہرسو
اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے
چاوش تھے للکارتے جن رہ گزروں میں
دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے
وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی
وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اے چشمہ رحمت بابی انت و امی
دنیا پہ تیرا لطف صدا عام رہا ہے
کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے
امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن
دل دادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے
ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے
وہ تیری محبت تری عترت کی ولا ہے
ہر چپقلش دہر مخالف میں تیرا نام
ہتھیار جوانوں کا ہے، پیروں کا عصا ہے
جو خاک تیرے در پہ ہے جاروب سے اڑتی
وہ خاک ہمارے لئے داروے شفا ہے
جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف
اب تک وہی قبلہ تری امت کا رہا ہے
جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت
کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے
کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا
اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے خواہاں
پر فکر ترے دین کی عزت کی صدا ہے
گر دین کو جوکھوں نہیں عزت سے ہماری
امت تری ہر حال میں راضی بہ رضا ہے
ہاں حالیء گستاغ نہ بڑھ حدِ ادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
احکامِ شریعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپرد ہیں :
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠(۲۹)
ترجمہ
وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ان میں سے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی آخرت کے دن پر اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور نہ وہ سچے دین پر چلتے ہیں ان سے جہاد کرتے رہو حتّٰی کہ وہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں ۔
تفسیر
*{قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ:ان سے جہاد کرتے رہو جو اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے۔}* اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس کی ذات اور جملہ صِفات وتنزیہات کو مانے اور جو اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت نہ کرے اور بعض مفسرین نے رسولوں پر ایمان لانا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے میں داخل قرار دیا ہے تو یہودی اور عیسائی اگرچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ یہودی تجسیم وتَشْبِیہ(اللہ عَزَّوَجَلَّکا جسم ماننا اور اسے مخلوق کے مشابہ ماننا) کے اور عیسائی حلول کے معتقد ہیں تو وہ کس طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والے ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی یہودیوں میں سے جو حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائی حضرت مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہ ہوا۔ اسی طرح جو ایک رسول کی تکذیب کرے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہیں ،یہودی اور عیسائی بہت سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے ہیں لہٰذا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والوں میں نہیں۔ شانِ نزول : مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روم سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی کے نازل ہونے کے بعد غزوۂ تبوک ہوا۔ کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے حق میں نازل ہوئی ،سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے صلح منظور فرمائی اور یہی پہلا جزیہ ہے جو اہلِ اسلام کو ملا اوریہی پہلی ذلت ہے جو اِن کفار کو مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچی۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)
*{وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ:اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے۔}* بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیث میں جن چیزوں کو حرام کیا ہے یہ انہیں حرام قرار نہیں دیتے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ توریت و انجیل کے مطابق عمل نہیں کرتے ان کی تحریف کرتے ہیں اور احکام اپنے دل سے گڑھتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)
سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں حضرت مقدام بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:سن لو ! مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل ملا یعنی حدیث، دیکھو!کوئی پیٹ بھرا اپنے تخت پر بیٹھے یہ نہ کہے کہ یہی قرآن لئے رہو جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو،جو اس میں حرام ہے اسے حرام مانو۔ (حالانکہ) ’’اِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللہُ‘‘جو کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حرام کیا وہ بھی اس کی مثل ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حرام کیا۔ (ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی لزوم السنّۃ، ۴ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۶۰۴، وابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۲، مثلہ)
*احکامِ شریعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپرد ہیں :*
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ائمۂ محققین تصریح فرماتے ہیں کہ احکامِ شریعت حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سپرد ہیں جو بات چاہیں واجب کردیں جو چاہیں ناجائز فرما دیں ، جس چیز یا جس شخص کو جس حکم سے چاہیں مُسْتَثنیٰ فرما دیں۔(فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۵۱۸)
اس مضمون پر چند اَحادیث کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔
(1)… حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی ع
احکامِ شریعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپرد ہیں :
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠(۲۹)
ترجمہ
وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ان میں سے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی آخرت کے دن پر اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور نہ وہ سچے دین پر چلتے ہیں ان سے جہاد کرتے رہو حتّٰی کہ وہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں ۔
تفسیر
*{قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ:ان سے جہاد کرتے رہو جو اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے۔}* اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس کی ذات اور جملہ صِفات وتنزیہات کو مانے اور جو اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت نہ کرے اور بعض مفسرین نے رسولوں پر ایمان لانا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے میں داخل قرار دیا ہے تو یہودی اور عیسائی اگرچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ یہودی تجسیم وتَشْبِیہ(اللہ عَزَّوَجَلَّکا جسم ماننا اور اسے مخلوق کے مشابہ ماننا) کے اور عیسائی حلول کے معتقد ہیں تو وہ کس طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والے ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی یہودیوں میں سے جو حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائی حضرت مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہ ہوا۔ اسی طرح جو ایک رسول کی تکذیب کرے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہیں ،یہودی اور عیسائی بہت سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے ہیں لہٰذا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والوں میں نہیں۔ شانِ نزول : مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روم سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی کے نازل ہونے کے بعد غزوۂ تبوک ہوا۔ کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے حق میں نازل ہوئی ،سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے صلح منظور فرمائی اور یہی پہلا جزیہ ہے جو اہلِ اسلام کو ملا اوریہی پہلی ذلت ہے جو اِن کفار کو مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچی۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)
*{وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ:اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے۔}* بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیث میں جن چیزوں کو حرام کیا ہے یہ انہیں حرام قرار نہیں دیتے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ توریت و انجیل کے مطابق عمل نہیں کرتے ان کی تحریف کرتے ہیں اور احکام اپنے دل سے گڑھتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)
سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں حضرت مقدام بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:سن لو ! مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل ملا یعنی حدیث، دیکھو!کوئی پیٹ بھرا اپنے تخت پر بیٹھے یہ نہ کہے کہ یہی قرآن لئے رہو جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو،جو اس میں حرام ہے اسے حرام مانو۔ (حالانکہ) ’’اِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللہُ‘‘جو کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حرام کیا وہ بھی اس کی مثل ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حرام کیا۔ (ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی لزوم السنّۃ، ۴ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۶۰۴، وابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۲، مثلہ)
*احکامِ شریعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپرد ہیں :*
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ائمۂ محققین تصریح فرماتے ہیں کہ احکامِ شریعت حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سپرد ہیں جو بات چاہیں واجب کردیں جو چاہیں ناجائز فرما دیں ، جس چیز یا جس شخص کو جس حکم سے چاہیں مُسْتَثنیٰ فرما دیں۔(فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۵۱۸)
اس مضمون پر چند اَحادیث کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔
(1)… حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی ع
َنْہُ کے عرض کرنے پر حرم میں اِذخِر گھاس کاٹ لینا جائز فرما دیا۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الاذخر والحشیش فی القبر، ۱ / ۴۵۳، الحدیث: ۱۳۴۹)
(2)…حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز فرما دی۔ (بخاری، کتاب الاضاحی، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی بردۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۷۵، الحدیث: ۵۵۵۷)
(3)…اکیلے حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دے دیا۔ (ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب اذا علم الحاکم صدق الشاہد الواحد۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۳۱، الحدیث: ۳۶۰۷)
(4)…ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس کے روزے کا کفارہ اپنے پاس سے عطا فرما کر اسے اپنی ہی ذات اور اہلِ خانہ پر خرچ کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب اذا جامع فی رمضان۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۳۸، الحدیث: ۱۹۳۶)
(5)…حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے لئے حالتِ جنابت میں مسجد میں داخل ہونا حلال فرما دیا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، ۲۰-باب، ۵ / ۴۰۸، الحدیث: ۳۷۴۸)
مزید تفصیلی معلومات کے لئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘(مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کیلئے انعامات) کا مطالعہ فرمائیں
*{حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ:حتّٰی کہ وہ جزیہ دیں۔}* اس آیت میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہوا ۔اسلامی سلطنت کی جانب سے ذمی کافروں پر جو (مال) مقرر کیا جاتا ہے اسے جزیہ کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کیلئے دو ہی صورتیں ہیں قبولِ اسلام یا جنگ۔ بقیہ دنیا بھر کے کافروں سے جزیہ پر صلح ہوسکتی ہے۔
*طالبِ دعا ابوعمر*
(2)…حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز فرما دی۔ (بخاری، کتاب الاضاحی، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی بردۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۷۵، الحدیث: ۵۵۵۷)
(3)…اکیلے حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دے دیا۔ (ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب اذا علم الحاکم صدق الشاہد الواحد۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۳۱، الحدیث: ۳۶۰۷)
(4)…ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس کے روزے کا کفارہ اپنے پاس سے عطا فرما کر اسے اپنی ہی ذات اور اہلِ خانہ پر خرچ کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب اذا جامع فی رمضان۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۳۸، الحدیث: ۱۹۳۶)
(5)…حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے لئے حالتِ جنابت میں مسجد میں داخل ہونا حلال فرما دیا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، ۲۰-باب، ۵ / ۴۰۸، الحدیث: ۳۷۴۸)
مزید تفصیلی معلومات کے لئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘(مصطفٰی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کیلئے انعامات) کا مطالعہ فرمائیں
*{حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ:حتّٰی کہ وہ جزیہ دیں۔}* اس آیت میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہوا ۔اسلامی سلطنت کی جانب سے ذمی کافروں پر جو (مال) مقرر کیا جاتا ہے اسے جزیہ کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کیلئے دو ہی صورتیں ہیں قبولِ اسلام یا جنگ۔ بقیہ دنیا بھر کے کافروں سے جزیہ پر صلح ہوسکتی ہے۔
*طالبِ دعا ابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْۚ- یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُۚ-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۳۰)
ترجمہ
اور یہودیوں نے کہا: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے ، یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں ۔ اللہ انہیں مارے ،کہاں اوندھے جاتے ہیں ؟
تفسیر
{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ:اور یہودیوں نے کہا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کی بے دینی کا ذکر فرمایا اورا س آیت میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے بیٹا ہونا ثابت کیا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھے تووہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا منکر ہے۔یہ بھی بیان فرمایا کہ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں اگرچہ ان کے شرک کا طریقہ مختلف ہے، مشرکین کے بتوں کو پوجنے میں اور عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پَرَسْتِش میں کوئی فرق نہیں ، دونوں شرک میں شریک ہیں بلکہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بتوں کو پوجنے والے کے کفرسے عیسائیوں کا کفر بڑا ہے کیونکہ کافر بتوں کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ بت عالَم کے خالق اور معبود ہیں بلکہ وہ بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھتا ہے جبکہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حُلول کر آیا ہے اور ان کے ساتھ مُتَّحِد ہو گیا ہے اور یہ زیادہ قبیح کفر ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۲۸)
*{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ:اور یہودیوں نے کہا: عزیراللہ کا بیٹا ہے۔}* امام ابو بکر رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ عقیدہ یہودیوں کے تمام فرقوں کا نہیں بلکہ ان میں سے ایک خاص فرقے کا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ یہودیوں کی ایک جماعت جو کہ سلام بن مشکم، نعمان بن اوفی، شاس بن قیس اور مالک بن صیف پر مشتمل تھی نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئی، انہوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں یہ بات کہی تو ا س پر یہ آیت نازل ہوئی۔
ہمارے علم میں اب اس فرقے کا کوئی وجود نہیں۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۳۴)
*{ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے۔}* یعنی یہودیوں کا حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے، اس پر ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ بُرہان اور پھر اپنی جہالت کی وجہ سے اس صریح باطل چیز کے معتقد بھی ہیں۔ (روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۳۸۵، ملخصاً)
*{یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ:یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں۔}* اس آیت کا ایک معنی تو اوپر بیان ہوا کہ ’’ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں ‘‘ دوسرا معنی یہ ہے کہ عیسائیوں کی بات اپنے سے پہلے یہودیوں کے قول کے مشابہ ہے کہ جس طرح یہودیوں نے حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بیٹا کہہ دیا۔ حضرت حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر کو گزشتہ کافر امتوں کے کفر سے تشبیہ دی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۲ / ۲۳۲
*طالبِ دعا ابوعمر*
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْۚ- یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُۚ-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۳۰)
ترجمہ
اور یہودیوں نے کہا: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے ، یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں ۔ اللہ انہیں مارے ،کہاں اوندھے جاتے ہیں ؟
تفسیر
{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ:اور یہودیوں نے کہا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کی بے دینی کا ذکر فرمایا اورا س آیت میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے بیٹا ہونا ثابت کیا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھے تووہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا منکر ہے۔یہ بھی بیان فرمایا کہ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں اگرچہ ان کے شرک کا طریقہ مختلف ہے، مشرکین کے بتوں کو پوجنے میں اور عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پَرَسْتِش میں کوئی فرق نہیں ، دونوں شرک میں شریک ہیں بلکہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بتوں کو پوجنے والے کے کفرسے عیسائیوں کا کفر بڑا ہے کیونکہ کافر بتوں کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ بت عالَم کے خالق اور معبود ہیں بلکہ وہ بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھتا ہے جبکہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حُلول کر آیا ہے اور ان کے ساتھ مُتَّحِد ہو گیا ہے اور یہ زیادہ قبیح کفر ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۲۸)
*{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ:اور یہودیوں نے کہا: عزیراللہ کا بیٹا ہے۔}* امام ابو بکر رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ عقیدہ یہودیوں کے تمام فرقوں کا نہیں بلکہ ان میں سے ایک خاص فرقے کا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ یہودیوں کی ایک جماعت جو کہ سلام بن مشکم، نعمان بن اوفی، شاس بن قیس اور مالک بن صیف پر مشتمل تھی نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئی، انہوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں یہ بات کہی تو ا س پر یہ آیت نازل ہوئی۔
ہمارے علم میں اب اس فرقے کا کوئی وجود نہیں۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۳۴)
*{ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے۔}* یعنی یہودیوں کا حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے، اس پر ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ بُرہان اور پھر اپنی جہالت کی وجہ سے اس صریح باطل چیز کے معتقد بھی ہیں۔ (روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۳۸۵، ملخصاً)
*{یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ:یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں۔}* اس آیت کا ایک معنی تو اوپر بیان ہوا کہ ’’ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں ‘‘ دوسرا معنی یہ ہے کہ عیسائیوں کی بات اپنے سے پہلے یہودیوں کے قول کے مشابہ ہے کہ جس طرح یہودیوں نے حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بیٹا کہہ دیا۔ حضرت حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر کو گزشتہ کافر امتوں کے کفر سے تشبیہ دی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۲ / ۲۳۲
*طالبِ دعا ابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
علماء اور اَولیاء کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے:
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَۚ-وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًاۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۳۱)
ترجمہ
انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا اور مسیح بن مریم کو(بھی) حالانکہ انہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان کے شرک سے پاک ہے۔
تفسیر
*{ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ:انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا۔}* آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا رب بنالیا کہ حکمِ الٰہی کو چھوڑ کر ان کے حکم کے پابند ہوئے اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا بنایا اور ان کی نسبت یہ باطل عقیدہ رکھا کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حُلول کیا ہے حالانکہ انہیں ان کی کتابوں میں اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۲۳۳، ملخصاً)
یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور علماء کو معبود بنا کر ان کی کوئی باقاعدہ عبادت نہیں کی تھی بلکہ خدا کے حکم کو چھوڑ کر ان کے حکم کو اپنے لئے شریعت بنالیا تھا اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے خدا بنالئے چنانچہ پادریوں اور درویشوں سے متعلق ان کی اِس روِش کے بارے میں حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں : میں حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عدی! اس بت کو دور کر دو۔ نیز صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سورۂ براءت سے پڑھ رہے تھے’’ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘(یعنی عیسائیوں ، یہودیوں نے اپنے درویشوں اور علماء کو اللہ کے سوا رب بنا لیا) پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد) فرمایا کہ ’’ وہ ان کو پوجتے نہیں تھے بلکہ جب وہ ان کے لئے کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ حلال سمجھتے اور جب وہ حرام قرار دیتے تو یہ حرام سمجھتے تھے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۶)
*علماء اور اَولیاء کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے:*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ و رسول کے مقابلے میں جس کی دینی اطاعت کی جائے گی گویا اسے رب بنا لیا گیا جیسا کہ عیسائی اور یہودی خدا کے مقابلے میں اپنے پادریوں اور درویشوں کی بات مانتے تھے اس لئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا ۔ جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمان کے ماتحت علماء، اولیاء اور صالحین کی اطاعت عین اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ہے۔ رب تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ‘‘ (النساء:۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرواور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔
حضرت عطا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس ا ٓیت میں رسول کی اطاعت سے مراد قرآن اور سنت کی پیروی ہے اور ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ کی اطاعت سے علماء اور فقہاء کی اطاعت مراد ہے۔ (سنن دارمی، باب الاقتداء بالعلماء، ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۱۹)
ایک جگہ ارشاد فرمایا
’’ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ‘‘(النحل:۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا
’’وَ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ‘‘ (لقمان:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ‘‘ (التوبہ:۱۰۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اَوّلین اوردوسرے وہ جو بھلائی
علماء اور اَولیاء کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے:
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَۚ-وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًاۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۳۱)
ترجمہ
انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا اور مسیح بن مریم کو(بھی) حالانکہ انہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان کے شرک سے پاک ہے۔
تفسیر
*{ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ:انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا۔}* آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا رب بنالیا کہ حکمِ الٰہی کو چھوڑ کر ان کے حکم کے پابند ہوئے اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا بنایا اور ان کی نسبت یہ باطل عقیدہ رکھا کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حُلول کیا ہے حالانکہ انہیں ان کی کتابوں میں اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۲۳۳، ملخصاً)
یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور علماء کو معبود بنا کر ان کی کوئی باقاعدہ عبادت نہیں کی تھی بلکہ خدا کے حکم کو چھوڑ کر ان کے حکم کو اپنے لئے شریعت بنالیا تھا اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے خدا بنالئے چنانچہ پادریوں اور درویشوں سے متعلق ان کی اِس روِش کے بارے میں حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں : میں حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عدی! اس بت کو دور کر دو۔ نیز صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سورۂ براءت سے پڑھ رہے تھے’’ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘(یعنی عیسائیوں ، یہودیوں نے اپنے درویشوں اور علماء کو اللہ کے سوا رب بنا لیا) پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد) فرمایا کہ ’’ وہ ان کو پوجتے نہیں تھے بلکہ جب وہ ان کے لئے کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ حلال سمجھتے اور جب وہ حرام قرار دیتے تو یہ حرام سمجھتے تھے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۶)
*علماء اور اَولیاء کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے:*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ و رسول کے مقابلے میں جس کی دینی اطاعت کی جائے گی گویا اسے رب بنا لیا گیا جیسا کہ عیسائی اور یہودی خدا کے مقابلے میں اپنے پادریوں اور درویشوں کی بات مانتے تھے اس لئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا ۔ جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمان کے ماتحت علماء، اولیاء اور صالحین کی اطاعت عین اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ہے۔ رب تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ‘‘ (النساء:۵۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرواور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔
حضرت عطا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس ا ٓیت میں رسول کی اطاعت سے مراد قرآن اور سنت کی پیروی ہے اور ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ کی اطاعت سے علماء اور فقہاء کی اطاعت مراد ہے۔ (سنن دارمی، باب الاقتداء بالعلماء، ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۱۹)
ایک جگہ ارشاد فرمایا
’’ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ‘‘(النحل:۴۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا
’’وَ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ‘‘ (لقمان:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل۔
اور ارشاد فرمایا: ’’وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ‘‘ (التوبہ:۱۰۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اَوّلین اوردوسرے وہ جو بھلائی
کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان، طاعت اورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۴۵۲، ملتقطاً)
بکثرت احادیث میں بھی علماء کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے 3 اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… صحیح مسلم میں حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کس کی خیر خواہی کریں ؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی، مسلمانوں کے امام کی اور عام مومنین کی۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ص۴۷، الحدیث: ۹۵(۵۵))
اس حدیث کی شرح میں ہے کہ یہ حدیث ان اماموں کو بھی شامل ہے جو علمائے دین ہیں ، ان کی روایت کی ہوئی احادیث کو قبول کرنا، احکام میں ان کی تقلید کرنا اور ان کے ساتھ نیک گمان رکھنا ان کی خیرخواہی سے ہے۔ (شرح نووی علی المسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ۱ / ۳۹، الجزء الثانی)
(2)…حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ مومن کا دل ان پر خیانت نہیں کرتا (1) اللہ تعالیٰ کے لیے عمل خالص کرنا۔ (2 ) علماء کی اطاعت کرنا اور (3) (مسلمانوں کی) جماعت کو لازم پکڑنا ۔(مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ، ۵ / ۶۱۵، الحدیث: ۱۶۷۳۸)
(3)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ علم سیکھو اور لوگوں کو سکھائو ، فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھائو ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ۔ میں وفات پانے والا ہوں علم عنقریب اٹھ جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے حتّٰی کہ دو شخص ایک فریضہ میں جھگڑیں گے اور ایسا کوئی شخص نہ پائیں گے جو ان میں فیصلہ کردے۔(دارمی، باب الاقتداء بالعلماء، ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۲۱)
*طالبِ دعاابوعمر*
اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان، طاعت اورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۴۵۲، ملتقطاً)
بکثرت احادیث میں بھی علماء کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے 3 اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… صحیح مسلم میں حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کس کی خیر خواہی کریں ؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی، مسلمانوں کے امام کی اور عام مومنین کی۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ص۴۷، الحدیث: ۹۵(۵۵))
اس حدیث کی شرح میں ہے کہ یہ حدیث ان اماموں کو بھی شامل ہے جو علمائے دین ہیں ، ان کی روایت کی ہوئی احادیث کو قبول کرنا، احکام میں ان کی تقلید کرنا اور ان کے ساتھ نیک گمان رکھنا ان کی خیرخواہی سے ہے۔ (شرح نووی علی المسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ۱ / ۳۹، الجزء الثانی)
(2)…حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ مومن کا دل ان پر خیانت نہیں کرتا (1) اللہ تعالیٰ کے لیے عمل خالص کرنا۔ (2 ) علماء کی اطاعت کرنا اور (3) (مسلمانوں کی) جماعت کو لازم پکڑنا ۔(مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ، ۵ / ۶۱۵، الحدیث: ۱۶۷۳۸)
(3)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ علم سیکھو اور لوگوں کو سکھائو ، فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھائو ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ۔ میں وفات پانے والا ہوں علم عنقریب اٹھ جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے حتّٰی کہ دو شخص ایک فریضہ میں جھگڑیں گے اور ایسا کوئی شخص نہ پائیں گے جو ان میں فیصلہ کردے۔(دارمی، باب الاقتداء بالعلماء، ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۲۱)
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
اللہ پاک کو عشرہ ذوالحجہ سے زیادہ کسی دن میں اپنی عبادت کیا جانا پسندیدہ نہیں ، اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہر شب کا قیام شبِ قدر کے برابر ہے.
( سنن ترمذی حدیث 758 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
اللہ پاک کو عشرہ ذوالحجہ سے زیادہ کسی دن میں اپنی عبادت کیا جانا پسندیدہ نہیں ، اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہر شب کا قیام شبِ قدر کے برابر ہے.
( سنن ترمذی حدیث 758 )
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے.
( ابو داؤد حدیث 2175 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے.
( ابو داؤد حدیث 2175 )
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ظلم سے پاک ہے مومن نیکی کرتا ہے تو دنیا میں رزق اور آخرت میں جنت کی صورت میں ثواب پاتا ہے اور کافر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کے بدلے دنیا میں ہی اسے رزق دے دیا جاتا ہے اور قیامت کے دن اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہو گی جس پر اسے کوئی جزا ملے۔
(مسلم،، الحدیث: ۵۶(۲۸۰۸))
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ظلم سے پاک ہے مومن نیکی کرتا ہے تو دنیا میں رزق اور آخرت میں جنت کی صورت میں ثواب پاتا ہے اور کافر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کے بدلے دنیا میں ہی اسے رزق دے دیا جاتا ہے اور قیامت کے دن اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہو گی جس پر اسے کوئی جزا ملے۔
(مسلم،، الحدیث: ۵۶(۲۸۰۸))
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر15تا26
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
هَلْ اَتٰںكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى(۱۵) اِذْ نَادٰںهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى(١٦) اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى٘(۱۷) فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰۤى اَنْ تَزَكّٰى(۱۸) وَ اَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى(۱۹) فَاَرٰںهُ الْاٰیَةَ الْكُبْرٰى٘(۲۰) فَكَذَّبَ وَعَصٰى٘(۲۱) ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی٘(۲۲) فَحَشَرَ فَنَادٰى٘(۲۳) فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى٘(٢٤) فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَ الْاُوْلٰى(۲۵) اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰى(٢٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (15) کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔ (16)جب اسے اس کے رب نے پاک جنگل طویٰ میں ندا فرمائی۔ (17)کہ فرعون کے پاس جا اس نے سر اٹھایا۔ (18)اس سے کہہ کیا تجھے رغبت اس طرف ہے کہ ستھرا ہو۔ (19)اور تجھے تیرے رب کی طرف راہ بتاؤں کہ تو ڈرے۔ (20) پھر موسیٰ نے اسے بہت بڑی نشانی دکھائی۔ (21)اس پر اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔ (22)پھر پیٹھ دی اپنی کوشش میں لگا۔ (23)تو لوگوں کو جمع کیا پھر پکارا۔ (24)پھر بولا میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں۔ (25)تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔ (26)بیشک اس میں سیکھ (سبق) ملتا ہے اسے جو ڈرے۔
*#تفسیر:*
{هَلْ اَتٰںكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى: کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔} جب قوم کا جھٹلانا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دشوار اور ناگوار گزرا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دل کی تسکین کے لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے بہت تکلیفیں پائی تھیں۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 11آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ مشرکین کے جھٹلانے کی وجہ سے غمگین نہ ہو ں کیونکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کفار کی طرف سے ایسی باتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ آپ میرے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی دیکھ لیں، جب اسے اس کے رب عَزَّوَجَلَّ نے ملکِ شام میں طور پہاڑ کے قریب واقع پاک جنگل طُویٰ میں ندا فرمائی کہ اے موسیٰ! تم فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہو گیا ہے اور وہ کفر وفساد میں حد سے گزر گیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تجھے اس بات کی طرف کوئی رغبت ہے کہ تو ایمان قبول کر کے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو کر کفر،شرک، مَعْصِیَت اور نافرمانی سے پاکیزہ ہوجائے۔ اور کیا تو اس بات کی طرف رغبت رکھتا ہے کہ میں تجھے تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف راہ بتاؤں تاکہ تو اس کے عذاب سے ڈرے۔ کیونکہ اس کے عذاب سے ڈر اسی وقت لگے گا جب اس کی تمہیں معرفت ہو گی۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے فرعون کو روشن ہاتھ اور عصا کی بہت بڑی نشانی دکھائی تو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ اور اس نشانی کو جادو کہنے لگا۔ پھر اس نے مقابلے اور فساد انگیزی کی کوشش کرتے ہوئے ایمان قبول کرنے سے منہ موڑ لیا اور اس نے جادوگروں کو اور اپنے لشکروں کو جمع کیا۔ جب وہ جمع ہو گئے تو فرعون نے انہیں پکارا اور ان سے کہا ’’میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں، میرے اوپر اور کوئی رب نہیں۔ تو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں اس طرح پکڑا کہ دنیا میں اسے غرق کر دیا اور آخرت میں جہنم میں داخل فرمائے گا۔ بے شک فرعون کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے عبرت ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۱۵-۲۶،۴/۳۵۱، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۱۵-۲۶، ص۱۳۱۸-۱۳۱۹، ملتقطاً)
📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر15تا26
🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
هَلْ اَتٰںكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى(۱۵) اِذْ نَادٰںهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى(١٦) اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى٘(۱۷) فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰۤى اَنْ تَزَكّٰى(۱۸) وَ اَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى(۱۹) فَاَرٰںهُ الْاٰیَةَ الْكُبْرٰى٘(۲۰) فَكَذَّبَ وَعَصٰى٘(۲۱) ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی٘(۲۲) فَحَشَرَ فَنَادٰى٘(۲۳) فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى٘(٢٤) فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَ الْاُوْلٰى(۲۵) اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰى(٢٦)
*#ترجمہ کنز الایمان:* (15) کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔ (16)جب اسے اس کے رب نے پاک جنگل طویٰ میں ندا فرمائی۔ (17)کہ فرعون کے پاس جا اس نے سر اٹھایا۔ (18)اس سے کہہ کیا تجھے رغبت اس طرف ہے کہ ستھرا ہو۔ (19)اور تجھے تیرے رب کی طرف راہ بتاؤں کہ تو ڈرے۔ (20) پھر موسیٰ نے اسے بہت بڑی نشانی دکھائی۔ (21)اس پر اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔ (22)پھر پیٹھ دی اپنی کوشش میں لگا۔ (23)تو لوگوں کو جمع کیا پھر پکارا۔ (24)پھر بولا میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں۔ (25)تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔ (26)بیشک اس میں سیکھ (سبق) ملتا ہے اسے جو ڈرے۔
*#تفسیر:*
{هَلْ اَتٰںكَ حَدِیْثُ مُوْسٰى: کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی۔} جب قوم کا جھٹلانا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دشوار اور ناگوار گزرا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دل کی تسکین کے لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے بہت تکلیفیں پائی تھیں۔چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی 11آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ مشرکین کے جھٹلانے کی وجہ سے غمگین نہ ہو ں کیونکہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کفار کی طرف سے ایسی باتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ آپ میرے کلیم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی دیکھ لیں، جب اسے اس کے رب عَزَّوَجَلَّ نے ملکِ شام میں طور پہاڑ کے قریب واقع پاک جنگل طُویٰ میں ندا فرمائی کہ اے موسیٰ! تم فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہو گیا ہے اور وہ کفر وفساد میں حد سے گزر گیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تجھے اس بات کی طرف کوئی رغبت ہے کہ تو ایمان قبول کر کے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو کر کفر،شرک، مَعْصِیَت اور نافرمانی سے پاکیزہ ہوجائے۔ اور کیا تو اس بات کی طرف رغبت رکھتا ہے کہ میں تجھے تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف راہ بتاؤں تاکہ تو اس کے عذاب سے ڈرے۔ کیونکہ اس کے عذاب سے ڈر اسی وقت لگے گا جب اس کی تمہیں معرفت ہو گی۔ پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے فرعون کو روشن ہاتھ اور عصا کی بہت بڑی نشانی دکھائی تو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ اور اس نشانی کو جادو کہنے لگا۔ پھر اس نے مقابلے اور فساد انگیزی کی کوشش کرتے ہوئے ایمان قبول کرنے سے منہ موڑ لیا اور اس نے جادوگروں کو اور اپنے لشکروں کو جمع کیا۔ جب وہ جمع ہو گئے تو فرعون نے انہیں پکارا اور ان سے کہا ’’میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں، میرے اوپر اور کوئی رب نہیں۔ تو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں اس طرح پکڑا کہ دنیا میں اسے غرق کر دیا اور آخرت میں جہنم میں داخل فرمائے گا۔ بے شک فرعون کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے عبرت ہے۔( خازن،النّازعات،تحت الآیۃ:۱۵-۲۶،۴/۳۵۱، مدارک،النّازعات، تحت الآیۃ: ۱۵-۲۶، ص۱۳۱۸-۱۳۱۹، ملتقطاً)