✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
*جنت البقیع میں آرام فرما چند صحابہ کرام علیھم الرضوان*

حج کے پر بہار مہینے شروع ہوچکے ہیں اور ساری دنیا سے عازمین حج مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کی طرف دیوانہ وار حاضر ہو رہے ہیں اور اپنے دلوں کو ان پاک مقامات پر برسنے والے نور سے منور کرنے کی آرزو رکھتے ہیں۔
عاشقان رسول، مدینہ پاک و روضہ انور کی حاضری کو خوش بختیوں کی معراج سمجھتے ہیں، *بعض افراد حج سے پہلے حاضری دے کر حج کی قبولیت و نورانیت کے لئے وسیلہ کرتے ہیں اور بعض حج کے بعد گناہوں سے پاک و صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضری دیتے ہیں*
مدینہ پاک کا زائر جہاں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شفاعت کی بھیک مانگتا ہے وہیں جنت البقیع میں تشریف فرما صحابہ کرام، تابعین اور بزرگان دین رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے مزارات پر بھی سلام عقیدت عرض کرتا ہے مگر بڑی تعداد کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ جنت البقیع میں کون کون سے جلیل القدر صحابہ و تابعین آرام فرما ہیں مشکل سے دو چار نام سن سنا کر یاد ہوجاتے ہیں۔
میرے دل میں کافی عرصہ سے خواہش تھی کہ ایک تحریر تیار کی جائے جس میں اگرچہ تفصیلا نہیں مگر چند جلیل القدر صحابہ کرام علیھم الرضوان کا مختصرا تعارف بیان کیا جائے جو بقیع پاک میں آرام فرما ہیں تاکہ حاضری دینے والے کا ذوق بڑھے اور سلام عرض کرتے وقت ان بزرگوں کا نام و سیرت خصوصا تصور میں رہے۔موقع کو غنیمت جان کر آج یہ پوسٹ تیار کر رہا ہوں اللہ پاک قبول فرمائے۔

*اجمالی فہرست*
حضرت سیدنا ابوہریرہ، حضرت سیدنا عباس، حضرت سیدنا ابوسعید خدری، حضرت سیدنا عثمان غنی، حضرت سیدنا جابر، حضرت سیدنا مِقداد، حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص، حضرت سیدنا ابو سفیان، حضرت سیدنا سعید، حضرت سیدتنا صفیہ، حضرت سیدنا عثمان بن مظعون، حضرت سیدنا سلمہ بن اکوع، حضرت سیدنا امام حسن، حضرت سیدنا صہیب، حضرت سیدنا ابراہیم، حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود،حضرت سیدنا اسید بن حضیر، امہات المؤمنین، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادیاں رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین

🔵 *حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ*
آپ کا نام عبدالرحمن ابن صخردوسی ہے،خیبر کے سال اسلام لائے،چار سال سفر و حضر میں حضور کے ہمراہ سایہ کی طرح رہے،آپ کو بلی بڑی پیاری تھی،حتی کہ ایک بار اپنی آستین میں بلی لیے ہوئے تھے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ابوہریرہ یعنی بلیوں والے ہو،تب آپ اس کنیت سے مشہور ہوگئےکمال کا حافظہ تھا،آپ سے چار ہزارتین سو چونسٹھ حدیثیں مروی ہیں۔

🔹 *حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ*
آ پ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا ہیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو برس عمر میں زیادہ تھے۔فرماتے تھے بڑے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،عمر میری زیادہ ہے،آپ واقعۂ فیل سے پہلے پیدا ہوئے،اسلام پہلے لاچکے تھے،اپنی ہجرت کے دن اسلام ظاہر کیا،آپ آخری مہاجر ہیں۔

🔶 *حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ*
آپ کا نام شریف سعد ابن مالک انصاری ہے،خدرہ انصار کا ایک قبیلہ ہے جس کی طرف آپ کی نسبت ہے،بڑے عالم،احادیث کے ماہر صحابی ہیں،غزوۂ خندق اوربارہ غزووں میں آپ حضور کے ساتھ شریک رہے۔

🔹 *حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ*
آپ کانام عثمان ابن عفّان ہے،کنیت ابو عبداﷲ،لقب جامع القرآن۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر شروع اسلام میں ہی ایمان لائے،صاحب ہجرتین (یعنی دو ہجرتوں والے) ہیں،پہلی ہجرت حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ پاک کی طرف،آپ کا خطاب ذو النورین ہے کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنھما آگے پیچھے آپ کے نکاح میں آئیں۔اولاد آدم میں کسی کے نکاح میں نبی کی دو بیٹیاں نہیں آئیں،جنگ بدر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنی بی بی رقیہ رضی اللہ عنھا کی خدمت کے لیے مدینہ میں رہے،آپ کو غنیمت کا حصہ دیا گیا،صلح حدیبیہ میں آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے مکہ معظمہ گئے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں ہاتھ کو فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے خود ان کی طرف سے بیعت کی اور یکم محرم ۲۴ھ؁ میں تخت خلافت پر جلوہ گر ہوئے،۱۲ سال خلافت کی ۸۲ سال کی عمر پا کر قرآن پڑھتے ہوئے شہید ہوئے۔

🔸 *حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ*
آپ کا نام جابر ابن عبد ﷲ،کنیت ابو عبد ﷲ ہے،انصاری ہیں۔مشہور صحابی،بہت بڑے محدث ہیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ۱۸ غزووں میں شریک رہے، بدر میں بھی ساتھ تھے،آخر میں شام اور مصر میں قیام رہا،آپ مدینہ کے آخری صحابی ہیں۔

*حضرت سیدنا مِقداد ابن عمرو رضی اللہ عنہ*
آپ کا نام مقداد ابن عمرو ابن ثعلبہ مگر مشہور ہیں مقداد بن اسود کے نام سے،اس لئے کہ آپ اسود کی پرورش میں رہے،آپ جلیل القدر صحابی اور چھٹے مؤمن ہیں۔نوّے سال کی عمر پاکر مدینہ منورہ سے تین میل دور مقام جرف میں وفات پائی،لوگ آپ کی میت شریف کو کندھوں پر اٹھا کر لائے اور جنت البقیع میں دفن کیا

*حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص ر
ضی اللہ عنہ*
آپ کا اسم شریف سعد ابن ابی وقاص اور کنیت ابو اسحاق ہے،عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں،قدیم الاسلام ہیں۔چنانچہ آپ تیسرے مسلمان ہیں،بوقت اسلام آپ کی عمرشریف سترہ برس تھی،بہت شاندارصحابی ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے فرمایا تم پر میرے ماں باپ فدا،تمام غزوات میں حضور کے ساتھ رہے،بہت بڑے مقبول الدعاء تھے،لوگ آپ کی بددعا سے بہت ڈرتے تھے،عہدفاروقی اورعثمانی میں کوفہ کے گورنر رہے،ستربرس سے زیادہ عمر پائی، مدینہ منورہ سے قریب مقام عقیق میں وصال ہوا،وہاں سے آپ کی میت شریف مدینہ منورہ لائی گئی۔

🔵 *حضرت سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ*
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ہیں ان کا نام حرب،کنیت ابو سفیان ابن صخر ہے،فیل کے واقعہ سے ۱۰ سال قبل پیدا ہوئے۔فتح مکہ کے دن ایمان لائے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ حنین میں شریک رہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بڑے بڑے عطیہ عطا فرمائے۔جنگ طائف میں آپ کی ایک آنکھ جاتی رہی اور جنگ یرموک میں دوسری آنکھ بھی شہید ہوگئی۔

🔸 *حضرت سیدنا سعید ابن زید رضی اللہ عنہ*
آپ کی کنیت ابوالاعور ہے،قدیم الاسلام ہیں،عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں،سوائے بدر کے تمام جنگوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے،حضرت عمر کی ہمشیرہ فاطمہ رضی اللہ عنھا آپ کے نکاح میں تھیں جن کے ذریعہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اسلام لائے،سترسال سے زیادہ عمر ہوئی،مقام عتیق تھا وہیں وصال ہوا،آپ کی میت شریف مدینہ منورہ لائی گئی۔

🔹 *حضرت سیدتنا صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنھما*
حضور صلی اللہ علیہ والم کی پھوپھی،۷۳ تہتر سال عمر پائی،عہد فاروقی میں وفات ہوئی۔

🔶 *حضرت سیدنا عثمان ابن مظعون رضی اللہ عنہ*
پہلے مہاجر ہیں جو مدینہ پاک میں فوت ہوئے اور جنت
البقیع میں دفن ہوئے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دست اقدس سے ان کی قبر کے سرہانے پتھر گاڑا،آپ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی ہیں،صاحب ہجرتین ہیں،اسلام سے پہلےبھی کبھی شراب نہ پی،بڑے عابد اورتہجدگزار صحابی تھے،ہجرت کے تیس ماہ بعد شعبان کے مہینہ میں وفات پائی۔

🔵 *حضرت سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ*
بیعۃ الرضوان میں شریک ہوئے،بہت ہی بڑے بہادر اور پیادہ لڑنے والوں کے امام تھے،تیر اندازی میں کمال رکھتے تھے،آپ ہی سے بھیڑیئے نے کلام کیا تھا،اسی برس عمر پائی۔

🔹 *حضرت سیدنا حسن ابن علی رضی اللہ عنھما*
آپ کی کنیت ابو محمد ہے،سبط رسول الله،ریحانہ رسول،سید شباب اہل جنت آپ کے القاب ہیں۔۱۵ رمضان ۳؁ تین ہجری میں آپ کی ولادت ہے،آپ کے فضائل و کمالات بیان سے باہر ہیں۔

🔸 *حضرت سیدنا صہیب ابن سنان رضی اللہ عنہ*
حضرت عبدﷲ ابن جدعان کے آزاد کردہ غلام ہیں، آپ کی کنیت ابو یحیی ہے،اصلی باشندے موصل کے ہیں مگر رومیوں نے آپ کو قید کرکے روم پہنچا دیا،پھر مکہ معظمہ میں آپ فروخت ہوکر آئے،مکہ میں ہی ایمان لائے،ﷲ کی راہ میں بہت ستائے گئے،نوے سال کی عمر ہوئی۔

*حضرت سیدنا ابراہیم ابن رسول الله صلی الله علیہ وسلم*
آپ حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن شریف سے مدینہ منورہ ذی الحجہ ۸ھ؁ میں پیدا ہوئے،سولہ مہینہ عمر پائی

🔸 *حضرت سیدنا عبدالله ابن مسعود رضی اللہ عنہ*
آپ کے فضائل بے شمار ہیں،
معروف صحابی ہیں،آپ کی کنیت ابو عبدالرحمن ہے،کہا جاتا ہے کہ آپ اسلام لانے والوں میں چھٹے نمبر پر ہیں،رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے خواص میں سے تھے،آپ کے نعلین مبارک اور مسواک مبارک کے امین اور آپ کے راز دار تھے،آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی،غزوہ بدر میں بھی شریک ہوئے،بے شمار احادیث کی روایت سے مشرف ہوئے۔

🔶 *حضرت سیدنا اسید ابن حضیر رضی اللہ عنہ*
آپ انصاری ہیں،دوسری بیعت عقبہ میں شریک ہوئے،بدر اور تمام غزوات میں حاضر ہوئے۔

*امہات المؤمنین رضی اللہ عنھن*

*حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا*
اُمُّ المؤمنین ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی،آپ کی والدہ امّ رومان۔نبوّت کے دسویں سال شوال کے مہینہ میں ہجرت سے تین سال قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آئیں،سات برس کی عمر میں ہجرت سے ۱۸ ماہ کے بعد شوال کے مہینہ میں نو سال کی عمر میں رخصت ہوئیں،نو سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں،حضور کی وفات کے وقت آپ کی عمر شریف اٹھارہ سال کی تھی۔آپ رضی اللہ عنھا فقیہہ،فصیحہ،حدیث کی حافظہ،قرآن کی بہترین مفسّرہ تھیں۔ آپ سے ۱۲۱۰ احادیث مروی ہیں،آپ نے ۱۷ رمضان منگل کی شب ۵۷ ؁ہجری میں۵۳ سال کی عمر پاکر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانۂ امارت میں وفات پائی۔حضرت ابوہریرہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

🔸 *حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنھا*
آپ کا نام ہند بنتِ ابی اُمیہ ہے، ۴ھ ؁ اواخر ماہ شوال میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں، ۵۹ھ؁ میں مدینہ پاک میں وفات ہوئی،۸۴سال عمر ہوئی،بہت صحابہ اور تابعین نے آپ سے احادیث روایت کیں۔
🔷 *حضرت سیدتنا سودہ رضی اللہ عنھا*
ابتداء اسلام میں
ہی مسلمان ہوگئی تھیں اور حبشہ کی ہجرت ثانیہ میں ہجرت بھی کی۔دو خواب ایسے دیکھے جن کی تعبیر یہ تھی کہ ان کا نکاح حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ہوگا، بی بی خدیجہ رضی اللہ عنھا کے وصال کے بعد خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنھا کے عرض کرنے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا۔بہت ہی فیاض اور سخی تھیں۔حدیث کی مشہور کتابوں میں ان کی روایت کی ہوئی پانچ حدیثیں مذکور ہیں۔

🔶 *حضرت سیدتنا حفصہ رضی اللہ عنھا*
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھا کی شہزادی ہیں،3 ھجری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا۔بہت ہی بلند ہمت اور سخاوت شعار خاتون ہیں، حق گوئی حاضر جوابی اور فہم و فراست میں اپنے والد بزرگوار کا مزاج پایا تھا۔اکثر روزہ دار رہا کرتی تھیں۔

🔹 *حضرت سیدتنا ام حبیبہ رضی اللہ عنھا*
ان کا اصلی نام رملہ ہے، ابو سفیان رضی اللہ عنھا کی شہزادی ہیں،بہت پاکیزہ ذات و حمیدہ صفات کی جامع اور نہایت بلند ہمت اور سخی طبیعت کی مالک تھیں، 65 احادیث آپ سے مروی ہیں۔

🔶 *حضرت سیدتنا زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی بیٹی ہیں، اپنے ہاتھ سے دستکاری کرتی تھیں اور اس کی آمدنی فقیروں میں صدقہ کردیا کرتی تھیں، ان کی وفات کی خبر جب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو پہنچی تو فرمایا ایک قابل تعریف عورت جو سب کے لئے نفع بخش تھی اور یتیموں اور بوڑھی عورتوں کو خوش کرنے والی تھی آج دنیا سے چلی گئی، فرماتی ہیں میں نے بھلائی اور سچائی میں اور رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کے معاملہ میں ان سے بڑھ کر کسی عورت کو نہیں پایا۔

*حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنھا*
ان کا لقب ام المساکین ہے اس لئے کہ غریبوں کو کھانا کھلایا کرتی تھیں، 3 ھجری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور نکاح کے بعد صرف دو یا تین مہینے حیات رہیں اور 4 ھجری میں وفات پاگئیں

🔶 *حضرت سیدتنا صفیہ رضی اللہ عنھا*
ان کا نام زینب تھا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے صفیہ رکھ دیا۔یہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔

🔵 *حضرت سیدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا*
ان کو بطور ہدیہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نذر کیا تھا، بہت ہی حسین اور خوبصورت تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ ان کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے۔


*رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادیاں*

🔹 *حضرت سیدتنا فاطمہ زہرا رضی اللہ عنھا*
شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے لاڈلی شہزادی ہیں، نام فاطمہ اور لقب زہرا اور بتول ہے۔ان کے کمالات سے احادیث مالا مال ہیں، ۲؁ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ہنستی ہوئی نہیں دیکھی گئیں یہاں تک کہ وصال اقدس کے 6 ماہ بعد 3 رمضان 11 ہجری میں وصال فرمایا۔

🔹 *حضرت سیدتنا سیدہ زینب رضی اللہ عنھا*
یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سب سے بڑی شہزادی تھیں، اعلان نبوت سے دس سال قبل مکہ شریف میں ولادت ہوئی، اعلان نبوت سے قبل ہی ان کا نکاح ہو گیا تھا، مدینہ پاک کی طرف ہجرت کرنے میں انھیں آزمائش کا سامنا کرنا پڑا اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی فضیلت کو بیان فرمایا۔8ھجری میں وصال فرمایا، حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے کفن کے لئے اپنا تہبند شریف عطا فرمایا اور اپنے دست مبارک سے ان کو قبر میں اتارا۔

🔸 *حضرت سیدتنا رقیہ رضی اللہ عنھا*
یہ اعلان نبوت سے سات سال پہلے پیدا ہوئیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدہ زینب رضی اللہ عنھا کو ساتھ لے کر حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر حبشہ سے مکہ آکر مدینہ شریف ہجرت کی اور یہ دونوں صاحب الہجرتین کے لقب سے سرفراز ہوئے

🔹 *حضرت سیدتنا ام کلثوم رضی اللہ عنھا*
بی بی رقیہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ام کلثوم رضی اللہ عنھا کا نکاح عثمان غنی رضی اللہ عنھا سے کردیا، 9 ہجری میں ان کا وصال ہوا

*(ملخصا: مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح/سیرت مصطفی)*

صحابہ کرام علیھم الرضوان میں سے چند کا تعارف پیش کیا گیا ان کے علاوہ چند بزرگان دین رحمھم اللہ کے نام پر اکتفا کرتا ہوں

امام سیدنا علی بن حسین المعروف زین العابدین،سیدنا امام باقر، سیدنا امام جعفر صادق، حضرت امام مالک، حضرت امام نافع، حضرت ضیاء الدین مدنی،حضرت شاہ عبد العلیم صدیقی رحمھم اللہ تعالی

*آمنہ کے دلارے کو پہلے، بعد شیخین کو بھی تو کہ لے*
*پھر بقیع مبارک پہ جا کر، تو سلام ان سے رو رو کے کہنا*

✍🏻 *ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ*

*26 جون 2019*
*22 ذو القعدہ 1440*
*📱+92-321-2094919*
🌹 خوشخبری خوشخبری خوشخبری 🌹

📢👈 کیا آپ بھی ٹیلی گرام پر " حمد و نعت " گروپس اور چینلز چلا رہے ہیں اور اپنے چینلز کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں؟
📢 👈 آئیے ہم سے #رابطہ کیجیے ان شاءاللہ خوب #تشہیر کی جائے گی

📢👈 #نوٹ: فائنل پوسٹ/فہرست کم و بیش 20 ہزار لوگوں کو شیئر کی جائے گی 👇
📢👉 @RabtaAdmin_Bot
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
علماء کرام کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ وہ دینی خدمات کے ساتھ ساتھ کاروبار پر توجہ فرمایں . کیونکہ آج علماء کرام نے صرف مساجد کے شعبے کو پکڑے رکھا ہے تو امت میں کتاب الصلوۃ آ گئی. اور نماز کے متعلق شعبے زندہ ہو رہے ہیں. لیکن علماء کرام کاروبار میں نہیں لگے جس کے نتیجے میں امت میں کتاب البیوع نہیں آ رہی.
اور مسلمانوں کے اکثر بازار حرام جھوٹ دھوکہ غبن پر مبنی ہو گئے ہیں حالانکہ عبادات مالیہ و بدنیہ کی مقبولیت کے رزق حلال ہونا اس کے شرائط میں سے ہیں جس دن علماء دینی خدمات کے ساتھ ساتھ کاروبار میں لگیں گے تو ان شاء اللہ عزوجل امت میں رزق حلال شروع ہو جائے گا
کبار علماء کرام نے تجارت کا مشغلہ رکھا ہے
*علامہ قدوری علامہ کسائی*
*علامہ صابونی و دیگر علمائے کرام رحمتہ اللہ علیہم اجمعین*
اپنے پیشہ کی وجہ سے ہی اس وصف سے مشہور ہوئے
سفیان ثوری علیہ الرحمہ نے علماء کرام کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

*اسْكُتْ لَوْلا هَذِهِ الدَّنَانِيرُ لَتَمَنْدَلَ بِنَا هَؤُلاءِ الْمُلُوكُ "* .
ترجمہ
*اگر یہ روپیہ پیسہ ہم علماء کے پاس نہ ہوں تو یہ مالدار قسم کے حضرات ہم علماء کو منہ پوچھنے کا رومال بنا لیں*
‏کسی بھی دینی محنت کے ساتھ حلال رزق کیلئے دنیا کا کچھ کام بھی کرنا چاہیے، تاکہ دوسروں کی جیبوں کی طرف نظر نہ جائے، اور اپنی ضروریات کے معاملے میں بےفکر ہوں،
*اللہ عزوجل ہمارے علمائے اھلسنت کو آباد شاد رکھے ان کے علم و عمل رزق میں برکتیں عطا فرمائے*
*ابو نعمان المدنی*
*2 صفر المظفر 1440*
📣نوٹ یہ تحریر نقل کی ہے اور کچھ ترمیم کے ساتھ حاضر ہے
تنخواہ (پیسوں)کو مہینے کی آخری تاریخ تک بچانے کا نسخہ
(عربی سے ترجمہ شدہ)

یہ واقعہ ایک سعودی نوجوان کا ہے ، یہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تها ، اس کی تنخواہ صرف چار ہزار ریال تهی ، شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کے اخراجات اس کی تنخواہ سے کہیں زیادہ تهے ، مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی تنخواہ ختم ہو جاتی اور اسے قرض لینا پڑتا ، یوں وہ آہستہ آہستہ قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا جارہا تها اور اس کا یقین بنتا جا رہا تها کہ اب اس کی زندگی اسی حال میں ہی گزرے گی - باوجودیکہ اس کی بیوی اس کے مادی حالت کا خیال کرتی ، لیکن قرضوں کے بوجھ میں تو سانس لینا بهی دشوار ہوتا ہے -
ایک دن وہ اپنے دوستوں کی مجلس میں گیا ، وہاں اس دن ایک ایسا دوست بهی موجود تها جو صاحب رائے آدمی تها اور اس نوجوان کا کہنا تها کہ میں اپنے اس دوست کے مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکهتا تها -
کہنے لگا : میں نے اسے باتوں باتوں میں اپنی کہانی کہہ سنائی اور اپنی مالی مشکلات اس کے سامنے رکهیں ، اس نے میری بات سنی اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ تم اپنی تنخواہ میں سے کچه حصہ صدقہ کے لیے مختص کرو - اس سعودی نوجوان نے حیرت سے کہا : جناب ، مجهے گهر کے خرچے پورے کرنے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں اور آپ صدقہ نکالنے کا کہہ رہے ہیں ؟
خیر میں نے گهر آ کر اپنی بیوی کو ساری بات بتائی تو بیوی کہنے لگی : تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے ؟ ہوسکتا ہے اللہ جل شانہ تم پر رزق کے دروازے کهول دے -
کہتا ہے : میں نے ماہانہ 4 ہزار ریال میں سے 30 ریال صدقہ کے لیے مختص کرنے کا ارادہ کیا اور مہینے کے آخر میں اسے ادا کرنا شروع کردیا -
سبحان اللہ ! قسم کها کر کہتا ہوں ، میری تو حالت ہی بدل گئی ، کہاں میں ہر وقت مالی ٹینشنوں میں اور سوچوں میں رہتا تها اور کہاں اب میری زندگی گویا پهول ہو گئی تهی ، ہلکی پهلکی آسان ، قرضوں کے باوجود میں خود کو آزاد محسوس کرتا تها ، ایک ایسا ذہنی سکون تها کہ کیا بتاوں !
پهر چند ماہ بعد میں نے اپنی زندگی کو سیٹ کرنا شروع کیا ، اپنی تنخواہ کو حصوں میں تقسیم کیا ، اور یوں ایسی برکت ہوئی جیسے پہلے کبهی نہی ہوئی تهی - میں حساب لگالیا اور مجهے اندازہ ہوگیا کہ کتنی مدت میں اِنشاءاللہ قرضوں کے بوجھ سے میری جان چهوٹ جائی گی -
پهر اللہ جل شانہ نے ایک اور راستہ کهولا اور میں نے اپنے ایک عزیز کے ساتھ اس کے پراپرٹی ڈیلنگ کے کام میں حصہ لینا شروع کیا ، میں اسے گاہک لاکر دیتا اور اس پر مجهے مناسب پرافٹ حاصل ہوتا -
الحمدللہ ! میں جب بهی کسی گاہک کے پاس جاتا وہ مجهے کسی دوسرے تک راہنمائی ضرور کرتا -
میں یہاں پر بهی وہی عمل دوہراتا کہ مجهے جب بهی پرافٹ ملتا میں اس میں سے اللہ کے لیے صدقہ ضرور نکالتا -

اللہ کی قسم ! صدقہ کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا ، سوائے اس کے جس نے اسے آزمایا ہو -
صدقہ کرو ، اور صبر سے چلو ، اللہ کا فضل سے خیر و برکتیں اپنی آنکهوں برستے دیکهو گے -

نوٹ :
1. جب آپ کسی مسلمان کو تنخواہ میں سے صدقہ کے لیے رقم مختص کرنے کا کہیں گے اور وہ اس پر عمل کرے گا تو آپ کو بهی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا صدقہ کرنے والے کو ملے گا ، اور صدقہ دینے والے کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی -

سوچیے !!!
آپ اس دنیا سے چلے جائیں گے اور آپ کے سبب آپ کے پیچهے کوئی صدقہ کر رہا ہوگا !

2. ایسے ہی اگر آپ نے یہ رسالہ (میسج) آگے نشرکیا اور کسی نے صدقہ دینے کا معمول بنا لیا تو آپ کے لیے بهی صدقہ دینے والے کے مثل اجر ہے-
(جیسے میں نے اس میسج کو پڑھ کر صدقہ کرنے کا معمول بنایا ، اور قسم کها کر کہتا ہوں ، سب سے زیادہ فرق میری ذہنی حالت پر پڑا ، ایک ایسا اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ جس کا جواب نہیں - مترجم)

میرے عزیز!!!
اگرچہ آپ طالب علم ہیں ، اور آپ کو لگابندها وظیفہ ملتا ہے تب بهی آپ تهوڑا بہت جتنا ہوجائے کچھ رقم صدقہ کے لیے ضرور مختص کریں -

اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجھ لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں جاتا ہے تو یقینا دینے والے کو لذت لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی -

کیا آپ صدقہ کے فوائد معلوم ہیں ؟
خاص طور پر 17، 18، 19 کو توجہ سے پڑهیے گا -

سن لیں !
صدقہ دینے والے بهی اور جو اس کا سبب بنتے ہیں وہ بهی!!!

1. صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے -
2. صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے -
3. صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا ، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا -
4. صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے ، اور قبر کی گرمی میں ٹهنڈک کا سامان ہے -
5. میت کے لیے بہترین ہدیہ اور سب سے زیادہ نفع بخش چیز صدقہ ہے ، اور صدقہ کے ثواب کو اللہ تعالی بڑهاتا رہتا ہے -
6. صدقہ مصفی ہے ، نفس کی پاکی کا ذریعہ ، اور نیکیوں کو بڑهاتا ہے -
7. صدقہ قیامت کے دن صدقہ کرنے والے کے چہرے کا سرور اور تازگی کا سبب ہے -
8. صدقہ قیامت کی ہولناکی کے خوف سے امان ہے ، اور گزرے
ہوئے پر افسوس نہیں ہونے دیتا -
9. صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب اور سیئات کا کفارہ ہے -
10. صدقہ خوشخبری ہے حسن خاتمہ کی، اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہے-
11. صدقہ دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے ، اور اس کا ثواب ہر اس شخص کو ملتا ہے جو اس میں کسی طور پر بهی شریک ہو -
12. صدقہ دینے والے سے خیر کثیر اور بڑے اجر کا وعدہ ہے -
13. خرچ کرنا آدمی کو متقین کی صف میں شامل کردیتا ہے ، اور صدقہ کرنے والے سے اللہ کی مخلوق محبت کرتی ہے -
14. صدقہ کرنا جود و کرم اور سخاوت کی علامت ہے -
15. صدقہ دعاوں کے قبول ہونے اور مشکلوں سے نکالنے کا ذریعہ ہے -
16. صدقہ بلاء (مصیبت) کو دور کرتا ہے اور دنیا میں ستر دروازے برائی کے بند کرتا ہے -
17. صدقہ عمر میں اور مال میں اضافے کا سبب ہے ،کامیابی اور وسعت رزق کا سبب ہے -
18. صدقہ علاج بهی ہے ، دواء بهی اور شفاء بهی -
19. صدقہ آگ سے جلنے ، غرق ہونے، چوری اور بری موت کو روکتا ہے -
20. صدقہ کا اجرملتا ہے ، چاہے جانوروں اور پرندوں پر ہی کیوں نا ہو -

آخری بات :
بہترین صدقہ اس وقت یہ ہے کہ آپ اس میسج کو صدقہ کی نیت سے آگے نشر کر دیں
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

غزوۂ حنین کا واقعہ:
خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج:

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍۙ-وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍۙ-اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ(۲۵)

ترجمہ

بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اورحنین کے دن کو یاد کروجب تمہاری کثرت نے تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردیا تو یہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور تم پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔

تفسیر


*{ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ:بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی ۔}* یعنی رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غزوات میں مسلمانوں کو کافرو ں پر غلبہ عطا فرمایا جیسا کہ واقعۂ بدر ، قریظہ،نضیر ، حدیبیہ ، خیبر اور فتحِ مکہ میں ہوا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۲۲۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۳۱، ملتقطاً)

*{وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ:اورحنین کے دن کو یاد کرو۔}* ’’حنین‘‘ مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخِ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام ’’غزوۂ ہوازن‘‘ بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں ’’بنی ہوازن‘‘ سے مقابلہ تھا۔

*غزوۂ حنین کا واقعہ:*
فتحِ مکہ کے بعد عام طور سے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثروہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں تَوَقُّف کررہے تھے اور فتحِ مکہ کا انتظار کررہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہوسکتا، اس لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا سکیں۔ لیکن مقامِ حُنَین میں ’’ہوازن‘‘ اور ’’ثقیف‘‘ نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فُنونِ جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتحِ مکہ کا اُلٹا اثر پڑا اور ان لوگوں پر خواہ مخواہ کی جاہلیت کی غیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتحِ مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیا اور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیسِ اعظم مالک بن عوف ان تمام اَفواج کا سپہ سالار ہے اور وہ سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا ہے۔ ’’درید بن الصمہ‘‘ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی شوال8 ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سےآپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتحِ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ ’’آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کوان حضرات کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازِش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفارِ مکہ جو لشکرِ اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھا مگر خداعَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پائے اِستقامت میں بال
ان میں تو خوف تھا اور وہ اپنے آپ کو حقیر جانتے ، دوسروں کو بڑ اسمجھتے اور اپنے نفس کی مذمت کرتے تھے ، انہوں نے نسب کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ،علم اور اچھی خصلتوں کی وجہ سے مقام و مرتبہ حاصل کیا تھا لہٰذا اسے اس عمل کے ذریعے شرف حاصل کرنا چاہئے جس کی وجہ سے وہ مُعزز و محترم ہوئے،صرف نَسب پر بھروسہ نہیں کر لینا چاہئے کیونکہ قبائل میں شرکت اور نسب میں مُساوات تو ان لوگوں کو بھی حاصل ہے جواللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتوں اور خنزیروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔

(4)…ظالم بادشاہوں اور ان کے مددگاروں سے تعلق۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب کے حقدار ہیں اور اگر وہ قیامت کے دن ان کی ذلت و رسوائی ، جہنم میں ان کی بگڑی صورتوں ،بدبو اور گندگی کو دیکھ لے تو اس کا کیا حال ہو گا،کیا اب بھی وہ ان سے تعلق پر اترائے گا یا ان سے کوئی تعلق نہ ہونے کا اظہار کرے گا اور جو کوئی اسے ان کی طرف منسوب کرے اس پر اعتراض کرے گا۔

(5)…بیٹوں ،خادموں ، رشتہ داروں ، مددگاروں اور پیروکاروں کی کثرت۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی کمزوری کے بارے میں سوچے اور اس بات پر غور کرے کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں اور وہ ذاتی طور پر کسی طرح کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ،پھر وہ ان پر کس طرح اتراتا ہے حالانکہ جب وہ مر جائے گا تو وہ سب اسے چھوڑ دیں گے

اور اسے قبر میں یوں دفن کیا جائے گا کہ وہ اکیلا بھی ہو گا اور رسوا بھی،اس کے اہلِ خانہ ،اولاد،قریبی رشتہ داروں اورجگری دوستوں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں ہو گا،وہ اسے گلنے سڑنے کے لئے ، سانپوں ،بچھوؤں اور کیڑے مکوڑوں کے خوراک بننے کے لئے قبر کے حوالے کر دیں گے اور وہ ا س پر آنے والے عذاب کو دور نہیں کر سکیں گے حالانکہ اس وقت اسے ان کی زیادہ حاجت ہو گی ،اسی طرح قیامت کے دن بھی یہ بھاگ جائیں گے اور جو لوگ تجھے سخت ترین حالت میں چھوڑ کر بھاگ جائیں تو ان میں کیا بھلائی ہے اور ان پر تو کس طرح اتراتا ہے؟

(6)…مال۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مال کی آفات، اس کے حقوق، اور اس کی عظیم فتنہ سامانی کے بارے میں سوچے، فقراء کی فضیلت اور قیامت کے دن جنت میں ان کے سبقت لے جانے پر غور کرے اور یہ بھی سوچے کہ مال تو آنے جانے والی اور ناپائیدار چیز ہے اور یہ بھی دیکھے کہ کئی یہودیوں کے پاس اس سے زیادہ مال ہے تو وہ کس طرح اپنے مال پر اتراتا ہے؟ (احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان اقسام ما بہ العجب وتفصیل علاجہ، ۳ / ۴۵۸-۴۶۲، ملخصاً)


*طالبِ دعاابوعمر*
برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالَمِ کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

*میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔*

حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے ا س لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو ’’ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَار‘‘ اور ’’ یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ‘‘ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے اِژْدِحام کی وجہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جانبازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زَدَن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے ،کچھ قتل ہو گئے اور جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلما نو ں سے لڑتی رہیں یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے، لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداللہ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتحِ مُبین نے حضوررَحْمَۃٌ لِلْعالَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔(سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ حنین، ۳ / ۱۵۱-۱۵۵، مدارج النبوہ، قسم سوم، باب ہشتم: ذکر وقائع سال ہشتم وغزوہ حنین، ۲ / ۳۰۸-۳۱۴، شرح الزرقانی، غزوۃ حنین، ۳ / ۵۳۱-۵۳۲، ملتقطاً)

*آیت’’ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات :*

*اس آیت سے 4 چیزیں معلوم ہوئیں :*

(1)… مسلمان کا حقیقی بھروسہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مدد پر ہونا چاہیے۔

(2)… اَسباب اختیار کرنے کا حکم ہے لیکن صرف اسی پر بھروسہ کرنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔

(3)… بعض اوقات چند لوگوں کی غلطی کا نتیجہ سب کو دیکھنا پڑتا ہے۔

(4)… خود پسندی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہے، لہٰذا اپنے ہر کمال کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل سمجھنا چاہیے نہ کہ اپنے زورِ بازو کا نتیجہ، جیسا کہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًاۙ-وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘(نور:۲۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی پاکیزہ نہ ہوتاالبتہ اللہ پاکیزہ فرما دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

*خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج:*
خود پسندی ایک انتہائی مذموم صفت ہے اور اس صفت کے پیدا ہونے کے مختلف اسباب ہیں جن کی معرفت ہونے کی صورت میں ہی خود پسندی سے بچا جا سکتا ہے لہٰذا ہم ذیل میں خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج ذکر کرتے ہیں تاکہ اس مذموم وصف کو پہچان کر اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔

(1)… حسن و جمال،شکل و صورت، صحت، قوت، اَعضا ء میں تَناسُب اور اچھی آواز ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان جب شکل و صورت کی وجہ سے خود پسندی میں مبتلا ہو تووہ اپنی باطنی گندگیوں پر غور کرے، اپنے آغاز و انجام کے بارے میں سوچ بچار کرے اور یہ سوچے کہ کس طرح خوبصورت اور عمدہ بدن مٹی میں مل گئے اور قبروں میں یوں بدبودار ہو گئے کہ طبیعتیں ان سے متنفر ہو گئیں اور جب طاقت و قوت کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو وہ اس بات پر غور کرے کہ ایک دن کے بخار سے اس کا کیا حال ہو جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ طاقت پر اِترانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ادنیٰ سی آفت نازل کر کے اس کی طاقت ہی سَلب کر لے۔

(2)…عقل اور سمجھداری۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب عقل اور سمجھداری کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اسے عقل عطا کی اور عقل زائل ہو جانے سے خوفزدہ ہو نیز بے وقوف لوگوں کی طرف دیکھے کہ وہ کس طرح اپنی عقلوں پر اتراتے ہیں لیکن لوگ ان پر ہنستے ہیں اور اس بات سے ڈرے کہ کہیں وہ ان میں سے نہ ہو اور اسے یہ بات معلوم بھی نہ ہو ۔

(3)…اچھا نسب۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب انسان اپنے اعلیٰ نسب اور اونچی نسبت کی وجہ سے اترائے تو وہ جان لے کہ اس کی یہ سوچ انتہائی جہالت پر مَبنی ہے کہ اخلاق اور اعمال میں اپنے آباء واَجداد کی مخالفت کرنے کے باوجود وہ ان کے درجے تک پہنچ گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اور اگر وہ ان کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے تو ان میں خود پسندی کہاں تھی بلکہ
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹

📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر-1&2

*سورۂ نازعات کا تعارف*

مقامِ نزول:

سورۂ نازعات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ النّازعات، ۴/۳۴۹)

رکوع اور آیات کی تعداد:

اس سورت میں 2 رکوع، 46آیتیں ہیں۔

’’نازعات ‘‘نام رکھنے کی وجہ:

اُن فرشتوں کونازعات کہتے ہیں جو انسانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور چونکہ اس سورت کی پہلی آیت میں ان فرشتوں کی قسم ارشاد فرمائی گئی اس مناسبت سے اسے’’سورۂ نازعات‘‘ کہتے ہیں۔

🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔

وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا(۱) وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا(۲)

*#ترجمہ کنز الایمان:* (1) قسم ان کی کہ سختی سے جان کھینچیں۔ (2) اور نرمی سے بند کھولیں۔

*#تفسیر:*

{وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا: سختی سے جان کھینچنے والوں کی قسم۔} یعنی ان فرشتوں کی قسم!جو کافروں کے جسموں سے ان کی روح سختی سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۱، ۴/۴۱۰)

{وَ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا: اور نرمی سے بند کھولنے والوں کی۔} یعنی ان فرشتوں کی قسم!جو مومنوں کے جسموں سے ان کی روحیں نرمی سے قبض کرتے ہیں۔ (تفسیر بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۲، ۴/۴۱۰)

*مومن کی روح نرمی سے نکالی جاتی ہے:*

حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام جب کسی مومن کی روح قبض فرماتے ہیں تو اس کے ساتھ نرمی فرماتے ہیں، چنانچہ حضرت خزرج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ایک انصاری صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سرہانے حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا تو ان سے فرمایا ’’میرے صحابی پر نرمی کرنا کیونکہ یہ مومن ہے۔ حضرت ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، آپ خوش ہو جائیں اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھیں بے شک میں ہر مومن کے ساتھ (روح نکالنے کے معاملے میں) نرمی کرنے والا ہوں۔( معجم الکبیر، باب الخائ، خزرج الانصاری، ۴/۲۲۰، الحدیث: ۴۱۸۸)
(استادِ محترم علامہ لقمان شاہد صاحب مدظلہ کے مفتی اشفاق مدنی صاحب کو قیمتی کاروباری مشورے👇)

1: سوشل میڈیا پر کسی کو ریٹ نہ دیں ۔
یہاں خریدار کم اور چسکورے زیادہ ہوتے ہیں ، جو گاہک خراب کرتے ہیں ۔

2: مارکیٹ کے حساب سے مناسب منافع رکھ کر سیل کریں ، لیکن اتنا مناسب بھی نہ ہو کہ آپ کے اخراجات ہی پورے نہ ہوسکیں اور کاروبار ڈوب جائے ۔

3: پوری دل جمعی اور خوش اخلاقی سے کاروبار کریں تاکہ پھل پھول سکے ۔

4: روزانہ کی کمائی سے حسب استطاعت صدقہ الگ کرلیا کریں اور اسے ایک ماہ بعد بغیر گنتی کیے ، کسی بھی نیک کام میں خرچ کردیا کریں ۔
اگر اس طرح کریں گے تو امید ہے آپ کو بے حساب دیا جائے گا ۔

5: گاہک کو مطمئن کرکے دیں ، وہ مہنگی چیز بھی لے جائے گا ، لیکن بغیر مطمئن ہوئے شاید سستی بھی بوجھل دل سے خریدے ۔

اللہ پاک آپ کو برکت دے آپ دن بہ دن پھلیں پھولیں !!
اپنے ہوں یا پرائے سب کا احترام کرو کسی کا احترام کرنا اُس سے محبت کرنے کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے حُسن اخلاق کی دلیل ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْۚ-وَ اِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۱۱)

ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے (کہ) مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو جگہ کشادہ کردو، اللہ تمہارے لئے جگہ کشادہ فرمائے گا اور جب کہا جائے: کھڑے ہوجاؤ تو کھڑے ہوجایا کرو، اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جن کو علم دیا گیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

(پ28، المجادلۃ:11)

شانِ نزول نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غزوۂ بدر میں حاضر ہونے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت عزت کرتے تھے،
ایک روز چند بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایسے وقت پہنچے جب کہ مجلس شریف بھر چکی تھی،
اُنہوں نے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے کھڑے ہو کر سلام عرض کیا۔ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جواب دیا،
پھر اُنہوں نے حاضرین کو سلام کیا تو اُنہوں نے جواب دیا،
پھر وہ اس انتظار میں کھڑے رہے کہ اُن کے لئے مجلس شریف میں جگہ بنائی جائے مگر کسی نے جگہ نہ دی،
سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ چیز گراں گزری تو آپ نے اپنے قریب والوں کو اُٹھا کر اُن کے لئے جگہ بنادی، اُٹھنے والوں کو اُٹھنا شاق ہوا تو اس پر
یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا:
اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں جگہ کشادہ کرو تو جگہ کشادہ کردو، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے جنّت میں جگہ کشادہ فرمائے گا اور جب تمہیں اپنی جگہ سے کھڑے ہونے کا کہا جائے تاکہ جگہ کشادہ ہوجائے تو کھڑے ہوجایا کرو، اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کے باعث تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جن کو علم دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

(تفسیرخازن، پ28، المجادلۃ، تحت الآیۃ:11،ج 4،ص240)

اس آیت کے شانِ نزول سے معلوم ہوا کہ صالحین کے لئے جگہ چھوڑنا اور ان کی تعظیم کر نا جائز بلکہ سنّت ہے حتی کہ مسجد میں بھی ان کی تعظیم کی جائے گی۔
حدیثِ پاک میں دینی پیشواؤں اور اساتذہ کی تعظیم کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے،

سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”جن سے تم علم حاصل کرتے ہو ان کے لئے عاجزی اختیار کرو اور جن کو تم علم سکھاتے ہو ان کے لئے بھی تواضع اختیار کرو اور سرکش عالم نہ بنو۔“
(الجامع لاخلاق الراوی، ص230، حدیث:802)

نیک لوگوں کی عزت کرنا اور بوڑھوں کا لحاظ کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔
نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اور اس حاملِ قرآن کی تعظیم کرنا جو قرآن میں غلو نہ کرے اور ا س کے احکام پر عمل کرے اور عادل سلطان کی تعظیم کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنے میں داخل ہے۔“

(ابو داؤد،ج 4،ص344، حدیث: 4843)

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو علماء و مشائخ اور دین داروں کی عزت کرتے ہیں اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جو آزادی کے نام پر علماء اور دین داروں کا مذاق اڑاتے اور اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔

مجلس کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ جو شخص پہلے آ کر بیٹھ چکا ہو اسے اس کی جگہ سے نہ اٹھایا جائے سوائے کسی بڑی ضرورت کے یا یوں کہ اہم حضرات کے لئے نمایاں جگہ بنادی جائے جیسے دینی و دنیوی دونوں قسم کی مجلسوں میں سرکردہ حضرات کو اسٹیج پر یا سب سے آگے جگہ دی جاتی ہے اور ویسے یہ ہونا چاہیے کہ بڑے اور سمجھدار حضرات سننے کے لئے زیادہ قریب بیٹھیں۔

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”تم میں سے جو لوگ بالغ اور عقل مند ہیں انہیں میرے قریب کھڑے ہونا چاہئے۔“
(ابو داؤد،ج1،ص267،حدیث: 674)
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں کو ان کے مرتبے اور منصب کے مطابق بٹھاؤ۔“

(ابو داؤد،ج 4،ص343،حدیث:4842)

البتہ فضیلت اور مرتبہ رکھنے والے حضرات کو چاہئے کہ وہ خود کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نہ بیٹھیں کیونکہ کثیر احادیث میں حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:”کوئی شخص مجلس میں سے کسی کو اٹھا کر خود اس کی جگہ پر نہ بیٹھے۔“

(مسلم،ص923،حدیث:5683)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی دوسری روایت میں ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ ایک شخص کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ بیٹھ جائے البتہ (تمہیں چاہئے کہ) دوسروں کے لئے جگہ کشادہ اور وسیع کر دو۔

(بخاری،ج 4،ص179،حدیث:6269)

آیت و روایات سے یہ بھی معلوم ہوا
کہ ہمارا دین ہمیں عقیدے اور عبادات کے ساتھ معاشرتی زندگی کے آداب بھی سکھاتا ہے۔ ایک سچا مسلمان مہذب، شائستہ، سلجھا ہوا اور بااخلاق ہوتا ہے۔

آیت کے آخری حصے میں فرمایا گیا کہ علمائے دین کے درجے دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ نے بلند کئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: اے لوگو!اس آیت کو سمجھو اور علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ مومن عالم کو اس مومن سے بلند درجات عطا فرمائے گا جو عالم نہیں ہے۔

(تفسیرخازن، پ28، المجادلۃ، تحت الآیۃ:11،ج 4،ص241)

یہاں موضوع کی مناسبت سے علم اور علماء کے15 فضائل ملاحظہ ہوں

(1)ایک ساعت علم حاصل کرنا ساری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔
(مسند الفردوس،ج2،ص441،حدیث:3917)

(2)علم عبادت سے افضل ہے۔(کنز العمال،جزء10،ج5،ص58،حدیث:28653)

(3)علم اسلام کی حیات اور دین کا ستون ہے۔
(کنز العمال، جزء10،ج 5،ص58، حدیث:28657)

(4)علماء زمین کے چراغ اور انبیاء کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے وارث ہیں۔ (کنزالعمال، جزء10،ج5،ص59،حدیث:28673)

(5)مرنے کے بعد بھی بندے کو علم سے نفع پہنچتا رہتا ہے۔(مسلم، ص684، حدیث:4223)

(6)ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔

(ترمذی،ج4،ص311،حدیث: 2690)

(7)علم کی مجالس جنّت کے باغات ہیں۔(معجم کبیر،ج11،ص78،حدیث:11158)

(8)علم کی طلب میں کسی راستے پر چلنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ جنّت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔(ترمذی،ج4،ص312،حدیث:2691)

(9)قیامت کے دن علماء کی سیاہی اور شہداء کے خون کا وزن کیا جائے گا تو ان کی سیاہی شہداء کے خون پر غالب آجائے گی۔
(کنز العمال، جزء10،ج 5،ص61، حدیث: 28711)

(10)عالم کے لئے ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے حتی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔

(کنز العمال، جزء10،ج 5،ص63، حدیث:28733)

(11)علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔
(مسند الفردوس،ج4،ص156،حدیث:6486)

(12)علماء کی تعظیم کرو کیونکہ وہ انبیاء کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے وارث ہیں۔
(تاریخ ابن عساکر،ج 37،ص104)

(13)اہلِ جنّت، جنّت میں علماء کے محتاج ہوں گے۔
(تاریخ ابن عساکر،ج 51،ص50)
(14)علماء آسمان میں ستاروں کی مثل ہیں جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ پائی جاتی ہے۔ (کنزالعمال، جزء،ج 5،ص65،حدیث:28765)

(15)قیامت کے دن انبیاء کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے بعد علماء شفاعت کریں گے۔

(کنز العمال،جزء10،ج5،ص65،حدیث:28766)

علم سیکھنے اور علماء کی تعظیم و تکریم کرنے والے یہ فضائل پاتے ہیں اور علم سے دور اور علماء کے بےادب خدا کی رحمت سے محروم ہوتے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
🌹💗 *درس قرآن* 💗🌹

📖 پارہ۔30🌠 79-سورۂ نازعات ...💗آیت نمبر3تا5

🌠💗🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠💗🌠

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔

وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا(۳) فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا(٤) فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا(۵)

*#ترجمہ کنز الایمان:*(3)اور آسانی سے پیریں (چلیں)۔ (4) پھر آگے بڑھ کر جلد پہنچیں۔ (5) پھر کام کی تدبیر کریں۔

*#تفسیر:*

{وَ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا: اور آسانی سے تیرنے والوں کی۔} یعنی اور ان فرشتوں کی قسم! جو (زمین اور آسمان کے درمیان) مومنین کی روحیں لے کر آسانی سے تیرنے والے ہیں۔ ( تفسیر قرطبی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰/۱۳۶-۱۳۷، الجزء التاسع عشر)

{فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا: پھر آگے بڑھنے والوں کی۔} ارشاد فرمایا کہ پھر ان فرشتوں کی قسم جن کا وصف یہ ہے کہ وہ اپنی اس خدمت پر جلد پہنچتے ہیں جس پر وہ مقرر ہیں۔ (روح البیان، النّازعات، تحت الآیۃ: ۴، ۱۰/۳۱۵)

{فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا: پھر کائنات کا نظام چلانے والوں کی۔} یعنی، پھر ان فرشتوں کی قسم! جو دنیا کے کاموں کا انتظام کرنے پر مقرر ہیں۔ اور ان کاموں کو سر انجام دیتے ہیں، ان تمام قسموں کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اے کفار ِمکہ! تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ (بغوی، النّازعات، تحت الآیۃ: ۵، ۴/۴۱۱)

*ہر کام وسیلے کے ذریعے ہونا اللّٰہ تعالیٰ کا قانون ہے:*

یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت تو یہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا کام کسی وسیلے کے بغیر خود اسی کے حکم سے ہو جائے۔ لیکن قانون یہ ہے کہ کام وسیلے کے ذریعے ہو کیونکہ دنیا کا ہر کام کائنات کا نظام چلانے پر مقرر فرشتوں کے سپرد ہے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض نام اللّٰہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان مُشتَرک ہیں، جیسے علی، سمیع، بصیر، انہیں میں سے مُدَبِّر بھی ہے کہ رب عَزَّوَجَلَّ بھی تدبیر فرمانے والا ہے اور فرشتے بھی مُدَبِّرات ِ اَمر یعنی کاموں کی تدبیر کرنے والے ہیں ۔
*جمعہ مبارک*
*سورۃ القدر کی فضیلت*

حضرتِ مولیٰ علی مشکل کشا کَرَّمَ اللہُ تعالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں، جو کوئی *سورۃ القدر* (سال بھر میں جب کبھی ) *جُمُعہ کے روز نَمازِ جُمُعہ سے قَبل* تین بار پڑھتا ہے ، اللّٰہ عَزَّوجَلَّ اُس روز کے *تمام نَماز پڑھنے والوں* کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھتا ہے۔''

(نُزہۃُ الْمَجَالِس ج۱ ص ۲۲۳)

آپ بھی پڑھ کر فارورڈ کر دیجیے
🍂 یہ کیوں نہیں ، وہ کیوں نہیں! 🍂

اگر کوئی تبلیغ کے میدان میں کام کرتا ہے تو کہتے ہیں:
سیاست میں کیوں نہیں آتا ۔
اگر کوئی سیاست میں آتا ہے تو کہتے ہیں:
اصلاح معاشرہ کے لیے کچھ نہیں کرتا ۔
اگر کوئی مسجد میں کام کرتا ہے تو کہتے ہیں:
مسجد سے باہر نہیں نکلتا ۔
اگر مسجد سے باہر کام کرتا ہے توکہتےہیں:
مسجدیں آباد نہیں کرتا ۔
اگرکوئی سوشل میڈیا پر کام کرتا ہےتو کہتے ہیں:
زمینی سطح پر کام نہیں کرتا ۔
اگر کوئی زمینی سطح پر کام کرتا ہے تو کہتے ہیں:
یہ حالات زمانہ سے بے خبر ہے ۔

آخر ہم چاہتے کیا ہیں ؟؟

ہمارا یہ زنانہ مزاج کب بدلے گا!!

ہم کب ہرمحاذ کی افادیت سمجھیں گے؟؟

کب احساس کمتری کا یہ عفریت ہماری جان چھوڑے گا!!

ایسا سوچنے سے بہتر ہے صبح و شام یہ دعا کیا کریں:

یااللہ! جولوگ مختلف شعبوں میں دین و مسلک کا کام کررہے ہیں ، ہمیں ان کامعاون بننے کی توفیق عطافرما ؛ اور ہم سے بھی وہ کام لے لے جس سے تو راضی ہوجائے ۔

لقمان شاہد
2/8/2019 ء
🌹_السـلام عـليـكم ورحـمـة الله وبـركـاته_‎🌹

_💕 جـمـعـة مـبـاركـة کـے اہـم کـام_💕

🌹 مسواک کرنا (البخاری-٨٨٣)
🌹 غسل کرنا (البخاری-٨٨٣)
🌹 صاف کپڑے پہننا (ابوداؤد-٣٤٧)
🌹 خوشبو لگانا (البخاري-٨٨٣)
🌹 جمعہ کے لئے امام سے پہلے مسجد میں جانا (ابوداؤد-٣٤٥)
🌹 جمعہ کے لئے پیدل چل کر جانا (ابوداؤد-٣٤٥)
🌹 تحیة المسجد کے بعد ( یعنی دو رکعت پڑھ کر ) بیٹھنا
(مسلم-٩٣٠)
🌹 خطیب ( امام ) کے قریب بیٹھنا (ابوداؤد-٣٤٥)
🌹 خطبہ غور سے اور خاموشی سے سننا (ابوداؤد-٣٤٥)
🌹 دوران خطبہ کوئی فضول بات اور فضول کام نہ کرنا
(ابوداؤد-٣٤٥)
🌹 جمعتہ المبارک کے دن اور عام دنوں میں بھی زیادہ سے زیادہ درود شریف (جو نماز میں پڑھتے ہیں وہ) پڑھنا
(مسلم-٩١٢)
🌹 سورہ الکہف پڑھنا (صحیح الجامع-٦٤٧٠)
@HamariUrduPiyariUrdu
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹

ہوازن قبیلے کے لوگوں کا قبولِ اسلام:

ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶)

ترجمہ

پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور اہلِ ایمان پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اس نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے اور اس نے کافروں کو عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔

تفسیر


{ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ:پھر اللہ نے اپنی تسکین نازل فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر تسکین نازل فرمائی کہ اطمینان کے ساتھ اپنی جگہ قائم رہے اور اہلِ ایمان پر تسکین نازل فرمائی کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پکارنے سے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں واپس آئے۔ (جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۵۷)

اس سے معلوم ہوا کہ جنگ حنین میں بھاگ جانے والے مسلمان مومن ہی رہے، ان کی معافی ہو گئی، ان پر رب عَزَّوَجَلَّ نے سکینہ اتارا۔ اب جو ان پر اعتراض کرے وہ ان آیات کامخالف ہے۔ نیز یہ بھاگ جانے والے ہی واپس ہوئے اور انہوں نے معرکہ فتح کیا لہٰذا یہ فتح گزشتہ خطاکا کفارہ ہو گئی۔آیت ِ مبارکہ میں تسکین اترنے کاتذکرہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے پہلے اور بقیہ کیلئے بعد میں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ تسکین رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکت سے نازل ہوئی اور پھر آپ کے فیضان سے بقیہ صحابہ پر اتری اس لئے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تذکرہ پہلے ہوا ،ورنہ گھبرانے والے حضرات تو دوسرے تھے اور سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو میدانِ جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۲۲۸، ملتقطاً)

*{وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا:اور اس نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے۔}* یعنی فرشتے جنہیں کفار نے ابلق گھوڑوں پر سفید لباس پہنے عمامہ باندھے دیکھا یہ فرشتے مسلمانوں کی شوکت بڑھانے کے لئے آئے تھے۔ (ابو سعود، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۳۹۷، ملخصا

ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۷)

ترجمۂ

پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر


*{ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ:پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا۔}* یعنی انہیں اسلام کی توفیق عطا فرمائے گا ۔ چنانچہ ہوازن کے باقی لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور وہ مسلمان ہو کر رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے اسیروں کو رہا فرما دیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۲۲۸)

*ہوازن قبیلے کے لوگوں کا قبولِ اسلام:*
صحیح بخاری میں حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دس دن تک ہوازن کے وفد کا انتظار فرماتے رہے۔ جب وہ لوگ نہ آئے تو آپ نے مالِ غنیمت اور قیدیوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس کے بعد جب ہوازن کا وفد آیا اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کرکے یہ درخواست پیش کی کہ ہمارے مال اور قیدیوں کو واپس کر دیا جائے تو حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ مجھے سچی بات ہی پسند ہے۔ لہٰذا سن لو! کہ مال اور قیدی دونوں کو تو میں واپس نہیں کرسکتا۔ ہاں ان دونوں میں سے ایک کو تم اختیار کر لو ، مال لے لویا قیدی۔ یہ سن کر وفد نے قیدیوں کو واپس لینا منظور کیا۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فوج کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’اے مسلمانو! یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آ گئے ہیں ا ور میری یہ رائے ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں تو تم میں سے جو خوشی خوشی اس کو منظور کرے وہ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ ان قیدیوں کے بدلے میں دوسرے قیدیوں کو لے کر ان کو واپس کرے تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ مجھے جو غنیمت عطا فرمائے گا میں اس میں سے اس کا حصہ دوں گا۔ یہ سن کر ساری فوج نے کہہ دیا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم سب نے خوشی خوشی سب قیدیوں کو واپس کر دیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد