✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک''کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کردیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔*
*اسی طرح تفسیر خازن اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر اور الیاس جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ،اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔*
*بس آب حیات یا چشمہ حیات کی اتنی حقیقت ہی کتب میں لکھی ہے۔مگر اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔*
*قرآن کہتا ہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم حضرت "یوشع بن نون” کے ساتھ سفر شروع کیا اور حضرت یوشع سے کہنے لگے” میں ہمیشہ چلتا رہوں گا، کبھی رکوں گا نہیں یہاں تک دو دریاہوں کے ملنے کی جگہ پہنچ جاؤں۔ حضرت یوشع بن نون سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے صحابی اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے تھے۔*
*ان دونوں صاحبان کے سفر کاذکر قرآن مجیدمیں یوں بیان ہوا ہے ترجمہ : "جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا؛ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں(مجمع البحرین) کے ملنے کی جگہ پہنچ جاؤں، خواہ مجھے سالہا سال چلنا پڑے” (سورہ کہف، آیت 60)*
*یہاں لفظ "حقب”استعمال ہوا ہے جس کا ایک مطلب 70 یا 80 سال ہے اور دوسرا مطلب غیر معینہ مدت ہے، یعنی موسیٰ علیہ السلام نے کہا اگر مجھے 70 یا 80 سال یا غیر معینہ مدت تک ہی کیوں نہ چلنا پڑے، میں چلتا رہوں گا، رکوں گا نہیں یہاں تک اس جگہ پہنچ جاوں جہاں خضر سے ملاقات ہو۔*
*موسیٰ (علیہ السلام) یہ سفر محض اس لیے کر رہے تھے تاکہ حضرت خضر (علیہ السلام) سے علم حاصل کرسکیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے چاہے جتنا دور جانا پڑے جانا چاہیے مگر علم ضرور حاصل کرنا چاہیے۔*
*یہ بھی یاد رہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سفر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ انہوں نے ایک سائل کو کہہ دیا تھا کہ مجھ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔ اللہ عزوجل کو علم پر تکبر والا یہ جملہ پسند نہیں آیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ عزوجل سے دریافت کیا کہ اے اللہ کیا مجھ سے بڑا بھی کوئی عالم اس دنیا میں موجود ہے تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت خضر (علیہ السلام) کا پتا بتایا۔*
*حضرت موسیٰ اور یوشع بن نون چلتے رہے، جب دو ریاہوں کے درمیان پہنچے تو وہاں آرام کے لیے رک گئے، جب وہ آرام کے لیے سوگئے تو ان کے تھیلے میں موجود مردہ مچھلی کو اللہ (عزوجل) نے زندہ کردیا اور وہ مچھلی سرنگ بناکر اپنا راستہ خود بناتی ہوئی دریا میں چلی گئی۔ "پھر جب وہ دونوں ان دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچے اپنی مچھلی بھول گئے اور اس (مچھلی) نے سمندر میں اپنی راہ لی سرنگ بناتی”۔(کہف؛61)اللہ قرآن پاک میں فرماتا ہے؛ ترجمہ: "بولا بھلا دیکھئے تو جب ہم نے اس چٹان کے پاس جگہ لی تھی تو بےشک میں مچھلی کو بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے بھلا دیا کہ میں اس کا مذکور (ذکر) کروں اور اس نے تو سمندر میں اپنی راہ لی اچنبا (عجیب بات) ہے موسیٰ نے کہا یہی تو ہم چاہتے تھے تو پیچھے پلٹے اپنے قدموں کے نشان دیکھتے تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا”۔ (کہف؛ 63-65)*
*علم لدنی کیا ہے؟ یہ باطن کا علم ہے جو اللہ (عزوجل) نے خصوصا حضرت خضر (علیہ السلام) کو عطا فرمایا یہاں تک کہ اپنے نبی موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کہا کہ خضر آپ سے زیادہ علم والے ہیں۔ علم لدنی وہ علم ہے جو بغیر کسی خارجی سبب کے خودبخود قلب (دل) میں من جانب اللہ آتا ہو۔ اسے علم ربانی،علم عطائی یا علم وہبی بھی کہتے ہیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں لدنی وہ علم ہے جس کے حصول میں نفس اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو، علم لدنی بمنزلہ روشنی کے ہے کہ سراج غیب سے قلب صاف و شفاف پر واقع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم واقع کی طرف بڑھیں، پہلے جان لیں کہ خضر ہے کون؟حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق : جب موسیٰ (علیہ السلام) اور یوشع بن نون واپس اس جگہ پہنچے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ایک شخص سفید چادر اوٹھے آرام فرما
رہا ہے۔ آپ سمجھ گئے یہی خضر ہے، آپ نے قریب آکر سلام عرض کیا۔ خضر نے کہا آپ کے سرزمین میں سلام کہاں؟ فرمایا میں موسیٰ ہوں۔ خضر نے کہا بنی اسرائیل کا موسیٰ ؟ فرمایا جی ہاں۔*
*پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے کہا : کیا میں آپ کی اطاعت کروں اس شرط پر کہ اللہ (عزوجل) نے جو علم آپ کو سکھایا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھائیں گے۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا اے موسیٰ ! آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے اور آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ آپ کے علم میں وہ شامل ہی نہیں جو میں جانتا ہوں۔*
*حضرت خضر (علیہ السلام) نے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جانتے تھے کہ انبیاء امور منکرہ اور ممنوعہ دیکھنے پر صبر کر ہی نہیں سکتے کیونکہ انبیاء کی شریعت میں ایسے کام کرنے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔*
*حدیث میں آتا ہے: حضرت خضر (علیہ السلام) نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا؛ ” ایک علم اللہ (عزوجل) نے مجھے ایسا عطا فرمایا ہے جو آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو اللہ (عزوجل) نے آپ کو ایسا عطا فرمایا ہے جو میں نہیں جانتا۔*
*مفسرین کہتے ہیں کہ جو علم خضر( علیہ السلام) کو عطا ہوا وہ باطن یا مکاشفہ کا علم (علم لدنی) ہے اور جو علم سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوا وہ علم شریعت ہے*
*یوشع بن نون کے بارے میں کہاجاتاہےکہ انکاانتقال استنبول میں ہوا انکی قبرمبارک استنبول کےباسفورس جہاں پہ مجمع البحرین کےقریب ہے۔*
@HamariUrduPiyariUrdu
گرل اور بوائے فرینڈ مسلمانوں کا کلچر ہی نہیں ، مسلمانوں کا کلچر صرف نکاح ہے ، جس میں اللہ پاک ﷻ نے عزت اور برکت رکھی ہے ۔

نکاح کے بغیر فرینڈ شپ ، محبت ، خلوص اور وفا وغیرہ سب جھانسے ہیں ۔

خلیل الرحمان قمر نے کہا تھا :

" لڑکے اور لڑکی میں دوستی نہیں ہوتی ، ( دوستی کے نام پر ) یہ جھوٹ ہے ؛ مرد گھات پر بیٹھا ہوا چور ہے ، جو ویٹ کرے گا کہ کس دن مان جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔ "

میں کہتاہوں لڑکا ہی نہیں ، جو لڑکی بھی نکاح کے بغیر دوستی اور محبت کا دعوی کرتی ہے وہ جھوٹی ہے ، دھوکے باز ہے ؛ وہ بیوی کسی اور کی بنے گی ، استعمال کسی اور کو کرے گی ۔

ولی کامل ، عالم ربانی میاں محمد بخش قادری رحمہ اللہ نے ایسی لڑکیوں کے لیے ہی کہاتھا ؎

نارِیں سَو جو شہوت بَھریاں تاڑن ڈَنڈ جَواناں
ہِک چَکّھن ، پھر دُوجا رَکّھن ، لِکھن بُرا پُراناں

( شہوت پرست عورتیں جن کا کام نوجوانوں کو تاڑنا ہے ۔
یہ ایک کو چکھیں گی ، پھر اسے بُرا بھلا کَہ کر دوسرے کی طرف مائل ہو جائیں گی ۔
مطلب: فرینڈ شپ کسی اور کے ساتھ نبھاتی رہیں گی اور بیوی کسی اور کی بنیں گی ۔ )

ایسی عورتوں سے بچ کر رہو ، اور یاد رکھو ؎

کَد کِسے دی سَکی ہَوئی جس نے نار سَدایا
سَے بَرساں اَگ پُوجے کوئی ، پِھر سَاڑے ہَتھ لایا

( ایسی عورتیں کسی کی وفادار نہیں ہوتیں ، انھیں نار کہا جاتا ہے اور نار ( آگ ) کی چاہے کوئی‌سو برس پوجا کرلے ، پھر بھی جب ہاتھ لگائے گا تو جلا کے رکھ دے گی )

مرد وہی قابل اعتبار ہیں جو پاکیزہ سیرت ہیں ۔۔۔۔۔۔ جو نکاح کے علاوہ کسی قسم کا ناجائز رشتہ قبول نہیں کرتے ۔
اور عورتیں بھی وہی سچی ہیں جو اللہ پاک سے ڈرتے ہوئے کسی غیر مرد سے کوئی دوستی نہیں کرتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی سب کُوڑ کہانی ہے ۔

اللہ پاک پاکیزہ مردوں ، اور پاک دامن عورتوں کے طفیل ہماری خطائیں معاف فرمائے !

✍️لقمان شاہد
14-2-2021 ء
@HamariUrduPiyariUrdu
آپ کی پہلی اور آخری محبت آپ کی بیوی ہے باقی سب فریب ہے نکاح کے بغیر نا محرم سے تعلق کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے جبکہ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں نکاح ایک بہترین سنت ہے جس میں برکت ہے اللہ کا ڈر دل میں رکھنے والے ہمیشہ درست راستہ ہی اختیار کرتے ہیں
محمد سرمد لطیف
14-02-2021 ء
. *چند سُنہری باتیں* " *قسط نمبر 28* "

*ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-

🌵چــــار چیزیں کبھی واپس نہیں آ سکتیں ؛
• وقت جو گزر گیا۔
• لفظ جو منہ سے نکل گیا۔
• بھروسہ جو ایک دفعہ ٹوٹ گیا۔
• موقع جو ہاتھ سے نکل گیا۔

🌵آپ تنہا ہو اور وقت دل کے شکن لمحات سینے کے محسوسات کو پامال کر رہے ہیں تو کیا ہوا آپ اس دنیا میں تنہا ہی آئے، تنہا ہی جاؤ گے تو پھر تنہائی سے کیوں گھبراتے ہو۔

🌵جن رشتوں کو اللہ تعالیٰ عزوجل نے انسان کے سکون کے لیئے بنایا ہے آج کل لوگ اُن ہی رشتوں کے ساتھ چالاکیاں اور مکاریاں کرتے ہیں اور روتے پھرتے ہیں کہ ہماری زندگی میں سکون نہیں۔ لہذا !! چیزوں کو استعمال کیا کریں رشتوں کو نہیں۔

🌵کردار کی بلندی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ لوگوں کے عیوب سے تغافل برتیں اور انہیں یوں ظاہر کریں کہ آپ ان کا کوئی عیب جانتے ہی نہیں۔

🌵لوگ ، لوگوں کے بس میں نہیــں ھوتے لوگ حالات کے بس میں ھوتے ہیں۔

🌵اگر آپ کسی مقصد کی خاطر کھڑے ہیں تو درخت کی طرح کھڑے ہونے کو تیار رہیں۔ اگر گر جائیں تو بیج کی طرح گریں جو پھر سے پھوٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

🌵جب اپنوں میں غدار اور منافق پیدا ہو جائیں تو میدان میں کھڑا شیر بھی کتوں سے بـازی ہار جاتا ہــے۔
تاریخ سلسلہ چشتیہ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے اس سلسلہ کی نامور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارا مل چکا تھا کہ وہ سرزمینِ ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں ۔

چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کرلی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے ۔

سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ سب سے پہلے لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا، لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوتِ حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ ’’چشتی‘‘ دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے ۔

نام و نسب

سر زمینِ ہند میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سر خیل اور سالار حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام ’’معین الدین‘‘ ہے، والدین محبت سے آپ کو’’ حسن ‘‘کہہ کر پکارتے تھے، آپ حسنی اور حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب بارہویں پُشت میں حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔

پدری سلسلۂ نسب

خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن کمال الدین بن احمد حسین بن نجم الدین طاہر بن عبدالعزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمد باقر بن امام علی زین العابدین بن سیدناامام حسین بن علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و رحمہم اللہ تعالیٰ ۔

مادری سلسلۂ نسب

بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سید عبداللہ بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و ررحمہم اللہ تعالیٰ ۔

ولادت اور مقامِ ولات

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ِ باسعات ۵۳۷ ہجری بہ مطابق ۱۱۴۲ عیسوی کو سجستان جسے ’’سیستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، کے قصبۂ سنجر میں ہوئی۔ اسی لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کوحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت پوری دنیا کے لیے باعثِ رحمت اور سعادت بنی۔ آپ نے اس دنیا میں عرفانِ خداوندی، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا کیا اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ کو اسلام و ایمان کی روشنی سے جگمگا دیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں :’’جب معین الدین میرے شکم (پیٹ) میں تھے تو میںاچھے خواب دیکھا کرتی تھی گھر میں خیر و برکت تھی ، دشمن دوست بن گئے تھے۔ ولادت کے وقت سارا مکان انوارِالٰہی سے روشن تھا ۔ ( مرأۃ الاسرار)

بچپن

آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی کے زیرِ سایا ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے۔ نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیر و حدیث اور فقہ (اسلامی قانون) کی تعلیم حاصل کی، خداداد ذہانت و ذکاوت، بلا کی قوتِ یادداشت اور غیر معمولی فہم وفراست کی وجہ انتہائی کم مدت میں بہت زیادہ علم حاصل کرلیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ گیارہ برس کی عمر تک نہایت ناز و نعم اور لاڈ پیار میں پروان چرھتے رہے۔ جب حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد حضرت غیاث الدین حسن صاحب علیہ الرحمہ کا سایۂ شفقت و محبت سر سے اُٹھ گیا لیکن باہمت والدۂ ماجدہ بی بی ماہ نور نے آپ کو باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ والدِ گرامی کے اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔ جوانی کے عالم میں اسی ترکہ کو اپنے لیے ذریعۂ معاش بنایا خود ہی باغ کی دیکھ بھال کرتے اور اس کے درختوں کو پانی دیتے اور باغ کی صفائی ستھرائی کا بھی خود ہی خیال رکھتے۔ اسی طرح پن چکی کا سارا نظام بھی خود سنبھالتے ، جس سے زندگی بڑی آسودہ اور خوش حال بسر ہورہی تھی۔ لیکن
اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی تعلیم و تربیت اور کائنات کے گلشن کی اصلاح و تذکیر کے لیے منتخب فرمالیا تھا۔ لہٰذا آپ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے آپ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور طریقت و سلوک کے مراتب طَے کرتے ہوئے وہ مقامِ بلند حاصل کیا کہ آج بھی آپ کی روحانیت کو ایک جہان تسلیم کررہا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا وہ واقعہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے جس نے آپ کی دنیا بدل دی ۔(چشتی)

مجذوبِ وقت ابراہیم قندوزی کی آمد اور حضرت خواجہ کا ترکِ دنیا کرنا

ایک دن ترکے میں ملے ہوئے باغ میں آپ درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اس بستی کے ایک مجذوب ابراہیم قندوزی اشارۂ غیبی پر باغ میں تشریف لائے۔ جب حضرت خواجہ کی نظر اِس صاحبِ باطن مجذوب پر پڑی تو ادب و احترام کے ساتھ ان کے قریب گئے اور ایک سایا دار درخت کے نیچے آپ کو بٹھا دیا اور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لاکر رکھ دیا ، خود دوزانو ہوکر بیٹھ گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے انگور کھائے اور خوش ہوکر بغل سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اپنے منہ میں ڈالا دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ غریب نواز کے منہ میں ڈال دیا اس طرح حق و صداقت اور عرفانِ خداوندی کے طالبِ حقیقی کو ان لذّتوں سے فیض یاب کردیا۔ روٹی کا حلق میں اترنا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔ روح کی گہرائیوں میں انورِ الٰہی کی روشنی پھوٹ پڑی ، جتنے بھی شکوک و شبہات تھے سب کے سب اک آن میں ختم ہوگئے ،دنیا سے نفرت اور بے زاری پیدا ہوگئی اور آپ نے دنیاوی محبت کے سارے امور سے کنارہ کشی اختیار کرلی، باغ، پن چکی اور دوسرے ساز و سامان کو بیچ ڈالا، ساری قیمت فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دی اور طالبِ حق بن کر وطن کو چھوڑ دیااور سیر و سیاحت شروع کردی ۔

علمِ شریعت کا حصول

زمانۂ قدیم سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ علمِ طریقت کی تحصیل کے خواہش مند پہلے علمِ شریعت کو حاصل کرکے اس میں کمال پیداکرتے ہوئے عمل کی دشوار گزار وادی میں دیوانہ وار اور مستانہ وار چلتے رہتے ہیں اور بعد میں علمِ طریقت کا حصول کرتے ہیں۔ چناں چہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا اور وطن سے نکل کر سمرقند و بخارا کا رخ کیا جو کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں علم و فن کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جہاں بڑی بڑی علمی ودینی درس گاہیں تھیں جن میں اپنے زمانے کے ممتاز اور جید اساتذۂ کرام درس و تدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ان درس گاہوں میں دنیا بھر سے علمِ دین کی طلب رکھنے والے افراد کھنچ کھنچ کر آتے اور اپنی تشنگی کو بجھاتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں آکر پورے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ طلبِ علم میں مصروف ہوگئے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور دیگر ضروری علوم کا درس لیا اور کامل مہارت حاصل کرلی ، آپ کے اساتذہ میں نمایاں طور پر مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین صاحب شرع الاسلام کے نام لیے جاتے ہیں ۔

پیرِ کامل کی تلاش

سمر قند اور بخارا کی ممتاز درس گاہوں میں جید اساتذۂ کرام کے زیرِسایا رہ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ شریعت کی تکمیل کرنے کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں علمِ طریقت کے مراکز کے طور پر پوری دنیاے اسلام میں عراق و حجازِ مقدس مشہور و معروف تھے، جہاں صالحین اور صوفیاے کاملین کی ایک کثیر تعداد بادۂ وحدت اور روحانیت و معرفت کے پیاسوں کی سیرابی کا کام کررہی تھی۔ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کائناتِ ارضی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مختلف اشیا کا مشاہدہ و تفکراور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اولیا و علما اور صلحا و صوفیہ کی زیارت کرتے ہوئے بغداد، مکہ اورمدینہ کی سیر و سیاحت اور زیارت کی سعادتیں حاصل کیں۔ پھر پیرِ کامل کی تلاش و جستجو میں مشرق کی سمت کا رُخ کیا اورعلاقۂ نیشاپور کے قصبۂ ہارون پہنچے جہاں ہادیِ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں روحانی وعرفانی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں۔ خانقاہِ عثمانی میں پہنچ کر حضرت خواجہ غریب نوا رحمۃ اللہ علیہ کو منزلِ مقصود حاصل ہوگئی اور آپ مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے اور ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی ۔

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیعت کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے : ایسی صحبت میں جس میں بڑے بڑے معظم و محترم مشائخِ کبار جمع تھے میں ادب سے حاضر ہو ا اور روے نیاز زمین پر رکھ دیا ، حضرت مرشد نے فرمایا : دو رکعت نماز ادا کر ، میں نے فوراً تکمیل کی ۔ رو بہ قبلہ بیٹھ ، میں ادب سے قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہوا سورۂ بقرہ پڑھ ، میں نے خلوص و عقیدت سے پوری سورت پڑھی ، تب فرمایا : ساٹھ بار کلمۂ سبحان اللہ کہو، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ، ان مدارج کے بعد حضرت
مرشد قبلہ خود کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا ان جملہ امور کے بعد حضرت مرشد قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی جو کلاہِ چارتَرکی کہلاتی ہے میرے سر پر رکھی ، اپنی خاص کملی مجھے اوڑھائی اور فرمایا بیٹھ میں فوراً بیٹھ گیا ، اب ارشاد ہوا ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں اس کو بھی ختم کرچکا تو فرمایا ہمارے مشائخ کے طبقات میں بس یہی ایک شب و روز کا مجاہدہ ہے لہٰذا جا اور کامل ایک شب و روز کا مجاہدہ کر، اس حکم کے بہ موجب میں نے پورا دن اور رات عبادتِ الٰہی اور نماز و طاعت میں بسر کی دوسرے دن حاضر ہوکے ، روے نیاز زمین پر رکھا تو ارشاد ہوا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہو ا اوپر دیکھ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے ، عرض کیا عرشِ معلا تک ، تب ارشاد ہوا نیچے دیکھ میں نے آنکھیں زمین کی طرف پھیری تو پھر وہی سوال کیا کہاں تک دیکھتا ہے عرض کیا تحت الثریٰ تک حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس حکم کی بھی تعمیل ہو چکی تو ارشاد ہو اکہ آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک دیکھتا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا حجابِ عظمت تک ، اب فرمایا آنکھیں بند کر ، میں نے بند کرلی ، ارشاد فرمایا ا ب کھول دے میں نے کھل دی تب حضرت نے اپنی دونوں انگلیاں میری نظر کے سامنے کی اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ؟ عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھ رہا ہوں ، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس تیرا کام پورا ہوگیا پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے ، فرمایا انھیں لے جاکے درویشوں میں خیرات کر۔ چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا ۔ (انیس الارواح ، ملفوظاتِ خواجہ ، صفحہ ۱/ ۲)

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت و جانشینی

جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کے پیر ومرشد نے ولایت اور روحانیت کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کرکے مرتبۂ قطبیت پر فائز کر دیا تو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حج کے بعد حضرت خواجہ کو قبولیت کی سند مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد پیرو مرشد نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہوگیا ، چناں چہ اس کے بعد بغداد میں ۵۸۲ھ / ۱۱۸۶ء کو حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا نائب اور جانشین بنا دیا ۔ اس ضمن میں خود حضرت مرشدِ کامل نے یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے : معین الدین محبوبِ خدا ہے اور مجھے اس کی خلافت پر ناز ہے ۔

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی سیر و سیاحت اور ہندوستان کی بشارت

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو پیر ومرشد نے اپنی خلافت و اجازت سے نواز کر رخصت کیا۔ آپ نے مرشدِ کامل سے فیض حاصل کر کے اللہ جل شانہ کی کائنات کا مشاہدہ اور اہل اللہ کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے سیر وسیاحت کا آغاز کیا۔ سفر کے دوران آپ نے اپنے پیرومرشد کی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کیا۔ چوں کہ حضرت خواجہ نے اپنی یہ سیاحت علومِ باطنی وظاہری کی مزید تحصیل کی غرض سے اختیار کی اس لیے وہ وہیں جاتے جہاں علما و صلحا اور صوفیہ و مشائخ رہتے۔ سنجان میں آپ نے حضرت شیخ نجم الدین کبرا رحمۃ اللہ علیہ اور جیلان میں بڑے پیرحضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد میں حضرت شیخ ضیاء الدین کی زیارت کی اور ان سے معرفت و ولایت کے علوم و فنون حاصل کیے ۔ (چشتی)

بغداد کے بعد حضرت خواجہ اصفہان پہنچے تو یہاں حضرت شیخ محمود اصفہانی سے ملاقات فرمائی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ان دنوں اصفہان میں موجود تھے۔ جب آپ نے حضرت خواجہ کے چہرۂ زیبا کی زیارت کی تو بہت متاثر ہوئے دل کی دنیا بدل گئی اور آپ پر نثار ہوکر مریدوں میں شامل ہوگئے اور حضرت خواجہ کی اتنی خدمت کی کہ بعد میں وہی آپ کے جانشین ہوئے۔ اصفہان سے حضرت خواجہ ۵۸۳ھ / ۱۱۸۷ء میں مکۂ مکرمہ پہنچے اور زیارت و طوافِ خانۂ کعبہ سے سرفراز ہوئے۔ ایک روز حرم شریف کے اندر ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے کہ غیب سے آپ نے ایک آواز سنی کہ : اے معین الدین ! ہم تجھ سے خوش ہیں تجھے بخش دیا جو کچھ چاہے مانگ ، تاکہ عطا کروں۔ ‘ حضرت خواجہ صاحب نے جب یہ ندا سنی تو بے حد خوش ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر بجالایااور عاجزی سے عرض کیا کہ ، خداوندا! معین الدین کے مریدوں کو بخش دے۔ آواز آئی کہ اے معین الدین تو ہماری مِلک ہے جو تیرے مرید اور تیرے سلسلہ میں مرید ہوں گے انھیں بخش دوں گا ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید کچھ دن مکہ میں قیام کیا اور حج کے بعد مدینۂ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مدینۂ منورہ میں حضرت خواجہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزارِ پاک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ یہاں آپ اپنے روز و شب عبادت و ریاضت ، ذکرِ الٰہی اور درود وسلام میں بسر کرتے ، ایک دن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے
اولاد و امجاد : حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں تین لڑکے : (1) خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری (وفات ۵ شعبان المعظم ۶۶۱ھ) (2) خواجہ ضیاء الدین ابو سعید (3) خواجہ حسام الدین ، جو بچپن میں ابدالوں کے زمرے میں شامل ہوکر غائب ہوگئے ۔ اور ایک دختر حافظہ بی بی جمال تھیں ۔ (رحمہم اللہ علیہم اجمعین) (ماخذ : حضرت خواجہ غیرب نواز، سیرت غریب نواز ، ہند کے راجہ ، مراۃ الاسرار ، اقتباس الانوار) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی),..
کاپی پیسٹ
آپ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت کی بشارت اس طرح حاصل ہوئی کہ : اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا ۔ ( سیر الاقطاب ص ۱۲۴)

جب حضرت خواجہ نے یہ ایمان افروز بشارت سنی تو آپ پر وجد و سرور طاری ہوگیا۔ آپ کی خوشی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جب مقبولیت اور ہندوستان کی خوش خبری حاصل کرلی تو تھوڑا حیرا ن ہوئے کہ اجمیر کہاں ہے؟ یہی سوچتے ہوئے آپ کو نیند آگئی ، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوئے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب کی حالت میں ایک ہی نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا، دنیا کے تمام شہر اور قصبے آپ کی نظروں میں تھے یہاں تک کہ آپ نے اجمیر ، اجمیر کا قلعہ اور پہاڑیاں بھی دیکھ لیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خواجہ کو ایک انار عطا کرکے ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں ۔ ( مونس الارواح ص ۳۰)

نیند سے بیدار ہونے کے بعد آپ نے چالیس اولیا کے ہمراہ ہندوستان (اجمیر) کا قصد کیا ۔


حضر ت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی اجمیر میں آمد

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کس سن میں اجمیر تشریف لائے اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔ جہاں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ ،حُسنِ اَخلاق، اعلا سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اہلِ اجمیر نے جب اس بوریہ نشین فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی کفر و شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا ، اسلام و ایمان کا گہوارہ بن گیا ۔

حضرت خواجہ کا وصالِ پُر ملال

عطاے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر تقریباً ۴۵ سال گذارے۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں جہاں کفر و شرک اور بت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ کی روحانی کوششوں سے تقریباً نوے لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ جو کہ ایک طرح کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اخیر عمر میں حضرت خواجہ کو محبوبِ حقیقی جل شانہ سے ملاقات کا شوق و ذوق بے حد زیادہ ہوگیا اور آپ یادِ الٰہی اور ذکرِ و فکر الٰہی میں اپنے زیادہ تر اوقات بسر کرنے لگے۔ آخری ایام میں ایک مجلس میں جب کہ اہل اللہ کا مجمع تھا آپ نے ارشاد فرمایا:’’اللہ والے سورج کی طرح ہیں ان کا نور تمام کائنات پر نظر رکھتا ہے اور انھیںکی ضیا پاشیوں سے ہستی کا ذرّہ ذرّہ جگمگا رہا ہے۔۔۔ اس سرزمین میں مجھے جو پہنچایا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی چند روز اور باقی ہیں پھر سفر درپیش ہے ۔ (دلیل العارفین ص ۵۸،چشتی)

عطاے رسول سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ نے جس روز اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طر ف سفر اختیار فرمایاوہ ۶ رجب المرجب ۶۳۳ھ بہ مطابق ۱۶ مارچ ۱۲۳۶ء بروز پیر کی رات تھی۔ عشا کی نماز کے بعد آپ اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے اور خادموں کو ہدایت فرمائی کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ جو خادم دروازہ پر موجود تھے ساری رات وجد کے عالم میں پیر پٹکنے کی آواز سنتے رہے۔ رات کے آخری پہر میں یہ آواز آنا بند ہوگئی۔ صبح صادق کے وقت جب نمازِ فجر کے لیے دستک دی گئی تو دروازہ نہ کھلا چناں چہ جب خادموں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے مالکِ حقیقی کے وصال کی لذت سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ اور آپ کی پیشانی پر یہ غیبی عبارت لکھی ہوئی ہے : ہٰذا حبیبُ اللہ ماتَ فِی حُب اللہ ۔

آپ کے صاحب زادے حضرت خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کا جسمِ مبارک اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی قیام گاہ تھی ۔

ازواج و اولاد

پہلی شادی : حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ کو دین کی تبلیغ و اشاعت کی مصروفیت کی بنا پر ازدواجی زندگی کے لیے وقت نہ مل سکا ایک مرتبہ آپ کو خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔ آپ نے فرمایا : اے معین الدین! توہمارے دین کا معین ہے پھر بھی تو ہماری سنتوں سے ایک سنت چھوڑ رہا ہے ۔ بیدار ہونے کے بعد آپ کو فکر دامن گیر ہوئی ۔ اور آپ نے ۵۹۰ھ / ۱۱۹۴ء میں بی بی امۃ اللہ سے پہلا نکاح فرمایا ۔

دوسری شادی : ۶۲۰ھ / ۱۲۲۳ء کو سید وجیہ الدین مشہدی کی دخترِ نیک اختر بی بی عصمۃ اللہ سے دوسرا نکاح فرمایا ۔
. آپ کے نام پیغام

🌹 ‏محبت ، شرافت ،
🌹 ہمدردی ، راہنمائی ،
🌹 مدد یا کوئی ایسی نشانی جو نیکی کی شکل میں یو
*وہ یہاں ضرور چھوڑ جائیں ، جو یہ بتاتی رہے کہ اس راہ سے آپ گذرے تھے______*

. ☀️ *چند سُنہری باتیں* ☀️ " *قسط نمبر 29* "

*ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-

🌴چهوٹی چهوٹی باتیں بَڑے بَڑے رشتوں میں ایسے بدگمانی کے سوراخ کر دیتی ہیں کہ انسان ساری عمر ان سوراخوں میں وضاحتوں کی اینٹیں لگا کر بهی اپنے خوبصورت رشتے کو نہیں بچا سکتا۔

🌴کسی کی میٹھی باتوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ آپ اس کے لیئے خاص ہیں بعض اوقات کبوتر کو کھلانے کے لیئے نہیں بلکہ پکڑنے کے لیئے بھی دانہ ڈالا جاتا ہے۔

🌴کوئی بھی انسان پوری دنیا کے لئے نہیں جیتا بلکہ وہ کچھ خاص لوگوں کے لیے جیتا ہے جو اس کی ساری دنیا ہوتے ہیں۔

🌴بعض لوگوں کے الفاظ شفا ہوتے ہیں اس سے لوگ امید اور یقین حاصل کرتے ہیں وہ ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں محبت پھیلاتے ہیں نفرتیں ختم کرتے ہیں جینا سکھاتے ہیں لیکن یہ سب صرف دوسروں کے لیے انکے الفاظ انکی اپنی ذات کے لیے تو مرہم بھی نہیں ہوتے۔

🌴ہر شخص اپنا درخت الگ الگ لگانا چاھتا ھے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت کا باغ تیار نہیں ہوتا۔ مطلب یہ کہ ہر شخص اپنا فائدہ سوچتا ہے کسی دوسرے کا نہیں اور جب دوسروں کا فائدہ نہیں سوچا جائے گا تو انسانیت کہاں سے آئی گی۔اصل میں دوسروں کے بارے سوچنا ہی تو انسانیت ہے۔

🌴محبت ، دوستی ، ہمدردی ، رہنمائ یا مدد یہاں کوئ ایسی نشانی ضرور چھوڑ جائیں جو یہ بتاتی رہے کہ اس راہ سے آپ گزرے تھے۔
سوداسَلَف مرد ہی لائیں
سُوال : آج کل عُمُوماً شوہر یا مَحارِم سَوداسَلَف لانے میں سُستی کرتے ہیں لہٰذا اکثر عورَتیں ہی گوشت ، مچھلی ، سبزی، کپڑے وغیرہ ضَروریاتِ زندگی کی اشیاء خریدنے جاتی ہیں کیا یہ جائز ہے ؟شوہر یا محارِم بھی اس طرح گنہگار ہورہے ہیں یا نہیں ؟
جواب : اگر مرد محض اپنی سُستی کی وجہ سے گھر کاسَوداسَلَف نہیں لاتے تو یہ بَہُت سخت بے احتیاطی ہے کہ اب اسکی زَوجہ یامَحرَمہ یعنی ماں یا بہن یا بیٹی غیر مردوں سے ضَرورت کی چیزیں خریدنے کے لئے گھر سے باہَر نکلے گی اگر چِہ عورت کیلئے فی نفسہٖ خریدوفروخت کی مُمانَعت نہیں تاہم بے باکی کا دَور ہے اور آج کل کے بازار کا حال کون نہیں جانتا! باپردہ عورت بھی فی زمانہ بازار جائے اور گناہوں کے بِغیر لوٹ کر آئے یہ بے انتِہا مشکل اَمْر ہے ۔ اگر عورَت بے پردَگی کے ساتھ یعنی سر کے بال، کان، گلا وغیرہ سِتْرکا کوئی حصہ کھولے بازار جاتی ہے یاعورت جوان اورمَحَلِّ فتنہ ہے اور اس کے باہَر پھرنے سے فِتنہ اُٹھتا ہے اور باوُجودِ قدرت مردمَنْع نہیں کرتا تودونوں صورتوں میں ایسامرد دَیُّوث اوروہ عورت فاسِقہ ہے ۔ اگرہر طرح کی کوشِش کے باوُجُود مرد نہیں جاتے اور ضَروریاتِ زندگی کی اشیا کے حُصُول کی کوئی اور صورت نہیں مَثَلاً کسی بد صورت بُڑھیا یا فون کے ذَرِیْعے بھی یہ کا م نہیں ہو سکتا تو اب عورت ان کاموں کیلئے شَرعی پردے کی رعایت کے ساتھ نکلے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 6 صَفْحَہ487تا 488 پر فرماتے ہیں : جس کی عورت بے ستر باہَر پھرتی ہے کہ بازو یا گلا یا پیٹ یا سر کے بال یاپِنڈلی کا حصّہ غَرَض جس جسم کا چُھپانا فرض ہے کُھلا ہوا ہے یا اس پر ایک باریک کپڑا ہو کہ بدن چمکتا ہو اور وہ اس حالت پرمُطَّلع ہوکر عورت کو اپنی حَدِّ مَقدور(یعنی مُمکنہ حد) تک نہ روکتا ہو بندوبست نہ کرتا ہو وہ بھی فاسق و دَیُّوث ہے ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : تین شخص جنت میں نہ جائیں گے ماں باپ کو ایذا دینے والا اور دَیُّوث اور مردوں کی صورت بنانے والی عورت ۔ (اَلْمُسْتَدْرَک ج۱ ص ۲۵۳ حدیث ۲۵۲)دُرِّمختار میں ہے : ’’جو اپنی عورت یا اپنی کسی محرم پر غیرت نہ رکھے وہ دَیوُّث ہے ۔ ‘‘ (دُرِّمُختارج۶ص۱۱۳) اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت مزیدفرماتے ہیں : اسی طرح اگر عورت جوان اورمَحَلِّ فِتنہ ہے اور اس کے باہَر پھرنے سے فِتنہ اُٹھتا ہے اور یہ مُطَّلع (یعنی باخبر ) ہو کر باز نہیں رکھتا جب بھی کھلا دیوّث ہے اگر چِہ پورے سِتْر کیساتھ باہَرنکلتی ہو، ان سب لوگوں کو امام بنانا گناہ ہے اوران کے پیچھے نماز مکروہ ِتحریمی قریب بحرام ہے نہ پڑھی جائے اور پڑھ لی تو اِعادہ(یعنی لوٹانا) ضَرور ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۶ص۴۸۷، ۴۸۸)
*کَشت، کِشت اور کُشت*
تین الفاظ تین مفہوم

*کَشت:* کھینچنا، اسی سے لفظ کَشتی (boat) بنا جسے لوگ کِشتی کہتے ہیں جو غلط ہے۔ کش بھی اسی سے ہے جیسے محنت کش، سیگریٹ کا کش، حقہ کا کش

*کِشت:*

کھیتی,

نہیں ہَے نا اُمّید اقبال اپنی کِشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی

یہاں ویران بنجر اور اجاڑ کھیتی مراد ہے ۔

*کُشت:*

خون ریزی، کُشتوں کے پشتے لگنا، مطلب لاشوں کے ڈھیر لگ جانا یا کشت و خون کا بازار مطلب لاشوں اور خون کی کثرت۔ اسی سے کُش ہے جیسے جراثیم کش، جراثیم کو مارنے والا ۔

*کُشت:*

لڑائی، مار کٹائی، اسی سے کُشتی بنا جسے پہلوانی بھی کہتے ہیں۔

منقول
اردو زبان بہت پیاری ہے ، اس کے اصول وقواعد سیکھیں ، اس میں گفتگو کریں ، اسے عام کریں ، اس سے محبت کریں ؎

جو کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

انور مسعود صاحب سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا:

آپ کی کوئی خواہش ؟

کہنےلگے ہاں ، میری خواہش ہے کہ:

کوئی گورا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے ہاتھ میں ایک فارم پکڑا ہوا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ فارم اردو میں ہو ۔

وہ میرے پاس آئے اور درخواست کرے کہ مجھے پُر کردیجیے ۔
( تو اس کی یہ عرضی سن کر ) میری دو سو سال کی تھکن اتر جائے ۔

✍️لقمان شاہد
6-3-2021 ء
@HamariUrduPiyariUrdu
"مجھے کتاب گفٹ کریں "

فیس بک پر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی دوست "کتاب" چھپواتا ہے اور آگاہی کے لیے پوسٹ لگاتا ہے تو کئی لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ "ہمیں کتاب گفٹ چاہیے" ۔
کتاب جس کی قیمت چار سو سے پانچ سو ہوتی ہے وہ بھی ہم خریدنے سے عاجز ہوتے ہیں۔ صاحب کتاب سے بھی پوچھنا چاہیے کہ "بھئی صاحب ! آپ کا خرچہ کتنا ہوا ہے"؟

ظاہری بات ہے صاحب کتاب کوئی ایک دو کاپیاں تو نہیں چھپواتا ۔ ایک بڑی تعداد ہوتی ہے جس میں کم از کم 80 ہزار سے ڈیڈھ لاکھ تک خرچہ ہوتا ہے ۔ اور ہم کتنے پیار سے کہہ دیتے ہیں کہ "مجھے کتاب گفٹ کیجیے "۔
کیا صاحب کتاب کو فائدہ نہیں ہونا چاہیے؟ کیا صاحب کتاب نے صرف ہماری تسکین کے لیے کتاب چھپوائی ہے ؟۔
کچھ صاحب کتاب کو بھی فائدہ ملنا چاہیے ۔

افسوس ہے کہ ہم لوگ فضول میں پیسے ضائع کریں گے۔ ایک پب جی گیم پر ہزاروں روپے کا نیٹ ضائع کریں گے ۔ اور جب کسی کی کتاب دیکھیں گے تو کہیں گے "مجھے کتاب گفٹ کریں ورنہ میں ناراض "۔
یا پھر پی ڈی ایف میں پڑھنے کی ضد کریں گے ۔

میں خود ایک طالب علم ہوں ۔ میرے پاس بعض اوقات پیسے نہیں ہوتے کتاب خریدنے کے مگر مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے جب کوئی کتاب بھیجے اور میں اسے پیسے نہ بھیجوں ۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں کتاب خرید کر پڑھوں اور پھر اس پر تبصرہ کروں ۔

کتابوں سے محبت کریں ۔ خدارا ! کتاب خریدیں ۔ براہ راست صاحب کتاب کو کتاب گفٹ کرنے کا کہہ کر صاحب کتاب کو شرمندہ نہ کریں ۔ وہ آپ کی دوستی میں آپ سے کہہ دے گا کہ "ٹھیک ہے " مگر اس کا ہونے والا خرچہ ؟

سنا ہے یہ کتابوں کی آخری صدی ہے ؟؟
آئیں میدان میں اور خرید کر پڑھنے کو ترجیح دیں ۔ صاحب کتاب کو آسانیاں پہنچائیں اور کتاب سے لطف اندوز ہوں ۔

محمد ادریس روباص کی وال سے
@HamariUrduPiyariUrdu
. *کب تک مسائل سے بھاگو گے*

*ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-

👈 معاشرے میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں:
*1*:- فقط شوق *2*:- شوق + کام
ان دونوں قسموں میں سے دوسری قسم کے لوگ کامیاب ہیں۔

👈 کیونکہ شوق بھی ہونا چاہیے لیکن شوق کے ساتھ ساتھ اس شوق کو پورا کرنے کی کوشش بھی ہونی چاہیے ، پھر جاکے آپ کو کامیابی نصیب ہوگی۔

👈 اور اگر صرف شوق ہے۔کام نہیں ہے۔ تو یہ شوق ، شوق ہی رہ جائے گا۔ اور آپ کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوگا۔

👈 جب تک آپ قدم نہیں اٹھائیں گیں۔ تب تک آپ کو کامیابی نہیں ملے گی۔ کیونکہ میدان میں جیتنے کیلئے بھاگنا شرط ہے۔ اگر آپ میدان میں نہیں بھاگے تو کبھی بھی جیت نہیں سکیں گیں۔

👈 لہذا!! آگے بڑھیں ،
قدم اٹھائیں ،
ہمت کریں۔
اسلئے کہ "کئ منزلوں کو آپ تلاش کرتے ہیں، *اور* کئ منزلیں آپ کو تلاش کرتی ہیں"۔

👈 جہاں پر جو رکاوٹ آئے اس کو حل کرنا سیکھیں۔ نہ کہ اس رکاوٹ کی وجہ سے آپ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹیں۔ کیونکہ مسئلے کا حل ، اس کو حل کرنا ہے۔ نہ کہ بھاگنا ہے۔

👈 کب تک آپ مسائل سے بھاگیں گیں؟ آخری سانس تک آپ کے سامنے مسائل آتے رہیں گیں۔

👈 اگر آپ آج اس مسئلے سے بھاگے ، تو کل آپ کے پاس کسی اور زاویے سے یہ مسئلہ آئے گا تو پھر آپ کیا کریں گیں ؟
کب تک بھاگیں گیں ؟

👈 اسی وجہ سے عرض کررہا ہوں کہ
جب بھی ،
جہاں بھی ،
کوئ بھی مسئلہ درپیش ہو اس کو حل کرو۔

👈 اگر آپ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہورہا تو آپ اپنے ہم سفر سے مشورہ کرکے حل کرو۔ لیکن مسئلے سے بھاگو نہیں۔ *بس*
Forwarded from Sarmad Latif
👈 گوگل پلے اسٹور پر موجود آئی مجلس آف دعوت اسلامی
👉 *Informative Applications from IT Department of Dawateislami*
کی مفید ایپلیکیشنز ڈاؤنلوڈ کیجیے اور عام کیجیے⬇️
Prepared by:
T.me/SarmadiMedia

🔵 *القرآن الکریم*
(آڈیو، پی ڈی ایف)
👉 *Al Quran App* (Audio+PDF)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.alquranulkareem

🔵 *صراط الجنان في تفسیرالقرآن* (قرآن،ترجمہ،تفسیر،آڈیو)
👉 *Siratul Jinan Tafseerul Quran App*
(Translation,Tafseer, Audio)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.AlQuran.Translation

🔵 *بہار شریعت* (عقائد،مسائل،فرائض،سنتیں)
👉 *Bahar-e-Shariat App*
(Aqaid,Masail,Faraid,Sunan)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.bahareshariatmaktaba

🔵 *نیک اعمال* (علم،وظائف)
👉 *Naik Aamal App* (Ilm,Wazaif)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.madaniinamat

🔵 *مدنی قاٸدہ* (حروف،مرکبات،قوائد)
👉 *Madani Qaida App*
(Huroof,Qawaid)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.madaniqaida.pro

🔵 *اوقات نماز*
(وقت نماز، قبلہ،الارم)
👉 *Prayer timings*
(Prayer times,Qibla diraction)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.namaz

🔵 *ذہنی آزماٸش*
(سوال،جواب،معلومات)
👉 *Zehni Azmaish*
(Questions,Answers)
⬇️
https://apkdl.net/en/com.dawateislami.zehniazmaishquizapp

🔵 *کلمہ اور دعا*
(بچے،تعلیم وتربیت)
👉 *Kalima Aur Dua App*
(Islamic teachings for Kids)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.kidsapplication

🔵 *حج و عمرہ*
(طریقہ،دعائیں،وظائف)
👉 *Hajj-0-Umrah App*
(Procedure,Dua,Wazaif)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.hasshub.hajjoumrah

🔵 *اسلامک بک لاٸبریری*
( کتب,رسائل)
👉 *Islamic Books Library App*
(Books & Pamphlets)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.OnlineIslamicBooks

🔵 *کلام رضا*
(نعت،منقبت)
👉 *Kalam-e-Raza App*
(Naat,Manqabat)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.salameraza

🔵 *روحانی علاج*
(کاروبار,وظائف)
👉 *Rohani Ilaaj App*
(Karobar,Bemari,Wazaif)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.rohanielaj

🔵 *تجہیزو تکفین*
(میت،غسل،کفن،طریقہ،مسائل)
👉 *Tajhiz-0-Takfeen App*
(Mayiat,Ghusal,Kafan,
Tariqa,Masail)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.tajheezotakfeen
🔵 *مولانا الیاس عطار قادري*
(بیانات،ویڈیو،آڈیو )
👉 *Maulana Ilyas Attar Qadiri App*
(Speeches,Videos,Audios)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.molanailyasqadri

🔵 *مولانا عمران عطاري*
( بیانات، ویڈیوز)
👉 *Maulana Imran Attari App*
(Speeches,Videos)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.hajiimranattari

🔵 *علامہ مفتی قاسم القادري*
( بیانات،مسائل،ویڈیو، آڈیو)
👉 *Allama Qasim Al-Qadiri App*
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.islamicscholar

🔵 *مولانا عبدالحبیب عطاري* (ویڈیو)
👉 *Maulana Abdul Habib Attari App*
( Speeches,Video)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.hajiabdulhabib

🔵 *مدنی چینل ریڈیو*
(آڈیو)
👉 *Madani Channel Radio App*
(Audio)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.madanichannelaudio

🔵 *ڈیٹا بنک*
(دینی کام،مواد)
👉 *Data Bank App*
(Data Saver)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.databank

🔵 *کرامات اعلی حضرت*
(سیرت، کردار)
👉 *Karamat Ala Hazrat App*
(Seerat,Kirdar)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.karamatealahazrat

🔵 *مدنی قافلہ*
(نیت،کام)
👉 *Madani Kafila App*
(Niyat,Work)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.madani.qafla.niyat

🔵 *خصوصی بھاٸی*
(معذور افراد،تربیت)
👉 *Disabled Brothers App*
(Disable people, Learning)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.deaf.dumb.muslims

🔵 *کارکردگی* (دینی کام،تفصیل)
👉 *Karkardagi App*
(Islamic Work,Details)
⬇️
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.dawateislami.karkardagi
*🌿شانِ امامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ🌴*

ابھی فقیہِ اعظم ، شیخ الاسلام ، سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ کا رسالہءِ عجالہ " اجلی الاعلام " ( مشمولہ فتاویٰ رضویہ شریف ، ج ۱ ، صـــ ۱۰۳ تا ۱۳۸ ــــ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور ) پڑھ رہا تھا ، امام احمد رضا حنفی قدس سرہ نے صفحہ ١٤٥ تا ١٤٨ پر شیخ الاسلام علامہ ابنِ حجر مکی شافعی رحمہ اللہ کی کتاب " الخیرات الحسان " سے امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقبِ عالی شان ذکر کیے ہیں ....... چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے اور شانِ امام کے جلوے دیکھیے !!!

① امام ابویوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہم امام اعمش رحمہ اللہ کے پاس حاضر تھے ، حضرت اعمش سے کچھ مسائل دریافت کیے گئے ، اُنھوں نے امام ابوحنیفہ سے فرمایا : تم ان مسائل ( کے بارے ) میں کیا کہتے ہو ؟ امام نے جواب دیا ـ حضرت اعمش نے فرمایا : یہ جواب کہاں سے اخذ کیا ؟ ( امامِ اعظم نے ) عرض کیا : آپ کی اُنھیں احادیث سے جو آپ نے روایت کیں ـ اور متعدد حدیثیں مع سندوں کے پیش کر دیں ـ اس پر حضرت اعمش نے فرمایا : کافی ہے ، میں نے سو دنوں میں تم سے جو حدیثیں بیان کیں وہ تم ایک ساعت میں مجھے سُنائے دے رہے ہو ، مجھے علم نہ تھا کہ ان احادیث پر تمھارا عمل بھی ہے ـ
” *یا معشرالفقہاء انتم الاطبّاء ونحن الصیادلۃ وانت ایھا الرجل اخذت بکلا الطرفین* “
یعنی : اے فقہا! تم طبیب ہو اور ہم عطار ہیں ـ اور اے مردِ کمال تم نے دونوں کنارے لیے ـ

اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ نے امام اعمش رحمہ اللہ کے قول " *ماعلمت انك تعمل بھذہ الاحادیث* ــــ یعنی : مجھے معلوم نہ تھا کہ ان احادیث پر تمھارا عمل بھی ہے " پر اپنا اقول ( میں کہتا ہوں ) بیان کیا ہے ...... فرماتے ہیں : ” امامِ اعمش نے یہ اس لیے فرمایا کہ احادیث میں انھیں امام ( اعظم ) کے استنباط کردہ احکام کی کوئی جگہ نظر نہ آئی تو فرمایا مجھے علم نہ تھا کہ یہ احکام تم ان احادیث سے اخذ کرتے ہو “ ـ

قارئینِ محترم! غور کیجیے! امام اعمش جو امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اُستاذِ حدیث ہیں ، امام صاحب کی فقاہت اور احادیثِ مبارکہ سے مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت دیکھ کر پورے اعتراف کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم گروہِ محدّثین تو صرف پنسار ہیں جو مختلف موضوعات پر احادیث کی تجمیع و روایت کر دیتے ہیں لیکن اے گروہِ فقہا تم طبیب ہو ، تم ہی جانتے ہو کہ کس حدیث سے کون سا مسئلہ اخذ کرنا ہے ـ

② امامِ اجل سیدنا سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے ہمارے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : آپ پر تو وہ علم منکشف ہوتا ہے جس سے ہم سبھی غافل ہوتے ہیں

③ یہ بھی فرمایا : جو ابوحنیفہ کی مخالفت کرے اُسے اس ( بات ) کی ضرورت ہو گی کہ مرتبہ میں ابوحنیفہ سے بلند اور علم میں ان سے زیادہ ہو ــــــ اور ایسا ہونا بہت بعید ہے ـ

سُبحان اللہ! یہ اپنے وقت کے بڑے بڑے محدثین ہیں جو امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان و عظمت کا قصیدہ پڑھ رہے ہیں اور بیان کر رہے ہیں کہ ہم احادیث کا ذخیرہ روایت کرنے کے باوجود امام ابوحنیفہ کی شانِ فقاہت ( جو کہ قرآن و احادیث سے ہی مضبوط ہوتی ہے ) کو نہیں پاسکے ......... پھر کس قدر بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ غیرمقلدین وہابی صرف زبانی ادعائے حدیث دانی اور محض اپنی جماعت کا نام اہلِ حدیث رکھ کر بجھا ہوا چراغ لے کر سورج کے مقابل آتے ہیں ـ وہابی کملو! تم نے اتنی احادیث یک جا دیکھی بھی نہیں ہیں جتنی احادیث امامِ اعظم کے اساتذہ نے اُنھیں پڑھا کر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ " *تم طبیب ہو اور ہم پنسار ہیں* " آپ بہ خوبی جانتے ہوں گے کہ دوائیوں کی کثرت پنسار کے پاس ہی ہوتی ہے لیکن کون سی دوائی کس مرض کے لیے ہے یہ طبیب ہی جانتے ہیں ـ اِسی طرح محدّثین کثرتِ روایت کرتے ، احادیث یاد کرتے اور کتابیں لکھتے ہیں لیکن ان احادیث سے مسائل فقہاے کرام ہی اخذ کرتے ہیں ـ ہزاروں ، لاکھوں احادیث کو سند و متن کی معرفت سے جاننے والے تو کھلے دل سے اعتراف کر رہے ہیں اور آج وہابیہ اور وہابیت زدہ چار پانچ حدیثوں کے ترجمے پڑھ کر اس زعم میں ہیں کہ ہم حدیثوں سے استدلال کر سکتے ہیں ـ

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کا فہم عطا فرمائے ــــ اٰمین ثم اٰمین

🖊️ حسن رضا مشرف قادری حنفی
۲ شعبان المعظم ، ١٤٤٢ ھـــ
17 مارچ ، 2021 ء ـــ چہار شنبہ
🌸 *امام اعظم(نور اللہ مرقدہ)ایک ہمہ جہت شخصیت*🌸

🌹 *ابومعاویہ محمد منعم مدنی*🌹
(چاچڑاں شریف ضلع رحیم یار خان)

کروڑوں حنفیوں کے پیشوا، دلیل المجتہدین، فخر المحدثین،سید الفقہاء و العلماء، جامع المحاسن والفضائل،افتخار ملتِ اسلامیہ، فَقِیہِ اَفْخَم، شَمسُ الْاَئمّہ،سِراجُ الْاُمّہ،کاشف الغمہ، *امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمةاللہ علیہ* تاریخِ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جومسلمانوں کے لئے اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہیں۔ اللہ پاک نے *امامِ اعظم ابو حنیفہ* رحمہ اللہ کو بہت بلندمرتبہ اور علم کے میدان میں ایسی عظیم مہارت وصلاحیت سےنوازا کہ کروڑوں مسلمان آپ کی تقلید کرتے ہیں اورلاکھوں علماومفتیانِ دین اور اَولیائے کاملین بھی آپ کی تقلید کرنے کواپنے لئےاِعزاز کاباعث سمجھتے ہیں۔ آپ رحمة اللہ علیہ بلا شبہ خداداد صلاحیتوں کے حامل، علم و فضل کے بحر ذاخر،حکمت و دانائی کے پیکر مجسم،عاجزی و انکساری کاعملی نمونہ،زہد و ورع کا جبل استقامت،احکام شرع کے جامع اور اسرار معرفت کے مخزن تھے۔

*امامِ اعظم کا تعارف و سیرت*
حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ کا نام نُعمان ،والِد کانام ثابِت اورکُنْیَت ابو حنیفہ ہے۔آپ نے ابتداء میں قرآن پاک حفظ کیاپھر تقریبا 4000 علما و محدّثین کرام سے علمِ دین حاصل کیا۔(تھذیب الاسماء،جلد2،صفحہ501)
آپ رَحْمَة اللہ علیہ 80 ہجری میں عراق کے مشہور شہر کُوفہ میں پیدا ہوئے۔ 2 *شَعبانُ الْمُعظَّم* 150ہجری کو عہدۂ قضا قبول نہ کرنے کی وجہ سے میں آپ رحمةاللہ علیہ کو زہر دے کر شہید کردیا گیا آپ کے جنازے میں تقریبا 50 ہزار بندوں نے شرکت کی(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، صفحہ 94) آپ کی ولادت صحابَۂ کرام کےمُبارک دَور میں ہوئی اور تابعین کےدور میں آپ عظیم مُفتی بن گئےتھے۔ آپ رَحْمَة اللہ علیہ کا چہرہ بڑا ہی خوبصورت تھا،ستھرا و اعلی لباس پہنا کرتے تھے،اچھی خوشبو استعمال کرتے تھے لوگوں کی مدد فرمانے والے تھے،بہت بڑے عابد و زاہد تھے، اللہ پاک کی معرفت اور اس کا خوف رکھنےوالےتھےاپنےعلم سے ہمیشہ اللہ پاک کی رضا تلاش کرنے والے تھے۔
(الروض الفائق فی المواعظ و الرقائق، صفحہ170ملتقطا) ہزاروں محدثین و فقہا آپ کے شاگرد ہیں

*امامِ اعظم کی شان و عظمت*
آپ رَحْمَةاللہ علیہ کواللہ کریم نے بڑی شان و عظمت عطا فرمائی تھی آپ رَحْمَةاللہ علیہ تابعی تھے۔ تابعی اس مُبارک ہستی کو کہتےہیں جسے ایمان کی حالت میں کسی صحابی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہو اور ایمان کی حالت میں ہی اسے موت آئی ہو۔
(شرح نخبۃ الفکر، صفحہ13)
اِن کےزمانےکو زبانِ رسالت سے *بہترین زمانہ* ہونے کی سند حاصل ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے *اِنَّ خَیْرَکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ* بے شک سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھروہ لوگ جواِن کے بعد آئیں گے ،پھر وہ جو اُن کے بعد آئیں گے۔
(مسلم ،کتاب فضائل الصحابۃ، صفحہ 1053حدیث:6475)

*امام اعظم کی بےمثال صلاحیتیں*
امامِ اعظم رَحْمَةاللہ علیہ مُحَدِّث و فقیہ ہونےکےعلاوہ بہت سارے مُحَدِّثین وفقہا کے امام تھے۔ ایسے کئی مسائل کا ذکر کتب میں ملتا ہےکہ جنہیں بڑے بڑےمُحَدِّثین حل نہ کرسکےلیکن آپ رَحْمَةاللہ علیہ نےاللہ پاک کی عطا کردہ صلاحیت سےانہیں فوراحل کر دیا۔جب اس وقت کے بڑے بڑےمفتیانِ کرام آپ کے فتاوىٰ کو دیکھتےتھے تو ان کى عقلیں حیران رہ جاتیں اور انہیں بےاختیار کہنا پڑتا کہ علم کےجس شہرمیں امام ابوحنیفہ رواں دواں ہیں،ہم تو اس کےدروازے تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔
*عبدُ اللہ بن مبارک رَحْمَةاللہ علیہ*
عبداللہ بن مبارک رَحْمَةاللہ علیہ
جیسےعظیم محدِّث جوکہ فنِ حدیث کے *امیرُ المومنین* بھی ہیں اور امام بُخاری رَحْمَةاللہ علیہ کے استاد بھی، فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی شخص امامِ اعظم سے زیادہ عقلمند نہیں دیکھا۔
*خلیفہ ہارون رشید رَحْمَةاللہ علیہ*
ایک مرتبہ مشہورعبّاسی خلیفہ ہارون رشید رَحْمَةاللہ علیہ کے پاس امامِ اعظم رَحْمَةاللہ علیہ کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا:وہ اپنی عقل کی آنکھوں سےوہ کچھ دیکھتے تھے جو دوسرے لوگ اپنےسر کی آنکھوں سے بھی نہیں دیکھ سکتےتھے۔
*حضرت علی بن عاصم رَحْمَةاللہ علیہ*
حضرت علی بن عاصم
رَحْمَةاللہ علیہ نے فرمایا: اگر امامِ اعظم رَحْمَةاللہ علیہ کی عقل کا آدھے اہلِ زمین کی عقل سے مقابلہ کیا جائے تو آپ کی عقل غالب آجائے گی۔
*امام شافعی رَحْمَةاللہ علیہ*
امام شافعی رَحْمَةاللہ علیہ نےتو یہاں تک ارشادفرمایا کہ امامِ اعظم سے زیادہ عقلمند تو کسی ماں نے پیدا ہی نہیں کیا۔(الخیرات الحسان، صفحہ 61)
*امام جلالُ الدّین سُیُوطی رَحْمَةاللہ علیہ*