✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
💥Free Admission💥. *Let's learn Quran with correct pronunciation* A new group G-10 of Madani Qaidah Course will be started from 16th Nov 2020, on "
*First come First serve* "
basis for first 💯 Students. on-whatsapp.
Last date 4 admission is 10.11.20, All Foreigners to join, may contact
WhatsApp 👉 +923216485542
NOTE:
*This WhatsApp Number is only vailed for Foreigners except (Pak o Hind & Azad Kashmir).* The Students from Pak o Hind & Azad Kashmir can only be apply on 11th Nov, 20.

Please Join & Share it.
کلچر کی سرد جنگ، مسلمانوں کی بربادی کا سبب

از: افتخار الحسن رضوی
Iftikhar Ul Hassan Rizvi

مجھے دنیا کے اکثر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا ہے، مثلاً عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ، پارسی، بدھ، قادیانی، اسماعیلی، آغا خانی، ملحد، بہائی، دروز، جین، مانچو وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن سے میرا تعلیمی تعلق ہے، بعض کے ساتھ دفتری و کاروباری امور کا تعلق اور بعض کے ساتھ سیاحتی واقفیت رہی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان تمام لوگوں کو اپنے کلچر اور ثقافت کا پابند دیکھا ہے۔ فقط مسلمان ہی اس فکری کمزوری کا شکار ہیں جو اپنا اصل کلچر اور تہذیب بھول چکے ہیں۔ چند مثالیں درجِ ذیل ہیں؛
ہندو مذہب کے ماننے والے یورپ اور خلیجی ممالک میں مقیم ہیں۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنے کھانے تبدیل نہیں کرتے۔ ہندو خوراک ہی کھاتے ہیں، ہاتھوں میں دھاگے، ماتھے پر تِلک، دیوالی و ہولی کی مناسبت سے وضع قطع بنانا یہ ان کا شعار ہے۔ حتٰی کہ مشرقی افریقی ممالک میں ہندو لوگوں نے اپنے کلچرز سنٹرز بنا لیے ہیں۔ تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ابو ظبی میں ہندو مندر بن چکا ہے، دبئی اور ابو ظبی کے مالز اور بازاروں میں ہندو کلچر پر مبنی مواد و اشیاء بآسانی دستیاب ہیں ، حتیٰ کہ بت اور بھگوان بھی مارکیٹ میں مل جاتے ہیں۔
افریقی ممالک میں آغا خانی لوگوں نے اپنے ہسپتال، سکولز اور مراکز قائم کر رکھے ہیں، جہاں وہ اپنے کلچر پروان چڑھانے کے لیے مہم جاری رکھتے ہیں۔ دہلی شہر میں خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے مزار شریف پر قادیانیوں کے ساتھ ساتھ آغا خان فائونڈیشن کی مدد سے فن پارے اور تزئین و آرائش کا سامان کیا گیا ہے جو مستقبل میں مزار کو بابا گورونانک کے مزار جیسے رنگ میں ڈھال دے گا۔ پہلے سے اس مزار پر ساڑھی پہنے دعوتِ گناہ دیتی خواتین کا مجمع لگا رہتا ہے، یہی حال اجمیر کا ہے، وہاں بھی ناچ گانا معمول کی بات ہے۔ اور یہ ناچ گانا ہندو مذہب کا لازمی جز ہے، جب کہ اسلام اس کی مذمت کرتا ہے۔
جرمنی، انگلینڈ اور دیگر یورپی ممالک میں قادیانی حضرات کی عبادت گاہیں الگ تھلگ نظر آتی ہیں۔ سر پر ٹوپی، واسکٹ اور داڑھی کا مخصوص سٹائل انہیں معاشرے کے دیگر لوگوں سے نمایاں کرتا ہے۔ قادیانی خواتین کا نقاب، حجاب اور برقع جداگانہ ہے۔
دبئی شہر کے معروف علاقے میں بوہری جماعت کی خوبصورت و بڑی مسجد واقع ہے۔ جب کہ متحدہ عرب امارات میں ہی اہل سنت کے دو گروہوں کے باہم تصادم کی وجہ سے مساجد بند ہو چکی ہیں۔ بوہری لوگوں کا لباس، ٹوپی، رومال اور داڑھی انہیں معاشرے کے دیگر لوگوں سے جدا کرتی ہے۔ بوہری خواتین کا برقع مختلف ہے۔ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، سیاحت کے لیے جائیں یا بزنس کے لیے، وہ اپنی پہچان اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ شارجہ کے بہت بڑے انڈسٹریل گروپ کی ملکیت ایک ہندوستانی بوہری خاندان کے پاس ہے، سحر و آسیب کی وجہ سے دو فیکٹریاں برباد ہو گئیں ، کسی دوست کے ذریعے مجھ تک پہنچے، علاج کے دوران میں نے ان کی اصلاح کی بہت کوشش کی، ان کے مالی معاملات سدھر گئی، فیکٹریاں بحال ہو گئیں، لیکن وہ اپنے بوہری کلچر سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔
اسرائیل نے حال ہی میں خلیجی عربی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں، فوری طور پر جو اقدامات اٹھائے گئے اس میں یہودی کھانا “ کوشر” ، یہودی لباس اور ان کی عبادت گاہوں کا قیام شامل ہے۔ کوشر پکانے کے لیے یہودی مذہب کے مطابقت تمام انتظام مکمل کر لیے گئے ہیں اور اسرائیل سے ماہرین بحرین اور متحدہ عرب امارات پہنچا دیے گئے ہیں۔ اسی طرح بحرین اور متحدہ عرب امارات کی منڈیوں میں اسرائیل کے کھیتوں اور فارمز میں اگائے گئے پھل اور سبزیاں پہنچا دی گئی ہیں۔ بحرین میں اسرائیلی آلو میں نے اٹھا کر شاپنگ بیگ میں ڈال لیے، میری اہلیہ کی توجہ دلانے پر معلوم ہوا کہ یہ اسرائیلی آلو ہیں۔
چینی قوم نے اپنے ہر طرح کے کھانے خلیجی ممالک میں حاصل کر رکھے ہیں اور وہ کسی بھی صورت چائنیز کے علاوہ کچھ نہیں کھاتے، تاہم ان کے مسلمان کاروباری پارٹنرز ان کے ساتھ چائنیز کھا کر خود کو بڑا محسوس کرتے ہوئے سیلفیاں ضرور شئیر کرتے ہیں۔
یورپی اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ دیگر ممالک میں جا کر اپنا لباس تبدیل کرتے ہیں نہ ہی طرزِ زندگی پر کوئی اثر پڑنے دیتے ہیں۔ مثلاً لاہور کے ایک پوش علاقے میں مقیم ایک امریکی خاتون nutritionist ہیں، ان کی شادی ایک پاکستانی کے ساتھ ناکام ہو گئی تھی، تاہم وہ بچوں کی وجہ سے لاہور میں رک گئی تھی۔ اس کے کلینک پر آنے والی خواتین نے سمارٹ ہونے کے چکر میں جینز پہننا شروع کر دی ہے، پاستے ، پیزے ، امریکی اور مغربی کھانے شروع کر دیے ہیں، نتیجتاً یہ خواتین منہ سے افریقی اور وضع قطع سے امریکی لگتی ہیں۔ لیکن امریکی خاتون آج بھی صد فیصد امریکی کلچر میں ہی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی زبان، لباس، طعام اور زندگی میں پاکستان جھلک
مفقود ہے۔ لیکن پاکستانی خواتین اس کی پاس ڈائیٹ لینے اور سمارٹنس کے نسخے لینے صرف اس لیے جاتی ہیں کہ ڈاکٹر گوری ہے۔
برطانوی انگریزوں کو ہند و پاک سے گئے ہوئے ستر سے زائد برس ہو گئے ہیں، لیکن ان کا کلچر آج بھی ہماری عدالت، کچہری، تھانہ، فوج، بازار، تعلیمی نصاب اور اب سوشل میڈیا کی صورت میں ہر وقت ہماری جیب میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کو اسلامی کلچر دیا؟ ہم دوسروں سے اتنی جلدی متاثر کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہم فکری اعتبار سے اس قدر کمزور کیوں ہیں؟ ہماری بیٹیاں فلمی لباس، ہمارے بیٹے ہندی و یورپی ایکٹرز کی طرز اور ہم خود غیر مسلم لیڈرز کے لباس و اقوال اور طرز زندگی اختیار کرنے کی خاطر کیوں مرے جاتے ہیں؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ اقوام مغرب ہمارے معاشرے میں جس چیز کو پروموٹ کرنا چاہیں، اس کی ایڈورٹائزمنٹ میں عورت شامل کر لی جاتی ہے، بسکٹ ہو یا چائے، موٹر سائیکل ہو یا پراپرٹی کی خرید و فروخت، لوگ عورت نچا کر مسلمان کو چیز بیچ جاتے ہیں۔
اگر یہی کلچر اور تہذیب ہے تو پھر محمد مصطفٰی ﷺ کی محنت کا کیا فائدہ؟ یہ سب کچھ تو چودہ برس قبل بھی تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے کلچر میں تو حیا ہے، ہم تو وہ ہیں جو اپنے پسند، نا پسند، لباس، کلام، طعام اور طرزِ بود و باش سے دنیا کو بدلنے والے تھے، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم اغیار کی پیروی سے خود کو بدل رہے ہیں؟ ہماری صبح سے لے کر رات بستر پر جانے تک ہونے والے ہر ہر فعل میں چٹی چمڑی، یہود و نصاری کے طرزِ گفتگو، لباس ، اٹھنا بیٹھنا وغیرہ ہی کی پیروی ہے؟ آج ہماری شادیوں میں دلہے کا لباس، دلہن کا لباس میک اپ وغیرہ کس کا کلچر ہے؟ کیا ہماری عادات و اطوار میں کوئی ایک ایسا کام جو واقعی ریاست مدینہ سے تعلق رکھتا ہو؟ یہ گوری عورتیں اتنی آسانی سے مسلمانوں کے ساتھ شادی کیوں کر لیتی ہیں؟ یہ جھٹ سے اپنا مذہب کیوں بدل لیتی ہیں؟
کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری ثقافتی و تہذیبی موت واقع ہو چکی ہے؟ کیا اغیار کا یہ حملہ ہمیں اتنا کمزور نہیں کر چکا کہ فرانس میں سرکاری سطح پر رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہوئی، سوئٹزرلینڈ میں سرکاری سطح پر قرآن کریم کے نسخے جلائے جانے کی حمایت کی گئی لیکن آج پورا عالمِ اسلام اس لیے چپ ہے کہ اغیار کا کلچر ہمارے خون میں شامل ہے، اس لیے ہمیں بولنے کی ہمت ہی نہیں ہو پارہی؟
ذرا سوچیے، کلچر کی یہ سرد جنگ اوراغیار کی یہ خاموش مہم ہمیں کس قدر
کھوکھلا کر چکی ہے۔

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
ان کی جمیعت کا ہے قوم و نسب پر انحصار
قوتِ مذ ہب سے ہے جمیعت تیری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۱۸ نومبر ۲۰۲۰
#IHRizvi
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=4605298479544586&id=100001934398471





*تنظیم و تحریک ـ چند بنیادی اصول*
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
خصوصی خطاب :
*خالد ایوب مصباحی شیرانی*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــ بتاریخ : ١٥/ نومبر ۲۰۲۰
ــــ تلخیص : فیضان سرور مصباحی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 ـــــــ رفاہی کاموں پر فوکس کریں۔ اور ان کاموں کو آگے کریں جو عوام کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں ۔ مثلاً : علاقائی سطح پر میڈیکل کیمپ کا انتظام، حسبِ ضرورت حاجت مندوں کے لیے بلڈ بینک کیمپ ۔ وغیرہ وغیرہ
ورنہ خالص مذہبی کاموں سے آغاز کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کا دائرہ فقط چند مذہبی لوگوں تک ہی محدود ہوکر رہ جائے گا۔
رفاہی کام؛ علاقائی ضرورتوں کے پیش نظر خوب غوروفکر کے بعد طے کرلیے جائیں ۔ اور پھر تسلسل کے ساتھ ان خطوط پر کام جاری رہے ۔

ـــــــ تنظیم و تحریک سے وابستہ ممبران کو مختلف میدانوں سے متعلق موٹی موٹی معلومات رکھنی چاہئیں۔ ان سے زمانی اتار چڑھاؤ کو سمجھنا آسان سے آسان تر ہوجاتا ہے ۔
چنانچہ حالیہ سیاسی مد وزجر ، علاقائی و جغرافیائی کشیدگیاں، وغیرہ وغیرہ پر نظر رہنی چاہیے ۔

ـــــــ شروع میں خود تنظیمی افراد کی باہمی تربیت پر توجہ کی جائے ۔ اس کے لیے صرف خلوص کافی نہیں، بلکہ تنظیمی لاجک و سائنس بھی سامنے رکھنی چاہیے ۔ تنظیم کے ارکان اگر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، اصول ومقاصد کے پسِ پردہ اہم فوائد سے آشنا ہوتے ہیں تو پھر باہمی کشیدگی کے حادثات اور آپسی رکاوٹیں کھڑی ہونے کے معاملات دیکھنے کو کم ملتے ہیں ۔ اور پھر تنظیم بہت تیزی سے آگے بڑھتی ہے ۔

ـــــــ تنظیم کے ارکان کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ عالمی سطح کی سیاست کن مسائل پر گردش کرتی ہے ۔ یوں ہی عالمی سطح پر مسلمانوں کے خاص مسائل کیا کیا ہیں۔ میڈیا والے کن مسائل کو زیادہ تر اچھالتے ہیں ۔ اور ان کے معقول جوابات کس انداز میں دیئے جاسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
مثلاً : مسئلۂ فلسطین، کشمیر قضیہ، مسلم تعلیمی پس ماندگی وغیرہ یہ مسائل ایسے ہیں کہ آئے دن ان پر کچھ نہ کچھ سیاسی جماعتیں بیان دیتی رہتی ہیں، ملکی وعالمی میڈیا پر بھی یہ باتیں چرچے میں ہوتی ہیں ۔ تنظیمی افراد اگر ان کے پسِ منظر پر نظر رکھیں گے تو بہت سے ایشوز کے حل، یا ذاتی نقطۂ نظر خود بخود نکال لیں گے ۔

ـــــــ تنظیم اگرچہ علاقائی سطح کی ہو ۔ مگر تنظیمی افراد وسیع پیمانے پر سوچنے والے ہونے چاہئیں ، تنظیمی مائنڈ سیٹ مضبوط سے مضبوط تر ہوگا تو پھر تنظیمی ترقی کے بہت دروازے کھلے ملتے ہیں ۔

جب کہ محدود سوچ رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں بنی بنائی ایک ترقی یافتہ بڑی تنظیم کی باگ ڈور بھی تھمادی جائے، تو اسے ایک کاغذی تنظیم بننے میں زیادہ برسوں کی حاجت نہ ہوگی ۔

ـــــــ ارکان کو موجودہ میڈیا میں سے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا کے بارے میں بھی بنیادی معلومات رکھنی چاہیے۔ اور موقع بموقع حسبِ ضرورت حصہ لیتے رہنا چاہیے ۔
مثلاً : ٹیوٹر ٹرینڈ اس زمانے میں دھرنے کا بہترین متبادل کے طور پر سامنے آیا ہے ۔ ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے اپنی دو چار انگلیوں کے ذریعے پوری دنیا میں دھمال مچا سکتے ہیں، عالمی طور پر کسی قسم کے مسائل اٹھاسکتے ہیں، اسلام مخالف پروپیگنڈے کا جواب دے سکتے ہیں ۔
اسی طرح یوٹیوب کا مثبت اور صحیح استعمال بھی کرتے رہنا ایک بہترین اسٹیج کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔

ـــــــ زمینی سطح پر کام کرنے کے لیے پہلے دائرۂ کار متعین کرلینا چاہیے ۔ جو بس میں ہو؛ وہی کریں، تمام تر کاموں کا بوجھ خود اپنے سر نہ ڈال لیں ۔ دنیا میں الگ الگ مقاصد کے لیے مستقل تحریک وتنظیمیں کام کررہی ہیں، انھیں دیکھ سکتے ہیں ۔
اس سلسلے میں جذباتی بننے کے بجائے بڑی دانشوری کے ساتھ اپنے اہداف واغراض کا تعیین کرنا چاہیے ۔

ـــــــ لوگ دنیا کے سیاسی نظام کے تابع ہوتے ہیں ۔ اس سے ایک لیڈر اور متحرک کارکن کو حالیہ عالمی وملکی سیاست سے باخبر رہنا چاہیے ۔ ایک زمانے تک بابری مسجد کا ایشو سیاست میں اہم پوائنٹ بنارہا ۔ اسی پر کتنی حکومتیں، بنیں اور تخت سے اتریں ۔ ایک زمانے تک مسلم سیاست بھی اسی کے اردگرد گردش میں رہیں، لہٰذا سیاسی بیانوں کے مزاج اور تیور کو سمجھنے کے یہ پہلو بالکل سامنے ہونا چاہیے ۔


[زوم آئیڈی کے ذریعے خصوصی میٹنگ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ۔ جس میں حضرت استاذ خالد ایوب مصباحی کا بیان ہوا ۔ چند باتیں جنھیں نوٹ کرسکا، یا سمجھ سکا ۔ خلاصہ پیش کردیا ہے۔ فیضان سرور مصباحی ]
مسلم لڑکیوں کا ہندو لڑکوں سے شادی کرنے سے متعلق اپریل ۲۰۰۶ میں احقر کا لکھا یہ اداریہ۔۔ کیا اس طوفان کی ہمیں خبر ہے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہمارے یہاں اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔ اور آج یہ مسئلہ بہت مشکل مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اس کا تدارک بہت مشکل ہوچکا ہے۔
بخاری شریف اور "بہجۃ الاسرار" کی استنادی حیثیت سے متعلق ایک خلجان کا ازالہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حضور غوث اعظم سیدنا شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی سیرت مبارکہ پر مشتمل اہم اور مستند کتاب : "بہجۃ الاسرار " کے بارے میں تفصیلی بحث ذکر کرنے کے بعد اعلی حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

الحمدللہ ان عباراتِ ائمہ و اکابر سے واضح ہوا کہ امام ابو الحسن علی نورالدین مصنف کتاب مستطاب "بہجة الاسرار" امام اجل امام یکتا محقق بارع فقیہ شیخ القراء منجملہ مشاہیر مشائخ علماء ہیں، اور یہ کتاب مستطاب معتبر و متعمد کہ اکابر ائمہ نے اس سے استناد کیا اور کتب حدیث کی طرح اس کی اجازتیں دیں۔ *کتب مناقب سرکار غوثیت میں باعتبارِ علوِ اسانید اس کا وہ مرتبہ ہے؛ جو کتب حدیث میں موطائے امام مالک کا۔ اور کتب مناقب اولیاء میں باعتبارِ صحتِ اسانید اس کا وہ مرتبہ ہے جو کتب حدیث میں صحیح بخاری کا، بلکہ صحاح میں بعض شاذ بھی ہوتی ہیں اور اس میں کوئی حدیث شاذبھی نہیں، امام بخاری نے صرف "صحت" کا التزام کیا۔ اور ان امام جلیل نے صحت و عدم شذوذ دونوں کا،* اور بشہادتِ علامہ عمر حلبی وہ التزام تام ہوا کہ اس کی ہر حدیث کے لئے متعدد متابع موجود ہیں۔ والحمدللہ رب العالمین۔ (فتاوی رضویہ جلد 28 377، سرچ اپلیکیشن)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــ اعلی حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی علیہ الرحمہ کی اس عبارت میں مجھے یہ سمجھنا تھا کہ :
آیا بخاری شریف کی روایات میں "صحت" اس معنی میں ہے جو سیدی امام اہل سنت علیہ الرحمہ نے ذکر فرمایا ہے۔ یعنی: اتصال اور رجال سند کی ثقاہت؟ کیا بخاری شریف کی روایات میں شذوذ بھی ہیں؟
یعنی امام بخاری علیہ الرحمہ نے صحیح کی تعریف میں سے صرف تین چیزوں ــ اتصال سند، ضبط اور عدالت راوی _ پر اکتفاء فرمایا ہے۔ آخری دو شرائط _ علل و شذوذ _ کا خیال نہیں رکھا ہے؟ جیساکہ اصولیین کا طرز عمل ہے۔ یا پھر محدثین کی روش کے مطابق پانچوں شرائط کا لحاظ فرمایا ہے؟
یعنی : بخاری شریف کا "اصح الکتب" کے درجے پر فائز ہونا بطرز محدثین ہے یا بطرز اصولین؟
یہ سوال یہاں اس لیے پیدا ہوا کہ مذکورہ عبارت میں اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی نے امام بخاری علیہ الرحمہ سے شذوذ کی نفی کی ہے اور صاحب بھجہ کے لیے اس کا اثبات فرمایا ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــ اس پر حضرت مولانا اسلم نبیل ازہری (انڈیا ) کی طرف سے جواب ملا کہ :

یہاں شاید امام اہلسنت اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی مراد یہ ہے :
امام بخاری نے اپنی صحیح میں صحت اصطلاحی کا التزام کیا ؛ جس میں عدم شذوذ بھی داخل ہے، لیکن امام بخاری بعض احادیث میں عدم شذوذ کی شرط نبھا نہ سکے؛ اسی لیے امام دارقطنی وغیرہ نے بعض احادیث کو معلول قرار دیا، اور بعض علل کو علما نے تسلیم بھی کیا۔
مذکورہ عبارت میں اعلی حضرت نے شرط نہ نبھانے کو "عدم التزام" سے تعبیر فرمایا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ علما نے بعض احادیث میں عدم شذوذ کی شرط کو تسلیم ہی نہیں کیا ۔
جبکہ بہجۃ الاسرار کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔

هذا ما ظهر لي
# الأزهري
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــ میرے سوال پر حضرت علامہ نثار احمد مصباحی (انڈیا) یوں جواب رقم فرماتے ہیں :

امامِ اہلِ سنت کی مراد یہ ہے کہ بخاری کی بعض روایات میں شذوذ ہے اور صاحبِ بہجہ کی ان مرویاتِ مناقب میں شذوذ نہیں.
اسی کو فرمایا کہ امام شطنوفی نے (ہر ہر روایت میں) عدمِ شذوذ کا بھی لحاظ کیا ہے. اور کسی بھی روایت میں شذوذ نہیں آنے دیا. جب کہ امامِ بخاری کے اہتمامِ صحت اور شذوذ و علت سے بچانے کے باوجود بخاری کی بعض روایات کو بعد کے کچھ محدثین نے معلول و شاذ قرار دیا ہے. اور ان کی بعض تنقیدیں درست بھی ہیں, جب کہ بہجہ کی مرویات و اسانید کے معاملے میں ایسا نہیں ہے.
واضح رہے کہ امامِ اہلِ سنت کی اس عبارت میں نہ بہجہ کا بخاری پر تفوق بتانا مقصود ہے اور نہ ان میں کوئی تقابل کرنا مقصود ہے. کیوں کہ دونوں کتابیں الگ الگ فن کی ہیں. یہاں صرف بہجہ کی ہر روایت کے درجۂ صحت پر ہونے کا اِظہار مقصود ہے. واللہ تعالی أعلم

#نثار-مصباحی
١٠ ربيع الغوث ١٤٤٢ھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سائل : وپیش کش :
ابو الحسن محمد شعیب خان
25 نومبر 2020
*سیکھتے سیکھتے*

سیکھتے سیکھتے گاڑی چلا نا آ ہی جاتی ہے
سیکھتے سیکھتے کھانا پکانا آ ہی جاتا ہے
سیکھتے سیکھتے چلنا آ ہی جاتا ہے
سیکھتے سیکھتے کمپیوٹر چلانا آ ہی جاتا ہے
سیکھتے سیکھتے موبائل چلانا آ ہی جاتا ہے

*تو سیکھتے سیکھتے دین اسلام کیوں نہیں آسکتا؟*
*بات یہ ھے کہ دین اسلام سیکھنا ھی نہیں چاہتے اس کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں*

لیکن باقی سب چیزوں کیلیئے بہت وقت ھے
انگریزی آجاتی ہے
کمپیوٹر آجا تا ہے
موبائل آجاتا ہے
ریاضی آجاتی ہے
فزکس آجاتی ہے
کیمسٹری آجاتی ہے
بوٹنی آجاتی ہے
بائیولوجی بھی آجاتی ہے
*نہیں آتا تو اسلام سمجھ میں نہیں آتا نماز سمجھ میں نہیں آتی -۔۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔۔۔۔- دراصل ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے*
موبائل پاس ورڈ

ایک حاملہ خاتون سیڑھیوں سے گری اور گرتے ہی بےہوش ہو گئی. اس وقت گھر میں اسکی دس سالہ بیٹی کے سوا کوئی بھی نہیں تھا. بچی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے. پھر اس نے اپنی امی کا موبائل اٹھایا. تاکہ ابو کو کال کرے. لیکن موبائل پہ پاسورڈ لگا ہوا تھا. بچی کچھ نہ کر سکی. بالآخر ماں اپنی زندگی سے ہار گئی.
اسی طرح تین دوستوں کو دوران سفر کار حادثہ پیش آیا۔ایک اجنبی نے سارا معاملہ دیکھا. اور وہ انکی مدد کرنا چاہتا تھا۔مگر اس کے پاس کوئی موبائل فون نہیں تھا۔جس کار کو حادثہ پیش آیا. اس میں چھ موبائل تھے. مگر ہر ایک کے موبائل پہ پاس ورڈ لگا ہوا تھا.
نتیجتاً وہ بروقت اسپتال نہ پہنچ سکے.
غلطی کس کی ہے؟
آپ اپنی معلومات کے بارے میں بہت حساس ہیں. جبھی موبائل پہ پاس ورڈ لگاتے ہیں.
یہ اچھی بات ہے. پاس ورڈ ضـــــرور لگائیں. لیکـــــــن صرف واٹس ایپ، پیغامات، فیس بک اور دوسری اہم فائیلز پر ہی لگائیں.
صرف کال کرنے والے آپشن کو کھلا چھوڑ دیں.
ہو سکتا ہے. کہ آپ ایک دن اپنی یا اپنے کسی چاہنے والے کی زندگی بچا سکیں .
آپ کے موبائل کا پاس ورڈ اللہ نہ کرے آپ کے لیے موت کا پیغام بھی ہو سکتا ہے.
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ... کے شاگردوں میں دیکھیں کون کون ہے اور... یہ دیکھیں کون سے محدث نے امام اعظم کے شاگردوں سے فیض نہیں پایا...اللہ اکبر... حنفییو احساس کمتری کا شکار نہ ہوا کرو... کہ جی اہلحدیث تو ہر مسئلے میں حدیث پاک بیان کرتے ہیں... یہ احادیث انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں یا شاگردوں کے شاگردوں سے لی ہیں... تو کیا امام اعظم کو احادیث پاک نہیں آتی تھیں..؟ کتنی عجیب بات ہے جو زمانہِ صحابہ و تابعین پائے اس کو حدیث کا علم نہ ہو اور جو ان کے سو سال بعد آئیں ان کو زیادہ پتہ ہو. مسائل میں اپنے مستند علماء کرام سے رجوع فرمایا کریں. ان شاءاللہ عزوجل مسائل کے متعلقہ احادیث کی طرف رہنمائی ہو گی...اورشیطان کا وسوسہ دورہوگا...! شیخِ طریقت مرشِدی عطّار کا امامِ اعظم کو خراج تحسین.. ہو نائبِ سرور دوعالم امام اعظم ابو حنیفہ سراجِ امت فقیہ اَفخَم امامِ اعظم ابو حنیفہ جوبے مثال آپ کا ہے تقوی تو بےمثال آپ کاہے فتوی ہیں علم وتقوی کے آپ سنگم امام اعظم ابو حنیفہ
*ملحد کے سوال پر*
*مؤمن کا جواب*

ہمارے پاکستان میں آج کل ملحدوں کا فتنہ بھی ہر گزرتے وقت کے کے ساتھ بڑھتا ہوا محسوس ہو رھا ہے ایک دوست نے ملحد کا ایک انتہائی بےوقوفانہ استدلال بھیجا کہ
*" جیسے ایک مسلمان کے گھر میں بچہ پیدا ہو اور وہ بلوغت سے پہلے اگر فوت ہوجائے تو جنت میں داخل ہوگا اسی طرح اگر کسی کافر کے گھر بچہ پیدا ہو اور وہ بھی حد شعور تک پہنچنے سے پہلے مر جائے تو الله پاک کے عدل کے مطابق وہ بھی جنت میں جائے گا اگر اس کے بارے میں دخولِ دوزخ کا قول کیا جائے تو یہ اس کے عدل کے خلاف ہے*
**اسی طرح اگر کوئی ملحد وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں تحقیقات کرتا ہے اور اس کی تحقیقات کے مطابق وجود ثابت ہو تو اب اس کیلیے الله پاک کے وجود کو ماننا لازم ہے اگر یہ شخص نہیں مانے گا تو جہنم کا مستحق ہے لیکن اگر یہ منصفانہ تحقیقات کرے اور اس کی تحقیق میں وجودِ باری تعالیٰ کا ثبوت نا (نعوذ بالله عزو جل) ہو تو اگر اس کیلیے بھی یہ کہا جائے کہ داخلِ جہنم ہوگا تو یہ اس الله پاک کے عدل کے خلاف ہے ایسا شخص وجود باری کا انکار کر سکتا ہے*
یہ پڑھنے کے بعد حیرت اور افسوس کے ملے جلے سے جذبات تھے یہاں پر کفار کے بچوں کا جنتی ہونا یا نا ہونا موضوعِ بحث نہیں وہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے لیکن وجودِ باری تعالیٰ پر تحقیق کرنا اور ثبوت تک پہنچنا اور نا پہنچنا واقعی عجیب ترین گل کھلانا ہے

*اوّلاً* تو یہ کہ تحقیقات Research اس چیز میں کی جاتی ہے جو نظر و فکر سے ثابت ہو
اس عقل کے دشمن ملحد سے اگر پوچھا جائے کے جب دوپہر کے وقت سورج عین تمہارے سر کے اوپر ہو تو اس وقت دن کی موجودگی اور ثبوت کیلیے تم کونسی تحقیق کر کے اپنے دل و دماغ کو یہ یقین دلائوگے کے واقعی اس وقت دن ہے، کسی تحقیق کے بغیر آپ کے دل و دماغ اس بات کی گواہی دینگے کہ دن ہے ایک چیز بدیہی Intuitive ہے ایک چیز کو پوری دنیا مانتی ہے اسی طرح خود آپ کا دل و دماغ اس کے وجود کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں وہاں تحقیق کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اسی طرح ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کیلیے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے اس کا وجود بدیہی ہے جس کے اقرار کیلیے عقلِ سلیم ہی کافی ہے، تو اگر کوئی بدبخت وجود باری تعالیٰ پر تحقیق کرے اور ثبوت تک نا پہنچے تو اپنی عقل پر ماتم کرے نا کہ تحقیق پر الزام ٹہرائے۔
*ثانیاً* تمام عقلاء چاہے وہ مذہب کو ماننے والے ہوں یا نا ماننے والے لیکن اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ *کسی فعل کیلیے اس کا فاعل ہونا ضروری ہے بغیر فاعل کے فعل نہیں پایا جاسکتا* ایک ملحد اور سائنس دان ایک معمولی گھڑی کو دیکھ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ کسی بڑے ہی ماہر کی ایجاد ہے کے جو قوائد ہندسہ(digits) کے اصول سے پورا واقف ہے اور یہ یقین کر لیتا ہے کے ضرور بالضرور اس گھڑی کا کوئی بنانے والا ہے کہ جس نے عجیب انداز سے اسکے پرزوں کو مرتب کیا ہے اور جس کے ذریعہ اوقات کا بخوبی پتہ چلتا ہے حالانکہ وہ یہ امر بخوبی جانتا ہے کہ دنیا کی گھڑیاں اور گھنٹے وقت بتلانے میں بسا اوقات غلطی کرتے ہیں مگر چاند سورج جو کبھی طلوع اور غروب میں غلطی نہیں کرتے اور جنکے ذریعہ سارے عالم کا نظام حیات اور نظام اوقات چل رہا ہے ، عجیب بات ہے کہ یہ ملحد چاند اور سورج کے صانع کا اقرار نہیں کرتا لیکن گھڑی کے صانع کا اقرار کرتا ہے اگر اس موقعہ پر کوئی یہ کہنے لگے کہ اس گھڑی کو ایک ایسے شخص نے بنایا ہے جو اندھا اور بھرا اور گونگا ہے اور ناسمجھ اور بے خبر اور علم ہندسہ سے بے بہرہ اور کل سازی کے اصول سے ناواقف ہے تو کیا یہی فلسفی اور سائنسدان اس کہنے والے کو پرلے درجہ کا احمق نہ بتلائےگا ؟ غرض یہ کہ جہاں صنعت اور کاریگری پائی جائیگی صانع کا تصور اور اقرار ضرور کرنا پڑےگا تو اتنا بڑا نظامِ شمسی (SOLAR SYSTEM) بغیر صانع کے کیسے بن گیا؟؟ تو ان ملحدین کے مسلّمہ قواعد کی رُو سے بھی وجودِ باری تعالیٰ کو بھی لازمی ماننا پڑے گا ۔

*ثالثاً* یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ دین سے بیزار اشخاص سائنس کی تحقیقات و نظریات پر اتنا یقین رکھتے ہیں جتنا ایک مومن نصوص قرآنیا پر یقین رکھتا ہے تو مناسب ہوگا کہ انہی کی تحقیق ان کے سامنے رکھی جائے
اس کائنات کے وجود کے بارے میں سائنسدانوں کی جو مسلمہ *تھیوری Theory ہے اس کو بگ بینگ Big Bang* (بہت بڑا دھماکا) کا نام دیا جاتا ہے اس تھیوری کے مطابق آج کے دور سے تقریبا 14ارب سال پہلے،جب کائنات کا سارا مادہ ایک نقطے میں بند تھا ،ایک عظیم الشان دھماکہ ہوا تھا،جس سے یہ مادہ پھیلنا شروع ہوا اور مختلف کہکشائیں،ستارے اورسیارے وجود میں آئے۔امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے کائنات کے پھیلاؤکا نظریہ پیش کیااور کہا کہ کائنات عدم سے معرض وجود میں آنے کے بعد سے مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس نظریے کو مقبولیت حاصل ہوئی اور سائنس دانوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور اس میں مختلف تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔
یہ بھی متفقہ مسلمہ اصول ہے کہ *ہر
حرکت کے پیچھےاس کا کوئی محرک (حرکت پیدا کرنے والا)ہوتا ہے جواس کونظم و ترتیب کے ساتھ حرکت دیتا ہے* *اوراس کو آگے بڑھاتا ہےاوراگر اس کےساتھ کوئی محرک نہ ہو تو حرکت اورعمل نامکمل اور بے ترتیب رہ جاتا ہے* تو انسان جب اس عالَم کو دیکھتا ہے تو اس میں ایک غیر معمولی نظم اور اصول نظرآتا ہےجو دلالت کرتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی موجد ہےجو اپنےعلم سےاس میں کام کررہا ہے لہذا ہم یہ ماننے پرمجبور ہیں کہ کائنات کی تخلیق کے وقت اتناعظیم دھماکہ اور اس کے بعد پےدرپے تبدیلیاں کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتیں ،یا یہ سب بغیرکسی خالق کے خودوجود میں نہیں آسکتا، جیسا کہ منکرین خداکا گمان ہے ، اگر اسی سائنسی نظریہ Big Bang کو قرآن پاک کی روشنی میں دیکھا جائے تو الله جل و علا نے سورۃ انبیاء میں ارشاد فرمایا
*أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا*
*جو لوگ منکر ہیں کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین دونوں (اپنی ابتدائی خلقت میں) ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا*
اسی طرح بگ بینگ نظریے ہی میں مزید آگے سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی دوربینیں لے کر اس فاصلے کے آخر تک پہنچ جائیں تب بھی یہی نظارہ ہوگا کیونکہ کائنات میں مسلسل وسعت ہو رہی ہے۔ اللہ تعالی نے کتنی سچی بات فرمائی ہے:‎
*وَالسَّمَاء بَنَيْنَاھَا بِسَيْدٍ وَاِنَّا لَمُوسِعُونَ* (الذاریات۔47)‎
*''آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اِسےوسیع کرتے جا رہے ہیں۔''*
صرف ان دونوں آیات کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہ بالکل صاف صاف اسی نظریہ تخلیقِ کائنات کو بیان کر رہی ہیں جبکہ یہ سائنسی تحقیق *( Big Bang Theory )* ابھی ماضی قریب میں دنیا کے سامنے پیش ہوئی حالانکہ اسی نظریہ کو تو قرآن پاک نے صدیوں پہلے بتا دیا تھا اب اگر ان سے پوچھا جائے کہ قران جس کا کلام ہے اس ذات کو کیسے پتا چلا کہ دنیا اس طرح وجود میں آئی؟ یہ بالکل ظاھر ہے کہ یہ دھماکہ یا تو اس ذات نے کیا ہوگا یا کسی دوسری ذات نے اور تو کوئی ہستی تھی نہیں لازماً ماننا پڑے گا کہ وہی ایسی ذات ہے جس نے کن فرمایا اور یہ کائنات تخلیق ہوگئی،
اس کے علاوہ بھی وجودِ باری تعالیٰ پر عقلی دلائل تو بہت ہیں لیکن عقلمند کیلیے یہی کفایت کریں گے لیکن پھر بھی اگر کوئی اُس کے وجود پرتحقیق کرے اور پھر اس کی تحقیق سے وجود ثابت ہا ہو تو اس کو کسی ماہرِ نفسیات کی ضرورت ہے نا کہ تحقیق کرنے کی
✍️ *ابو عمر غلام مجتبیٰ العطاری المدنی*
خوش طبعی ( مزاح ) ، بہت پیاری عادت ہے ۔
اس کے پیارا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کائنات کی سب سے پیاری ہستی کے مزاج میں بھی خوش طبعی تھی ۔

سیدنا عبداللہ بن حارث کہتے ہیں:

مارایت احدا اکثر مزاحا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا اکثر تبسما منہ ۔

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو خوش مزاج اور مُتَبَسِم نہیں دیکھا ‌۔

( الانوار فی شمائل النبی المختار ، ت محی السنۃ بغوی رحمہ اللہ ، باب فی سرورہ وضحکہ ومزاحہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، ص 247 ، ر 301 ، ط دارالمکتبی سوریۃ دمشق ، س 1416ھ )

مزاحیہ طبیعت رکھنے والا انسان منکسر المزاج ہوتا ہے ، اور تکبر سے محفوظ رہتا ہے ۔

مولا علی پاک فرماتے تھے:

جس آدمی میں خوش طبعی کی خصلت ہو وہ تکبر سے بچ جاتا ہے ۔

( فلسفہ عقل و حماقت ، بحوالہ: الظراف والمتماجنین لابن جوزی رحمہ اللہ ، ص 53 ، ط کرماں والا بک شاپ لاہور ، س 2007 ء )

اس لیے کبھی کبھی مزاح بھی کرنا چاہیے ، اور ایسا مزاح قبول بھی کرنا چاہیے جو خلافِ شرع نہ ہو ۔
بعض لوگ خشکی کی حد تک سنجیدہ ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ بالکل اچھی عادت نہیں ؛ اس عادت سے جتنا جلدی ہوسکے جان چھڑا لینی چاہیے ۔

المزاح فی الکلام کالملح فی الطعام ۔
گفتگو میں مزاح ایسے مزہ دیتا ہے ، جیسے کھانے میں نمک مزے دار ہوتا ہے ۔

کھانے میں بیسیوں مصالحے ڈال لیں ، ایک نمک نہ ہو تو کچھ مزہ نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ جتنا مرضی فصیح و بلیغ اور عالم فاضل ہو ، اگر اس میں حسِ مزاح نہیں تو وہ رُوکھا ہے ۔

✍️لقمان شاہد
5-1-2021 ء
💕میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی
جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں
میرا نام شہزادی ہے سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا
لیکن کچھ مجبوریوں میں عمر سے شادی کر دی گئی
مجھے عمر اچھا نہیں لگتا تھا
ان کا کام بھی اتنا اچھا نہ تھا
خیر میں اللہ کے سامنے رو کر دعا مانگتی تھی یا اللہ
یا تو عمر کو مار دے یا پھر اس سے جان چھڑوا دو میری کسی طرح
💕وہ جاہل سا بولنے کا بھی نہیں پتا
میں ہر بات پہ عمر کو بے عزت کر دیتی
تنقید کرتی عمر پہ غصہ کرتی
عمر مجھے پیار سے سمجھاتا
کبھی چپ ہو جاتا
کبھی غصہ ہو کر گھر سے باہر چلا جاتا
💕میں ایک بار جھگڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی اور ضد کی کے بس طلاق لینی ہے عمر سے
امی ابو نے بہت سمجھایا کے بیٹی لڑکا اچھا ہے نہ کرو ایسا
بس بیچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے
باقی کیا کبھی اس نے تم پہ ہاتھ اٹھا یا یا گالی دی ہو
لیکن میں بس طلاق لینا چاہتی تھی
میں نے جھوٹ بولا کے وہ خرچہ نہیں دیتا مجھے
امی ابو نے عمر کو بلوا لیا
وہ میرے سامنے بیٹھا تھا
امی ابو کہنے لگے عمر کیوں بھای تم شہزادی کو خرچہ کیوں نہیں دیتے
💕عمر بابا سے مخاطب ہو کر بولا
انکل جی جو کما کر لاتا ہوں سب اخراجات نکال کر جو بچتا یے شہزادی ہاتھ پہ رکھ دیتا ہوں
میرے چاچا تایا سب موجود تھے وہاں
میں بولی مجھے 30 ہزار روپے ہر مہینے چاہئے بس
اس شرط پہ ہی جاوں گی میں عمر کے ساتھ
عمر خاموش ہو گیا
سر جھکائے بیٹھا تھا
💕چاچا بولے ہاں عمر دے سکتے ہو خرچہ 30 ہزار
کچھ لمحے خاموش رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا
لمبی سانس کی بولا ٹھیک ہے میں شہزادی کو 30 ہزار روپے دوں گا الگ سے ہر مہینے
میں نے دل کی گالی دی کمینے دیکھنا جینا حرام کر دوں گی تمہارا
میں عمر کے ساتھ چلی گئی
ہم بجلی پانی گیس کا بل راشن کھانا سب اخراجات بھی تھے
💕عمر سے جب بھی پوچھا کیا کام کرتے ہو تو کہتا گورنمنٹ آفس میں کام کرتا ہوں
اس کے علاوہ نہ میں کبھی پوچھا نہ انھوں نے بتایا
خیر عمر مجھے ہر مہینے 30 ہزار روپے دیتا
ایک دن میں نے کہا مجھے آئی فون لیکر دو
میں بس تنگ کرنا چاہتی تھی کے عمر مجھے طلاق دے دے
عمر مسکرانے لگا
میرے پاوں پکڑے اور بولا شہزادی لے دوں گا پریشان نہ ہو
تم بس مجھے چھوڑ کر جانے کی بات نہ کیا کرو
جو کہو گی کروں گا
میں کبھی کھانے میں مرچ ڈال دیتی تو کبھی زیا دہ نمک
وہ تھکا ہارا کام سے آتا کھانا کھا کر بے ہوشی کی طرح سو جاتا
💕نہ جانے کون سا کام کرتا تھا کے اتبا تھک جاتا ہے
میں جتنی نفرت کرتی تھی اس جاہل سے وہ اتنی محبت کرتا تھا
میں ایک دن اپنی دوست کے ساتھ کار میں شاپنگ کرنے جا رہے تھے شہر کے سب مہنگے اور بڑے مال میں
جب ہم ایک بس اڈے کے پاس سے گزرے تو
میری زندگی نے جو لمحہ دیکھا
میں بے جان ہو گئی
وہ عمر جسے میں بہت نفرت کرتی تھی
💕جس کو میں جاہل ان پڑھ کہتی تھی
جس کو کبھی میں نے پیار سے کھانا تک نہ دیا تھا
جس کا کبھی حال نہ پوچھا تھا
جسے میں انسان ہی نہیں سمجھتی تھی
جسے میں قبول ہی نہیں کرنا چاہتی تھی
وہ عمر سر پہ بوجھ اٹھائے کسی کا سامان بس پہ چڑھا رہا تھا
ٹانگیں کانپ رہی تھی
پرانے سے کپڑے پہنے
پسینے سے شرابور
پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی
💕فارس میں مر کیوں نہ گئی تھی
وہ میرے لیئے کیا کچھ کر رہا تھا
اتنے میں ایک شخص بولا اوئے چل یہ سامان اٹھا اور دوسری بس کئ چھت پہ لوڈ کر
عمر کو شاید بھوک لگی تھی
ہاتھ میں روٹی پکڑی رول کیا ہوا
ساتھ روٹی کھا رہا تھا ساتھ سامان اٹھا رہا تھا
میں قربان جاوں
میرا عمر میرے لیئے کس درد سے گزر رہا تھا
میں آنسو لیئے دیکھتی رہی
کام ختم ہوا
وہاں سائیڈ پہ ایک دکان کے سامنے زمین پہ بیٹھ گیا
کتنی بے بسی تھکن تھی عمر میں
سارا دن وہاں درد سہنا رات کو میری باتیں
فارس سر وہ حادثہ تھا یا اللہ کی مرضی بس میرا دل بدل گیا
💕میں بن بتائے کچھ خریدے گھر واپس لوٹ گئی
بہت روئی تھی بہت زیادہ
عمر کو پلاو پسند تھا میں نے پلاو بنایا
عمر گھر آیا
میں اسے کھانا نہیں دیتی تھی خود گرم کر کے کھاتا تھا
گھر آیا
مجھ سے سلام کیا کچن میں گیا
پلاو دیکھ کر بولا شہزادی آج تو آپ نے کمال کر دیا
ایک سال بعد پلاو کھانے لگا ہوں
فارس سر کھانا پلیٹ میں ڈال کر میرے پاس بیٹھ گئے کھانا کھانے لگے میں عمر کی طرف دیکھے جا رہی تھی
عمر کتنا درد سہتا ہے اور بتاتا بھی نہیں
میں کتنی اذیت دیتی ہوں کوئی شکوہ نہیں
عمر پہ آج مجھے بہت پیار آ رہا تھا
دل چاہ رہا تھا سینے سے لپٹ جاوں
عمر نے کھانا کھایا
پھر جیب سے پیسے نکالے کہنے لگا یہ لو شہزادی 30 ہزار
میں چیخ چیخ کر رونے لگی عمر کے پاوں چوم لیئے
عمر مجھے کچھ بھی نہیں چاہئے
مجھے یہ پیسے نہیں چاہئے
عمر حیران تھا مجھے کیا ہو گیا ہے
عمر نے میرا ہاتھ تھاما بولے
اگر یہ پیسے کم ہیں تو اور لا دوں گا مجھے چھوڑ کر نہ جانا
💕کہنے لگے شہزادی بہت بھولی ہو تم
پاگل تم بچھڑنے کے بعد کہاں بھٹکو گی خدا جانے
بہت پیار کرتا ہوں نا تم سے اسلیئے تم کو خود سے دور نہیں کر سکتا
میں عمر کے سینے سے لگ گئی آج مجھے
نہ کوئی آئی فون چاہئے تھا نہ کوئی بڑا گھر گاڑی
مجھے اب دنیا کی کوئی خبر نہ تھی میری دنیا عمر بن چکا تھا
ہم عورتیں کیسے منہ پھاڑ کر کہہ دیتی ہیں جب کھلا نہیں سکتے تھے تو شادی کیوں کی
بات بات پہ جھگڑا اور طعنے شروع کر دیتی ہیں
کبھی اہنے شوہر کا وہ چہرہ دیکھنا جیسے میں نے عمر کا دیکھا تھا
خدا کی قسم ہم ایک سانس نہ لے سکیں اس ماحول میں یہاں مرد اپنی فیملی کے لیئے خود کو قربان کر دیتا ہے
جتنے شوہر کماتا ہے اس پہ خوش رہو
پیسہ بھی سب کچھ نہیں ہوتا
خدا کی قسم مجھے بڑی گاڑیوں اور اے سی والے محل میں وہ سکون نہیں ملا جس سکون عمر کی بانہوں میں آتا ہے
جو سکون عمر کا سر دبانے میں آتا ہے ۔جو سکون
عمر کی پسند کے کھانے بنانے میں آتا ہے
ہمسفر کی بے بسی کو سمجھو تو سہی
💕دیکھ تو سہی
آپ کبھی جھگڑا نہیں کریں گی
عمر اب میری زندگی ہے
اور میں عمر کی شہزادی
فارس سر اجازت چاہتی ہوں
شاید کوئی لڑکی سنبھل جائے یہ پڑھ کر

ایک خاتون کی باتیں
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں؛
اولی الناس بی یوم القیامة اکثرھم علی صلاة
یعنی قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ مییرے قریب تر وہ شخص ہوگا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود شریف پڑھتا ہوگا

حکیم الامت حضرت اقدس مفتی احمد یار خان نعیمی رحمة اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت ارشاد فرماتے ہیں؛
قیامت میں سب سے آرام میں وہ ہوگا جو حضور علیہ السلام کے ساتھ رہے اور حضور کی ہمراہی ساتھ ہونے کا ذریعہ درود شریف کی کثرت ہے ۔اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ درود شریف بہترین نیکی ہے کہ تمام نیکیوں سے جنت ملتی ہے اور اس نیکی سے بزمِ جنت کے دولہا ملتے ہیں
(مرآة المناجیح ج؛٢،ص؛١٠٠)

پیارے بھائیوں!ذرا سوچو تو سہی قیامت کا وہ خطرناک دن ہولناک منظر جب ہر کوئی پریشان بے چین مضطرب اور اپنی بخشش کی خاطر فکر مند ہوگا۔ جو اس دن کے دولہا ہوں گے کہ ساری خلق خدا جن سے کرم و رحم کی آس و امید لگائے ہوگی ایسے مصیبت کے وقت میں جب ان کا ساتھ نصیب ہو تو کیسی خوش نصیبی اور آسانی ہوگی۔

تو کیا ہی بہتر ہے کہ ہم کثرت سے اپنے پیارے آقاﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں درود باعث کرم و جود پڑھنے کا معمول بنالیں اور محشر میں رب کعبہ کے حبیب کا قرب پائیں
صلو علی الحبیب صلی اللہ علی محمد

تراب قادری غفرلہ القوی
*کتاب:فیضان نماز*

🏵️آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے نماز فرض ہونے کے بعد 20000 نمازیں، 500 جمعے، 9 عیدیں ادا فرمائیں۔
🏵️نماز روزے کے لئے وقت کی معلومات رکھنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔
🏵️دو حالتوں کے علاوہ نماز معاف نہیں:جنون یا بے ہوشی جس میں6 نمازوں کا وقت گذر جائے، حیض و نفاس۔
🏵️نماز کی فرضیت کا انکار یا فرضیت میں شک کرنے والا کافر ہے۔
🏵️جان بوجھ کر ایک نماز بھی چھوڑنے والا فاسق، سخت گناہ گارہے۔
🏵️50 نمازوں سے 5 نمازیں فرض ہونے میں یقیناً غیر اللہ یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مدد شامل ہے۔
🏵️آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے گھر جب فاقہ ہوتا اور بھوک حاضری دیتی تو آپ مسجد میں تشریف لا کر نماز میں مشغول ہوتے تھے۔
🏵️ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیٹے کی وفات کا غم برداشت کرنے کے لئے نماز کا سہارا لیا۔
🏵️تاریکی چھا جائے،ہوائیں چلنے لگیں تو نماز پڑھنا بہتر ہے۔
🏵️ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوقت زلزلہ نماز ادا کی۔
🏵️ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے عرض کی جی، فرمایا:قم فصل فإن الصلاۃ شفاء۔
🏵️فجر:حضرت آدم علیہ السلام
ظہر:حضرت داؤد علیہ السلام
عصر:حضرت سلیمٰن علیہ السلام
مغرب:حضرت یعقوب علیہ السلام
عشاء :حضرت یونس علیہ السلام نے ادا فرمائی۔
🏵️نماز کی حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے وصیت فرمائی ہے۔
جنت کی چابی کلمہ کے دندانے نماز زکوۃ وغیرہ ہیں۔کتاب:فیضان نماز
🏵️مضمضہ میں منہ کے ہر حصے میں پانی پہنچانا، اور استنشاق میں ناک کے نرم بانسے تک پانی پہنچانا سنت موکدہ ہے اور سنت موکدہ کا ایک آدھ بار تک اساءت اور عادت گناہ ہے۔
🏵️حدیث مسلم:الصلوۃ نور
🏵️حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت عام الفیل کے 30 سال بعد ہوئی، اس وقت آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ظاہری عمر مبارک 30 سال تھی۔
🏵️حدیث مستدرک:علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
🏵️حضرت علی کی وفات 21 رمضان سن 40ھ کو ہوئی۔
🏵️صحابی رسول حضرت قرصافہ کے بیٹے کفار کی قید میں تھے، نماز کے وقت حضرت قلعے کی دیوار پر چڑھ کر فرماتے اے میرے پیارے بیٹے نماز کا وقت آ گیا.... ادھر سینکڑوں میل کے فاصلے کے باوجود بیٹے آواز سن کر عمل کرتے۔
🏵️اصول از امام اہلسنت:جو حکم فعل کا ہے وہی اس پر آگاہی دینی ہے۔

ص:7 تا 60
. ♣️ *کیا مطالعہ دوست ہے* ؟ ♣️

*ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131*:-

👈 جی ہاں!! مطالعہ انسان کا ایک وفادار دوست ہے۔ ایسا دوست جو مشکل گھاٹیوں میں انسان کا سہارا بنتا ہے۔ ایسا دوست جو انسان کی زندگی کے امتحانات میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اور اس امتحانات میں اپنے دوست کو کامیابی و کامرانی سے ہم کنار کر دیتا ہے۔

👈 لہذا انسان کو بھی چاہیے کہ اپنی دوستی کتاب سے کرلے یقین جانیں کہ یہ دوست آپ کو کبھی بھی کسی بھی مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ آپ کے کندھے کے ساتھ کندھا دے کر کھڑا رہے گا۔

👈 ایک بات یاد رکھیں!! جب آپ اپنے مسائل کا حل کسی انسان سے پوچھتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کسی موڑ پہ آپ کو دھوکا دے دے۔ لیکن جب آپ کتابوں سے دوستی کرکے ان سے ہم کلام ہوتے ہیں تو کتاب آپ کو مسائل سے لڑنے کا طریقہ بتاتی ہے ، لوگوں کے ساتھ جینے کے راز سکھاتی ہے۔

👈 اگر آپ بلند فضا میں اڑنا چاہتے ہیں تو آپ مطالعے کو مستقل مزاجی کے ساتھ تھام لو ؛ مطالعہ آپ کو عروج پر پہنچا دے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ *پروں کو کھول زمانہ اُڑنا دیکھتا ہے* ، *زمین پر بیٹھ کر کیا آسمان دیکھتا ہے*۔

👈 آپ کمر کَس کے مطالعے کو اپنے اوّلین دوستوں میں سے بنا لو یہ مطالعہ آپ کو بلند مقام عطا کرے گا۔ ایک قول ملتا ہے کہ *خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہوگا* ،
*کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے* ،
*اپنے حصے کا دِیا جلانا ہوگا*۔

👈 آخری بات کہہ کر تحریر کو سمیٹ لیتا ہوں کہ
*ہمیشہ یاد رکھنا کہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے آپ کو اکیلے ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے*
*لوگ آپ کے ساتھ تب آتے ہیں جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں*۔
👈 *ہر وقت تنگدستی رہتی ہے* 👉


ایک دِن میں محلے میں باورچی کے پاس بیٹھا تھا ، دِل بہت بے چین تھا ، میں نے باورچی سے سوال کیا :
یار میں نمازیں پڑھتا ہوں ، روزے رکھتا ہوں ، کوئی بُرا کام نہیں کرتا ، پھر بھی تنگدستی رہتی ہے ، رب کے ہاں بات نہیں بنتی ،
باورچی کہنے لگا : باؤ جی ذرا ہنڈیا پکا لیں پھر اِس پر بات کرتے ہیں ، یہ کہہ کر باورچی نے ہنڈیا چولہے پر رکھی ، پیاز ڈالا ، لہسن ڈالا ، ٹماٹر نمک مرچ مصالحہ سب کچھ ڈال کر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا ، اور باتیں کرنے لگا ، باتیں کرتے کرتے اچانک میری نظر چولہے پر پڑی ، دیکھا باورچی آگ جلانا بُھول گیا ، میں نے اُسکی توجہ دلائی ،تو کہنے لگا ، باؤ جی ہنڈیا میں سب کچھ تو ڈال دیا ہے پَک جائے گی ، میں نے کہا آگ نہیں جلائی تو ہنڈیا کیسے پَک جائے گی ؟ جواب میں کہنے لگا ، باؤ جی جس طرح ہنڈیا میں سب کچھ موجود ہونے کے باوجود آگ لگائے بغیر ہنڈیا نہیں پَک سکتی بالُکل اسی طرح نماز ، روزہ ، زکواہٌ ، خیرات کرنے سے اُس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہو گا جب تک اپنے وجود کوتقویٰ اور پرہیزگاری کی آگ پر نہیں چڑھاؤ گے اور یہ آگ آپکے ضمیر اور کردار نے لگانی ہے ،
غُصہ ، غیبت ، حِرص ، منافقت ، ہوس اور بُغض سے جان چھڑاؤ ، اپنی ذات کو مخلوق کی خدمت کا تڑکا لگاؤ تب جا کر وجود کی ہنڈیا پَکے گی ، پھر بات بنے گی پھر اللہ سے رابطہ ہو گا -

*_______________*
❤️ دلچسپ مگر سبق آموز کہانی ❤️
ایک شخص کی چار بیویاں تھیں،چوتھی سے وہ بہت محبت کرتا تھا اور اس کو سنوارنے میں لگا رہتا تھا۔
تیسری سے بھی وہ محبت کرتا تھا مگر اس کو یہ خوف لگا رہتا تھا کہ یہ کسی اور کے پاس نہ چلی جائے اس لئے اسے چھپا کر رکھتا تھا۔
دوسری سے بھی اسے بہت محبت تھی اور وہ اپنی ساری پریشانیاں اسے بتاتا اور وہ اس کا حل اسے بتاتی اور ہمیشہ اس کی مدد کرتی۔
مگر پہلی!!! پہلی سے وہ محبت نہیں کرتا تھا لیکن وہ اس سے محبت کرتی تھی۔
ایک دن وہ شخص اتنا بیمار ہوا کہ مرنے کے قریب ہوگیا،اس نے سوچا میرے پاس چار بیویاں ہیں کسی ایک کو تو ساتھ لے جاؤں۔
اس نے چوتھی سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو تو اس نے صاف انکار کردیا۔
تیسری سے کہا تو اس نے جواب دیا کہ دنیا بہت اچھی ہے میں کسی اور سے شادی کرلوں گی۔
دوسری نے کہا میں قبر تک تو ساتھ آجاؤں گی مگر اس سے آگے میں نہیں آسکتی۔
اب یہ بڑا پریشان ہوا اچانک پیچھے سے آواز آئی کہ میں تمہارے ساتھ قبر تک چلوں گی، جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کی پہلی بیوی تھی جو غذا کی کمی کی وجہ سے بالکل کمزور ہوچکی تھی۔اب یہ افسوس کرتا رہا کہ اگر میں تم پر توجہ دیتا تو آج یہ نہ ہوتا۔

نتیجہ:
چوتھی بیوی ہمارے اعضاء تھے جن کو بنانے سنوارنے میں تو ہم لگے رہتے ہیں مگر مرتے ہیں یہ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں
تیسری بیوی ہمارا مال اور ہمارا منصب تھا کہ ساری زندگی لوگوں سے چھپا کر رکھا مگر مرنے کے بعد یہ دوسروں کے پاس چلے جاتے ہیں
دوسری بیوی ہمارے رشتے دار اور دوست احباب تھے،دنیا میں ہم ان سے جتنے مسائل حل کروالیں یہ زیادہ سے زیادہ قبر تک ہمارے ساتھ ہیں۔
پہلی بیوی ہمارے اعمال ہیں جن کی طرف توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہم نے اسے کمزور کر دیا ہے مگر یہ قبر تک ساتھ جائیں گے۔

آئیں اپنے اعمال کو اچھا کریں۔