مفقود ہے۔ لیکن پاکستانی خواتین اس کی پاس ڈائیٹ لینے اور سمارٹنس کے نسخے لینے صرف اس لیے جاتی ہیں کہ ڈاکٹر گوری ہے۔
برطانوی انگریزوں کو ہند و پاک سے گئے ہوئے ستر سے زائد برس ہو گئے ہیں، لیکن ان کا کلچر آج بھی ہماری عدالت، کچہری، تھانہ، فوج، بازار، تعلیمی نصاب اور اب سوشل میڈیا کی صورت میں ہر وقت ہماری جیب میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کو اسلامی کلچر دیا؟ ہم دوسروں سے اتنی جلدی متاثر کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہم فکری اعتبار سے اس قدر کمزور کیوں ہیں؟ ہماری بیٹیاں فلمی لباس، ہمارے بیٹے ہندی و یورپی ایکٹرز کی طرز اور ہم خود غیر مسلم لیڈرز کے لباس و اقوال اور طرز زندگی اختیار کرنے کی خاطر کیوں مرے جاتے ہیں؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ اقوام مغرب ہمارے معاشرے میں جس چیز کو پروموٹ کرنا چاہیں، اس کی ایڈورٹائزمنٹ میں عورت شامل کر لی جاتی ہے، بسکٹ ہو یا چائے، موٹر سائیکل ہو یا پراپرٹی کی خرید و فروخت، لوگ عورت نچا کر مسلمان کو چیز بیچ جاتے ہیں۔
اگر یہی کلچر اور تہذیب ہے تو پھر محمد مصطفٰی ﷺ کی محنت کا کیا فائدہ؟ یہ سب کچھ تو چودہ برس قبل بھی تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے کلچر میں تو حیا ہے، ہم تو وہ ہیں جو اپنے پسند، نا پسند، لباس، کلام، طعام اور طرزِ بود و باش سے دنیا کو بدلنے والے تھے، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم اغیار کی پیروی سے خود کو بدل رہے ہیں؟ ہماری صبح سے لے کر رات بستر پر جانے تک ہونے والے ہر ہر فعل میں چٹی چمڑی، یہود و نصاری کے طرزِ گفتگو، لباس ، اٹھنا بیٹھنا وغیرہ ہی کی پیروی ہے؟ آج ہماری شادیوں میں دلہے کا لباس، دلہن کا لباس میک اپ وغیرہ کس کا کلچر ہے؟ کیا ہماری عادات و اطوار میں کوئی ایک ایسا کام جو واقعی ریاست مدینہ سے تعلق رکھتا ہو؟ یہ گوری عورتیں اتنی آسانی سے مسلمانوں کے ساتھ شادی کیوں کر لیتی ہیں؟ یہ جھٹ سے اپنا مذہب کیوں بدل لیتی ہیں؟
کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری ثقافتی و تہذیبی موت واقع ہو چکی ہے؟ کیا اغیار کا یہ حملہ ہمیں اتنا کمزور نہیں کر چکا کہ فرانس میں سرکاری سطح پر رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہوئی، سوئٹزرلینڈ میں سرکاری سطح پر قرآن کریم کے نسخے جلائے جانے کی حمایت کی گئی لیکن آج پورا عالمِ اسلام اس لیے چپ ہے کہ اغیار کا کلچر ہمارے خون میں شامل ہے، اس لیے ہمیں بولنے کی ہمت ہی نہیں ہو پارہی؟
ذرا سوچیے، کلچر کی یہ سرد جنگ اوراغیار کی یہ خاموش مہم ہمیں کس قدر
کھوکھلا کر چکی ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
ان کی جمیعت کا ہے قوم و نسب پر انحصار
قوتِ مذ ہب سے ہے جمیعت تیری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۱۸ نومبر ۲۰۲۰
#IHRizvi
برطانوی انگریزوں کو ہند و پاک سے گئے ہوئے ستر سے زائد برس ہو گئے ہیں، لیکن ان کا کلچر آج بھی ہماری عدالت، کچہری، تھانہ، فوج، بازار، تعلیمی نصاب اور اب سوشل میڈیا کی صورت میں ہر وقت ہماری جیب میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کو اسلامی کلچر دیا؟ ہم دوسروں سے اتنی جلدی متاثر کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہم فکری اعتبار سے اس قدر کمزور کیوں ہیں؟ ہماری بیٹیاں فلمی لباس، ہمارے بیٹے ہندی و یورپی ایکٹرز کی طرز اور ہم خود غیر مسلم لیڈرز کے لباس و اقوال اور طرز زندگی اختیار کرنے کی خاطر کیوں مرے جاتے ہیں؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ اقوام مغرب ہمارے معاشرے میں جس چیز کو پروموٹ کرنا چاہیں، اس کی ایڈورٹائزمنٹ میں عورت شامل کر لی جاتی ہے، بسکٹ ہو یا چائے، موٹر سائیکل ہو یا پراپرٹی کی خرید و فروخت، لوگ عورت نچا کر مسلمان کو چیز بیچ جاتے ہیں۔
اگر یہی کلچر اور تہذیب ہے تو پھر محمد مصطفٰی ﷺ کی محنت کا کیا فائدہ؟ یہ سب کچھ تو چودہ برس قبل بھی تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے کلچر میں تو حیا ہے، ہم تو وہ ہیں جو اپنے پسند، نا پسند، لباس، کلام، طعام اور طرزِ بود و باش سے دنیا کو بدلنے والے تھے، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم اغیار کی پیروی سے خود کو بدل رہے ہیں؟ ہماری صبح سے لے کر رات بستر پر جانے تک ہونے والے ہر ہر فعل میں چٹی چمڑی، یہود و نصاری کے طرزِ گفتگو، لباس ، اٹھنا بیٹھنا وغیرہ ہی کی پیروی ہے؟ آج ہماری شادیوں میں دلہے کا لباس، دلہن کا لباس میک اپ وغیرہ کس کا کلچر ہے؟ کیا ہماری عادات و اطوار میں کوئی ایک ایسا کام جو واقعی ریاست مدینہ سے تعلق رکھتا ہو؟ یہ گوری عورتیں اتنی آسانی سے مسلمانوں کے ساتھ شادی کیوں کر لیتی ہیں؟ یہ جھٹ سے اپنا مذہب کیوں بدل لیتی ہیں؟
کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری ثقافتی و تہذیبی موت واقع ہو چکی ہے؟ کیا اغیار کا یہ حملہ ہمیں اتنا کمزور نہیں کر چکا کہ فرانس میں سرکاری سطح پر رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہوئی، سوئٹزرلینڈ میں سرکاری سطح پر قرآن کریم کے نسخے جلائے جانے کی حمایت کی گئی لیکن آج پورا عالمِ اسلام اس لیے چپ ہے کہ اغیار کا کلچر ہمارے خون میں شامل ہے، اس لیے ہمیں بولنے کی ہمت ہی نہیں ہو پارہی؟
ذرا سوچیے، کلچر کی یہ سرد جنگ اوراغیار کی یہ خاموش مہم ہمیں کس قدر
کھوکھلا کر چکی ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
ان کی جمیعت کا ہے قوم و نسب پر انحصار
قوتِ مذ ہب سے ہے جمیعت تیری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
کتبہ: افتخار الحسن رضوی
۱۸ نومبر ۲۰۲۰
#IHRizvi