🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
بتوں کو شفیع ماننے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو شفیع ماننے میں فرق:
مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِؕ-قُلْ اَتُنَبِّــٴُـوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۱۸)
ترجمہ
اور (یہ مشرک) اللہ کے سوا ایسی چیزکی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں کوئی نقصان دے سکے اور نہ نفع دے سکے اوریہ کہتے ہیں کہ یہ (بت) اللہ کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی ہیں ۔ تم فرماؤ: کیا تم اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے اورنہ زمین میں ۔ وہ ان کے شرک سے پاک اور بلندو بالا ہے۔
تفسیر
{وَ یَعْبُدُوْنَ:اوروہ عبادت کرتے ہیں۔} مشرکین بتوں کی عبادت بھی کرتے تھے اور انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا شفیع بھی مانتے تھے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بتوں کی عبادت کرنے کا رد فرمایا کہ یہ مشرکین جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ اپنے نافرمان کو نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے عبادت گزار کو کوئی نفع دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بے جان پتھر ہیں ، نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے جبکہ عبادت تعظیم کی سب سے اعلیٰ قسم ہے تو اس کا مُستحق وہی ہو گا کہ جو نفع و نقصان پہنچانے،زندگی اور موت دینے پر قدرت رکھتا ہو۔اس کے بعد بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا شفیع ماننے کا رد فرمایا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے مقابلے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تعظیم اس میں زیادہ ہے کہ بتوں کی عبادت کی جائے اور وہ یہ کہتے تھے کہ ہم اس قابل نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر سکیں اس لئے ہم ان بتوں کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کریں گے۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۸، ۲ / ۳۰۷)
*بتوں کو شفیع ماننے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو شفیع ماننے میں فرق:*
مشرکین شفاعت کے چکر میں بتوں کی عبادت کرتے تھے اور یہ دونوں چیزیں ہی غلط تھیں۔ ایک تو شرک اور دوسرا ایسے بتوں کو شفیع ماننا جن کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کوئی اِذن نہیں دیا گیا اور یہیں سے مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان فرق ہوگیا کہ مسلمان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء و صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو اپنا شفیع مانتے ہیں لیکن ان کی عبادت نہیں کرتے اور پھر جن ہستیوں کو شفیع مانتے ہیں ان کواللہ عَزَّوَجَلَّ نے شفاعت کا اختیار بھی دیا ہے جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو گویا مشرکوں نے دو کام کئے اور دونوں غلط یعنی شرک اور نااہلوں کی شفاعت کا عقیدہ اور مسلمانوں نے عقیدہِ شفاعت رکھا لیکن ویسا جیسا ان کے رب کریم عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا۔
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْاؕ-وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(۱۹)
ترجمہ
اور سب لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوگئے اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان ان کے باہمی اختلافات کا فیصلہ ہوگیا ہوتا۔
تفسیر
{وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً:اورسب لوگ ایک ہی اُمت تھے۔} یعنی سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے جیسا کہ حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں قابیل کے ہابیل کو قتل کرنے کے وقت تک حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی ذُرِّیَّت ایک ہی دین پر تھے، اس کے بعد ان میں اختلاف ہوا ۔
*مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟*
اس مذہبی اختلاف کی ابتداء سے متعلق مفسرین نے کئی قول ذکر کئے ہیں
ایک قول یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ تک لوگ ایک دین پر رہے پھر ان میں اختلاف واقع ہوا تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی طرف مبعوث فرمائے گئے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کشتی سے اترنے کے وقت سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے سے سب لوگ ایک دین پر تھے یہاں تک کہ عمرو بن لُحَی نے دین میں تبدیلی کی، اس قول کے مطابق ’’اَلنَّاسُ‘‘ سے مراد خاص عرب ہوں گے۔
بعض علماء نے کہا کہ معنی یہ ہیں کہ لوگ پہلی مرتبہ پیدائش کے وقت فطرتِ سلیمہ پر تھے پھر ان میں اختلافات ہوئے۔ حدیث شریف میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتے ہیں یا نصرانی بناتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں اور حدیث میں فطرت سے فطرتِ اسلام مراد ہے۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما قیل فی اولاد المشرکین، ۱ / ۴۶۶، الحدیث: ۱۳۸۵، خازن، یونس، تحت ال
بتوں کو شفیع ماننے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو شفیع ماننے میں فرق:
مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِؕ-قُلْ اَتُنَبِّــٴُـوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۱۸)
ترجمہ
اور (یہ مشرک) اللہ کے سوا ایسی چیزکی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں کوئی نقصان دے سکے اور نہ نفع دے سکے اوریہ کہتے ہیں کہ یہ (بت) اللہ کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی ہیں ۔ تم فرماؤ: کیا تم اللہ کو وہ بات بتاتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے اورنہ زمین میں ۔ وہ ان کے شرک سے پاک اور بلندو بالا ہے۔
تفسیر
{وَ یَعْبُدُوْنَ:اوروہ عبادت کرتے ہیں۔} مشرکین بتوں کی عبادت بھی کرتے تھے اور انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا شفیع بھی مانتے تھے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بتوں کی عبادت کرنے کا رد فرمایا کہ یہ مشرکین جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ اپنے نافرمان کو نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے عبادت گزار کو کوئی نفع دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بے جان پتھر ہیں ، نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے جبکہ عبادت تعظیم کی سب سے اعلیٰ قسم ہے تو اس کا مُستحق وہی ہو گا کہ جو نفع و نقصان پہنچانے،زندگی اور موت دینے پر قدرت رکھتا ہو۔اس کے بعد بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا شفیع ماننے کا رد فرمایا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں ’’مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے مقابلے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تعظیم اس میں زیادہ ہے کہ بتوں کی عبادت کی جائے اور وہ یہ کہتے تھے کہ ہم اس قابل نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر سکیں اس لئے ہم ان بتوں کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کریں گے۔( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۸، ۲ / ۳۰۷)
*بتوں کو شفیع ماننے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو شفیع ماننے میں فرق:*
مشرکین شفاعت کے چکر میں بتوں کی عبادت کرتے تھے اور یہ دونوں چیزیں ہی غلط تھیں۔ ایک تو شرک اور دوسرا ایسے بتوں کو شفیع ماننا جن کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے کوئی اِذن نہیں دیا گیا اور یہیں سے مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان فرق ہوگیا کہ مسلمان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء و صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو اپنا شفیع مانتے ہیں لیکن ان کی عبادت نہیں کرتے اور پھر جن ہستیوں کو شفیع مانتے ہیں ان کواللہ عَزَّوَجَلَّ نے شفاعت کا اختیار بھی دیا ہے جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو گویا مشرکوں نے دو کام کئے اور دونوں غلط یعنی شرک اور نااہلوں کی شفاعت کا عقیدہ اور مسلمانوں نے عقیدہِ شفاعت رکھا لیکن ویسا جیسا ان کے رب کریم عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا۔
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْاؕ-وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(۱۹)
ترجمہ
اور سب لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوگئے اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان ان کے باہمی اختلافات کا فیصلہ ہوگیا ہوتا۔
تفسیر
{وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً:اورسب لوگ ایک ہی اُمت تھے۔} یعنی سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے جیسا کہ حضرت آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں قابیل کے ہابیل کو قتل کرنے کے وقت تک حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی ذُرِّیَّت ایک ہی دین پر تھے، اس کے بعد ان میں اختلاف ہوا ۔
*مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟*
اس مذہبی اختلاف کی ابتداء سے متعلق مفسرین نے کئی قول ذکر کئے ہیں
ایک قول یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ تک لوگ ایک دین پر رہے پھر ان میں اختلاف واقع ہوا تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی طرف مبعوث فرمائے گئے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے کشتی سے اترنے کے وقت سب لوگ ایک دین اسلام پر تھے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے سے سب لوگ ایک دین پر تھے یہاں تک کہ عمرو بن لُحَی نے دین میں تبدیلی کی، اس قول کے مطابق ’’اَلنَّاسُ‘‘ سے مراد خاص عرب ہوں گے۔
بعض علماء نے کہا کہ معنی یہ ہیں کہ لوگ پہلی مرتبہ پیدائش کے وقت فطرتِ سلیمہ پر تھے پھر ان میں اختلافات ہوئے۔ حدیث شریف میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی بناتے ہیں یا نصرانی بناتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں اور حدیث میں فطرت سے فطرتِ اسلام مراد ہے۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما قیل فی اولاد المشرکین، ۱ / ۴۶۶، الحدیث: ۱۳۸۵، خازن، یونس، تحت ال
آیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۰۷)بظاہر پہلا قول ہی درست ہے۔
*{وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ:اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی۔}* ارشاد فرمایا کہ اگر تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی کہ کفار کو مُہلت دی جائے گی اور ہر اُمت کے لئے ایک میعاد مُعَیّن نہ کردی گئی ہوتی یا اَعمال کی جزاء قیامت تک مُؤخّر نہ فرمائی گئی ہوتی تودنیا میں ہی ان کے درمیان ان کے باہمی اختلافات کا نُزولِ عذاب سے فیصلہ ہوگیا ہوتا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۰۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۶۷، ملتقطاً)
*طالبِ دعاابوعمر*
*{وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ:اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی۔}* ارشاد فرمایا کہ اگر تیرے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہوچکی ہوتی کہ کفار کو مُہلت دی جائے گی اور ہر اُمت کے لئے ایک میعاد مُعَیّن نہ کردی گئی ہوتی یا اَعمال کی جزاء قیامت تک مُؤخّر نہ فرمائی گئی ہوتی تودنیا میں ہی ان کے درمیان ان کے باہمی اختلافات کا نُزولِ عذاب سے فیصلہ ہوگیا ہوتا۔(خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۳۰۷، مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۶۷، ملتقطاً)
*طالبِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جس نے وضو کیا اور مسجد میں حاضر ہوا اور فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں اور فجر کی نماز تک بیٹھا رہا تو اس کی اس دن کی نماز نیک لوگوں کی نماز میں شمار ہوگی اور اسے رحمن عزوجل کے مہمانوں میں لکھا جائے گا.
( طبرانی کبیر حدیث 7766 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جس نے وضو کیا اور مسجد میں حاضر ہوا اور فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں اور فجر کی نماز تک بیٹھا رہا تو اس کی اس دن کی نماز نیک لوگوں کی نماز میں شمار ہوگی اور اسے رحمن عزوجل کے مہمانوں میں لکھا جائے گا.
( طبرانی کبیر حدیث 7766 )
🌴❤ *درس قرآن* ❤🌴
📖 پارہ-1🔲 2-سورۂ بقرہ ...🌹آیت نمبر93
🌴بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌴
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ -خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اسْمَعُوْا -قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا -وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ -قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُكُمْ بِهٖۤ اِیْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۹۳)
*🌹ترجمہ کنز الایمان:🌹* (93)اور یاد کرو جب ہم نے تم سے پیمان لیا اور کوہ ِطور کو تمہارے سروں پر بلند کیا، لو جو ہم تمہیں دیتے ہیں زور سے اور سنو بولے ہم نے سنا اور نہ مانا اور ان کے دلوں میں بچھڑا رچ رہا تھا ان کے کفر کے سبب تم فرما دو کیا برا حکم دیتا ہے تم کو تمہارا ایمان اگر ایمان رکھتے ہو-
*💐تفسیر:💐*
⬅{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ: اور جب ہم نے تم سے عہد لیا۔} یعنی اے یہودیو! وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تورات پر عمل کرنے کا عہد لیا لیکن انہوں نے حسب ِعادت نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر کوہِ طور کو ہوا میں بلند کر دیا اور ان سے فرمایا کہ چلو اب مضبوطی سے اس تورات کو تھام لو جوہم نے تمہیں عطا کی ہے اور ہمارے احکام دھیان سے سنو۔ بنی اسرائیل نے ڈر کے مارے دوبارہ اطاعت کا اقرار تو کر لیا لیکن ان کے دل کی حالت پہلے جیسی ہی رہی اور شریعت کا حکم چونکہ ظاہر پر ہوتاہے دل پر نہیں، اس لئے بنی اسرائیل کے زبانی اقرار کرنے پر ان سے کوہِ طورکو ہٹا لیا گیا اگرچہ ان کے دل میں وہی انکار تھا اور درحقیقت ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں تو بچھڑے کی محبت گھسی ہوئی تھی۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں کہ اے یہودیو! تم اپنے اسلاف کی اس حرکت کو جانتے ہو لیکن تم نہ اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہو اور نہ ہی اس سے اپنی براءت ظاہر کرتے ہو تو خود بتاؤ کہ کیا تورات پر ایمان لانے کے یہ تقاضے ہیں؟ اگر اس کے یہی تقاضے ہیں تو تمہارا ایمان تمہیں کتنا برا حکم دیتا ہے۔
*❇قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا مطلب:*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ اس کے تمام احکام اور سب تقاضوں پر عمل کیا جائے۔ اور ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے کہ
وہ اپنی زبان سے قرآن مجید پر ایمان لانے کاجو دعویٰ کر رہا ہے، کیا اس کی عملی حالت اس دعوے کی تصدیق کر رہی ہے یا نہیں۔ ذرا غور کریں کہ قرآن مجید میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے، رمضان کے روزے رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت نمازوں سے دور ہے، فرض روزے نہ رکھنے کے مختلف حیلے بہانے تراش رہی ہے اور اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا ان پر بہت بھاری ہے۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو باطل اور ناجائز طریقے سے کسی مسلمان کا مال کھانے سے منع کیا گیا۔ لیکن آج مال بٹورنے کا کونسا ایسا ناجائز طریقہ ہے جو مسلمانوں میں کسی نہ کسی طرح رائج نہیں۔ قرآن حکیم نے کسی کو ناحق قتل کرنے سے منع کیا لیکن آج مسلمانوں میں ناحق قتل و غارت گری ایسی عام ہے کہ نہ مرنے والے کو پتا ہے کہ مجھے کیوں مارا گیا اور نہ مارنے والے کو پتا ہے کہ میں نے کیوں مارا۔ قرآن شریف میں مسلمان عورتوں کو گھروں میں رہنے اور پردہ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن آج ہمارے معاشرے کا وہ کونسا طبقہ جس میں مسلمان عورت سج سنور کر اجنبی مردوں کے سامنے نہیں آرہی بلکہ آج مسلمانوں میں ہی کچھ لوگ عورت کے پردہ کرنے کو دقیانوسی سوچ اور تنگ ذہنی قرار دے رہے ہیں۔ اے کاش کہ ہم بھی اپنے زبانی ایمان و محبت کے دعووں اور بے عملی و بدعملی کے درمیان کا تضاد اور فرق سمجھنے میں کامیاب ہو جائیں اور ہمیں بھی اس بات پر غور کرنا نصیب ہو جائے کہ ہمارے جیسے اعمال ہیں کیا ہمارا ایمان ہمیں ان اعمال کا حکم دیتا ہے یا ہمارے ایمان کے تقاضے کچھ اور ہیں ؟
*✳ایمانی قوت معلوم کرنے کا طریقہ:*
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب تک دل میں برائی کی لذت و حلاوت موجود رہتی ہے تب تک ایمان اور نیک اعمال کی شیرینی اس میں داخل نہیں ہوسکتی۔ اور گناہوں پر اصرار ایمان کی مٹھاس اور عبادت کی لذت محسوس نہیں ہونے دیتا۔ یاد رہے کہ نیکوں اورنیکیوں سے محبت ایمان کی علامت ہے جبکہ بروں اور برائیوں سے محبت ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی ایمانی قوت کو اپنے قلبی میلان سے معلوم کرے کیونکہ جن دلوں میں فلموں، ڈراموں، بے حیائیوں اور گانوں کی محبت ہو ان دلوں میں نماز، ذکر، درود اور تلاوت کی محبت نہیں سما سکتی۔
*☀💗‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💗☀*
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
*——————————————————————*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀
📖 پارہ-1🔲 2-سورۂ بقرہ ...🌹آیت نمبر93
🌴بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌴
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ -خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اسْمَعُوْا -قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا -وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ -قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُكُمْ بِهٖۤ اِیْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۹۳)
*🌹ترجمہ کنز الایمان:🌹* (93)اور یاد کرو جب ہم نے تم سے پیمان لیا اور کوہ ِطور کو تمہارے سروں پر بلند کیا، لو جو ہم تمہیں دیتے ہیں زور سے اور سنو بولے ہم نے سنا اور نہ مانا اور ان کے دلوں میں بچھڑا رچ رہا تھا ان کے کفر کے سبب تم فرما دو کیا برا حکم دیتا ہے تم کو تمہارا ایمان اگر ایمان رکھتے ہو-
*💐تفسیر:💐*
⬅{وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ: اور جب ہم نے تم سے عہد لیا۔} یعنی اے یہودیو! وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تورات پر عمل کرنے کا عہد لیا لیکن انہوں نے حسب ِعادت نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر کوہِ طور کو ہوا میں بلند کر دیا اور ان سے فرمایا کہ چلو اب مضبوطی سے اس تورات کو تھام لو جوہم نے تمہیں عطا کی ہے اور ہمارے احکام دھیان سے سنو۔ بنی اسرائیل نے ڈر کے مارے دوبارہ اطاعت کا اقرار تو کر لیا لیکن ان کے دل کی حالت پہلے جیسی ہی رہی اور شریعت کا حکم چونکہ ظاہر پر ہوتاہے دل پر نہیں، اس لئے بنی اسرائیل کے زبانی اقرار کرنے پر ان سے کوہِ طورکو ہٹا لیا گیا اگرچہ ان کے دل میں وہی انکار تھا اور درحقیقت ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں تو بچھڑے کی محبت گھسی ہوئی تھی۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرمائیں کہ اے یہودیو! تم اپنے اسلاف کی اس حرکت کو جانتے ہو لیکن تم نہ اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہو اور نہ ہی اس سے اپنی براءت ظاہر کرتے ہو تو خود بتاؤ کہ کیا تورات پر ایمان لانے کے یہ تقاضے ہیں؟ اگر اس کے یہی تقاضے ہیں تو تمہارا ایمان تمہیں کتنا برا حکم دیتا ہے۔
*❇قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا مطلب:*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے کامطلب یہ ہے کہ اس کے تمام احکام اور سب تقاضوں پر عمل کیا جائے۔ اور ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے کہ
وہ اپنی زبان سے قرآن مجید پر ایمان لانے کاجو دعویٰ کر رہا ہے، کیا اس کی عملی حالت اس دعوے کی تصدیق کر رہی ہے یا نہیں۔ ذرا غور کریں کہ قرآن مجید میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے، رمضان کے روزے رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت نمازوں سے دور ہے، فرض روزے نہ رکھنے کے مختلف حیلے بہانے تراش رہی ہے اور اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا ان پر بہت بھاری ہے۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو باطل اور ناجائز طریقے سے کسی مسلمان کا مال کھانے سے منع کیا گیا۔ لیکن آج مال بٹورنے کا کونسا ایسا ناجائز طریقہ ہے جو مسلمانوں میں کسی نہ کسی طرح رائج نہیں۔ قرآن حکیم نے کسی کو ناحق قتل کرنے سے منع کیا لیکن آج مسلمانوں میں ناحق قتل و غارت گری ایسی عام ہے کہ نہ مرنے والے کو پتا ہے کہ مجھے کیوں مارا گیا اور نہ مارنے والے کو پتا ہے کہ میں نے کیوں مارا۔ قرآن شریف میں مسلمان عورتوں کو گھروں میں رہنے اور پردہ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن آج ہمارے معاشرے کا وہ کونسا طبقہ جس میں مسلمان عورت سج سنور کر اجنبی مردوں کے سامنے نہیں آرہی بلکہ آج مسلمانوں میں ہی کچھ لوگ عورت کے پردہ کرنے کو دقیانوسی سوچ اور تنگ ذہنی قرار دے رہے ہیں۔ اے کاش کہ ہم بھی اپنے زبانی ایمان و محبت کے دعووں اور بے عملی و بدعملی کے درمیان کا تضاد اور فرق سمجھنے میں کامیاب ہو جائیں اور ہمیں بھی اس بات پر غور کرنا نصیب ہو جائے کہ ہمارے جیسے اعمال ہیں کیا ہمارا ایمان ہمیں ان اعمال کا حکم دیتا ہے یا ہمارے ایمان کے تقاضے کچھ اور ہیں ؟
*✳ایمانی قوت معلوم کرنے کا طریقہ:*
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب تک دل میں برائی کی لذت و حلاوت موجود رہتی ہے تب تک ایمان اور نیک اعمال کی شیرینی اس میں داخل نہیں ہوسکتی۔ اور گناہوں پر اصرار ایمان کی مٹھاس اور عبادت کی لذت محسوس نہیں ہونے دیتا۔ یاد رہے کہ نیکوں اورنیکیوں سے محبت ایمان کی علامت ہے جبکہ بروں اور برائیوں سے محبت ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی ایمانی قوت کو اپنے قلبی میلان سے معلوم کرے کیونکہ جن دلوں میں فلموں، ڈراموں، بے حیائیوں اور گانوں کی محبت ہو ان دلوں میں نماز، ذکر، درود اور تلاوت کی محبت نہیں سما سکتی۔
*☀💗‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💗☀*
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
*——————————————————————*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀
🌹 *فیضان حدیث**🌹
*’’سب سے بڑھ کر نماز میں اس کا ثواب ہے، جو زیادہ دُور سے چل کر آئے۔‘‘*
( صحیح مسلم حدیث 662 )
*’’سب سے بڑھ کر نماز میں اس کا ثواب ہے، جو زیادہ دُور سے چل کر آئے۔‘‘*
( صحیح مسلم حدیث 662 )
🌴💛 *درس قرآن* 💛🌴
📖 پارہ-2🌠 2-سورۂ بقرہ 🍃آیت نمبر 151
🌴بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌴
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ(۱۵۱)
*🌹ترجمہ کنز الایمان:🌹* (151)جیسا کہ ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔
*💐تفسیر:💐*
◀{كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ: جیساکہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا۔} خانہ کعبہ کی تبدیلی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت تھی اب اس سے بڑی نعمت یعنی حضور سیدالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بیان ہے۔ جیسے خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت ہے ایسے ہی ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت ہے۔ کعبہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعمیر کا نتیجہ ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس تعمیر کے بعد کی دعا کا ثمرہ ہیں۔
*💚اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت:*
یاد رہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ خود اپنا احسان قرار دیتا ہے جیسے فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا۔(ال عمران: ١٦٤)
ترجمہ: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا۔
🍀اور وہ رسول بھی کیسے ہیں؟ قرآن، علمِ قرآن، فہمِ قرآن، اسرارِ قرآن، حکمت، طہارتِ نفس، تزکیہ قلب، اصلاحِ ظاہر و باطن اور دنیاو آخرت کی ساری بھلائیاں دینے والے ہیں۔ اسی تطہیر و تزکیہ کو ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا۔(التوبہ:۱۰۳)
ترجمہ: اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔
◀{وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ: اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں۔} قرآن اور احکامِ الٰہیہ جو ہم نہیں جانتے تھے وہ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہمیں سکھاتے ہیں۔
*✳نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب کچھ سکھاتے ہیں:*
اور حقیقت یہ ہے کہ صرف ظاہری مضامینِ قرآن اور اللہ تعالیٰ کے احکام ہی نہیں بلکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سب کچھ سکھاتے ہیں۔ کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اولین و آخرین کے علوم کے جامع ہیں۔ قصیدہ بُردہ میں امام بُوصیری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
فَاقَ النَّبِیِّیْنَ فِیْ خَلْقٍ وَ فِیْ خُلُقٍ
وَلَمْ یُدَانُوْہٗ فِیْ عِلْمٍ وَلَا کَرَمٖ
*یعنی آپ حسن و جمال اور اخلاق میں تمام نبیوں پر فائق ہیں اور علم و کرم میں کوئی آپ کے برابر نہیں۔*
*🌴بخاری شریف* میں حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہم کو (مخلوق کی) ابتداء ِپیدائش کی خبریں دینے لگے حتیّٰ کہ یہاں تک بیان کیا کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی منزلوں میں، جس نے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔ (یعنی تمام کائنات کی خبریں ارشاد فرمادیں۔) (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔ الخ، ۲/۳۷۵، الحدیث: ۳۲۹۲)
*🌹حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہر قول و فعل میں وہ علم و حکمت ہے کہ دنیا آج تک وہ تمام علم و حکمت معلوم نہیں کرسکی۔*
*☀💗‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💗☀*
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
*——————————————————————*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀
📖 پارہ-2🌠 2-سورۂ بقرہ 🍃آیت نمبر 151
🌴بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌴
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ(۱۵۱)
*🌹ترجمہ کنز الایمان:🌹* (151)جیسا کہ ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔
*💐تفسیر:💐*
◀{كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ: جیساکہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا۔} خانہ کعبہ کی تبدیلی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت تھی اب اس سے بڑی نعمت یعنی حضور سیدالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بیان ہے۔ جیسے خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت ہے ایسے ہی ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت ہے۔ کعبہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعمیر کا نتیجہ ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس تعمیر کے بعد کی دعا کا ثمرہ ہیں۔
*💚اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت:*
یاد رہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ خود اپنا احسان قرار دیتا ہے جیسے فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا۔(ال عمران: ١٦٤)
ترجمہ: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا۔
🍀اور وہ رسول بھی کیسے ہیں؟ قرآن، علمِ قرآن، فہمِ قرآن، اسرارِ قرآن، حکمت، طہارتِ نفس، تزکیہ قلب، اصلاحِ ظاہر و باطن اور دنیاو آخرت کی ساری بھلائیاں دینے والے ہیں۔ اسی تطہیر و تزکیہ کو ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا۔(التوبہ:۱۰۳)
ترجمہ: اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔
◀{وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ: اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں۔} قرآن اور احکامِ الٰہیہ جو ہم نہیں جانتے تھے وہ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہمیں سکھاتے ہیں۔
*✳نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب کچھ سکھاتے ہیں:*
اور حقیقت یہ ہے کہ صرف ظاہری مضامینِ قرآن اور اللہ تعالیٰ کے احکام ہی نہیں بلکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سب کچھ سکھاتے ہیں۔ کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اولین و آخرین کے علوم کے جامع ہیں۔ قصیدہ بُردہ میں امام بُوصیری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
فَاقَ النَّبِیِّیْنَ فِیْ خَلْقٍ وَ فِیْ خُلُقٍ
وَلَمْ یُدَانُوْہٗ فِیْ عِلْمٍ وَلَا کَرَمٖ
*یعنی آپ حسن و جمال اور اخلاق میں تمام نبیوں پر فائق ہیں اور علم و کرم میں کوئی آپ کے برابر نہیں۔*
*🌴بخاری شریف* میں حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہم کو (مخلوق کی) ابتداء ِپیدائش کی خبریں دینے لگے حتیّٰ کہ یہاں تک بیان کیا کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی منزلوں میں، جس نے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔ (یعنی تمام کائنات کی خبریں ارشاد فرمادیں۔) (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔ الخ، ۲/۳۷۵، الحدیث: ۳۲۹۲)
*🌹حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہر قول و فعل میں وہ علم و حکمت ہے کہ دنیا آج تک وہ تمام علم و حکمت معلوم نہیں کرسکی۔*
*☀💗‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💗☀*
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
*——————————————————————*
🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀
سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
*’’بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔“*
(بخاری،، الحدیث: ۶۱۱۴)
*’’بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔“*
(بخاری،، الحدیث: ۶۱۱۴)
معاشی استحکام از مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=167418267960937&id=100551597980938
وزیرِ اعظم جناب عمران خان اور ان کی حکومت کی اقتصادی ٹیم کے ذمے داران مسلسل بِشارت دے رہے ہیں کہ وطنِ عزیز معاشی بحران سے نکل آیا ہے اور استحکام کے دور میں داخل ہوگیا ہے۔امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی’’ مُوڈیز‘‘ نے حال ہی میں اپنے تجزیے میں پاکستانی معیشت کو منفی سے نکال کر مستحکم درجے میں ظاہر کیاہے ۔واضح رہے کہ یہ ادارہ قرض لینے والے اداروں یا ملکوں کے بارے میں اُن کی قرض واپسی کی استعداد کے بارے میں تجزیے شائع کرتا ہے تاکہ قرض دینے والوں کو رہنمائی مل سکے ۔ اسی طرح عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی طرف سے بھی کچھ مثبت رپورٹیں آئی ہیں ۔
آئی ایم ایف کا ادارہ بھی کسی ملک کو اس درجے میں ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا کہ ناامیدی پیدا ہوجائے، کیونکہ یہ آئی ایم ایف کی ناکامی کا مظہر ہوتا ہے اوراس کے اثرات خود اس کے لیے بھی مثبت نہیں ہوتے ،بلکہ اس میں اُس کی اپنی ساکھ بھی مجروح ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ تاثر یہی دیتے ہیں کہ یہ ادارہ معاشی اعتبار سے تنزّل کی طرف جانے والے ملکوں کو سہارا دیتا ہے اور ان کی معیشت کو بحالی کی طرف لاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے قرض کے لیے کڑی شرائط عائد کرتا ہے تاکہ اس کے قرض کی واپسی کے امکانات بہتر ہوں۔حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو تین سال کے لیے جوچھ ارب ڈالرکی امداد منظور کی ہے ، اس کی بابت بھی یہی کہاجارہا ہے کہ اس کا دوتہائی حصہ اسی عرصے میں آئی ایم ایف کی واجب الادا اقساط مع سود کی صورت میں اُس کو واپس چلا جائے گا۔
سو ہمارے وزیرِ اعظم اور مشیرِ خزانہ قوم کویقین دلارہے ہیں کہ 2020قومی معیشت کی اُٹھان کا سال ہے،لہٰذا اب ہم قوم کو فیض رسانی اور سہولتیں فراہم کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ان کے بقول اپوزیشن اسی لیے گھبراہٹ کا شکار ہے کہ معاشی استحکام حکومت کو مزید استحکام بخشے گا۔ حکومت کے بعض اقدامات کی تحسین تاجر اور صنعت کار بھی کر رہے ہیں ،کسی حد تک پاکستانی کرنسی روپے کی قدر میں بھی ٹھیرائو آگیا ہے۔نیز بتایا جارہا ہے کہ ہم کرنٹ اکائونٹ کے خسارے سے نکل آئے ہیں، زرِ مبادلہ کے حوالے سے توازنِ ادائیگی خسارے سے نکل کرمُثبت حدود میں داخل ہوگیا ہے، وغیرہ۔
اعداد وشمار کی جو جادوگری معاشی اشاریوں میں کارفرما ہوتی ہیں،اس کے اعتبار سے بظاہر یہ خبریں اچھی ہیں۔ہماری دعا ہے کہ حقائق ایسے ہی ہوں اور نتائج بھی حکومت کی خواہشات اور دعووں کے مطابق برآمد ہوں،کیونکہ اگر حکومت ان وعدوں اور دعووں میں سرخروہوتی ہے تو اس میں قوم وملک کی فلاح ہے۔
لیکن ماہرین کے خدشات بدستور قائم ہیں ،ان کے نزدیک نہ معاشی استحکام کا کوئی فیض اب تک عوام کو مل سکا، نہ اشیائے صَرف کی گرانی کا گراف نیچے آرہاہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی نوید سنائی جارہی ہے،بلکہ مہنگائی کے بارے میں مزید تنبیہات آرہی ہیں۔
حالیہ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت پٹرول اور ڈیزل پرغیر متناسب ٹیکس لے رہی ہے، ٹیکس کی ایسی ہی وصولیابیوں کو بالواسطہ ٹیکس سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کابوجھ براہِ راسست عام صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے اور اس میں غیر معمولی دولت منداور انتہائی نادار میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا، یہی صورتِ حال گیس، بجلی اور دیگر یوٹیلیٹی بلز کی ہے۔جب تک بجلی کے ’’لائن لاسز‘‘ پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاتا، اس کا بوجھ عام صارفین پر پڑتا رہے گا۔ لائن لاسز سے مراد یہ ہے کہ پاور جنریشن یونٹ جتنی بجلی پیدا کر کے سسٹم یعنی نیشنل گرڈ میں ڈالتے ہیں جہاں سے صارفین کے لیے بجلی کی ترسیل شروع ہوتی ہے، اس میں اور بجلی کے بلوں میں کافی فرق ہوتا ہے۔ای
ک ماہرِ معیشت بتارہے تھے کہ بحیثیتِ مجموعی اب بھی ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن لاسز کی شرح بیس فیصد ہے، جو ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اب ترسیل اور بلنگ میں جو تفاوت ہے، یہ بجلی کدھر جاتی ہے، اس کا پتا نہیں لگایا جارہا کہ بجلی چوری کہاں کہاں ہورہی ہے اور اس پر قابو پانے کی صورتیں کیا ہیں۔
حکومت یہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ درآمدی بِل کم ہوگیا ہے، اگر یہ کمی اشیائے ضرورت اور اشیائے تعیّش میں ہو تو قابلِ تحسین ہے،کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہمارا صنعتی پہیہ حرکت میں آگیا ہے ،ہم اپنے لیے اشیائے ضرورت خود پیدا کرنے لگ گئے ہیں اورتعیّشات کو ہم نے خیر باد کہہ دیا ہے۔ لیکن کیا حقیقت یہی ہے، اس سوال کا مثبت جواب دستیاب نہیں ہے۔
قابلِ فہم بات یہ ہے کہ معاشی اور صنعتی سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں، یعنی معیشت کا حُجم پھیلنے کے بجائے سکڑ رہا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر انتہائی کم ہونے کی وجہ سے بعض صنعتوں پر منفی اثر پڑا ہے ، مثلاً: گاڑیاں تیار کرنے والے کارخانوں کی پروڈکشن ان کی استعداد سے کم ہے ،کیونکہ قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے مارکیٹ میں طلب
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=167418267960937&id=100551597980938
وزیرِ اعظم جناب عمران خان اور ان کی حکومت کی اقتصادی ٹیم کے ذمے داران مسلسل بِشارت دے رہے ہیں کہ وطنِ عزیز معاشی بحران سے نکل آیا ہے اور استحکام کے دور میں داخل ہوگیا ہے۔امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی’’ مُوڈیز‘‘ نے حال ہی میں اپنے تجزیے میں پاکستانی معیشت کو منفی سے نکال کر مستحکم درجے میں ظاہر کیاہے ۔واضح رہے کہ یہ ادارہ قرض لینے والے اداروں یا ملکوں کے بارے میں اُن کی قرض واپسی کی استعداد کے بارے میں تجزیے شائع کرتا ہے تاکہ قرض دینے والوں کو رہنمائی مل سکے ۔ اسی طرح عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی طرف سے بھی کچھ مثبت رپورٹیں آئی ہیں ۔
آئی ایم ایف کا ادارہ بھی کسی ملک کو اس درجے میں ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا کہ ناامیدی پیدا ہوجائے، کیونکہ یہ آئی ایم ایف کی ناکامی کا مظہر ہوتا ہے اوراس کے اثرات خود اس کے لیے بھی مثبت نہیں ہوتے ،بلکہ اس میں اُس کی اپنی ساکھ بھی مجروح ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ تاثر یہی دیتے ہیں کہ یہ ادارہ معاشی اعتبار سے تنزّل کی طرف جانے والے ملکوں کو سہارا دیتا ہے اور ان کی معیشت کو بحالی کی طرف لاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے قرض کے لیے کڑی شرائط عائد کرتا ہے تاکہ اس کے قرض کی واپسی کے امکانات بہتر ہوں۔حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو تین سال کے لیے جوچھ ارب ڈالرکی امداد منظور کی ہے ، اس کی بابت بھی یہی کہاجارہا ہے کہ اس کا دوتہائی حصہ اسی عرصے میں آئی ایم ایف کی واجب الادا اقساط مع سود کی صورت میں اُس کو واپس چلا جائے گا۔
سو ہمارے وزیرِ اعظم اور مشیرِ خزانہ قوم کویقین دلارہے ہیں کہ 2020قومی معیشت کی اُٹھان کا سال ہے،لہٰذا اب ہم قوم کو فیض رسانی اور سہولتیں فراہم کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ان کے بقول اپوزیشن اسی لیے گھبراہٹ کا شکار ہے کہ معاشی استحکام حکومت کو مزید استحکام بخشے گا۔ حکومت کے بعض اقدامات کی تحسین تاجر اور صنعت کار بھی کر رہے ہیں ،کسی حد تک پاکستانی کرنسی روپے کی قدر میں بھی ٹھیرائو آگیا ہے۔نیز بتایا جارہا ہے کہ ہم کرنٹ اکائونٹ کے خسارے سے نکل آئے ہیں، زرِ مبادلہ کے حوالے سے توازنِ ادائیگی خسارے سے نکل کرمُثبت حدود میں داخل ہوگیا ہے، وغیرہ۔
اعداد وشمار کی جو جادوگری معاشی اشاریوں میں کارفرما ہوتی ہیں،اس کے اعتبار سے بظاہر یہ خبریں اچھی ہیں۔ہماری دعا ہے کہ حقائق ایسے ہی ہوں اور نتائج بھی حکومت کی خواہشات اور دعووں کے مطابق برآمد ہوں،کیونکہ اگر حکومت ان وعدوں اور دعووں میں سرخروہوتی ہے تو اس میں قوم وملک کی فلاح ہے۔
لیکن ماہرین کے خدشات بدستور قائم ہیں ،ان کے نزدیک نہ معاشی استحکام کا کوئی فیض اب تک عوام کو مل سکا، نہ اشیائے صَرف کی گرانی کا گراف نیچے آرہاہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی نوید سنائی جارہی ہے،بلکہ مہنگائی کے بارے میں مزید تنبیہات آرہی ہیں۔
حالیہ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت پٹرول اور ڈیزل پرغیر متناسب ٹیکس لے رہی ہے، ٹیکس کی ایسی ہی وصولیابیوں کو بالواسطہ ٹیکس سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کابوجھ براہِ راسست عام صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے اور اس میں غیر معمولی دولت منداور انتہائی نادار میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا، یہی صورتِ حال گیس، بجلی اور دیگر یوٹیلیٹی بلز کی ہے۔جب تک بجلی کے ’’لائن لاسز‘‘ پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاتا، اس کا بوجھ عام صارفین پر پڑتا رہے گا۔ لائن لاسز سے مراد یہ ہے کہ پاور جنریشن یونٹ جتنی بجلی پیدا کر کے سسٹم یعنی نیشنل گرڈ میں ڈالتے ہیں جہاں سے صارفین کے لیے بجلی کی ترسیل شروع ہوتی ہے، اس میں اور بجلی کے بلوں میں کافی فرق ہوتا ہے۔ای
ک ماہرِ معیشت بتارہے تھے کہ بحیثیتِ مجموعی اب بھی ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن لاسز کی شرح بیس فیصد ہے، جو ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اب ترسیل اور بلنگ میں جو تفاوت ہے، یہ بجلی کدھر جاتی ہے، اس کا پتا نہیں لگایا جارہا کہ بجلی چوری کہاں کہاں ہورہی ہے اور اس پر قابو پانے کی صورتیں کیا ہیں۔
حکومت یہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ درآمدی بِل کم ہوگیا ہے، اگر یہ کمی اشیائے ضرورت اور اشیائے تعیّش میں ہو تو قابلِ تحسین ہے،کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہمارا صنعتی پہیہ حرکت میں آگیا ہے ،ہم اپنے لیے اشیائے ضرورت خود پیدا کرنے لگ گئے ہیں اورتعیّشات کو ہم نے خیر باد کہہ دیا ہے۔ لیکن کیا حقیقت یہی ہے، اس سوال کا مثبت جواب دستیاب نہیں ہے۔
قابلِ فہم بات یہ ہے کہ معاشی اور صنعتی سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں، یعنی معیشت کا حُجم پھیلنے کے بجائے سکڑ رہا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر انتہائی کم ہونے کی وجہ سے بعض صنعتوں پر منفی اثر پڑا ہے ، مثلاً: گاڑیاں تیار کرنے والے کارخانوں کی پروڈکشن ان کی استعداد سے کم ہے ،کیونکہ قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے مارکیٹ میں طلب
کم ہوگئی ہے، لہٰذا اس صنعت میں اسٹاف کی ڈائون سائزنگ ہورہی ہے،اوقاتِ کار کو کم کیا جارہا ہے،کیونکہ مارکیٹ میں طلب کم ہونے کی وجہ سے ان کے چیسس اور دیگر پرزوں کی درآمد کم ہوگئی ہے اور اس سے یقینا درآمدی بل میں کمی آئی ہوگی۔
اسی طرح بعض صنعتوں میں مندی آنے کی وجہ سے خام مال اورصنعتی مشینری کی درآمد کم ہوگئی ہے، اس کا اثر براہِ راست روزگار کے مواقع اور ملازمتوں کی کمی کی صورت میں مرتب ہورہا ہے۔صنعتی سرگرمیاں تیز ہونے کی وجہ سے یقینا مشینری، پرزوں اور خام مال کی درآمد کا بِل بڑھ جاتا ہے، لیکن اس سے معیشت کا حجم بھی بڑھتا ہے، روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں ، نیز کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسز کی صورت میں حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے ، جو نہیں ہورہا ،اس کا ثبوت یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے محصولات کے مقررہ ہدف میں تین سوارب روپے کی کمی پر اتفاق کرلیا ہے ۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کا تجزیہ حقیقت پسندانہ انداز میں کیا جائے تاکہ لوگوں کے سامنے صحیح تصویر آئے، کیونکہ جب معاشی استحکام کی بِشارت دی جارہی ہواور اس کے مقابل روزگار کے مواقع کم ہورہے ہوں، نیز مہنگائی کی شرح میں کمی کے بجائے آئے روز اس میں اضافہ ہورہا ہو تو پھر لوگوں کا حکومتی دعووں پر اعتماد اٹھ جاتا ہے، جو قابلِ اطمینان بات نہیں ہے۔
ایک ماہرِ معیشت بتارہے تھے :’’شرحِ سود زیادہ ہونے کے سبب بیرونِ ملک سے لوگ دو فیصد کی شرح سے مغربی بینکوں سے ڈالرقرض پر لیتے ہیں اور دس فیصد پر ہمارے بینکوں میں جمع کردیتے ہیں اور کسی معاشی عمل کے بغیر نفع کماکرڈالر کی صورت میں ہمارے خزانے سے لے جاتے ہیں،اسے وہ ہاٹ منی سے تعبیر کرتے ہیں ،سواگر آنے والے دلوں میں اسٹیٹ بینک شرحِ سود کو کافی حد تک کم کرتا ہے تو یہ لوگ اپنے ڈالرنکال کر لے جائیں گے اور ہمارے زرِ مبادلہ کا توازن پھر غیر متزلزل ہوجائے گا۔ آیا یہ بیانیہ درست ہے ، اسٹیٹ بینک کی طرف سے اس کی وضاحت آنی چاہیے،کیونکہ اُن کے بقول ایسے مصنوعی طریقے سے پاکستان میں ڈالر کی آمد ہماری قومی معیشت کے لیے دیرپانتائج کے اعتبار سے نقصان دہ ثابت ہوگی‘‘، نوٹ: یہاں ایک لبرل ماہر معیشت کا تبصرہ نقل کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سود کو شرعی جواز دیا جارہا ہے ،کیونکہ تاحال بحیثیتِ مجموعی ہمارا نظامِ معیشت سود پر ہی مبنی ہے۔
ایک اور ماہرِ معیشت مشورہ دے رہے تھے: ’’پکڑ دھکڑ اور چور اچکے کا شوروغوغا چھوڑ کر سیاسی استحکام کا ماحول پیدا کیا جائے اور قومی اتفاقِ رائے سے ایک’’ میثاقِ معیشت ‘‘تشکیل دیا جائے ،جسے تمام سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔ وزیرِ اعظم اگرچہ ایک فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں اور دعوے یا خواہش کی حد تک یہ قابلِ تحسین بات ہے، لیکن ہم عالمی سرمایہ دارانہ معیشت اور کارپوریٹ کلچر کا حصہ ہیں اور یہ صورتِ حال ہم پر مسلط ہے ،اختیاری نہیں ہے۔اسلامی نظامِ معیشت کی روح دولت کا عدمِ ارتکازہے ، اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کی تقسیم کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’تاکہ وہ مالِ غنیمت تمہارے مالداروں میں (ہی)گردش نہ کرتا رہے، (الحشر:7)‘‘۔
اسلام کا قانونِ وراثت بھی در اصل تقسیم دولت کا ایک ذریعہ ہے، اسی لیے تقسیم وراثت کو اختیاری نہیں رکھا بلکہ لازمی قرار دیا ہے، صدقات وخیرات کی ترغیب اور اسراف وتبذیر کی ممانعت کا مقصد بھی یہی ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میں مومنوں سے اُن کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں ،سو مومنوں میں سے جواپنے ذمے قرض چھوڑ کر وفات پائے تو اس کی ادائی میرے ذمے ہے اور جو مال چھوڑ کر جائے، وہ اس کے وارثوں کا ہے، (بخاری:2298)‘‘۔
اس کے برعکس سرمایہ دارانہ معیشت کی روح دولت کی مساویانہ یا منصفانہ تقسیم نہیں ہے ،بلکہ ارتکازِ دولت ہے، کہاجاتا ہے کہ دنیا کے مالی وسائل کا اسّی فیصد حصہ پانچ سو بڑے کارپوریٹ اداروں کے پاس ہے۔اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معیشت کی ماہیت میں استحصال کی روح کس قدرکارفرما ہوتی ہے، اس میں انسانیت کے لیے رحم کا جذبہ نہیں ہوتا۔ امریکا جیسے ملک میں یہی طبقہ صدر اور کانگریس کے انتخابات میں سرمایہ کاری کرتا ہے اور پھر پورے نظام کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتا ہے، موجودہ امریکی صدر ٹرمپ اسی طبقے کے نمائندے ہیں۔
سرمایہ دارانہ معیشت میں حکومت کا کنٹرول ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے، وہ صرف ریگولیٹرکا کردار ادا کرتی ہے ،اس میں بھی سرمایہ داروں کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے ،کیونکہ حکومت کو اپنا نظام چلانے کے لیے محصولات کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا بڑا حصہ اسی شعبے سے حاصل ہوتا ہے، عام زبان میں کہہ سکتے ہیں : ’’حکومت کا کچن اسی سے چلتا ہے‘‘۔ اسی سبب نیب کی رسائی سے تاجر اور کاروباری طبقے کو محفوظ رکھنے کے لیے ’’ نیب ترمیمی آرڈیننس‘‘ جاری کرنا پڑا، جبکہ اسی ادارے کو سیاست دانوں کے خلاف بے رحمی سے استعمال کیا جاتا رہاہے، چنانچہ سابق چیف جسٹس جنابِ کھو سہ نے کہا تھا: ’
اسی طرح بعض صنعتوں میں مندی آنے کی وجہ سے خام مال اورصنعتی مشینری کی درآمد کم ہوگئی ہے، اس کا اثر براہِ راست روزگار کے مواقع اور ملازمتوں کی کمی کی صورت میں مرتب ہورہا ہے۔صنعتی سرگرمیاں تیز ہونے کی وجہ سے یقینا مشینری، پرزوں اور خام مال کی درآمد کا بِل بڑھ جاتا ہے، لیکن اس سے معیشت کا حجم بھی بڑھتا ہے، روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں ، نیز کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسز کی صورت میں حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے ، جو نہیں ہورہا ،اس کا ثبوت یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے محصولات کے مقررہ ہدف میں تین سوارب روپے کی کمی پر اتفاق کرلیا ہے ۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کا تجزیہ حقیقت پسندانہ انداز میں کیا جائے تاکہ لوگوں کے سامنے صحیح تصویر آئے، کیونکہ جب معاشی استحکام کی بِشارت دی جارہی ہواور اس کے مقابل روزگار کے مواقع کم ہورہے ہوں، نیز مہنگائی کی شرح میں کمی کے بجائے آئے روز اس میں اضافہ ہورہا ہو تو پھر لوگوں کا حکومتی دعووں پر اعتماد اٹھ جاتا ہے، جو قابلِ اطمینان بات نہیں ہے۔
ایک ماہرِ معیشت بتارہے تھے :’’شرحِ سود زیادہ ہونے کے سبب بیرونِ ملک سے لوگ دو فیصد کی شرح سے مغربی بینکوں سے ڈالرقرض پر لیتے ہیں اور دس فیصد پر ہمارے بینکوں میں جمع کردیتے ہیں اور کسی معاشی عمل کے بغیر نفع کماکرڈالر کی صورت میں ہمارے خزانے سے لے جاتے ہیں،اسے وہ ہاٹ منی سے تعبیر کرتے ہیں ،سواگر آنے والے دلوں میں اسٹیٹ بینک شرحِ سود کو کافی حد تک کم کرتا ہے تو یہ لوگ اپنے ڈالرنکال کر لے جائیں گے اور ہمارے زرِ مبادلہ کا توازن پھر غیر متزلزل ہوجائے گا۔ آیا یہ بیانیہ درست ہے ، اسٹیٹ بینک کی طرف سے اس کی وضاحت آنی چاہیے،کیونکہ اُن کے بقول ایسے مصنوعی طریقے سے پاکستان میں ڈالر کی آمد ہماری قومی معیشت کے لیے دیرپانتائج کے اعتبار سے نقصان دہ ثابت ہوگی‘‘، نوٹ: یہاں ایک لبرل ماہر معیشت کا تبصرہ نقل کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سود کو شرعی جواز دیا جارہا ہے ،کیونکہ تاحال بحیثیتِ مجموعی ہمارا نظامِ معیشت سود پر ہی مبنی ہے۔
ایک اور ماہرِ معیشت مشورہ دے رہے تھے: ’’پکڑ دھکڑ اور چور اچکے کا شوروغوغا چھوڑ کر سیاسی استحکام کا ماحول پیدا کیا جائے اور قومی اتفاقِ رائے سے ایک’’ میثاقِ معیشت ‘‘تشکیل دیا جائے ،جسے تمام سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔ وزیرِ اعظم اگرچہ ایک فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں اور دعوے یا خواہش کی حد تک یہ قابلِ تحسین بات ہے، لیکن ہم عالمی سرمایہ دارانہ معیشت اور کارپوریٹ کلچر کا حصہ ہیں اور یہ صورتِ حال ہم پر مسلط ہے ،اختیاری نہیں ہے۔اسلامی نظامِ معیشت کی روح دولت کا عدمِ ارتکازہے ، اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کی تقسیم کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’تاکہ وہ مالِ غنیمت تمہارے مالداروں میں (ہی)گردش نہ کرتا رہے، (الحشر:7)‘‘۔
اسلام کا قانونِ وراثت بھی در اصل تقسیم دولت کا ایک ذریعہ ہے، اسی لیے تقسیم وراثت کو اختیاری نہیں رکھا بلکہ لازمی قرار دیا ہے، صدقات وخیرات کی ترغیب اور اسراف وتبذیر کی ممانعت کا مقصد بھی یہی ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میں مومنوں سے اُن کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں ،سو مومنوں میں سے جواپنے ذمے قرض چھوڑ کر وفات پائے تو اس کی ادائی میرے ذمے ہے اور جو مال چھوڑ کر جائے، وہ اس کے وارثوں کا ہے، (بخاری:2298)‘‘۔
اس کے برعکس سرمایہ دارانہ معیشت کی روح دولت کی مساویانہ یا منصفانہ تقسیم نہیں ہے ،بلکہ ارتکازِ دولت ہے، کہاجاتا ہے کہ دنیا کے مالی وسائل کا اسّی فیصد حصہ پانچ سو بڑے کارپوریٹ اداروں کے پاس ہے۔اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معیشت کی ماہیت میں استحصال کی روح کس قدرکارفرما ہوتی ہے، اس میں انسانیت کے لیے رحم کا جذبہ نہیں ہوتا۔ امریکا جیسے ملک میں یہی طبقہ صدر اور کانگریس کے انتخابات میں سرمایہ کاری کرتا ہے اور پھر پورے نظام کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتا ہے، موجودہ امریکی صدر ٹرمپ اسی طبقے کے نمائندے ہیں۔
سرمایہ دارانہ معیشت میں حکومت کا کنٹرول ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے، وہ صرف ریگولیٹرکا کردار ادا کرتی ہے ،اس میں بھی سرمایہ داروں کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے ،کیونکہ حکومت کو اپنا نظام چلانے کے لیے محصولات کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا بڑا حصہ اسی شعبے سے حاصل ہوتا ہے، عام زبان میں کہہ سکتے ہیں : ’’حکومت کا کچن اسی سے چلتا ہے‘‘۔ اسی سبب نیب کی رسائی سے تاجر اور کاروباری طبقے کو محفوظ رکھنے کے لیے ’’ نیب ترمیمی آرڈیننس‘‘ جاری کرنا پڑا، جبکہ اسی ادارے کو سیاست دانوں کے خلاف بے رحمی سے استعمال کیا جاتا رہاہے، چنانچہ سابق چیف جسٹس جنابِ کھو سہ نے کہا تھا: ’
’ملک میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ احتساب کا عمل سیاسی انجینئرنگ ہے، اس سے نیب کی ساکھ مجروح ہورہی ہے‘‘۔
حال ہی میں جاری کردہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے تاجروں ،صنعتکاروں اور بیوروکریٹس کو جو تحفظ دیا گیا ہے، اس سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ یہ ادارہ محض سیاسی انتقام کے لیے حکومت کا آلۂ کار بن کر رہ گیا ہے، احتساب انتقام میں ڈھل گیا ہے، چیئرمین نیب کو بار بار وضاحتیں کرنی پڑتی ہیں اوریہ قول درست ثابت ہورہا ہے : ’’حکومت کی تردید صدقِ مستور کی نشاندہی کرتی ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا،4دسمبر2019)
حال ہی میں جاری کردہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے تاجروں ،صنعتکاروں اور بیوروکریٹس کو جو تحفظ دیا گیا ہے، اس سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ یہ ادارہ محض سیاسی انتقام کے لیے حکومت کا آلۂ کار بن کر رہ گیا ہے، احتساب انتقام میں ڈھل گیا ہے، چیئرمین نیب کو بار بار وضاحتیں کرنی پڑتی ہیں اوریہ قول درست ثابت ہورہا ہے : ’’حکومت کی تردید صدقِ مستور کی نشاندہی کرتی ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا،4دسمبر2019)
سورج گہن
از مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمٰن
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=163698968332867&id=100551597980938
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(۱) ’’وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذَلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ oوَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیْمِ oلَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ o
ترجمہ:’’ اور سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتارہتاہے ،یہ بڑی غالب اور علیم ہستی کا مقررکیاہوانظام ہے اورہم نے چاند کے لیے بھی منزلیں مقرر فرمادی ہیں ، یہاں تک کہ وہ لوٹ کر کھجور کی پرانی شاخ کی مانند (باریک) ہوجاتا ہے، نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنی گردش کے دوران) چاند کو جا پکڑے اورنہ ہی رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے اورہرایک (اپنے اپنے) مدار میں تیر رہا ہے ،(یاسین:38-40)‘‘۔
(۲)’’ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ oوَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ o‘‘۔
ترجمہ:’’ سورج اور چاند حساب (اور قدرت کے مقررہ ضابطے ) کے پابند ہیں اور (زمین پر بچھا ہوا) سبز ہ اور (کھڑے) درخت (اس کے حضور) سجدہ ریز ہیں،(الرحمن:5-6)‘‘۔
(3)’’إِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِہِ‘‘۔
ترجمہ:’’ بے شک اللہ تعالیٰ آسمانوں اورزمین کو روکے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے (نہ) ہٹیں اوراگر وہ ہٹ جائیں ،تو اللہ تعالیٰ کے سواکوئی انہیں روک نہ سکے ،(فاطر:41)‘‘۔
ان آیات سے معلو م ہوا کہ سورج ، چاند ،ستارے ، بحر وبر ، ہوائیں ،بادل اور گردشِ لیل ونہار یہاں تک کہ پورا نظام ِ کائنات اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے ،یہ سب مظاہر کائنات ایک قادرمطلق ہستی کے غیر مرئی نظم وضبط کی لڑی میں اتنی شدت سے بندھے ہوئے ہیں کہ کسی کو مجال ِ انحراف نہیں ہے۔ یہ نظامِ کائنات کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے ،بلکہ ایک مربوط ، منضبط اور مُنظم شاہکار قدرت ہے ۔
’’عَنْ أَبِی مُوسٰی قَالَ:خَسَفَتِ الشَّمْسُ،فَقَامَ النَّبِیُّ ﷺ فَزِعًا،یَخْشٰی أَنْ تَکُوْنَ السَّاعَۃُ، فَاَتَی المَسْجِدَ، فَصَلّٰی بِاَطْوَلِ قِیَامٍ وَرُکُوْعٍ وَسُجُوْدٍ رَأَیْتُہٗ قَطُّ یَفْعَلُہٗ، وَقَالَ:ہٰذِہِ الْآیَاتُ الَّتِی یُرْسِلُ اللّٰہُ،لَا تَکُوْنُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَیَاتِہٖ، وَلٰکِنْ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہٗ،فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ، فَافْزَعُوْا إِلٰی ذِکْرِہٖ وَدُعَائِہٖ وَاسْتِغْفَارِہٖ‘‘۔
ترجمہ:’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ کے عہد کریم میں ایک مرتبہ آفتاب میں گہن لگا،آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور بہت طویل قیام و رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ میں نے کبھی ایسا کرتے نہ دیکھا اور یہ فرمایا:اللہ عزوجل کسی کی موت و حیات کے سبب اپنی یہ نشانیاں ظاہر نہیں فرماتا، لیکن اِن سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا جب ان میں سے کچھ دیکھو تو ذکر و دُعا و استغفار کی طرف گھبرا کر اٹھو،(بخاری:1059)‘‘۔
’’عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدَبٍ،قَالَ:صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فِی الْکُسُوْفِ فَلَا نَسْمَعُ لَہٗ صَوْتًا‘‘۔
ترجمہ:’’حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے گہن کی نماز پڑھائی اور ہم رسول اللہ ﷺ کی آواز نہیں سنتے تھے،یعنی قراء ت آہستہ کی،(سُنن ابن ماجہ:1264)‘‘۔
یہ خیال شرعاً بالکل باطل اور غلط ہے کہ سورج یا چاند گرہن کے موقع پر خواتین بالخصوص حاملہ خواتین پر کوئی اثرات مرتب ہوتے ہیں یا انہیں اُس وقت چلتے پھرتے رہنا چاہیے، اِن تَوہُّمات کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے ،ہاں ! خواتین کو بھی چاہیے کہ نماز ،ذکر ، توبہ واستغفار اور تسبیح وتحمید میں مشغول رہیں ، اسی طرح حاملہ جانور کو بھی سورج گرہن یا چاند گرہن کے وقت کھڑا رکھنے یا چلاتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
’’سورج گہن کی نماز سنت مؤکدہ ہے اور چاند گہن کی مستحب۔ سورج گہن کی نماز جماعت سے پڑھنی مستحب ہے اور تنہا تنہا بھی ہو سکتی ہے اور جماعت سے پڑھی جائے تو خطبہ کے سوا تمام شرائط جمعہ اس کے لیے شرط ہیں، وہی شخص اس کی جماعت قائم کر سکتا ہے جو جمعہ کی کر سکتا ہے، وہ نہ ہو تو تنہا تنہا پڑھیں، گھر میں یا مسجد میں،گہن کی نماز اسی وقت پڑھیں جب آفتاب گہنا ہو، گہن چھوٹنے کے بعد نہیں اور گہن چھوٹنا شروع ہوگیا ،مگر ابھی باقی ہے اس وقت بھی شروع کر سکتے ہیں اور گہن کی حالت میں اس پر ابر آجائے جب بھی نماز پڑھیں۔
ایسے وقت گہن لگا کہ اس وقت نماز ممنوع ہے تو نماز نہ پڑھیں، بلکہ دُعا میں مشغول رہیں اور اسی حالت میں ڈوب جائے تو دُعا ختم کر دیں اور مغرب کی نماز پڑھیں،یہ نماز اور نوافل کی طرح دو رکعت پڑھیں یعنی ہر رکعت میں
از مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمٰن
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=163698968332867&id=100551597980938
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(۱) ’’وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذَلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ oوَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیْمِ oلَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ o
ترجمہ:’’ اور سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتارہتاہے ،یہ بڑی غالب اور علیم ہستی کا مقررکیاہوانظام ہے اورہم نے چاند کے لیے بھی منزلیں مقرر فرمادی ہیں ، یہاں تک کہ وہ لوٹ کر کھجور کی پرانی شاخ کی مانند (باریک) ہوجاتا ہے، نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنی گردش کے دوران) چاند کو جا پکڑے اورنہ ہی رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے اورہرایک (اپنے اپنے) مدار میں تیر رہا ہے ،(یاسین:38-40)‘‘۔
(۲)’’ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ oوَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ o‘‘۔
ترجمہ:’’ سورج اور چاند حساب (اور قدرت کے مقررہ ضابطے ) کے پابند ہیں اور (زمین پر بچھا ہوا) سبز ہ اور (کھڑے) درخت (اس کے حضور) سجدہ ریز ہیں،(الرحمن:5-6)‘‘۔
(3)’’إِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِہِ‘‘۔
ترجمہ:’’ بے شک اللہ تعالیٰ آسمانوں اورزمین کو روکے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے (نہ) ہٹیں اوراگر وہ ہٹ جائیں ،تو اللہ تعالیٰ کے سواکوئی انہیں روک نہ سکے ،(فاطر:41)‘‘۔
ان آیات سے معلو م ہوا کہ سورج ، چاند ،ستارے ، بحر وبر ، ہوائیں ،بادل اور گردشِ لیل ونہار یہاں تک کہ پورا نظام ِ کائنات اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے ،یہ سب مظاہر کائنات ایک قادرمطلق ہستی کے غیر مرئی نظم وضبط کی لڑی میں اتنی شدت سے بندھے ہوئے ہیں کہ کسی کو مجال ِ انحراف نہیں ہے۔ یہ نظامِ کائنات کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے ،بلکہ ایک مربوط ، منضبط اور مُنظم شاہکار قدرت ہے ۔
’’عَنْ أَبِی مُوسٰی قَالَ:خَسَفَتِ الشَّمْسُ،فَقَامَ النَّبِیُّ ﷺ فَزِعًا،یَخْشٰی أَنْ تَکُوْنَ السَّاعَۃُ، فَاَتَی المَسْجِدَ، فَصَلّٰی بِاَطْوَلِ قِیَامٍ وَرُکُوْعٍ وَسُجُوْدٍ رَأَیْتُہٗ قَطُّ یَفْعَلُہٗ، وَقَالَ:ہٰذِہِ الْآیَاتُ الَّتِی یُرْسِلُ اللّٰہُ،لَا تَکُوْنُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَیَاتِہٖ، وَلٰکِنْ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہٗ،فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ، فَافْزَعُوْا إِلٰی ذِکْرِہٖ وَدُعَائِہٖ وَاسْتِغْفَارِہٖ‘‘۔
ترجمہ:’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ کے عہد کریم میں ایک مرتبہ آفتاب میں گہن لگا،آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور بہت طویل قیام و رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ میں نے کبھی ایسا کرتے نہ دیکھا اور یہ فرمایا:اللہ عزوجل کسی کی موت و حیات کے سبب اپنی یہ نشانیاں ظاہر نہیں فرماتا، لیکن اِن سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا جب ان میں سے کچھ دیکھو تو ذکر و دُعا و استغفار کی طرف گھبرا کر اٹھو،(بخاری:1059)‘‘۔
’’عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدَبٍ،قَالَ:صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فِی الْکُسُوْفِ فَلَا نَسْمَعُ لَہٗ صَوْتًا‘‘۔
ترجمہ:’’حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے گہن کی نماز پڑھائی اور ہم رسول اللہ ﷺ کی آواز نہیں سنتے تھے،یعنی قراء ت آہستہ کی،(سُنن ابن ماجہ:1264)‘‘۔
یہ خیال شرعاً بالکل باطل اور غلط ہے کہ سورج یا چاند گرہن کے موقع پر خواتین بالخصوص حاملہ خواتین پر کوئی اثرات مرتب ہوتے ہیں یا انہیں اُس وقت چلتے پھرتے رہنا چاہیے، اِن تَوہُّمات کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے ،ہاں ! خواتین کو بھی چاہیے کہ نماز ،ذکر ، توبہ واستغفار اور تسبیح وتحمید میں مشغول رہیں ، اسی طرح حاملہ جانور کو بھی سورج گرہن یا چاند گرہن کے وقت کھڑا رکھنے یا چلاتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
’’سورج گہن کی نماز سنت مؤکدہ ہے اور چاند گہن کی مستحب۔ سورج گہن کی نماز جماعت سے پڑھنی مستحب ہے اور تنہا تنہا بھی ہو سکتی ہے اور جماعت سے پڑھی جائے تو خطبہ کے سوا تمام شرائط جمعہ اس کے لیے شرط ہیں، وہی شخص اس کی جماعت قائم کر سکتا ہے جو جمعہ کی کر سکتا ہے، وہ نہ ہو تو تنہا تنہا پڑھیں، گھر میں یا مسجد میں،گہن کی نماز اسی وقت پڑھیں جب آفتاب گہنا ہو، گہن چھوٹنے کے بعد نہیں اور گہن چھوٹنا شروع ہوگیا ،مگر ابھی باقی ہے اس وقت بھی شروع کر سکتے ہیں اور گہن کی حالت میں اس پر ابر آجائے جب بھی نماز پڑھیں۔
ایسے وقت گہن لگا کہ اس وقت نماز ممنوع ہے تو نماز نہ پڑھیں، بلکہ دُعا میں مشغول رہیں اور اسی حالت میں ڈوب جائے تو دُعا ختم کر دیں اور مغرب کی نماز پڑھیں،یہ نماز اور نوافل کی طرح دو رکعت پڑھیں یعنی ہر رکعت میں
ایک رکوع اور دو سجدے کریں نہ اس میں اذان ہے، نہ اقامت، نہ بلند آواز سے قراء ت اور نماز کے بعد دُعا کریں یہاں تک کہ آفتاب کھل جائے اور دورکعت سے زیادہ بھی پڑھ سکتے ہیں، خواہ دودورکعت پر سلام پھیریں یا چار پر،(بہارِ شریعت ، جلد:اول،ص:787)‘‘۔
------------------------
چاند کے بارے میں مزید معلومات کے لیے یہ 👇 نمبر اپنے موبائل میں سیو کر لیں اور ہمارا فیس بُک پیج ضرور لائک کیجیے
📱+92 332 3531226
🌐fb.com/ilmetauqeet
----------------------------
15 روزہ علم توقیت کورس 8 جنوری 2020ء بروز بدھ سے رات 9:00 تا 10:30 تک جامعہ نعیمیہ کراچی میں شروع ہو رہا ہے۔
-----------------
------------------------
چاند کے بارے میں مزید معلومات کے لیے یہ 👇 نمبر اپنے موبائل میں سیو کر لیں اور ہمارا فیس بُک پیج ضرور لائک کیجیے
📱+92 332 3531226
🌐fb.com/ilmetauqeet
----------------------------
15 روزہ علم توقیت کورس 8 جنوری 2020ء بروز بدھ سے رات 9:00 تا 10:30 تک جامعہ نعیمیہ کراچی میں شروع ہو رہا ہے۔
-----------------
*والدین کی شکایت*
۔۔۔تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
صبح فجر کی نماز پڑھ کر سو ہی رہا تھا کہ باہر کچھ آوازیں آنے لگیں لیکن میں پوری رات کا جاگا ہو ا تھا لہذا رضائی سر تک اوڑھی کروٹ لی اور دوبارہ سو گیا. کچھ دیر بعد اہلیہ نے آ کر جگایا ۔
ارے جاگیے ! یہ دیکھیے ہمارے گھر کے باہر رش کیوں لگ رہاہے ؟
اللہ خیر ! میں نے رضائی ایک طرف رکھی اور دروازے پر پہنچا. بہت سارے لوگ میرے دروازے پر جمع تھے. لوگوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے ۔
یا اللہ خیر ! میں ایک انتہائی شریف آدمی ہوں، کسی قسم کی بھی سیاست میں حصہ نہیں لیتا اور محلے کی یونین کا صدر بھی نہیں ہوں، پھر یہ لوگ احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟
جی فرمائیے! کیا شکایت ہے آپ کو ؟میں نے ہمت کرکے کہا ۔
ارے اسمٰعیل صاحب! ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ایک صاحب نے پلے کارڈ کچھ نیچے کرتے ہوئے کہا ۔
پھر یہ میرے دروازے پر احتجاج کیوں کیا جا رہاہے؟ میں نے کچھ ناراضگی سے کہا ۔
ارے مسئلہ آپ نے ہی حل کرنا ہے، اس لیے ہم سب آپ کے پاس آ ئے ہیں. ایک اور صاحب نے کہا ۔
مسئلہ میں نے حل کرنا ہے۔ میں بڑبڑایا ۔۔۔ آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے. میں کوئی وزیر نہیں ہوں کہ آپ کے مسئلے حل کر سکوں. آپ اپنی شکایات لے کر وزیر اعلیٰ کے پاس جائیے. وہ آپ کے مسائل حل کریں گے۔ میں نے ایک مرتبہ پھر انہیں سمجھانے کی کوشش کی.
نہیں یہ مسئلہ آپ ہی حل کر سکتے ہیں۔۔۔ ایک اور اچھی عمر کے آدمی نے مجھ سے کہا ۔
اچھا تو بتائیے! میں باہر ہی لگی بینچ پر بیٹھ گیا ۔
سب لوگوں نےایک ساتھ بولنا شروع کر دیا. ہماری یہ شکایت ہے اور ہمیں یہ شکایت ہے ۔۔۔
ارے بھئی ایک ایک کرکے بتائیے کسے شکایت ہے اور کس سے شکایت ہے؟ میں نے کہا تو سب لوگ خاموش ہوگئے. ان میں سے ایک آدمی نے کہا: ہمارے بچے ہمارا کہنا نہیں سنتے ہیں، یہ سب سوسائٹی کے والدین ہیں اور اپنے بچوں کی شکایت آپ سے کرنا چاہتے ہیں؟
مجھ سے کیوں کرنا چا ہتے ہیں؟ میں نے کہا.
یہ آپ کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں. آپ انہیں سمجھا دیں گے تویہ آپ کی بات سمجھ لیں گے۔
ان صاحب کی بات سُن کر میری جان میں جان آئی ۔۔۔دل ہی دل میں خوش بھی ہوا کہ اچھا تو مجھے چیف جسٹس بنایا جا رہاہے.
جی تو فرمائیے! آپ کو اپنے بچوں سے کیا شکایت ہے؟ میں نے پوچھا
میرے بچے صبح جاگتے ہیں لیکن بستر نہیں سمیٹتے. اب آپ ہی بتائیے کیا یہ بچوں کی اچھی بات ہے؟ ایک خاتون نے اپنے بچوں کی شکایت کرتے ہوئے کہا
اور میرے بچے اسکول سے آنے کے بعد یونیفارم ایسے پھینک کر جاتے ہیں جیسے گھر میں نوکروں کی فوج ہو اور سمیٹتی رہے گی۔ آپ انہیں سمجھائیے۔
ایک بچے کی مما تو بہت شدید غصے میں تھیں، بس مت پوچھو کتنے غصے میں تھیں۔۔۔ اپنے بیٹے کی شکایت کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں: یہ ہر وقت موبائل لے کر بیٹھا رہتا ہے. اس میں گیم کھیلتا رہتا ہے۔
اتنی ساری شکایات آپ کیسے یاد رکھیں، یہ لیجیے یہ میں نے والدین سے پوچھ کر بہت ساری شکایات اس پر چے پر لکھ دی ہیں. ایک خاتون نے پرچہ مجھے تھمایا. اس پرچے میں تو ڈھیر ساری شکایات تھیں ۔
• بچے ہوم ورک وقت پر نہیں کرتے
• آواز دو تو "جی" نہیں بولتے، سن کر ان سنی کر دیتے ہیں ۔
• ٹی وی اور کارٹون دیکھ دیکھ کر وقت ضائع کرتے ہیں ۔
اُف یہ توبہت ساری شکایات ہیں. بعد میں فرصت سے پڑھتا ہوں. پرچہ لپیٹ کر میں نے جیب میں رکھ لیا ۔
ایک صاحب کی تو سانس پھولی ہوئی تھی. میں نے انہیں اپنے برابر میں بٹھایا ور کہا جی آپ فرمائیے ۔۔۔
کہنے لگے: ہمارے بچے ہمارا خیال نہیں رکھتے. میرے پیروں میں درد ہوتا ہے مگر دباتے نہیں ہیں. میں بڑی مشکل سے چل کر آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے کہوں کہ میرے بچوں کو سمجھائیں ۔۔۔جوانی میں انہیں کما کر کھلایا، خون پسینہ ایک کر دیا. اب بڑھاپے میں کام کرنے کی سکت نہیں، مگر یہ بچے میرا اور میری بیوی کا خیال نہیں رکھتے. کیا یہ اللہ کے عذاب سے نہیں ڈرتے ۔
بیٹا ! اب ہم سے غذا ہضم نہیں ہوتی اس سے کہتے ہیں وٹامن والا دودھ لا دو. تو لا کر نہیں دیتا. اس دودھ سے کچھ توانائی آجاتی ہے ۔۔۔
بوڑھے والدین کو دیکھ کر تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
والدین کی ایک بہت بڑی اکثریت کو اپنی اپنی اولاد سے کچھ نہ کچھ شکایات تھیں ۔
میں مسلسل رو رہا تھا اور اسی رونے کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی یا اللہ ! یہ سب کیا خواب تھا؟
میری آنکھوں میں ابھی بھی آنسو تھے ۔۔۔ یہ اشارہ تھا کہ ایک کہانی بچوں کے لیے ایسی لکھی جائے جس میں بچے اللہ تعالیٰ کی نعمت "والدین " کی اہمیت کو جان سکیں ۔
پیارے بچو !کیا آپ کو معلوم ہے والدین کیسی نعمت ہیں؟ اور قرآن نے والدین کے بارے میں کیا حکم فرمایاہے؟
اللہ تعالیٰ کی سب نعمتیں بہت پیاری ہیں. والدین ایسی نعمت ہیں کہ اس جیسی کوئی دوسری نعمت نہیں. والدین کے لیے معلوم ہے قرآن نےکیا حکم دیاہے ؟
قرآن کریم نے بیان کیا۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا
۔۔۔تحریر: محمد اسمٰعیل بدایونی
صبح فجر کی نماز پڑھ کر سو ہی رہا تھا کہ باہر کچھ آوازیں آنے لگیں لیکن میں پوری رات کا جاگا ہو ا تھا لہذا رضائی سر تک اوڑھی کروٹ لی اور دوبارہ سو گیا. کچھ دیر بعد اہلیہ نے آ کر جگایا ۔
ارے جاگیے ! یہ دیکھیے ہمارے گھر کے باہر رش کیوں لگ رہاہے ؟
اللہ خیر ! میں نے رضائی ایک طرف رکھی اور دروازے پر پہنچا. بہت سارے لوگ میرے دروازے پر جمع تھے. لوگوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے ۔
یا اللہ خیر ! میں ایک انتہائی شریف آدمی ہوں، کسی قسم کی بھی سیاست میں حصہ نہیں لیتا اور محلے کی یونین کا صدر بھی نہیں ہوں، پھر یہ لوگ احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟
جی فرمائیے! کیا شکایت ہے آپ کو ؟میں نے ہمت کرکے کہا ۔
ارے اسمٰعیل صاحب! ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ایک صاحب نے پلے کارڈ کچھ نیچے کرتے ہوئے کہا ۔
پھر یہ میرے دروازے پر احتجاج کیوں کیا جا رہاہے؟ میں نے کچھ ناراضگی سے کہا ۔
ارے مسئلہ آپ نے ہی حل کرنا ہے، اس لیے ہم سب آپ کے پاس آ ئے ہیں. ایک اور صاحب نے کہا ۔
مسئلہ میں نے حل کرنا ہے۔ میں بڑبڑایا ۔۔۔ آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے. میں کوئی وزیر نہیں ہوں کہ آپ کے مسئلے حل کر سکوں. آپ اپنی شکایات لے کر وزیر اعلیٰ کے پاس جائیے. وہ آپ کے مسائل حل کریں گے۔ میں نے ایک مرتبہ پھر انہیں سمجھانے کی کوشش کی.
نہیں یہ مسئلہ آپ ہی حل کر سکتے ہیں۔۔۔ ایک اور اچھی عمر کے آدمی نے مجھ سے کہا ۔
اچھا تو بتائیے! میں باہر ہی لگی بینچ پر بیٹھ گیا ۔
سب لوگوں نےایک ساتھ بولنا شروع کر دیا. ہماری یہ شکایت ہے اور ہمیں یہ شکایت ہے ۔۔۔
ارے بھئی ایک ایک کرکے بتائیے کسے شکایت ہے اور کس سے شکایت ہے؟ میں نے کہا تو سب لوگ خاموش ہوگئے. ان میں سے ایک آدمی نے کہا: ہمارے بچے ہمارا کہنا نہیں سنتے ہیں، یہ سب سوسائٹی کے والدین ہیں اور اپنے بچوں کی شکایت آپ سے کرنا چاہتے ہیں؟
مجھ سے کیوں کرنا چا ہتے ہیں؟ میں نے کہا.
یہ آپ کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں. آپ انہیں سمجھا دیں گے تویہ آپ کی بات سمجھ لیں گے۔
ان صاحب کی بات سُن کر میری جان میں جان آئی ۔۔۔دل ہی دل میں خوش بھی ہوا کہ اچھا تو مجھے چیف جسٹس بنایا جا رہاہے.
جی تو فرمائیے! آپ کو اپنے بچوں سے کیا شکایت ہے؟ میں نے پوچھا
میرے بچے صبح جاگتے ہیں لیکن بستر نہیں سمیٹتے. اب آپ ہی بتائیے کیا یہ بچوں کی اچھی بات ہے؟ ایک خاتون نے اپنے بچوں کی شکایت کرتے ہوئے کہا
اور میرے بچے اسکول سے آنے کے بعد یونیفارم ایسے پھینک کر جاتے ہیں جیسے گھر میں نوکروں کی فوج ہو اور سمیٹتی رہے گی۔ آپ انہیں سمجھائیے۔
ایک بچے کی مما تو بہت شدید غصے میں تھیں، بس مت پوچھو کتنے غصے میں تھیں۔۔۔ اپنے بیٹے کی شکایت کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں: یہ ہر وقت موبائل لے کر بیٹھا رہتا ہے. اس میں گیم کھیلتا رہتا ہے۔
اتنی ساری شکایات آپ کیسے یاد رکھیں، یہ لیجیے یہ میں نے والدین سے پوچھ کر بہت ساری شکایات اس پر چے پر لکھ دی ہیں. ایک خاتون نے پرچہ مجھے تھمایا. اس پرچے میں تو ڈھیر ساری شکایات تھیں ۔
• بچے ہوم ورک وقت پر نہیں کرتے
• آواز دو تو "جی" نہیں بولتے، سن کر ان سنی کر دیتے ہیں ۔
• ٹی وی اور کارٹون دیکھ دیکھ کر وقت ضائع کرتے ہیں ۔
اُف یہ توبہت ساری شکایات ہیں. بعد میں فرصت سے پڑھتا ہوں. پرچہ لپیٹ کر میں نے جیب میں رکھ لیا ۔
ایک صاحب کی تو سانس پھولی ہوئی تھی. میں نے انہیں اپنے برابر میں بٹھایا ور کہا جی آپ فرمائیے ۔۔۔
کہنے لگے: ہمارے بچے ہمارا خیال نہیں رکھتے. میرے پیروں میں درد ہوتا ہے مگر دباتے نہیں ہیں. میں بڑی مشکل سے چل کر آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے کہوں کہ میرے بچوں کو سمجھائیں ۔۔۔جوانی میں انہیں کما کر کھلایا، خون پسینہ ایک کر دیا. اب بڑھاپے میں کام کرنے کی سکت نہیں، مگر یہ بچے میرا اور میری بیوی کا خیال نہیں رکھتے. کیا یہ اللہ کے عذاب سے نہیں ڈرتے ۔
بیٹا ! اب ہم سے غذا ہضم نہیں ہوتی اس سے کہتے ہیں وٹامن والا دودھ لا دو. تو لا کر نہیں دیتا. اس دودھ سے کچھ توانائی آجاتی ہے ۔۔۔
بوڑھے والدین کو دیکھ کر تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
والدین کی ایک بہت بڑی اکثریت کو اپنی اپنی اولاد سے کچھ نہ کچھ شکایات تھیں ۔
میں مسلسل رو رہا تھا اور اسی رونے کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی یا اللہ ! یہ سب کیا خواب تھا؟
میری آنکھوں میں ابھی بھی آنسو تھے ۔۔۔ یہ اشارہ تھا کہ ایک کہانی بچوں کے لیے ایسی لکھی جائے جس میں بچے اللہ تعالیٰ کی نعمت "والدین " کی اہمیت کو جان سکیں ۔
پیارے بچو !کیا آپ کو معلوم ہے والدین کیسی نعمت ہیں؟ اور قرآن نے والدین کے بارے میں کیا حکم فرمایاہے؟
اللہ تعالیٰ کی سب نعمتیں بہت پیاری ہیں. والدین ایسی نعمت ہیں کہ اس جیسی کوئی دوسری نعمت نہیں. والدین کے لیے معلوم ہے قرآن نےکیا حکم دیاہے ؟
قرآن کریم نے بیان کیا۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا
بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاۚ- سورہ انعام 151
تم فرماؤ، آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا وہ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳بنی اسرائیل )
اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوب صورت، نرم بات کہنا۔
دیکھو بچو ! ہمارے رب نے ہمیں کیا حکم دیا ہے:
والدین سے اُف بھی نہیں کرنا چاہیے. نرمی سے بات کرنا چاہیے ۔۔۔اور ہم کیسے کیسے سخت جملے بول جاتے ہیں. آج سے وعدہ کیجیے کہ والدین کا کہنا مانیں گے. ان کے سامنے اُف بھی نہیں کہیں گے ۔۔۔
علماء نے لکھا ہے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ معلوم ہے کیا ؟
شرک کے بعد والدین کی نافرمانی سب سے بڑا گناہ ہے ۔۔۔
قرآن نے والدین کے لیے دعا کرنے کی تعلیم دی ۔
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴)
اور ان کے لیے نرم دلی سے عاجزی کا بازو جھکا کر رکھ اور دعا کر کہ اے میرے رب! تو ان دونوں پر رحم فرما جیسا ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔
اپنے والدین کے لیے ہر نماز میں دعا کیجیے ۔
اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا :
پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔‘‘
(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، ۳ / ۳۶۰، الحدیث: ۱۹۰۷)
بچو! والدین کا نافرمان جنت میں نہیں جائے گا. اپنے والدین کا کہنا مانیے، ان کی خدمت کیجیے اور دل و جان سے خدمت کیجیے ۔
آپ تو جانتے ہی ہیں ماں کےپیروں تلے جنت ہے. بس خدمت کیجیے اور اپنی جنت کما لیجیے ۔
والدین کی اطاعت کے لیے ہم نے " ایک حدیث ایک کہانی " کے تحت 6 کتابیں لکھی ہیں
سنہری بخاری شریف
سنہری مسلم شریف
سنہری ترمذی شریف
سنہری ابو داؤد شریف
سنہری ابن ماجہ شریف
سنہری نسائی شریف
ان تمام کتابوں میں والدین کے ادب اور احترام کے حوالے سے آپ تمام کہانیاں پڑھیے.
یہ کتابیں جلد ان شاء اللہ شائع ہوں گی۔
تم فرماؤ، آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا وہ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳بنی اسرائیل )
اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوب صورت، نرم بات کہنا۔
دیکھو بچو ! ہمارے رب نے ہمیں کیا حکم دیا ہے:
والدین سے اُف بھی نہیں کرنا چاہیے. نرمی سے بات کرنا چاہیے ۔۔۔اور ہم کیسے کیسے سخت جملے بول جاتے ہیں. آج سے وعدہ کیجیے کہ والدین کا کہنا مانیں گے. ان کے سامنے اُف بھی نہیں کہیں گے ۔۔۔
علماء نے لکھا ہے شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ معلوم ہے کیا ؟
شرک کے بعد والدین کی نافرمانی سب سے بڑا گناہ ہے ۔۔۔
قرآن نے والدین کے لیے دعا کرنے کی تعلیم دی ۔
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴)
اور ان کے لیے نرم دلی سے عاجزی کا بازو جھکا کر رکھ اور دعا کر کہ اے میرے رب! تو ان دونوں پر رحم فرما جیسا ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔
اپنے والدین کے لیے ہر نماز میں دعا کیجیے ۔
اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا :
پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔‘‘
(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، ۳ / ۳۶۰، الحدیث: ۱۹۰۷)
بچو! والدین کا نافرمان جنت میں نہیں جائے گا. اپنے والدین کا کہنا مانیے، ان کی خدمت کیجیے اور دل و جان سے خدمت کیجیے ۔
آپ تو جانتے ہی ہیں ماں کےپیروں تلے جنت ہے. بس خدمت کیجیے اور اپنی جنت کما لیجیے ۔
والدین کی اطاعت کے لیے ہم نے " ایک حدیث ایک کہانی " کے تحت 6 کتابیں لکھی ہیں
سنہری بخاری شریف
سنہری مسلم شریف
سنہری ترمذی شریف
سنہری ابو داؤد شریف
سنہری ابن ماجہ شریف
سنہری نسائی شریف
ان تمام کتابوں میں والدین کے ادب اور احترام کے حوالے سے آپ تمام کہانیاں پڑھیے.
یہ کتابیں جلد ان شاء اللہ شائع ہوں گی۔
🌹 *مسجد کا ادب*🌹
بعض لوگ مسجد میں دنیاوی باتیں کرتے ہیں اور مزاق مستی کرتے ہیں۔ آئیے اس مضمون کا مطالعہ فرمائیں۔ اور ثواب کی نیت سے دوسروں کو بھی شیئر کریں۔
*مجلس ماہنامہ فیضان مدینہ*
بعض لوگ مسجد میں دنیاوی باتیں کرتے ہیں اور مزاق مستی کرتے ہیں۔ آئیے اس مضمون کا مطالعہ فرمائیں۔ اور ثواب کی نیت سے دوسروں کو بھی شیئر کریں۔
*مجلس ماہنامہ فیضان مدینہ*
کون یقین کرے گا.....!!
اٹلی کا ایک وفد جو صومالیہ جیسے غریب ملک میں تھا اس نے اپنے ملک اٹلی جانے سے انکار کردیا اور صومالیہ کی حکومت سے درخواست کی کہ اسے وہیں مستقل قیام کی اجازت دی جائے ____!
کون اعتبار کرے گا........!!
صومالیہ کے وزیراعظم نے اپنا دور اقتدار ختم ہونے کے بعد سکون اور خوش حالی کے لیے برطانیہ کو ہجرت کی _اس کا برطانیہ میں کرونا وائرس سے انتقال ہوگیا...!
کسے یقین آئے گا.........!!
امریکی صدر ٹرمپ نے میکسیکو کے غیر قانونی مہاجرین کو امریکہ میں داخلے سے روکنے کے لیے دونوں ملکوں کے بیچ ایک دیوار کھینچی تھی.... آج امریکی غیر قانونی مہاجرین کو روکنے کے لیے میکسیکو اسی دیوار کا استعمال کررہا ہے........!
کون یقین کرسکتا تھا.......!!
دو ماہ قبل اسپین اپنے یہاں مراقش کے راستے داخل ہونے والے غیر قانونی افریقی مہاجرین کی کشتیوں سے پریشان تھا... آج وہی کشتیاں اسپینی مہاجرین کو لے کر مراقش میں داخل ہونے کی کوشش کررہی ہیں..!
کسے یقین آئے گا..........!!
ایک طاقتور فوج، مضبوط اکانومی.... کی متحمل طاقتیں جو یہ کہتی تھیں کہ ہمیں کوئی خوفزدہ نہیں کرسکتا... آج خوف و ہراس میں مبتلا ہیں....!
کون سچ مانے گا.........!!
مسجدیں مقفل ہیں اور اجتماعی نمازیں معطل ہیں.. لیکن ان ملکوں میں اذانیں دی جارہی ہیں جہاں یہ ممنوع تھیں....!
کون اعتبار کرے گا.....!!
وہائٹ ہاؤس میں قرآن کی تلاوت کی جائے گی جہاں اسے دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا... امریکی اور مغربی اخبارات اور مذہب بیزار ملکوں میں احادیث نبوی کی تفسیر و تشریح کی جائے گی....!
کون یقین کرے گا.......!!
ڈاکٹرز کرونا کا شکار ہوکر فوت ہوں گے اور مریض شفایاب ہوجائیں گے........!
کون اعتبار کرے گا........!!
جنگ جیتنے کے لیے فوجیں بھیجی جاتی تھیں... وہیں آج انھیں بچانے کے لیے محاذ جنگ سے الگ کیا جارہا ہے......!
کون یقین کرے گا....!!
جو ڈاکٹرز قدرتی طریقے سے علاج کے خلاف تھے وہی آج اپنی پیشہ ورانہ ناکامی کے بعد اس وبا کے علاج کے لیے قدرتی طریقہ علاج کی تلاش میں ہیں......!
اگر یہ تمام باتیں آج سے تین ماہ قبل کہی جاتیں تو ہم میں سے کوئی اس کا یقین نہ کرتا_
کہو: تعریف اس خدا کے لیے ہے ، جس نے تبدیل نہ ہونے والی چیزوں کو تبدیل کردیا....
کہو: اے خدا...! ہمارے لیے حالات بدل دے اور انھیں ہمارے لیے بہترین کردے...
کہو: اے خدا....! ہمارے دلوں کو بدل دے.. انھیں اپنے راستے کی طرف موڑ دے....
اُسی مالک الملک کے لیے تمام تعریفیں ہیں...
کہو: اے میرے مالک...! میں پناہ چاہتا ہوں نعمتوں کے بعد محرومی سے ، خوش حالی کے بعد بدحالی سے ، امیری کے بعد غریبی سے ، اور ایمان کے بعد کفر سے........
کہو: اے مالک الملک...! تیری ذات سے ہماری امیدیں کبھی ختم نہ ہوں گی... یہ مصیبت کے بادل جلد چھٹ جائیں گے.... ان شاءاللہ ہماری کیفیت بھی جلد ہی تبدیل ہوجائے گی....
اے ارحم الراحمین ! تو بڑا فیاض ہے اور تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں.... بس ہم پر رحم فرما.......!!
اذکروااللہ...................... یرحمکم اللہ
عربي سے ترجمہ ۔
سالم فریادی
اٹلی کا ایک وفد جو صومالیہ جیسے غریب ملک میں تھا اس نے اپنے ملک اٹلی جانے سے انکار کردیا اور صومالیہ کی حکومت سے درخواست کی کہ اسے وہیں مستقل قیام کی اجازت دی جائے ____!
کون اعتبار کرے گا........!!
صومالیہ کے وزیراعظم نے اپنا دور اقتدار ختم ہونے کے بعد سکون اور خوش حالی کے لیے برطانیہ کو ہجرت کی _اس کا برطانیہ میں کرونا وائرس سے انتقال ہوگیا...!
کسے یقین آئے گا.........!!
امریکی صدر ٹرمپ نے میکسیکو کے غیر قانونی مہاجرین کو امریکہ میں داخلے سے روکنے کے لیے دونوں ملکوں کے بیچ ایک دیوار کھینچی تھی.... آج امریکی غیر قانونی مہاجرین کو روکنے کے لیے میکسیکو اسی دیوار کا استعمال کررہا ہے........!
کون یقین کرسکتا تھا.......!!
دو ماہ قبل اسپین اپنے یہاں مراقش کے راستے داخل ہونے والے غیر قانونی افریقی مہاجرین کی کشتیوں سے پریشان تھا... آج وہی کشتیاں اسپینی مہاجرین کو لے کر مراقش میں داخل ہونے کی کوشش کررہی ہیں..!
کسے یقین آئے گا..........!!
ایک طاقتور فوج، مضبوط اکانومی.... کی متحمل طاقتیں جو یہ کہتی تھیں کہ ہمیں کوئی خوفزدہ نہیں کرسکتا... آج خوف و ہراس میں مبتلا ہیں....!
کون سچ مانے گا.........!!
مسجدیں مقفل ہیں اور اجتماعی نمازیں معطل ہیں.. لیکن ان ملکوں میں اذانیں دی جارہی ہیں جہاں یہ ممنوع تھیں....!
کون اعتبار کرے گا.....!!
وہائٹ ہاؤس میں قرآن کی تلاوت کی جائے گی جہاں اسے دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا... امریکی اور مغربی اخبارات اور مذہب بیزار ملکوں میں احادیث نبوی کی تفسیر و تشریح کی جائے گی....!
کون یقین کرے گا.......!!
ڈاکٹرز کرونا کا شکار ہوکر فوت ہوں گے اور مریض شفایاب ہوجائیں گے........!
کون اعتبار کرے گا........!!
جنگ جیتنے کے لیے فوجیں بھیجی جاتی تھیں... وہیں آج انھیں بچانے کے لیے محاذ جنگ سے الگ کیا جارہا ہے......!
کون یقین کرے گا....!!
جو ڈاکٹرز قدرتی طریقے سے علاج کے خلاف تھے وہی آج اپنی پیشہ ورانہ ناکامی کے بعد اس وبا کے علاج کے لیے قدرتی طریقہ علاج کی تلاش میں ہیں......!
اگر یہ تمام باتیں آج سے تین ماہ قبل کہی جاتیں تو ہم میں سے کوئی اس کا یقین نہ کرتا_
کہو: تعریف اس خدا کے لیے ہے ، جس نے تبدیل نہ ہونے والی چیزوں کو تبدیل کردیا....
کہو: اے خدا...! ہمارے لیے حالات بدل دے اور انھیں ہمارے لیے بہترین کردے...
کہو: اے خدا....! ہمارے دلوں کو بدل دے.. انھیں اپنے راستے کی طرف موڑ دے....
اُسی مالک الملک کے لیے تمام تعریفیں ہیں...
کہو: اے میرے مالک...! میں پناہ چاہتا ہوں نعمتوں کے بعد محرومی سے ، خوش حالی کے بعد بدحالی سے ، امیری کے بعد غریبی سے ، اور ایمان کے بعد کفر سے........
کہو: اے مالک الملک...! تیری ذات سے ہماری امیدیں کبھی ختم نہ ہوں گی... یہ مصیبت کے بادل جلد چھٹ جائیں گے.... ان شاءاللہ ہماری کیفیت بھی جلد ہی تبدیل ہوجائے گی....
اے ارحم الراحمین ! تو بڑا فیاض ہے اور تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں.... بس ہم پر رحم فرما.......!!
اذکروااللہ...................... یرحمکم اللہ
عربي سے ترجمہ ۔
سالم فریادی
Forwarded from ✺ Best Telegram Links ✺
Please Subscribe Our Channel To Get More Islamic & Informative Data, Thanks 👇👇👇
https://youtu.be/otVCeLUkB7o
https://youtu.be/otVCeLUkB7o
YouTube
خانہ کعبہ کی موجودہ صورتحال ملاحظہ فرمائیے!
*غور طلب باتیں*👇👇👇
*نمبر ایک*
مسجد بھی کیا عجیب جگہ ہے. جہاں غریب باہر اور امیر اندر بھیک مانگتا ہے.
*نمبر دو*
بارات میں دولہا پیچھے اور دنیا آگے چلتی ہے جبکہ میت میں جنازہ آگے اور دنیا پیچھے چلتی ہے. یعنی دنیا خوشی میں آگے اور غم میں پیچھے ہو جاتی ہے ..!
*نمبر تین*
موم بتی جلا کر مُردوں کو یاد کرنا اور موم بتی بجھا کر سالگرہ منانا...!
*نمبر چار*
عمر بھر بوجھ اٹھایا ایک کیل نے اور لوگ تعریف تصویر کی کرتے رہے.
*نمبرپانچ*
پازیب ہزاروں روپے میں آتی ہے، پر پیروں میں پہنی جاتی ہے اور بِندیا 1 روپے میں آتی ہے مگر پیشانی پر سجائی جاتی ہے. اس لئے قیمت معنی نہیں رکھتی قسمت معنی رکھتی ہے.
*نمبر چھ*
نیم کی طرح کڑوا علم دینے والا ہی سچا دوست ہوتا ہے،
میٹھی بات کرنے والے تو چاپلوس بھی ہوتے ہیں. تاریخ گواہ ہے کہ آج تک نیم میں کبھی کیڑے نہیں پڑے اور مٹھائی میں تو اکثر کیڑے پڑ جایا کرتے ہیں.
*نمبر سات*
اچھے راستے پر کم لوگ چلتے ہیں لیکن برے راستے پر اکثریت چلتی ہے.
*نمبر آٹھ*
سب سے پیاری بات جو مجھے بہت پسند آئی
شراب بیچنے والا کہیں نہیں جاتا،
پر دودھ بیچنے والے کو گھر گھر اور گلی کوچے بھٹکنا پڑتا ہے
دودھ والے سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ دودھ میں پانی تو نہیں ڈالا؟
جبکہ شراب میں خود ہاتھوں سے پانی ملا ملا کر پیتے ہیں.
*سوچئے گا ضرور....*
💓🤲🏻💓🤲🏻💓🤲🏻💓
*نمبر ایک*
مسجد بھی کیا عجیب جگہ ہے. جہاں غریب باہر اور امیر اندر بھیک مانگتا ہے.
*نمبر دو*
بارات میں دولہا پیچھے اور دنیا آگے چلتی ہے جبکہ میت میں جنازہ آگے اور دنیا پیچھے چلتی ہے. یعنی دنیا خوشی میں آگے اور غم میں پیچھے ہو جاتی ہے ..!
*نمبر تین*
موم بتی جلا کر مُردوں کو یاد کرنا اور موم بتی بجھا کر سالگرہ منانا...!
*نمبر چار*
عمر بھر بوجھ اٹھایا ایک کیل نے اور لوگ تعریف تصویر کی کرتے رہے.
*نمبرپانچ*
پازیب ہزاروں روپے میں آتی ہے، پر پیروں میں پہنی جاتی ہے اور بِندیا 1 روپے میں آتی ہے مگر پیشانی پر سجائی جاتی ہے. اس لئے قیمت معنی نہیں رکھتی قسمت معنی رکھتی ہے.
*نمبر چھ*
نیم کی طرح کڑوا علم دینے والا ہی سچا دوست ہوتا ہے،
میٹھی بات کرنے والے تو چاپلوس بھی ہوتے ہیں. تاریخ گواہ ہے کہ آج تک نیم میں کبھی کیڑے نہیں پڑے اور مٹھائی میں تو اکثر کیڑے پڑ جایا کرتے ہیں.
*نمبر سات*
اچھے راستے پر کم لوگ چلتے ہیں لیکن برے راستے پر اکثریت چلتی ہے.
*نمبر آٹھ*
سب سے پیاری بات جو مجھے بہت پسند آئی
شراب بیچنے والا کہیں نہیں جاتا،
پر دودھ بیچنے والے کو گھر گھر اور گلی کوچے بھٹکنا پڑتا ہے
دودھ والے سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ دودھ میں پانی تو نہیں ڈالا؟
جبکہ شراب میں خود ہاتھوں سے پانی ملا ملا کر پیتے ہیں.
*سوچئے گا ضرور....*
💓🤲🏻💓🤲🏻💓🤲🏻💓