🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
(سورہ توبہ کی ایت نمبر ٩٩ کی بقیہ تفسیر)
*نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے کے بغیر رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش بیکار ہے:*
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ آیت کے اس حصے ’’ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ‘‘ اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں ’’ کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر نعمت میں سب سے بڑا واسطہ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لئے جو بھی عمل کیا جائے ا س میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے، ارشاد فرمایا :
’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘ (ال عمران:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔
تو جو یہ گمان رکھے کہ وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو واسطہ اور وسیلہ بنائے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے گا تو یہ اس کی خام خیالی اور بیکار کوشش ہے ۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)
معلوم ہوا کہ نیک اعمال میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی کی نیت کرنا شرک نہیں بلکہ قبولیت کی دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ئے مبارک ساری کائنات سے مُنفرد اور جداگانہ چیز ہے کیونکہ یہاں آیت میں قرب ِ الٰہی کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا حصول ایک مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
*صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور رضائے رسول:*
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ كی خوشی کیلئے بطورِ خاص کوشش کیا کرتے تھے جیسے اَحادیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں زیادہ تر نذرانے اس دن پیش کیا کرتے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے گھر تشریف فرما ہوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے زیادہ محبت ہے ۔ اسی طرح سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشی ہی کیلئے خلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اَزواجِ مُطہّرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کیلئے وظائف مقرر کئے ہوئے تھے۔
صدقہ وصول کرنے والے کے لئے سنت :*
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک یہی تھا کہ جب آپ کی بارگاہ میں کوئی صدقہ حاضر کرتا تو اس کے لئے خیر وبرکت اور بخشش کی دعا فرماتے ۔اس سے معلوم ہو اکہ صدقہ وصول کرنے والے کیلئے سنت یہ ہے کہ صدقہ دینے والے کو دعائے خیر سے نوازے۔
*{اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ:سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہے۔}* یعنی بے شک ان کا خرچ کرنا ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کیونکہ انہوں نے اخلاص کے ساتھ اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اس عمل کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وسیلہ بنایا عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اپنی رحمت یعنی جنت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اطاعت گزار بندوں کو بخشنے والا اور ان پرمہربان ہے۔ (جلالین مع صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)
*اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ:*
اِس آیت میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی نہایت عظمت کا بیان ہے اور وہ یوں کہ ویسے تو ہر نیک عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قرب کا ذریعہ ہے لیکن راہِ خدا میں خرچ کرنا ایسا خاص عمل ہے کہ جس کو بطورِ خاص اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے قرب کا ذریعہ قرآن میں بیان فرمایا ہے۔
*اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق 3 اَحادیث:*
یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے میں اسے اعلانِ جنگ دیتا ہوں
(سورہ توبہ کی ایت نمبر ٩٩ کی بقیہ تفسیر)
*نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے کے بغیر رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش بیکار ہے:*
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ آیت کے اس حصے ’’ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ‘‘ اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں ’’ کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر نعمت میں سب سے بڑا واسطہ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لئے جو بھی عمل کیا جائے ا س میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے، ارشاد فرمایا :
’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘ (ال عمران:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔
تو جو یہ گمان رکھے کہ وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو واسطہ اور وسیلہ بنائے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے گا تو یہ اس کی خام خیالی اور بیکار کوشش ہے ۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)
معلوم ہوا کہ نیک اعمال میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی کی نیت کرنا شرک نہیں بلکہ قبولیت کی دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ئے مبارک ساری کائنات سے مُنفرد اور جداگانہ چیز ہے کیونکہ یہاں آیت میں قرب ِ الٰہی کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا حصول ایک مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
*صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور رضائے رسول:*
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ كی خوشی کیلئے بطورِ خاص کوشش کیا کرتے تھے جیسے اَحادیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں زیادہ تر نذرانے اس دن پیش کیا کرتے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے گھر تشریف فرما ہوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے زیادہ محبت ہے ۔ اسی طرح سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشی ہی کیلئے خلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اَزواجِ مُطہّرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کیلئے وظائف مقرر کئے ہوئے تھے۔
صدقہ وصول کرنے والے کے لئے سنت :*
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک یہی تھا کہ جب آپ کی بارگاہ میں کوئی صدقہ حاضر کرتا تو اس کے لئے خیر وبرکت اور بخشش کی دعا فرماتے ۔اس سے معلوم ہو اکہ صدقہ وصول کرنے والے کیلئے سنت یہ ہے کہ صدقہ دینے والے کو دعائے خیر سے نوازے۔
*{اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ:سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہے۔}* یعنی بے شک ان کا خرچ کرنا ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کیونکہ انہوں نے اخلاص کے ساتھ اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اس عمل کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وسیلہ بنایا عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اپنی رحمت یعنی جنت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اطاعت گزار بندوں کو بخشنے والا اور ان پرمہربان ہے۔ (جلالین مع صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)
*اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ:*
اِس آیت میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی نہایت عظمت کا بیان ہے اور وہ یوں کہ ویسے تو ہر نیک عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قرب کا ذریعہ ہے لیکن راہِ خدا میں خرچ کرنا ایسا خاص عمل ہے کہ جس کو بطورِ خاص اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے قرب کا ذریعہ قرآن میں بیان فرمایا ہے۔
*اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق 3 اَحادیث:*
یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے میں اسے اعلانِ جنگ دیتا ہوں
اور میرے کسی بندے کا فرض عبادتوں کے مقابلے میں دوسری عبادتوں کے ذریعے مجھ سے قریب ہونا مجھے زیادہ پسند نہیں اور میرا بندہ (فرض عبادات کی ادائیگی کے ساتھ) نَوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، حتّٰی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، پھر جب اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو اسے دیتا ہوں اور اگر میری پناہ لیتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور جو مجھے کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی میں تردد نہیں کرتا جیسے کہ میں اس مومن کی جان نکالنے میں توقف کرتا ہوں جو موت سے گھبراتا ہے اور میں اسے ناخوش کرنا پسند نہیں کرتا ادھر موت بھی اس کے لیے ضروری ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزّوجل والتقرّب الیہ، الفصل الاول، ۱ / ۴۲۳، الحدیث: ۲۲۶۶)
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں ، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اکیلے ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی گروہ میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر گروہ میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت گز بھر اس کے قریب ہوجاتی ہے اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر ا س کی طرف جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذّرکم اللہ نفسہ، ۴ / ۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵)
(3)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو ایک نیکی کرے اسے دس گنا ثواب ہے اور زیادہ بھی دوں گا اور جو ایک گناہ کرے تو ایک برائی کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے یا (میں چاہوں تو ) اسے بخش دوں اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میری رحمت ایک گز اس کے نزدیک ہوجاتی ہے اورجو مجھ سے ایک گز نزدیک ہو تا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ برابر اس سے قریب ہوجاتی ہے ، جو میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تومیری رحمت اس کی طرف دوڑتی ہوئی آتی ہے، اور جو کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائے پھر زمین بھر گناہ لے کر مجھ سے ملے تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اس سے ملوں گا۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الذکر والدعاء والتقرّب الی اللہ تعالی، ص۱۴۴۳، الحدیث: ۲۲(۲۶۸۷))
*طالبِ دعاابوعمر*
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں ، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اکیلے ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی گروہ میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر گروہ میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت گز بھر اس کے قریب ہوجاتی ہے اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر ا س کی طرف جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذّرکم اللہ نفسہ، ۴ / ۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵)
(3)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو ایک نیکی کرے اسے دس گنا ثواب ہے اور زیادہ بھی دوں گا اور جو ایک گناہ کرے تو ایک برائی کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے یا (میں چاہوں تو ) اسے بخش دوں اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میری رحمت ایک گز اس کے نزدیک ہوجاتی ہے اورجو مجھ سے ایک گز نزدیک ہو تا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ برابر اس سے قریب ہوجاتی ہے ، جو میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تومیری رحمت اس کی طرف دوڑتی ہوئی آتی ہے، اور جو کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائے پھر زمین بھر گناہ لے کر مجھ سے ملے تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اس سے ملوں گا۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الذکر والدعاء والتقرّب الی اللہ تعالی، ص۱۴۴۳، الحدیث: ۲۲(۲۶۸۷))
*طالبِ دعاابوعمر*
*کرم یافتہ لوگ*
واصف علی واصف صاحب نے لکھا ہے جس پہ کرم ہے، اُس سے کبھی پنگا نہ لینا۔ وہ تو کرم پہ چل رہا ہے۔ تم چلتی مشین میں ہاتھ دو گے، اُڑ جاؤ گے۔
کرم کا فارمولا تو کوئی نہیں ۔اُس کرم کی وجہ ڈھونڈو۔ جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر ربّ کا کرم تھا
:: اُسے عاجز پایا۔ پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سا بندہ۔
:: بہت تیزی نہیں دکھائے گا۔
:: اُلجھائے گا نہیں۔ رستہ دے دے گا۔
:: بہت زیادہ غصّہ نہیں کرے گا۔
:: سِمپل بات کرے گا۔
:: میں نے ہر کرم ہوئے شخص کو مخلص دیکھا۔ اخلاص!!
:: غلطی کو مان جاتا ہے۔ معذرت کر لیتا ہے۔ سرنڈر کر دیتا ہے۔
:: جس پر کرم ہوا ہے نا، میں نے اُسے دوسروں کے لئے فائدہ مند دیکھا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے نفع ہو رہا ہو، اور اللہ آپ کے لئے کشادگی کو روک دے۔ وہ اور کرم کرے گا۔
:: میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے۔ حق سے زیادہ دیتا ہے۔ اُس کا درجن 13 کا ہوتا ہے، 12 کا نہیں۔
اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کے لئے آپ بھی درجن 13 کا کرو اپنی زندگی میں۔ اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کر دیا کرو۔ نئیں تو کیا ہو گا؟ حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا! دل کے کنجوس کے لئے کائنات بھی کنجوس ہے۔
دل کے سخی کے لئے کائنات خزانہ ہے۔
جب زندگی کےمعاملات اڑ جائیں سمجھ جاؤ تم نے دوسروں کے معاملات اڑاۓ ہوۓ ہیں۔
*آسانیاں دو آسانیاں ملیں گی___________
واصف علی واصف صاحب نے لکھا ہے جس پہ کرم ہے، اُس سے کبھی پنگا نہ لینا۔ وہ تو کرم پہ چل رہا ہے۔ تم چلتی مشین میں ہاتھ دو گے، اُڑ جاؤ گے۔
کرم کا فارمولا تو کوئی نہیں ۔اُس کرم کی وجہ ڈھونڈو۔ جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر ربّ کا کرم تھا
:: اُسے عاجز پایا۔ پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سا بندہ۔
:: بہت تیزی نہیں دکھائے گا۔
:: اُلجھائے گا نہیں۔ رستہ دے دے گا۔
:: بہت زیادہ غصّہ نہیں کرے گا۔
:: سِمپل بات کرے گا۔
:: میں نے ہر کرم ہوئے شخص کو مخلص دیکھا۔ اخلاص!!
:: غلطی کو مان جاتا ہے۔ معذرت کر لیتا ہے۔ سرنڈر کر دیتا ہے۔
:: جس پر کرم ہوا ہے نا، میں نے اُسے دوسروں کے لئے فائدہ مند دیکھا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے نفع ہو رہا ہو، اور اللہ آپ کے لئے کشادگی کو روک دے۔ وہ اور کرم کرے گا۔
:: میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے۔ حق سے زیادہ دیتا ہے۔ اُس کا درجن 13 کا ہوتا ہے، 12 کا نہیں۔
اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کے لئے آپ بھی درجن 13 کا کرو اپنی زندگی میں۔ اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کر دیا کرو۔ نئیں تو کیا ہو گا؟ حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا! دل کے کنجوس کے لئے کائنات بھی کنجوس ہے۔
دل کے سخی کے لئے کائنات خزانہ ہے۔
جب زندگی کےمعاملات اڑ جائیں سمجھ جاؤ تم نے دوسروں کے معاملات اڑاۓ ہوۓ ہیں۔
*آسانیاں دو آسانیاں ملیں گی___________
*زندگی کے ہر سانس لے لئے سبق*
حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں
*لكل شئ اساس و اساس الاسلام حب اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم و حب اھل بيته*
*ہر چیز کی ایک بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی بنیاد نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت اور آپ ﷺ کی اہل بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت ہے*
*کنز العمال جلد 11 صفحہ 539 حدیث نمبر 32523*
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اہل بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت مخصوص دن تک نہیں ہے بلکہ زندگی کی ہر سانس میں ضروری ہے*
اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
*اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور*
*نجم ہیں اور ناؤں ہے عترت رسول اللہ ﷺ کی*
حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں
*لكل شئ اساس و اساس الاسلام حب اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم و حب اھل بيته*
*ہر چیز کی ایک بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی بنیاد نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت اور آپ ﷺ کی اہل بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت ہے*
*کنز العمال جلد 11 صفحہ 539 حدیث نمبر 32523*
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اہل بیت کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت مخصوص دن تک نہیں ہے بلکہ زندگی کی ہر سانس میں ضروری ہے*
اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
*اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور*
*نجم ہیں اور ناؤں ہے عترت رسول اللہ ﷺ کی*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
سب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل اور جنتی ہیں :
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)
ترجمہ
اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اولین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔
تفسیر
*{وَ السّٰبِقُوْنَ:اور سبقت لے جانے ۔}* اس آیت کی ابتداء میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دو گروہوں کا ذکر ہوا۔
(1)… سابقین مہاجرین یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین ۔ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بدر مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بیت ِرضوان مراد ہیں۔
(2)… سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایمان قبول کیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۲۷۴، ملخصاً)
*{وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ: اور جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں۔}* بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں ، اس قول کے مطابق تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس آیت میں داخل ہوگئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت ا ورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا کہ اسے ان کے نیک عمل قبول ہیں اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے راضی ہیں کہ اس کے ثواب و عطاسے خوش ہیں۔ اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہ حضرات ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵)
*سب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل اور جنتی ہیں :*
اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸)
*نیکی میں پہل کرنا زیادہ باعث فضیلت ہے:*
اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کرنا یقینا بہت اچھی بات ہے لیکن نیکی میں پہل کرنا زیادہ فضیلت
سب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل اور جنتی ہیں :
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)
ترجمہ
اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اولین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔
تفسیر
*{وَ السّٰبِقُوْنَ:اور سبقت لے جانے ۔}* اس آیت کی ابتداء میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دو گروہوں کا ذکر ہوا۔
(1)… سابقین مہاجرین یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین ۔ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بدر مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بیت ِرضوان مراد ہیں۔
(2)… سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایمان قبول کیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۲۷۴، ملخصاً)
*{وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ: اور جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں۔}* بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں ، اس قول کے مطابق تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس آیت میں داخل ہوگئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت ا ورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا کہ اسے ان کے نیک عمل قبول ہیں اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے راضی ہیں کہ اس کے ثواب و عطاسے خوش ہیں۔ اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہ حضرات ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵)
*سب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل اور جنتی ہیں :*
اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸)
*نیکی میں پہل کرنا زیادہ باعث فضیلت ہے:*
اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کرنا یقینا بہت اچھی بات ہے لیکن نیکی میں پہل کرنا زیادہ فضیلت
کا باعث ہے کیونکہ پہل کرنے والا نیکی کے اس کام کو قوت و طاقت دیتا ہے اور نیکی کی طرف جلد رغبت میں فطرت کے نیک اور اچھا ہونے کی علامت بھی ہوتی ہے۔
*تابعی کی تعریف اور ان کے فضائل:*
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی حالت ِ ایمان میں زیارت کرنے والے حضرات کوتابعین کہا جاتا ہے اور یہ لفظ بھی غالباً اسی آیتِ مبارکہ سے لیا گیا ہے۔ ان کے زمانے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب لا یشہد علی شہادۃ جور اذا شہد، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۲۶۵۲)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک ایسازمانہ آئے گا کہ جب وہ بکثرت جمع ہو کر جہاد کریں گے توان سے پوچھا جائے گا کہ کیاتم میں کوئی ایسا شخص ہے جو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہا ہو؟لوگ کہیں گے کہ ہاں ! تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گاکہ وہ کثیر تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت پائی ہو؟ وہ جواب دیں گے :ہاں !تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی ۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ بڑی تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا: کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت سے مشرف ہونے والو ں کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو؟ لوگ اِثبات میں جواب دیں گے تو انہیں بھی فتح دی جائے گی۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۱۵، الحدیث: ۳۶۳۹)
حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل من رأی النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم وصحبہ، ۵ / ۴۶۱، الحدیث: ۳۸۸۴)
*طالب ِ دعاابوعمر*
*تابعی کی تعریف اور ان کے فضائل:*
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی حالت ِ ایمان میں زیارت کرنے والے حضرات کوتابعین کہا جاتا ہے اور یہ لفظ بھی غالباً اسی آیتِ مبارکہ سے لیا گیا ہے۔ ان کے زمانے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب لا یشہد علی شہادۃ جور اذا شہد، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۲۶۵۲)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک ایسازمانہ آئے گا کہ جب وہ بکثرت جمع ہو کر جہاد کریں گے توان سے پوچھا جائے گا کہ کیاتم میں کوئی ایسا شخص ہے جو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہا ہو؟لوگ کہیں گے کہ ہاں ! تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گاکہ وہ کثیر تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت پائی ہو؟ وہ جواب دیں گے :ہاں !تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی ۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ بڑی تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا: کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت سے مشرف ہونے والو ں کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو؟ لوگ اِثبات میں جواب دیں گے تو انہیں بھی فتح دی جائے گی۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۱۵، الحدیث: ۳۶۳۹)
حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل من رأی النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم وصحبہ، ۵ / ۴۶۱، الحدیث: ۳۸۸۴)
*طالب ِ دعاابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث* 🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر درود شریف پڑھے گا تو بروزِ قیامت اس کی شفاعت میرے ذمہ کرم پر ہوگی.
( کنزالعمال حدیث 2236 )
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
جو شخص جمعہ کے دن مجھ پر درود شریف پڑھے گا تو بروزِ قیامت اس کی شفاعت میرے ذمہ کرم پر ہوگی.
( کنزالعمال حدیث 2236 )
تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو!
کاتب_ ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
///_///_///_///_///_///_///_///_///
الحمد لله الذي أنزل {ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم}. [الأنعام : 108].
والصلاة والسلام على القائل (لا تَسُبُّوا الأمواتَ، فَإنَّهُمْ قَدْ أفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّموا).
وعلى آله الطاهرين، وأصحابه العادلين، وأتباعه إلى يوم الدين.
أما بعد،
وجود انسانی خالق کائنات کا عظیم شاہکار ہے، یہ حضرت انسان ہیں، جن کو اشرف المخلوقات کا تاج زریں پہنایا گیا، پھر ان میں سے کچھ افراد کو چنا گیا، انھیں نعمت ایمان سے نوازا گیا، اور امت محمد ﷺ میں سے بنایا گیا۔
غرض کہ کائنات کی ساری اعلی صفات ذات مومن میں ودیعت کر دی گئی، اور بحر وبر میں یہ اعلان بھی کردیا گیا:
{وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ}. [بقره: 221].
"اور تحقیق کہ مومن بندہ مشرک سے زیادہ بہتر ہے"۔
پھر ان مومن بندوں میں درجہ بندی کی گئی، کوئی اعلی درجہ پر فائز ہوا، کوئی متوسط درجے میں پہونچا، کسی کو ادنی درجہ دستیاب ہوا، اور یہ درجات ان کے اعمال صالحہ کے باعث انھیں ملے۔
چناں چہ جس نے حکم الہی کی اتباع کی، وہ دارین میں سر خرو ہوگیا، انھیں احکام الہیہ میں بے ہودہ گوئی سے ابتعاد کا بھی حکم ہے، جو معاشرہ کے لیے ناسور بن چکا ہے۔
جس امت کو {أمة وسطا} کے خطاب سے سرفراز کیا گیا، جسے امم عالم کی رہبری کی ذمہ داری سونپی گئی، آج وہی سب وشتم کے قعر میں ڈوبتی نظر آرہی ہے۔
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی نے بھت ہی خوبصورت انداز میں کہا ہے:
ہر اک فقرے پہ ہے جھڑکی، تو ہے ہر بات پر گالی
تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو!
آج عالم یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے چند اخص الخواص مواقف کو ہر جگہ بطور استدلال پیش کیا جا رہا ہے، اور قرآن وحدیث کے عمومی احکام {وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ}. [آل عمران: 104]، اور (ليس المؤمن بالطعَّان ولا اللعَّان، ولا الفاحش ولا البَذِيء) سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔
قرآن کریم نے تو اغیار سے بھی حسن معاشرت کا درس دیا ہے، چناں چہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا، اور یہ کہا گیا کہ اس سے نرم گوئی اختیار کریں، {فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا}.
اسی طرح عام مسلمانوں کو بتوں کو گالی دینے سے روکا گیا ہے، تاکہ کفار اپنی جہالت کی وجہ سے خدائے پاک کو گالی نہ دیں، ارشادِ باری ہے:
{وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّواْ اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ}. [انعام: 108].
"اور تم لوگ انہیں گالی نہ دو، جن کو یہ لوگ الله کے علاوہ پکارتے ہیں، تو یہ لوگ عداوتا الله کو جہالت کے باعث گالی دیں گے"-
رسول اعظم ﷺ فرماتے ہیں:
(الْمُسْتَبَّانِ شَيْطَانَانِ يَتَهَاتَرَانِ وَيَتَكَاذَبَانِ).
[صحيح ابن حبان 13: 34، رقم: 5696، بيروت: مؤسسة الرسالة].
"آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں، ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں، اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں"۔
دوسری حدیث میں ہے:
(سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ).
"مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے قتال کرنا کفر ہے"۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیم نے شیطان رجیم کو بھی گالی دینے سے باز رکھا ہے، آقائے دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں:
(لا تسبوا الشيطان، وتعوذوا بالله من شره).
"تم لوگ شیطان کو گالی نہ دو، تم لوگ اس کے شر سے الله کی پناہ مانگو"۔
امام مناوی -رحمه الله تعالى- اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
"إن السب لا يدفع ضره، ولا يغني من عداوته شيئا؛ ولكن تعوذوا بالله من شره؛ فإنه المالك لأمره، الدافع لكيده عمن شاء من عباده". [شرح الجامع الصغير].
"بے شک گالی شیطان کے ضرر کو دور نہیں کر سکتی ہے، اور نہ ہی اس کی عداوت سے کوئی چیز بچا سکتی ہے، مگر الله تعالی سے اس کے شر سے پناہ مانگو، الله تعالی اس کے معاملہ کا مالک ہے، اس کے مکر کو اپنے جس بندے سے چاہے دفع کرنے والا ہے"۔
ایک دوسری حدیث شریف میں ہے، روز جزاء ایک فرد کو لایا جائے گا، اس کے پاس بھت نیکیاں ہوں گی، مگر اس سے یہ نیکیاں لے لی جائیں گی، اور لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی، یہ فرد کوئی اور نہیں بلکہ "گالی باز" ہوگا، الفاظ حدیث یہ ہیں:
(إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا. فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ.
فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ، أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ، فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ).
"میری امت کا مفلس وہ ہے، جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکات کے ساتھ حاضر ہوگ
کاتب_ ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی
///_///_///_///_///_///_///_///_///
الحمد لله الذي أنزل {ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم}. [الأنعام : 108].
والصلاة والسلام على القائل (لا تَسُبُّوا الأمواتَ، فَإنَّهُمْ قَدْ أفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّموا).
وعلى آله الطاهرين، وأصحابه العادلين، وأتباعه إلى يوم الدين.
أما بعد،
وجود انسانی خالق کائنات کا عظیم شاہکار ہے، یہ حضرت انسان ہیں، جن کو اشرف المخلوقات کا تاج زریں پہنایا گیا، پھر ان میں سے کچھ افراد کو چنا گیا، انھیں نعمت ایمان سے نوازا گیا، اور امت محمد ﷺ میں سے بنایا گیا۔
غرض کہ کائنات کی ساری اعلی صفات ذات مومن میں ودیعت کر دی گئی، اور بحر وبر میں یہ اعلان بھی کردیا گیا:
{وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ}. [بقره: 221].
"اور تحقیق کہ مومن بندہ مشرک سے زیادہ بہتر ہے"۔
پھر ان مومن بندوں میں درجہ بندی کی گئی، کوئی اعلی درجہ پر فائز ہوا، کوئی متوسط درجے میں پہونچا، کسی کو ادنی درجہ دستیاب ہوا، اور یہ درجات ان کے اعمال صالحہ کے باعث انھیں ملے۔
چناں چہ جس نے حکم الہی کی اتباع کی، وہ دارین میں سر خرو ہوگیا، انھیں احکام الہیہ میں بے ہودہ گوئی سے ابتعاد کا بھی حکم ہے، جو معاشرہ کے لیے ناسور بن چکا ہے۔
جس امت کو {أمة وسطا} کے خطاب سے سرفراز کیا گیا، جسے امم عالم کی رہبری کی ذمہ داری سونپی گئی، آج وہی سب وشتم کے قعر میں ڈوبتی نظر آرہی ہے۔
منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی نے بھت ہی خوبصورت انداز میں کہا ہے:
ہر اک فقرے پہ ہے جھڑکی، تو ہے ہر بات پر گالی
تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو!
آج عالم یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے چند اخص الخواص مواقف کو ہر جگہ بطور استدلال پیش کیا جا رہا ہے، اور قرآن وحدیث کے عمومی احکام {وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ}. [آل عمران: 104]، اور (ليس المؤمن بالطعَّان ولا اللعَّان، ولا الفاحش ولا البَذِيء) سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔
قرآن کریم نے تو اغیار سے بھی حسن معاشرت کا درس دیا ہے، چناں چہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا، اور یہ کہا گیا کہ اس سے نرم گوئی اختیار کریں، {فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا}.
اسی طرح عام مسلمانوں کو بتوں کو گالی دینے سے روکا گیا ہے، تاکہ کفار اپنی جہالت کی وجہ سے خدائے پاک کو گالی نہ دیں، ارشادِ باری ہے:
{وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّواْ اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ}. [انعام: 108].
"اور تم لوگ انہیں گالی نہ دو، جن کو یہ لوگ الله کے علاوہ پکارتے ہیں، تو یہ لوگ عداوتا الله کو جہالت کے باعث گالی دیں گے"-
رسول اعظم ﷺ فرماتے ہیں:
(الْمُسْتَبَّانِ شَيْطَانَانِ يَتَهَاتَرَانِ وَيَتَكَاذَبَانِ).
[صحيح ابن حبان 13: 34، رقم: 5696، بيروت: مؤسسة الرسالة].
"آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں، ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں، اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں"۔
دوسری حدیث میں ہے:
(سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ).
"مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے قتال کرنا کفر ہے"۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیم نے شیطان رجیم کو بھی گالی دینے سے باز رکھا ہے، آقائے دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں:
(لا تسبوا الشيطان، وتعوذوا بالله من شره).
"تم لوگ شیطان کو گالی نہ دو، تم لوگ اس کے شر سے الله کی پناہ مانگو"۔
امام مناوی -رحمه الله تعالى- اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
"إن السب لا يدفع ضره، ولا يغني من عداوته شيئا؛ ولكن تعوذوا بالله من شره؛ فإنه المالك لأمره، الدافع لكيده عمن شاء من عباده". [شرح الجامع الصغير].
"بے شک گالی شیطان کے ضرر کو دور نہیں کر سکتی ہے، اور نہ ہی اس کی عداوت سے کوئی چیز بچا سکتی ہے، مگر الله تعالی سے اس کے شر سے پناہ مانگو، الله تعالی اس کے معاملہ کا مالک ہے، اس کے مکر کو اپنے جس بندے سے چاہے دفع کرنے والا ہے"۔
ایک دوسری حدیث شریف میں ہے، روز جزاء ایک فرد کو لایا جائے گا، اس کے پاس بھت نیکیاں ہوں گی، مگر اس سے یہ نیکیاں لے لی جائیں گی، اور لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی، یہ فرد کوئی اور نہیں بلکہ "گالی باز" ہوگا، الفاظ حدیث یہ ہیں:
(إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا. فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ.
فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ، أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ، فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ).
"میری امت کا مفلس وہ ہے، جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکات کے ساتھ حاضر ہوگ
ا، اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔
اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کے گناہ اس کے پر ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا"۔
اے مسلمانو، آخرت کا دن بھت ہی ہول ناک ہوگا، اس روز نفسی نفسی کا عالم ہوگا، ایک ایک نیکی کی بڑی اہمیت ہوگی، اپنی نیکیوں کا ضیاع خود اپنی زبان سے نہ کرو، اچھی بات کرو، جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے، {وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا}. [البقرة:83].
جان لو الله رب العزت بری بات کے اظہار کو سخت نا پسند کرتا ہے:
{لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ}. [نساء: 148].
"الله بری بات کے اظہار کو پسند نہیں کرتا، سوائے مظلوم کے کلام کو"۔
اے رسول کے دیوانو، اپنے رسول ﷺ کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ بناؤ، ام المومنین حضرت عائشہ -رضی الله تعالی عنہا- فرماتی ہیں:
"لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- فاحشًا، ولا متفحشًا، ولا صخابًا في الأسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويصفح".
"رسول اکرم ﷺ بد گو، بد زبان اور بازاروں میں شور کرنے والے نہ تھے، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے، مگر آپ معاف کر دیتے اور درگزر فرماتے تھے"۔
بارگاہ پروردگار میں دعا ہے کہ:
(اللهم اهدني لأحسن الأعمال وأحسن الأخلاق، لا يهدي لأحسنها إلا أنت، وقني سيء الأعمال، وسيء الأخلاق، لا يقي سيئها إلا أنت). [نسائی].
[1رمضان 1440/ 7/مئی 2019]
اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کے گناہ اس کے پر ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا"۔
اے مسلمانو، آخرت کا دن بھت ہی ہول ناک ہوگا، اس روز نفسی نفسی کا عالم ہوگا، ایک ایک نیکی کی بڑی اہمیت ہوگی، اپنی نیکیوں کا ضیاع خود اپنی زبان سے نہ کرو، اچھی بات کرو، جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے، {وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا}. [البقرة:83].
جان لو الله رب العزت بری بات کے اظہار کو سخت نا پسند کرتا ہے:
{لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ}. [نساء: 148].
"الله بری بات کے اظہار کو پسند نہیں کرتا، سوائے مظلوم کے کلام کو"۔
اے رسول کے دیوانو، اپنے رسول ﷺ کی سیرت طیبہ کو مشعل راہ بناؤ، ام المومنین حضرت عائشہ -رضی الله تعالی عنہا- فرماتی ہیں:
"لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- فاحشًا، ولا متفحشًا، ولا صخابًا في الأسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويصفح".
"رسول اکرم ﷺ بد گو، بد زبان اور بازاروں میں شور کرنے والے نہ تھے، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے، مگر آپ معاف کر دیتے اور درگزر فرماتے تھے"۔
بارگاہ پروردگار میں دعا ہے کہ:
(اللهم اهدني لأحسن الأعمال وأحسن الأخلاق، لا يهدي لأحسنها إلا أنت، وقني سيء الأعمال، وسيء الأخلاق، لا يقي سيئها إلا أنت). [نسائی].
[1رمضان 1440/ 7/مئی 2019]
وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو صنعتیں سیکھو ہنر سیکھو
بڑھاؤ تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو
خواص خشک و تر سیکھو علوم بحر و بر سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو صنعتیں سیکھو ہنر سیکھو
بڑھاؤ تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو
خواص خشک و تر سیکھو علوم بحر و بر سیکھو
#صرفی_پوسٹ😆
جب تک ہم" مجرد" تھے، ہمارا "وزن "مناسب اور جسم "صحیح" تھا،جب ہم سلسلۂ ازدواج میں مربوط ہوکر "ثنائی" ہوئے تب بھی بھی "وزن "میں میں" ثقل" پیدا نہیں ہوا،جب صاحب اولاد ہو کر "ثلاثی" اور پھر"رباعی"ہوئےتب بھی صورتحال تشویش ناک نہیں ہوئی،لیکن اب جب کہ ہم خیر سے " خماسی "ہوچکے ہیں تو وزن "مضاعف" ہوا جا رہا ہے۔
بطن کی"حضاجری"کا یہ عالم ہے کہ"اجوف"ہونے کی حالت میں بھی شکم پُری کا گمان ہوتا ہے۔ایک"ناقص"سا خیال آیا کہ آزقہ کی مقدار میں"تخفیف"کر لی جائے،لیکن پھر خیال آیا کہ کہ ہم تو پہلے ہی قُوتِ لایموت پر اکتفا کیےہوئے ہیں اب اگر اس میں مزید "تخفیف" کی جائے تو یہ" تخفیف"، تحلیلِ شحم کی بجائے "تعلیلِ" جسم کا باعث بن جائے گی،اوراس طرح موٹاپے کی "علت "سے رستگاری حاصل کرنے کی یہ کوشش جسم کو مزید اسی علت کے ساتھ" معتل "بنا دے گی۔
سوچ بچار کے بعد یہ طے کیاکہ صبح کی ایک گھنٹہ سیر اور ہلکی پھلکی ورزش کا وہ معمول جو بُدوِّشعورسے لے کر چھے سال قبل تک میرے یومیہ معمولات کا لازمی حصہ رہا ہے، اسے دوبارہ عمل میں لایا جائے۔تسپر ایک صاحب نے نصیحت فرمائی کہ خورِش میں کمی کے بغیر ورزش کرنے سے نظامِ انہضام میں بہتری کی وجہ سے غذا کا جسم میں جلدی"ادغام"ہو جاتاہے اور نتیجتاً جسم"مزید فیہ"ہو جاتاہے ۔ناصح نے بطورِ "مثال"کچھ اربابِ بُطونِ کبیرہ یعنی صاحبانِ شکم ہائے آبدوز آسا کا تذکرہ بھی کر دیا،جن کا"ظرف" خوش خوراکی اور ورزش کو"مقرون" کرنے کی وجہ سے باقی جسم سے اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ گویا"مفروق"ہوچکا ہے
چنانچہ اس"امر"پر اتفاق رائے ہوا کہ"ماضی" کی طرح ایک گھنٹہ صبح کی سیر پر"صَرف"کیا جائے اور ساتھ ساتھ تقلیلِ طعام پر بھی عمل درآمد کیا جائے تو امید ہے کہ"مستقبل"میں پیٹ کسی حد تک کمر کے ساتھ"لفیف"ہو جائے گا۔
جب تک ہم" مجرد" تھے، ہمارا "وزن "مناسب اور جسم "صحیح" تھا،جب ہم سلسلۂ ازدواج میں مربوط ہوکر "ثنائی" ہوئے تب بھی بھی "وزن "میں میں" ثقل" پیدا نہیں ہوا،جب صاحب اولاد ہو کر "ثلاثی" اور پھر"رباعی"ہوئےتب بھی صورتحال تشویش ناک نہیں ہوئی،لیکن اب جب کہ ہم خیر سے " خماسی "ہوچکے ہیں تو وزن "مضاعف" ہوا جا رہا ہے۔
بطن کی"حضاجری"کا یہ عالم ہے کہ"اجوف"ہونے کی حالت میں بھی شکم پُری کا گمان ہوتا ہے۔ایک"ناقص"سا خیال آیا کہ آزقہ کی مقدار میں"تخفیف"کر لی جائے،لیکن پھر خیال آیا کہ کہ ہم تو پہلے ہی قُوتِ لایموت پر اکتفا کیےہوئے ہیں اب اگر اس میں مزید "تخفیف" کی جائے تو یہ" تخفیف"، تحلیلِ شحم کی بجائے "تعلیلِ" جسم کا باعث بن جائے گی،اوراس طرح موٹاپے کی "علت "سے رستگاری حاصل کرنے کی یہ کوشش جسم کو مزید اسی علت کے ساتھ" معتل "بنا دے گی۔
سوچ بچار کے بعد یہ طے کیاکہ صبح کی ایک گھنٹہ سیر اور ہلکی پھلکی ورزش کا وہ معمول جو بُدوِّشعورسے لے کر چھے سال قبل تک میرے یومیہ معمولات کا لازمی حصہ رہا ہے، اسے دوبارہ عمل میں لایا جائے۔تسپر ایک صاحب نے نصیحت فرمائی کہ خورِش میں کمی کے بغیر ورزش کرنے سے نظامِ انہضام میں بہتری کی وجہ سے غذا کا جسم میں جلدی"ادغام"ہو جاتاہے اور نتیجتاً جسم"مزید فیہ"ہو جاتاہے ۔ناصح نے بطورِ "مثال"کچھ اربابِ بُطونِ کبیرہ یعنی صاحبانِ شکم ہائے آبدوز آسا کا تذکرہ بھی کر دیا،جن کا"ظرف" خوش خوراکی اور ورزش کو"مقرون" کرنے کی وجہ سے باقی جسم سے اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ گویا"مفروق"ہوچکا ہے
چنانچہ اس"امر"پر اتفاق رائے ہوا کہ"ماضی" کی طرح ایک گھنٹہ صبح کی سیر پر"صَرف"کیا جائے اور ساتھ ساتھ تقلیلِ طعام پر بھی عمل درآمد کیا جائے تو امید ہے کہ"مستقبل"میں پیٹ کسی حد تک کمر کے ساتھ"لفیف"ہو جائے گا۔
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
عذابِ قبر کا ثبوت:
صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا :
وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ-لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْؕ-سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍۚ(۱۰۱)
ترجمہ
اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی )وہ منافقت پر اڑگئے ہیں ۔ تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں ۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر انہیں بڑے عذاب کی طرف پھیرا جائے گا۔
تفسیر
*{وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ:اور (اے مسلمانو!)* تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مدینے کے منا فقین کے حالات بیان فرمائے، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا، پھر بیان فرمایا کہ اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۱۳۰)
اور یونہی خود مدینہ طیبہ میں بھی کچھ منافقین ہیں جیسے عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی اور دیگر بہت سے لوگ جن کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں نشاندہی کی جاتی رہی۔
*صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا :*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جاسکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے جیسے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۵، الحدیث: ۴۸۳(۱۳۷۷))
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبیصلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹-۷۱۰، الحدیث: ۴۵۹-۴۶۰(۱۳۶۳))
حضرت سفیان بن ابی زہیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہو گا ،اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور عراق فتح ہو گا، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۵، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص۷۱۹، الحدیث: ۴۹۷(۱۳۸۸))
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:’’ جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گااللہ عَزَّوَجَلَّ اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۰، الحدیث: ۳۷۳۰، الجزء السادس)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ یا اللہ !عَزَّوَجَلَّ، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے ت
عذابِ قبر کا ثبوت:
صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا :
وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ-لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْؕ-سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍۚ(۱۰۱)
ترجمہ
اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی )وہ منافقت پر اڑگئے ہیں ۔ تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں ۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر انہیں بڑے عذاب کی طرف پھیرا جائے گا۔
تفسیر
*{وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ:اور (اے مسلمانو!)* تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مدینے کے منا فقین کے حالات بیان فرمائے، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا، پھر بیان فرمایا کہ اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۱۳۰)
اور یونہی خود مدینہ طیبہ میں بھی کچھ منافقین ہیں جیسے عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی اور دیگر بہت سے لوگ جن کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں نشاندہی کی جاتی رہی۔
*صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا :*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جاسکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے جیسے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۵، الحدیث: ۴۸۳(۱۳۷۷))
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبیصلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹-۷۱۰، الحدیث: ۴۵۹-۴۶۰(۱۳۶۳))
حضرت سفیان بن ابی زہیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہو گا ،اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور عراق فتح ہو گا، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۵، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص۷۱۹، الحدیث: ۴۹۷(۱۳۸۸))
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:’’ جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گااللہ عَزَّوَجَلَّ اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۰، الحدیث: ۳۷۳۰، الجزء السادس)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ یا اللہ !عَزَّوَجَلَّ، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے ت
و اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔ (معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، ۲ / ۳۷۹، الحدیث: ۳۵۸۹)
حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔(مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسو ء، ۳ / ۶۵۹، الحدیث: ۵۸۲۶)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵ / ۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)
*{ لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ:تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔}* اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو ،وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منافقین کا حال جاننے کی نفی جو پہلے ہو چکا اس کے اعتبار سے ہے اور اس کا علم بعد میں عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا
’’وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ‘‘ (محمد:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے۔ (جمل، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۰۴، ملخصاً)
کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا: نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ،نکل۔ اے فلاں ! تو منافق ہے، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)
*{سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ:عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے۔}* دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے ایک بار تو دنیا میں رسوائی اور قتل کے ساتھ اور دوسری مرتبہ قبر میں عذاب دیں گے۔ پھر انہیں بڑے عذاب یعنی عذابِ دوزخ کی طرف پھیرا جائے گا جس میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ منافقین کو تین بار عذاب دے گا ایک مرتبہ دنیا میں ، دوسری مرتبہ قبر میں اور تیسری مرتبہ آخرت میں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)
*عذابِ قبر کا ثبوت:*
اسی آیت میں عذاب ِ قبر کا بھی ثبوت ہے۔ بعض بے علم لوگ اور منکرینِ حدیث عذاب ِقبر کا انکار کرتے ہیں یہ صریح گمراہی ہے ۔ اِس بارے میں اَحادیث بکثرت ہیں جن میں سے 5یہاں پر بیان کی جاتی ہیں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذابِ قبر سنائے۔ (مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیّت من الجنّۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۴، الحدیث: ۶۸(۲۸۶۸))
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو قبروں کے پا س سے گزرے تو ارشاد فرمایا ’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ کسی (ایسے) بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دئیے جا رہے (جن سے بچنا مشکل ہو)۔پھر ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ! (بے شک وہ گناہ معصیت میں بڑا ہے) ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی توڑی اور اس کے دو حصے کئے ،پھر ہر قبر پرا یک حصہ گاڑ دیا، پھر فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۸)
(3)…حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک انصا ری صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جنازے میں نکلے ،جب قبر تک پہنچے تو وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی چنانچہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے اردگرد اس طرح خاموشی سے بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس
حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔(مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسو ء، ۳ / ۶۵۹، الحدیث: ۵۸۲۶)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵ / ۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)
*{ لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ:تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔}* اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو ،وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منافقین کا حال جاننے کی نفی جو پہلے ہو چکا اس کے اعتبار سے ہے اور اس کا علم بعد میں عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا
’’وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ‘‘ (محمد:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے۔ (جمل، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۰۴، ملخصاً)
کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا: نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ،نکل۔ اے فلاں ! تو منافق ہے، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)
*{سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ:عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے۔}* دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے ایک بار تو دنیا میں رسوائی اور قتل کے ساتھ اور دوسری مرتبہ قبر میں عذاب دیں گے۔ پھر انہیں بڑے عذاب یعنی عذابِ دوزخ کی طرف پھیرا جائے گا جس میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ منافقین کو تین بار عذاب دے گا ایک مرتبہ دنیا میں ، دوسری مرتبہ قبر میں اور تیسری مرتبہ آخرت میں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)
*عذابِ قبر کا ثبوت:*
اسی آیت میں عذاب ِ قبر کا بھی ثبوت ہے۔ بعض بے علم لوگ اور منکرینِ حدیث عذاب ِقبر کا انکار کرتے ہیں یہ صریح گمراہی ہے ۔ اِس بارے میں اَحادیث بکثرت ہیں جن میں سے 5یہاں پر بیان کی جاتی ہیں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذابِ قبر سنائے۔ (مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیّت من الجنّۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۴، الحدیث: ۶۸(۲۸۶۸))
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو قبروں کے پا س سے گزرے تو ارشاد فرمایا ’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ کسی (ایسے) بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دئیے جا رہے (جن سے بچنا مشکل ہو)۔پھر ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ! (بے شک وہ گناہ معصیت میں بڑا ہے) ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی توڑی اور اس کے دو حصے کئے ،پھر ہر قبر پرا یک حصہ گاڑ دیا، پھر فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۸)
(3)…حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک انصا ری صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جنازے میں نکلے ،جب قبر تک پہنچے تو وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی چنانچہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے اردگرد اس طرح خاموشی سے بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس
کے ساتھ زمین کرید نے لگے اور سرِ انور اٹھا کر دو یا تین مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔( ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب فی المسألۃ فی القبر وعذاب القبر، ۴ / ۳۱۶، الحدیث: ۴۷۵۳)
(4)…حضرت امّ مبشر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں کہ میں بنو نجار کے ایک باغ میں تھی اور اس میں بنو نجار کے زمانۂ جاہلیت میں مرنے والوں کی قبریں تھیں اس وقت میرے پا س رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے، پھر جاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ میں نے سنا تو عرض کی ’’یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! مردے اپنی قبروں میں ایسا عذاب دیئے جاتے ہیں جسے جانور سنتے ہیں۔(معجم ا لکبیر، امّ مبشر الانصاریۃ، ۲۵ / ۱۰۳، الحدیث: ۲۶۸)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دعا مانگا کرتے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں عذابِ قبر سے، جہنم کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ لیتا ہوں۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب التعوّذ من عذاب القبر، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۷)
*طالبِ دعا ابوعمر*
(4)…حضرت امّ مبشر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں کہ میں بنو نجار کے ایک باغ میں تھی اور اس میں بنو نجار کے زمانۂ جاہلیت میں مرنے والوں کی قبریں تھیں اس وقت میرے پا س رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے، پھر جاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ میں نے سنا تو عرض کی ’’یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! مردے اپنی قبروں میں ایسا عذاب دیئے جاتے ہیں جسے جانور سنتے ہیں۔(معجم ا لکبیر، امّ مبشر الانصاریۃ، ۲۵ / ۱۰۳، الحدیث: ۲۶۸)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دعا مانگا کرتے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں عذابِ قبر سے، جہنم کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ لیتا ہوں۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب التعوّذ من عذاب القبر، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۷)
*طالبِ دعا ابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
گناہوں پر ندامت بھی توبہ ہے:
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًاؕ-عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۰۲)
ترجمہ
اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا تو انہوں نے ایک اچھا عمل اور دوسرا برا عمل ملادیا عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر
*{وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ:اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔}* یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کی طرح جھوٹے عذر نہ کئے بلکہ انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور اپنے فعل پر نادم ہوئے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۲)
شانِ نزول: جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت مدینہ طیبہ کے مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوۂ تبوک میں حاضر نہ ہوئے تھے ،اس کے بعد نادم ہوئے اور توبہ کی اور کہا :افسوس ہم گمراہوں کے ساتھ یا عورتوں کے ساتھ رہ گئے حالانکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم جہاد میں ہیں۔ جب حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سفر سے واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیں گے اور ہر گز نہ کھولیں گے یہاں تک کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کھولیں۔یہ قسمیں کھا کر وہ مسجد کے ستونوں سے بندھ گئے جب حضورِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور انہیں ملاحظہ کیا تو فرمایا: یہ کون ہیں ؟ عرض کیا گیا :یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں حاضر ہونے سے رہ گئے تھے، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہ کھولیں گے جب تک حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے راضی ہو کر اُنہیں خود نہ کھولیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں انہیں نہ کھولوں گا نہ اُن کا عذر قبول کروں جب تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے کھولنے کا حکم نہ دیا جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں کھولا تو انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ مال ہمارے رہ جانے کاسبب بنے۔ انہیں لیجئے اور صدقہ کیجئے اور ہمیں پاک کردیجئے اور ہمارے لئے دُعائے مغفرت فرمائیے ۔ حضورپُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مجھے تمہارے مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا اس پر اگلی آیت ’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ‘‘ نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۶-۲۷۷)
*{عَمَلًا صَالِحًا:ایک اچھا عمل۔}* یہاں اچھے عمل سے یا قصور کا اعتراف کرلینا اور توبہ کرنامراد ہے یا اس غزوے میں حاضر نہ ہونے سے پہلے غزوات میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ حاضر ہونا مراد ہے یا طاعت و تقویٰ کے تمام اعمال مراد ہیں ،اس صورت میں یہ آیت تمام مسلمانوں کے بارے میں ہوگی۔ آیت کے اگلے حصے میں برے عمل سے تَخَلُّفْ یعنی جہاد سے رہ جانا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۷)
*{عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ:عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ کرنے کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کے اعتراف کو ذکر کر دیا اور گناہوں کا اعترف توبہ کی دلیل ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۳)
*گناہوں پر ندامت بھی توبہ ہے:*
اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں پر شرمندہ ہونا بھی توبہ ہے بلکہ توبہ کی اہم شرط ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’شرمندگی توبہ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، ۴ / ۴۹۲، الحدیث: ۴۲۵۲)
نیز گناہوں پر شرمندگی عام طور پر گناہ چھڑوا ہی دیتی ہے، اسی لئے گناہوں پر جَری اور بیباک کی مذمت زیادہ ہے۔ اِس آیت میں ہم جیسے گناہگاروں کیلئے بھی بڑی امید ہے کہ اگرچہ ہمارے گناہ بے حدوحساب ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک اعمال بھی کرہی لیتے ہیں اور اگر ہمارے اعمال ناقص ہیں تو کم از کم ہمارا نفسِ ایمان تو قطعی اور یقینی طور پر درست ہے اور وہ بھی نیک عمل ہے
*طالبِ دعاابوعمر*
گناہوں پر ندامت بھی توبہ ہے:
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًاؕ-عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۰۲)
ترجمہ
اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا تو انہوں نے ایک اچھا عمل اور دوسرا برا عمل ملادیا عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
تفسیر
*{وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ:اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔}* یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کی طرح جھوٹے عذر نہ کئے بلکہ انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور اپنے فعل پر نادم ہوئے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۲)
شانِ نزول: جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت مدینہ طیبہ کے مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوۂ تبوک میں حاضر نہ ہوئے تھے ،اس کے بعد نادم ہوئے اور توبہ کی اور کہا :افسوس ہم گمراہوں کے ساتھ یا عورتوں کے ساتھ رہ گئے حالانکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم جہاد میں ہیں۔ جب حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سفر سے واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیں گے اور ہر گز نہ کھولیں گے یہاں تک کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کھولیں۔یہ قسمیں کھا کر وہ مسجد کے ستونوں سے بندھ گئے جب حضورِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور انہیں ملاحظہ کیا تو فرمایا: یہ کون ہیں ؟ عرض کیا گیا :یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں حاضر ہونے سے رہ گئے تھے، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہ کھولیں گے جب تک حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے راضی ہو کر اُنہیں خود نہ کھولیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں انہیں نہ کھولوں گا نہ اُن کا عذر قبول کروں جب تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے کھولنے کا حکم نہ دیا جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں کھولا تو انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ مال ہمارے رہ جانے کاسبب بنے۔ انہیں لیجئے اور صدقہ کیجئے اور ہمیں پاک کردیجئے اور ہمارے لئے دُعائے مغفرت فرمائیے ۔ حضورپُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مجھے تمہارے مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا اس پر اگلی آیت ’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ‘‘ نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۶-۲۷۷)
*{عَمَلًا صَالِحًا:ایک اچھا عمل۔}* یہاں اچھے عمل سے یا قصور کا اعتراف کرلینا اور توبہ کرنامراد ہے یا اس غزوے میں حاضر نہ ہونے سے پہلے غزوات میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ حاضر ہونا مراد ہے یا طاعت و تقویٰ کے تمام اعمال مراد ہیں ،اس صورت میں یہ آیت تمام مسلمانوں کے بارے میں ہوگی۔ آیت کے اگلے حصے میں برے عمل سے تَخَلُّفْ یعنی جہاد سے رہ جانا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۷)
*{عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ:عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ کرنے کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کے اعتراف کو ذکر کر دیا اور گناہوں کا اعترف توبہ کی دلیل ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۳)
*گناہوں پر ندامت بھی توبہ ہے:*
اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں پر شرمندہ ہونا بھی توبہ ہے بلکہ توبہ کی اہم شرط ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’شرمندگی توبہ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، ۴ / ۴۹۲، الحدیث: ۴۲۵۲)
نیز گناہوں پر شرمندگی عام طور پر گناہ چھڑوا ہی دیتی ہے، اسی لئے گناہوں پر جَری اور بیباک کی مذمت زیادہ ہے۔ اِس آیت میں ہم جیسے گناہگاروں کیلئے بھی بڑی امید ہے کہ اگرچہ ہمارے گناہ بے حدوحساب ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک اعمال بھی کرہی لیتے ہیں اور اگر ہمارے اعمال ناقص ہیں تو کم از کم ہمارا نفسِ ایمان تو قطعی اور یقینی طور پر درست ہے اور وہ بھی نیک عمل ہے
*طالبِ دعاابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱۰۳)
ترجمہ
اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کروبیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
تفسیر
*{خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً:اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو۔}* اس آیت میں جو ’’صدقہ‘‘ کا لفظ مذکور ہے اس کے معنی میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ جن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے ،انہوں نے کفارے کے طور پر جو صدقہ دیا تھا وہ مراد ہے اوروہ صدقہ ان پر واجب نہ تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدقہ سے مراد وہ زکوٰۃ ہے جو اُن کے ذمہ واجب تھی ،انہوں نے توبہ کی اور زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لینے کا حکم دیا۔ امام ابوبکر جصاص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۲۷۸، احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، باب دفع الصدقات الی صنف واحد، ۳ / ۱۹۰)
*{وَصَلِّ عَلَیْهِمْ:اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔}* صدقہ پیش کرنے والے کے لئے دعائے خیر کرناسیّدا لمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معمولات میں شامل تھا ،چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بِن اَبی اوفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب کوئی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس صدقہ لاتا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے حق میں دُعا کرتے، میرے والد صاحب نے صدقہ حاضر کیا تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفٰی‘‘ اے اللہ! ابو اَوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ، ۱ / ۵۰۴، الحدیث: ۱۴۹۷، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الدعاء لمن اتی بصدقۃ، :ص۵۴۲، الحدیث: ۱۷۶(۱۰۷۸))
تفسیرمدارک میں ہے: سنت یہ ہے کہ صدقہ لینے والا صدقہ دینے والے کے لئے دعا کرے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۴۵۳)
*{اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ:بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے ۔}* یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی دعا ان کے لئے رحمت اور دلوں کا چین ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنوں کے دلوں کا چین ہیں اور مسلمان کو جس قدر محبت و رغبت حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعائے مبارک کے حصول میں ہوسکتی ہے اور کس چیز میں ہوگی؟ یہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں بھی تھا اور اب بھی ہے کیونکہ ہمارے اعمال نبی ٔرحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ، اچھے عمل دیکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور اگر اچھے نہ پائیں تو ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں جیساکہ حدیث پاک میں ہے ’’ میری زندگی تمہارے لئے بہتر ہے اور میرا انتقال فرمانا تمہارے لئے بہتر ہے،تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے اگر اچھے عمل پاؤں گا تو میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کروں گا اور اگر اچھے اعمال کے علاوہ پاؤں گا تو تمہارے لئے مغفرت طلب کروں گا۔(مسند البزار، زاذان عن عبد اللہ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۹۲۵)
لہٰذا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ان کی زندگی اور وفات کے بعد دونوں صورتوں میں حاصل ہو گی اور دلوں کے چین و سکون کا باعث بھی ہو گی
*طالبِ دعاابوعمر*
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱۰۳)
ترجمہ
اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کروبیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
تفسیر
*{خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً:اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو۔}* اس آیت میں جو ’’صدقہ‘‘ کا لفظ مذکور ہے اس کے معنی میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ جن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے ،انہوں نے کفارے کے طور پر جو صدقہ دیا تھا وہ مراد ہے اوروہ صدقہ ان پر واجب نہ تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدقہ سے مراد وہ زکوٰۃ ہے جو اُن کے ذمہ واجب تھی ،انہوں نے توبہ کی اور زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لینے کا حکم دیا۔ امام ابوبکر جصاص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۲۷۸، احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، باب دفع الصدقات الی صنف واحد، ۳ / ۱۹۰)
*{وَصَلِّ عَلَیْهِمْ:اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔}* صدقہ پیش کرنے والے کے لئے دعائے خیر کرناسیّدا لمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معمولات میں شامل تھا ،چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بِن اَبی اوفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب کوئی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس صدقہ لاتا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے حق میں دُعا کرتے، میرے والد صاحب نے صدقہ حاضر کیا تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفٰی‘‘ اے اللہ! ابو اَوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ، ۱ / ۵۰۴، الحدیث: ۱۴۹۷، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الدعاء لمن اتی بصدقۃ، :ص۵۴۲، الحدیث: ۱۷۶(۱۰۷۸))
تفسیرمدارک میں ہے: سنت یہ ہے کہ صدقہ لینے والا صدقہ دینے والے کے لئے دعا کرے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۴۵۳)
*{اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ:بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے ۔}* یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی دعا ان کے لئے رحمت اور دلوں کا چین ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنوں کے دلوں کا چین ہیں اور مسلمان کو جس قدر محبت و رغبت حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعائے مبارک کے حصول میں ہوسکتی ہے اور کس چیز میں ہوگی؟ یہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں بھی تھا اور اب بھی ہے کیونکہ ہمارے اعمال نبی ٔرحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ، اچھے عمل دیکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور اگر اچھے نہ پائیں تو ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں جیساکہ حدیث پاک میں ہے ’’ میری زندگی تمہارے لئے بہتر ہے اور میرا انتقال فرمانا تمہارے لئے بہتر ہے،تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے اگر اچھے عمل پاؤں گا تو میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کروں گا اور اگر اچھے اعمال کے علاوہ پاؤں گا تو تمہارے لئے مغفرت طلب کروں گا۔(مسند البزار، زاذان عن عبد اللہ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۹۲۵)
لہٰذا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ان کی زندگی اور وفات کے بعد دونوں صورتوں میں حاصل ہو گی اور دلوں کے چین و سکون کا باعث بھی ہو گی
*طالبِ دعاابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۰۴)
ترجمہ
کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور خود صدقات( اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
تفسیر
*{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں۔}* اس آیت میں توبہ کرنے والوں کو بشارت دی گئی کہ ان کی توبہ اور ان کے صدقات مقبول ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جن لوگوں نے اب تک توبہ نہیں کی اس آیت میں انہیں توبہ اور صدقہ کی ترغیب دی گئی ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
*ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں :*
یاد رہے کہ ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں ، بلکہ مختلف جرموں کی توبہ بھی مختلف ہے جیسے اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق تَلف کئے ہوں مثلاً نمازیں قضا کی ہوں ، رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں ، فرض زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، حج فرض ہونے کے بعد حج نہ کیا ہو ان سے توبہ یہ ہے کہ نماز روزے کی قضا کرے، زکوٰۃ ادا کرے ، حج کرے اور ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی تقصیر کی معافی مانگے، اسی طرح اگر اپنے کان ،آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ پاؤں ، شرمگاہ اور دیگر اَعضا سے ایسے گناہ کئے ہوں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ہو بندوں کے حقوق کے ساتھ نہ ہو جیسے غیر مَحرم عورت کی طرف دیکھنا، جنابت کی حالت میں مسجد میں بیٹھنا، قرآنِ مجید کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا، گانے باجے سننا وغیرہ، ان سے توبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتے، ان گناہوں پر ندامت کااظہار کرتے اور آئندہ یہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرتے ہوئے معافی طلب کرے اور اس کے بعد کچھ نہ کچھ نیک اعمال کرے کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں ،اور اگر بندوں کے حقوق تلف کئے ہوں تو ان کی تین صورتیں ہیں :
(1)… ان حقوق کا تعلق صرف قرض کے ساتھ ہے جیسے خریدی ہوئی چیز کی قیمت، مزدور کی اجرت یا بیوی کا مہر وغیرہ۔
(2)… ان حقوق کا تعلق صرف ظلم کے ساتھ ہے جیسے کسی کو مارا، گالی دی یا غیبت کی اور اس کی خبر ا س تک پہنچ گئی۔
(3)… ان کا تعلق قرض اور ظلم دونوں کے ساتھ ہے، جیسے کسی کا مال چرایا، چھینا، لوٹا، کسی سے رشوت لی، سود لیا یا جوئے میں مال جیتا وغیرہ۔
پہلی صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے یا صاحب ِحق سے معافی حاصل کرے۔ دوسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ صرف صاحب ِحق سے معافی طلب کرے اور تیسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حقوق ادا بھی کرے اور صاحب ِحق سے معافی بھی حاصل کرے۔ اگرتوبہ کی شرائط جمع ہوں تو توبہ ضرور قبول ہوگی کیونکہ یہ رب تعالیٰ کا وعدہ ہے اوراپنے وعدے کے خلاف کرنا اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی کے لائق نہیں۔
یہاں توبہ کی قبولیت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو ،چنانچہ توبہ سے پہلے حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی فتنہ انگیزی اور شراب نوشی کی داستانیں مشہور تھیں ، ایک دن آپ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مجلس میں آئے، اس وقت حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘(حدید:۱۶)(کیاایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لئے جھک جائیں )کی تفسیر بیان کررہے تھے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کی ایسی تشریح کی کہ لوگ رونے لگے،اس دوران ایک جوان مجلس میں کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اے مومن بندے! کیا مجھ جیسا فاسق و فاجر بھی اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا ’’ ہاں ، اللہ تعالیٰ تیرے گناہوں کو معاف کردے گا، جب عتبہ نے یہ بات سنی تو ان کا چہرہ زرد پڑگیا اور کانپتے ہوئے چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے، جب انہیں ہوش آیا تو حضرتِ حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ان کے قریب آکر یہ شعر پڑھے، جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ’’ اے اللہ تعالیٰ کے نافرمان جوان! تو جانتا ہے کہ نافرمانی کی سزا کیا ہے؟ نافرمانوں کے لئے پُر شور جہنم ہے اور حشر کے دن اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی ہے۔ اگر تو نارِ جہنم پر راضی ہے تو بے شک گناہ کرتا رہ، ورنہ گناہوں سے رک جا۔ تونے اپنے گناہوں کے بدلے اپنی جان کو رہن رکھ دیا ہے، اس کو چھڑانے کی کوشش کر۔
عتبہ نے پھر چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے، جب ہوش آیا تو کہنے لگے اے شیخ! کیا مجھ جیسے بدبخت کی توبہ ربِ رحیم قبول کرلے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: درگزر کرنے والا رب عَزَّوَجَلَّ ظالم بندے کی توبہ قبول فرمالیتا ہے، اس وقت عتبہ نے سراٹھا کر اللہ تعالیٰ سے
ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۰۴)
ترجمہ
کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور خود صدقات( اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
تفسیر
*{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں۔}* اس آیت میں توبہ کرنے والوں کو بشارت دی گئی کہ ان کی توبہ اور ان کے صدقات مقبول ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جن لوگوں نے اب تک توبہ نہیں کی اس آیت میں انہیں توبہ اور صدقہ کی ترغیب دی گئی ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
*ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں :*
یاد رہے کہ ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں ، بلکہ مختلف جرموں کی توبہ بھی مختلف ہے جیسے اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق تَلف کئے ہوں مثلاً نمازیں قضا کی ہوں ، رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں ، فرض زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، حج فرض ہونے کے بعد حج نہ کیا ہو ان سے توبہ یہ ہے کہ نماز روزے کی قضا کرے، زکوٰۃ ادا کرے ، حج کرے اور ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی تقصیر کی معافی مانگے، اسی طرح اگر اپنے کان ،آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ پاؤں ، شرمگاہ اور دیگر اَعضا سے ایسے گناہ کئے ہوں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ہو بندوں کے حقوق کے ساتھ نہ ہو جیسے غیر مَحرم عورت کی طرف دیکھنا، جنابت کی حالت میں مسجد میں بیٹھنا، قرآنِ مجید کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا، گانے باجے سننا وغیرہ، ان سے توبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتے، ان گناہوں پر ندامت کااظہار کرتے اور آئندہ یہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرتے ہوئے معافی طلب کرے اور اس کے بعد کچھ نہ کچھ نیک اعمال کرے کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں ،اور اگر بندوں کے حقوق تلف کئے ہوں تو ان کی تین صورتیں ہیں :
(1)… ان حقوق کا تعلق صرف قرض کے ساتھ ہے جیسے خریدی ہوئی چیز کی قیمت، مزدور کی اجرت یا بیوی کا مہر وغیرہ۔
(2)… ان حقوق کا تعلق صرف ظلم کے ساتھ ہے جیسے کسی کو مارا، گالی دی یا غیبت کی اور اس کی خبر ا س تک پہنچ گئی۔
(3)… ان کا تعلق قرض اور ظلم دونوں کے ساتھ ہے، جیسے کسی کا مال چرایا، چھینا، لوٹا، کسی سے رشوت لی، سود لیا یا جوئے میں مال جیتا وغیرہ۔
پہلی صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے یا صاحب ِحق سے معافی حاصل کرے۔ دوسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ صرف صاحب ِحق سے معافی طلب کرے اور تیسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حقوق ادا بھی کرے اور صاحب ِحق سے معافی بھی حاصل کرے۔ اگرتوبہ کی شرائط جمع ہوں تو توبہ ضرور قبول ہوگی کیونکہ یہ رب تعالیٰ کا وعدہ ہے اوراپنے وعدے کے خلاف کرنا اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی کے لائق نہیں۔
یہاں توبہ کی قبولیت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو ،چنانچہ توبہ سے پہلے حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی فتنہ انگیزی اور شراب نوشی کی داستانیں مشہور تھیں ، ایک دن آپ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مجلس میں آئے، اس وقت حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘(حدید:۱۶)(کیاایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لئے جھک جائیں )کی تفسیر بیان کررہے تھے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کی ایسی تشریح کی کہ لوگ رونے لگے،اس دوران ایک جوان مجلس میں کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اے مومن بندے! کیا مجھ جیسا فاسق و فاجر بھی اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا ’’ ہاں ، اللہ تعالیٰ تیرے گناہوں کو معاف کردے گا، جب عتبہ نے یہ بات سنی تو ان کا چہرہ زرد پڑگیا اور کانپتے ہوئے چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے، جب انہیں ہوش آیا تو حضرتِ حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ان کے قریب آکر یہ شعر پڑھے، جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ’’ اے اللہ تعالیٰ کے نافرمان جوان! تو جانتا ہے کہ نافرمانی کی سزا کیا ہے؟ نافرمانوں کے لئے پُر شور جہنم ہے اور حشر کے دن اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی ہے۔ اگر تو نارِ جہنم پر راضی ہے تو بے شک گناہ کرتا رہ، ورنہ گناہوں سے رک جا۔ تونے اپنے گناہوں کے بدلے اپنی جان کو رہن رکھ دیا ہے، اس کو چھڑانے کی کوشش کر۔
عتبہ نے پھر چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے، جب ہوش آیا تو کہنے لگے اے شیخ! کیا مجھ جیسے بدبخت کی توبہ ربِ رحیم قبول کرلے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: درگزر کرنے والا رب عَزَّوَجَلَّ ظالم بندے کی توبہ قبول فرمالیتا ہے، اس وقت عتبہ نے سراٹھا کر اللہ تعالیٰ سے
تین دعائیں کیں :
(1)…اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو نے میرے گناہوں کو معاف اور میری توبہ کو قبول کرلیا ہے تو ایسے حافظے اور عقل سے میری عزت افزائی فرما کہ میں قرآنِ مجید اور علومِ دین میں سے جو کچھ بھی سنوں ، اُسے کبھی فراموش نہ کروں۔
(2)…اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے ایسی آواز عنایت فرماکہ میری قرأت کو سن کر سخت سے سخت دل بھی موم ہوجائے۔
(3)…اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، مجھے رزقِ حلال عطا فرما اور ایسے طریقے سے دے جس کا میں تَصَوُّر بھی نہ کرسکوں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عتبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تینوں دعائیں قبول کرلیں ، ان کا حافظہ اور فہم و فراست بڑھ گئی اور جب وہ قرآن کی تلاوت کرتے تو ہر سننے والا گناہوں سے تائب ہوجاتا تھا اور ان کے گھر میں ہر روز شوربے کا ایک پیالہ اور دوروٹیاں (رزقِ حلال سے) پہنچ جاتیں ، اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کون رکھ جاتا ہے اور حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ساری زندگی ایسا ہی ہوتا رہا۔( مکاشفۃ القلوب، الباب الثامن فی التوبۃ، ص۲۸-۲۹)اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔([1])
*{وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ:اور خود صدقے ( اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے۔}* اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقات کو قبول کرتا اور اس پر ثواب عطا فرماتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
*اللہ تعالیٰ پاکیزہ مال سے دیا گیا صدقہ قبول فرماتا ہے*:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص پاکیزہ مال سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاکیزہ مال کے سوا قبول نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے خواہ وہ ایک کھجور ہو پھر وہ صدقہ رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے دستِ قدرت میں بڑھتا رہتا ہے حتّٰی کہ پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۳(۱۰۱۴))
یاد رہے کہ حدیثِ پاک میں مذکور دائیں ہاتھ سے جسم والا دایاں ہاتھ مراد نہیں بلکہ یہ مُتَشابہات میں سے ہے جس کا معنی وہی ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شایانِ شان ہے۔ نیز اس حدیثِ پاک میں ان لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے جو سود اور رشوت وغیرہ کی حرام آمدنی سے صدقات و خیرات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے رہا ہے، اس لئے ہم غریبوں کی بھلائی اور رشتہ داروں سے صِلہ رحمی کرنے میں اس مال کو خرچ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اس حدیث پاک میں بڑی عبرت ہے ،چنانچہ حضرت قاسم بن مُخَیْمِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص گناہ کے ذریعے مال حاصل کر کے اس سے صلہ رحمی کرتا یا صدقہ کرتا یا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سب کو جمع کر کے جہنم میں ڈال دے گا۔ (ابن عساکر، موسی بن سلیمان بن موسی ابو عمرو الاموی، ۶۰ / ۴۰۹)
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمہیں وہ شخص تعجب میں نہ ڈالے جس نے حرام مال کمایا کیونکہ اگر وہ اس مال کو (راہِ خدا میں ) خرچ کرے یا اسے صدقہ کرے تو وہ قبول نہ کیا جائے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تو اس میں برکت نہیں دی جائے گی اور اس میں سے کچھ بچ جائے تو یہ جہنم کی طرف ا س کا زادِ راہ ہو گا (شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۹۶، الحدیث: ۵۵۲۵)۔ ([2])
[1] ۔۔۔ سچی توبہ اور اس سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’توبہ کی روایات و حکایات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ مفید ہے۔
[2] ۔۔۔۔ صدقات سے متعلق احکام اور فضائل وغیرہ کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’فضائلِ صدقات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
*طالبِ دعاابوعمر*
(1)…اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو نے میرے گناہوں کو معاف اور میری توبہ کو قبول کرلیا ہے تو ایسے حافظے اور عقل سے میری عزت افزائی فرما کہ میں قرآنِ مجید اور علومِ دین میں سے جو کچھ بھی سنوں ، اُسے کبھی فراموش نہ کروں۔
(2)…اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے ایسی آواز عنایت فرماکہ میری قرأت کو سن کر سخت سے سخت دل بھی موم ہوجائے۔
(3)…اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، مجھے رزقِ حلال عطا فرما اور ایسے طریقے سے دے جس کا میں تَصَوُّر بھی نہ کرسکوں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عتبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تینوں دعائیں قبول کرلیں ، ان کا حافظہ اور فہم و فراست بڑھ گئی اور جب وہ قرآن کی تلاوت کرتے تو ہر سننے والا گناہوں سے تائب ہوجاتا تھا اور ان کے گھر میں ہر روز شوربے کا ایک پیالہ اور دوروٹیاں (رزقِ حلال سے) پہنچ جاتیں ، اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کون رکھ جاتا ہے اور حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ساری زندگی ایسا ہی ہوتا رہا۔( مکاشفۃ القلوب، الباب الثامن فی التوبۃ، ص۲۸-۲۹)اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔([1])
*{وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ:اور خود صدقے ( اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے۔}* اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقات کو قبول کرتا اور اس پر ثواب عطا فرماتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
*اللہ تعالیٰ پاکیزہ مال سے دیا گیا صدقہ قبول فرماتا ہے*:
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص پاکیزہ مال سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاکیزہ مال کے سوا قبول نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے خواہ وہ ایک کھجور ہو پھر وہ صدقہ رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے دستِ قدرت میں بڑھتا رہتا ہے حتّٰی کہ پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۳(۱۰۱۴))
یاد رہے کہ حدیثِ پاک میں مذکور دائیں ہاتھ سے جسم والا دایاں ہاتھ مراد نہیں بلکہ یہ مُتَشابہات میں سے ہے جس کا معنی وہی ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شایانِ شان ہے۔ نیز اس حدیثِ پاک میں ان لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے جو سود اور رشوت وغیرہ کی حرام آمدنی سے صدقات و خیرات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے رہا ہے، اس لئے ہم غریبوں کی بھلائی اور رشتہ داروں سے صِلہ رحمی کرنے میں اس مال کو خرچ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اس حدیث پاک میں بڑی عبرت ہے ،چنانچہ حضرت قاسم بن مُخَیْمِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص گناہ کے ذریعے مال حاصل کر کے اس سے صلہ رحمی کرتا یا صدقہ کرتا یا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سب کو جمع کر کے جہنم میں ڈال دے گا۔ (ابن عساکر، موسی بن سلیمان بن موسی ابو عمرو الاموی، ۶۰ / ۴۰۹)
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمہیں وہ شخص تعجب میں نہ ڈالے جس نے حرام مال کمایا کیونکہ اگر وہ اس مال کو (راہِ خدا میں ) خرچ کرے یا اسے صدقہ کرے تو وہ قبول نہ کیا جائے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تو اس میں برکت نہیں دی جائے گی اور اس میں سے کچھ بچ جائے تو یہ جہنم کی طرف ا س کا زادِ راہ ہو گا (شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۹۶، الحدیث: ۵۵۲۵)۔ ([2])
[1] ۔۔۔ سچی توبہ اور اس سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’توبہ کی روایات و حکایات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ مفید ہے۔
[2] ۔۔۔۔ صدقات سے متعلق احکام اور فضائل وغیرہ کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’فضائلِ صدقات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
*طالبِ دعاابوعمر*
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
مسجد نبوی کے تین فضائل:
مسجد قبا کے تین فضائل:
اسلام میں صفائی کی اہمیت:
لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًاؕ-لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸)
ترجمہ
۔ (اے حبیب!) آپ اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہوں ۔بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس کی حقدار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔ اس میں وہ لوگ ہیں جو خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں اور اللہ خوب پاک ہونے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
تفسیر
{لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا:(اے حبیب!) آپ اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔} اس آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مسجدِ ضرار میں نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی گئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۲۸۲)
فخر و ریاکاری کی نیت سے مسجد تعمیر کرنے کی مذمت:
امام عبداللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ جو مسجد فخر و ریا اور نمود و نمائش یا رضائے الٰہی کے سوا اور کسی غرض کے لئے یا حرام مال سے بنائی گئی ہو وہ بھی مسجدِ ضرار کے ساتھ لاحق ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۴۵۴)
فی زمانہ مسلمانوں میں ایک تعداد ایسی ہے جنہیں عالیشان مسجد تعمیر کرنے پر اور زیادہ مساجد بنانے پر ایک دوسرے سے فخر کااظہار کرتے دیکھا گیا ہے، ان کے دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے یا خود انہیں اپنے دلوں کا حال اچھی طرح معلوم ہے ، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی عبادت کرنے میں مسلمانوں کو سہولت پہنچانے کی نیت سے عالی شان اور خوبصورت مساجد بنائی ہیں تو ان کایہ عمل لائقِ تحسین اوراجر و ثواب کاباعث ہے اور اگر ان کی نیت یہ نہ تھی بلکہ خوبصورت مساجد بنانے سے ریاکاری اور فخر و بڑائی کا اظہار مقصود تھا اگرچہ زبان سے لوگوں کے سامنے یہ صدا عام تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ کوشش قبول فرمائے ،تو انہیں چاہئے کہ درج ذیل3 اَحادیث سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کی نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ مسجد تعمیر کرنے میں فخر کریں گے ۔ (نسائی، کتاب المساجد، المباہاۃ فی المساجد، ص۱۲۰، الحدیث: ۶۸۶) یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اخلاص کے ساتھ نہیں بلکہ نامْوَری، ریاکاری اور بڑائی کی نیت سے مسجد یں تعمیر کریں گے۔
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ لو گ جب مسجد (تعمیر کرنے) کے معاملے میں فخر کرنے لگ جائیں گے۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تشیید المساجد، ۱ / ۴۰۹، الحدیث: ۷۳۹)
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں وہ مسجدیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے پر فخر کیا کریں گے اور انہیں آباد کم کیا کریں گے۔( صحیح ابن خزیمہ، جماع ابواب فضائل المساجد وبنائہا وتعظیمہا، باب کراہۃ التباہی فی بناء المساجد۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۳۲۱)
یاد رہے کہ کسی کے دل کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے ہم کسی کے دل کا حال معلوم کر سکیں اس لئے کسی مسلمان پر بد گمانی کرنے اور اس پر یہ الزام ڈالنے کی شرعاً کسی کو اجاز ت نہیں کہ اس نے فخر و ریاکاری کی نیت سے مسجد تعمیر کی ہے لیکن تعمیر کرنے والے کو بہرحال اپنے قلب کی طرف نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔
*{لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ:بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے۔}* اس سے مراد مسجدِ قباء ہے جس کی بنیاد رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رکھی اور جب تک حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبا میں قیام فرمایا اس میں نماز پڑھی ۔ مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مسجدِ مدینہ مراد ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
یاد رہے کہ دونوں مسجدوں کے بارے میں حدیثیں مذکور ہیں اور ان دونوں باتوں میں کوئی تَعارُض نہیں کیونکہ آیت کا مسجدِ قبا ء کے حق میں نازل ہونا اس بات کو مُستَلْزِم نہیں ہے کہ مسجد ِمدینہ میں یہ اَوصاف نہ ہوں۔ احادیث میں مسجدِ نبوی اور مسجدِ قبا ء کے کثیر فضائل مذکور ہیں ،ان میں سے چند فضائل درج ذیل ہیں :
*مسجدِ نَبوی کے3 فضائل:*
یہاں آیت کی
مسجد نبوی کے تین فضائل:
مسجد قبا کے تین فضائل:
اسلام میں صفائی کی اہمیت:
لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًاؕ-لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸)
ترجمہ
۔ (اے حبیب!) آپ اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہوں ۔بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس کی حقدار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔ اس میں وہ لوگ ہیں جو خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں اور اللہ خوب پاک ہونے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
تفسیر
{لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا:(اے حبیب!) آپ اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔} اس آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مسجدِ ضرار میں نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی گئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۲۸۲)
فخر و ریاکاری کی نیت سے مسجد تعمیر کرنے کی مذمت:
امام عبداللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ جو مسجد فخر و ریا اور نمود و نمائش یا رضائے الٰہی کے سوا اور کسی غرض کے لئے یا حرام مال سے بنائی گئی ہو وہ بھی مسجدِ ضرار کے ساتھ لاحق ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۴۵۴)
فی زمانہ مسلمانوں میں ایک تعداد ایسی ہے جنہیں عالیشان مسجد تعمیر کرنے پر اور زیادہ مساجد بنانے پر ایک دوسرے سے فخر کااظہار کرتے دیکھا گیا ہے، ان کے دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے یا خود انہیں اپنے دلوں کا حال اچھی طرح معلوم ہے ، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی عبادت کرنے میں مسلمانوں کو سہولت پہنچانے کی نیت سے عالی شان اور خوبصورت مساجد بنائی ہیں تو ان کایہ عمل لائقِ تحسین اوراجر و ثواب کاباعث ہے اور اگر ان کی نیت یہ نہ تھی بلکہ خوبصورت مساجد بنانے سے ریاکاری اور فخر و بڑائی کا اظہار مقصود تھا اگرچہ زبان سے لوگوں کے سامنے یہ صدا عام تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ کوشش قبول فرمائے ،تو انہیں چاہئے کہ درج ذیل3 اَحادیث سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کی نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ مسجد تعمیر کرنے میں فخر کریں گے ۔ (نسائی، کتاب المساجد، المباہاۃ فی المساجد، ص۱۲۰، الحدیث: ۶۸۶) یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اخلاص کے ساتھ نہیں بلکہ نامْوَری، ریاکاری اور بڑائی کی نیت سے مسجد یں تعمیر کریں گے۔
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ لو گ جب مسجد (تعمیر کرنے) کے معاملے میں فخر کرنے لگ جائیں گے۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تشیید المساجد، ۱ / ۴۰۹، الحدیث: ۷۳۹)
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں وہ مسجدیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے پر فخر کیا کریں گے اور انہیں آباد کم کیا کریں گے۔( صحیح ابن خزیمہ، جماع ابواب فضائل المساجد وبنائہا وتعظیمہا، باب کراہۃ التباہی فی بناء المساجد۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۳۲۱)
یاد رہے کہ کسی کے دل کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے ہم کسی کے دل کا حال معلوم کر سکیں اس لئے کسی مسلمان پر بد گمانی کرنے اور اس پر یہ الزام ڈالنے کی شرعاً کسی کو اجاز ت نہیں کہ اس نے فخر و ریاکاری کی نیت سے مسجد تعمیر کی ہے لیکن تعمیر کرنے والے کو بہرحال اپنے قلب کی طرف نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔
*{لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ:بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے۔}* اس سے مراد مسجدِ قباء ہے جس کی بنیاد رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رکھی اور جب تک حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبا میں قیام فرمایا اس میں نماز پڑھی ۔ مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مسجدِ مدینہ مراد ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
یاد رہے کہ دونوں مسجدوں کے بارے میں حدیثیں مذکور ہیں اور ان دونوں باتوں میں کوئی تَعارُض نہیں کیونکہ آیت کا مسجدِ قبا ء کے حق میں نازل ہونا اس بات کو مُستَلْزِم نہیں ہے کہ مسجد ِمدینہ میں یہ اَوصاف نہ ہوں۔ احادیث میں مسجدِ نبوی اور مسجدِ قبا ء کے کثیر فضائل مذکور ہیں ،ان میں سے چند فضائل درج ذیل ہیں :
*مسجدِ نَبوی کے3 فضائل:*
یہاں آیت کی
مناسبت سے مسجدِ نبوی کے تین فضائل ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳-باب، ۱ / ۶۲۱، الحدیث: ۱۸۸۸)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی شخص کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کا ثواب ہے ،اور اس کا محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کا جامع مسجد میں نماز پڑھنا پانچ سو نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کامسجدِ حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی الصلاۃ فی المسجد الجامع، ۲ / ۱۷۶، الحدیث: ۱۴۱۳)
(3)…حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے اس منبر کے پائے جنت میں نَصب ہیں۔ (نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۳)
*مسجدِ قبا کے3 فضائل:*
مسجدِ قبا کو بھی بہت فضیلت حاصل ہے ،چنانچہ اس کے بھی تین فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر ہفتے مسجدِ قبا میں (کبھی) پیدل اور (کبھی) سوار ہو کر تشریف لاتے تھے ۔ (بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، من اتی مسجد قباء کلّ سبت، ۱ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۳)
(2)…حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنے گھر سے نکلے، پھر مسجد ِقبا میں آ کر نماز پڑھے تو اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ (نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد قباء والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۶)
(3)…حضرت اُسَید بن ظُہَیر انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسجدِ قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے ۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد قبائ، ۱ / ۳۴۸، الحدیث: ۳۲۴)
*{یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا:وہ لوگ خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں۔}* شانِ نزول: یہ آیت مسجدِ قبا والوں کے حق میں نازل ہوئی، سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سے فرمایا : اے گروہِ انصار! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہاری تعریف فرمائی ہے، تم وضو اور استنجے کے وقت کیا عمل کرتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم بڑا استنجا تین ڈھیلوں سے کرتے ہیں ،اس کے بعد پانی سے طہارت کرتے ہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
*اسلام میں صفائی کی اہمیت:*
ہر صاحب ِذوق شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی ، ستھرائی انسان کے وقار و شرف کی آئینہ دار ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت وعظمت کی بد ترین دشمن ہے۔ دینِ اسلام نے جہاں انسان کو کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک کر کے عزت و رفعت عطا کی وہیں ظاہری طہارت، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیمات کے ذریعے انسانیت کا وقار بلند کیا، بدن کی پاکیزگی ہو یا لباس کی ستھرائی، ظاہری ہَیئت کی عمدگی ہو یا طور طریقے کی اچھائی ،مکان اور سازو سامان کی بہتری ہو یا سواری کی دھلائی الغرض ہر ہر چیز کو صاف ستھرا اور جاذبِ نظر رکھنے کی دینِ اسلام میں تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ‘‘ (البقرہ:۲۲۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوئ، ص۱۴۰، الحدیث: ۱(۲۲۳))
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاسے روایت ہے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک اسلام صاف ستھرا (دین) ہے تو تم بھی نظافت حاصل کیا کرو کیونکہ جنت میں صاف ستھرا رہنے والا ہی داخل ہو گا۔ (کنز
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳-باب، ۱ / ۶۲۱، الحدیث: ۱۸۸۸)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی شخص کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کا ثواب ہے ،اور اس کا محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کا جامع مسجد میں نماز پڑھنا پانچ سو نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کامسجدِ حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی الصلاۃ فی المسجد الجامع، ۲ / ۱۷۶، الحدیث: ۱۴۱۳)
(3)…حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے اس منبر کے پائے جنت میں نَصب ہیں۔ (نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۳)
*مسجدِ قبا کے3 فضائل:*
مسجدِ قبا کو بھی بہت فضیلت حاصل ہے ،چنانچہ اس کے بھی تین فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر ہفتے مسجدِ قبا میں (کبھی) پیدل اور (کبھی) سوار ہو کر تشریف لاتے تھے ۔ (بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، من اتی مسجد قباء کلّ سبت، ۱ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۳)
(2)…حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنے گھر سے نکلے، پھر مسجد ِقبا میں آ کر نماز پڑھے تو اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ (نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد قباء والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۶)
(3)…حضرت اُسَید بن ظُہَیر انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسجدِ قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے ۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد قبائ، ۱ / ۳۴۸، الحدیث: ۳۲۴)
*{یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا:وہ لوگ خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں۔}* شانِ نزول: یہ آیت مسجدِ قبا والوں کے حق میں نازل ہوئی، سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سے فرمایا : اے گروہِ انصار! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہاری تعریف فرمائی ہے، تم وضو اور استنجے کے وقت کیا عمل کرتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم بڑا استنجا تین ڈھیلوں سے کرتے ہیں ،اس کے بعد پانی سے طہارت کرتے ہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
*اسلام میں صفائی کی اہمیت:*
ہر صاحب ِذوق شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی ، ستھرائی انسان کے وقار و شرف کی آئینہ دار ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت وعظمت کی بد ترین دشمن ہے۔ دینِ اسلام نے جہاں انسان کو کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک کر کے عزت و رفعت عطا کی وہیں ظاہری طہارت، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیمات کے ذریعے انسانیت کا وقار بلند کیا، بدن کی پاکیزگی ہو یا لباس کی ستھرائی، ظاہری ہَیئت کی عمدگی ہو یا طور طریقے کی اچھائی ،مکان اور سازو سامان کی بہتری ہو یا سواری کی دھلائی الغرض ہر ہر چیز کو صاف ستھرا اور جاذبِ نظر رکھنے کی دینِ اسلام میں تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ‘‘ (البقرہ:۲۲۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوئ، ص۱۴۰، الحدیث: ۱(۲۲۳))
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاسے روایت ہے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک اسلام صاف ستھرا (دین) ہے تو تم بھی نظافت حاصل کیا کرو کیونکہ جنت میں صاف ستھرا رہنے والا ہی داخل ہو گا۔ (کنز