علامہ قرطبی نے سورۃالتّین کی تفسیر میں ایک بہت دلچسپ واقعہ لکھا ہے:
كان عيسى بن موسى، يُحِبُّ زَوجَتَهُ حُبًّا شديدًا، فقال لها يومًا: أنتِ طالقٌ، إنْ لَم تكوني أحسنَ مِن القمر. فَنَهَضتْ، واحتَجَبَتْ عَنهُ،
وقالت: قَد طَلّقتَني، فباتَ بليلةٍ عظيمة.
فلما أصبحَ غدا إلى المنصور، وأخبَرهُ الخبر،
وقال: يا أميرَ المؤمنين، إنْ تَمَّ طلاقُها تَلِفَتْ نفسي غَمًّا، وكان المَوتُ أحَبَّ إليَّ مِن الحياة.
وظهر للمنصورِ مِنه جَزَعٌ شديد، فأحضرَ الفقهاءَ، واستفتاهم، فقال جميعُ مَن حضر: قد طُلِّقَتْ، إلا رجلٌ مِن أصحابِ أبي حنيفة، فإنَّهُ سَكَتَ۔
فقال له المنصور: ما لكَ لا تتكلم؟
فقال: بسم الله الرحمن الرحيم:
(وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ * وَطُورِ سِينِينَ * وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ * لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ) [التين: ١-٤]
فلا شيءَ أحسنَ مِن الإنسان.
فقال المنصور، لعيسى بن موسى، قَد فَرَّجَ الله - تعالى - عنك، والأمر كما قال، فأقِم على زوجتك. وراسَلَها أنْ أطيعي زَوجَك، فَما طُلِّقتِ"-
یعنی:
عیسیٰ بن موسی ہاشمی کی اپنی بیوی کے ساتھ شدید محبت تھی۔ ایک دن اس نے اس سے کہا:
”انتِ طالق ثلاثاً ان لم تکونی احسن من القمر“
اگر تو چاند سے زیادہ خوبصورت نہ ہو تو تجھے تین طلاقیں۔
اس نے جب اپنے خاوند کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو اٹھ کھڑی ہوئی اور عیسیٰ سے پردہ کرلیا اور کہا کہ تونے مجھے طلاق دے دی ہے۔ اب ہمارا ازدواجی تعلق منقطع ہوگیا۔ عیسیٰ نے بڑی مشکل سے رات بسر کی ، صبح سویرے خلیفہ منصور کے پاس پہنچا اور اس واقعہ کی اطلاع دی اور بڑی گھبراہٹ اور ندامت کا اظہار کیا ۔ خلیفہ نے فقہاء کو اپنے دربار میں بلایا اور ان سے فتویٰ پوچھا۔ جتنے فقہاء حاضر تھے سب نے کہا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے، لیکن سراجُ الامۃ,کشف الغمۃ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شاگردوں سے ایک شخص خاموش بیٹھا رہا ۔ منصور نے پوچھا آپ کیوں چپ ہیں، کیوں کوئی بات نہیں کرتے تو وہ شخص بولا:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم والتین والزیتون وطور سینین وھذ البلد الامین لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم "
اے امیر المومنین ! اس ارشادِ الٰہی کے مطابق انسان سب چیزوں سے زیادہ حسین ہے اور کوئی چیز اس سے زیادہ حسین نہیں ہے۔ منصور نے عیسیٰ بن موسی سے کہا کہ اس شخص نے جو کہا ہے، درست کہا ہے، تم اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتے ہو اور اس کی بیوی کو بھی کہلا بھیجا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ اس لیے اسے چاہیے کہ اپنے خاوند کے گھر آجائے ۔
[تفسیرِقرطبی, جلد 20 صفحہ 114, تحۃالآیۃ.. لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ, مطبوعہ بیروت]
#وضاحت
یعنی سب علماء نے طلاق نے فتویٰ دے دیا کہ طلاق ہو گئی کیونکہ عیسیٰ بن موسیٰ نے اپنی بیوی سے کہا کہ:
"اگر تو چاند سے زیادہ خوبصورت نہیں تو تجھے تین طلاقیں طلاقیں"
انسان چاند سے زیادہ خوبصورت کیسے ہو سکتاہے؟؟؟
لہذا تمام علماء نے کہا کہ طلاق واقع ہو گئی-
امامِ اعظم علیہ الرحمۃ کے شاگر بولے کہ اے امیر المؤمنین طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ اللہ ارشاد فرماتا ہے:
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ * وَطُورِ سِينِينَ * وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ * لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
یعنی:
(۱)انجیر کی قسم, (۲)زیتون کی قسم, (۳) طُورِ سِینا کی قسم, (۴) اور اس اَمن والے شہر کی قسم
بیشک ہم نے انسان کو بہت خوبصورت بنایا ہے"
مطلب کہ اللہ نے مؤمن کے حُسن کو بیان کرنے سے پہلے چار (4) قَسمیں ارشاد فرمائی ہیں-
اور چاند کے حُسن کو بیان کرتے ایک بھی قسم نہیں کہی-
تو پس ثابت ہوا کہ مؤمن چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہے لہذا طلاق واقع نہیں ہوئی-یہ شخص اپنی محبوبہ بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے-
لہذا امیرالمؤمنین نے ان دونوں کو ایک ساتھ رہنے کا حکم جاری کر دیا-
°°یہ شان ہے اُن کے شاگردوں کی°°
°°علمِ ابوحنیفہ کاعالَم کیا ہو گا؟°°
#درس
صاحبو! یہ ایک واقعہ تھا جو کہ خلیفہ منصور کے زمانے میں پیش آیا اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی اس واقعہ کو دلیل بنا کراپنی بیوی سے یہی الفاظ کہہ دے-
لہذا خوشی یا غمی ہر حال میں ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیئے- تاکہ کچھ ایسا نہ ہو کہ بعد میں سِوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے-
طلاق اور کفریہ کلمات کے معاملے میں تو اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے-
مدینے پاک کا بھکاری
محمداویس رضاعطاری
كان عيسى بن موسى، يُحِبُّ زَوجَتَهُ حُبًّا شديدًا، فقال لها يومًا: أنتِ طالقٌ، إنْ لَم تكوني أحسنَ مِن القمر. فَنَهَضتْ، واحتَجَبَتْ عَنهُ،
وقالت: قَد طَلّقتَني، فباتَ بليلةٍ عظيمة.
فلما أصبحَ غدا إلى المنصور، وأخبَرهُ الخبر،
وقال: يا أميرَ المؤمنين، إنْ تَمَّ طلاقُها تَلِفَتْ نفسي غَمًّا، وكان المَوتُ أحَبَّ إليَّ مِن الحياة.
وظهر للمنصورِ مِنه جَزَعٌ شديد، فأحضرَ الفقهاءَ، واستفتاهم، فقال جميعُ مَن حضر: قد طُلِّقَتْ، إلا رجلٌ مِن أصحابِ أبي حنيفة، فإنَّهُ سَكَتَ۔
فقال له المنصور: ما لكَ لا تتكلم؟
فقال: بسم الله الرحمن الرحيم:
(وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ * وَطُورِ سِينِينَ * وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ * لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ) [التين: ١-٤]
فلا شيءَ أحسنَ مِن الإنسان.
فقال المنصور، لعيسى بن موسى، قَد فَرَّجَ الله - تعالى - عنك، والأمر كما قال، فأقِم على زوجتك. وراسَلَها أنْ أطيعي زَوجَك، فَما طُلِّقتِ"-
یعنی:
عیسیٰ بن موسی ہاشمی کی اپنی بیوی کے ساتھ شدید محبت تھی۔ ایک دن اس نے اس سے کہا:
”انتِ طالق ثلاثاً ان لم تکونی احسن من القمر“
اگر تو چاند سے زیادہ خوبصورت نہ ہو تو تجھے تین طلاقیں۔
اس نے جب اپنے خاوند کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو اٹھ کھڑی ہوئی اور عیسیٰ سے پردہ کرلیا اور کہا کہ تونے مجھے طلاق دے دی ہے۔ اب ہمارا ازدواجی تعلق منقطع ہوگیا۔ عیسیٰ نے بڑی مشکل سے رات بسر کی ، صبح سویرے خلیفہ منصور کے پاس پہنچا اور اس واقعہ کی اطلاع دی اور بڑی گھبراہٹ اور ندامت کا اظہار کیا ۔ خلیفہ نے فقہاء کو اپنے دربار میں بلایا اور ان سے فتویٰ پوچھا۔ جتنے فقہاء حاضر تھے سب نے کہا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے، لیکن سراجُ الامۃ,کشف الغمۃ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شاگردوں سے ایک شخص خاموش بیٹھا رہا ۔ منصور نے پوچھا آپ کیوں چپ ہیں، کیوں کوئی بات نہیں کرتے تو وہ شخص بولا:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم والتین والزیتون وطور سینین وھذ البلد الامین لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم "
اے امیر المومنین ! اس ارشادِ الٰہی کے مطابق انسان سب چیزوں سے زیادہ حسین ہے اور کوئی چیز اس سے زیادہ حسین نہیں ہے۔ منصور نے عیسیٰ بن موسی سے کہا کہ اس شخص نے جو کہا ہے، درست کہا ہے، تم اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتے ہو اور اس کی بیوی کو بھی کہلا بھیجا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ اس لیے اسے چاہیے کہ اپنے خاوند کے گھر آجائے ۔
[تفسیرِقرطبی, جلد 20 صفحہ 114, تحۃالآیۃ.. لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ, مطبوعہ بیروت]
#وضاحت
یعنی سب علماء نے طلاق نے فتویٰ دے دیا کہ طلاق ہو گئی کیونکہ عیسیٰ بن موسیٰ نے اپنی بیوی سے کہا کہ:
"اگر تو چاند سے زیادہ خوبصورت نہیں تو تجھے تین طلاقیں طلاقیں"
انسان چاند سے زیادہ خوبصورت کیسے ہو سکتاہے؟؟؟
لہذا تمام علماء نے کہا کہ طلاق واقع ہو گئی-
امامِ اعظم علیہ الرحمۃ کے شاگر بولے کہ اے امیر المؤمنین طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ اللہ ارشاد فرماتا ہے:
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ * وَطُورِ سِينِينَ * وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ * لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
یعنی:
(۱)انجیر کی قسم, (۲)زیتون کی قسم, (۳) طُورِ سِینا کی قسم, (۴) اور اس اَمن والے شہر کی قسم
بیشک ہم نے انسان کو بہت خوبصورت بنایا ہے"
مطلب کہ اللہ نے مؤمن کے حُسن کو بیان کرنے سے پہلے چار (4) قَسمیں ارشاد فرمائی ہیں-
اور چاند کے حُسن کو بیان کرتے ایک بھی قسم نہیں کہی-
تو پس ثابت ہوا کہ مؤمن چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہے لہذا طلاق واقع نہیں ہوئی-یہ شخص اپنی محبوبہ بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے-
لہذا امیرالمؤمنین نے ان دونوں کو ایک ساتھ رہنے کا حکم جاری کر دیا-
°°یہ شان ہے اُن کے شاگردوں کی°°
°°علمِ ابوحنیفہ کاعالَم کیا ہو گا؟°°
#درس
صاحبو! یہ ایک واقعہ تھا جو کہ خلیفہ منصور کے زمانے میں پیش آیا اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی اس واقعہ کو دلیل بنا کراپنی بیوی سے یہی الفاظ کہہ دے-
لہذا خوشی یا غمی ہر حال میں ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیئے- تاکہ کچھ ایسا نہ ہو کہ بعد میں سِوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے-
طلاق اور کفریہ کلمات کے معاملے میں تو اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے-
مدینے پاک کا بھکاری
محمداویس رضاعطاری
Forwarded from ✺القرآن الکریم Daily Quran✺
ُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سورۂ فاتحہ ہر مرض کے لیے شفا ء ہے۔‘‘ (شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲/۴۵۰، الحدیث: ۲۳۷۰)
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱/۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱/۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں۔ اس کی بہت برکت ہے۔
{الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: جو نہایت مہربان رحم والا۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے۔ مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا۔ دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آیا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔ اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا: تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔ اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱/۱۵۳)
*🌺 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:🌺*
علماء کرام نے ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)… جو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تاکہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے۔ اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے۔ اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا۔ نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے۔ لیکن اگر شاگرد استاد سے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰه‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
*🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے———————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{بِسْمِ اللّٰهِ: اللہ کے نام سے شروع۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱/۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱/۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے کریں۔ اس کی بہت برکت ہے۔
{الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: جو نہایت مہربان رحم والا۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو رحمٰن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے۔ مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا۔ دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آیا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔ اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا: تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔ اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی اس لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱/۱۵۳)
*🌺 ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:🌺*
علماء کرام نے ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)… جو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تاکہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے۔ اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے۔ اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا۔ نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام جو پہلی وحی لائے اس میں ’’ بِسْمِ اللّٰه‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے۔ لیکن اگر شاگرد استاد سے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہ‘‘ اور’’بِسْمِ اللّٰه‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللّٰه‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
*🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے———————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
Telegram
✺القرآن الکریم Daily Quran✺
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ
*💐سورۂ فاتحہ کا تعارف💐*
*🌴 مقامِ نزول:*
اکثر علماء کے نزدیک’’سورۂ فاتحہ ‘‘مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے۔…
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ
*💐سورۂ فاتحہ کا تعارف💐*
*🌴 مقامِ نزول:*
اکثر علماء کے نزدیک’’سورۂ فاتحہ ‘‘مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے۔…
Forwarded from ✺القرآن الکریم Daily Quran✺
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر1
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*(1)سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: سب خوبیاں اللہ کو۔} یعنی ہر طرح کی حمد اور تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کمال کی تمام صفات کا جامع ہے۔
*🌴حمد اور شکر کی تعریف:*
حمد کا معنی ہے کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر اُس کی تعریف کرنا۔ اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان، دل یا اعضاء سے اُس کی تعظیم کرنا۔ اورہم چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد عام طور پر اُس کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں اس لئے ہماری یہ حمد’’ شکر‘‘ بھی ہوتی ہے۔
*🌹اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے فضائل:*
احادیث میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے 3فضائل درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور کچھ پئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب استحباب حمد اللہ۔۔۔الخ، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۸۹(۲۷۳۴))
(2)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل ذکر ’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ ہے اور سب سے افضل دُعا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۴۸، الحدیث: ۳۸۰۰)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
*💚حمد سے متعلق شرعی حکم:*
خطبے میں حمد ’’واجب‘‘، کھانے کے بعد ’’مستحب‘‘، چھینک آنے کے بعد ’’سنت‘‘، حرام کام کے بعد ’’حرام‘‘ اور بعض صورتوں میں ’’کفر‘‘ہے۔
{لِلّٰهِ: اللہ کے لئے۔} ’’اللہ‘‘ اس ذات ِ اعلیٰ کاعظمت والا نام ہے جو تمام کمال والی صفتوں کی جامع ہے اوربعض مفسرین نے اس لفظ کے معنٰی بھی بیان کیے ہیں جیسے اس کا ایک معنی ہے: *’’عبادت کا مستحق‘‘* دوسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی معرفت میں عقلیں حیران ہیں ‘‘ تیسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی بارگاہ میں سکون حاصل ہوتاہے:‘‘ اور چوتھا معنی ہے: ’’وہ ذات کہ مصیبت کے وقت جس کی پناہ تلاش کی جائے۔‘‘(بیضاوی، الفاتحۃ، ۱/۳۲)
{رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: جو سارے جہان والوں کا مالک ہے۔} لفظ’’رب‘‘ کے کئی معنی ہیں: جیسے سید، مالک، معبود، ثابت، مصلح اور بتدریج مرتبہ کمال تک پہنچانے والا۔ اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر موجود چیز کو عالَم کہتے ہیں اور اس میں تمام مخلوقات داخل ہیں۔(صاوی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۶، خازن، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۷، ملتقطاً)
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
——————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر1
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹*(1)سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: سب خوبیاں اللہ کو۔} یعنی ہر طرح کی حمد اور تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کمال کی تمام صفات کا جامع ہے۔
*🌴حمد اور شکر کی تعریف:*
حمد کا معنی ہے کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر اُس کی تعریف کرنا۔ اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان، دل یا اعضاء سے اُس کی تعظیم کرنا۔ اورہم چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد عام طور پر اُس کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں اس لئے ہماری یہ حمد’’ شکر‘‘ بھی ہوتی ہے۔
*🌹اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے فضائل:*
احادیث میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے 3فضائل درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور کچھ پئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب استحباب حمد اللہ۔۔۔الخ، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۸۹(۲۷۳۴))
(2)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل ذکر ’’لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ ہے اور سب سے افضل دُعا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۴۸، الحدیث: ۳۸۰۰)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
*💚حمد سے متعلق شرعی حکم:*
خطبے میں حمد ’’واجب‘‘، کھانے کے بعد ’’مستحب‘‘، چھینک آنے کے بعد ’’سنت‘‘، حرام کام کے بعد ’’حرام‘‘ اور بعض صورتوں میں ’’کفر‘‘ہے۔
{لِلّٰهِ: اللہ کے لئے۔} ’’اللہ‘‘ اس ذات ِ اعلیٰ کاعظمت والا نام ہے جو تمام کمال والی صفتوں کی جامع ہے اوربعض مفسرین نے اس لفظ کے معنٰی بھی بیان کیے ہیں جیسے اس کا ایک معنی ہے: *’’عبادت کا مستحق‘‘* دوسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی معرفت میں عقلیں حیران ہیں ‘‘ تیسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی بارگاہ میں سکون حاصل ہوتاہے:‘‘ اور چوتھا معنی ہے: ’’وہ ذات کہ مصیبت کے وقت جس کی پناہ تلاش کی جائے۔‘‘(بیضاوی، الفاتحۃ، ۱/۳۲)
{رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ: جو سارے جہان والوں کا مالک ہے۔} لفظ’’رب‘‘ کے کئی معنی ہیں: جیسے سید، مالک، معبود، ثابت، مصلح اور بتدریج مرتبہ کمال تک پہنچانے والا۔ اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر موجود چیز کو عالَم کہتے ہیں اور اس میں تمام مخلوقات داخل ہیں۔(صاوی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۶، خازن، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۷، ملتقطاً)
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
——————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
Forwarded from ✺القرآن الکریم Daily Quran✺
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر2
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(۲)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (2)بہت مہربان رحمت والا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{اَلرَّحْمٰنْ:بہت مہربان۔} رحمٰن اور رحیم اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں۔ رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے: بہت رحمت فرمانے والا۔
یاد رہے کہ حقیقی طور پر نعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی۔ ہر چھوٹی، بڑی، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہے۔ کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اُٹھانا اور فائدہ اٹھانے کے لئے اَعضاء کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔
🔷 *اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہونا چاہئے:*
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کے بعد اپنے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم بیان فرمائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہے، تو اس سے (سننے اور پڑھنے والے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اس کا) خوف پیدا ہوا،تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم ذکر کر دئیے گئے جن کے ضمن میں (اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی) ترغیب ہے۔ یوں ترہیب اور ترغیب دونوں کا بیان ہو گیا تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی طرف اچھی طرح راغب ہو اور اس کی نافرمانی کرنے سے رکنے کی خوب کوشش کرے۔ (قرطبی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱/۱۲۹، الجزء الاوّل)
قرآن مجید میں اور مقامات پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب دونوں کو واضح طور پر ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(٤٩) وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰)‘‘(حجر: ٤۹،۵۰)
ترجمہ: میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ-ذِی الطَّوْلِ- لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(۳)‘‘(مومن: ۳)
ترجمہ: گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا، بڑے انعام(عطا فرمانے) والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف پھرنا ہے۔
نیزحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ۔۔۔الخ،ص۱۴۷۳،الحدیث:۲۳(۲۷۵۵))
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بےباک نہ ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہو۔
*🌴کسی کورحمٰن اور رحیم کہنے کے بارے میں شرعی حکم:*
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا جائز نہیں، جبکہ رحیم کہا جا سکتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی رحیم فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)‘‘(توبہ: ۱۲۸)
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر2
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(۲)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (2)بہت مہربان رحمت والا۔
*🍀تفسیر:🍀*
{اَلرَّحْمٰنْ:بہت مہربان۔} رحمٰن اور رحیم اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں۔ رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے: بہت رحمت فرمانے والا۔
یاد رہے کہ حقیقی طور پر نعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی۔ ہر چھوٹی، بڑی، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہے۔ کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اُٹھانا اور فائدہ اٹھانے کے لئے اَعضاء کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔
🔷 *اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہونا چاہئے:*
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کے بعد اپنے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم بیان فرمائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہے، تو اس سے (سننے اور پڑھنے والے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اس کا) خوف پیدا ہوا،تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے دو اوصاف رحمٰن اور رحیم ذکر کر دئیے گئے جن کے ضمن میں (اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی) ترغیب ہے۔ یوں ترہیب اور ترغیب دونوں کا بیان ہو گیا تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی طرف اچھی طرح راغب ہو اور اس کی نافرمانی کرنے سے رکنے کی خوب کوشش کرے۔ (قرطبی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱/۱۲۹، الجزء الاوّل)
قرآن مجید میں اور مقامات پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب دونوں کو واضح طور پر ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(٤٩) وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰)‘‘(حجر: ٤۹،۵۰)
ترجمہ: میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
اور ارشاد فرمایا: ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ-ذِی الطَّوْلِ- لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(۳)‘‘(مومن: ۳)
ترجمہ: گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا، بڑے انعام(عطا فرمانے) والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف پھرنا ہے۔
نیزحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا۔ (مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ۔۔۔الخ،ص۱۴۷۳،الحدیث:۲۳(۲۷۵۵))
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بےباک نہ ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہو۔
*🌴کسی کورحمٰن اور رحیم کہنے کے بارے میں شرعی حکم:*
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا جائز نہیں، جبکہ رحیم کہا جا سکتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی رحیم فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)‘‘(توبہ: ۱۲۸)
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
Forwarded from ✺القرآن الکریم Daily Quran✺
🌹🌺 درس قرآن 🌺🌹
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر3
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ(۳)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (3)روزِ جزاء کا مالک۔
*🍀تفسیر🍀*
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ: روزِ جزاء کا مالک۔} جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ کہ اس دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی۔ جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ دنیا و آخرت دونوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔ نیز دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا کیونکہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی۔ اس لئے یہاں خاص طور پر قیامت کے دن کی ملکیت کا ذکر کیا گیا۔
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran
📖 پارہ-1🌠 1-سورۂ فاتحہ ...🍀آیت نمبر3
🍀🌠بسْــــــــــــمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم🌠🍀
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ(۳)
*🌹 ترجمہ کنز الایمان:🌹* (3)روزِ جزاء کا مالک۔
*🍀تفسیر🍀*
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ: روزِ جزاء کا مالک۔} جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ کہ اس دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی۔ جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ دنیا و آخرت دونوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔ نیز دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا کیونکہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی۔ اس لئے یہاں خاص طور پر قیامت کے دن کی ملکیت کا ذکر کیا گیا۔
🌸💥‼عاجِزَانہ اِلتجاء‼💥🌸
اللّٰه پاکﷻ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اس تفسیر کو دوسرے گروپس میں شیئر کیجئے۔
————————————————
#فاتحہ #ترجمہ #تفسیرالقرآن #درس
👌❀ القرآن الکریم
❀ T.me/DailyTilawatQuran