🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت:
اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْــٴًـاؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۳۹)
ترجمہ
اگر تم کوچ نہیں کرو گے تووہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور تم اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکوگے اور اللہ ہرشے پر قادرہے۔
تفسیر
*{اِلَّا تَنْفِرُوْا:اگر تم کوچ نہیں کرو گے۔}* ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! اگر تم رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے مطابق اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں کوچ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گاجو تم سے بہتر اور فرمانبردار ہوں گے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت اور ان کے دین کو عزت دینے میں خود کفالت فرمائے گا تو اگر تم فرمانِ رسول کی اطاعت میں جلد ی کرو گے تو یہ سعادت تمہیں نصیب ہوگی اور اگر تم نے سستی کی تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شرفِ خدمت سے سرفراز فرمائے گا۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۴۸)
*اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں :*
اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ دین کی تبلیغ مسلمانوں کا منصب اور ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی یہ سعادت حاصل کرتا ہے تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کرم نوازی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں ، نیز اسلام کی اشاعت ہم پر مَوقوف نہیں کیونکہ ہم سے پہلے بھی دنیا میں اسلام تھا اور ہمارے بعد بھی رہے گا۔
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰)
ترجمہ
اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ ان کی مدد فرماچکا ہے جب کافروں نے انہیں (ان کے وطن سے) نکال دیا تھا جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اُس پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا اور اللہ کی بات ہی بلندو بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
تفسیر
*{اِلَّا تَنْصُرُوْهُ:اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے کہ اگر تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی اس وقت بھی مدد فرمائی جبمکہ مکرمہ سے ہجرت کے وقت ان کے ساتھ صرف ایک شخص تھا تو یہاں بدرجہ اَولیٰ مدد فرمائے گا۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۴۹)
*حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت:*
اس آیتِ مبارکہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیتِ مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے۔
(1)…تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غارِ ثور میں اس لئے تشریف لے گئے کہ انہیں کفار کی طرف سے قتل کا اندیشہ تھا لہٰذا اگر رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے، پکے اور صدیق مومن ہونے کا یقین نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی طور پربھی انہیں اپنے ساتھ ہم رِکابی کا شرف عطا نہ فرماتے کیونکہ اس طرح جو اندیشہ کفار سے تھا وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی ہو سکتا تھا۔ یہ کلام اُن جاہلوںکا جواب ہے جو اِس سفر کے حوالے سے بھی سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر اعتراض کرتے ہیں۔
(2)…یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت:
اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْــٴًـاؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۳۹)
ترجمہ
اگر تم کوچ نہیں کرو گے تووہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور تم اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکوگے اور اللہ ہرشے پر قادرہے۔
تفسیر
*{اِلَّا تَنْفِرُوْا:اگر تم کوچ نہیں کرو گے۔}* ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! اگر تم رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے مطابق اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں کوچ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گاجو تم سے بہتر اور فرمانبردار ہوں گے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت اور ان کے دین کو عزت دینے میں خود کفالت فرمائے گا تو اگر تم فرمانِ رسول کی اطاعت میں جلد ی کرو گے تو یہ سعادت تمہیں نصیب ہوگی اور اگر تم نے سستی کی تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شرفِ خدمت سے سرفراز فرمائے گا۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۴۸)
*اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں :*
اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ دین کی تبلیغ مسلمانوں کا منصب اور ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی یہ سعادت حاصل کرتا ہے تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کرم نوازی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں ، نیز اسلام کی اشاعت ہم پر مَوقوف نہیں کیونکہ ہم سے پہلے بھی دنیا میں اسلام تھا اور ہمارے بعد بھی رہے گا۔
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰)
ترجمہ
اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ ان کی مدد فرماچکا ہے جب کافروں نے انہیں (ان کے وطن سے) نکال دیا تھا جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اُس پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا اور اللہ کی بات ہی بلندو بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
تفسیر
*{اِلَّا تَنْصُرُوْهُ:اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے۔}* اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے کہ اگر تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی اس وقت بھی مدد فرمائی جبمکہ مکرمہ سے ہجرت کے وقت ان کے ساتھ صرف ایک شخص تھا تو یہاں بدرجہ اَولیٰ مدد فرمائے گا۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۴۹)
*حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت:*
اس آیتِ مبارکہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیتِ مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے۔
(1)…تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غارِ ثور میں اس لئے تشریف لے گئے کہ انہیں کفار کی طرف سے قتل کا اندیشہ تھا لہٰذا اگر رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے، پکے اور صدیق مومن ہونے کا یقین نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی طور پربھی انہیں اپنے ساتھ ہم رِکابی کا شرف عطا نہ فرماتے کیونکہ اس طرح جو اندیشہ کفار سے تھا وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی ہو سکتا تھا۔ یہ کلام اُن جاہلوںکا جواب ہے جو اِس سفر کے حوالے سے بھی سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر اعتراض کرتے ہیں۔
(2)…یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔
(3)… دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حالات کی ناسازی کی وجہ سے ہجرت کر گئے جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے شدید خوف اور انتہائی خطرناک صورتِ حال کے باوجود بھی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قرب نہ چھوڑا بلکہ صبر و اِستقامت کے ساتھ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہے او ر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مصروف رہے۔
(4)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سفر و حضر میں رسولِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہتے بلکہ اس کا اِلتزام فرماتے تھے، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے عشقِ رسول کی دلیل ہے۔
(5)… آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غارِ ثور میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُنسِیّت کا شرف پایا اور اپنی جان قربان کرنے کی سعادت پائی۔
(6)… اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی فرمایا یعنی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی (یعنی دوسرے نمبر پر )ہونے کا شرف پایا جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں تدفین کی وجہ سے قیامت تک ثانِیّت سے مشرف ہیں۔
(7)… حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا صحابی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ،یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا۔
(8)…اللہ تعالیٰ ان دونوں مقدس ہستیوں کے ساتھ تھا تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو یہ اس کے دوسروں سے افضل ہونے کی دلیل ہے۔
(9)… اللہ تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۵۰، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)
*حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تمنا:*
ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ’’میری تمنا ہے کہ کاش ! میرے سارے اعمال حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دنوں میں سے ایک دن اور راتوں میں سے ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ۔ان کی رات تو وہ کہ جس میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ غار کی طرف سفر کیا اور جب وہ دونوں غار تک پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ سے پہلے میں غار میں جاؤں گا تاکہ اس میں کوئی تکلیف دِہ چیز ہو تو اس کی اَذِیَّت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بجائے مجھے پہنچے ۔ جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں سوراخ دیکھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر کے ٹکڑے کر کے ان سوراخوں کو بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، اس کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب تشریف لے آئیے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں تشریف لائے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سرِ انور رکھ دیا اور آرام فرمانے لگے۔ اتنے میں سوراخ سے کسی چیز نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ڈس لیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس خوف سے حرکت نہ کی کہ کہیں رسولُ اللہ ص
(3)… دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حالات کی ناسازی کی وجہ سے ہجرت کر گئے جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے شدید خوف اور انتہائی خطرناک صورتِ حال کے باوجود بھی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قرب نہ چھوڑا بلکہ صبر و اِستقامت کے ساتھ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہے او ر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مصروف رہے۔
(4)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سفر و حضر میں رسولِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہتے بلکہ اس کا اِلتزام فرماتے تھے، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے عشقِ رسول کی دلیل ہے۔
(5)… آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غارِ ثور میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُنسِیّت کا شرف پایا اور اپنی جان قربان کرنے کی سعادت پائی۔
(6)… اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی فرمایا یعنی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ثانی (یعنی دوسرے نمبر پر )ہونے کا شرف پایا جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں تدفین کی وجہ سے قیامت تک ثانِیّت سے مشرف ہیں۔
(7)… حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا صحابی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ،یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا۔
(8)…اللہ تعالیٰ ان دونوں مقدس ہستیوں کے ساتھ تھا تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو یہ اس کے دوسروں سے افضل ہونے کی دلیل ہے۔
(9)… اللہ تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۵۰، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)
*حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تمنا:*
ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ’’میری تمنا ہے کہ کاش ! میرے سارے اعمال حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دنوں میں سے ایک دن اور راتوں میں سے ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ۔ان کی رات تو وہ کہ جس میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ غار کی طرف سفر کیا اور جب وہ دونوں غار تک پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! آپ سے پہلے میں غار میں جاؤں گا تاکہ اس میں کوئی تکلیف دِہ چیز ہو تو اس کی اَذِیَّت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بجائے مجھے پہنچے ۔ جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غار میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں سوراخ دیکھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر کے ٹکڑے کر کے ان سوراخوں کو بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، اس کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب تشریف لے آئیے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں تشریف لائے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سرِ انور رکھ دیا اور آرام فرمانے لگے۔ اتنے میں سوراخ سے کسی چیز نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ڈس لیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس خوف سے حرکت نہ کی کہ کہیں رسولُ اللہ ص
َلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نیند سے بیدار نہ ہو جائیں لیکن تکلیف کی شدت سے نکلنے والے چند آنسو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رُوئے اقدس پر گر گئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اے ابو بکر! کیا ہوا؟ عرض کی ! میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پہ فدا ہوں ، مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا لعابِ دہن اس جگہ پر لگا دیا تو اسی وقت ساری تکلیف ختم ہو گئی، بعد میں یہی ڈنگ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ کی وفات کا سبب بنا۔ اور ان کا دن وہ کہ جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہوگئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اگر انہوں نے زکوٰۃ کے مال کی ایک رسی بھی روکی تومیں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ میں نے عرض کی ’’اے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ اُلفت اور نرمی کا برتاؤکیجئے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا اور اب دین مکمل ہو گیا ہے کیا وہ دین میں کمی کریں گے ؟حالانکہ میں ابھی زندہ ہوں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۰)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے
*{وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا:اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے۔}* اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائی کہ فرشتوں نے کفار کے چہروں اور نگاہوں کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھنے سے پھیر دیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں رُعب ڈال دیا یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ گئے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں تھے اور شدید خوف کا عالَم تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے دشمنوں کا مکر پھیر کر ان کی مدد فرمائی اور پھر میدانِ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴)
*{وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى:اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا۔}* کافروں کی بات سے مراد شرک یا دعوت ِکفر ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد توحید یا دعوتِ اسلام ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ کافروں کی بات سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کی وہ سازش ہے جس میں کفار کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مددفرمائے گا۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۱۴۶، بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۵۰، ملتقطاً)
*طالبِ دعا ابوعمر*
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے
*{وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا:اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے۔}* اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائی کہ فرشتوں نے کفار کے چہروں اور نگاہوں کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھنے سے پھیر دیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں رُعب ڈال دیا یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ گئے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں تھے اور شدید خوف کا عالَم تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے دشمنوں کا مکر پھیر کر ان کی مدد فرمائی اور پھر میدانِ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴)
*{وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى:اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا۔}* کافروں کی بات سے مراد شرک یا دعوت ِکفر ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد توحید یا دعوتِ اسلام ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ کافروں کی بات سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کی وہ سازش ہے جس میں کفار کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مددفرمائے گا۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۱۴۶، بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۵۰، ملتقطاً)
*طالبِ دعا ابوعمر*
🌷 *فیضانِ حدیث*🌷
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
” جس نے خوشیِ دل سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ آتش جہنم سے حجاب ہو جائے گی۔ ‘‘
(’’ المعجم الکبیر‘‘، الحدیث: 2736)
فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم
” جس نے خوشیِ دل سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ آتش جہنم سے حجاب ہو جائے گی۔ ‘‘
(’’ المعجم الکبیر‘‘، الحدیث: 2736)
🌹 *فیضان قرآن*🌹
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴۱)
ترجمہ
تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
تفسیر
*{اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا:تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو۔}* یعنی چاہے تم اس حالت میں ہو کہ جہاد کرنا تم پر آسان ہے یا اس حالت میں ہو کہ جہادکرنا تم پر بھاری ہے بہر حال کوچ کرو۔ مفسرین نے ’’خِفَافًا ‘‘ اور ’’ثِقَالًا ‘‘ کے بہت سے معنی بیان فرمائے ہیں۔ (1)تمہارے لئے نکلنے میں آسانی ہو یا مشقت۔ (2) اہل و عیال کم ہوں یا زیادہ۔ (3) اسلحہ کم ہو یا زیادہ۔ (4) سوار ہو کر نکلو یا پیدل۔ (5) جوان ہو یا بوڑھے۔ (6) طاقتور ہو یا کمزور۔ (7) بہادر ہو یا بزدل۔ (8) صحت مند ہو یا مریض۔ (9) خوشی سے نکلو یا ناخوشی سے۔ (10) مالدار ہو یا فقیر۔ (11) فارغ ہو یا کسی کام میں مصروف، خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اور جن مسلمانوں کو جہاد کے لئے بلائیں تو انہیں جہاد میں جانا ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی حال میں ہوں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)
*حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا شوقِ جہاد:*
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ سورۂ توبہ کی تلاوت فرمائی ،جب اس آیت ’’اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا‘‘ پر پہنچے تو اپنے بیٹوں سے فرمایا ’’ میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو، میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو۔ ان کے بیٹوں نے عرض کی ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ غزوات میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وصالِ ظاہری ہو گیا، پھر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوئے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی،پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ شریکِ جہاد رہے حتّٰی کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا ، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد میں شریک ہو جائیں گے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ نہیں ، بس اب تم میرے سامانِ جہاد کی تیاری کرو ۔ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سمند ری جہاد میں شرکت کی اور سمند رہی میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات ہو گئی۔ سات دن بعد ان کے ساتھیوں کو تدفین کیلئے ایک جزیرہ ملا تو انہوں نے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تدفین کی۔ ان سات دنوں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بدن مبارک سلامت ہی رہا اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ ہوئی ۔ (تفسیر قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۶۶، الجزء الثامن)
*{وَ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔}* جہاد کی تین صورتیں ہیں ۔
(1)…جان اور مال دونوں کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو مال بھی رکھتا اور جہاد کے قابل تندرست و توانا جسم بھی رکھتا ہو۔
(2)…صرف جان کے ساتھ۔ یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے پاس مال نہ ہو لیکن جسمانی طور پرجہاد کے قابل ہو۔
(3)…صرف مال کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو جسمانی کمزوری، معذوری یا بیماری وغیرہ کے باعث جہاد میں شریک نہ ہو سکتا ہو لیکن مجاہدین کی مالی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۳۸، ملخصاً)
*مجاہدین کی مالی مدد کرنے کے دو فضائل:*
(1)…حضرت زید بن خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرے تو گویا اس نے خود جہاد کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں لڑنے والے کے گھر بار کی نیک نیتی سے خبر گیری کی تو وہ بھی خود جہاد کرنے والوں کی طرح ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل من جہّز غازیاً۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۷، الحدیث: ۲۸۴۳)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ غازی (مجاہد) کے لیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کے لیے اپنا ثواب ہے اور غازی کا ثواب ۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل، ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)
*طالبِ دعاابوعمر*
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴۱)
ترجمہ
تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
تفسیر
*{اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا:تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو۔}* یعنی چاہے تم اس حالت میں ہو کہ جہاد کرنا تم پر آسان ہے یا اس حالت میں ہو کہ جہادکرنا تم پر بھاری ہے بہر حال کوچ کرو۔ مفسرین نے ’’خِفَافًا ‘‘ اور ’’ثِقَالًا ‘‘ کے بہت سے معنی بیان فرمائے ہیں۔ (1)تمہارے لئے نکلنے میں آسانی ہو یا مشقت۔ (2) اہل و عیال کم ہوں یا زیادہ۔ (3) اسلحہ کم ہو یا زیادہ۔ (4) سوار ہو کر نکلو یا پیدل۔ (5) جوان ہو یا بوڑھے۔ (6) طاقتور ہو یا کمزور۔ (7) بہادر ہو یا بزدل۔ (8) صحت مند ہو یا مریض۔ (9) خوشی سے نکلو یا ناخوشی سے۔ (10) مالدار ہو یا فقیر۔ (11) فارغ ہو یا کسی کام میں مصروف، خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اور جن مسلمانوں کو جہاد کے لئے بلائیں تو انہیں جہاد میں جانا ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی حال میں ہوں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)
*حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا شوقِ جہاد:*
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ سورۂ توبہ کی تلاوت فرمائی ،جب اس آیت ’’اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا‘‘ پر پہنچے تو اپنے بیٹوں سے فرمایا ’’ میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو، میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو۔ ان کے بیٹوں نے عرض کی ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ غزوات میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وصالِ ظاہری ہو گیا، پھر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوئے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی،پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ شریکِ جہاد رہے حتّٰی کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا ، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد میں شریک ہو جائیں گے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ نہیں ، بس اب تم میرے سامانِ جہاد کی تیاری کرو ۔ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سمند ری جہاد میں شرکت کی اور سمند رہی میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات ہو گئی۔ سات دن بعد ان کے ساتھیوں کو تدفین کیلئے ایک جزیرہ ملا تو انہوں نے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تدفین کی۔ ان سات دنوں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بدن مبارک سلامت ہی رہا اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ ہوئی ۔ (تفسیر قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۶۶، الجزء الثامن)
*{وَ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔}* جہاد کی تین صورتیں ہیں ۔
(1)…جان اور مال دونوں کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو مال بھی رکھتا اور جہاد کے قابل تندرست و توانا جسم بھی رکھتا ہو۔
(2)…صرف جان کے ساتھ۔ یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے پاس مال نہ ہو لیکن جسمانی طور پرجہاد کے قابل ہو۔
(3)…صرف مال کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو جسمانی کمزوری، معذوری یا بیماری وغیرہ کے باعث جہاد میں شریک نہ ہو سکتا ہو لیکن مجاہدین کی مالی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۳۸، ملخصاً)
*مجاہدین کی مالی مدد کرنے کے دو فضائل:*
(1)…حضرت زید بن خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرے تو گویا اس نے خود جہاد کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں لڑنے والے کے گھر بار کی نیک نیتی سے خبر گیری کی تو وہ بھی خود جہاد کرنے والوں کی طرح ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل من جہّز غازیاً۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۷، الحدیث: ۲۸۴۳)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ غازی (مجاہد) کے لیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کے لیے اپنا ثواب ہے اور غازی کا ثواب ۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل، ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)
*طالبِ دعاابوعمر*
Forwarded from ✺ Bayanaat-O-Rasail ✺
*✺❀📙 ماہنامہ، بیانات و رسائل 📙❀✺*
*❀* الحمدللہ ب ہم آپ کے لیے اسلامک براڈکاسٹ کا آغاز کر رہے ہیں جس میں ان شاءاللہ عزوجل آپ کو یہ سب شیئر کیا جائے گا:
*✺... فتاوی اہلسنت*
*✺... ہفتہ وار بیانات*
*✺... احادیثِ مبارکہ*
*✺... حکایات و واقعات*
*✺... معلوماتی اطلاعات*
*✺... ماہنامہ فیضان مدینہ*
*✺... ہفتہ وار اور جدید رسائل*
*✺... معلوماتی تحریریں اور وظائف*
*❀ اہم نوٹ:*
آپ کو ہماری پوسٹ مسلسل گروپ کے ذریعے تب ہی موصول ہوگی جب تمام گروپ ایڈمنز کے واٹس اپ نمبرز آپ کے موبائل میں محفوظ (Save) ہونگے.
*❀ علم دین حاصل کیجیے اس سلسلہ کے کسی ایک گروپ میں خود بھی شرکت کیجیے اور اپنے دوست احباب کو دعوت بھی پیش کیجیے شکریہ*
📙Group①👇
https://chat.whatsapp.com/DqOgVAaxkfWDEMVgtIrWAr
📙Group②👇
https://chat.whatsapp.com/H4M347Mp5RUFQ4EQb3qT1d
📙Group③👇
https://chat.whatsapp.com/GfE1UojXRgAFrLT7Ex9zu8
📙Group④👇
https://chat.whatsapp.com/G8NaPB2pUtW7BxNRR3ZYoO
📙Group⑤👇
https://chat.whatsapp.com/EF3FNOBB8srBqLb0qzTk0q
*❀* الحمدللہ ب ہم آپ کے لیے اسلامک براڈکاسٹ کا آغاز کر رہے ہیں جس میں ان شاءاللہ عزوجل آپ کو یہ سب شیئر کیا جائے گا:
*✺... فتاوی اہلسنت*
*✺... ہفتہ وار بیانات*
*✺... احادیثِ مبارکہ*
*✺... حکایات و واقعات*
*✺... معلوماتی اطلاعات*
*✺... ماہنامہ فیضان مدینہ*
*✺... ہفتہ وار اور جدید رسائل*
*✺... معلوماتی تحریریں اور وظائف*
*❀ اہم نوٹ:*
آپ کو ہماری پوسٹ مسلسل گروپ کے ذریعے تب ہی موصول ہوگی جب تمام گروپ ایڈمنز کے واٹس اپ نمبرز آپ کے موبائل میں محفوظ (Save) ہونگے.
*❀ علم دین حاصل کیجیے اس سلسلہ کے کسی ایک گروپ میں خود بھی شرکت کیجیے اور اپنے دوست احباب کو دعوت بھی پیش کیجیے شکریہ*
📙Group①👇
https://chat.whatsapp.com/DqOgVAaxkfWDEMVgtIrWAr
📙Group②👇
https://chat.whatsapp.com/H4M347Mp5RUFQ4EQb3qT1d
📙Group③👇
https://chat.whatsapp.com/GfE1UojXRgAFrLT7Ex9zu8
📙Group④👇
https://chat.whatsapp.com/G8NaPB2pUtW7BxNRR3ZYoO
📙Group⑤👇
https://chat.whatsapp.com/EF3FNOBB8srBqLb0qzTk0q
WhatsApp.com
دارالرضاروحانی علاج پوسٹ5️⃣
WhatsApp Group Invite
🌹 *فیضانِ قرآن*🌹
جھوٹی قسم کھانا ہلاکت کا سبب ہے:
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَ لٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُؕ-وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْۚ-یُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْۚ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۠(۴۲)
ترجمہ
اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا اور درمیانہ سا سفر ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلتے لیکن مشقت والا سفر ان پر بہت دور پڑگیا اور اب اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ یہ اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یہ بیشک جھوٹے ہیں ۔
تفسیر
*{ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا:اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا۔}* یعنی تبوک کا میدان اگر قریب ہوتا اور غنیمت آرام سے مل جانے کی امید ہوتی تو یہ بہانے بنانے والے منافق ضرور ان مَنافع کے حصول کے لالچ میں جہاد میں شریک ہوجاتے لیکن دور کے سفر اور رومیوں سے جنگ کو عظیم جاننے کی وجہ سے یہ پیچھے رہ گئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)
*آیت’’لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:*
اس سے معلوم ہوا کہ دین میں ضروری مشقت سے گھبرانا اور اگرچہ فرض و واجب ترک ہوجائے لیکن صرف آسان کام ہی اختیار کرنا منافقوں کی علامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد میں منافقین بھی جاتے تھے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے نہیں بلکہ مالِ غنیمت کے لالچ میں جاتے تھے ۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع وہ چاہیے جو قلبی محبت کے ساتھ ہو، دنیاوی لالچ یا سزا کے خوف سے تو منافق بھی اتباع کر لیتے تھے۔ اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ: ’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (ال عمران:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
*اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ اتبا ع نصیب کرے۔آمین۔*
*{وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اوراب اللہ کی قسم کھائیں گے۔}* یعنی یہ منافقین اب اللہ تعالیٰ کی قسم کھائیں گے اور اس طرح معذرت کریں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)منافقین کی اس معذرت سے پہلے خبر دے دینا غیبی خبرہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی دلیل ہے چنانچہ جیسا فرمایا تھا ویسا ہی پیش آیا اور انہوں نے یہی معذرت کی اور جھوٹی قسمیں کھائیں۔
*جھوٹی قسم کھانا ہلاکت کا سبب ہے:*
اس آیت کے اگلے حصے سے ثابت ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا سببِ ہلاکت ہے۔ کثیر اَحادیث میں جھوٹی قسم کھانے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے دو اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر فرمائے گا۔ ایک شخص وہ جس نے کسی بیچنے کی چیز کے متعلق یہ قسم کھائی کہ جو کچھ اس کے دام مل رہے ہیں اس سے زیادہ ملتے تھے۔ (لیکن نہیں بیچا) حالانکہ یہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے ۔دوسرا وہ شخص کہ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائی تاکہ کسی مسلمان مرد کا مال لے لے اور تیسرا وہ شخص جس نے بچے ہوئے پانی کو روکا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج میں اپنا فضل تجھ سے روکتا ہوں جس طرح تونے بچے ہوئے پانی کو روکا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔( بخاری، کتاب المساقاۃ، باب من رأی انّ صاحب الحوض والقربۃ احقّ بمائہ، ۲ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۳۶۹)
(2)…حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے تکلیف دِہ عذاب ہوگا۔ حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، وہ نقصان اور خسارہ اٹھانے والے ہیں ، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کپڑا لٹکانے والا ،دے کر احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سودا چلا دینے والا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم اسبال الازار والمنّ بالعطیۃ۔۔۔ الخ، ص۶۷، الحدیث: (۱۰۶))
*طالبِ دعاابوعمر*
جھوٹی قسم کھانا ہلاکت کا سبب ہے:
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَ لٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُؕ-وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْۚ-یُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْۚ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۠(۴۲)
ترجمہ
اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا اور درمیانہ سا سفر ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلتے لیکن مشقت والا سفر ان پر بہت دور پڑگیا اور اب اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ یہ اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یہ بیشک جھوٹے ہیں ۔
تفسیر
*{ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا:اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا۔}* یعنی تبوک کا میدان اگر قریب ہوتا اور غنیمت آرام سے مل جانے کی امید ہوتی تو یہ بہانے بنانے والے منافق ضرور ان مَنافع کے حصول کے لالچ میں جہاد میں شریک ہوجاتے لیکن دور کے سفر اور رومیوں سے جنگ کو عظیم جاننے کی وجہ سے یہ پیچھے رہ گئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)
*آیت’’لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:*
اس سے معلوم ہوا کہ دین میں ضروری مشقت سے گھبرانا اور اگرچہ فرض و واجب ترک ہوجائے لیکن صرف آسان کام ہی اختیار کرنا منافقوں کی علامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد میں منافقین بھی جاتے تھے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے نہیں بلکہ مالِ غنیمت کے لالچ میں جاتے تھے ۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع وہ چاہیے جو قلبی محبت کے ساتھ ہو، دنیاوی لالچ یا سزا کے خوف سے تو منافق بھی اتباع کر لیتے تھے۔ اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ: ’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (ال عمران:۳۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
*اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ اتبا ع نصیب کرے۔آمین۔*
*{وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اوراب اللہ کی قسم کھائیں گے۔}* یعنی یہ منافقین اب اللہ تعالیٰ کی قسم کھائیں گے اور اس طرح معذرت کریں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)منافقین کی اس معذرت سے پہلے خبر دے دینا غیبی خبرہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی دلیل ہے چنانچہ جیسا فرمایا تھا ویسا ہی پیش آیا اور انہوں نے یہی معذرت کی اور جھوٹی قسمیں کھائیں۔
*جھوٹی قسم کھانا ہلاکت کا سبب ہے:*
اس آیت کے اگلے حصے سے ثابت ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا سببِ ہلاکت ہے۔ کثیر اَحادیث میں جھوٹی قسم کھانے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے دو اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر فرمائے گا۔ ایک شخص وہ جس نے کسی بیچنے کی چیز کے متعلق یہ قسم کھائی کہ جو کچھ اس کے دام مل رہے ہیں اس سے زیادہ ملتے تھے۔ (لیکن نہیں بیچا) حالانکہ یہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے ۔دوسرا وہ شخص کہ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائی تاکہ کسی مسلمان مرد کا مال لے لے اور تیسرا وہ شخص جس نے بچے ہوئے پانی کو روکا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج میں اپنا فضل تجھ سے روکتا ہوں جس طرح تونے بچے ہوئے پانی کو روکا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔( بخاری، کتاب المساقاۃ، باب من رأی انّ صاحب الحوض والقربۃ احقّ بمائہ، ۲ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۳۶۹)
(2)…حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے تکلیف دِہ عذاب ہوگا۔ حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، وہ نقصان اور خسارہ اٹھانے والے ہیں ، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کپڑا لٹکانے والا ،دے کر احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سودا چلا دینے والا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم اسبال الازار والمنّ بالعطیۃ۔۔۔ الخ، ص۶۷، الحدیث: (۱۰۶))
*طالبِ دعاابوعمر*
(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 4 جُون 2018ء) 29 سالہ سعودی خاوند اُس وقت دنگ رہ گیا‘ جب جان سے پیاری اُس کی بیوی طلاق لینے کے لیے عدالت پہنچ گئی۔ حیرت زدہ سعودی کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جب اُس نے اپنی بیوی کو خوش رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو پھر وہ طلاق لینے کے لیے اتنی بضِد کیوں ہے۔ خلع کا دعویٰ دائر کرنے والی خاتون نے اعتراف کیا کہ اُس کے خاوند نے کبھی اُس کی کوئی فرمائش رد نہیں کی مگر وہ اُس سے اس لیے طلاق لینا چاہتی ہے کیونکہ وہ مجھے اپنی ماں پر ترجیح دیتا ہے۔
خاتون نے جج سے کہا ’’میں کبھی ایسے شخص پر بھروسا نہیں کر سکتی جو اپنی بیوی کے لیے تو سب کچھ کرتا ہے مگر اپنی ماں کی ذرا سی بات بھی ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔‘‘ اس صورتِ حال سے پریشان خاوند نے جج سے کہا کہ وہ اپنی بیوی کو نہیں چھوڑنا چاہتا اور اُسے خوش رکھنے کے لیے سب کچھ کرے گا۔
مگر بیوی نے اُس کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔
خاتون نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ خاوند نے اُس پر بے شمار پیسے خرچ کیے ہیں‘ اُسے بیرونِ ملک سفر بھی کروائے‘ اور اُس کی خواہش کی ہر چیز بھی خرید کر دی‘ مگر وہ پھر بھی اُس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی کیونکہ ’’جس شخص کا سلوک اپنی ماں کے ساتھ اچھا نہیں ہے اُس پر کبھی بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ مستقبل میں کسی بھی وقت مجھ سے منہ موڑ سکتا ہے۔
‘‘ اس پر عدالت میں خاوند نے پُوچھا ’’کیا میں نے تمہاری خاطر اپنے گھر والوں کو نہیں چھوڑا؟‘‘ اس پر خاتون نے جواب دیا ’’ہاں‘ اور یہی وجہ ہے جو میں تم سے طلاق لینا چاہ رہی ہوں۔‘‘خاتون کا کہنا تھا کہ اُس کے خاوند نے جو کچھ بھی عدالت میں کہا وہ درست ہے‘ مگر اُس نے اپنے خاوند سے علیحدگی کا پکا ارادہ کر لیا ہے کیونکہ’’ اس نے مجھے اپنے پُورے خاندان پر ترجیح دی‘ حتیٰ کہ اپنی ماں پر بھی۔
‘‘ خاتون نے اس بات پر اصرار جاری رکھا کہ وہ اُس دِن کا انتظار نہیں کرے گی جب وہ (خاوند) مجھے اسی طرح چھوڑ دے گا جس طرح اس نے اپنی ماں کو چھوڑا تھا۔خاتون نے اپنے خاوند کی جانب سے دِیا گیا جہیز کا سامان واپس لوٹا دیاجس کے بعد جج نے طلاق واقع ہونے کا اعلان کر دِیا۔ جج کی جانب سے خاتون کے اس اصولی موقف کو بہت سراہا گیا اور کہا کہ خاتون کی جانب سے اس بات پر طلاق لینا کہ خاوند نے اپنی ماں کو بیوی کے مقابلے میں کم تر درجہ دے رکھا تھا‘ بہت عمدہ سوچ ہے۔
خاتون نے اس طریقے سے ایک مرد کو سبق سکھایا ہے کہ جو شخص کسی دُوسری عورت کے لیے اپنی ماں کو چھوڑ سکتا ہے‘ وہ کسی بھی طرح سے قابلِ بھروسا نہیں ہے۔جج نے مزید کہا کہ کچھ مردوں کا ماننا ہے کہ اپنی بیویوں کی اندھادُھند اطاعت اور اُن کے لیے سب کچھ کر گزرنے سے اُنہیں بیویوں کا دائمی پیار نصیب ہو سکتا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک مرد کو اپنے گھر والوں کو‘ خصوصاً اپنی ماں کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ مذکورہ مرد کی بیوی اس لیے خوش نہیں تھی کہ ماں جیسی جس عظیم ہستی نے اُس کے خاوند کو جنم دیا‘ پالا پوسا اور اُس کی خاطر ہراپنی زندگی کی ہر خوشی قربان کی‘ اُس ہستی پر اپنی بیوی کو مقدّم جانا۔سابقہ جوڑے کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
خاتون نے جج سے کہا ’’میں کبھی ایسے شخص پر بھروسا نہیں کر سکتی جو اپنی بیوی کے لیے تو سب کچھ کرتا ہے مگر اپنی ماں کی ذرا سی بات بھی ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔‘‘ اس صورتِ حال سے پریشان خاوند نے جج سے کہا کہ وہ اپنی بیوی کو نہیں چھوڑنا چاہتا اور اُسے خوش رکھنے کے لیے سب کچھ کرے گا۔
مگر بیوی نے اُس کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔
خاتون نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ خاوند نے اُس پر بے شمار پیسے خرچ کیے ہیں‘ اُسے بیرونِ ملک سفر بھی کروائے‘ اور اُس کی خواہش کی ہر چیز بھی خرید کر دی‘ مگر وہ پھر بھی اُس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی کیونکہ ’’جس شخص کا سلوک اپنی ماں کے ساتھ اچھا نہیں ہے اُس پر کبھی بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ مستقبل میں کسی بھی وقت مجھ سے منہ موڑ سکتا ہے۔
‘‘ اس پر عدالت میں خاوند نے پُوچھا ’’کیا میں نے تمہاری خاطر اپنے گھر والوں کو نہیں چھوڑا؟‘‘ اس پر خاتون نے جواب دیا ’’ہاں‘ اور یہی وجہ ہے جو میں تم سے طلاق لینا چاہ رہی ہوں۔‘‘خاتون کا کہنا تھا کہ اُس کے خاوند نے جو کچھ بھی عدالت میں کہا وہ درست ہے‘ مگر اُس نے اپنے خاوند سے علیحدگی کا پکا ارادہ کر لیا ہے کیونکہ’’ اس نے مجھے اپنے پُورے خاندان پر ترجیح دی‘ حتیٰ کہ اپنی ماں پر بھی۔
‘‘ خاتون نے اس بات پر اصرار جاری رکھا کہ وہ اُس دِن کا انتظار نہیں کرے گی جب وہ (خاوند) مجھے اسی طرح چھوڑ دے گا جس طرح اس نے اپنی ماں کو چھوڑا تھا۔خاتون نے اپنے خاوند کی جانب سے دِیا گیا جہیز کا سامان واپس لوٹا دیاجس کے بعد جج نے طلاق واقع ہونے کا اعلان کر دِیا۔ جج کی جانب سے خاتون کے اس اصولی موقف کو بہت سراہا گیا اور کہا کہ خاتون کی جانب سے اس بات پر طلاق لینا کہ خاوند نے اپنی ماں کو بیوی کے مقابلے میں کم تر درجہ دے رکھا تھا‘ بہت عمدہ سوچ ہے۔
خاتون نے اس طریقے سے ایک مرد کو سبق سکھایا ہے کہ جو شخص کسی دُوسری عورت کے لیے اپنی ماں کو چھوڑ سکتا ہے‘ وہ کسی بھی طرح سے قابلِ بھروسا نہیں ہے۔جج نے مزید کہا کہ کچھ مردوں کا ماننا ہے کہ اپنی بیویوں کی اندھادُھند اطاعت اور اُن کے لیے سب کچھ کر گزرنے سے اُنہیں بیویوں کا دائمی پیار نصیب ہو سکتا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک مرد کو اپنے گھر والوں کو‘ خصوصاً اپنی ماں کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ مذکورہ مرد کی بیوی اس لیے خوش نہیں تھی کہ ماں جیسی جس عظیم ہستی نے اُس کے خاوند کو جنم دیا‘ پالا پوسا اور اُس کی خاطر ہراپنی زندگی کی ہر خوشی قربان کی‘ اُس ہستی پر اپنی بیوی کو مقدّم جانا۔سابقہ جوڑے کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
پورا دن مدارس کے بچوں نے عید کی خوشیاں اور کھانوں کی فکر کیے بغیر رات گئے تک اپنے اپنے مدارس کے لیے کھالیں جمع کی تاکہ مدارس کے سالانہ اخراجات بآسانی چل سکیں۔۔۔*
*لیکن جب وہ کھالیں بیچنے گئے تو انکی قیمت سن کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ جس کھال کو اٹھانے کے لیے کپڑوں پر خون کے داغ لگوائے اس کھال کوبیچ کر تو کپڑے دھونے کا صرف بھی مشکل سے خریدا جاسکتا ہے۔۔۔۔*
*مدارس کے فنڈز پر کھربوں روپے کا ڈاکہ بھی تاصبح قیامت مدارس سے قال اللہ عزوجل اور قال رسول صلی علیہ وسلم کی صدائیں ختم نہی کروا سکتا ان تمام طلباء کا اجر عند اللہ انگنت ہے سلام ہے مدارس کے ان قیمتی نگینوں کو جن سے اس جہاں کی رونقیں آباد ہیں۔۔۔۔*
*تمام طلباء مدارس کو خصوصا عید مبارک۔۔۔۔*.
✍️
*لیکن جب وہ کھالیں بیچنے گئے تو انکی قیمت سن کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ جس کھال کو اٹھانے کے لیے کپڑوں پر خون کے داغ لگوائے اس کھال کوبیچ کر تو کپڑے دھونے کا صرف بھی مشکل سے خریدا جاسکتا ہے۔۔۔۔*
*مدارس کے فنڈز پر کھربوں روپے کا ڈاکہ بھی تاصبح قیامت مدارس سے قال اللہ عزوجل اور قال رسول صلی علیہ وسلم کی صدائیں ختم نہی کروا سکتا ان تمام طلباء کا اجر عند اللہ انگنت ہے سلام ہے مدارس کے ان قیمتی نگینوں کو جن سے اس جہاں کی رونقیں آباد ہیں۔۔۔۔*
*تمام طلباء مدارس کو خصوصا عید مبارک۔۔۔۔*.
✍️
🇵🇰 *جشن آزادی* 🇵🇰
اللہ پاک بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے سورۃ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:
*وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ(۴۹)*
ترجمہ: اور (یاد کرو)جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بہت برا عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔
معلوم ہوا کہ ظالم کے ظلم سے نجات ملنا، غلامی سے آزادی ملنا اللہ پاک کی نعمت ہے اور نعمت کا شکر ادا کرنے سے اس نعمت کی حفاظت ہوتی ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے جبکہ اس کی ناشکری کرنے سے اللہ پاک کا عذاب نازل ہوتا ہے، اللہ پاک سورہ ابراہیم میں ارشاد فرماتا ہے
*وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷)*
ترجمہ: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
نعمت کا شکر گانے بجا کر، فائرنگ کر کے، شور مچا کر نہیں ہوتا بلکہ ذکر و اذکار تسبیح و تہلیل نوافل و صدقہ وغیرہ کے ذریعے سے ہوتا ہے۔
اپنے ملک کی قدر کریں حکمرانوں کو ہر بات کا ذمہ دار ٹہرانے کے بجائے اپنے طور پر اصلاحی کام کیجئے، کچرہ گلیوں میں نہ پھینکیں، بجلی وغیرہ کا کنڈا نہ ڈالیں، ٹریفک نظام کی پابندی کریں،نہ رشوت لیں نہ دیں،جو قانون شریعت سے نہیں ٹکراتا اس پر لازما عمل کریں، یہ چیزیں بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔اللہ پاک ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے۔
🇵🇰 *یا خدا پاک وطن کی تو حفاظت فرما*
*فضل کر اس پہ سدا سایہ رحمت فرما*
*اس کو تو قلعہ اسلام بنادے یا رب!*
*میرے پیارے وطن پاک پہ رحمت فرما* 🇵🇰
✍🏻 *ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ*
*14 اگست 2019*
📱 *+92-321-2094919*
اللہ پاک بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے سورۃ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:
*وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ(۴۹)*
ترجمہ: اور (یاد کرو)جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بہت برا عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔
معلوم ہوا کہ ظالم کے ظلم سے نجات ملنا، غلامی سے آزادی ملنا اللہ پاک کی نعمت ہے اور نعمت کا شکر ادا کرنے سے اس نعمت کی حفاظت ہوتی ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے جبکہ اس کی ناشکری کرنے سے اللہ پاک کا عذاب نازل ہوتا ہے، اللہ پاک سورہ ابراہیم میں ارشاد فرماتا ہے
*وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷)*
ترجمہ: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
نعمت کا شکر گانے بجا کر، فائرنگ کر کے، شور مچا کر نہیں ہوتا بلکہ ذکر و اذکار تسبیح و تہلیل نوافل و صدقہ وغیرہ کے ذریعے سے ہوتا ہے۔
اپنے ملک کی قدر کریں حکمرانوں کو ہر بات کا ذمہ دار ٹہرانے کے بجائے اپنے طور پر اصلاحی کام کیجئے، کچرہ گلیوں میں نہ پھینکیں، بجلی وغیرہ کا کنڈا نہ ڈالیں، ٹریفک نظام کی پابندی کریں،نہ رشوت لیں نہ دیں،جو قانون شریعت سے نہیں ٹکراتا اس پر لازما عمل کریں، یہ چیزیں بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔اللہ پاک ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے۔
🇵🇰 *یا خدا پاک وطن کی تو حفاظت فرما*
*فضل کر اس پہ سدا سایہ رحمت فرما*
*اس کو تو قلعہ اسلام بنادے یا رب!*
*میرے پیارے وطن پاک پہ رحمت فرما* 🇵🇰
✍🏻 *ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ*
*14 اگست 2019*
📱 *+92-321-2094919*
#جیو_پولیٹیکل_اور_سیکیورٹی_سیناریو_آف_ریاست_کشمیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر پاکستانی کو یہ حقائق جاننا بہت ضروری ہیں۔۔۔۔
کشمیر کی اصل کہانی
تاریخی اعتبار سے ریاست کشمیر جموں، لداخ، وادی کشمیر سے لے کر گلگت بلتستان تک کے علاقوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ پھر 1948 میں قبائلیوں اور پاک فوج نے مل کر گلگت بلتستان اور وادی کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرا لیا۔ بعد میں 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد کچھ حصہ چین کے پاس چلا گیا جسے پاکستان کے ساتھ چین کی بارڈر سیٹلمنٹ معاہدے کی وجہ سے اسے آپ پاکستان کا حصہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ریاست کشمیر کا مجموعی رقبہ 86 ہزار مربع میل سے کچھ کم ہے اور اسے رقبے کے اعتبار سے آپ مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
پاکستان 30 ہزار مربع میل سے کچھ زیادہ کا رقبہ کنٹرول کرتا ہے،
چین ساڑھے 16 ہزار مربع میل پر کنٹرول رکھتا ہے جسے وہ پاکستان کے ساتھ بارڈر سیٹلمنٹ معاہدے کے ساتھ شئیر کرتا ہے۔
اور بھارت کے پاس تقریباً چالیس ہزار مربع میل کا رقبہ ہے۔
یوں انڈیا کے پاس تقریباً 47 فیصد جبکہ پاکستان کے پاس تقریباً 35 فیصد ڈائریکٹ اور مزید 19 فیصد ان ڈائریکٹ حصے کا کنٹرول ہے جو کہ کل ملا کر 53 فیصد بنتا ہے۔
اب آجائیں بھارت کے زیرتسلط کشمیر پر۔
جموں، وادی اور لداخ پر مشتمل اس حصے کی مجموعی سوا کروڑ آبادی کا 67 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، 30 فیصد ہندوؤں پر اور باقی سکھوں اور بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔
اس میں مزید نیچے جائیں تو وادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جو کہ 90 فیصد سے زائد بنتی ہے،
جموں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے،
اور لداخ میں ویسے تو شیعوں کی تعداد 46 فیصد ہے جو کہ اکثریت ہے لیکن وہاں سکھوں اور بدھ مت کو ملا کر ان اکثریت دکھا دی جاتی ہے اور یہی وہ وہ نکتہ ہے جو پاکستان کی اگلی سٹریٹیجی کی بنیاد ہے۔
یہ تو آپ سب جان ہی چکے ہیں کہ تقسیم کے وقت بھارت نے آرٹیکل 370 کے ذریعے ریاست کشمیر کو آزاد حیثیت دیتے ہوئے اپنے ساتھ شامل ہونے کیلئے رضامند کرلیا تھا اور گزشتہ روز آرٹیکل ختم کرکے باضابطہ طور پر جموں و کشمیر اور لداخ کو دو علیحدہ یونٹس میں تقسیم کرکے اپنا حصہ بنا لیا۔
اس سے بظاہر زمینی صورتحال تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ انڈیا پہلے ہی وہاں پر قابض ہے، صرف یہی ایک اضافہ ہوا ہے کہ اب عام بھارتیوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت مل گئی جو کہ پہلے نہیں تھی۔ اس سے آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگلے چند سالوں میں وہاں ہندوؤں کی آبادی بڑھنے کا امکان ہے۔
عمران خان کے امریکی دورے کے موقع پر ٹرمپ نے اچانک یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے اور یہ بات مودی نے خود اسے کال کرکے کہی تھی۔ عمران خان نے اسے ویلکم کیا لیکن مودی نے اپنی شرمندگی چھپانے کیلئے اس کی تردید کردی جس کے جواب میں ٹرمپ کے ترجمان نے واشگاف الفاظ میں دہرایا کہ ٹرمپ کو غلط بیانی کی عادت نہیں، اس نے وہی کہا جو مودی نے اپنی درخواست میں کہا تھا۔
مودی کی درخواست کے خدوخال کچھ یوں تھے:
پاکستان گلگت اور بلتستان کو اپنا حصہ بنا لے،
بھارت ہندو اکثریت والے علاقے جموں کو اپنا حصہ بنا لے،
اس کے ساتھ ساتھ لداخ جہاں غیر مسلم اکثریت میں ہیں، وہ بھی انڈیا کے پاس چلا جائے،
پیچھے بچے آزاد کشمیر اور سری نگر - یا تو آزاد کشمیر پاکستان اور سری نگر انڈیا لے جائے، یا پھر ان دونوں کو اکٹھا کرکے ایک کنٹرولڈ سٹیٹ بنا دی جائے جس کا سرحدی اختیار بھارتی فوج کے پاس ہو تاکہ وہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا سکے۔
اس منصوبے کی آؤٹ لائن پاکستان کو بہت پہلے دی جا چکی تھی جو کہ ہم نے چپ چاپ سائیڈ پر رکھ دی تھی کیونکہ اب یہی نظر آرہا تھا کہ بھارت کمزور پڑ رہا ہے۔
امریکہ میں جب یہ منصوبہ دوبارہ شئیر کیا گیا تو عمران خان نے اس کے آخری حصے کو مسترد کرتے ہوئے کہ اگر آزاد کشمیر اور سری نگر پر مشتمل ایک ریاست بنتی ہے تو یہ مکمل آزاد ہوگی اور اس میں مسلم ممالک کی فوج موجود رہے گی جو کہ بھارت کو سرحدی تحفظ کی ضمانت دے گی۔
عمران خان نے دوسرا اعتراض لداخ پر کیا کیونکہ وہاں مسلم شیعہ آبادی کی دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اکثریت ہے، چنانچہ لداخ بھی سری نگر، مظفرآباد کا حصہ بنا کر آزاد کیا جائے۔
یہ تجویز بھارت کو پسند نہ آئی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اپنے امریکی دورے کے آخری دن جب عمران خان تھنک ٹینک کے پروگرام میں شرکت کی تو ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ شیعوں میں جہاد اور شہادت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔
آپ کے خیال میں عمران خان نے یہ بات ایران کے حوالے سے کی تھی؟ ہرگز نہیں۔ خان نے یہ بات بالواسطہ طور پر امریکیوں سے کہی تھی کہ لداخ کو اگر بھارت کا حصہ بنایا گیا تو وہاں کی شیعہ آبادی کی تحریک اسی طرح جاری رہے گی جس طرح کشمیر میں مجموعی تحریک چل رہی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کو یہ نکتہ پوری طرح سمجھ آگیا تھا اور اسی لئے انہوں نے بھارت کو بھی یہی پٹی پڑھائی۔ بھارت آرٹیکل 370 ک
کشمیر کی اصل کہانی
تاریخی اعتبار سے ریاست کشمیر جموں، لداخ، وادی کشمیر سے لے کر گلگت بلتستان تک کے علاقوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ پھر 1948 میں قبائلیوں اور پاک فوج نے مل کر گلگت بلتستان اور وادی کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرا لیا۔ بعد میں 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد کچھ حصہ چین کے پاس چلا گیا جسے پاکستان کے ساتھ چین کی بارڈر سیٹلمنٹ معاہدے کی وجہ سے اسے آپ پاکستان کا حصہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ریاست کشمیر کا مجموعی رقبہ 86 ہزار مربع میل سے کچھ کم ہے اور اسے رقبے کے اعتبار سے آپ مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
پاکستان 30 ہزار مربع میل سے کچھ زیادہ کا رقبہ کنٹرول کرتا ہے،
چین ساڑھے 16 ہزار مربع میل پر کنٹرول رکھتا ہے جسے وہ پاکستان کے ساتھ بارڈر سیٹلمنٹ معاہدے کے ساتھ شئیر کرتا ہے۔
اور بھارت کے پاس تقریباً چالیس ہزار مربع میل کا رقبہ ہے۔
یوں انڈیا کے پاس تقریباً 47 فیصد جبکہ پاکستان کے پاس تقریباً 35 فیصد ڈائریکٹ اور مزید 19 فیصد ان ڈائریکٹ حصے کا کنٹرول ہے جو کہ کل ملا کر 53 فیصد بنتا ہے۔
اب آجائیں بھارت کے زیرتسلط کشمیر پر۔
جموں، وادی اور لداخ پر مشتمل اس حصے کی مجموعی سوا کروڑ آبادی کا 67 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، 30 فیصد ہندوؤں پر اور باقی سکھوں اور بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔
اس میں مزید نیچے جائیں تو وادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جو کہ 90 فیصد سے زائد بنتی ہے،
جموں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے،
اور لداخ میں ویسے تو شیعوں کی تعداد 46 فیصد ہے جو کہ اکثریت ہے لیکن وہاں سکھوں اور بدھ مت کو ملا کر ان اکثریت دکھا دی جاتی ہے اور یہی وہ وہ نکتہ ہے جو پاکستان کی اگلی سٹریٹیجی کی بنیاد ہے۔
یہ تو آپ سب جان ہی چکے ہیں کہ تقسیم کے وقت بھارت نے آرٹیکل 370 کے ذریعے ریاست کشمیر کو آزاد حیثیت دیتے ہوئے اپنے ساتھ شامل ہونے کیلئے رضامند کرلیا تھا اور گزشتہ روز آرٹیکل ختم کرکے باضابطہ طور پر جموں و کشمیر اور لداخ کو دو علیحدہ یونٹس میں تقسیم کرکے اپنا حصہ بنا لیا۔
اس سے بظاہر زمینی صورتحال تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ انڈیا پہلے ہی وہاں پر قابض ہے، صرف یہی ایک اضافہ ہوا ہے کہ اب عام بھارتیوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت مل گئی جو کہ پہلے نہیں تھی۔ اس سے آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگلے چند سالوں میں وہاں ہندوؤں کی آبادی بڑھنے کا امکان ہے۔
عمران خان کے امریکی دورے کے موقع پر ٹرمپ نے اچانک یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے اور یہ بات مودی نے خود اسے کال کرکے کہی تھی۔ عمران خان نے اسے ویلکم کیا لیکن مودی نے اپنی شرمندگی چھپانے کیلئے اس کی تردید کردی جس کے جواب میں ٹرمپ کے ترجمان نے واشگاف الفاظ میں دہرایا کہ ٹرمپ کو غلط بیانی کی عادت نہیں، اس نے وہی کہا جو مودی نے اپنی درخواست میں کہا تھا۔
مودی کی درخواست کے خدوخال کچھ یوں تھے:
پاکستان گلگت اور بلتستان کو اپنا حصہ بنا لے،
بھارت ہندو اکثریت والے علاقے جموں کو اپنا حصہ بنا لے،
اس کے ساتھ ساتھ لداخ جہاں غیر مسلم اکثریت میں ہیں، وہ بھی انڈیا کے پاس چلا جائے،
پیچھے بچے آزاد کشمیر اور سری نگر - یا تو آزاد کشمیر پاکستان اور سری نگر انڈیا لے جائے، یا پھر ان دونوں کو اکٹھا کرکے ایک کنٹرولڈ سٹیٹ بنا دی جائے جس کا سرحدی اختیار بھارتی فوج کے پاس ہو تاکہ وہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا سکے۔
اس منصوبے کی آؤٹ لائن پاکستان کو بہت پہلے دی جا چکی تھی جو کہ ہم نے چپ چاپ سائیڈ پر رکھ دی تھی کیونکہ اب یہی نظر آرہا تھا کہ بھارت کمزور پڑ رہا ہے۔
امریکہ میں جب یہ منصوبہ دوبارہ شئیر کیا گیا تو عمران خان نے اس کے آخری حصے کو مسترد کرتے ہوئے کہ اگر آزاد کشمیر اور سری نگر پر مشتمل ایک ریاست بنتی ہے تو یہ مکمل آزاد ہوگی اور اس میں مسلم ممالک کی فوج موجود رہے گی جو کہ بھارت کو سرحدی تحفظ کی ضمانت دے گی۔
عمران خان نے دوسرا اعتراض لداخ پر کیا کیونکہ وہاں مسلم شیعہ آبادی کی دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اکثریت ہے، چنانچہ لداخ بھی سری نگر، مظفرآباد کا حصہ بنا کر آزاد کیا جائے۔
یہ تجویز بھارت کو پسند نہ آئی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اپنے امریکی دورے کے آخری دن جب عمران خان تھنک ٹینک کے پروگرام میں شرکت کی تو ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ شیعوں میں جہاد اور شہادت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔
آپ کے خیال میں عمران خان نے یہ بات ایران کے حوالے سے کی تھی؟ ہرگز نہیں۔ خان نے یہ بات بالواسطہ طور پر امریکیوں سے کہی تھی کہ لداخ کو اگر بھارت کا حصہ بنایا گیا تو وہاں کی شیعہ آبادی کی تحریک اسی طرح جاری رہے گی جس طرح کشمیر میں مجموعی تحریک چل رہی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کو یہ نکتہ پوری طرح سمجھ آگیا تھا اور اسی لئے انہوں نے بھارت کو بھی یہی پٹی پڑھائی۔ بھارت آرٹیکل 370 ک
و ختم کرنے کے چکر میں ایک بنیادی غلطی کرچکا ہے۔ اس نے جموں و کشمیر کو ایک یونٹ اور لداخ کو دوسرا یونٹ بنا دیا ہے۔ اب یا تو اسے ان تینوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، یا پھر انتظامی طور پر وادی اور لداخ کو علیحدہ کرکے جموں اس میں سے نکال کر اپنا حصہ بنانا ہوگا۔ بھارت کی پلاننگ یہ تھی کہ لداخ تو پہلے ہی اس کے پاس آجائے گا، نیگوشی ایٹ کرنے کے بعد وہ جموں کے بہانے وادی بھی ہتھیا لے گا۔ عمران خان نے شیعہ جہادی عنصر کی بات کرکے واضح اشارہ دے دیا کہ بھارت کی ابھی جان نہیں چھوٹنے والی۔
اب آجائیں پاکستان کی سٹریٹیجی کی طرف۔
پچھلے ستر برسوں میں ہم انڈیا کو کھینچ کھانچ کر اس مقام پر لے آئے ہیں کہ اب وہ اپنے کشمیر کا تصفیہ کرنا چاہتا ہے۔ ریاست کشمیر کا 53 فیصد تو اللہ کی مہربانی سے پہلے ہی ہمارے کنڑول میں ہے، اب ہم وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ بھی لینا چاہتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں وادی آزاد ہوگی جو کہ اللہ کی مہربانی سے پوری امید ہے کہ جلد ہی ہونے جارہی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن ہم اسی پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اگلے مرحلے میں لداخ مانگیں گے، نہ ملنے کی صورت میں وہی کچھ دوبارہ ہوگا جو پچھلے ستر برس میں ہوتا آیا۔
جس طرح روس جیسے طاقتورملک کا کئی حصوں میں بٹوارا ہوگیا، اگلے برسوں میں بھارت کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا، بشرطیکہ وہ خود ان علاقوں پر اپنا تسلط ختم نہیں کردیتا۔
پاکستانی قوم تسلی رکھے اور اپنی قیادت پر اعتماد رکھے۔ فوج تو کشمیر کے معاملے میں 1948 میں بھی پیچھے نہیں ہٹی تھی جب اس کے پاس وسائل نہ تھے، اب تو اللہ کا کرم ہے، نہ اسلحے کی کمی ہے اور نہ ایٹیمی مواد کی۔
اس کے ثمرات انشا اللہ آپ اگلے تین سے چار برسوں میں دیکھنا شروع ہوجائیں گے!!
اب آجائیں پاکستان کی سٹریٹیجی کی طرف۔
پچھلے ستر برسوں میں ہم انڈیا کو کھینچ کھانچ کر اس مقام پر لے آئے ہیں کہ اب وہ اپنے کشمیر کا تصفیہ کرنا چاہتا ہے۔ ریاست کشمیر کا 53 فیصد تو اللہ کی مہربانی سے پہلے ہی ہمارے کنڑول میں ہے، اب ہم وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ بھی لینا چاہتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں وادی آزاد ہوگی جو کہ اللہ کی مہربانی سے پوری امید ہے کہ جلد ہی ہونے جارہی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن ہم اسی پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اگلے مرحلے میں لداخ مانگیں گے، نہ ملنے کی صورت میں وہی کچھ دوبارہ ہوگا جو پچھلے ستر برس میں ہوتا آیا۔
جس طرح روس جیسے طاقتورملک کا کئی حصوں میں بٹوارا ہوگیا، اگلے برسوں میں بھارت کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا، بشرطیکہ وہ خود ان علاقوں پر اپنا تسلط ختم نہیں کردیتا۔
پاکستانی قوم تسلی رکھے اور اپنی قیادت پر اعتماد رکھے۔ فوج تو کشمیر کے معاملے میں 1948 میں بھی پیچھے نہیں ہٹی تھی جب اس کے پاس وسائل نہ تھے، اب تو اللہ کا کرم ہے، نہ اسلحے کی کمی ہے اور نہ ایٹیمی مواد کی۔
اس کے ثمرات انشا اللہ آپ اگلے تین سے چار برسوں میں دیکھنا شروع ہوجائیں گے!!
100 کاروباروں کی فہرست.
☘استاد محترم قاری لقمان شاہد صاحب
1: کپڑے کا کاروبار
2: دودھ ، دہی کاکاروبار
3: ہوٹل ، ریسٹورنٹ
4: بچوں کے کھلونے
5: برتنوں کا کاروبار
6: کتابوں کی تجارت
7: الیکٹرونکس کا کاروبار
8: موبائل کا کاروبار
9: مختلف علوم کی ٹیویشن
10: ڈیزائنگ ، گرافکس
11: فرنیچر کا کاروبار
☘ محترم بلال نظامی صاحب
12:زرعی پیداوار کی خرید و فروخت ,,,
جس چیز کی جہاں فراوانی ہو وہاں سے خرید کر ,, دوسرے مقام پر جہاں اسکی ضرورت مجسوس کی جاتی ہو وہاں فروخت کردی جائے .
☘ شکیل احمد نوری
13:پرندوں کی پرورش یا پرندوں کی تجارت. ہو سکے تو دونوں. اس میں بہت سی ورائٹیز ہیں.
14؛ شترمرغ فارمنگ
15: ہربل میڈیسن
16؛ کهمبی کی کاشت
☘زبیر بهائی
17ردی بھنگار کا کاروبار
18. پرچون مصالحہ جات
19- جنرل اسٹور
20. اسکول اسٹیشنری
21؛ چپل جوتوں کی دکان
22. آئس کریم شاپ
23. عطر، لوبان، اگربتی
24 پان کی دکان
25. پان سے متعلق سامان کی دکان
26 مچھلیاں
27 مرغیاں
28. مچھلیاں شوقیہ پالنے والی
29 مچھلی فرائی کرکے بیچنا
30 نیوز پیپر اسٹال
31؛پانی . منرل واٹر
☘ محمد محسن رضا قادری:
32. ماربل ،گرینائٹ
33 ٹائلس
34 سانیٹری
35 ہارڈویئر
36 بیکری
37 ریئل اسٹیٹ، پلاٹ، زرعی اراضی کی بیع و فروخت
☘ خواجه محمدالعابدين (اميرخسرو):
38 عینک کی دکان.
39 گھڑی فروشی اور مرمت.
40 زیراکس اور موبائل ریچارج.
41 آن لائن فارم بھرنا، اور ٹکٹس بکنگ.
42 ہوم نیڈس. جیسے صاف صفائی کے جدید آلات وغیرہ.
☘ عبدالرزاق عطاری
43) امپورٹ ایکسپورٹ
44)مینوفیکچررینگ
45)گارمینٹس
46)فرینچائیزی
47)مینپاورسپلائے.
48 کیٹرینگ
49)جوئن وینچر
50 لیبرسپلائے
51)انٹرپرینرشیپ
52)اسکول اور ٹیوشنس
53)اسپتال
54)اسلامک بینک
55) فرنیچر
56)امیٹیشن زیور
57)گلاس کروکری
58)مارکیٹینگ
59)ہال
60)ڈیکوریشن
61) نیو اورجونی بائک کار سپلایر
62:فولڈ ایبل فرنیچر
63)کمپیوٹر اور اےسی Aanual mantainance contract
64) پرینٹینگ پریس
65) ویبسائٹ ڈیسائنگ
66)ھوڑڈئنگ اور بوڑڈنگ ورک
67) الومینم سلائڈنگ ورک
68) گریل فیبریکیشن
69) ایپس ڈیلوپنگ
70) پیکیپ ڈراپ کونٹریکٹ(اسکول,آفسیس)
71)لیدر ورک ( بیگ,بیلٹ,جیکِٹ وغیرہ)
72) کوریر سرویسیس
73 ٹائر ریمونڈینگ ,سیل ,وِیل بیلینسینگ, الا ئنگمینٹ, پنچر سرویسیس
74 ٹِیفِنس سرویس(بیسی کا کھانا)
75 شوپنگ مال
76 جیوس سینٹر
77 کسٹم کلیرینگ
78 لیبارٹری
79 ٹمبر مارٹ.
80: رڈیمیڈ مسالوں کا کاروبار (..مسالہ اتنا ریڈی میڈ ہو کہ پانی اور گوشت تیل کے علاوہ تمام ضرورت کو پورا کردے.)
81: کسی بھی مشہور پروڈکٹ کی ایجنسی (جیسے بسلیری وغیرہ جس کی مارکیٹینگ نہ کرنا پڑے لوگ ڈھنونڈ کر آئے )
82: زری، آری، دردوزی گارمیننٹس کا را (raw material) سپلائے.( ویرائٹی اتنی ہو کے کالے کلر میں بھی 12 شیڈ کے دھاگے ہو آپ کی دکان میں.کوئی واپس نہ جائے.)
83: پیکنگ انڈسٹری (,attractive printed paper bag,cartoon & box )
84: پیکر اینڈ مور سرویسیس (زمین کے علاوہ ہر چیز شفٹ کرنے کی گیرنٹی...)
85: ایمبو لینس
86: فیٹنیس سینٹر ( aerobic,special bath facility, latest machine) جان ہے تو جہان ہے.کچھ دنوں کا جزبہ اگلے ہفتے نیو ایڈمیشن....
87:ایڈورٹائسمیینٹ ایجنسی( 3D بینر، بلون، ) unique ideas کے ساتھ.
88:ٹاوینگ وین.( بڑی شو روم کی گاڑیاں ایکسیڈینٹ یا خراب ہونے پر پرائیویٹ ٹوچن والوں کو ہی بلایا جاتا ہے 1800 سے بھاڑا شروع ہوتا ہے جیسا گراہک ویسی پڑی.ساتھ میں ٹرافیک چوکی میں بھی کافی کام ہے.بس آفیسر سیٹ بزنیس سیٹ...
89 ویکیشن ٹور: ایک رات دو دن.وغیرہ.weekend میں لوگ شہر سے باہر جاکر فرسٹریشن نکالتے ہیں .صرف ایک بار بس ، ہوٹل سب سے سیٹینگ .ان کو کسٹمر اور آپ کو بزنیس مل جاتا ہے.
90:کنسلٹینسی سرویس:( جس میں آپ کو مہارت ہو.)
91:آٹو سرویس
☘ فرحان قادری
92.مختلف ڈیپارٹمنٹل اشیا کی سیلز مین کا کام جیسا کہ ٹافی ٹکیاں پاپر چپس..
93 بیکری کی اشیا کی ڈلیوری شاپ ٹو شاپ.
94.موٹرسائیکل سپیر پارٹس کی دوکان.
دوکان کے بغیر سپیر پارٹس کی سپلائی.
95.انڈوں کا کاروبار ان کی سپلائی
96:چوزوں کی سپلائی کا کاروبار
97:پلاسٹک کے برتن بنانے کا کارخانہ
98:جس نے آی ٹی کی ہو اس کے لیے سب بیسٹ انٹرنیشنل سطح پر کاروباری لوگوں کے لیے موبائلز سافٹ وییرز بنانا....
* اسی طرح کسی سافٹ وییر کو پلے سٹور پر یا پھر آی او ایس میں شامل کروانا مع قیمت...... یعنی سافٹویئر ڈویلپر
☘ Riyaz Shaikh:
99. منگ، تور، مٹر، چولی، چنا، کسان سے ٹھوک بھاؤ میں خرید کر مشین سے دال بنا کر پالیس کر کے بازار میں خوبصورت پیکیج بناکر فروخت کیا جائے.
☘ اظہر قریشی
100 چشموں کا کاروبار
فینسی سنگلاسیس اور نمبر والے فریم بنا نمبر لینس کے
آن لائن بھی فروخت کر سکتے ہے
ساتھ ہی بیلٹ, وائلٹ, لیڈیس پرس اور فیشن سے جڑی بہت سی اشیاء
☘استاد محترم قاری لقمان شاہد صاحب
1: کپڑے کا کاروبار
2: دودھ ، دہی کاکاروبار
3: ہوٹل ، ریسٹورنٹ
4: بچوں کے کھلونے
5: برتنوں کا کاروبار
6: کتابوں کی تجارت
7: الیکٹرونکس کا کاروبار
8: موبائل کا کاروبار
9: مختلف علوم کی ٹیویشن
10: ڈیزائنگ ، گرافکس
11: فرنیچر کا کاروبار
☘ محترم بلال نظامی صاحب
12:زرعی پیداوار کی خرید و فروخت ,,,
جس چیز کی جہاں فراوانی ہو وہاں سے خرید کر ,, دوسرے مقام پر جہاں اسکی ضرورت مجسوس کی جاتی ہو وہاں فروخت کردی جائے .
☘ شکیل احمد نوری
13:پرندوں کی پرورش یا پرندوں کی تجارت. ہو سکے تو دونوں. اس میں بہت سی ورائٹیز ہیں.
14؛ شترمرغ فارمنگ
15: ہربل میڈیسن
16؛ کهمبی کی کاشت
☘زبیر بهائی
17ردی بھنگار کا کاروبار
18. پرچون مصالحہ جات
19- جنرل اسٹور
20. اسکول اسٹیشنری
21؛ چپل جوتوں کی دکان
22. آئس کریم شاپ
23. عطر، لوبان، اگربتی
24 پان کی دکان
25. پان سے متعلق سامان کی دکان
26 مچھلیاں
27 مرغیاں
28. مچھلیاں شوقیہ پالنے والی
29 مچھلی فرائی کرکے بیچنا
30 نیوز پیپر اسٹال
31؛پانی . منرل واٹر
☘ محمد محسن رضا قادری:
32. ماربل ،گرینائٹ
33 ٹائلس
34 سانیٹری
35 ہارڈویئر
36 بیکری
37 ریئل اسٹیٹ، پلاٹ، زرعی اراضی کی بیع و فروخت
☘ خواجه محمدالعابدين (اميرخسرو):
38 عینک کی دکان.
39 گھڑی فروشی اور مرمت.
40 زیراکس اور موبائل ریچارج.
41 آن لائن فارم بھرنا، اور ٹکٹس بکنگ.
42 ہوم نیڈس. جیسے صاف صفائی کے جدید آلات وغیرہ.
☘ عبدالرزاق عطاری
43) امپورٹ ایکسپورٹ
44)مینوفیکچررینگ
45)گارمینٹس
46)فرینچائیزی
47)مینپاورسپلائے.
48 کیٹرینگ
49)جوئن وینچر
50 لیبرسپلائے
51)انٹرپرینرشیپ
52)اسکول اور ٹیوشنس
53)اسپتال
54)اسلامک بینک
55) فرنیچر
56)امیٹیشن زیور
57)گلاس کروکری
58)مارکیٹینگ
59)ہال
60)ڈیکوریشن
61) نیو اورجونی بائک کار سپلایر
62:فولڈ ایبل فرنیچر
63)کمپیوٹر اور اےسی Aanual mantainance contract
64) پرینٹینگ پریس
65) ویبسائٹ ڈیسائنگ
66)ھوڑڈئنگ اور بوڑڈنگ ورک
67) الومینم سلائڈنگ ورک
68) گریل فیبریکیشن
69) ایپس ڈیلوپنگ
70) پیکیپ ڈراپ کونٹریکٹ(اسکول,آفسیس)
71)لیدر ورک ( بیگ,بیلٹ,جیکِٹ وغیرہ)
72) کوریر سرویسیس
73 ٹائر ریمونڈینگ ,سیل ,وِیل بیلینسینگ, الا ئنگمینٹ, پنچر سرویسیس
74 ٹِیفِنس سرویس(بیسی کا کھانا)
75 شوپنگ مال
76 جیوس سینٹر
77 کسٹم کلیرینگ
78 لیبارٹری
79 ٹمبر مارٹ.
80: رڈیمیڈ مسالوں کا کاروبار (..مسالہ اتنا ریڈی میڈ ہو کہ پانی اور گوشت تیل کے علاوہ تمام ضرورت کو پورا کردے.)
81: کسی بھی مشہور پروڈکٹ کی ایجنسی (جیسے بسلیری وغیرہ جس کی مارکیٹینگ نہ کرنا پڑے لوگ ڈھنونڈ کر آئے )
82: زری، آری، دردوزی گارمیننٹس کا را (raw material) سپلائے.( ویرائٹی اتنی ہو کے کالے کلر میں بھی 12 شیڈ کے دھاگے ہو آپ کی دکان میں.کوئی واپس نہ جائے.)
83: پیکنگ انڈسٹری (,attractive printed paper bag,cartoon & box )
84: پیکر اینڈ مور سرویسیس (زمین کے علاوہ ہر چیز شفٹ کرنے کی گیرنٹی...)
85: ایمبو لینس
86: فیٹنیس سینٹر ( aerobic,special bath facility, latest machine) جان ہے تو جہان ہے.کچھ دنوں کا جزبہ اگلے ہفتے نیو ایڈمیشن....
87:ایڈورٹائسمیینٹ ایجنسی( 3D بینر، بلون، ) unique ideas کے ساتھ.
88:ٹاوینگ وین.( بڑی شو روم کی گاڑیاں ایکسیڈینٹ یا خراب ہونے پر پرائیویٹ ٹوچن والوں کو ہی بلایا جاتا ہے 1800 سے بھاڑا شروع ہوتا ہے جیسا گراہک ویسی پڑی.ساتھ میں ٹرافیک چوکی میں بھی کافی کام ہے.بس آفیسر سیٹ بزنیس سیٹ...
89 ویکیشن ٹور: ایک رات دو دن.وغیرہ.weekend میں لوگ شہر سے باہر جاکر فرسٹریشن نکالتے ہیں .صرف ایک بار بس ، ہوٹل سب سے سیٹینگ .ان کو کسٹمر اور آپ کو بزنیس مل جاتا ہے.
90:کنسلٹینسی سرویس:( جس میں آپ کو مہارت ہو.)
91:آٹو سرویس
☘ فرحان قادری
92.مختلف ڈیپارٹمنٹل اشیا کی سیلز مین کا کام جیسا کہ ٹافی ٹکیاں پاپر چپس..
93 بیکری کی اشیا کی ڈلیوری شاپ ٹو شاپ.
94.موٹرسائیکل سپیر پارٹس کی دوکان.
دوکان کے بغیر سپیر پارٹس کی سپلائی.
95.انڈوں کا کاروبار ان کی سپلائی
96:چوزوں کی سپلائی کا کاروبار
97:پلاسٹک کے برتن بنانے کا کارخانہ
98:جس نے آی ٹی کی ہو اس کے لیے سب بیسٹ انٹرنیشنل سطح پر کاروباری لوگوں کے لیے موبائلز سافٹ وییرز بنانا....
* اسی طرح کسی سافٹ وییر کو پلے سٹور پر یا پھر آی او ایس میں شامل کروانا مع قیمت...... یعنی سافٹویئر ڈویلپر
☘ Riyaz Shaikh:
99. منگ، تور، مٹر، چولی، چنا، کسان سے ٹھوک بھاؤ میں خرید کر مشین سے دال بنا کر پالیس کر کے بازار میں خوبصورت پیکیج بناکر فروخت کیا جائے.
☘ اظہر قریشی
100 چشموں کا کاروبار
فینسی سنگلاسیس اور نمبر والے فریم بنا نمبر لینس کے
آن لائن بھی فروخت کر سکتے ہے
ساتھ ہی بیلٹ, وائلٹ, لیڈیس پرس اور فیشن سے جڑی بہت سی اشیاء
*تنخواہ(پیسوں)کو مہینے کی آخری تاریخ تک بچانے کا نسخہ*
(عربی سے ترجمہ شدہ)
یہ واقعہ ایک سعودی نوجوان کا ہے ، یہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تها ، اس کی تنخواہ صرف چار ہزار ریال تهی ، شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کے اخراجات اس کی تنخواہ سے کہیں زیادہ تهے ، مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی تنخواہ ختم ہو جاتی اور اسے قرض لینا پڑتا ، یوں وہ آہستہ آہستہ قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا جارہا تها اور اس کا یقین بنتا جا رہا تها کہ اب اس کی زندگی اسی حال میں ہی گزرے گی - باوجودیکہ اس کی بیوی اس کے مادی حالت کا خیال کرتی ، لیکن قرضوں کے بوجھ میں تو سانس لینا بهی دشوار ہوتا ہے -
ایک دن وہ اپنے دوستوں کی مجلس میں گیا ، وہاں اس دن ایک ایسا دوست بهی موجود تها جو صاحب رائے آدمی تها اور اس نوجوان کا کہنا تها کہ میں اپنے اس دوست کے مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکهتا تها -
کہنے لگا : میں نے اسے باتوں باتوں میں اپنی کہانی کہہ سنائی اور اپنی مالی مشکلات اس کے سامنے رکهیں ، اس نے میری بات سنی اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ تم اپنی تنخواہ میں سے کچه حصہ صدقہ کے لیے مختص کرو - اس سعودی نوجوان نے حیرت سے کہا : جناب ، مجهے گهر کے خرچے پورے کرنے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں اور آپ صدقہ نکالنے کا کہہ رہے ہیں ؟
خیر میں نے گهر آ کر اپنی بیوی کو ساری بات بتائی تو بیوی کہنے لگی : تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے ؟ ہوسکتا ہے اللہ جل شانہ تم پر رزق کے دروازے کهول دے -
کہتا ہے : میں نے ماہانہ 4 ہزار ریال میں سے 30 ریال صدقہ کے لیے مختص کرنے کا ارادہ کیا اور مہینے کے آخر میں اسے ادا کرنا شروع کردیا -
سبحان اللہ ! قسم کها کر کہتا ہوں ، میری تو حالت ہی بدل گئی ، کہاں میں ہر وقت مالی ٹینشنوں میں اور سوچوں میں رہتا تها اور کہاں اب میری زندگی گویا پهول ہو گئی تهی ، ہلکی پهلکی آسان ، قرضوں کے باوجود میں خود کو آزاد محسوس کرتا تها ، ایک ایسا ذہنی سکون تها کہ کیا بتاوں !
پهر چند ماہ بعد میں نے اپنی زندگی کو سیٹ کرنا شروع کیا ، اپنی تنخواہ کو حصوں میں تقسیم کیا ، اور یوں ایسی برکت ہوئی جیسے پہلے کبهی نہی ہوئی تهی - میں حساب لگالیا اور مجهے اندازہ ہوگیا کہ کتنی مدت میں اِنشاءاللہ قرضوں کے بوجھ سے میری جان چهوٹ جائی گی -
پهر اللہ جل شانہ نے ایک اور راستہ کهولا اور میں نے اپنے ایک عزیز کے ساتھ اس کے پراپرٹی ڈیلنگ کے کام میں حصہ لینا شروع کیا ، میں اسے گاہک لاکر دیتا اور اس پر مجهے مناسب پرافٹ حاصل ہوتا -
الحمدللہ ! میں جب بهی کسی گاہک کے پاس جاتا وہ مجهے کسی دوسرے تک راہنمائی ضرور کرتا -
میں یہاں پر بهی وہی عمل دوہراتا کہ مجهے جب بهی پرافٹ ملتا میں اس میں سے اللہ کے لیے صدقہ ضرور نکالتا -
اللہ کی قسم ! صدقہ کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا ، سوائے اس کے جس نے اسے آزمایا ہو -
صدقہ کرو ، اور صبر سے چلو ، اللہ کا فضل سے خیر و برکتیں اپنی آنکهوں برستے دیکهو گے -
نوٹ :
1. جب آپ کسی مسلمان کو تنخواہ میں سے صدقہ کے لیے رقم مختص کرنے کا کہیں گے اور وہ اس پر عمل کرے گا تو آپ کو بهی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا صدقہ کرنے والے کو ملے گا ، اور صدقہ دینے والے کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی -
سوچیے !!!
آپ اس دنیا سے چلے جائیں گے اور آپ کے سبب آپ کے پیچهے کوئی صدقہ کر رہا ہوگا !
2. ایسے ہی اگر آپ نے یہ رسالہ (میسج) آگے نشرکیا اور کسی نے صدقہ دینے کا معمول بنا لیا تو آپ کے لیے بهی صدقہ دینے والے کے مثل اجر ہے-
(جیسے میں نے اس میسج کو پڑھ کر صدقہ کرنے کا معمول بنایا ، اور قسم کها کر کہتا ہوں ، سب سے زیادہ فرق میری ذہنی حالت پر پڑا ، ایک ایسا اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ جس کا جواب نہیں - مترجم)
میرے عزیز!!!
اگرچہ آپ طالب علم ہیں ، اور آپ کو لگابندها وظیفہ ملتا ہے تب بهی آپ تهوڑا بہت جتنا ہوجائے کچھ رقم صدقہ کے لیے ضرور مختص کریں -
اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجھ لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں جاتا ہے تو یقینا دینے والے کو لذت لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی -
کیا آپ صدقہ کے فوائد معلوم ہیں ؟
خاص طور پر 17، 18، 19 کو توجہ سے پڑهیے گا -
سن لیں !
صدقہ دینے والے بهی اور جو اس کا سبب بنتے ہیں وہ بهی!!!
1. صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے -
2. صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے -
3. صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا ، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا -
4. صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے ، اور قبر کی گرمی میں ٹهنڈک کا سامان ہے -
5. میت کے لیے بہترین ہدیہ اور سب سے زیادہ نفع بخش چیز صدقہ ہے ، اور صدقہ کے ثواب کو اللہ تعالی بڑهاتا رہتا ہے -
6. صدقہ مصفی ہے ، نفس کی پاکی کا ذریعہ ، اور نیکیوں کو بڑهاتا ہے -
7. صدقہ قیامت کے دن صدقہ کرنے والے کے چہرے کا سرور اور تازگی کا سبب ہے -
8. صدقہ قیامت کی ہولناکی کے خوف سے امان ہے ، اور گزر
(عربی سے ترجمہ شدہ)
یہ واقعہ ایک سعودی نوجوان کا ہے ، یہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تها ، اس کی تنخواہ صرف چار ہزار ریال تهی ، شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کے اخراجات اس کی تنخواہ سے کہیں زیادہ تهے ، مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی تنخواہ ختم ہو جاتی اور اسے قرض لینا پڑتا ، یوں وہ آہستہ آہستہ قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا جارہا تها اور اس کا یقین بنتا جا رہا تها کہ اب اس کی زندگی اسی حال میں ہی گزرے گی - باوجودیکہ اس کی بیوی اس کے مادی حالت کا خیال کرتی ، لیکن قرضوں کے بوجھ میں تو سانس لینا بهی دشوار ہوتا ہے -
ایک دن وہ اپنے دوستوں کی مجلس میں گیا ، وہاں اس دن ایک ایسا دوست بهی موجود تها جو صاحب رائے آدمی تها اور اس نوجوان کا کہنا تها کہ میں اپنے اس دوست کے مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکهتا تها -
کہنے لگا : میں نے اسے باتوں باتوں میں اپنی کہانی کہہ سنائی اور اپنی مالی مشکلات اس کے سامنے رکهیں ، اس نے میری بات سنی اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ تم اپنی تنخواہ میں سے کچه حصہ صدقہ کے لیے مختص کرو - اس سعودی نوجوان نے حیرت سے کہا : جناب ، مجهے گهر کے خرچے پورے کرنے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں اور آپ صدقہ نکالنے کا کہہ رہے ہیں ؟
خیر میں نے گهر آ کر اپنی بیوی کو ساری بات بتائی تو بیوی کہنے لگی : تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے ؟ ہوسکتا ہے اللہ جل شانہ تم پر رزق کے دروازے کهول دے -
کہتا ہے : میں نے ماہانہ 4 ہزار ریال میں سے 30 ریال صدقہ کے لیے مختص کرنے کا ارادہ کیا اور مہینے کے آخر میں اسے ادا کرنا شروع کردیا -
سبحان اللہ ! قسم کها کر کہتا ہوں ، میری تو حالت ہی بدل گئی ، کہاں میں ہر وقت مالی ٹینشنوں میں اور سوچوں میں رہتا تها اور کہاں اب میری زندگی گویا پهول ہو گئی تهی ، ہلکی پهلکی آسان ، قرضوں کے باوجود میں خود کو آزاد محسوس کرتا تها ، ایک ایسا ذہنی سکون تها کہ کیا بتاوں !
پهر چند ماہ بعد میں نے اپنی زندگی کو سیٹ کرنا شروع کیا ، اپنی تنخواہ کو حصوں میں تقسیم کیا ، اور یوں ایسی برکت ہوئی جیسے پہلے کبهی نہی ہوئی تهی - میں حساب لگالیا اور مجهے اندازہ ہوگیا کہ کتنی مدت میں اِنشاءاللہ قرضوں کے بوجھ سے میری جان چهوٹ جائی گی -
پهر اللہ جل شانہ نے ایک اور راستہ کهولا اور میں نے اپنے ایک عزیز کے ساتھ اس کے پراپرٹی ڈیلنگ کے کام میں حصہ لینا شروع کیا ، میں اسے گاہک لاکر دیتا اور اس پر مجهے مناسب پرافٹ حاصل ہوتا -
الحمدللہ ! میں جب بهی کسی گاہک کے پاس جاتا وہ مجهے کسی دوسرے تک راہنمائی ضرور کرتا -
میں یہاں پر بهی وہی عمل دوہراتا کہ مجهے جب بهی پرافٹ ملتا میں اس میں سے اللہ کے لیے صدقہ ضرور نکالتا -
اللہ کی قسم ! صدقہ کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا ، سوائے اس کے جس نے اسے آزمایا ہو -
صدقہ کرو ، اور صبر سے چلو ، اللہ کا فضل سے خیر و برکتیں اپنی آنکهوں برستے دیکهو گے -
نوٹ :
1. جب آپ کسی مسلمان کو تنخواہ میں سے صدقہ کے لیے رقم مختص کرنے کا کہیں گے اور وہ اس پر عمل کرے گا تو آپ کو بهی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا صدقہ کرنے والے کو ملے گا ، اور صدقہ دینے والے کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی -
سوچیے !!!
آپ اس دنیا سے چلے جائیں گے اور آپ کے سبب آپ کے پیچهے کوئی صدقہ کر رہا ہوگا !
2. ایسے ہی اگر آپ نے یہ رسالہ (میسج) آگے نشرکیا اور کسی نے صدقہ دینے کا معمول بنا لیا تو آپ کے لیے بهی صدقہ دینے والے کے مثل اجر ہے-
(جیسے میں نے اس میسج کو پڑھ کر صدقہ کرنے کا معمول بنایا ، اور قسم کها کر کہتا ہوں ، سب سے زیادہ فرق میری ذہنی حالت پر پڑا ، ایک ایسا اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ جس کا جواب نہیں - مترجم)
میرے عزیز!!!
اگرچہ آپ طالب علم ہیں ، اور آپ کو لگابندها وظیفہ ملتا ہے تب بهی آپ تهوڑا بہت جتنا ہوجائے کچھ رقم صدقہ کے لیے ضرور مختص کریں -
اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجھ لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں جاتا ہے تو یقینا دینے والے کو لذت لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی -
کیا آپ صدقہ کے فوائد معلوم ہیں ؟
خاص طور پر 17، 18، 19 کو توجہ سے پڑهیے گا -
سن لیں !
صدقہ دینے والے بهی اور جو اس کا سبب بنتے ہیں وہ بهی!!!
1. صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے -
2. صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے -
3. صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا ، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا -
4. صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے ، اور قبر کی گرمی میں ٹهنڈک کا سامان ہے -
5. میت کے لیے بہترین ہدیہ اور سب سے زیادہ نفع بخش چیز صدقہ ہے ، اور صدقہ کے ثواب کو اللہ تعالی بڑهاتا رہتا ہے -
6. صدقہ مصفی ہے ، نفس کی پاکی کا ذریعہ ، اور نیکیوں کو بڑهاتا ہے -
7. صدقہ قیامت کے دن صدقہ کرنے والے کے چہرے کا سرور اور تازگی کا سبب ہے -
8. صدقہ قیامت کی ہولناکی کے خوف سے امان ہے ، اور گزر
ے ہوئے پر افسوس نہیں ہونے دیتا -
9. صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب اور سیئات کا کفارہ ہے -
10. صدقہ خوشخبری ہے حسن خاتمہ کی، اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہے-
11. صدقہ دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے ، اور اس کا ثواب ہر اس شخص کو ملتا ہے جو اس میں کسی طور پر بهی شریک ہو -
12. صدقہ دینے والے سے خیر کثیر اور بڑے اجر کا وعدہ ہے -
13. خرچ کرنا آدمی کو متقین کی صف میں شامل کردیتا ہے ، اور صدقہ کرنے والے سے اللہ کی مخلوق محبت کرتی ہے -
14. صدقہ کرنا جود و کرم اور سخاوت کی علامت ہے -
15. صدقہ دعاوں کے قبول ہونے اور مشکلوں سے نکالنے کا ذریعہ ہے -
16. صدقہ بلاء (مصیبت) کو دور کرتا ہے اور دنیا میں ستر دروازے برائی کے بند کرتا ہے -
17. صدقہ عمر میں اور مال میں اضافے کا سبب ہے ،کامیابی اور وسعت رزق کا سبب ہے -
18. صدقہ علاج بهی ہے ، دواء بهی اور شفاء بهی -
19. صدقہ آگ سے جلنے ، غرق ہونے، چوری اور بری موت کو روکتا ہے -
20. صدقہ کا اجرملتا ہے ، چاہے جانوروں اور پرندوں پر ہی کیوں نا ہو -
*آخری بات :*
بہترین صدقہ اس وقت یہ ہے کہ آپ اس میسج کو صدقہ کی نیت سے آگے نشر کر دیں -
9. صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب اور سیئات کا کفارہ ہے -
10. صدقہ خوشخبری ہے حسن خاتمہ کی، اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہے-
11. صدقہ دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے ، اور اس کا ثواب ہر اس شخص کو ملتا ہے جو اس میں کسی طور پر بهی شریک ہو -
12. صدقہ دینے والے سے خیر کثیر اور بڑے اجر کا وعدہ ہے -
13. خرچ کرنا آدمی کو متقین کی صف میں شامل کردیتا ہے ، اور صدقہ کرنے والے سے اللہ کی مخلوق محبت کرتی ہے -
14. صدقہ کرنا جود و کرم اور سخاوت کی علامت ہے -
15. صدقہ دعاوں کے قبول ہونے اور مشکلوں سے نکالنے کا ذریعہ ہے -
16. صدقہ بلاء (مصیبت) کو دور کرتا ہے اور دنیا میں ستر دروازے برائی کے بند کرتا ہے -
17. صدقہ عمر میں اور مال میں اضافے کا سبب ہے ،کامیابی اور وسعت رزق کا سبب ہے -
18. صدقہ علاج بهی ہے ، دواء بهی اور شفاء بهی -
19. صدقہ آگ سے جلنے ، غرق ہونے، چوری اور بری موت کو روکتا ہے -
20. صدقہ کا اجرملتا ہے ، چاہے جانوروں اور پرندوں پر ہی کیوں نا ہو -
*آخری بات :*
بہترین صدقہ اس وقت یہ ہے کہ آپ اس میسج کو صدقہ کی نیت سے آگے نشر کر دیں -
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
علماء کرام کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ وہ دینی خدمات کے ساتھ ساتھ کاروبار پر توجہ فرمایں . کیونکہ آج علماء کرام نے صرف مساجد کے شعبے کو پکڑے رکھا ہے تو امت میں کتاب الصلوۃ آ گئی. اور نماز کے متعلق شعبے زندہ ہو رہے ہیں. لیکن علماء کرام کاروبار میں نہیں لگے جس کے نتیجے میں امت میں کتاب البیوع نہیں آ رہی.
اور مسلمانوں کے اکثر بازار حرام جھوٹ دھوکہ غبن پر مبنی ہو گئے ہیں حالانکہ عبادات مالیہ و بدنیہ کی مقبولیت کے رزق حلال ہونا اس کے شرائط میں سے ہیں جس دن علماء دینی خدمات کے ساتھ ساتھ کاروبار میں لگیں گے تو ان شاء اللہ عزوجل امت میں رزق حلال شروع ہو جائے گا
کبار علماء کرام نے تجارت کا مشغلہ رکھا ہے
*علامہ قدوری علامہ کسائی*
*علامہ صابونی و دیگر علمائے کرام رحمتہ اللہ علیہم اجمعین*
اپنے پیشہ کی وجہ سے ہی اس وصف سے مشہور ہوئے
سفیان ثوری علیہ الرحمہ نے علماء کرام کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
*اسْكُتْ لَوْلا هَذِهِ الدَّنَانِيرُ لَتَمَنْدَلَ بِنَا هَؤُلاءِ الْمُلُوكُ "* .
ترجمہ
*اگر یہ روپیہ پیسہ ہم علماء کے پاس نہ ہوں تو یہ مالدار قسم کے حضرات ہم علماء کو منہ پوچھنے کا رومال بنا لیں*
کسی بھی دینی محنت کے ساتھ حلال رزق کیلئے دنیا کا کچھ کام بھی کرنا چاہیے، تاکہ دوسروں کی جیبوں کی طرف نظر نہ جائے، اور اپنی ضروریات کے معاملے میں بےفکر ہوں،
*اللہ عزوجل ہمارے علمائے اھلسنت کو آباد شاد رکھے ان کے علم و عمل رزق میں برکتیں عطا فرمائے*
*ابو نعمان المدنی*
*2 صفر المظفر 1440*
📣نوٹ یہ تحریر نقل کی ہے اور کچھ ترمیم کے ساتھ حاضر ہے
علماء کرام کے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ وہ دینی خدمات کے ساتھ ساتھ کاروبار پر توجہ فرمایں . کیونکہ آج علماء کرام نے صرف مساجد کے شعبے کو پکڑے رکھا ہے تو امت میں کتاب الصلوۃ آ گئی. اور نماز کے متعلق شعبے زندہ ہو رہے ہیں. لیکن علماء کرام کاروبار میں نہیں لگے جس کے نتیجے میں امت میں کتاب البیوع نہیں آ رہی.
اور مسلمانوں کے اکثر بازار حرام جھوٹ دھوکہ غبن پر مبنی ہو گئے ہیں حالانکہ عبادات مالیہ و بدنیہ کی مقبولیت کے رزق حلال ہونا اس کے شرائط میں سے ہیں جس دن علماء دینی خدمات کے ساتھ ساتھ کاروبار میں لگیں گے تو ان شاء اللہ عزوجل امت میں رزق حلال شروع ہو جائے گا
کبار علماء کرام نے تجارت کا مشغلہ رکھا ہے
*علامہ قدوری علامہ کسائی*
*علامہ صابونی و دیگر علمائے کرام رحمتہ اللہ علیہم اجمعین*
اپنے پیشہ کی وجہ سے ہی اس وصف سے مشہور ہوئے
سفیان ثوری علیہ الرحمہ نے علماء کرام کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
*اسْكُتْ لَوْلا هَذِهِ الدَّنَانِيرُ لَتَمَنْدَلَ بِنَا هَؤُلاءِ الْمُلُوكُ "* .
ترجمہ
*اگر یہ روپیہ پیسہ ہم علماء کے پاس نہ ہوں تو یہ مالدار قسم کے حضرات ہم علماء کو منہ پوچھنے کا رومال بنا لیں*
کسی بھی دینی محنت کے ساتھ حلال رزق کیلئے دنیا کا کچھ کام بھی کرنا چاہیے، تاکہ دوسروں کی جیبوں کی طرف نظر نہ جائے، اور اپنی ضروریات کے معاملے میں بےفکر ہوں،
*اللہ عزوجل ہمارے علمائے اھلسنت کو آباد شاد رکھے ان کے علم و عمل رزق میں برکتیں عطا فرمائے*
*ابو نعمان المدنی*
*2 صفر المظفر 1440*
📣نوٹ یہ تحریر نقل کی ہے اور کچھ ترمیم کے ساتھ حاضر ہے
*_کمفرٹ زون سے باہر نکلیں_*
کمفرٹ زون ایک ایسی ذہنی حالت ہے جس میں آپ نئے چیلنج قبول کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔
اس میں رہتے ہوئے ،آپ زندگی کو بہتر بنانے یا پروفیشنل لائف میں ترقی کرنے ، آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔
آپ ایک خاص لیول تک کامیابی ، اپنے گولز حاصل کر چکے ہوتے ہیں لیکن اگلے لیول پر جانے کی کوشش نہیں کرتے ۔
کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے آپ آرام طلب اور سست ہو جاتے ہیں ۔ اس میں چیزیں آپ کے لیے آسان بن چکی ہوتی ہیں۔ جو عادات پختہ ہو چکی ہوتی ہیں زندگی بس ان کے اردگرد گھوم رہی ہوتی ہے ۔ چیزیں آٹو پائلٹ پر ہوتی ہیں۔ آپ کی زندگی میں ایک روٹین اور یکسانیت ہوتی ہے۔
کمفرٹ زون میں زیادہ عرصہ رہنا آپ کے لیے خطرناک ہے۔ یہ آپ کو اعتماد اور خوشی سے محروم کر دے گا۔ آپ کی زندگی کی کوالٹی کو نقصان پہنچائے گا۔ اس سے آپ کی صلاحیتیں ماند پڑنے لگیں گی۔
ہمیں اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ہم صرف اسی وقت اچھا محسوس کریں گے جب ہمارے پاس چیلنج ہوں گے، جب ہم grow کر رہے ہوں۔
سیلف امپروومنٹ کے مطابق اگر آپ grow کرنا چھوڑ دیں گے ، تو آپ زوال کی طرف جانا شروع کر دیتے ہیں۔ grow کرنے کے لیے آپ کو کمفرٹ زون سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔
جب آپ کوئی نیا اور مشکل کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھتے ہیں ۔
یہ نیا کام کوئی skill یا مہارت ہو سکتی ہے جیسے پبلک سپیکنگ یا کسی نئی زبان میں مہارت حاصل کرنا
یہ نیا کام کوئی نئی عادت ہو سکتی ہے جیسے ٹائم مینجمنٹ سیکھنا ۔
یہ نیا کا م کوئی رویہ ہو سکتا ہے جیسے دوسرے کے بارے میں اپنا تنقیدی رویہ کم کرنا یا زیادہ سوشل اور ملنسار بننا۔
کیسے پتا چلے گا کہ ہم کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھتے ہیں یا نہیں ؟ یاد رکھیں کہ کمفرٹ زون سے باہر جو بھی کام ہو گا وہ آپ کےلیے کچھ مشکل ہو گا۔
جب آپ اس کو کرنے کا سوچیں گے تو یہ آپ کو خوف سے بھر دے گا۔
اس میں رسک ہو گا کہ شاید آپ ناکام ہو جائیں ۔
اس میں ناکامی کی صورت میں آپ کو مذاق کا نشانہ بنایا جا سکتا ہیں ۔
کمفرٹ زون سے باہر جو بھی کام ہو گا اس کے لیے آپ کو اپنی ہمت جمع کرنی پڑے گی ، خود کو بار بار قائل کرنا پڑے گا۔
آپ کو سٹریس میں سے گزرنا پڑے گا۔ آپ کو خود کو stretch کرنا پڑے گا۔ خود کو بدلنا پڑے گا۔ آپ کو پورا زور لگانا پڑے گا۔
اس کے لیے آپ کو اپنا علم بڑھانا ہو گا۔ نئی منصوبہ بندی کرنا ہو گی ۔ تخلیقی صلاحیت کو جگانا پڑے گا۔
اپنا جائزہ لیں کہ کیا آپ سیلف امپروومنٹ کے لیے کچھ نیا سیکھنے یا کرنے کا سوچ رہے ہیں ؟ جو آپ کے لیے چیلنج ہو۔
نئے خوابوں ، نئے منصوبوں پر کام شروع کریں ۔ نئے لیول پر جانے کی تیاری کریں ۔ اپنی زندگی کو جامد نہ ہونے دیں، اس میں نیا ولولہ ، نیا جوش لے کر آئیں ۔
زندگی کا مزہ اسی میں ہے کہ کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھا جائے۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں ؟
کمفرٹ زون سے باہر ایک شاندار زندگی آپ کی منتظر ہے۔
*منقول۔۔۔*
جس کی بھی تحریر عمدہ محرک ہے۔۔
کمفرٹ زون ایک ایسی ذہنی حالت ہے جس میں آپ نئے چیلنج قبول کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔
اس میں رہتے ہوئے ،آپ زندگی کو بہتر بنانے یا پروفیشنل لائف میں ترقی کرنے ، آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔
آپ ایک خاص لیول تک کامیابی ، اپنے گولز حاصل کر چکے ہوتے ہیں لیکن اگلے لیول پر جانے کی کوشش نہیں کرتے ۔
کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے آپ آرام طلب اور سست ہو جاتے ہیں ۔ اس میں چیزیں آپ کے لیے آسان بن چکی ہوتی ہیں۔ جو عادات پختہ ہو چکی ہوتی ہیں زندگی بس ان کے اردگرد گھوم رہی ہوتی ہے ۔ چیزیں آٹو پائلٹ پر ہوتی ہیں۔ آپ کی زندگی میں ایک روٹین اور یکسانیت ہوتی ہے۔
کمفرٹ زون میں زیادہ عرصہ رہنا آپ کے لیے خطرناک ہے۔ یہ آپ کو اعتماد اور خوشی سے محروم کر دے گا۔ آپ کی زندگی کی کوالٹی کو نقصان پہنچائے گا۔ اس سے آپ کی صلاحیتیں ماند پڑنے لگیں گی۔
ہمیں اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ہم صرف اسی وقت اچھا محسوس کریں گے جب ہمارے پاس چیلنج ہوں گے، جب ہم grow کر رہے ہوں۔
سیلف امپروومنٹ کے مطابق اگر آپ grow کرنا چھوڑ دیں گے ، تو آپ زوال کی طرف جانا شروع کر دیتے ہیں۔ grow کرنے کے لیے آپ کو کمفرٹ زون سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔
جب آپ کوئی نیا اور مشکل کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھتے ہیں ۔
یہ نیا کام کوئی skill یا مہارت ہو سکتی ہے جیسے پبلک سپیکنگ یا کسی نئی زبان میں مہارت حاصل کرنا
یہ نیا کام کوئی نئی عادت ہو سکتی ہے جیسے ٹائم مینجمنٹ سیکھنا ۔
یہ نیا کا م کوئی رویہ ہو سکتا ہے جیسے دوسرے کے بارے میں اپنا تنقیدی رویہ کم کرنا یا زیادہ سوشل اور ملنسار بننا۔
کیسے پتا چلے گا کہ ہم کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھتے ہیں یا نہیں ؟ یاد رکھیں کہ کمفرٹ زون سے باہر جو بھی کام ہو گا وہ آپ کےلیے کچھ مشکل ہو گا۔
جب آپ اس کو کرنے کا سوچیں گے تو یہ آپ کو خوف سے بھر دے گا۔
اس میں رسک ہو گا کہ شاید آپ ناکام ہو جائیں ۔
اس میں ناکامی کی صورت میں آپ کو مذاق کا نشانہ بنایا جا سکتا ہیں ۔
کمفرٹ زون سے باہر جو بھی کام ہو گا اس کے لیے آپ کو اپنی ہمت جمع کرنی پڑے گی ، خود کو بار بار قائل کرنا پڑے گا۔
آپ کو سٹریس میں سے گزرنا پڑے گا۔ آپ کو خود کو stretch کرنا پڑے گا۔ خود کو بدلنا پڑے گا۔ آپ کو پورا زور لگانا پڑے گا۔
اس کے لیے آپ کو اپنا علم بڑھانا ہو گا۔ نئی منصوبہ بندی کرنا ہو گی ۔ تخلیقی صلاحیت کو جگانا پڑے گا۔
اپنا جائزہ لیں کہ کیا آپ سیلف امپروومنٹ کے لیے کچھ نیا سیکھنے یا کرنے کا سوچ رہے ہیں ؟ جو آپ کے لیے چیلنج ہو۔
نئے خوابوں ، نئے منصوبوں پر کام شروع کریں ۔ نئے لیول پر جانے کی تیاری کریں ۔ اپنی زندگی کو جامد نہ ہونے دیں، اس میں نیا ولولہ ، نیا جوش لے کر آئیں ۔
زندگی کا مزہ اسی میں ہے کہ کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھا جائے۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں ؟
کمفرٹ زون سے باہر ایک شاندار زندگی آپ کی منتظر ہے۔
*منقول۔۔۔*
جس کی بھی تحریر عمدہ محرک ہے۔۔
*ایک انوکھی کنسلٹنسی Consultancy سروس*
بے روزگاری اور کم سرمائے کا رونا رونے والوں کے لیے بہترین تحریر لازمی پوری پڑھیں
ایک دفعہ ایک صحابی *نبی کریم صلی الله علیہ وسلم* کے پاس آئے اور کچھ امداد کے طالب ہوئے
اس کا واضح مطلب معاشی مجبوریوں کا حل بھی در نبوت سے ملتا تھا جبھی اس نے *رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم* کے دروازے پہ حاضری دی اور آپ نے اس کی بات کو غور سے سننے کے بعد ان سے دریافت فرمایا۔
” تمہارے پاس کوئی چیز بھی ہے“؟
وہ بے چارے اتنے غریب و نادار تھے کہ جواب میں انہوں نے عرض کیا
” میرے پاس صرف ایک ٹاٹ ہے،
جس کے ایک حصہ کو اوڑھ لیتا ہوں اور دوسرے کو بچھاتا ہوں۔
اس کے سوا ایک پیالہ بھی ہے،
جس میں پانی پیتا ہوں۔“
*نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا* کہ جاؤ اسی پیالے اور ٹاٹ کو لے آؤ۔
اس کا مطلب کسی کام کی بنیاد رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ اس میں جس قدر ہو سکے ذاتی سرمایہ لگایا جائے تاکہ وہ کاروبار پھل پھول سکے--اب چاہے وہ سرمایہ کم ہی کیوں نہ ہو اسی میں ہی ترقی کا راز چھپا ہے
بالاخر وہ صحابی اپنا ٹاٹ اور پیالہ لے کر آئے، دیکھنے والوں نے دیکھا اور دنیا دنگ رہ گئی کہ نبی صلی الله علیہ وسلم خود اس پیالہ اور ٹاٹ کو اپنے ہاتھ میں لے کر،
اس کا نیلام کرنے کھڑے ہو گئے اور پکارنے لگے۔
من یشتر ھذین؟
ان دونوں کو کون خریدتا ہے ؟؟
ایک صاحب نے کہا:
انا آخذھما بدرھم․
میں لیتا ہوں ایک درہم میں--'
اس کا مطلب اگر اشیاء کو بیچنے کی نوبت آئے تو آواز لگانا ، پکارنا ، صدا دینا ،
متوجہ کرنا تجارت کا حصہ ہے اور پیغمبر کے اسی عمل سے منڈی کی تجارت کا جواز ملتا ہے اور صحابی کا ان اشیاء کے لئے قیمت پہ راضی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ نیلام ہونے پہ اگر کسی شے کی قیمت آپ کو سمجھ آرہی ہو تو بغیر چھوئے جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پہ خریدا جا سکتا ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی الله علیہ وسلم نے پھر حاضرین کو مخاطب کیا:
من یزید علی درھم؟ ایک درہم پر اضافہ کون کرتا ہے؟
اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلوائی بالآخر دو درہم پر بولی ختم ہو گئی--
اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اگر آپ کو پروڈکٹ کی قیمت زیادہ مل رہی ہو تو آپ بیچ سکتے ہیں ، خریدار دیکھنا چاہئے ، اگر قیمت بڑھتی نظر آئے تو فروخت کرنے میں مضائقہ نہیں
بالآ خریدار کو ٹاٹ اور پیالہ دے دیا گیا اور دو درہم جو قیمت میں وصول ہوئے تھے وہ حاجت مند انصاری کے حوالے کرکے ارشاد فرمایا
"ایک درہم سے اناج خریدکر اپنے گھر والوں کودو اوردوسرے درہم سے ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آو "
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر کائنات سرمائے کی کمیت کے مطابق مشورہ بھی دیا کرتے تھے ، اور مشورہ میں انویسٹمنٹ اور انویسٹر کی گھریلو ضروریات کو بھی مدنظر رکھا کرتے تھے --
بزنس کنسلٹنٹ کی حیثیت سے معاشیات کے طالب علم کو سیرت کے اس پہلو سے ضرور واقف ہونا چاہئے
حضرت انس رضی اللہ عنہ جو اس روایت کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ جس وقت انصاری صحابی نے کلہاڑی لاکر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس میں دستہ ڈالا
اس سے صاف ظاہر ہے کہ پیغمبر بزنس کی بنیاد رکھنے والے بھی ہیں ، ان کی ذات ستودہ صفات نے نہ صرف بزنس کی طرف توجہ دلائی بلکہ اس کے لئے کاروبار بھی تجویز فرمایا اور کاروبار کے آغاز کے لئے اپنے مبارک ہاتھوں سے بنیاد بھی رکھی اور فرمایا
"اس کلہاڑی کو لے جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لاؤ اور اس کو بیچو اور پندرہ روز کے بعد پھر مجھ سے ملنا "
وہ چلے گئے اور پندرہ دن بعد جب خدمت مبارک میں حاضر ہوئے تو وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے کہہ رہے تھے
" ان پندرہ دنوں میں دس درہم آمدنی ہوئی، جس میں سے چند درہم کے تو کپڑے خریدے گئے اور چند درہم کا غلہ مول لیا گیا"
اس کا مطلب کہ پیغمبر دوعالم ایک مشاق کنسلٹنٹ کی حیثیت سے فیڈ بیک پراسس بھی لیتے تھے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ بزنس کس نہج پہ جا رہا ہے اور کس طرح کے اخراجات ہو رہے ہیں ؟؟ کیپیٹل کتنا ہے؟؟ اور اس کا مصرف کہاں ہوا ہے ؟؟
انصاری صحابی کی یہ بات سن کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دمک اُٹھا اور فرمایا:
” یہ بہتر ہے اس سے کہ تم قیامت کے روز بھیک کا داغ اپنے چہرے پر لگائے ہوئے آؤ"
اس آخری بات سے پیغمبر نے تجارتی عمل کی تعریف کی ہے کہ بلا رنگ ونسل اور حیل وحجت خریدو اور بیچو اور جو حاصل ہو اسے اپنے مصرف میں لاو ، شرم اور جھجھک کو ایک طرف رکھتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹا بزنس بھی کرنا پڑجائے تو پیچھے مت ہٹو بلکہ میدان عمل میں کود پڑو یہی کامیابی کی معراج ہے
Credit:copied
بے روزگاری اور کم سرمائے کا رونا رونے والوں کے لیے بہترین تحریر لازمی پوری پڑھیں
ایک دفعہ ایک صحابی *نبی کریم صلی الله علیہ وسلم* کے پاس آئے اور کچھ امداد کے طالب ہوئے
اس کا واضح مطلب معاشی مجبوریوں کا حل بھی در نبوت سے ملتا تھا جبھی اس نے *رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم* کے دروازے پہ حاضری دی اور آپ نے اس کی بات کو غور سے سننے کے بعد ان سے دریافت فرمایا۔
” تمہارے پاس کوئی چیز بھی ہے“؟
وہ بے چارے اتنے غریب و نادار تھے کہ جواب میں انہوں نے عرض کیا
” میرے پاس صرف ایک ٹاٹ ہے،
جس کے ایک حصہ کو اوڑھ لیتا ہوں اور دوسرے کو بچھاتا ہوں۔
اس کے سوا ایک پیالہ بھی ہے،
جس میں پانی پیتا ہوں۔“
*نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا* کہ جاؤ اسی پیالے اور ٹاٹ کو لے آؤ۔
اس کا مطلب کسی کام کی بنیاد رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ اس میں جس قدر ہو سکے ذاتی سرمایہ لگایا جائے تاکہ وہ کاروبار پھل پھول سکے--اب چاہے وہ سرمایہ کم ہی کیوں نہ ہو اسی میں ہی ترقی کا راز چھپا ہے
بالاخر وہ صحابی اپنا ٹاٹ اور پیالہ لے کر آئے، دیکھنے والوں نے دیکھا اور دنیا دنگ رہ گئی کہ نبی صلی الله علیہ وسلم خود اس پیالہ اور ٹاٹ کو اپنے ہاتھ میں لے کر،
اس کا نیلام کرنے کھڑے ہو گئے اور پکارنے لگے۔
من یشتر ھذین؟
ان دونوں کو کون خریدتا ہے ؟؟
ایک صاحب نے کہا:
انا آخذھما بدرھم․
میں لیتا ہوں ایک درہم میں--'
اس کا مطلب اگر اشیاء کو بیچنے کی نوبت آئے تو آواز لگانا ، پکارنا ، صدا دینا ،
متوجہ کرنا تجارت کا حصہ ہے اور پیغمبر کے اسی عمل سے منڈی کی تجارت کا جواز ملتا ہے اور صحابی کا ان اشیاء کے لئے قیمت پہ راضی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ نیلام ہونے پہ اگر کسی شے کی قیمت آپ کو سمجھ آرہی ہو تو بغیر چھوئے جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پہ خریدا جا سکتا ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی الله علیہ وسلم نے پھر حاضرین کو مخاطب کیا:
من یزید علی درھم؟ ایک درہم پر اضافہ کون کرتا ہے؟
اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلوائی بالآخر دو درہم پر بولی ختم ہو گئی--
اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اگر آپ کو پروڈکٹ کی قیمت زیادہ مل رہی ہو تو آپ بیچ سکتے ہیں ، خریدار دیکھنا چاہئے ، اگر قیمت بڑھتی نظر آئے تو فروخت کرنے میں مضائقہ نہیں
بالآ خریدار کو ٹاٹ اور پیالہ دے دیا گیا اور دو درہم جو قیمت میں وصول ہوئے تھے وہ حاجت مند انصاری کے حوالے کرکے ارشاد فرمایا
"ایک درہم سے اناج خریدکر اپنے گھر والوں کودو اوردوسرے درہم سے ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آو "
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر کائنات سرمائے کی کمیت کے مطابق مشورہ بھی دیا کرتے تھے ، اور مشورہ میں انویسٹمنٹ اور انویسٹر کی گھریلو ضروریات کو بھی مدنظر رکھا کرتے تھے --
بزنس کنسلٹنٹ کی حیثیت سے معاشیات کے طالب علم کو سیرت کے اس پہلو سے ضرور واقف ہونا چاہئے
حضرت انس رضی اللہ عنہ جو اس روایت کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ جس وقت انصاری صحابی نے کلہاڑی لاکر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس میں دستہ ڈالا
اس سے صاف ظاہر ہے کہ پیغمبر بزنس کی بنیاد رکھنے والے بھی ہیں ، ان کی ذات ستودہ صفات نے نہ صرف بزنس کی طرف توجہ دلائی بلکہ اس کے لئے کاروبار بھی تجویز فرمایا اور کاروبار کے آغاز کے لئے اپنے مبارک ہاتھوں سے بنیاد بھی رکھی اور فرمایا
"اس کلہاڑی کو لے جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لاؤ اور اس کو بیچو اور پندرہ روز کے بعد پھر مجھ سے ملنا "
وہ چلے گئے اور پندرہ دن بعد جب خدمت مبارک میں حاضر ہوئے تو وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے کہہ رہے تھے
" ان پندرہ دنوں میں دس درہم آمدنی ہوئی، جس میں سے چند درہم کے تو کپڑے خریدے گئے اور چند درہم کا غلہ مول لیا گیا"
اس کا مطلب کہ پیغمبر دوعالم ایک مشاق کنسلٹنٹ کی حیثیت سے فیڈ بیک پراسس بھی لیتے تھے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ بزنس کس نہج پہ جا رہا ہے اور کس طرح کے اخراجات ہو رہے ہیں ؟؟ کیپیٹل کتنا ہے؟؟ اور اس کا مصرف کہاں ہوا ہے ؟؟
انصاری صحابی کی یہ بات سن کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دمک اُٹھا اور فرمایا:
” یہ بہتر ہے اس سے کہ تم قیامت کے روز بھیک کا داغ اپنے چہرے پر لگائے ہوئے آؤ"
اس آخری بات سے پیغمبر نے تجارتی عمل کی تعریف کی ہے کہ بلا رنگ ونسل اور حیل وحجت خریدو اور بیچو اور جو حاصل ہو اسے اپنے مصرف میں لاو ، شرم اور جھجھک کو ایک طرف رکھتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹا بزنس بھی کرنا پڑجائے تو پیچھے مت ہٹو بلکہ میدان عمل میں کود پڑو یہی کامیابی کی معراج ہے
Credit:copied
*🍋 آم کے 11 حیران کن فوائد 🍋*
آم کو پھلوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ جسے مختلف ممالک اور خطے میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ پھلوں کا بادشاہ ذائقہ سے بھرپور اور انتہائی میٹھا ہوتا ہے جس میں وٹامن اور معدنیات کثرت سے پائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں..
روزانہ ایک آم کھانے سے آپ پیٹ سمیت مختلف بیماریوں سے محفوظ اور صحت مند رہتے ہیں جبکہ آم دل کی بیماریوں اور کینسر جیسی موذی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ آم بھارت کا قومی پھل ہے جسے وہ زندگی کی علامت بھی سمجھتے ہیں اور اسے مذہبی رسومات میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت میں آم کے پتوں کو مختلف تقریبات اور شادی میں سجاوٹ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور آم کی چٹنی بھی کھانوں میں استعمال کی جاتی ہے۔
آم کو مختلف کھانوں کے ساتھ بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ آم سے جیلی، جام، اسکواش، اچار اور مصالحے بھی بنائے جاتے ہیں۔
*1، غذائیت سے بھرپور*
آم میں چربی، کولیسٹرول اور سوڈیم کی مقدار بہت کم ہوتی ہے تاہم اس میں وٹامن بی 6 کے علاوہ وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن ای اور وٹامن کی بھی اچھی مقدار موجود ہوتی ہے۔ آم میں پوٹاشیم، میگنیشیم اور تانبے کی بھی بہترین مقدار موجود ہوتی ہے جو صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پھلوں کا بادشاہ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔
*2، کینسر کا علاج*
آموں میں کوئرسیٹن، آئیسوکوئر سیٹرن، اسٹرلگن، فیسٹن، گالک ایسڈ اور میتھائل گلٹ جیسے کیمیکل پائے جاتے ہیں جو چھاتی کے کینسر سمیت ہر طرح کے کینسر کے مرض کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق آم میں شامل اینٹی آکسیڈنٹ آنتوں اور خون کے کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے جب کہ گلے کے غدود کے کینسر کے خلاف بھی یہ مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق آم کولون یا بڑی آنت کے سرطان کے خلاف ایک اہم مدافعانہ ہتھیار ثابت ہوا ہے۔
*3 ، وزن بڑھاتا ہے*
کمزور افراد کے لیے آم بے انتہا مفید ہے کیونکہ یہ وزن کو بڑھاتا ہے۔ آم وزن بڑھانے کے لیے دیگر خوراکوں کی نسبت سب سے آسان خوراک سمجھی جاتی ہے۔ 150 گرام آم میں 86 کیلوریز پائی جاتی ہیں جو آسانی سے جسم میں جذب ہوجاتی ہیں۔
*4، نظام ہاضمہ کے لیے مفید*
آم نظام ہاضمہ کے لیے بھی انتہائی مفید ہے جو خوراک کو ہضم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جبکہ آم بھوک کو بھی بڑھاتا ہے۔ آم میں موجود ریشے جنہیں فائبر کہا جاتا ہے آنتوں کی صفائی اور ورم کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔
*5، حمل میں مفید*
آم حاملہ عورتوں کی صحت کے لیے بھی بے انتہا مفید ہے۔ ڈاکٹرز اکثر حاملہ خواتین کو وٹامن اور آئرن کے لیے گولیاں دیتے ہیں لیکن آم ان کی مقدار کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
*6، جلد کا علاج*
آم چہرے کی خوبصورتی کے لیے بھی انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا گودا جلد پر لگانے سے متعدد جلدی مسائل ختم ہو جاتے ہیں۔ آم کا گودا چہرے پر لگانے سے نہ صرف جلد کی نمی برقرار رہتی ہے بلکہ رنگ بھی صاف ہو جاتا ہے۔
*7، دماغ کی صلاحیت بڑھاتا ہے*
آم دماغی صلاحیت کو بھی بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ آم میں بہت زیادہ مقدار میں وٹامنز موجود ہیں جو آپ کے دماغ کی بہترین نشونما کرتے ہیں۔ آم گلوٹامائن سے بھرپور ہوتے ہیں جو یاد داشت کے لیے مفید ہیں۔
*8، مدافعتی نظام کے لیے مفید*
آم جسم میں مدافعتی نظام کو بڑھاتے ہیں۔ آم میں بیٹا کیروٹین کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط اور تندرست رکھتے ہیں۔
*9، ذیابیطس کا علاج*
آم میں مٹھاس کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے جس کے بارے میں خدشات تھے کہ یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن اب نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ آم ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ اس میں کافی مقدار میں منرلز اور وٹامنز پائے جاتے ہیں اور آسانی سے جسم میں جذب ہو کر خون میں گلوکوز کی مقدار کو معتدل رکھتے ہیں۔
*10، انیمیا کا علاج*
آم میں آئرین کی کافی مقدار پائی جاتی ہے جو انیمیا کی تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے زبردست علاج ہے۔ روزانہ ایک آم کا استعمال جسم میں سرخ خون کے سیل کی مقدار بڑھاتا ہے جو انیمیا کے خطرے کو کم کرتا ہے۔
*11، کمزور ہڈیوں کا علاج*
آم کا استعمال ہڈیوں کی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس میں موجود کیلشیم ہڈیوں کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آم کھانے سے ہڈیوں کی کمزوری کی امکانات انتہائی کم ہو جاتے ہیں...
*پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں*
آم کو پھلوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ جسے مختلف ممالک اور خطے میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ پھلوں کا بادشاہ ذائقہ سے بھرپور اور انتہائی میٹھا ہوتا ہے جس میں وٹامن اور معدنیات کثرت سے پائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں..
روزانہ ایک آم کھانے سے آپ پیٹ سمیت مختلف بیماریوں سے محفوظ اور صحت مند رہتے ہیں جبکہ آم دل کی بیماریوں اور کینسر جیسی موذی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ آم بھارت کا قومی پھل ہے جسے وہ زندگی کی علامت بھی سمجھتے ہیں اور اسے مذہبی رسومات میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت میں آم کے پتوں کو مختلف تقریبات اور شادی میں سجاوٹ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور آم کی چٹنی بھی کھانوں میں استعمال کی جاتی ہے۔
آم کو مختلف کھانوں کے ساتھ بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ آم سے جیلی، جام، اسکواش، اچار اور مصالحے بھی بنائے جاتے ہیں۔
*1، غذائیت سے بھرپور*
آم میں چربی، کولیسٹرول اور سوڈیم کی مقدار بہت کم ہوتی ہے تاہم اس میں وٹامن بی 6 کے علاوہ وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن ای اور وٹامن کی بھی اچھی مقدار موجود ہوتی ہے۔ آم میں پوٹاشیم، میگنیشیم اور تانبے کی بھی بہترین مقدار موجود ہوتی ہے جو صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پھلوں کا بادشاہ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔
*2، کینسر کا علاج*
آموں میں کوئرسیٹن، آئیسوکوئر سیٹرن، اسٹرلگن، فیسٹن، گالک ایسڈ اور میتھائل گلٹ جیسے کیمیکل پائے جاتے ہیں جو چھاتی کے کینسر سمیت ہر طرح کے کینسر کے مرض کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق آم میں شامل اینٹی آکسیڈنٹ آنتوں اور خون کے کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے جب کہ گلے کے غدود کے کینسر کے خلاف بھی یہ مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق آم کولون یا بڑی آنت کے سرطان کے خلاف ایک اہم مدافعانہ ہتھیار ثابت ہوا ہے۔
*3 ، وزن بڑھاتا ہے*
کمزور افراد کے لیے آم بے انتہا مفید ہے کیونکہ یہ وزن کو بڑھاتا ہے۔ آم وزن بڑھانے کے لیے دیگر خوراکوں کی نسبت سب سے آسان خوراک سمجھی جاتی ہے۔ 150 گرام آم میں 86 کیلوریز پائی جاتی ہیں جو آسانی سے جسم میں جذب ہوجاتی ہیں۔
*4، نظام ہاضمہ کے لیے مفید*
آم نظام ہاضمہ کے لیے بھی انتہائی مفید ہے جو خوراک کو ہضم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جبکہ آم بھوک کو بھی بڑھاتا ہے۔ آم میں موجود ریشے جنہیں فائبر کہا جاتا ہے آنتوں کی صفائی اور ورم کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔
*5، حمل میں مفید*
آم حاملہ عورتوں کی صحت کے لیے بھی بے انتہا مفید ہے۔ ڈاکٹرز اکثر حاملہ خواتین کو وٹامن اور آئرن کے لیے گولیاں دیتے ہیں لیکن آم ان کی مقدار کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
*6، جلد کا علاج*
آم چہرے کی خوبصورتی کے لیے بھی انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا گودا جلد پر لگانے سے متعدد جلدی مسائل ختم ہو جاتے ہیں۔ آم کا گودا چہرے پر لگانے سے نہ صرف جلد کی نمی برقرار رہتی ہے بلکہ رنگ بھی صاف ہو جاتا ہے۔
*7، دماغ کی صلاحیت بڑھاتا ہے*
آم دماغی صلاحیت کو بھی بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ آم میں بہت زیادہ مقدار میں وٹامنز موجود ہیں جو آپ کے دماغ کی بہترین نشونما کرتے ہیں۔ آم گلوٹامائن سے بھرپور ہوتے ہیں جو یاد داشت کے لیے مفید ہیں۔
*8، مدافعتی نظام کے لیے مفید*
آم جسم میں مدافعتی نظام کو بڑھاتے ہیں۔ آم میں بیٹا کیروٹین کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط اور تندرست رکھتے ہیں۔
*9، ذیابیطس کا علاج*
آم میں مٹھاس کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے جس کے بارے میں خدشات تھے کہ یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن اب نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ آم ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ اس میں کافی مقدار میں منرلز اور وٹامنز پائے جاتے ہیں اور آسانی سے جسم میں جذب ہو کر خون میں گلوکوز کی مقدار کو معتدل رکھتے ہیں۔
*10، انیمیا کا علاج*
آم میں آئرین کی کافی مقدار پائی جاتی ہے جو انیمیا کی تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے زبردست علاج ہے۔ روزانہ ایک آم کا استعمال جسم میں سرخ خون کے سیل کی مقدار بڑھاتا ہے جو انیمیا کے خطرے کو کم کرتا ہے۔
*11، کمزور ہڈیوں کا علاج*
آم کا استعمال ہڈیوں کی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس میں موجود کیلشیم ہڈیوں کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آم کھانے سے ہڈیوں کی کمزوری کی امکانات انتہائی کم ہو جاتے ہیں...
*پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں*
*حساس دانتوں کا گھریلو علاج*
اکثر لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ان کے دانت اچانک حساس ہوجاتے ہیں اور جب وہ ٹھنڈا یا گرم کھانا یا مشروب لیتے ہیں تو دانتوں میں شدید درد ہوتا ہے۔یا یوںکہ لیںکہ ٹھنڈا یا گرم لگنے سے دانتوں میں ہونے والا درد دانتوں کی حساسیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ صورت حال کافی تکلیف دہ ہوتی ہے جس سے ہم جلد از جلد نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔دانتوں کی حساسیت کی وجہ اور اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے وہ ہم آپ کو بتاتے ہیں ۔
دانت کیوں حساس ہوتے ہیں؟
دانت اس وقت حساس ہوجاتے ہیں جب ان کے اوپر کی حفاظتی سطح یاانیمل ختم ہوجاتا ہے۔اور دانتوں میں موجود نروز ٹھنڈا ،گرم یا ایسڈ والے مشروب کو زیادہ محسوس کرتے ہیں جو درد کا باعث بنتا ہے۔
دانتوں کی حساسیت کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں :*
۔سخت برش کے استعمال کی وجہ سے دانت کا انیمل ختم ہوگیا ہو۔
۔ایسڈ والے مشروبات کے زیادہ استعمال سے دانت جھڑ گیا ہو۔
۔کھوکھلا دانت
۔دانتوں کی فلنگ نکل گئی ہو۔
۔سوتے میں دانت پیسنا ۔
۔دانتوں کی صفائی یا علاج۔
*علامات:*
دانت حساس ہونے کی علامات یہ ہیں :
دانتوں میں ٹھنڈا یا گرم لگنا
۔ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے سے دانت میں درد ہونا
مسوڑھوں میں سرخی یا سوجن
صحیح علاج کے ذریعے دانتوں کی حساسیت سے نجات پائی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ کچھ گھریلو ٹوٹکے بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔
👈دانتوں کی حساسیت سے نجات کے لئے گھریلو ٹوٹکے:
*ناریل کا تیل:*
ایک کھانے کا چمچ ناریل کا تیل 15 سے 20 منٹ کے لئے منہ میں رکھیں پھر کلی کرکے دانتوں کو برش کرلیں۔روزانہ ایک مرتبہ کریں ۔ناریل کے تیل میں موجود اینٹی انفلیمیٹری خصوصیات دانت کے درد کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
*نمک کا پانی:*
آدھا چائے کا چمچ نمک ایک گلاس نیم گرم پانی میںملا کرکلیاں کریں۔دن میں دو مرتبہ کریں ۔نمک میں موجود اینٹی سیپٹک خصوصیات دانت کے درد کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
*لہسن*
لہسن کا ایک جوا کچل کر اس میں چند قطرے پانی اور ایک چٹکی نمک ملائیں ۔اس مکسچر کو متاثرہ دانت پر لگا لیں ۔10 سے 15 منٹ تک لگا رہنے دیں پھر کلی کرلیں ۔دن میں ایک مرتبہ لگائیں ۔
*لونگ کا تیل:*
ایک کھانے کے چمچ ناریل کے تیل میں چھ قطرے لونگ کا تیل ملائیں اور متاثرہ دانتوں اور مسوڑھوں پر مل لیں ۔۵ سے ۱۰ منٹ کے لئے لگا رہنے دیں پھر کلی کرلیں ۔ روزانہ ایک یا دو مرتبہ لگائیں ۔
*سرسوں کا تیل:*
آدھا چمچ سرسوں کے تیل میں ایک چٹکی نمک ملا کر دانتوں اور مسوڑھوں پر مل لیں اس سے مسوڑھوں میں موجود بادی کا پانی نکل جائے گا اور درد میں فوری آرام آئے گا۔
*👈وٹامنز:*
اگر آپ دانتوں کی حساسیت کا بہت زیادہ شکار رہتے ہیں تو اپنی غذا میں وٹامن ای اور بی شامل کریں ،یہ وٹامن سوزش کو کم کر کے دانتوں اور مسوڑھوں کو صحت مند بناتے ہیں۔ بادام، پالک، چقندر، مچھلی، انڈے ،گوشت اور ڈیری پروڈکٹس میں یہ وٹامن وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔
*👈حفاظتی تدابیر:*
۔نرم برش کا استعمال کریں
۔دانتوں کو نرمی سے برش کریں
۔دانتوں کو پیسنے سے گریز کریں
۔ایسڈ والی غذائوں سے پرہیز کریں
۔منہ کی صفائی کا خیال رکھیں
۔دانتوں کے ڈاکٹر سے معائنہ کراتے رہیں
اس کے علاوہ آئسکریم، سوڈا، گرم چائے یا کافی، مٹھائیوں، ٹماٹر، کولڈ ڈرنک اور سٹرس والے پھلوں کا استعمال کم سے کم کریں اور بعد از استعمال برش کرلیجئے۔
*پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں*
اکثر لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ان کے دانت اچانک حساس ہوجاتے ہیں اور جب وہ ٹھنڈا یا گرم کھانا یا مشروب لیتے ہیں تو دانتوں میں شدید درد ہوتا ہے۔یا یوںکہ لیںکہ ٹھنڈا یا گرم لگنے سے دانتوں میں ہونے والا درد دانتوں کی حساسیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ صورت حال کافی تکلیف دہ ہوتی ہے جس سے ہم جلد از جلد نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔دانتوں کی حساسیت کی وجہ اور اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے وہ ہم آپ کو بتاتے ہیں ۔
دانت کیوں حساس ہوتے ہیں؟
دانت اس وقت حساس ہوجاتے ہیں جب ان کے اوپر کی حفاظتی سطح یاانیمل ختم ہوجاتا ہے۔اور دانتوں میں موجود نروز ٹھنڈا ،گرم یا ایسڈ والے مشروب کو زیادہ محسوس کرتے ہیں جو درد کا باعث بنتا ہے۔
دانتوں کی حساسیت کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں :*
۔سخت برش کے استعمال کی وجہ سے دانت کا انیمل ختم ہوگیا ہو۔
۔ایسڈ والے مشروبات کے زیادہ استعمال سے دانت جھڑ گیا ہو۔
۔کھوکھلا دانت
۔دانتوں کی فلنگ نکل گئی ہو۔
۔سوتے میں دانت پیسنا ۔
۔دانتوں کی صفائی یا علاج۔
*علامات:*
دانت حساس ہونے کی علامات یہ ہیں :
دانتوں میں ٹھنڈا یا گرم لگنا
۔ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے سے دانت میں درد ہونا
مسوڑھوں میں سرخی یا سوجن
صحیح علاج کے ذریعے دانتوں کی حساسیت سے نجات پائی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ کچھ گھریلو ٹوٹکے بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔
👈دانتوں کی حساسیت سے نجات کے لئے گھریلو ٹوٹکے:
*ناریل کا تیل:*
ایک کھانے کا چمچ ناریل کا تیل 15 سے 20 منٹ کے لئے منہ میں رکھیں پھر کلی کرکے دانتوں کو برش کرلیں۔روزانہ ایک مرتبہ کریں ۔ناریل کے تیل میں موجود اینٹی انفلیمیٹری خصوصیات دانت کے درد کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
*نمک کا پانی:*
آدھا چائے کا چمچ نمک ایک گلاس نیم گرم پانی میںملا کرکلیاں کریں۔دن میں دو مرتبہ کریں ۔نمک میں موجود اینٹی سیپٹک خصوصیات دانت کے درد کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
*لہسن*
لہسن کا ایک جوا کچل کر اس میں چند قطرے پانی اور ایک چٹکی نمک ملائیں ۔اس مکسچر کو متاثرہ دانت پر لگا لیں ۔10 سے 15 منٹ تک لگا رہنے دیں پھر کلی کرلیں ۔دن میں ایک مرتبہ لگائیں ۔
*لونگ کا تیل:*
ایک کھانے کے چمچ ناریل کے تیل میں چھ قطرے لونگ کا تیل ملائیں اور متاثرہ دانتوں اور مسوڑھوں پر مل لیں ۔۵ سے ۱۰ منٹ کے لئے لگا رہنے دیں پھر کلی کرلیں ۔ روزانہ ایک یا دو مرتبہ لگائیں ۔
*سرسوں کا تیل:*
آدھا چمچ سرسوں کے تیل میں ایک چٹکی نمک ملا کر دانتوں اور مسوڑھوں پر مل لیں اس سے مسوڑھوں میں موجود بادی کا پانی نکل جائے گا اور درد میں فوری آرام آئے گا۔
*👈وٹامنز:*
اگر آپ دانتوں کی حساسیت کا بہت زیادہ شکار رہتے ہیں تو اپنی غذا میں وٹامن ای اور بی شامل کریں ،یہ وٹامن سوزش کو کم کر کے دانتوں اور مسوڑھوں کو صحت مند بناتے ہیں۔ بادام، پالک، چقندر، مچھلی، انڈے ،گوشت اور ڈیری پروڈکٹس میں یہ وٹامن وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔
*👈حفاظتی تدابیر:*
۔نرم برش کا استعمال کریں
۔دانتوں کو نرمی سے برش کریں
۔دانتوں کو پیسنے سے گریز کریں
۔ایسڈ والی غذائوں سے پرہیز کریں
۔منہ کی صفائی کا خیال رکھیں
۔دانتوں کے ڈاکٹر سے معائنہ کراتے رہیں
اس کے علاوہ آئسکریم، سوڈا، گرم چائے یا کافی، مٹھائیوں، ٹماٹر، کولڈ ڈرنک اور سٹرس والے پھلوں کا استعمال کم سے کم کریں اور بعد از استعمال برش کرلیجئے۔
*پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں*