✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
*ایک مصری عالم دین کا درد دل*

✍️حیدر حسن علیمی
10جون 2021

اعلی حضرت اور تعلیمات اعلی حضرت سے واقفیت کے بعد مصری عالم دین *محمد خالد ثابت* نے " *من أقطاب الامۃ* " نامی ایک کتاب لکھی، جس میں انہوں نے *تین عبقری شخصیات* کے احوال و افکار اور ان کے بے مثال کارناموں کو ذکر کیا، ان تین شخصیات میں سے ایک سرکار اعلی حضرت بهی ہیں، جبکہ اپنی دوسری تصنیف بنام " *انصاف الإمام* " میں انہوں نے صرف اعلی حضرت کا تذکرہ کیا ہے.
اعلی حضرت اور متبعین اعلی حضرت کے بارے میں ان کا نظریہ کیسے تبدیل ہوا، اور تعلیمات اعلی حضرت تک ان کی رسائی کیسے ہوئ یہ سب انہوں نے اسی کتاب مذکور میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے.
اسی کتاب " انصاف الإمام " کے اخیر میں وہ لکھتے ہیں *: امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان تصوير کشی کو ناجائز و حرام قرار دیتے تھے اور آج جبکہ ان کی وفات کے تقریباً نوے سال بعد دنیا میں زبردست تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں؛ فوٹو اور ویڈیو کی وہ حیثیت ہو گئ ہے جو زمین والوں کے لیے ہوا اور پانی کی ہے، (آج ) کوئی ایسی زندگی کا تصور بهی نہیں کر سکتا جس میں فوٹو اور ویڈیو نہ ہو.*
*اس کے باوجود جلیل القدر شیخ محمد اختر رضا (رحمہ اللہ) کی مؤلفات میں مجھے ایک کتاب ملی جو فوٹو اور ویڈیو کی حرمت پر مشتمل ہے،* ان کے مریدین و متوسلین سے مجھے یہ بهی معلوم ہوا کہ وہ اپنی مجلسوں اور نشستوں میں تصویر کشی کی بالکل اجازت نہیں دیتے، حیرت تو یہ ہے کہ (اس زمانے میں بھی ) ان کی ایک بهی متداول تصویر نہیں موجود ہے.
اب وہ اپنا درد دل بیان کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں :
*میں اسی مسئلہ پر غور کر رہا تھا اور دل ہی دل میں کہہ رہا تھا : "کاش کہ علماء امت نے فوٹو اور ویڈیو کے متعلق یہی ( حرمت کا ) موقف اختیار کیا ہوتا تو دنیا میں اس قدر فحاشی و بے حیائی عام نہ ہوتی جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں، ذرا ان حیا سوز برائیوں کے بارے میں غور تو کریں جو سب کی سب اسی فوٹو اور ویڈیو کے ذریعے دنیا میں عام ہوئیں".*
غور کریں!
غور کریں!
غور کریں! تاکہ ان الله والوں کی ثابت قدمی اور خدمت دین میں ان کی جد و جہد کی قدر کر سکیں.
مجھے اچھی طرح یاد ہے بیسویں صدی میں پہلی بار ٹیلیویژن مصر میں داخل ہوا، اور شراب نوشی، رومانیت اور عریانیت کے مناظر ہر گھر میں عام ہو گئے، حتى کہ ایک فاضل شخص نے نہایت تلخی سے کہا : "میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کو تهیئٹهر میں لے جاؤں گا، *لیکن اب ٹیلیویژن کے بعد ٹهیئٹهر خود میرے گهر میں زبردستی داخل ہو گیا وہ بھی ہر وقت"*.
یقیناً یہ سچے اللہ والے اور مخلصین کے فتاوی ہیں، جو ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہیں، اور اس میں وہ ماسوا اللہ کے کسی کی رعایت نہیں کرتے، وہ ہر زمانے میں ہمیں یہ اہم سبق پڑهاتے ہیں کہ *''اہل حق کی جانب سے باطل کو مسترد کر دیا جانا چاہیے خواہ کتنا ہی وہ عام ہو اور جو بهی اس کی حیثیت ہو''.*
آگے حضور تاج الشریعہ کے دیدار کا منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں👇👇👇
👈 ✳️ "سلسلہ#(23)" ✳️
موضوع:
📝 " دلچسپ و ایمان افروز حکایات و واقعات پر مشتمل کتب و رساٸل کا مدنی گلدستہ "

👈 مذکورہ موضوع سے متعلق مفت علمی و تحقیقی کتب و رسائل کے لیے سامنے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے:
🦋 حکایتیں اور نصیحتیں
🌀 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10437
🦋 نوجوانوں کی حکایات کا انسائیکلوپیڈیا
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/4791
🦋 عاشقانِ حدیث کی حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/6181
🦋 سچی حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/5889
🦋 بزبانِ حکایت
🌀 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/4805
🦋 عورتوں کی حکایات
🌀 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/5895
🦋 حکایاتِ قلیوبی اردو
🌀 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/6946
🦋 ولولہ انگیز خوشبوئیں
🌀 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10440
🦋 شیطان کی حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/5893
🦋 آنسوؤں کا دریا
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10163
🦋 جیسی کرنی ویسی بھرنی
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10166
🦋 حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے سو 100 واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10178
🦋 حکایات رومی جلال الدین رومی علیہ الرحمہ
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10182
🦋 بزم اولیاء روض الریاحین
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10184
🦋 حکایات سعدی
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10186
🦋 روحانی حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10190
🦋 حکایاتِ الصالحین
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10199
🦋 اعلی حضرت کے پسندیدہ واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10210
🦋 نورانی حکایات
🌀 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10216
🦋 حکایات حضرت حکیم لقمان علیہ الرحمہ
🌀 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10218
🦋 حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ
کےسو واقعات
🌀 https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10222
🦋سنی علماء کی حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10230
🦋 الجليس الصالح و الانيس الناصح
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10242
🦋 حکایات رومی مع درس حیات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10246
🦋 گلدستہ مثنوی
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10248
🦋 طوافِ خانہ کعبہ کے رُوح پرور واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10435
🦋 بخاری شریف کے ایمان افروز واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10257
🦋 سنہری حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10262
🦋 خوابوں کی بارات اندھے کو اندھیرے میں میں بڑی دور کی سوجی
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10264
🦋 اصلی دس بیبیوں کی کہانی
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10271
🦋 اللہ والیاں
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10278
🦋 اسلامی حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10293
🦋 دلیل العارفين
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10299
🦋 کتاب التوابين
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10303
🦋 عیون الحکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10307
🦋 انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کے احوال
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10337
🦋 عاشقان رسول کی 130 حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10426
🦋 حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سو واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10254
🦋 حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سو واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10193
🦋 حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما کے سو واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10203
🦋 سچی توبہ
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10224
🦋 صحابہ علیھم الرضوان کی ایمان افروز
حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10236
🦋 زلف وزنجیر
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10444
🦋 لالہ زار
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10449
🦋 گستاخوں کا برا انجام
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10343
🦋 میلاد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کے سو واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10289
🦋 تذکرہ حضرت ابراہیم ( ابراهيم ) علیہ السلام و حضرت اسماعیل علیہ السلام
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10220
🦋 حضرت سیدہ عاٸشہ رضی اللہ عنہما کے سو واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10195
🦋 بھیگی پلکوں کا بوجھ
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10180
🦋 152 رحمت بھری حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10176
🦋 شمسی حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10174
🦋 لاجواب واقعات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10168
🦋 بوقت مرگ علماء نے کیا کہا
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/10151
🦋 حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ کی
425 حکایات
🌀https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary/8127

💥 Please
Join & Share 👇
https://tttttt.me/IslamicPDFLibrary
ہر ایک کو آپ سے *"روپیہ پیسہ"* نہیں چاھیے ہوتا...!!!
ہر ایک آپکی *"شکل و صورت"* پر بھی نہیں مرمٹتا...!!!

اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں____
*تو غلطی پر ہیں...!!!*

کبھی کبھی "آپ جو ہیں...
جیسے ہیں"...
"اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت ہی____
کسی کے لئے اہم ہوتے ہیں"..!!!

*یونہی بے سبب...*
_ *بلاوجہ _…!!!*
میں پاگل ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔ میری شکل دیکھو میں بھکارن بن گئی ہوں ، تھک گئی ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پاس بیٹھ کر بولا:
تُو ہر وقت جھگڑتی رہتی ہے کبھی تو پیار سے بات کر لیا کر میرے ساتھ ۔
میں نے اسے سائیڈ پہ دھکا دیا ، وہ خاموش ہو گیا ۔
میں تھک ہار گئی تھی ، اب سوچ رہی تھی بس اس سے طلاق لے لوں گی ، اپنے ایک دو کزن سے بھی بات کی تھی جو وکیل تھے ، انھوں نے تسلی دی کہ ہم ساتھ ہیں آپ کے طلاق لے لو اس کمینے سے ۔ میں سوچ رہی تھی آج گھر آئے گا تو بس اس کو بول دوں گی طلاق دے دو مجھے ۔
میں انتظار کر رہی تھی ، وہ رات 10 بجے آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے سو رہے تھے ، دونوں بچوں کے ماتھوں پر اس نے بوسہ دیا ، ان کے ہاتھ چومے ، پھر چارپائی پہ بیٹھ کر مجھے آواز دی:
شہناز مجھے روٹی دے !
میں کروٹ بدلے لیٹی رہی ، اس نے پھر آواز دی ، شہناز ! سن لے ، اٹھ جا۔۔۔۔
میں چپ رہی ، وہ پاس آیا مجھے دیکھا ، میں نے آنکھیں بند کر لیں ؛ مجھ پہ کمبل اوڑھا کر بولا: تھک جاتی ہے سارا دن ۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچن میں گیا ، کھانا دیکھنے لگا ، کچھ بھی نہیں تھا کھانے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔ ایک پیالی میں نمک مرچ ڈال کر اس میں تھوڑا پانی ملا کر سوکھی روٹی کھانے لگا ، میں دیکھ رہی تھی ، میں دل میں سوچنے لگی: یہ مرتا بھی نہیں ہے ، وہ کھانا کھا کر سو گیا ۔
دوسرے دن صبح صبح ہم کسی بات پہ جھگڑنے لگے ، میں نے اسے کہا:
بس مجھے طلاق دے دو میں اب برداشت نہیں کر سکتی ، میں تھک گئی ہوں ، غصے میں مَیں نے اس کے کپڑے بھی پھاڑ دیئے ؛ وہ طلاق کا نام سنتے ہی چپ ہو گیا ، جلدی سے کپڑے چینج کرنے لگا ، پھر بائیک لی اور باہر جانے لگا ۔
میں نے چلا کر کہا:
اللہ کرے تو مر جائے ، میری جان تو چھوٹ جائے تم سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بائیک باہر کھڑی کر کے کمرے میں گیا ، کسی کاپی پہ کچھ لکھا ، چلا گیا ۔
میں گالیاں دے رہی تھی ، رو رو کر تھک گئی تھی ، اسے بدعا دے رہی تھی ، میں نے ارادہ کر لیا تھا بس اب اس انسان کے ساتھ نہیں رہنا ۔
دو چار گھنٹے گزرے ، اور میں میکے جانے لگی ، بچوں کو ساتھ لے لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں گلی میں ایک شور سا برپا ہوا ، میں رو رہی تھی ، ہمارے دروازے پہ دستک ہوئی ، میں نے دروازہ کھولا ، پورا گاؤں چارپائی اٹھائے میرے دروازے کے سامنے کھڑا تھا ، میں حیران تھی کیا ہوا ۔۔۔؟
اتنے میں ایک لڑکا فون پہ بات کر رہا تھا ، یار اکبر کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ مر گیا ہے ۔
یہ سنتے ہی جیسے مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی ، میں ساکت ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ چارپائی صحن میں رکھی گئی ، سب لوگ قبر کھودنے کی بات کرنے لگے ، کچھ جنازے کا ٹائم دیکھنے لگے ، مسجد میں اعلان ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ اکبر میرے سامنے چارپائی پہ لیٹا ہوا تھا ، کون یقین کرے وہ مر چکا ہے ؛ میں چیخنے چلانے لگی:
اکبر اٹھ جا ، میں نہیں کچھ مانگتی ، مجھے کچھ نہیں چاہیے ، میں طلاق کی بات بھی نہیں کرتی 😢
میں اس کے پاؤں چومنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ اکبر اٹھ جا میری جان اٹھ جا ، دیکھ ، دیکھ میں کہیں نہیں جا رہی ، مجھے تیرے ساتھ ہی رہنا ہے ؛ میں بھوکی پیاسی رہ لوں گی ، مجھے یوں چھوڑ کر نہ جا ۔۔۔۔۔۔ میں کھانا بنا کر لاتی ہوں ، بھوک لگی ہے نا تم کو ۔۔۔؟؟
لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی ، اب وہ مجھے چھوڑ کر جا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چیختی چلاتی رہی لیکن وہ منوں مٹی تلے جا سویا ۔
اس کے جانے کے بعد مجھے دنیا کے رنگ نظر آنے لگے ، مجھے رشتے بدلتے دکھائی دینے لگے ، پھر جو اپنے تھے وہ سب منہ موڑنے لگے ، مجھ پہ دنیا نظریں کسنے لگی ، بچے بابا ڈھونڈنے لگے ، اب کون ان کا نیند میں آ کر ماتھا چومے گا؟؟
کون مجھے آواز دے گا ، کون میرے تلخ لہجے برداشت کرے گا۔۔۔؟
مجھ سے مکان چھین لیا گیا ، جو حصہ بنتا تھا وہ بھی نہ دیا ، میں اکبر کے بعد در بدر ٹھوکریں کھانے لگی ۔
اب بچے بھی کچھ فرمائش نہیں کرتے ، وہ جانتے ہیں بابا اب نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سگے بھائی بھی منھ موڑ گئے ، میں لوگوں کے گھروں میں نوکرانی بن کے کام کرنے لگی ۔
ایک دن مجھے اس کی ڈائری ملی ، جس پہ لکھا تھا:
شہناز سے شادی کر کے بہت خوش ہوں ، شہناز سے بہت پیار کرتا ہوں ۔۔۔
وہ پاگل ہے بلکل سمجھتی ہی نہیں جھگڑتی رہتی ہے ، دیکھو آج اس نے مجھے کھانا نہیں دیا ۔
وہ کہتی ہے: مہنگا موبائل لا کر دو ، اسے کیسے بتاؤں نہیں لا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
آج میرے بچوں کو میرے بھائی نے گالی دی ، میں بہت رویا ہوں میرے بچے میری جان ہیں ۔۔۔
شہناز کو بخار ہے وہ بیچاری میرے لیے کیا کچھ برداشت کر رہی ہے ، اللہ نے چاہاتو ہمارے حالات بدل جائیں گے ، پھر شہناز کو دنیا کی ہر خوشی دوں گا ؛ اب وہ مجھے کھانا نہیں دیتی ، میں جانتا ہوں ناراض ہے مجھ سے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے نمک مرچ کےساتھ سوکھی روٹی کھائی ہے ، آج میری کمر میں اینٹ لگی ہے ، زخم بہت گہرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ شہناز کو نہیں بتاؤں گا وہ پریشان ہو جائے گی بیچاری ۔
ڈاکٹر کہہ رہاتھا 15 ٹانکے لگنے ہیں ، آج مجھے چوٹ لگی ہے ، کہہ رہی ہے طلاق دے دو ، میں مر جاؤں گا اس کے بنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی غصے میں ہے ٹھیک ہو جائے گی ۔ میں ڈائری کو سینے لگا کر چیخ چیخ کر رونے لگی۔۔۔۔۔۔😢😥😢

ہمسفر تو ہمسفر ہوتا ہے نا ، وہ جیسا بھی تھا میرا سایہ تھا ، میری ڈھال تھا ، اس کے بعد زمانے کی ٹھوکریں کھا کر سمجھی ہوں اس کے ساتھ میرے دونوں جہاں تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھک ہار کر گھر آتی ہوں ، اب ٹوٹ گئی ہوں ، میں بچوں کی خاطر زندہ ہوں بس ؛ ورنہ کب کی ختم ہو جاتی ۔۔۔۔۔۔
میں خود کو اذیت دیتی ہوں ، کیوں جھگڑتی تھی اس کے ساتھ ، کیوں اس کو ستاتی تھی ، کیوں میں لوگوں کو دیکھ کر بڑے خواب دیکھتی تھی ، وہ میرے ساتھ ہوتا تو کیسی زندگی گزار رہی ہوتی ۔
کیا میں بخشی جاؤں گی ۔۔۔؟؟
اللہ مجھے معاف کرے گا ۔۔۔۔ ؟
میں مشکل وقت میں اس کا سہارا ، اس کی ہمت نہ بن سکی ؛ میں مطلب پرست لالچی ہو گئی تھی ، اب تو اکثر لوگ میری مدد کرتے ہوئے میرے جسم کی بات بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
سب عورتوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتی ہوں کہ پیسہ ہمسفر کے سامنے خاک بھی نہیں ہے ، لالچ اور بڑے بڑے خواب کی تمنا میں لوگوں کی نوکرانی نہ بن جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوہر اگر ایک وقت کی روٹی بھی کھلائے تو مسکرا کر سینے سے لگ جانا ، خدا کی قسم زمانے کی لاکھ تلخیوں کو وہ تمھاری خاطر اپنے سینے پہ برداشت کرتا ہے ، پلیز اگر کوئی بہن اپنے شوہر سے بیزار ہے تو وہ سمجھ جائے ۔۔۔‌۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ آنسو اس کا مقدر بن جائیں ۔ ۔ ۔😥

( مرحوم اکبر کی ....... مجبور شہناز )
*انتہائی اہم تحریر*
😰😰😰😰😰

‏آج میں بازار جوتا 👢خریدنے گیا
دُکان میں داخل ہُوا تو مردانہ ورائٹی !کی جانب ایک خوبصورت چہرہ، سفید ٹوپی ، سنت سے سجی داڑھی اور سفید لباس میں ملبوس انسان نے خوش آمدِید کہتے ہُوئے مختلف ڈیزائن دکھائے,
میں نے ان کا دینی حلیہ دیکھتے ہوے پوچھا:
آپ کا نام کیا ہے؟
میرا نام ریحان ہے۔
آپ کی تَعلِیم؟
دِینی تَعلِیم دَرسِ نظامی (فضیلت)، اور‏ دُنیوی تَعلِیم بی اے تک۔
کتنا عرصہ ہوا یہاں کام کرتے؟
دو ماہ ہونے کو ہیں۔
آپ کو کوئی اور کام نہیں مِلا؟
اس کے جواب میں ریحان نے صرف وہی بات کہی جس کو میں نے انسانیت پر اجاگر کرنے کی سعادت حاصل کی ہے:
کہ ایک مدرسے میں معلّم کے پیشے سے منسلک تھے اور قریب کے مسجد میں امام بھی,
الحمدللہ میں اپنی زندگی میں بہت خوش تھا.
بس اس مہنگائی کے باعث گھریلو حالات سے مجبور ہو کر رزقِ حلال کی تلاش میں ایک امام اور مدرسے کا استاد ہونے کے ناطے اپنی تمام تر حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئے اس طرف رخ کیا۔
آپ کی تَنخواہ کِتنی ہے؟
ماہانہ 17 ہزار مِلتے ہیں، روزانہ کا سَو روپیہ، اور کمِیشن الگ ہے۔
مسجد اور مدرسے سے کل تنخواہ کتنی تھی؟
‏امام نے افسردگی کے عالم میں بتایا 8 ہزار!

میں خاموش ہو گیا، میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے.
مجھ سے صرف اتنا ہو سکا کہ جوتوں کا ڈبہ ان کے ہاتھ سے لے لیا.
وہ اصرار کرتے رہے کہ میں پہنا کر چیک کرواتا ہوں، میری ڈیوٹی ہے، لیکن میں نے ایسا نہیں کرنے دِیا.

میرا ضمیر مجھے بار بار کہہ رہا ‏تها کہ اِن ہاتهوں کو بوسہ دو!
کسی وقت یہ ہاتھ مُقَدَّس کتابیں قرآن، تفاسیر،احادیث، مسائل اور دیگر اسلامی کتب اُٹهایا کرتا تھا

لیکن آج وہی ہاتھ جوتے 👢 اور چپل اٹھانے پر مجبور ہے 😔😔

*اپنے علما کی عزت کریں! اپنےمسجد امام کی عزت کریں!*
🥀 _*کیسا عجیب معاملہ ہے کہ دو مکمل اجنبی خاتون اور مرد محض ایک جملے کے بعد ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں*_ 🥀

ایک انتہائی مختصر جملہ
یہ عورت اس حق مہر کے ساتھ آپ کے عقد میں آپ کو قبول ہے
اس جملے کے بعد وہ دونوں میاں بیوی بن جاتے ہیں ان کا تعلق جائز ہوتا ہے وہ کہیں آتے جاتے ہیں تو ایک خاص احترام ان کے لئے سب کی آنکھوں میں اتر آتا ہے ان کی اولاد ہوتی ہے تو اس اولاد کے لئے سب کی نظروں میں محبت ہوتی ہے اور اس کو جائز اولاد تصور کیا جاتا ہے شوہر مرجاتا ہے تو اس کی جائیداد مال و دولت میں اس خاتون کا باقاعدہ حصہ ہوتا ہے مرد اس عورت کے اخراجات کا پابند ہوتا ہے کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہوتی ہے
جناب صرف اتنا ہی نہیں ابھی آگے چلئے
بالفرض دونوں کے مابین اختلاف ہو جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ مرد نے اپنی جیکٹ کندھے پر اٹھائ دروازے کو ٹھوکر ماری اور چل دیا
اس کو عورت کو اپنی زندگی سے نکالنے کے لئے قواعد کی مکمل پابندی کرنی پڑتی ہے دونوں اطراف کے بزرگ خاندان اور بڑے آپس میں بیٹھیں گے حق اور ناحق کا فیصلہ ہوگا ظالم اور مظلوم کا فیصلہ ہوگا آئندہ زندگی کس طرح گزارنی ہے بچوں کی ذمہ داری کس کی ہوگی نان و نفقہ کیسے طے کیا جائے گا یہ سب امور زیر بحث آئیں گے
دیکھا ایک جملہ کا کمال
اور چلتے چلتے اس جملہ کا مزید اختصار آپ کو بتاتا چلوں ہمارے یہاں برصغیر پاک و ہند مقامی رسوم و رواج مذہب کے احکامات پر اس قدر غالب آگئے ہیں کہ ہمیں اس دھندلکے میں اصل دین کی خبر ہی نہیں ہوتی،
نکاح کی لازمی شرط دو گواہوں کا ہونا لڑکی کی رضا مندی ولی کا ہونا اور حق مہر کے ساتھ محض ایجاب و قبول ہے
اس اختصار کو یہاں بتانے کا اصل مقصود یہ ہے کہ کس طرح محض چار لفظوں کا ایک جملہ اس رشتے کو مقدس مطہر پاک پوتر اور عزت والا بنا دیتا ہے
اب ذرا دروازے کے دوسری طرف آئیے
بنا نکاح کے تعلق میں مرد عورت کو صرف استعمال کرتا ہے
جنسی تلذذ کے سوا آپس میں کوئی اور ذہنی رشتہ نہیں ہوتا بالفرض محبت پیدا ہو بھی جائے تو اس کی بنیاد کمزور ہی ہوتی ہے
کسی معمولی اختلاف کی صورت میں بھی مرد کے لیے اس تعلق کو توڑنا کوئی مشکل نہیں ہوتا اولاد پیدا ہونے کی صورت میں بھی مرد اس ذمہ داری کو سنبھالنے کا پابند نہیں ہوتا عورت کے اخراجات تو بہت بڑی بات ہے وہ تو عورت کے بہتے آنسو بھی سنبھالنے کا پابند نہیں ہوتا نکاح میں جب عورت حاملہ ہوتی ہے تب تو اس کے ناز اٹھائے جاتے ہیں
مہمان کی آمد کے انتظار میں گھر میں بہار آجاتی ہے اور اس تعلق میں اگر عورت حاملہ ہو جائے پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ یہ عذاب کیوں کر اتر آیا
@HamariUrduPiyariUrdu
خیال خاطر (1)
مفتی خالد ایوب مصباحی شیرانی

اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں:
میں ایک مدت سے یہ نوٹ کر رہا ہوں کہ ہمارے اس عہد کے نوجوان بے مقصد سی زندگی گزار رہے ہیں اور اور ان کی جواں سال صلاحیتیں؛
(الف) کچھ حد تک تعمیری/ تخریبی تنقید اور لفظوں کی بازی گری میں،
(ب) کچھ حد تک اپنی اپنی بساط کے مطابق مثبت/ منفی کام کرنے والے اداروں/ تنظیموں/ خانقاہوں اور شخصیات کی حد سے بڑھی ہوئی حمایت/ مخالفت میں،
(ج) کچھ حد تک سوشل میڈیا پر قدیم فقہی، کلامی اور لاینحل مباحث پر غیر سنجیدہ اور غیر ضروری تحریر و تقریر میں،
(د) کچھ حد تک خود ساختہ افکار و نظریات کو علمی اصولوں سے بالا تر ہو کر بطور اصول پیش کرنے میں،
(ھ) کچھ حد تک شخصی عقیدتوں کے اثبات و ابطال اورمدتوں پرانے گڑھے شخصی مردے اکھاڑنے میں،
اور
(و) بہت حد تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے انتظار فردا میں صرف ہو رہی ہیں،
آج کی تکنیکی دنیا میں کام کے لیے مہیا ہر قسم کی نت نئی سہولیات کے باوجود بھی یہ صورت حال امت مسلمہ کا وہ نازک فکری پہلو ہے جو
کسی بھی ناحیہ سے نہ نسل نو کے لیے نیک فال ہے اور نہ ہی روشن مستقبل کے لیے خوش آئند۔
اس لیے خدارا!
جو اچھا کر رہا ہے، اللہ اس کی کوششوں کو قبول فرمائے اور جو برا کر رہا ہے، اللہ اسے ہدایت دے۔ آپ بے شک حق کی واجبی حمایت اور ناحق کی معقول مخالفت ضرور کیجیے، یہ آپ پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت شرعی طور پر بھی ضروری بھی ہو سکتا ہے،
لیکن
ان تمام مراحل کے دوران اس بات کو کبھی مت بھولیے کہ اسلام اعتدال و وسطیت اور مقصدیت کا مذہب ہے، جو کسی بھی اچھے/ برے کام میں اتنی ہی مشغولیت کا تقاضا کرتا ہے، جتنی سے نہ وسطیت پامال ہو اور نہ مقصدیت فوت۔
سو
سوشل میڈیا کے لامتناہی سلسلوں میں گم ہونے سے پہلے، گریبان میں اتنا ضرور جھانک لیجیے:
ان سوشل ہنگامہ آرائیوں کے بیچ کہیں آپ کی شخصیت ہی تو نہیں کھو گئی؟؟؟
کسی کے ہرکارے بننے سے قبل خود سے یہ بھی پوچھتے رہیے:
جس دنیا میں رہتے ہوئے ہم نے اس کی ہزار قسم کی نعمتوں سے لاکھوں قسم کے فائدے اٹھائے، کیا ہم وہاں سے جاتے ہوئے اس دنیا کو کچھ دے کر اور اپنی آخرت کے لیے کچھ لے کر جا رہے ہیں؟؟؟
اگر سچ مچ ہاں! تو زہے مبارک،
وگرنہ تو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

خالد ایوب مصباحی شیرانی
25/ جون 2021۔ جمعہ

Khalid Ayyoob Misbahi
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمه الله لکھتے ہیں:

حضور صلی الله علیه و اله و سلم کو کسی دوسرے سے شرف حاصل نہیں ہوا بلکہ دوسروں نے حضور صلی الله علیه و اله و سلم سے شرف پایا ہے۔

( فتاویٰ رضویہ || ج3 || ص248 )

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمه الله لکھتے ہیں:

اوروں کو جو کچھ مِلا حضور صلی الله علیه و اله و سلم کے طفیل میں ، بلکہ حضور صلی الله علیه و اله و سلم کے دستِ اقدس سے ملا، بلکہ کمال اس لیے کمال ہوا کہ حضور صلی الله علیه و اله و سلم کی صفت ہے۔

( بہار شریعت || ج1 || ص67 )
میں اٹھارہ سال کا تھا جب والدہ ماجدہ سے بغداد کے سفر کی اجازت مانگی ۔ اس روز وہ رو پڑیں اور مجھے الوداع کہنے باہر تشریف لائیں ۔ ان کے آخری الفاظ میرے کانوں میں یہی گونجے:
"اے عبدالقادر ! جا تجھے میں نے اللہ کیلئے وقف کیا ۔ تیرا چہرہ میں تاقیامت نہ دیکھ پاؤنگی ۔ اب کل روز محشر ہی ملاقات ہوگی"

پھر جب شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ منبرِ بغداد پر جلوہ افروز ہوئے تو اِک روز دوران وعظ خاموش ہو گئے ۔ سر جھکا لیا اور رونے لگے اور پھر فرمایا آج میری والدہ کا وصال ہو گیا ۔ حالانکہ ہمارے سامنے ہی انہوں نے اپنے بیٹوں کے جنازے بھی پڑھائے لیکن اس روز ان کی آنکھوں کا غم ہم نے دوبارہ نہ دیکھا ۔

(امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ || غبطۃ الناظر)
💞💞💞 رجوع اور عروج میں فرق 💞💞💞

( 1) رجوع میں چار حروف ہیں ، ر ، ج ، و ، ع اس کا معنی ہے لوٹنا ، کسی غلط و خلاف شرع بات کو واپس لینا
اور عروج میں بھی یہی چار حروف ، ع ، ر ، و ، ج ہیں اس کا معنی بلندی مطلب یہ کہ جتنا بندہ اللہ تعالی کی بارگاہ کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ تعالی اتنی ی بندے کو بلندی عطا فرماتا ہے
( 2 ) رجوع اور عروج کے چار حروف میں یہ بھی اشارہ ہے جتنا چاروں کی طرف رجوع ہوگا اتناہی عروج ملے گا کیونکہ
جنہوں چاروں سے منہ موڑا وہ بلندیوں سے گر گٸے

(3 ) تیسرا نکتہ یہ بھی معلوم کہ اگر کسی مسٸلہ کو بیان کرنے میں غلطی ہو جاے تو رجوع کر لینا چاہیے اسی میں انسان کو عروج ملتا ہے _ محمد ظفر علی سیالوی
حضرت خالد بن معدان رضی الله عنه فرماتے ہیں:

بے شک قرآن پاک پڑھنے والے کے لیے ایک اجر ہے اور قرآن غور سے سننے والے کے لیے دو اجر ہیں۔

( سنن الدارمی || حدیث:3469 )

اس قول کی توجیه یہ سمجھ آتی ہے کہ قرآن پڑھنا ایک مستحب امر ہے جبکہ قرآن کو غور سے سننا فرض ہے لہذا سننے کا ثواب زیادہ ہو گا جیسا کہ مفتی جلال الدین امجدی رحمه الله نے بھی اس کی صراحت فرمائی ہے۔
ہمارے سکول کالج اور یونیورسٹی
طالب علم کی یہ تحریر پڑھیے اور جانیے کہ ان درس گاہوں کے اندرونی حالات کیا ہیں ۔۔۔۔

------------------------------------

ہمارے تعلیمی اداروں میں بیٹھے پروفیسر صاحبان انتہا کے ٹھرکی ہیں. میری طرح باقی نوجوان لڑکیاں بھی جو یونیورسٹی کے میدان سے گزری ہیں اس بات کو بخوبی جانتی ہوں گی…

ریٹ لسٹ کی طرح پروفیسر صاحبان کی بھی فہرست ہوتی ہے…
نمبرز کی فہرست….
فلاں جگہ ہاتھ لگوانے کے اتنے اور فلاں جگہ ہاتھ لگوانے کے اتنے نمبر…. اور فلاں کام کے اتنے نمبر….
صبح لگنے والی لسٹ شام کو یا اگلے دن بدل دی جاتی ہے اور ڈی یا سی گریڈ حاصل کرنے والی لڑکی اس فہرست میں اے گریڈ پر ملتی ہے….

پنجاب یونیورسٹی کے بہت سارے سکینڈل دیکھ چکے ہیں آپ سب… کچھ یونیورسٹی میں ایمبولینس میں بیماری کا کہہ کر اس میں خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو بٹھا کر رات کو پروفیسر صاحبان یا پھر شہر کے کچھ سیاستدانوں کے بستر پر پیش کیا جاتا ہے……

لڑکیوں سے مسکرا مسکرا کر بات کی جاتی ہے… پوری ٹھرک جھاڑی جاتی ہے اور لڑکوں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے…. اور پھر روتے ہیں کہ میل طلباء عزت نہیں کرتے… جو سب کچھ دیکھ رہا ہو وہ ان کی عزت کیسے کرے؟۔۔۔ عزت تب ملتی ہے جب برابری رکھی جائے اور میرٹ پر فیصلہ کیا جائے…

ایسے پروفیسر صاحبان بھی ہیں جو کچھ لڑکوں سے اس بات کا بدلہ لیتے ہیں کہ وہ لڑکا جس لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے وہ لڑکی پروفیسر صاحب کو پسند ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ پروفیسر صاحب اس لڑکی پر ٹھرکی ہوتے ہیں….

اور جو خواتین اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی، نسلی اور خاندانی ہیں وہ ان پروفیسرز کے ہاتھ نہیں آتیں … اور یہ پروفیسر بھرپور بلیک میل کرتے ہیں کبھی فیل کرتے ہیں تو کبھی اس کا تھیسز روک دیتے ہیں کبھی رپورٹ بنا دیتے ہیں تو کبھی کچھ اور دو سالہ ڈگری پانچ سالہ تک پہنچ جاتی ہیں…

بہت سی خواتین کو ان پروفیسر صاحبان کی ان حرکتوں کی وجہ سے یونیورسٹی اور اپنی تعلیم چھوڑتے دیکھا ہے. کیونکہ جو پاک دامن اور خاندانی خواتین ہیں وہ تعلیم کیلئے اپنی عزت اور باپ کی دستار کا جنازہ کبھی نہیں نکالتی..

میں نے پروفیسر صاحبان کے منہ سے وہ وہ جملے سنے ہیں جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتی… چند ایک کو حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے بیان کرنے کی کوشش کروں گی..

“یہ میری لیب ہے کوئی کوٹھا یا چکلا نہیں کہ جب مرضی آ جاؤ اور آ کر بستر پر لیٹ جاؤ”””””

“مجھے کیا پتا تم دیر سے کیوں آ رہی ہو.. کوئی مجبوری تھی یا اپنے یار کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی تھی””””””

“تین شادیاں کر چکا ہوں اور تمام بیگمات کو خوش اور مطمئن بھی رکھا ہوا ہے۔۔۔ آج کل کے نوجوان تو بس ایک باری لگاتے ہیں تو سر میں درد ہو جاتا ہے ان کے””””

یہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر کسی سیاستدان سے کم بدمعاش نہیں ہیں… کیونکہ یہ سب بادشاہ سلامت ہیں… سب کچھ ان کے اختیار میں ہے… پیپر بناتے بھی خود ہیں، چیک بھی خود کرتے ہیں اور نتائج بھی خود بناتے ہیں…
یہاں نہ تو کوئی فرضی رول نمبر کا چکر ہے… سامنے نام، ڈگری، سمسٹر اور ڈیپارٹمنٹ سب کچھ مینشن ہوتا ہے… مجھے اس یونیورسٹی سسٹم سے ہی اختلاف ہے جناب جہاں پروفیسر اپنی مرضی کا مالک ہے… سامنے کھڑا کر کے کہتا ہے… “تمہارا سوال سارا درست ہے.. یہ لو… کراس لگا کر کہتا ہے کہ جاؤ کر لو جو بھی کرنا ہے…” مطلب وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ میری مرضی… مجھ سے پوچھنے والا کون ہے؟اور واقعی پوچھنے والا کوئی نہیں… جیسے پولیس والے پولیس والوں کے پیٹی بھائی ہیں.. جج وکیل کے پیٹی بھائی ہیں ٹھیک ایسے یہ پروفیسر بھی ایک دوسرے کے پیٹی بھائی ہیں….

تقریباً پروفیسر حضرات نے اپنی لیب کے سارے اختیارات کسی لڑکی کو سونپ رکھے ہوتے ہیں…. نوازشات ہوتی ہیں.. اپنی گاڑیوں میں پک اینڈ ڈراپ تک دے رہے ہوتے ہیں.. اگر کوئی شکایت درج کروا بھی دے تو کچھ نہیں ہوتا… برائے نام ایک انکوائری ہوتی ہے اور پروفیسر کو بے گناہ اور شریف قرار دے دیا جاتا ہے…. پہلی بات کہ انکوائری ہوتی ہی نہیں… اور ہماری یونیورسٹیوں میں وی سی صاحب تک رسائی حاصل کرنا وزیراعظم سے ملاقات کرنے کے برابر ہوتا ہے… سب سے پہلے اس سسٹم کو مضبوط کیا جائے.. شفاف کیا جائے… ورنہ تعلیم کے نام پر یہی کچھ چلتا رہے گا اور آگے آگے مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا…

اب آتے ہیں میل اور فی میل طلباء کی جانب…. تو جنسی استحصال یا درندگی کم اور اپنی مرضی زیادہ شامل ہوتی ہے… یونیورسٹی میں تمام طلباء لڑکے ہوں یا لڑکیاں سب میچور ہوتے ہیں… اچھے برے اور فائدے نقصان کا فرق بخوبی جانتے ہیں…. اس لیول پر کوئی ایک دوسرے کو تنگ نہیں کرتا… یہاں جو بھی کپل یعنی کے جوڑا بنتا ہے وہ دونوں کی باہمی رضامندی سے بنتا ہے… دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزار کر دو تین جوس کارنر پر جوس پینے اور کچھ ہوٹلوں پر کھانا کھانے کے بعد ہی ایک دوسرے کو اپنا سب کچھ سونپ دیتے ہیں۔۔۔
یہاں آغاز ہمیشہ دوستی کی آڑ میں ہوتا ہے کیونکہ یہاں دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ دوستی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے… لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ دو مخالف جنس اچھے دوست بھی ہوں تو بھی زندگی کے کسی نا کسی موڑ پر ایک دوسرے کو کشش کرتے ہیں…

یہاں پر کچھ لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے صاف رشتہ رکھ کر آگے چلتے ہیں مگر یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے….زیادہ تر جوڑے جسمانی تعلقات میں مبتلا ہو جاتے ہیں…

یونیورسٹی لیول پر کوئی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا یہاں سب کچھ دونوں فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے….

آپ لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد، کراچی، ملتان اور بہاولپور جیسے بڑے بڑے شہروں کے ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاوس اور ہوٹلوں کا اگر رات کے کسی پہر وزٹ کریں تو معلوم ہوگا یہاں پر موجود نوجوان جوڑوں میں سے اسی فیصد سے بھی زیادہ کا تعلق شہر کی مختلف یونیورسٹیوں، میڈیکل کالجوں سے ہوگا….

آپ مختلف پیزا شاپ، جوس کارنر کا وزٹ کریں تو آپ کو یہاں یونیورسٹی کی کلاسز بنک کر کے ڈیٹ پر آنے والے نوجوان جوڑوں کا ایک جم غفیر ملے گا… اور پچاس روپے والا جوس کا گلاس آپ کو 200 روپے کا ملتا ہے….
تیس منٹ تک کوئی پوچھنے نہیں آتا… تیس منٹ بعد آپ کو ایک اور آرڈر کرنا پڑتا ہے…. یہاں اندر کرسیوں کی جگہ صوفے لگے ہوتے ہیں یعنی کے پورا ماحول بنا ہوتا ہے…. آپ جو مرضی چاہیں کر سکتے ہیں…
تو یہ کہنا کہ یونیورسٹی لیول پر لڑکیوں کو جنسی زیادتی یا درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے سراسر غلط ہے…

یہاں نوجوان کپل شادی شدہ جوڑوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور پوری کلاس بلکہ پورے ڈیپارٹمنٹ کو خبر ہوتی ہے کہ کونسے والی کس کی ہے اور کونسے والا کس کا ہے؟؟؟؟ ۔۔۔۔

آپ ان بڑے شہروں میں اگر شاپنگ مالز کا وزٹ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ نوجوان جوڑے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یا کمر اور کاندھے پر ہاتھ رکھ کر خریداری کرنے نکلے ہوں گے…… جن میں زیادہ تر کا تعلق اس شہر کی مختلف یونیورسٹیوں سے ہوگا…. پارک میں جائیں تو بہت ساری تتلیاں کچھ پروانوں کے ساتھ چپک کر یا یہ کہہ لیں کہ ان کی گود میں بیٹھی ملیں گی آپ کو…..

آپ یونیورسٹیوں کا اگر وزٹ کریں تو آپ کو رات کو گرلز ہاسٹل اور بوائز ہاسٹل سے بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں غیر حاضر ملیں گے….
ان سب کے گھر پر کال کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ تو یونیورسٹی میں ہیں…

آپ مختلف ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوس کا وزٹ کریں تو آپ کو ان میں سے زیادہ تر یہاں پر ملیں گے…. اور جن لڑکوں یا لڑکیوں کا تعلق اسی شہر سے ہے تو بھی پریشانی کی بات نہیں ہے… آپ کو شہر میں ایسے بہت سارے ہوٹل ملیں گے جو صبح 8 بجے سے ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے کیلئے نوجوان جوڑوں کو کمرے کرایہ پر دیتے ہیں…

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے ہوٹل بنے ہی اسی کام کیلئے ہیں…. اور سونے پر سہاگہ کہ ان سارے ہوٹلوں کو بڑے بڑے پولیس افسران، بیورو کریٹ یا پھر سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے… ہر ہفتے یا مہینے کی بنیاد پر بھاری رقوم کی صورت میں بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سب کام آسانی سے ہو رہا ہے…

اگر کبھی میڈیا کا دباؤ یا پھر کوئی بڑی مخبری ہو بھی تو ان ہوٹل والوں کو پہلے سے ہی آگاہ کر دیا جاتا ہے۔۔۔
پنجاب یونیورسٹی میں اپنی آنکھوں سے میں لڑکیوں کو آگے بیٹھ کر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھ چکی ہوں اور لڑکے پیچھے بیٹھ کر ان تتلیوں کو موٹر سائیکل چلانا سکھا رہے ہوتے ہیں….

پنجاب یونیورسٹی اور خاص طور پر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں آپ کو لڑکیاں چھوٹی چھوٹی شرٹس اور بہت باریک لباس پہنے اور چھوٹے چھوٹے ٹراوزر پہنے نظر آئیں گی…. دوپٹہ برائے نام ہوتا ہے یا پھر ہوتا ہی نہیں..
اتنے باریک باریک لباس ہوتے ہیں کہ جسم سارے کا سارا آویزاں ہو رہا ہوتا ہے میں نے اپنی ان آنکھوں سے بہت سی خواتین کو حجاب میں یونیورسٹی آتے دیکھا ہے اور پھر ایک طرف ٹھہر کر یہ حجاب اپنے پرس میں ڈال کر پرس سے ایک چھوٹا سا باریک دوپٹہ گلے میں ڈال کر اپنی اپنی کلاسز میں جاتے دیکھا ہے.

پھر جب چھٹی کے وقت باپ یا بھائی کے آنے کا وقت ہوتا ہے تو پھر سے وہی حجاب پرس سے نکال کر پہن لیا جاتا ہے…. مجھے آج تک سمجھ نہیں لگی کہ یہ tights اور اوپر سے چھوٹی چھوٹی باریک شرٹس پہننے کا آخر مقصد کیا ہوتا ہے….. آ بیل مجھے مار؟

اتنی چھوٹی چھوٹی سی شرٹس پہننا اور پھر چلتے ہوئے بار بار پیچھے سے اپنی شرٹس کو درست کرنا… کیسا عمل ہے؟
کیا ضرورت ہے… یا تو پہنیں نہ… پہن لیا تو بس پھر ٹھیک ہے… کیونکہ آپ کا جسم آپ کی مرضی… پھر مرد کیوں نہ کہے کہ میری آنکھ میری مرضی؟ ۔۔۔لیکن یہ سب فیشن ہے…

یہاں پر فقرے کسنا جرم نہیں کیونکہ کھلم کھلا دعوت دی جاتی ہے فقرے کسنے کی… میوزک کنسرٹ، کلچرل فیسٹیول، اور اینول ڈنر کے نام پر ہونے والے رقص، مجرے کی محفلوں سے کم نہیں… میوزک کنسرٹ پر جسم کے ساتھ جسم لگے ہوتے ہیں اور ناچ گانے عروج پر کندھے سے کندھے جڑے ہوتے ہیں…
منشیات کا سب سے زیادہ استعمال بھی یونیورسٹی کے طلباء ہی کرتے ہیں… جن منشیات کا کبھی آپ نے نام تک نہیں سنا ہوگا وہ منشیات یونیورسٹی لیول پر آپ کو نظر آتی ہیں.. لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی ان منشیات کی عادی ہیں اور یہ بھی کسی فیشن کی طرح پروان چڑھ رہا ہے….

لڑکیوں کے ہاسٹل میں یہ منشیات انتظامیہ کے زریعے سے ہی فروخت کی جاتی ہیں اور بہت سے گروہ اپنے سہولت کار ان طالبات میں سے ہی چنتے ہیں… پہلے نشے کا عادی بنایا جاتا ہے اور پھر جسم فروشی کے مقاصد کیلئے ان لڑکیوں کا استعمال کیا جاتا ہے..
*عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویه رضی الله تعالی عنه ، تابعین عظام ، آئمه کرام ، اور علماء و محدثین ، کی نظر میں!*
__________________________________
*قسط : 651 حـــــــصه ملـــــحقه ( ٤۵٤ )*

عظمت و شان حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله تعالی عنه از امام ابو سعید عبد الرحمن بن محمد المعروف متولی نیشاپوری الشافعی رحمة الله علیہ ( متوفٰی٤٧٨ه‍ )

امام ابو سعید عبد الرحمن بن محمد المعروف متولی نیشاپوری الشافعی رحمة الله علیہ اپنی کتاب *" الغنية فى اصول الدين "* میں فرماتے ہیں : و نكف ألسنتنا عما شجر بينهم فإن الله تعالى ضمن نزع الغل عن قلوبهم يوم القيامة حيث قال تعالى : " وَنَزَعۡنَا مَا فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيۡنَ ۞ ( الحجر : ٤٧ ) و قد كثرت المطاعن من المبتدعين في أئمة الصحابة و الواجب على كل أحد أن يعتقد أنهم خير الناس و أفضلهم و قد نطق القرآن بعدالتهم و فضلهم حيث قال : وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ . ( التوبة : ١٠٠ ) وغيره ذلك من الآيات و شهد رسول الله ﷺ بفضلهم و عدالتهم حيث قال : خير الناس قرني ثم الذين يلونهم . و قال : لا تسبوا أصحابي فوالذي نفسي بيده لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهباً ما بلغ مد أحدهم و لا نصيفه ، و الواجب أن يترحم عليهم و نعتقد فضيلتهم و لا نخوض في تتبع مساوئهم بل نتبع محاسنهم بالذكر و الإقتداء لأن الله ندبنا إلى ذلك قال : و التابعين لهم بإحسان . و نسكت عما جرى في زمانهم و نفوض ذلك إلى الله تعالى لما روي عن الزهري رحمه الله أنه قال لما سئل عن ذلك قال تلك دماء طهر الله عنها أيدينا فلا نلوثبها ألسنتنا .

صحابہ کرام رضی الله عنہم کے درمیان جو اختلافات ہوئے ان پر کلام کرنے سے ہم اپنی زبانوں کو روکتے ہیں کیونکہ الله تعالیٰ نے بروز قیامت ان کے دلوں سے کدورت دور کرنے کی ضمانت دی ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے : ہم ان کے سینوں سے کدورتیں دور فرما دیں گے وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر براجمان ہوں گے ۔ مبتدعین ( اہل بدعت ) کی طرف سے ائمہ صحابہ رضی الله عنہم پر مطاعن بہت بڑھ گئے ہیں اور ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ عقیدہ رکھیں کہ اصحاب رسول ﷺ سب لوگوں سے بہتر اور افضل ہیں ۔ قرآن حکیم نے ان کی عدالت و فضیلت بیان فرمائی ہے الله تعالی کا ارشاد پاک ہے : اور مہاجرین اور انصار میں سے ( نیکی میں ) سبقت کرنے والے اور سب سے پہلے ایمان لانے والے اور جن مسلمانوں نے نیکی میں ان کی اتباع کی ، الله ان سے راضی ہوگیا اور وہ الله سے راضی ہوگئے ۔ اور دیگر بہت سی آیات ۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی ان کی فضیلت و عدالت کی گواہی دی ہے ۔ حضور انور ﷺ نے فرمایا : سب لوگوں سے افضل میرے زمانے کے اہل ایمان ہیں پھر وہ ہیں جو ان کے متصل زمانے کے ہیں ۔ اور فرمایا : میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے ایک مد اور اس کے نصف کو نہیں پہنچ سکتا ۔ پس ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کیلئے دعائے رحمت کریں ۔ اور ان کی فضیلت کا عقیدہ رکھیں اور ان کی مساوی ( یعنی خطاؤں ) کی کرید میں نہ پڑیں بلکہ ان کے محاسن ( یعنی خوبیوں کا ذکر کر کے ان کی پیروی اور اقتداء کریں کیونکہ الله تعالی نے ہمیں اس کی طرف راغب فرمایا اور فرمایا : " و التابعین لھم باحسان " اور احسان کے ساتھ ان مہاجرین و انصار کی پیروی کرنے والے ، اور ہم ان کے زمانے میں ہونے والے واقعات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں ان معاملات کو الله تعالی کے سپرد کرتے ہیں جیسا کہ امام زہری رحمہ الله سے مروی ہے کہ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا ، تو فرمایا : یہ ایسے خون ہیں جن سے الله تعالی نے ہمارے ہاتھوں کو محفوظ رکھا اس لیے ہم اپنی زبانوں کو ان پر تنقید سے آلودہ نہیں کرتے ۔

حوالہ درج ذیل ہے :
( الغنية فى اصول الدين ، لامام أبى سعيد عبد الرحمن النيسابوري الشافعى ، ص 188 تا 191 ، مطبوعة مؤسسة الكتب الثقافية بيروت ، طبع اول ١٤٠٦ه‍/١٩٨٧ء )
__________________________________
( طالب دعا : ایڈمن دفاع حضرت سیدنا امیر معاویه رضى الله تعالى عنه )
بہو کو گھر کا کار آمد فرد بنانے کے دوا صول۔
ہماری امی جان رحمھا اللہ ایک نیک خاتون ہونے کے ساتھ انتہائی سگھڑ اور گھر کو چلانے کے حوالے سے ایک سمجھدار خاتون تھیں ،گھر کیسے بنائے جاتے ہیں ؟شوہر کی آمدنی میں کفایت شعاری کیسے کی جاتی ہے ؟ایک خوشحال گھرانے میں بیوی کا کیا کردار ہے ؟اس جیسے امور پر امی جان کو اللہ نے خصوصی سمجھ دی تھی ،میری فرینڈ لسٹ میں میرے رشتہ دار بھی موجود ہیں ،وہ گواہی دیں گے کہ ہمارا گھر بلا شبہ ایک خوشحال ترین گھر ہے ،میری شادی کو آٹھ سال ہونے کو ہیں ،بھائی کی شادی کو چار سال ہوچکے ہیں ،ہمارے گھر میں بحمدہ تعالی کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا ،ہوسکتا ہے ،ہلکی پھلکی توتو میں میں ہوئی ہو ،لیکن ایسا بڑا جھگڑا نہیں ہوا ،جس میں گھر کے مرد بھی ملوث ہوجائیں ،جیسا عموما ساس بہو کے معاملات میں ہوتا ہے ،بہو کو گھر کا ایک کار آمد فرد بنانے کے حوالے سے امی جان سے میں نے بارہا یہ دو اصول سنے ہیں ،میں انہیں اپنے احباب کی خدمت میں امی جان کے ایصال ثواب کی نیت سے شئیر کرتا ہوں :
1۔امی جان فرماتیں ،بہو کا پہلا سال اس کی رہنمائی ،تربیت اور گھر کے امور سے واقف کرانے کا سال ہے ،جو ساس اور گھر کے دیگر افراد کی ذمہ داری ہے ،پہلے سال میں بہو سے کسی بھی قسم کا شکوہ کرنے کا حق گھر والوں کو نہیں ہے ،کیونکہ ایک عورت اپنے خاندان کو چھوڑ کر بالکل ایک نئے گھر میں آتی ہے ،نئی زندگی سے واسطہ پڑتا ہے ،نئے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ،اس پر مستزاد وہ اپنے خاندان والدین بہن بھائیوں کو چھوڑ کے آتی ہے ،تو وہ دماغی طور پر بالکل اپ سیٹ اور غائب سی ہوتی ہے ،اس لئے اس کی صلاحیتیں نہیں کھلتیں ،(پھر امی جان اپنی کارگزاری بھی تفصیل سے سناتی )لھذا پہلا پورا سال گھر والے اس کی ہر قسم کی غلطیوں سے چشم پوشی کریں گے ،اور ان کی غلطیوں کی اصلاح کریں گے کہ جب ہمارے گھر مہمان آتے ہیں ،تو ہمارا کیا طرز ہوتا ہے ؟کسی تقریب ،عید کے موقع پر ہم کیا کرتے ہیں ،شادی خوشی کے موقع پر اس گھر کا کیا طرزِ عمل ہے ،ان سے ہلکے پھلکے انداز میں بہوکو واقف کرانا چاہئے ،امی جان فرماتیں ،ایک سال تک اگر بہو کو تربیت کے انداز میں چلایا جائے ،تو پھر آگے پوری زندگی گھر والے اس کی خدمات کا پھل کھائیں گے ۔امی جان فرماتیں کہ ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس پہلے ہفتے سے ہی ساس ،نندوں ،دیور وغیرہ کے شکوے شکایتیں شروع ہوجاتے ہیں اور توقعات کا ایک انبار بہو سے لگا کر جب وہ پہلے ہفتے ہی پوری نہیں ہوتیں ،تو بہو اور نئے گھر میں ایک ایسی دراڑ پڑ جاتی ہے ،جو پوری زندگی پر نہیں ہوتی ،یوں بہو کے آنے سے مستقل جھگڑوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔
2۔ امی جان فرماتیں کہ بہو سے نئے گھر کی اجنبیت ختم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ گھر کے حساس معاملات و مشوروں میں بہو کو نہ صرف شریک کیا جائے ،بلکہ اسے لیڈنگ رول دیا جائے ،بیٹے بیٹیوں کے رشتوں کا معاملہ ہو ،گھر کا کوئی اور اندرونی معاملہ ہو ،کچن کے معاملات ہوں ،گھر کے اخرجات کے معاملات ہوں ،ان سب میں بہو کو شریک کیا جائے ،تو بہو پھر اس گھر کو بالکل اپنا گھر سمجھنا شروع کردے گی ،امی جان فرماتیں ،کہ ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس ہوتا یوں ہے کہ بہو سے تو گھر کے سارے کام کرائے جاتے ہیں ،لیکن جب گھر کا کوئی اہم مشور ہ ہو ،تو عموما ساس اور بیٹیاں الگ بیٹھ کر مشورے کرتی ہیں ،یا ماں ،بیٹے یا ساس ،سسر اور اولاد کو اکٹھا کیا جاتا ہے ،یوں جب بہو کو بائی پاس کیا جاتا ہے ،تو وہ آخر دم تک اس گھر کو ایک پرائے گھر کی نظر سے دیکھتی ہے ۔اس کے ساتھ امی فرماتیں کہ قولا بھی ساس اور نندیں مختلف پیرایوں سے بہو کو بتایا کرے کہ یہ اب آپ کا گھر ہے ،آپ جانیں اور آپ کا گھر ،میری امی بارہا اپنی دونوں بہووں کو سب گھر والوں کے سامنے کہتیں کہ اب تو گھر ان عورتوں کا ہے ،میری تو زندگی گزر گئی ،اب یہ بنائیں یا بگاڑیں ،میں جب امی سے پوچھتا کہ آج کیا پکا ہے ؟تو امی فرماتیں کہ کچن تو اب آپ کی بیوی کا ہے ،انہی سے پوچھو کہ کیا بنا ہے ؟میں تو خود اب ان کے ہاتھ سے کھاتی ہوں ۔

ڈاکٹر سمیع اللہ سعدی ۔
https://tttttt.me/HamariUrduPiyariUrdu
👈🏻 اب واٹس ایپ پر ہم لا رہے ہیں ایک بہترین علمی و دلچسپ سلسلہ جس میں شامل ہے
👉Hikayat (Video+Written)
👉Qurani Ayaat+Ahadees
(Arabic+Urdu+English)
👉 WhatsApp Status
(Short 30 seconds)
👉 Short texts
(Wise words)
👉 Short Video Clips
(Islamic Bayanat )
👈🏻 یہ سب کچھ اور بہت کچھ صرف ایک گروپ میں تو ابھی جوائن کیجیے
ہمیں بذریعہ لنک واٹس ایپ پر
Sarmadi Media
👇👇👇👇
https://chat.whatsapp.com/EgIvFjmOtrT4ImbmRTfti3