✺ ہماری اردو پیاری اردو ✺
1.04K subscribers
101 photos
2 files
190 links
مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کیلئے انمول تحفہ اصلاح اعمال، حکایات و واقعات،سیرت و تذکرہ صالحین، عبرت انگیز نصیحتیں، حمد اور نعتیہ اشعار ، انمول تحریری پیغامات پڑھنے اور ان موضوعات سے متعلق مستند، علمی و تحقیقی مواد حاصل کرنے کیلئے جوائن کیجئے
👇👇👇
Download Telegram
مبسملا و حامدا::ومصلیا و مسلما

جشن ازادی مبارک ہو

جہاں سب لوگ خوشی کا اظہار کر رہے ہوں تو ہمیں بھی وہاں خوشی کا اظہار کرنا چاہئے،تاکہ خوشی میں اضافہ ہو جائے اور جشن منانے والے جشن سے بھر پور لطف اندوز ہو سکیں۔

15،:اگست 1947کو ہمارا وطن انگریزوں کی غلامی سے ازاد ہوا تھا۔ایک طرف ملک بھر میں جشن کا ماحول تھا تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت ملک بھر میں ڈری سہمی نظر ا رہی تھی۔

ملک کے مختلف علاقوں سے مسلمان ملک چھوڑ کر بھاگے چلے جا رہے تھے۔ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

تحریک ازادی کا ہیرو ملک کی راجدھانی دلی میں نہیں تھا۔نہ ہی وہ جشن ازادی میں شریک تھا۔وہ ملک کے مختلف علاقوں میں بھاگ دوڑ کر فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کی کوشش میں سرگرداں تھا۔
وہ موہن داس کرم چند گاندھی جسے سار ملک فادر اف نیشن کہتا ہے،وہ نہ حکومت و دولت کا طلب گار تھا۔نہ عیش و عشرت کا دلدادہ اور نہ جاہ و حشمت کا متوالا۔
وہ امن عامہ کے قیام کے لئے تڑپ رہا تھا۔کبھی یہاں جاتا،کبھی وہاں جاتا۔

اس نے اپنے خوابوں میں جس چمن کا تصور کیا تھا،وہ اسے مل چکا تھا،لیکن جا بجا خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔

ملک میں ایک طبقہ تھا جو بھارت کی ازادی کو صرف اپنے لوگوں تک محدود رکھنا چاہتا تھا۔ملک انگریزوں کی حکومت سے ازاد ہوتے ہی غلط افکار و نظریات کا غلام بن چکا تھا۔فادر اف نیشن بھی جسے کنٹرول کرنے میں ناکام رہا،بلکہ چھ ماہ کے بعد ہی 30:جنوری1948کو اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ ہے بھارت کی ازادی کا مختصر سا خاکہ۔

73: سالوں میں اسی خاکہ کی تفصیل ہمیں نظر اتی ہے۔مجھے سمجھ میں نہیں اتا کہ ہم ازاد ہوئے یا نہیں؟

ہاں،اس ازادی کی خوشی کو ہم بھنگ نہیں کرنا چاہتے۔اپنا درد و کرب گرچہ ہم بیان کر رہے ہیں،لیکن جشن ازادی میں ہم شریک ہیں۔

دس دنوں قبل ہی ہماری مسجد کی جگہ مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے،جس کا ہمیں بہت افسوس ہے اور ہم اپنے پروردگار کی رحمتوں کے امید وار ہیں۔

اس ازاد ملک میں اب سی اے اے،این ار سی اور این پی ار کی مصیبتوں سے ہمیں دو چار ہونے کا خدشہ ہے۔ابھی تو کرونا ہے کہ جس نے اہل حکومت کو سب کچھ کرنے سے روک دیا ہے۔

فروری 2020 میں ملک کی راجدھانی دلی میں ہمارا قتل عام ہوا،ہماری جائیدادیں لٹ گئیں اور پھر کورٹ میں مجرم بھی ہم ہی ثابت ہوئے۔جیل بھی ہمیں جانا پڑا۔سمجھ میں نہیں اتا کہ ہم ازاد ہو گئے اور سب کے لئے مساوی حقوق اور یکساں انصاف ہے۔

کل ہمیں یہ بھی دیکھ لینا ہے کہ بھارت کا وزیر اعظم اپنے خطاب میں کیا کہتا ہے۔کیا ہمارے لئے نیک جذبات کے دو جملے بھی بولتا ہے یا ہمیں بھول جاتا ہے۔

اب اس ملک میں باوقار وجود کے لئے ہمیں بہت کچھ سوچنا ہو گا۔اپنی اجتماعی اور قومی بھلائیوں کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ازادی سے پہلے اور ازادی کے بعد بھی یہاں وہاں ہمیں گاجر مولی کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے۔ہماری نسلیں تباہ اور ہماری جائیدادیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ہماری بہن بیٹیوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔
کہیں سے ہمیں انصاف ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ہمیں غلط فہمی ہو گئی تھی کہ ہم ازاد ہو گئے۔شاید ملک انگریزوں کی حکومت سے ازاد ہو گیا اور ہم ازاد نہ ہو سکے۔اب ہمیں ازادی کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔

اگر ہم سوچتے رہ گئے تو عملی اقدام مشکل ہو جائے گا۔ساری دنیا جانتی ہے کہ جمہوری ملک میں وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جس کے ہاتھوں میں حکومت و سیاست ہو یا جو حکومت و سیاست میں اپنی مضبوط حصہ داری رکھتی ہو۔

مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ حکومت و سیاست میں مضبوط حصہ داری نہیں کرتے۔اپنے درمیان سیاسی بیداری نہیں لاتے اور امید لگائے رکھتے ہیں کہ شاید فلاں پارٹی جیت جائے تو ہمارے ساتھ کچھ بھلائی کرے۔

ذرا اپ سوچیں کہ ایک اپاہج ہے جو اپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکتا۔اب اپ کی مرضی ہے کہ چاہیں تو اس کے ساتھ انسانیت کے نام پر حسن سلوک کریں یا اپ اس سے منہ پھیر لیں۔وہ اپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
اسی طرح بھارتی مسلمانوں نے سیاسی میدان میں خود کو اپاہج بنا لیا ہے۔کوئی سیاسی پارٹی اپ کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اس کی انسانیت نوازی ہے،ورنہ وہ اپ سے منہ پھیر لے تو بھی اپ اس کا کچھ نقصان نہیں کر سکتے۔

سیاسی پارٹیاں ہم سے بے خوف ہو چکی ہیں۔وہ ہمیں محض ایک بیل کی طرح سمجھتی ہیں کہ جب اسے اپنے قریب کرنا چاہو تو ہاتھ میں کچھ ہرے پتے لے کر چمکارو تو وہ دوڑا چلا اتا ہے۔

مسلمانو! اپنے اندر سیاسی بیداری پیدا کرو۔ہم نہیں رہیں گے۔اپ نہیں رہیں گے،لیکن ہماری اور اپ کی ال و اولاد رہے گی۔تم اپنی انے والی نسل کو کیسا بھارت سپرد کرنا چاہتے ہو؟

کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری ائندہ نسلیں بھی اسی طرح ماب لنچنگ اور فرقہ وارانہ فسادات میں تباہ و برباد ہوتی رہیں۔جس طرح اج ہم مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔سوچو اور اگے بڑھو۔

خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
جسے نہ ہو خیال خود ہی اپنی حالت بدلنے کا

پہلی
جنگ ازادی:1857 میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس جنگ میں مسلم و ہندو دونوں قومیں شریک تھیں۔جب انگریز جیت گئے تو مسلمانوں کا جینا مشکل کر دیا،کیوں کہ قوم مسلم اس جنگ میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھی۔

اہل ہند کی شکست کے سبب بھارت سے سلطنت مغلیہ کا نام و نشان مٹ گیا۔کئی ہزار علما و مشائخ کو پھانسی کی سزا دی گئی۔مسلمانوں کو تعلیمی و معاشی ہر اعتبار سے مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی۔

انگریزوں نے قوم ہنود کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا۔دونوں قوموں کے درمیان عداوت و اختلاف ڈالنے کی مضبوط کوششیں انگریزوں نے کیں۔اسی اختلافی کیفیت اور دلوں میں ڈالی ہوئی عداوت کا نتیجہ تھا کہ ازادی ہند کے وقت کانگریس اور مسلم لیگ میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔

بھارت کا برہمنی تھنک ٹینک جو مسلم دشمنی میں انگریزوں سے بھی اگے بڑھ چکا تھا۔وہ قوم مسلم کو حکومت میں حصہ دینے کے لئے راضی نہ ہو سکا اور ملک تقسیم ہو گیا۔

وہی لوگ جن کی محدود فکر کے سبب ملک کو تقسیم کی اذیت میں مبتلا ہونا پڑا،وہ لوگ انگریزوں کے جانے کے بعد ملک کو اپنی جاگیر سمجھنے لگے۔

وہ مسلمانوں کو پستی کی طرف بھی لے جاتے اور اپنا عیب چھپانے کے واسطے کچھ مولوی نما چہروں کو بھی اپنا حامی و طرفدار بنا کر رکھتے،تاکہ ان کے ذریعہ مسلمانوں کے ووٹ بھی بٹور سکیں۔
در اصل ان مولوی نما چہروں کو دیکھ کر مسلم قوم دھوکہ کھا گئی،اور قوم اس دلدل میں جا پھنسی کہ وہاں سے واپسی بہت اسان نہیں۔

اب بھارت میں سیاسی سطح پر مسلمانوں کے ابھرنے کا راستہ یہی ہے کہ مسلم لیڈران بہوجن سماج کی سیاست کو اپنائیں،جس کی وضاحت میں نے اپنے متعدد حالیہ مضامین میں کر دی ہے۔اگر اپنی سیاست کا دائرہ مسلمانوں تک محدود رکھیں گے تو مسلم قوم کا خاطر خواہ فائدہ مشکل ہے۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر ریاست کے ستر فی صد مسلمانوں نے کسی مسلم سیاسی پارٹی کی حمایت کردی تو ہر انتخابی حلقے میں دیگر قومیں بھی ہیں۔وہ کسی اور طرف چلی گئیں تو مسلم پارٹی کے امید واروں کا جیت جانا مشکل ہے۔
اگر چند سیٹوں پر مسلم پارٹی کے امید وار جیت بھی گئے تو چند ممبران اسمبلی کے ذریعہ نہ حکومت سازی کی جا سکتی ہے، نہ ہی قلت تعداد کے سب حکومت میں مضبوط حصہ داری ہو سکتی ہے۔
مجھے مسلم پارٹی پر اعتراض نہیں،بلکہ مسلم سیاست پر اعتراض ہے۔مسلم پارٹی بہوجن سماج(غیر ارین طبقات)کی سیاست کرے تو مستقبل میں حکومت سازی کی امید ہے۔

بہوجن سماج بھارت کی تمام غیر ارین اقوام کو شامل ہے۔جن کی تعداد پچاسی فی صد ہے۔یہ بھارت کی مول نواسی(اصل باشندہ)اقوام ہیں۔مسلم،سکھ،بودھ،جینی،ایس سی،ایس ٹی،اوبی سی: سب اس میں شریک ہیں۔

اس کے بالمقابل اریہ سماج ہے۔جس میں برہمن،راجپوت اور بنیا شامل ہیں۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ؛
14:اگست 2020
https://www.facebook.com/112314857131436/posts/159026079126980/

*وقت کی پکار*

ایسی پریشانی اور بے بسی کے عالم میں بھی روز بروز جس طرح سے ہمارے یہاں تقریبات کی کثرت ہوتی جارہی ہے وہ تشویش ناک ہے۔

اب ہر شخصیت کے یوم وصال کے ساتھ ساتھ یوم پیدائش بھی منایا جارہا ہے۔ اور اگر اس ممدوح کی زندگی میں کوئی خاص دن تھا تو اسے بھی سلیبریٹ کیا جارہا ہے۔
ہماری ان رسومات اور ان میں در آئی خرافات کو دیکھ کر ہی پڑھے لکھے دانشور لوگ ہمارے قریب نہیں آتے اور سنیوں کو جاہلوں کی جماعت کہا جاتا ہے۔

جبکہ اب تک اہل سنت کا طریقہ یہی رہا ہے کہ یوم پیدائش صرف آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منایا جاتا رہا ہے, بقیہ سب کے یوم وصال منائے جاتے رہے ہیں۔ اور اب بھی یہی کرنے کی ضرورت ہے۔

*ورنہ جس تیزی کے ساتھ یوم پیدائش, یوم وصال اور ایام مخصوصہ کی تقریبات منائی جارہی ہیں, کچھ ہی دنوں میں کوئی دن باقی نہ رہے گا جس دن مسلمانوں کا اچھا خاصا پیسہ ان میں خرچ نہ ہو۔*

وہیں تعمیری کام اپنی باری کا انتظار ہی کرتے رہیں گے۔

آج امت مسلمہ کو ضرورت ہے اپنے کالجوں، اسپتالوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی۔

اگر اس پر وقت رہتے توجہ نہ دی گئی تو پھر زندگی کی تمنا محض خواب ہوگی۔

*کرنا تو یہ چاہیے! کہ اپنے اپنے ممدوح کے نام پر جلسہ، جلوس اور قوالی وغیرہ میں لاکھوں خرچ کرنے کے بجائے اسی ممدوح کے نام سے؛ اسی پیسے سے ان کے ایصال ثواب کے لیے ایک اسکول قائم کردیں، ہر سال اس میں اضافہ کرتے جائیں۔*

کچھ میڈیکل اور قانون کے طلبہ کو اسکالر شپ کا انتظام کردیں۔

اگر مریدین و متوسلین صاحبِ حیثیت ہیں تو میڈیکل کالج اور لاء کالج بنوائیں یا مختلف شہروں میں اچھے اسکول قائم کرتے جائیں۔

اگر یہ کام ہوگیا تو وہ ایصال ثواب جو ایک بار میں ختم ہوجاتا تھا، اب وہ صدقۂ جاریہ بن جائے گا۔

اس سے آپ کے ممدوح کو زیادہ خوشی ہوگی۔ اور امت کی مشکلات بھی حل ہوں گی۔

*محمد شاہد علی مصباحی*
روشن مستقبل دہلی
تحریک علمائے بندیل کھنڈ
🌸🌸🌸🌹🌹🌹❤️
گمراہ فرقوں کے نام

❶ معتزلہ (قدریہ )
معتزلہ کے کل بیس فرقے ہیں ۔
❶ واصلیہ ❷ عمریہ
❸ ہذیلیہ ❹ نظامیہ
❺ اسواریہ ❻ اِ سکافیہ
❼ جعفریہ ❽ بِشریہ
❾ مُزداریہ ❿ ہشامیہ
❶ ❶ صالحیہ ❷ ❶ حابطیہ
❸ ❶ حدبیہ ❹❶ مَعمریہ
❺ ❶ ثمامیہ ❻ ❶ خیّاطیّہ
❼ ❶ جاحظیہ ❽ ❶کعبیہ
❾ ❶ جبائیہ ⑳ بہشمیہ

❷ شیعہ (فتنوں کاظہور ص ۳۶ )
ان میں بنیادی فرقے تین ہیں ۔
❶ غلاۃ ❷ زیدیہ ❸ امامیہ
غلاۃ سے اٹھارہ فرقے پیدا ہوئے ۔
❶ سبائیہ ❷ کاملیہ نم
❸ بنانیہ یابیانیہ ن ❹ مغیریہ
❺ جناحیہ ❻ منصوریہ
❼ خطابیہ ❽ غرابیہ اورذبابیہ
❾ ذمّیہ ❿ ہشامیہ
❶ ❶ زُراریہ ❷ ❶ یونسیہ
❸ ❶ شیطانیہ ❹ ❶ رزامیہ
❺ ❶ مفوّضہ ❻ ❶ بدئیہ
❼ ❶ نُصیریہ اوراسحاقیہ ❽ ❶ اِ سماعلیہ
اسماعلیہ کے سات القاب ہیں ۔
❶ باطنیہ ❷ قرامطہ
❸ حِرمیہ ❹ سبعیہ
❺ بابکیہ ❻ مُحمرہ
❼ اسماعلیہ
اسماعلیہ کے چند فرقے ہیں ۔
❶ مبارکیہ ❷ میمونیہ
❸ شمیطیہ ❹ برقیہ
❺ جنابیہ ❻ مہدویہ
❼ مستعلیہ ❽ نزاریہ
زیدیہ کے تین فرقے ہیں ۔
❶ جارودیہ ❷ سلیمانیہ ❸ تبیریہ

فرقہ امامیہ
امامیہ کی بہت شاخیں ہیں ۔
❶ افطحیہ ❷ مفضلیہ
❸ ممطوریہ ❹ موسویہ
❺ رجعیہ ❻ احمدیہ
❼ اثناعشریہ ❽ جعفریہ

❸ خوارج
خارجیوں کےسات فرقے ہیں ۔
❶ محکمہ ❷ بیہسیہ
❸ ازارقہ ❹نجدات
❺ صُفریہ یااصفریہ ❻ اباضیہ
❼ عجاردہ
عجاردہ کےدس فرقے ہیں ۔
❶ میمونیہ ❷ حمزیہ
❸ شعیبیہ ❹ حازمیہ
❺ خلفیہ ❻ اطرافیہ
❼ معلومیہ ❽ مجہولیہ
❾ صلتیہ ❿ ثعالبہ
ثعالبہ کے چار فرقے ہوگئے
❶ اخنسیہ ❷ معبدیہ
❸ شیبانیہ ❹ مکرّمیہ
خوارج میں سےچندفرقوں کےنام مندرجہ ذیل ہیں ۔
❶ ضحاکیہ ❷ شبیبیہ
❸ کوزیہ ❹ کنزیہ
❺ شمراخیہ ❻ بدعیہ
❼ اصومیہ ❽ یعقوبیہ
❾ فضلیہ

❹ مرجئہ
مرجئہ کےپانچ فرقے ہیں ۔
❶ یونسیہ ❷ عبیدیہ
❸ غسّانیہ ❹ ثوبانیہ
❺ ثومنیہ

❺ نجاریہ
نجاریہ کے تین فرقے ہیں ۔
❶ بُرغوثیہ ❷ زعفرانیہ
❸ مستدرکیہ

❻ جبریہ
جبریہ کی دو قسمیں ہیں ۔
❶ متوسطہ ❷ خالصہ

❼ مشبہہ
❶ مشبہہ غلاۃ شیعہ مثلا سبائیہ بیانیہ اور مغیریہ وغیرہ کی طرح ہیں ۔
❷ مشبہہ حشویہ جیسے مضر ۔کہمش اور ہجیمی
❸ مشبہہ کرامیہ

وہ فرقے جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔
❶ قادیانی
❷ نیچریہ
❸ اہلِ قرآن یا چکڑالوی
❹ وہابیہ یا نجدیہ
ہندوستان کے وہابی دو فرقوں میں بٹ گئے ۔
❶ اہلِ حدیث
❷ دیوبندی

فتنوں کاظہور اور اہلِ حق کا جہاد ص ۲۱ تا ۹۵
🌸🌸🌸🌹🌹🌹
○محرم الحرام اورنظریات اہل سنت○

محرم کےپہلےدس دنوں میں سیاہ، سبزاورسرخ رنگ کےکپڑےپہننےسےبچناچاہیے
(فتاوی رضویہ،ج24ص496)

اس مہینےمیں تعزیہ بنانا،ماتم کرنا،گھوڑانکالنا،
سینہ پیٹنا،آہ وزاری کرناحرام ہے.نوحہ سننااورپڑھناحرام ہے.
حضورعلیہ السلام نےاس سےسختی سےمنع فرمایاہے
(ابوداود،ح3127)
ماتم سوگ اورنوحےکی حرمت
¤فرامین محبوب علیہ السلام¤
جس نےرخسارپیٹے کپڑےپھاڑے اورجاہلانہ چینخ وپکارکی وہ ہم میں سےنہیں
(بخاری حدیث1297)
نوحہ کرنےاورسننےوالی عورت پرلعنت ہے
(ابوداودحدیث3128)
کسی میت پرتین دنوںسےذیادہ سوگ کرناجائزنہیں سواۓبیوہ عورت کےوہ شوہرکی وفات پر4ماہ 10سوگ کرے
(مسلم حدیث3729)
¤اس مہینےمیں شہداءکربلاکا سوگ مناناحرام ہے
¤اس میں نکاح کرنا جائزہے
¤یہ عوامی بات کہ عاشورہ کےدن پانی کم استعمال کریں.
نہایانہ جاۓیہ بات غلط ہے.
¤شیعہ کی مجالس محرم اورماتم پربغرض ثواب یاصرف ان کاتماشا دیکھنےکےلیے
جاناحرام ہےکیونکہ:
جوکام ناجائزہے اسےتماشےکے طورپردیکھنے جانابھی گناہ ہے
(فتاوی رضویہ ج24ص499)
#غازی_ارطغرل کون تھا

ارتغل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہے , آپکی پیدائش 1191 عیسوی میں ہوئی اور وفات 1280 عیسوی میں کچھ کتابیں 1281 بتاتے ہیں, آپ ہی کے تین بیٹے تھے گندوز, ساؤچی اور عثمان اور آپکے تیسرے بیٹے عثمان نے 1291 یعنی اپنے والد ارتغل کی وفات کے 10 سال بعد خلافت بنائی اور ارتغل کے اسی بیٹے عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا لیکن خلافت کی بنیاد ارتغل غازی رح رکھ کر گئے تھے ….
اسکے بعد اسی خلافت نے 1291 عیسوی سے لیکے 1924 تک , 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا...
اس کے ساتھ مسجد نبوی. گنبد خضریٰ اور مسجد حرام کی جدید تعمیر . سیدنا امیر حمزہ کا مزار . مکہ مکرمہ تک ایک عظیم الشان نہر . آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پرانوار کے گرد سیسہ پلائی دیوار . مکہ مکرمہ تک ٹرین منصوبہ جیسے عظیم کارنامے سرانجام دیے...
ارتغل غازی کا خاندان وسطہ ایشیا سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوغوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک یہ قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارتغل غازی تعلق رکھتا تھا آپکے والد کا نام سلیمان شاہ تھا, ارتغل غازی کے تین اور بھائی تھے, صارم, ذوالجان اور گلدارو ,آپکی والدہ کا نام حائمہ تھا…
آپکا قبیلہ سب س پہلے وسطہ ایشیا Central asia سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آئے تھے منگولوں کی یلغار سے نمٹنے کےلئے..... جہاں سلطان علاو الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Sultan Alap Arslan نے قائم کی تھی 1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین بنے تھے…..
اسی سلطان علاوالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان Oghuz khan رہتے تھے, اور اس قائی قبیلے کے چیف ارتغل بنے اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعد, سب سے پہلے اہلت Ahlat آئے تھے پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے تھے 1232 جہاں *سلطان صلاح الدین ایوبی* کے پوتے الغزیز کی حکومت تھی, سب سے پہلے ارتغل نے العزیز کو اس کے محل میں موجود غداروں سے نجات دلائی پھر اس سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے شادی کی.... جس سے آپکو تین بیٹے ہوئے اوپر جو میں نے نام دیے ہیں, ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی, صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا, اسکے بعد ارتغل سلطان علاو الدین کے بہت قریب ہوگیا….
اس کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارتغل غازی نے منگول کے ایک ایم لیڈر نویان کو شکست دی ,نویان منگول بادشاہ اوکتائی خان کا Right hand تھا ,اوکتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوکتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد کو اس قدر روندا تھا کہ بغداد کی گلیاں خون سے بھر گئی تھیں دریائے فرات سرخ ہو گیا تھا…
اسی نویان کو شکست ارتغل نے دی تھی…
اور پھر ارتغل غازی اپنے قبیلے کو لیکے سوغت Sogut آئے بلکل قسطنطنیہ Contantinople کے قریب, اور پہلے وہاں بازنطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہیں تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا اور سلطان علاو الدین کے بعد آپ کے بیٹے غیاث الدین سلطان بن گئے انکی بیٹی کے ساتھ ہی عثمان کی شادی ہوئی ایک جنگ میں سلطان غیاث الدین شہید ہو گئے تو عثمان غازی سلطان بن گئے اور انکی نسل سے جاکے *سلطان محمد فاتح رح* تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پے حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی غیبی خبر پوری ہوئی……
تاریخ میں ارتغل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن ہماری نسل انکو جانتی نہیں بہت بہادر جنگجو تھے آپ…
ہر واریئر جنگجو اسلام میں گذرا اس پہ جس نے کچھ نہ کچھہ اسلام کے لیئے کیا اس کا ایک روحانی پہلو ضرور ہے, اسکے پیچھے ایک روحانی شخصت ضرور ہوتی ہے جسکی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے تاریخ اٹھا لیں بھلے اسلام کے آغاز سے لیکے اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام کے لیئے امت مسلمان کے لیئے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو اسکا روحانی پہلو بھی ضرور ہوگا….
اس جنگجو ارتغل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے جسکی ڈیوٹی لگائی تھی وہ *شیخ محی الدین ابن العربی رح* تھے ( آپ درجنوں کتب کے مصنف ہیں اس کے ساتھ آپ نے قرآن پاک کی مایہ ناز تفسیر بھی لکھی علم کی دنیا کے بادشاہ جانے جاتے تھے اور تصوف میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے) جو اندلس سے ارتغل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے…
امام ابن العربی نے ارتغل غازی کو دو مرتبہ موت کے منہ سے نکالا اور ہروقت ارتغل کی روحانی مدد کرتے رہتے تھے
اللہ پاک ارتغل غازی Ertugrul Ghazi کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمتیں ہوں ان پے…
آمین
الله : ترجمہ مومن کی فراصت سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ” ..

یہ کوئی جذباتی یا مبالغہ آرائیاں نہیں ہیں یہ سب وہی سمجھ سکتا جو روحانیت پے یقین رکھتا ہو, جسکو یہ نور نہیں حاصل وہ اندھا ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آئے جیسے کہ لبرل سیکیولر برگیڈ…



اللہ پاک ارتغل غازی Ertugrul Ghazi کا رتبہ بلند فرمائے اور ہزاروں رحمتیں ہوں ان کی قبر پر
آمین
*غازی ارطغرل کون تھا*

یہ سب بھائی غور سے پڑھیں اور اپنی دوستوں کو شئیر کریں.

ارتغل غازی خلافت عثمانیہ کے بانی ہے , آپکی پیدائش 1191 عیسوی میں ہوئی اور وفات 1280 عیسوی میں کچھ کتابیں 1281 بتاتے ہیں, آپ ہی کے تین بیٹے تھے گندوز, ساؤچی اور عثمان اور آپکے تیسرے بیٹے عثمان نے 1291 یعنی اپنے والد ارتغل کی وفات کے 10 سال بعد خلافت بنائی اور ارتغل کے اسی بیٹے عثمان کے نام سے ہی خلافت کا نام خلافت عثمانیہ رکھا گیا لیکن خلافت کی بنیاد ارتغل غازی رح رکھ کر گئے تھے ….



اسکے بعد اسی خلافت نے 1291 عیسوی سے لیکے 1924 تک , 600 سال تک ان ترکوں کی تلواروں نے امت مسلمہ کا دفاع کیا...

اس کے ساتھ مسجد نبوی. گنبد خضریٰ اور مسجد حرام کی جدید تعمیر . سیدنا امیر حمزہ کا مزار . مکہ مکرمہ تک ایک عظیم الشان نہر . آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پرانوار کے گرد سیسہ پلائی دیوار . مکہ مکرمہ تک ٹرین منصوبہ جیسے عظیم کارنامے سرانجام دیے...



ارتغل غازی کا خاندان وسطہ ایشیا سے یہاں آیا تھا اور انکے جدِ امجد اوغوز خان Oghuz khan کے بارہ بیٹے تھے جن سے یہ بارہ قبیلے بنے جن میں سے ایک یہ قائی قبیلہ Kayi تھا جس سے ارتغل غازی تعلق رکھتا تھا آپکے والد کا نام سلیمان شاہ تھا, ارتغل غازی کے تین اور بھائی تھے, صارم, ذوالجان اور گلدارو ,آپکی والدہ کا نام حائمہ تھا…



آپکا قبیلہ سب س پہلے وسطہ ایشیا Central asia سے ایران پھر ایران سے اناطولیہ Anatolia آئے تھے منگولوں کی یلغار سے نمٹنے کےلئے..... جہاں سلطان علاو الدین جو سلجوک Seljuk سلطنت کے سلطان تھے اور یہ سلجوک ترک سلطنت سلطان الپ ارسلان Sultan Alap Arslan نے قائم کی تھی 1071 میں byzantine کو battle of Manzikert میں عبرت ناک شکست دے کے اور سلطان الپ ارسلان تاریخ کی بہت بڑی شخصیت تھی اور اسی سلطنت کا آگے جاکے سلطان علاؤ الدین بنے تھے…..



اسی سلطان علاوالدین کے سائے تلے یہ 12 قبیلے اوغوز خان Oghuz khan رہتے تھے, اور اس قائی قبیلے کے چیف ارتغل بنے اپنے والد سلیمان شاہ کی وفات کے بعد, سب سے پہلے اہلت Ahlat آئے تھے پھر اہلت سے حلب Aleppo گئے تھے 1232 جہاں *سلطان صلاح الدین ایوبی* کے پوتے الغزیز کی حکومت تھی, سب سے پہلے ارتغل نے العزیز کو اس کے محل میں موجود غداروں سے نجات دلائی پھر اس سے دوستی کی پھر سلطان علاو الدین کی بھتیجی حلیمہ سلطان سے شادی کی.... جس سے آپکو تین بیٹے ہوئے اوپر جو میں نے نام دیے ہیں, ایوبیوں اور سلجوقیوں کی دوستی کروائی, صلیبیوں کے ایک مضبوط قلعے کو فتح کیا جو حلب کے قریب تھا, اسکے بعد ارتغل سلطان علاو الدین کے بہت قریب ہوگیا….



اس کے بعد منگولوں کی یلغار قریب ہوئی تو ارتغل غازی نے منگول کے ایک ایم لیڈر نویان کو شکست دی ,نویان منگول بادشاہ اوکتائی خان کا Right hand تھا ,اوکتائی خان چنگیز خان کا بیٹا تھا اور اس اوکتائی کا بیٹا ہلاکو خان تھا جس نے بغداد کو اس قدر روندا تھا کہ بغداد کی گلیاں خون سے بھر گئی تھیں دریائے فرات سرخ ہو گیا تھا…

اسی نویان کو شکست ارتغل نے دی تھی…



اور پھر ارتغل غازی اپنے قبیلے کو لیکے سوغت Sogut آئے بلکل قسطنطنیہ Contantinople کے قریب, اور پہلے وہاں بازنطین Byazantine کے ایک اہم قلعے کو فتح کیا اور یہیں تمام ترک قبیلوں کو اکٹھا کیا اور سلطان علاو الدین کے بعد آپ کے بیٹے غیاث الدین سلطان بن گئے انکی بیٹی کے ساتھ ہی عثمان کی شادی ہوئی ایک جنگ میں سلطان غیاث الدین شہید ہو گئے تو عثمان غازی سلطان بن گئے اور انکی نسل سے جاکے *سلطان محمد فاتح رح* تھے جس نے 1453 میں جاکے قسطنطنیہ فتح کیا تھا اور اسی پے حضور صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی غیبی خبر پوری ہوئی……

تاریخ میں ارتغل غازی جیسے جنگجو بہت کم ملتے ہیں لیکن ہماری نسل انکو جانتی نہیں بہت بہادر جنگجو تھے آپ…

ہر واریئر جنگجو اسلام میں گذرا اس پہ جس نے کچھ نہ کچھہ اسلام کے لیئے کیا اس کا ایک روحانی پہلو ضرور ہے, اسکے پیچھے ایک روحانی شخصت ضرور ہوتی ہے جسکی ڈیوٹی اللہ پاک نے لگائی ہوتی ہے تاریخ اٹھا لیں بھلے اسلام کے آغاز سے لیکے اب تک آج بھی اگر کوئی اسلام کے لیئے امت مسلمان کے لیئے کوئی ڈیوٹی کر رہا ہے تو اسکا روحانی پہلو بھی ضرور ہوگا….

اس جنگجو ارطغرل غازی کے پیچھے اللہ پاک نے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے جسکی ڈیوٹی لگائی تھی وہ ”شیخ محی الدین ابن العربی رح“ تھے، ( آپ درجنوں کتب کے مصنف ہیں اس کے ساتھ آپ نے قرآن پاک کی مایہ ناز تفسیر بھی لکھی علم کی دنیا کے بادشاہ جانے جاتے تھے اور تصوف میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے) جو اندلس سے ارتغل غازی کی روحانی مدد کو پہنچے تھے…

امام ابن العربی نے ارتغل غازی کو دو مرتبہ موت کے منہ سے نکالا اور ہروقت ارتغل کی روحانی مدد کرتے رہتے تھے


حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت حدیث شریف ہے نہ کہ
” اتقوا فراسة المؤمن؛ فإنه ينظر بنور
*Aj kl k muashry m aik lrki ko kesy rehna chahiye....*
Kaha jata h Lrkiyan buhht nazuk hoti hain lekin lrkiyan buhhht mazboot b hoti hain
Or aik lrki utni e mazboot ho gi jitni us ki trbiyat or us ko milny wala mahol mazboot ho ga
Hm lrkiyon ko chahiye k hmesha prdy ka ehtemam kr k ghr sy bahir niklyn ku k beprdgi sab sy pehla qadam h hmyn kmzor krny ki traf....
Is ki aik example;;;;;;;;;
Ap sweets ki 2 plates Len un m sy aik ko cover kr k rkhyn or doosri ko Bina cover kiye rakh den.....
Ap dekhyn gi k Jo plate covered ni thi us pr makhiyan bythi gi or Jo covered thi wo mehfooz rhy gi.....
Aisa e aik lrki ka Hal h agr wo ghr sy beprda ho kr nikly gi to hr tarah k logon ki nzryn us pr pryn gi
Lekin.....
Agr baaprda ho kr nikly gi to mehfooz rhy gi...
Hm musalman hain hmyn chahiye k hm apna waqar apna mayar itna buland rkhyn k koi hmari traf nigah utha k dykh na sky....
Ek Muslim girl ko Chand ki tarah ni hona chahiye jis ko hr koi dykhta h
Bl'k,,,,,,,
Aik sooraj ki tarah hona chahiye k koi Nazar utha k na dykh sky......

....Allah hmyn kirdaar ki mazbooti or shariyat pr Amal ki tofeeq ataa frmaye aameen....
ر بالخصوص جب اہلبیت کے نام سے لکھا ہوا ہو تو اب ڈبل لازم ہے کہ اسکی تصدیق کرائیے پھر بےشک پھیلائیے
کیونکہ
امام جعفر صادق نے صدیوں پہلے متنبہ کر دیا تھا کہ نام نہاد جھوٹے محبانِ اہلبیت نے اہلبیت کی طرف ایسی باتیں منسوب کر رکھی ہیں جو اہلبیت نے ہرگز نہیں کہیں...
.
.
②وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سے سب سے زیادہ جھوٹے شیعہ ہیں......بالکل سچ کہتے ہیں، جس کی تائید امام جعفر صادق کے قول سے بھی ہوتی ہے
.
.
③امام جعفر صادق کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ شیعوں کی باتیں جو اہلبیت کی طرف ہوں بالخصوص حضرت علی، بی بی فاطمہ، امام جعفر صادق، حسن حسین وغیرہ کی طرف منسوب باتیں اگر قرآن و سنت کے متصادم ہوں تو سمجھ لو کہ یہ انکا قول ہی نہیں بلکہ شیعہ وغیرہ نے اپنی طرف سے جھوٹ بول کر انکی طرف منسوب کر دیا ہے
لیھذا
کسی بھی عالم مفتی صوفی پیر فقیر ذاکر ماکر کسی کی بھی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو ہرگز معتبر نہیں......!!
.
.
④فقہ اہلسنت ہی دراصل قران و سنت فقہ صحابہ فقہ اہلبیت کا نچوڑ ہے...فقہ اہلسنت ہی دراصل فقہ جعفریہ ہے.... باقی جو شیعہ والی فقہ جعفریہ ہے وہ شیعوں کا جھوٹ ہے جو امام جعفر صادق کی طرف منسوب کیا گیا ہے اوپر جو ہم نے امام جعفر صادق کا قول لکھا ہے، اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ نام نہاد محبان یعنی شیعہ کی فقہ جعفریہ جھوٹ ہے.....جسکا اعلان خود امام جعفر صادق کر رہے ہیں
.
⑤ہم نے شیعہ کے حوالہ جات دیے تو یہ چونکہ قرآن سنت کے موافق تھے اس لیے مقبول....باقی جو ماتم نوحے تعزیے قصدا غم سوگ وغیرہ کے متعلق شیعوں کے ٹوٹے پھوٹے جھوٹے دلائل و قصے ہیں تو وہ جھوٹ یا مردود ناقابل حجت ہیں...کئ جھوٹے ٹوٹے پھوٹےدلائل و قصے شیعوں نے خود سے گھڑ لیے اور اہلبیت کا نام ڈال دیا....فلعنة اللہ علی الکاذبین الماکرین
۔
تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
چائے
لمس کی آنچ پہ جذبوں نے اُبالی چائے
عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے
کیتلی ہجر کی تھی، غم کی بنالی چائے
وصل کی پی نہ سکے ایک پیالی چائے
میرے دالان کا منظر کبھی دیکھو آکر
درد میں ڈوبی ہوئی شام، سوالی چائے
ہم نے مشروب سبھی مضر صحت ترک کیے
ایک چھوڑی نہ گئی ہم سے یہ سالی، چائے
یہ پہیلی کوئی بوجھے تو کہ اس نے کیونکر
اپنے کپ سے مرے کپ میں بھلا ڈالی چائے
میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں
اس نے پھر اپنے ملازم سے منگالی چائے
اس سے ملتا ہے محبت کے ملنگوں کو سکوں
دل کے دربار پہ چلتی ہے دھمالی چائے
رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں
اپنے ہاتھوں سے پلا خیر سگالی چائے
عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جان جاناں
ٹھنڈی ہو جائے تو پڑ جاتی ہے کالی چائے
اکیلا ذاکر ہی گستاخِ صدیق نہیں ۔
وہ مجمع ......... جس نے گستاخی پر داد دی ، اور وہ مذہب ....... جس نے ایسا مجمع پروان چڑھایا ، سب گستاخی میں برابر ہیں ۔

رب تعالی‌اِس مغضوب قوم کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے ۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ایک قریب المرگ شخص سے جب کہا گیا کلمہ شریف پڑھو ، تو وہ کہنے لگا:

مجھ سے نہیں پڑھا جاتا ، کیوں کہ میرا ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا جو مجھے سیدینا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما کوبرا کہنے کی تلقین کرتے تھے ۔

( شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور للسیوطی ، باب مایقول الانسان فی مرض الموت……………… ر 222 ، ص 48 ، ط مؤسسة الکتب الثقافیة بیروت )

یااللہ ! ہمارے ایمان کی حفاظت فرمانا ، ہمیں ایسےلوگوں کے سائے سے بھی دور رکھنا جو پیارے حبیب ﷺ کے آل و اصحاب کے گستاخ ہیں ؎

ایمان پہ دے موت مدینے کی گلی میں
مدفن مِرا محبوب کے قدموں میں بنادے

✍️لقمان شاہد
27-8-2020 ء
اظہار عقیدت
==================
وہ ہے آداب ِ محبت کا سکھانے والا
وہ ابو بکر، وہ گھر بار لٹانے والا
۔
بات تو بات ہے خاموشی سمجھ لیتا ہے
طبع ِ سرکار کا ہر ناز اٹھانے والا
۔
اسم ِ سرکار کو سن کر وہ انگوٹھے اپنے
کبھی ہونٹوں، کبھی آنکھوں سے لگانے والا
۔
صبح ہوتے ہی وہ دیدار کو دوڑا آئے
رات کو ہجر کی آہوں سے جلانے والا
۔
رہ ِ ہجرت میں ہے سرکار کے آگے پیچھے
راہ کے خار بھی پلکوں سے اٹھانے والا
۔
وہ سمجھ سکتا ہے سرکار سے قربت اس کی
یعنی انگشت سے انگشت ملانے والا
۔
ہر زمانے میں وہ صدیق ہی ٹھہرے گا میاں
ڈٹ کے سرکار کی تصدیق میں آنے والا
۔
چشم ِ حیدر میں تھا چھتنار شجر کی صورت
آل ِ سرکار کو مژگاں پہ بٹھانے والا
۔
کاش محشر میں ابو بکر مجھے پیش کریں
میرے سرکار ، یہ نعتوں کا سنانے والا
کچھ کرنا ہوگا

بیٹھنے سے کام نہیں چلے گا کچھ تو کرنا ہوگا۔
سوچنا اچھا ہے پر صرف سوچنا اچھا نہیں۔
کم سے کم اپنی سوچ، اپنی فکر، اپنے خیال کا اظہار کیجیے تاکہ دوسروں کے لیے وہ ایک مقصد بن جائے۔

آپ قادر ہیں جس پر وہ تو کریں،
ہر شخص اپنا بہتر دکھانے کی کوشش کرے۔
سکوت موت ہے۔
کوہرام مچانا ہوگا۔
جس شعبے میں جائیں تو اپنی پوری طاقت لگا دیں۔
ہار اسی وقت مانیں جب آخری سانس آجائے۔

تسلسل کے ساتھ تھوڑا عمل بھی خوب فائدہ دیتا ہے۔
آج سے شروع کریں جو آپ کر سکتے ہیں۔
نہ سوچیں کہ آپ کے بس کا نہیں بلکہ اتر جائیں میدان میں

کرنا ہی ہوگا ورنہ کون آئے گا؟
کیا ہم سب ایک دوسرے پر الزام دیتے رہیں گے یا خود اپنی طاقت کے مطابق اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق میدانِ عمل میں آئیں گے؟

فیصلہ آپ کا ہے کہ یا تو موقعوں کے انتظار میں انتظار بن جائیں یا خود موقع بن کر آگے بڑھیں۔

عبد مصطفی
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

ندا فاضلی کے اس شعر کو انسان دوستی کا مظہر کہا جاتا ہے اور اس شعر پر وہ بیشتر مشاعروں میں کافی داد بھی پا چکے ہیں۔

لیکن ۔۔۔۔
ندا فاضلی ہی کے ہم عصر شاعر شکیل اعظمی نے اس شعر پر نقد کرتے ہوئے کہا ہے کہ :
یہ شعر انسان دوستی کا استعارہ نہیں بلکہ محض ایک اہم اور بنیادی مذہبی فریضے سے انکار کی حیلہ تراشی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ دوسرے مصرعہ کا پہلا لفظ "کسی" غور طلب ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ متکلم مسجد کیلئے نکلا ہو اور راستے میں اسے ایک روتا ہوا بچہ مل گیا ہو جسے ہنسانے کو وہ نماز پر ترجیح دے رہا ہو ، بلکہ یہاں یہ معمولی سا لفظ ("کسی") بتا رہا ہے کہ فی الحال کوئی روتا ہوا بچہ وہاں موجود ہی نہیں ہے لہذا وہ کسی روتے ہوئے بچے کی تلاش میں ہے۔

معروف ادیب اور مدیر سہ ماہی "اثبات" اشعر نجمی ، ندا فاضلی کے اس شعر پر نقد کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں :
اب اگر کوئی یہ کہے کہ کسی شعر کو پرکھنے کے لئے مذہبی معیار نہیں بلکہ ادبی معیار کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ : اگر شاعر نے اپنا شعر مذہبی بنیادوں پر ایستادہ کیا ہے تو پھر اس کے استعاراتی یا فنی نظام سے پہلے اس کا محاکمہ بھی انہی مذہبی نظام کی بنیادوں پر کیا جائے گا۔
چونکہ شعر مذکور کا متکلم بچے کے ہنسانے کو مسجد جانے پر ترجیح دے رہا ہے تو پھر اس کی نیت کا محاسبہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ واقعی مسجد جانا چاہتا ہے یا اس کی دوری کے بہانے اس کا نعم البدل پیش کر کے محض اپنی انسان دوستی کا ڈھنڈورا پیٹنا چاہتا ہے؟؟

ندا فاضلی کا ایک اور شعر دیکھیں :
بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالی شان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان

یہ کیسے مان لیا جائے کہ ندا فاضلی کو مسجد کے متعلق یہ علم نہیں کہ لغوی معنی میں یہ اللہ کا مکان نہیں بلکہ عبادت گاہ ہے اور مسجد کو اللہ کا گھر کنایتاً بولا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر ندا فاضلی اللہ میاں کو one room kitchen میں ہی محصور کرنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں اس کا جواز بھی پیش کرنا چاہئے تھا۔ انہیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ آخر وہ مسجد پر مفلوک الحالی برستا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟
اقبال نے اسی موضوع کو جب چھوا تو وہاں تشکیک کا پہلو بالکل نہیں تھا بلکہ انہوں نے " منافقت" پر کاری ضرب لگائی ۔۔۔
مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانی پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اقبال کے اس شعر میں تضحیک نہیں طنز ہے جس میں اصلاح معاشرہ کی واضح جھلک موجود ہے۔ انہوں نے مسجد کے وجود پر سوالیہ نشان لگانے کے بجائے "ضعف ایمان" کو نشان زد کیا۔
اس کے برخلاف ندا فاضلی مسجد کو ہی شک بھری نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور بچے کی زبان سے اپنے من کی بات کہہ جاتے ہیں۔

ان مثالوں سے واضح ہے کہ "انسان دوستی" جیسی اصطلاحیں ، درحقیقت اپنے مخصوص افکار کی تشہیر کے لئے اور اپنے مقابل افکار کو زیر کرنے کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔

اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے
دہشت گردوں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا

میں اس شعر پر ندا فاضلی کو مبارکباد دینا چاہوں گا کہ آج تک جو بات اتنا کھل کر بالا صاحب ٹھاکرے ، پروین توگڑیا ، نریندر مودی اور جارج بش بھی نہ کہہ پائے ، انہوں نے کہہ کر اس میں اولیت حاصل کر لی ہے۔
لیکن یہاں میں ان سے صرف اتنا دریافت کرنا چاہوں گا کہ حیدرآباد ، مالیگاؤں ، عراق ، افغانستان ، فلسطین وغیرہ کے متعلق ان کا کیا موقف ہے؟
یہ جو ہر روز نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں کہ فلاں دہشت گردی کے معاملے میں مسلمانوں کے بجائے کسی اور قوم کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ تھے ، یا پھر وہ معصوم مسلم نوجوان جنہیں دہشت گر بنا کر جیلوں میں سڑایا جا رہا ہے ، یا پھر وہ بابو بجرنگی جو عدالت سے ضمانت پا کر کھلے عام گجرات کی نسل کشی پر فخریہ بیان دے رہا ہے ، یا وہ شری کرشنا کمیشن جس کی رپورٹ پر دھول کی ایک موٹی تہہ جم چکی ہے ۔۔۔۔ لیکن اب تک نہ تو اس پر کوئی کاروائی ہوئی اور نہ اس کی کوئی امید ہے۔ یا پھر توہین رسالت کی گلوبلائیزیشن ، عراق میں 17 لاکھ عام شہریوں کا قتل عام ، فلسطین میں اسرائیلی فوجوں کا قہر ، افغانستان میں امن اور انسان دوستی کے نام پر عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کا قتل عام وغیرہ وغیرہ سے کیا ندا فاضلی واقعی بےخبر ہیں؟
مجھے نہیں پتا کہ وہ روزانہ کون سا اخبار پڑھتے ہیں یا کون سا نیوز چینل دیکھتے ہیں ، اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کیونکہ ایک عام شخص بھی ان حقائق سے واقف ہے۔
میرے خیال میں ندا فاضلی ہی بتا سکتے ہیں کہ ان دہشت گروں میں کتنوں کا تعلق اسلام سے ہے اور کتنوں کی ڈاڑھیاں ہیں؟ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ندا فاضلی کے محولہ بالا افکار نہ صرف حقائق سے مکمل بےخبری کا ثبوت ہیں بلکہ دانشورانہ بددیانتی سے بھی عبارت ہیں جنہیں وہ محض زور بیاں کے بل پر اپنے قارئین و سامعین سے داد وصو
ل کرنے کے لئے پیش کرتے رہے ہیں۔

اس مقام پر اگر کوئی شخص یہ نتیجہ نکالتا ہے تو شائد غلط نہ ہوگا کہ "انسان دوستی" اور "انسانی دردمندی" ندا فاضلی اور ان کے ہم خیالوں کا ایمان نہیں بلکہ ان کے لئے یہ صرف ایسے ادبی تقاضے ہیں جن کی بنیاد پر وہ محض ان کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جبکہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر لوگوں کی مقدس وابستگیوں ، ان کے عقائد اور ان کے مذہبی جذبات وغیرہ جیسی چیزوں کا مذاق اڑاتے رہے ہیں جو بقول وارث علوی ، یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ :
انسانی دردمندی کا چشمہ اگر سوکھ جائے تو آدرش اور اخلاق سفاکیوں کی نقاب بن جاتے ہیں۔

کلچر ، جس میں مذہب کا کردار خواہ کتنا ہی چھوٹا اور معمولی کیوں نہ ہو ، قابل احترام ہے کہ وہ لوگوں کو حیات کا قرینہ بخشتا ہے۔ اور اتنا تو خیر ندا فاضلی تسلیم کرتے ہی ہوں گے کہ کسی بھی کلچر کو گزند پہنچانے اور تباہ کرنے کی کوشش انسانیت کے خلاف ہولناک جرم ہے۔
*خلوت کے گناہ (تنہائی کے گناہ)*

آج ہمارا ایمان بالغیب انٹرنیٹ اور موبائیل کے ذریعے آزمایا گیا ہے، جہاں ایک کلک آپ کو وہ کچھ دکھا سکتی ھے جو ہمارے باپ دادا دیکھے بغیر اللہ کو پیارے ہو گئے ،،
ہم نے خفیہ گروپ بنا کر اپنے اپنے گٹر کھول رکھے ھیں ،
(یستخفون من الناس) لوگوں سے تو چھپا لیتے ھیں (ولا یستخفون من اللہ و ھو معھم) مگر اللہ سے نہیں چھپا سکتے کیونکہ وہ ان کے ساتھ ھے ،
👈 ہمارا لکھا اور دیکھا ہوا سب ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہو رہا ھے جہاں سے صرف اسے سچی توبہ ہی مٹا سکتی ہے

یہ سب امتحان اس لئے ہیں تاکہ (لیعلم اللہ من یخافه بالغیب) اللہ تعالی جاننا چاہتا ہے کہ کون کون اللہ تعالی سے غائبانہ ڈرتا ہے۔

🔹یہ لکھنے والے ہاتھ اور پڑھنے والی آنکھیں ، سب ایک دن بول بول کر گواہی دیں گے ،،
: { الْيَوْم نَخْتِم عَلَى أَفْوَاههمْ وَتُكَلِّمنَا أَيْدِيهمْ وَتَشْهَد أَرْجُلهمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ) (یسن – 65)
” آج ہم انکے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ھم سے بات کریں گے اور ان کے پیر ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔‘

’’ گناہ کے دوران ہمارا کوئی بیوی بچہ یہانتک کہ بلی یا ہوا کا جھونکا بھی دروازہ ہلا دے تو ہماری پوری ہستی ہل کر رہ جاتی ھے ،، کیوں ؟ رسوائی کا ڈر ،، امیج خراب ہونے کا ڈر ،،

🔴 اس دن کیا ہو گا جب ہماری بیوی بچے اور والدین بھی سامنے دیکھ رہے ہونگے اور دوست واحباب بھی موجود ہونگے ،، زمانہ دیکھ رہا ہو گا اور تھرڈ ایمپائر کی طرح کلپ روک روک کر اور ریورس کر کے دکھایا جا رہا ہو گا ،، ہائے رسوائی ،،،،،،،،،،،،،،،،

👈 آج بھی صرف توبہ کے چند لفظ اور آئندہ سے پرہیز کا عزم ہمارے پچھلے کیئے ہوئے کو صاف کر سکتا ہے. اور ہمیں اس رسوائی سے بچا سکتا ھے ،،

🔹 اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاھر سے اچھا کر دے ،،

خلوت کے گناہ انسان کے عزم وارادے کو متزلزل کر کے رکھ دیتے ہیں. یوں ان میں خود اعتمادی اور معاملات میں شفافیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ھے.
(اِتَّقِ الله حيث ما كنت) جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرو.
اللّہ تعالٰی ہم سب کی حفاظت فرمائے.
آمِین...".

ايک دن آپ تمام دوست مجھے Off line پائيں گے۔۔!
فرينڈ ريكوسٹ بھيجيں گے ليكن ايكسیپٹ نہيں ہوگى، ميسنجر پہ پيغام بھيجيں گے اور رپلائى كا گھنٹوں انتظار كرتے رہيں گے،
ليكن جواب نہيں ملے گا۔ ۔۔!

میں آپ كو سٹِل Off line نظر آؤں گا۔۔۔
ميرى پوسٹيں بھى آنا بند ہوجائيں گى،
كيونكہ ميں اس دنيا سے رخصت ہوچكا ہوں گا،
پھر آپ ميرے ساتھ كسى قسم كا كوئى رابطہ نہيں كر سكيں گے، ميرے كمنٹس كا رپلائى نہيں دے سكيں گے، ايكسكيوز نہيں كر سكيں گے، معذرت نہيں كر سكيں گے ۔۔!

كيونكہ ميں اس وقت آپ كے ساتھ نہيں ہوں گا۔۔
قبر كے تنگ و تاريك گڑھے ميں ابدى نيند سويا ہوں گا۔۔۔

وہاں ميں ٹائم پاس اور تنہائى كو دور كرنے كے ليے كسى سے چيٹ نہيں كر سكوں گا۔۔
وہاں ميرے اعمال ہى ميرے ليے حسرت اور خوشى كا ساماں ہوں گے۔۔۔

🤚ٹھہريے!
اہم اور ضرورى بات ابھى باقى ہے:

ميں اور آپ جب اس دنيا سے رحلت كر جائيں گے تو ہم اپنے ہاتھ سے لكھى گئى اچھى يا بُرى پوسٹيں چھوڑ جائیں گے۔۔۔!

لہذا میرے دوستو۔۔۔!

آپ بھى اس بات كى حرص كيجيے اور ميں بھى حرص كرتا ہوں، كہ ہمارى لكھى گئى پوسٹيں قبر ميں ہمارے ليے صدقہ جاريہ بن جائيں۔۔۔

تو جلدى كيجيے !

اپنى ٹائم لائن كا جائزہ ليں غير ضرورى پوسٹوں كو ڈيليٹ كريں، اور آئندہ ايسى پوسٹيں كرنے سے گريز كريں۔

ابھى آپ كے پاس فرصت اور وقت ہے۔۔!

*كيونكہ ابھى تو آپ دنيا ميں اور فيس بك پر On line ہيں۔۔* ۔!

ميں اپنے نفس كو اور آپ كو عربى كے اس شعر كى ياددہانى كروانا چاہتا ہوں:

*يلوح الخط في القرطاس*
*دهرا وكاتبه رميم في التراب*

"ہمارا لكھا ہوا زمانہ بھر باقى رہے گا، جبكہ ہم مٹى ميں دھول بن جائيں گے۔"

*خرجت من التراب بغير ذنب*
**وعدت مع الذنوب إلى التراب*
*
" *ہم مٹى سے تو بغير گناہ كے نكلے تھے، ليكن مٹى ميں گناہ لے كر جارہے ہيں۔"*


*جزاکم اللہ خیر*
اگر آپ اچھا رزق کما رہے ہیں تو یقین جانیں اس میں آپ کی ذہانت یا صلاحیتوں کا کوئی کمال نہیں، بڑے بڑے عقل کے پہاڑ خاک چھان رہے ہیں۔

اگر آپ کسی بڑی بیماری سے بچے ہوئے ہیں تو اس میں آپ کی خوراک یا حفظانِ صحت کی اختیار کردہ احتیاطی تدابیر کا کوئی دخل نہیں۔ ایسے بہت سے انسانوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں جو سوائے منرل واٹر کے کوئی پانی نہیں پیتے تھے مگر پھر اچانک انہیں برین ٹیومر، بلڈ کینسر یا ہیپاٹائٹس سی تشخیص ہوئی اور وہ چند دنوں یا لمحوں میں دنیا سے کوچ کر گئے۔

اگر آپ کے بیوی بچے سرکش نہیں بلکہ آپ کے تابع دار و فرمانبردار ہیں، خاندان میں بیٹے بیٹیاں مہذب، باحیا و با کردار سمجھے جاتے ہیں، تو اس کا سب کریڈٹ بھی آپ کی تربیت کو نہیں جاتا کیوں کہ بیٹا تو نبی کا بھی بگڑ سکتا ہے اور بیوی تو پیغمبر کی بھی نافرمان ہو سکتی ہے۔

اگر آپ کی کبھی جیب نہیں کٹی، کبھی موبائل نہیں چھنا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت چوکنّے اور ہوشیار ہیں، بلکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ آپ غلط وقت پر غلط جگہ پاۓ نہیں گۓ۔
:

یہ غالباً ہر انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ خود دوسروں سے اچھا کما رہا ہو تو یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ ضرور دوسروں سے زیادہ محنتی، چالاک اور منضبط (organised) ہے اور اپنے کام میں زیادہ ماہر ہے۔ پھر وہ ان لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے جن کو نپا تلا رزق مل رہا ہے، ان پر تنقید کرتا ہے، ان کا مذاق اڑاتا ہے۔ مگر جب یکلخت وقت کا پہیہ الٹا گھومتا ہے تو اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس تھی جو وہ سمجھ بیٹھا تھا۔

اگر کوئی چاہتا ہے کہ اسے رزق کے معاملہ میں آزمایا نہ جائے تو تین کام کرے:

اوّل: جو کچھ مل رہا ہے اسے محض مالک کی عطا سمجھے نہ کہ اپنی قابلیت کا نتیجہ اور ساتھ ہی مالک کا شکر بھی بجا لاتا رہے۔

دوئم: جن کو کم یا نپاتلا رزق مل رہا ہے انہیں حقیر نہ جانے نہ ان لوگوں سے حسدکرے جن کو "چھپر پھاڑ" رزق میسر ہے۔ یہ سب رزّاق کی اپنی تقسیم ہے۔ اس کے بھید وہی جانے۔

سوئم: جتنا ہو سکے اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرے۔ زیادہ ہے تو زیادہ، کم ہے تو کم شامل کرے۔ سب سے زیادہ حق، والدین اور رحم کے رشتوں کا ہے۔ نانا نانی، دادا دادی، بہنیں اور بھائی ہیں۔ اس کے بعد خون کے دوسرے رشتے ہیں جیسے خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں، چچی وغیرہ۔ پھر دوسرے قریبی رشتہ دار یا مسکین و لاچار لوگ۔
@HamariUrduPiyariUrdu
#آفیشل_طرزپرکام_کرنےوالا_مفید_چینل
عالمی مبلغ اسلام ترجمان حقیقت پیرذادہ علامہ محمد رضا ثاقب مصطفائی صاحب
کے روزانہ خوبصورت و اصلاحی آڈیو ویڈیو بیانات حاصل کرنے کیلئے چینل جوائن کیجئے۔
Get Free & Daily Speeches of Scholar Muhammad Raza Saqib Mustafai,
Please Join us onTelegram👇
https://tttttt.me/SiraateMustaqeem
بزرگ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص سے بہت سارے لوگ دوستی کا دم بھرنے لگے تو اس کے والد نے کہا:

بیٹا ! ہر دوست کہلانے والا شخص ، دوست نہیں ہوا کر تا ؛ بڑی جانچ پڑتال کے بعد کسی کو دوست سمجھنا چاہیے ۔

پھر باپ نے ایک دُنبہ ذبح کرکے بوری میں بند کیا جس سے خون ٹپک رہا تھا ، اور بیٹے سے کہا:

یہ اپنے دوستوں کے پاس لے جاؤ ، اور اُنھیں کہو:
مجھ سے قتل ہوگیا ہے ، میری مدد کرو ۔
پھر دیکھو وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔

بیٹے نے بوری اٹھائی اور رات کو ایک دوست کا دروازہ جا کھٹکھٹایا ۔

دوست نے پوچھا خیریت ہے ؟

کہنےلگا: یار مجھ سے قتل ہوگیا ہے ، نہ لاش ٹھکانے لگانے کی جگہ مل رہی ہے ، نہ سر چھپانے کی ؛ میری کچھ مدد کرو !

دوست نے مدد کے بجائے ٹال دیا ، کہ تُو جانے اور تیرا کام جانے ، میں تیرے ساتھ کیوں پھنسوں ۔
وہ دوسرے ، تیسرے ، چوتھے ، الغرض سب دوستوں کے پاس گیا لیکن کسی نے بھی اُسے اپنے گھر میں پناہ نہ دی ۔
وہ مایوس ہوکر والد کے پاس آیا اور کہا:

اباحضور ! آپ درست فرماتے تھے ، واقعی وہ میرے دوست نہیں تھے ، جو مصیبت کا سن کر ہی بھاگ گئے ۔

والد نے کہا: بیٹے میرا ایک دوست ہے ، اور زندگی میں مَیں نے اس ایک کو ہی دوست بنایا ہے ؛ اب تُو یہ بوری لے کر اس کے گھر جا اور دیکھ وہ کیا کہتا ہے ۔

بیٹا اس کے گھر پہنچا اور اسے وہی کہانی سنائی ، جو اپنے دوستوں کو سنائی تھی ۔

اس نے بوری لے کر مکان کے پچھواڑے میں گڑھا کھود کر دبا دی ، اور اوپر پھول لگادیے تاکہ کسی کو شک نہ ہو ۔

بیٹے نے باپ سے آکر سب کچھ بیان کیا اور کہا:
اباجی آپ کا دوست تو واقعی سچا دوست ہے ۔
باپ نے کہا:بیٹا ! ابھی ٹھہرجاؤ ، اتنی جلدی فیصلہ نہ کرو ۔
کل اُس کے پاس دوبارہ جانا اور اس سے بدتمیزی کرنا ، پھر جو ردِ عمل ہوا وہ آکر مجھے بتانا ۔

بیٹے نے ایسے ہی کیا ........... گیا ، اور اس سے بد تمیزی اور لڑائی کی ۔

اس نے جواب میں کہا:

اپنے والد سے کہنا فکر نہ کرے ، تمھارا دوست " چمن " کبھی نہیں اُجاڑے گا ۔

( مطلب جو پودے لاش کے اوپر لگائے ہیں وہ سدا لگے رہیں گے ، انھیں کبھی نہیں اکھاڑوں گا ۔
یعنی تیرے بیٹے کی بدتمیزی کو دیکھ کر اس کا راز کبھی فاش نہیں کروں گا ، کیوں کہ میں تیرا دوست ہوں )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رب تعالیٰ ہمیں بھی مخلص دوست نصیب کرے !
دوست مشکل‌ وقت میں کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا ، دوست ، دوست کے دنیا و آخرت میں کام آتا ہے ۔
وہ اس کے عیبوں کو دل ، دماغ ، اور آنکھوں کے سامنے نہیں رکھتا ، بلکہ پشت کے پیچھے گہرا گڑھا کھود کر ، اس میں ہمیشہ کے لیے دبا دیتا ہے ؛ اور اس کے اوپر محبت بھری نصیحت کے پھول لگادیتا ہے ، جن کی خوشبو دوست کو آئندہ کے لیے عیبوں کی بدبو سے بچائے رکھتی ہے ۔

✍️لقمان شاہد
7-9-2020 ء